Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

رسولِ مکرمﷺکی مختونیت

رسول اکرم اخلاق کے اعلیٰ ترین درجہ پر فائز تھے 1 ساتھ ہی ساتھ نبیِ کریم حیاء جیسی صفت کے امتیازی طور پر حامل بھی تھے۔آپ کی حیاء کا اندازہ اس بات سے بدرجہ اتم ہوتا ہے کہ آپ کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری،2حضرت انس 3 اور حضرت عمران بن حصین سے مروی ہےآپ کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ باحیاء تھے۔4 اسی وجہ سے آپ کی ولادت کے دوران بھی قدرت خداوندی نے خود اس چیز کا خیال رکھا کہ آپ بوقت پیدائش ناف بریدہ اور مختون پیدا ہوئے ۔ 5نبی کریم نے خود اس چیز کو بیان کیا اور اس کو نعمتِ ایزدی شمار فرمایا۔ 6 نہ صرف اتنا بلکہ آپ جسمانی طور پر بھی صاف و شفاف ا س دنیا میں تشریف لائے۔7

رسول اکرم مختون اور مسرور(ناف بریدہ) اس جہان فانی میں تشریف لائے۔ اگرچہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ آپ کے دادا محترم حضرت عبد المطلب نے ساتویں روز بوقت عقیقہ 8يا حضرت جبرائيل نے بوقت شق الصدر ختنہ فرمایا تھا9لیکن اس کے بر عکس ارباب سیر نےخود اس قول کو یا اس جیسے کسی بھی قول کو لائقِ اعتناءنہ سمجھاجیسا کہ دیگر کتب سمیت شرح المواہب میں مذکور ہے:

  قال ابن الجوزى: لا شك أنه ولد مختونًا قال القطب الخيضرى: وھو الأرجح عندى، أن طريقًا جيدا صححه الضياء وحسنه مغلطاى، مع أنه أوضح من جهة النظرلأنه فى حقه صلى اللّٰه عليه وسلم غاية الكمال.10
  ابن ِجوزی کہتے ہیں کہ بلا شبہ نبی کریم مختون ہی پیدا ہوئے ۔قطب خیضری نے کہا کہ یہی میرے نزدیک راجح قول ہے(یعنی دوسرےاقوال کے مقابلہ میں)۔ان روایات کے طرق زبردست ہیں،جن کو ضیاء نے صحیح قرار دیا ہے اور مغلطائی نے حسن قرار دیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ غور وفکر کی نظر سے دیکھا جائے تویہی بات مناسب ہےاورواضح بھی کیونکہ نبی کریم کے حق میں یہی کمال کے لائق و منا سب ہے۔

اس عبارت سے ابن جوزی نے نبی مکرم کے مختون و مسرور (یعنی ختنہ شدہ اورناف بریدہ)پیدا ہونے والے قول کو دیگر اقوال کے مقابلہ میں قابل قبول جانا ہے اور اس کی وجہ بھی بیان کی ہے کہ رسول مکرم کے حد درجہ کمال میں اسی قول کو قابل قبول گرداننا ہی اصحّ ہے۔

رسولِ اکرم کا فرمانِ مبارک

علمائے سیر کی اکثریت نے رسول مکرم کی ولادت بحالت ِ مختون ومسرور ہی بیان کی ہے اور ایک روایت میں خود نبی مکرم نے اس بات کو بطورِ نعمت و احسان کے بیان بھی کیا ہے۔چنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے ابو نعیم تحریر فرماتے ہیں:

  عن أنس بن مالك عن النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال: من كرامتى على ربى أنى ولدت مختونا ولم ير أحد سوأتى.11
  حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا:اللہ رب العزت کے ہاں میری تعظیم وتکریم میں سے یہ بات بھی ہے کہ میں ختنہ شدہ پیدا ہوا اور کسی نے میری جائے ستر نہ دیکھی۔12

اس روایت کو عبد الرحمن ابن جوزی نے وفاء13 اور صفۃ الصفوۃ میں ، 14 طبرانی نے معجم میں 15 اور ابو حفص انصاری نے غایۃ السول میں نقل فرمایاہے۔ 16 اس کی سندی حیثیت کو بیان کرتے ہوئے امام زہری نےاس کی سند کو جیدقراردیا ہے 17 اور ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ابن عمر ،سے نقل کیا ہے 18 جس کو حجۃ اللہ میں شیخ نبہانی نے ذکر بھی کیا ہے۔19

حضور اکرم کے چچا کا ارشاد

رسول مکرم کی ولادت بحالت مختون ومسرور ہونے کوحضرت ابن عباس نے اپنے والدِ محترم اور رسول مکرم کے محترم چچاحضرت عباس، سے بھی روایت کیا ہے۔چنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے امام بیہقی تحریر فرماتے ہیں:

  ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم،مختونا مسرورا قال: فأعجب به جده عبد المطلب وحظى عنده وقال: ليكونن لابنى ھذا شأن فکان له شأن .20
  رسول اللہ ختنہ شدہ اور ناف بريده پیدا ہوئے تھے۔کہتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت عبد المطلب کو آپ بہت اچھے لگتے تھےاور ان کے نزدیک آپ کاایک مقام و مرتبہ قائم ہوگیا تھااور انہوں نے کہا تھا:البتہ میرے اس بیٹے کی ایک شان اور خاص مرتبہ ومقام قائم ہوگاچنانچہ حضور اکرم کا واقعتا ایک خاص مقام قائم ہوا۔ 21

شیخ حلبی نے بھی اس روایت کو نقل کیا ہے اور روایت میں موجو دلفظِ مسرور کا معنی بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

  عن ابن عباس رضی اللّٰه عنھما: ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مسرورا أى مقطوع السرة.22
  حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت پیدا ہوئے تو آپ کی آنول نال23 کٹی ہوئی تھی۔ 24

ان روایات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ رسول مکرم کی ولادت اس حالت میں ہوئی کہ آپ ختنہ شدہ اور ناف بریدہ تھے اور کسی انسان کو ختنہ کرنے اور آنول نال کاٹنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی کیونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی مکرم کی صفت حیاء کی امتیازیت و انفرادیت کو نومولودگی کی حالت میں بھی برقرا رکھا۔

مختونیّت پر تواتر کا حکم

رسول مکرم کی ولادت بحالت مختون ہونے پر بعض آئمہ نے تواتر کا حکم بھی لگایا ہے جو کہ اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہے کہ علماء سیر کی اکثریت کی رائے یہی ہے۔چنانچہ امام حاکم رسول اکرم کی ولادت بحالت مختون ومسرور ہونے پر تواترِ اخبار کاحکم بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وقد تواترت الأخبار أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد مختونا مسرورا.25
  تحقیق احادیث متواتر ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ ختنہ شدہ اور ناف بریدہ پیدا ہوئے ہیں۔

اس تواتر کے حکم پر امام ذہبی نے تعاقب کیا ہےچنانچہ اس تعاقب پرروشنی ڈالتے ہوئے اور اس تعاقب کا جواب دیتے ہوئے صاحب سبل الہٰدی تحریر فرماتے ہیں:

  وتعقبه الذھبى فقال: ما أعلم صحة ذلك فكيف يكون متواتراًوأجيب باحتمال أن يكون أراد بتواتر الأخبار اشتھارھا وكثرھا فى السّيرة.26
  امام ذہبی نے امام حاکم کی گرفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں تو اس(ولادت بحالت مختون و مسرور) کی صحت کے بارے میں بھی نہیں جانتا تو یہ متواتر کیسےہوسکتی ہے؟انہیں یہ جواب دیا گیا ہے کہ ممکن ہے کہ تواتر سے مراد یہ ہو کہ یہ روایت (عند العلماء)مشہور ہے اور کتب سیر میں کثرت سے پائی جاتی ہے(بغیر جرح کے)۔

یعنی حافظ ذہبی کا تعاقب بے معنی ہے اس حیثیت میں کہ اکثر کتب سیر میں رسول اکرم کی ولادت بحالت مختون ومسرور ہونے کو بیان کیا گیا ہے اور اس کو آپ کی کمال عظمت و عصمت شمار کیا گیا ہے جس کو دیکھتے ہوئے اس پر تواتر کا حکم لگایا گیا ہے۔پھر ایک اور بات بھی ذہن نشین رہے کہ آپ مختون ومسرور متولد ہوئےاس کو روایت کرنے والوں میں حضرت عباس وابن عباس، حضرت انس،حضرت ابن عمر بھی شامل ہیں ۔اسی طرح ابن عساکر نے ایک اور سند سے اسی روایت کو حضرت ابو ہریرۃ سے بھی نقل فرمایا ہے27 تو اس کثرتِ روایت کی بنا پر بھی تواتر کا حکم لگایا جا سکتا ہے جو کہ فی نفسہ اس کا متقاضی بھی ہے۔

مؤقّفِ جماعتِ علماء

رسول اللہ کے مختون ومسرور ہونے کے بارے میں جس طرح تواتر کا حکم بیان کردیا گیا ہے اسی طرح کئی ایک متبحر علماء اس کے قائل ہیں۔ اسی حوالہ سے اما م یوسف شامی نے علماء کی ایک جماعت کا آپ کے مختون ومسرور متولد ہونے کے بارے میں مؤقف بمع ان کی کتابوں کے تذکرہ کے ساتھ تحریر فرمایا ہےچنانچہ آپ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  وقد جزم بأنه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد مختوناً جماعة من العلماء منھم ھشام بن محمد بن السائب فى كتاب الجامع وابن حبيب فى المحبّر وابن دريد فى الوشاح وابن الجوزى فى العلل والتلقيح.28
  علماء کی ایک جماعت نے جن میں ہشام بن محمد بن سائب نے"کتاب الجامع" میں، ابن حبیب نے"محبّر" میں،ابن درید نے "وشاح " میں اور ابن جوزی"علل و تلقیح " میں اس مؤقف پرزور دیا ہے کہ رسول اللہ کی ولادت بحالت ِمختون ہوئی ۔

یعنی خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ رسول ِ مکرم کی ولادت بحالتِ مختون ومسرور متواتر ہے اور اکثر علماء سیر نے اس قول کو تسلیم کر کے اپنی اپنی کتب میں تحریر بھی کیا ہے۔پھر حضرت انس بن مالک سے مروی روایت تو مرفوع روایت ہے جو کہ اس بارے میں سب سے سے زیادہ اہمیت کی حامل اور کلیدی حیثیت رکھتی ہے اور ان سب کاماحصل یہی ہے کہ نبی مکرم کی عصمت وحیاء کی انفرادیت و امتیاز کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نومولودگی کی حالت میں بھی قائم و دائم رکھا جس پر رسول مکرم اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکرادا کیا کرتے تھے۔29

دیگر مختون انبیاء کرام

حضور اکرم کے علاوہ بھی بعض دیگر انبیاءکرام کی ولادت بھی مختونیت کی حالت میں ہوئی ہے۔امام شامی نےقاضی البلقینی کے حوالے سے سترہ انبیاء کرام کی تعداد ذکر کی ہے جو مختون پیدا ہوئے ہیں۔جن میں سب سے پہلے حضرت آدم اور سب سےآخر سیدنا محمد رسول اللہ ہیں۔باقی مذکور انبیاء کرام میں حضرت زکریا، حضرت شیث، حضرت ادریس، حضرت یوسف، حضرت حنظلہ، حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ، حضرت نوح، حضرت شعیب، حضرت سام،حضرت لوط، حضرت صالح، حضرت سلیمان، حضرت یحیٰ اور حضرت ہود شامل ہیں۔ 30

حضور اکرم کا ولادت کے وقت مختون ومسرور ہونا عظمت و شرف کاانتہائی اعلیٰ و اکمل پہلو ہے اور یہ انتظامِ الٰہیہ تھا کہ وہ رسول کریم جس نے اپنی تمام عمر مبارک میں حیاء ہی کا درس دینا تھا ان کی ولادت مختون ومسرور مقدر فرمائی جس کی حکمت یہ تھی آپ کی جائے ستر کو کوئی نہ دیکھ سکے کہ آپ حیاء و شرم کے اعلیٰ درجہ کے مکین تھے جیساکہ اسی تناظر میں ام المؤمنین حضرت عائشہ الصدّیقہ کا یہ فرمان بھی منقول ہے:

  مارایت فرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قطّ.31
  میں نے کبھی بھی رسول اللہ کی جائے ستر کو نہیں دیکھا۔

اس روایت سے آپ کی حیاء کابخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح رسول اللہ نے اپنی تمام زندگی میں حیاء کے پہلو کو ہمیشہ احسن انداز سے قائم و دائم فرمایا اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے نومولودگی کی حالت میں بھی اس حیاء کی امتیازیت کو برقرار رکھا۔اسی طرح اس امتیاز کو نبی مکرم نے بحالتِ وصالِ مبارک بھی قائم رکھنے کا انتظام بذات خود اپنی زندگی میں فرمایاچنانچہ اس حوالہ سے حضرت علی المرتضیٰ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں:

  اوصانى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لایغسله غیرى فانه لایرى احد عورتى الّا طمست عیناه.32
  مجھے نبی کریم نے وصیّت فرمائی کہ(وصال کے بعد) میرے علاو ہ آپ کو کوئی اورغسل نہ دےکیونکہ جس کی بھی نظر میری جائے ستر پر پڑگئی وہ نابینا کردیا جائےگا۔

یوں نبی مکرم نے اپنی زندگی میں اور دم وصال بھی اپنی صفت حیاء کےامتیاز کو اسی طرح برقرار رکھاجس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے نومولود گی کی حالت میں برقرا رکھا۔

مذکورہ بالا تمام کا خلاصہ یہ ہوا کہ آپ انتہائی باحیاء اور پاکیزہ ونفیس طبیعت کے حامل اعلیٰ ترین فرد تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی اس حیاء کے امتیاز کی حفاظت کا انتظام وقتِ ولادت سےتا دمِ وصال مبارک فرمایا۔آپ نے اپنی پوری زندگی میں اسی کا حکم دیا اور تا قیامت آنے والی نوع انسانی کو اس کی اہمیت کا اندازہ اس قول میں ارشاد فرما دیا كہ اسلام کا خلق حیاء ہے۔33 یعنی اگر حیاء نہ رہے تو انسان تہذیب و معاشرہ کے دائرہ کار سے نکل کر جانوروں کی طرح ہوجاتا ہے جس کا علم و عمل اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے دورد ور تک کا واسطہ نہیں ہوتا۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ القلم4:68
  • 2 ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی،مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:11683، ج-18،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان،2001م،ص:217
  • 3 ابو بکر احمد بن عمرو العتکی الشھیر بالبزار،مسند البزار، حدیث:7124، ج-3،مطبوعۃ:مکتبۃ العلوم والحکم،المدینۃ المنورۃ،السعودیۃ،2009م،ص:409
  • 4 ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر، حدیث:508، ج-18،مطبوعۃ:مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م،ص:206
  • 5 قاضی عیاض بن موسی المالکی،الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2012م، ص:150
  • 6 ابو العباس احمد بن علی الحسینی،امتاع الاسماع بما للنبی ﷺمن الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع،ج-4،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،1999م، ص:57
  • 7 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری،الطبقات الکبری،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م،ص:82
  • 8 ابو حاتم محمد بن حبان التمیمی،السیرۃ النبویۃ واخبار الخلفاء،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص:58
  • 9 شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:72
  • 10 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقى الزرقانی، شرح الزرقانى على المواهب اللدنية ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب ا لعلمیۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:236
  • 11 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 87 -88
  • 12 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ(مترجم:مولانا قاری محمد طیب)،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:150
  • 13 ابو الفرج عبد الرحمن بن علی ،الوفاء باحوال المصطفی ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ التوفقیۃ، القاہرۃ، مصر، 1976م، ص:164
  • 14 ابو الفرج عبدالرحمن بن جوزی، صفۃالصفوۃ، ج-1،مطبوعۃ: دارالحدیث القاہرۃ،مصر،2009م، ص:22
  • 15 ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المجم الاوسط، حدیث:6148، ج-6،مطبوعۃ:دار الحرمین، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:188
  • 16 ابو حفص عمربن علی الانصاری ،غایۃ السول فی خصائص الرسول ﷺ،مطبوعۃ:دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، لبنان، 2014م،ص:301
  • 17 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:347
  • 18 ابوالفداء اسماعیل ا بن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر،مطبوعۃ:دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت، لبنان،1976م،ص:209
  • 19 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی مجزات سید المرسلینﷺ،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت ، لبنان، 2005م، ص:170
  • 20 ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:114
  • 21 ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ (مترجم:مولانا محمد اسماعیل الجاروی)،ج-1،مطبوعہ:دار الاشاعت،کراچی، پاکستان،2009ء،ص:176
  • 22 ابو الفرج علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی،انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المأمون ﷺ، ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:78
  • 23 اصطلاح میں آنول نال اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ پیٹ میں بچہ اور ماں کے جسموں کے درمیان رابطہ رہتا ہے اور اس کو پیدائش کے بعد دایہ کاٹ دیتی ہے۔(ادارہ)
  • 24 ابو الفرج علی بن ابراہیم حلبی،سیرتِ حلبیہ(مترجم:مولانا محمد اسلم قاسمی)،مطبوعہ:دار الاشاعت،کراچی،پاکستان،2009ء،ص:182
  • 25 ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم النیسابوری،المستدرک علی الصحیحین، حدیث:4177، ج-4،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2006م،ص:1566
  • 26 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:347
  • 27 ابو القاسم علی بن حسن الشھیر بابن عساکر،تاریخ دمشق،ج-3،مطبوعۃ:دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان،1995 م،ص:412
  • 28 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:347
  • 29 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:87-88
  • 30 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:348
  • 31 ابو عیسی محمد بن عیسی الترمذی،الشمائل المحمّدیّۃ ﷺ،مطبوعۃ:دارالمنھاج للنشر والتوزیع،المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ، 2007م،ص:579
  • 32 قاضی عیاض بن موسی المالکی،الشفاء بتعریف حقوق المصطفی ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2012م، ص:150
  • 33 ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجۃ، حدیث:4182، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:766