Encyclopedia of Muhammad

رسول اللہﷺ کی وِلادَت اور حضرت عبد المطلب

نبی کریم کی ولادت کے وقت آپ کے دادا محترم حضرت عبد المطلب کی مسرت وشادمانی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر اداکرنے کے لیے آپ کے کہےہوئے اشعار کو کتبِ سیر میں مختلف انداز سے نقل کیا گیا ہے۔سیّدنا محمد رسول اللہ سے جناب عبد المطلب ہاشمیکا رشتہ الفت و مودت شروع سے ہی استوار تھا۔ بالعموم دادا اور پوتے کا رشتہ ولادت کے بعد قائم ہوتا ہے لیکن رسول اکرم سے ان کا تعلق قبل از ولادت ہی مضبو ط ہوگیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عظیم الشان پوتا دُرِّ یتیم تھا۔ والدِ ماجد جناب عبد اللہ ہاشمی کی ولادتِ نبوی سے قبل وفات نے داد ااور پوتے کا تعلق بہت مضبوط کردیا تھا اور قبل ازیں ان کی ذمہ داریاں کم نہ تھیں کہ صاحبزاہ حضرت عبد اللہ کے وصال کی وجہ سے پوتے حضرت محمد کی دیکھ بھال اور پرورش کی ذمہ داریاں بھی اب آپ کو ہی نبھانی تھیں۔بوڑھے دادا اور نوخیز پوتے کا رشتۂ الفت پوتے کی ولادت سے پہلے جو قائم ہوا تو وفاتِ جد تک قائم و دائم رہا۔ عام سیرت نگاروں نے رسول اکرم کی پرورش و پرداخت کے بعض رسمی عناوین قائم کرکے تاریخی بہاؤ کو چند بندوں کے اندر محصور کردیا ہے۔ رسول اکرم خواہ اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں رہے ہوں یا رضاعی ماں کے گھر، مکّہ میں والدۂ محترمہ کے ساتھ قیام کیا ہو یا سفر و حضر میں دولتِ پرورش پائی ہویہ تمام ہی اصلاً دادا کی پرورش و پرداخت کا زمانہ تھا۔ ابتدائی حیات کے آٹھ(8) سال سارے کے سارے دادا عبد المطلب ہاشمی کی پرورش و پرداخت کے نام معنون تھے۔1

مشاہداتِ حضرت عبدالمطلب

رسول اکرم سے داد ا کی یہ محبت جو پدرانہ شفقت سے بھی کئی گنا بڑھ کر تھی قبل از ولادتِ نبوی ہی قائم ودائم ہوگئی تھی کیونکہ روایت میں منقول ہے کہ آپ کے محترم دادا حضرت عبد المطلبکو خواب ہی میں اس بات کی نشاندہی کردی گئی تھی کہ آپ کی پشت سے ایک ایسا ولد متولد ہوگا جس کی تعلیمات سے عرب وعجم اس کے مطیع و فرمانبردار ہوجائیں گےچنانچہ اسی خواب کو نقل کرتے ہوئے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  كان عبد المطلب قد رأى فى المنام كان سلسلة من فضة قد خرجت من ظھره لھا طرف فى السماء وطرف فى الأرض وطرف فى المشرق وطرف فى المغرب ثم عادت كأنھا شجرة،على كل ورقة منھا نور وإذا أھل المشرق والمغرب كانھم يتعلقون بھا فقصھا فعبرت له بمولود يكون من صلبه يتبعه أھل المشرق وأھل المغرب، ويحمده أھل السماء وأھل الأرض فلذلك سماه محمدا مع ما حدثته به أمه آمنة حين قال لھا: انك حملت بسيد ھذه الأمة فإذا وضعتيه فسميه محمدا.2
  حضرت عبد المطلب نے خواب میں دیکھا کہ چاندی کی ایک زنجیر آپکی پیٹھ سے نکلی ہے،اس کا ایک کنارہ آسمان کی طرف ہے اور دوسرا کنارہ زمین کی طرف ہے،ایک کنارہ مشرق کی طرف اور دوسرا کنارہ مغرب کی جانب ہے،پھر وہ لوٹ کر ایک درخت کی شکل اختیار کرلیتی ہے،جس کے ہر پتہ پر نورہےاور مشرق ومغرب والے اس سے چمٹے ہوئے ہیں۔حضرت عبد المطلب نے یہ خواب بیان کیاتو ان کو اس خواب کی تعبیر یوں بتائی گئی کہ آپ کی پشت سے ایک بچہ(یعنی آپ کا پوتا)پیدا ہوگا،جس کی پیروی تمام مشرق ومغرب والے کریں گےنیز آسمان اور زمین والے ان کی تعریف کریں گےاسی لیے انہوں نے آپ کا نام محمد رکھا۔نیز حضرت عبد المطلب کونبی کریم کی والدۂ محترمہ حضرت سیّدہ آمنہ نے بتایا تھا جب انہیں کسی نے کہا:بلا شبہ آپ اس امت کے سردار کو حمل میں لیے ہوئے ہیں پس جب آپ انہیں جنیں تو ان کا نام "محمد ( )"رکھنا۔3

مذکورہ واقعہ کی تائید مواہب کے شارح علامہ زرقانی نے اپنی شرح میں کی ہے اور اس کی کچھ جزئیات کو بھی ذکر کیا ہے4 اسی طرح اس واقعہ کو مزید تفصیل کے ساتھ نقل کرتے ہوئے ابو نعیم تحریر فرماتے ہیں:

  عن عبد المطلب، قال: بينا أنا نائم فى الحجر إذ رأيت رؤيا ھالتنى، ففزعت منھا فزعا شديدا، فأتيت كاھنة قريش وعلى مطرف خز وجمتى تضرب منكبى، فلما نظرت إلى عرفت فى وجھى التغير، وأنا يومئذ سيد قومى، فقالت: ما بال سيدنا قد أتانا متغير اللون ھل رأيت من حدثان الدھر شيئا؟ فقلت: بلى، وكان لايكلمھا أحد من الناس، حتى يقبل يدھا اليمنى، ثم يضع يده على أم رأسھا يبدو بحاجته، ولم أفعل، لأنى كنت كبير قومى، فجلست، فقلت: إنى رأيت الليلة وأنا نائم فى الحجر، كان شجرة نبتت قد نال رأسھا السماء، وضربت بأغصانھا المشرق والمغرب، وما رأيت نورا أزھر منھا أعظم من نور الشمس سبعين ضعفا، ورأيت العرب والعجم ساجدين لھا وھى تزداد كل ساعة عظما ونورا وارتفاعا، ساعة تزھر، ورأيت رھطا من قريش قد تعلق بأغصانھا، ورأيت قوما من قريش يريدون قطعھا، فإذا دنوا منھا أخرھم شاب لم أر قط أحسن منه وجھا، ولا أطيب منه ريحا، فيكسر أضلعھم فقال: النصيب لھؤلاء الذين تعلقوا بھا وسبقوك إليھا، فانتبھت مذعورا فزعا، فرأيت وجه الكاھنة قد تغير، ثم قالت: لئن صدقت رؤياك ليخرجن من صلبك رجل يملك المشرق والمغرب، ويدين له الناس، ثم قال لأبى طالب: لعلك تكون ھذا المولود، فكان ابو طالب يحدث بھذا الحديث والنبى صلى اللّٰه عليه وسلم قد خرج، ويقول: كانت الشجرة.5
  حضرت عبد المطلب سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:میں حرم کعبہ میں محو خواب تھا میں نے ایک دہشت ناک خواب دیکھا اور نہایت خوف میں مبتلا ہوگیا۔میں قریش کی ایک کاہنہ عورت کے پاس گیا۔میں نے کمبل اوڑھ رکھا تھا اور میری زلفیں کندھوں تک لٹک رہی تھیں(پراگندہ حال تھیں)۔کاہنہ نے میرے چہرہ سے افسردگی محسوس کرلی میں ان دنوں اپنی قوم کا سردار تھا۔کہنے لگی ہمارے سردار کا کیا حال ہےاور چہرہ کا رنگ کیوں بدلا ہوا ہے۔کوئی حادثہ تو نہیں ہوگیا؟میں نے کہا ہاں۔ان دنوں لوگوں کی عادت یہ ہوتی تھی کہ ہر آنے والا شخص سوال کرنے سے قبل اس کاہنہ کا دایاں ہاتھ چومتااور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنا مدعا بیان کرتا۔مگر میں نے اپنے مقام و مرتبہ کا لحاظ کرتے ہوئےایسا نہیں کیا اور سیدھا بیٹھ گیا۔میں نے کہا آج رات میں نے حرم کعبہ میں سوتے ہوئےخواب دیکھا کہ زمین سے ایک درخت نمودار ہواجس کا سر آسمان تک جا پہنچااور ٹہنیاں مشرق و مغرب تک پھیل گئیں۔وہ درخت سورج سے ستر گنا زیادہ روشن و منور تھا۔پھر کیا دیکھتا ہوں کہ سب عرب و عجم اسے سجدہ کر رہے ہیں اور اس کا نور مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔میں نے دیکھا کہ قریش کے کچھ لوگ اس کی ٹہنیوں سے لٹک گئےاور قریش ہی کے کچھ لوگ اس کو کاٹنے کے لیے لپکے۔لیکن جب قریب ہوئے تو ایک نہایت حسین نوجوان نے جس سے بڑھ کر میں نے خوبصورت اور بہتر خوشبو والا کوئی نوجوان نہیں دیکھا،انہیں مار بھگایا۔ان کی پسلیاں توڑ دیں اور آنکھیں باہر نکال دیں۔میں نےبھی ہاتھ بڑھایا کہ اس کی کسی ٹہنی کو تھام لوں مگر اس نوجوان نے مجھے روک دیا۔میں نے کہا کس کا نصیب ہے؟کہنے لگا انہی کا نصیب ہے جو اس سے لٹک گئے ہیں اور تم سے سبقت لے جا چکے ہیں۔میں گھبراکر خواب سے بیدار ہوگیا۔یہ سنتے ہی کاہنہ کا چہرہ زرد پڑنے لگا اور وہ یوں گویاہوئی:اگر تمہارا خواب سچا ہےتو تمہاری پشت سے وہ شخص پیدا ہوگاجس کی حکومت مشرق ومغرب تک ہوگی اور لوگ اس کے دین پر چلیں گے۔آپ نے یہ سن کر حضرت ابو طالب کے متعلق کہا کہ شاید وہ ہوں۔جب نبی کریم نے اعلان نبوت فرمایاتو حضرت ابو طالب کہا کرتے تھےکہ قسم بخداوہ درخت ابو القاسم الامین( )کی شکل میں نمودار ہواہے۔ 6

اس روایت کو علامہ جامی نے "شواہد النبوۃ "میں 7 اور امام سہیلی نے "روض الانف" میں ان الفاظ کی زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے:

  ثم عادت كأنھا شجرة على كل ورقة منھا نور.8
  وہ درخت بڑھنے کے بعد واپس اپنی جگہ لوٹ گیا گویا کہ اس کے ہر پتہ پر نورتھا۔

یعنی حضرت عبد المطلب کو نبی کریم کی ولادت سے قبل ہی مذکورہ خواب کےذریعہ اس بات کی خبر دے دی گئی تھی کہ آپ کے ہاں ایک متبرک صاحبزادہ کی ولادت ہوگی۔قبل از ولادتِ مصطفی اس پُر ہیبت خواب نے بھی دادا کے دل میں اپنے پوتے کی شان وعظمت ورفعت اور الفت ومحبت پیدا کردی تھی۔

وجودِ عبد المطلب میں ضیاء ِ محمدی

حضرت عبد المطلب کی جبین مبارک میں رسول اکرم کا نورِ مبارک چمکتا تھا جس سے آپ کی وجاہت و منزلت قریش کے درمیان کافی بلند وبالا تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ باقی سارے سردارانِ مکّہ کے مقابلہ میں نہایت قدرومنزلت کے حامل تھے چنانچہ اس حوالہ سے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  عن كعب الاحبار أن نور رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لما صار إلى عبد المطلب وأدرك نام يوما فى الحجر فانتبه مكحولا مدھونا، قد كسى حلة البھاء والجمال، فبقى متحيرا لا يدرى من فعل به ذلك، فأخذه أبوه بيده ثم انطلق به إلى كھنة قريش فأخبرھم بذلك، فقالوا له: اعلم أن إله السماوات قد أذن لھذا الغلام أن يتزوج، فزوجه قيلة فولدت له الحارث ثم ماتت، فزوجه بعدھا ھند بنت عمرو.9
  جب رسول اللہ کا نورحضرت عبد المطلب کی طرف منتقل ہوااور وہ بالغ ہوچکے تھےتو ایک دن آپ حطیم میں آرام فرما ہوئے،جب بیدار ہوئےتو سرمہ اور تیل لگا ہوا تھااور آپ نے نہایت عمدہ و خوبصورت جبہ زیبِ تن فرمایا ہوا تھا۔آپحیران ہوگئے اور آپ کو معلوم نہ ہوسکاکہ یہ کام کس نے کیاہے۔آپ کے والد نے آپ کا ہاتھ پکڑااور قریش کے کاہنوں کے پاس لے گئے اور پورا واقعہ بتایا۔انہوں نے کہا جان لو کہ آسمان کے معبود نے اس غلام کو شادی کی اجازت دی ہے۔چنانچہ حضرت عبد المطلب کے والد نے قیلہ نامی خاتون سے ان کی شادی کرادی جن سے حارث نامی بیٹا ہوا اور فوت ہوگیا پھراس کے بعد ہند بنت عمرو سے نکاح کیا۔ 10

اس واقعہ کے بعد حضرت عبد المطلب کے والد نے ان کی شادی کروادی جس سےحضرت عبد اللہ یعنی ابو النبی متولد ہوئےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ عبد الحق محدث دہلوی مدارج میں تحریر فرماتےہیں:

  چون كشائش واو حق تعالى عبد المطلب را از شر ابرهبه ورجوع كرد ابرهبه خائب و خاسر خواب میکرد عبد المطلب روزے درحجر ناگاہ خوابى دید عظیم وبیدار شد ترسان ولرزان پس خواند قصّه این خواب رابر كاھنان قریش پس گفتند اورا كاھنان اگر راست افتد این خواب تو ھر آئینه بیرون مى آید از پشت توكسيكه ایمان مى آرند بوے اھل آسمان وزمین پیدا میگردودر مردم علامتى آشکارا پس تزویج كرد عبد المطلب فاطمه را وبار دار شد فاطمه بعبد اللّٰه ذبیح والد رسول خدا صلى اللّٰه عليه وسلم .11
  جب حق تعالیٰ نے ابرہہ کے شر سے حضرت عبدالمطلب کو نجات بخشی تو ایک دن حضرت عبدالمطلب حجرہ (نامی جگہ)میں سو رہے تھے انہوں نے ایک بہت بڑا خواب دیکھا جس سے وہ خوفزدہ ہوگئے۔ انہوں نے اپنا خواب قریش کے کاہنوں سے بیان کیا توکاہنوں نے جواب دیا کہ اگر تمہارا خواب سچ ہے تو یقیناً تمہاری پشت سے کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جس پر تمام زمین و آسمان والے ایمان لائیں گے اور اس کی نشانیاں خوب ظاہر و روشن ہوں گی ۔اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے فاطمہ سے نکاح کیا وہ حضرت عبداللہ ذبیح (یعنی حضور کے والد ماجد) سے حاملہ ہوئیں۔12

اس طرح وہ نور جو حضرت عبد المطلب کی جبین سعادت میں منور تھا وہ حضرت عبد اللہ یعنی نبی کریم کے والد ماجد کی صورت میں نبی کریم کی دادی میں منتقل ہوگیا۔ اسی طرح منقول ہے کہ جب ابرہہ کعبہ کو ڈھانے کےلیے مکّہ مکرّمہ آیا تو حضرت عبدالمطلب نے قریش کو اسی نور مبارک کی بنا پر تسلی دی چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  لما قدم أبرھة ملك اليمن من قبل أصحمة النجاشى ھدم بيت اللّٰه الحرام وبلغ عبد المطلب ذلك قال: يا معشر قريش لايصل إلى ھدم البيت لأن لھذا البيت ربا يحميه ويحفظه ثم جاء أبرھة فاستاق إبل قريش حتى طلع جبل ثبير فاستدارت دائرة غرة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم على جبينه كالھلال واشتد شعاعها على البيت الحرام مثل السراج فلما نظر عبد المطلب إلى ذلك قال: يا معشر قريش: ارجعوا فقد كفيتم ھذا الأمرفو اللّٰه ما استدار ھذا النور منى إلا أن يكون الظفر لنا فرجعوا متفرقين.13
  جب اصمحہ ناشی کی طرف سے مقرر کردہ یمن کا بادشاہ "ابرہہ"بیت اللہ شریف کوگرانے کے لیےآیا اورحضرت عبد المطلب کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے فرمایا:اے قریش کے لوگو!وہ ا س گھر کوگرا نہیں سکے گاکیونکہ اس گھر کا ایک رب ہے جو اس کو پناہ میں لےگااور اس کی حفاظت کرےگا۔پھر ابرہہ آیا اور قریش کے اونٹ اور بکریاں لے گیا جن میں حضرت عبد المطلب کے چارسو اونٹ بھی شامل تھے۔حضرت عبد المطلب سوار ہوکر قریش کے ہمراہ" ثبیر" نامی پہاڑ پر تشریف لے گئے۔نبی اکرم کے نور مبارک نے ان کی پیشانی پر چاند کی طرح ایک دائرہ بنایا جس کی شعاعیں بیت اللہ شریف پر پڑنے لگیں جیسے چراغ کی شعاعیں ہوتی ہیں۔جب حضرت عبد المطلب .نے یہ منظر دیکھاتو فرمایا:اے قریش کی جماعت واپس لوٹ چلو اس معاملہ میں تمہاری مدد کردی گئی۔ اللہ کی قسم !جب بھی یہ نور دائرے کی شکل اختیار کرتا ہے تو ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے چنانچہ وہ الگ الگ واپس ہوگئے۔ 14

اس نور مبارک کی بدولت اس طرح کی کامیابیاں قریش کو وقتاً فوقتاً نصیب ہوتی رہی ہیں کیونکہ یہ نور فی الحقیقت اس ذاتِ عالی کا تھا جو کائنات کےلیے رحمۃ للعالمین ہیں۔

حضرت عبد المطلب سے مشک کی مہک

جس وقت نور نبی حضرت عبد المطلب کی جبین میں موجود تھا اس دوران آپ کے وجودِ مسعود سے کستوری کی مہک آیا کرتی تھی اوراس وقت اہلیانِ مکّہ قحط کے دنوں میں آپ کے توسل سے ہی بارانِ رحمت طلب کیا کرتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

  وكان عبد المطلب يفوح منه رائحة المسك الإذفر ونور رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يضىء فى غرته، وكانت قريش إذا أصابھا قحط تأخذ بيد عبد المطلب فتخرج به إلى جبل ثبير فيتقربون به إلى اللّٰه تعالى، ويسألونه أن يسقيھم الغيث فكان يغيثھم ويسقيھم ببركة نور محمد صلى اللّٰه عليه وسلم غيثا عظيما.15
  حضرت عبد المطلب سے اذفر(ایک قسم کی)کستور کی خوشبو آتی تھی اور ان کی پیشانی میں نورِ مصطفیٰ چمکتا تھا۔جب قریش کو قحط پہنچتا تو وہ حضرت عبد المطلب کا ہاتھ پکڑ کرثبیر نامی پہاڑی کی طرف لے جاتے اور ان کے توسل سےاللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتےنیز بارش کے لیے دعاکرتےتو نورِ محمدی کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کو بہت زیادہ بارش عطا فرماتا۔16

حضرت عبد المطلب کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ آپ اور آپ کی قوم کو رسول اکرم کے طفیل رحمتوں سے نوازا گیا تھابلکہ کتب سیر میں ا س طرح کے کئی واقعات موجود ہیں۔ رسول اکرم کے لڑکپن کی حالت میں بھی ایساواقعہ رونماء ہوا تھا چنانچہ ابن سعد روایت کرتے ہیں:

  رقيقة بنت أبى صيفى كانت لدة عبد المطلب قالت: تتابعت على قريش سنون ذھبن بالأموال وأشفين على الأنفس قالت: فسمعت قائلا يقول فى المنام: يا معشر قريش! إن ھذا النبى المبعوث منكم وھذا إبان خروجه وبه يأتيكم الحيا والخصب فانظروا رجلا من أوسطكم نسبا طوالا عظاما أبيض مقرون الحاجبين أھدب الأشفار جعدا سھل الخدين رقيق العرنين فليخرج ھو وجميع ولدہ وليخرج منكم من كل بطن رجل فتطھروا وتطيبوا ثم استلموا الركن ثم ارقوا رأس أبى قبيس ثم يتقدم ھذا الرجل فيستسقى وتؤمنون فانكم ستسقون فأصبحت فقصت رؤياھا عليھم فنظروا فوجدوا ھذه الصفة صفة عبد المطلب فاجتمعوا إليه وخرج من كل بطن منھم رجل ففعلوا ما أمرتھم به ثم علوا على أبى قبيس ومعھم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الظلف والخف وأشفت على الأنفس فأذھب عنا الجدب وائتنا بالحيا والخصب! فما برحوا حتى سالت الأدوية وبرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم سقوا. 17
  رقیقہ بنت ابو صفیہ جو حضرت عبد المطلب کے ساتھ پلی بڑی تھیں وہ کہتی ہیں:قریش پر ایک مرتبہ ایسی خشک سالیاں گزریں جو مال و منال سب(اپنے ساتھ)لے گئیں اور جان پر آبنی۔میں نے انہی دنوں ایک شخص کو خواب میں کہتے سنا :اے قریش کی جماعت یہ پیغمبر جو مبعوث ہونے والا ہےتم ہی لوگوں میں سے ہوگا۔اس کے ظہورکا یہی زمانہ ہے،اسی کے طفیل تمہیں فراخی وکشائش نصیب ہوگی۔دیکھو ایسا شخص تلاش کرو جو تم سب میں معزز خاندان کا ہو،بلند وبالا ہو،معظم ہو،بھاری بھرکم ہو،گورا چٹا ہو،اس کی بھویں جڑی ہوں،پلکیں دراز ہوں،گھونگریالے بال ہوں،رخسار بھرے ہوں،پتلی ناک ہو۔اس کی اولاد اور تم میں سے ہر ایک گھرانے کا ایک ایک فرد نکلے،سب کے سب پاکی حاصل کرو،خوشبوئیں لگاؤ،رکنِ حرم کو بوسہ دو،کوہ قبیس کی چوٹی پر چڑھ جاؤ،پھر وہ شخص آگے بڑھے،بارش کے لیے دعا کرےاور تم سب آمین کہو۔ایسا کروگے تو سیراب کردیے جاؤگے۔رقیقہ نے اس خواب کا واقعہ صبح لوگوں میں بیان کردیا۔سب نے دیکھا کہ وہ صفت اور حلیہ جو خواب میں بیان کیا گیا ہےعبد المطلب کا ہے۔سب لوگ انہی کے پاس جمع ہوگئے۔ہر گھرانے سے ایک ایک شخص نکلا اور جو حکم ملا تھا اس پر عمل کیا۔پھر جبل ابو قبیس پر چڑھ گئے،ساتھ میں رسول اللہ بھی تھے جو اس وقت لڑکپن میں تھے۔حضرت عبد المطلب آگے بڑھے اور دعاء کی:یا اللہ!یہ تیرے بندے اور بند ے زادے ہیں،یہ تیری کنیزیں اور کنیز زادیاں ہیں،تو دیکھ رہا ہےکہ ہم پر کیا مصیبت نازل ہے۔یہ خشک سالیاں ایسی پڑیں کہ اس نے تمام جانوروں کو ہلاک کرڈالاجو پنجے اور سم رکھتے تھے اور اب تو جانوں پر آبنی ہے۔یاللہ!ہم سے اس قحط کو دفع کر،ابرِ رحمت برسا اور فراخی عطا فرما۔لوگ ہنوز واپس بھی نہ ہوئے تھےکہ اس قدر مینہ برسا اور اتنی بار ش ہوئی کہ وادیاں جاری ہوگئیں،نالے بہنے لگے۔رسول اللہ ہی کے طفیل ان سب کو سیرابی نصیب ہوئی۔ 18

اسی روایت کو صاحب روضۃ الانف نے بھی نقل کیا ہے جس میں کچھ الفاظ کی زیادتی بھی ہے اور آخر میں حضرت عبد المطلب کی دعا کو یوں نقل کیاگیا ہے:

  فقام عبد المطلب فاعتضد ابن ابنه محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم فرفعه على عاتقه وھو يومئذ غلام قد أيفع أو قد كرب ثم قال: اللّٰھم ساد الخلة وكاشف الكربة انت عالم غير معلم ومسئول غير مبخل وھذه عبداؤك وإملوك بعذرات حرمك يشكون إليك سنتھم فاسمع اللّٰھم وأمطر علينا غيثا مريعا مغدقا فما راموا، والبيت حتى انفجرت السماء بمائھا وكظ الوادى بثجيجه.19
  حضرت عبد المطلب کھڑےہوئے پھر اپنے پوتے (سیّدنا)محمد( )کو تھاما اور اپنے کندھوں پر بٹھالیا۔ وہ اس دن بالغ لڑکے تھے یا قریب البلوغ تھے پھر عرض کیا: اے اللہ مفلسی کو ختم کرنے اور غموں کو دور کرنے والے،تو از خود جاننے والا ہے نہ کہ تجھے بتایا جائے اور تو ہی فریاد رس ہے نہ کہ تنگی والا،یہ تیرے بندے اور بندیاں تیرے حرم کے پردوں کو تھامے ہوئے ہیں جو تجھ سے اپنی قحط سالی کی شکایت کرتے ہیں تو اے اللہ فریا د کو سن لے اور ہم پر ایسی بارش برساجو نفع بخش اور موسلا دھار ہو۔بیت اللہ کی قسم وہ ابھی دعا ختم کرنے نہ پائے تھے یہاں تک کہ آسمان اپنے پانی سمیت پھٹ پڑا اور وادی رات بھر موسلا دھار پانی سے بہتی رہی۔

اسی طرح ایک اور موقع پر بھی نبی کریم کی ہی بدولت جب آپ لڑکپن کی عمر میں تھے قریش مکّہ کو قحط سے نجات دی گئی تھی۔چنانچہ اس واقعہ کو نقل کرتےہوئے صاحبِ سبل الھدی تحریر فرماتےہیں:

  وقد استسقى ابو طالب بوجه النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقد أخرج ابن عساكر قال: قدمت مكة وھم فى قحط فقال قريش: يا أبا طالب أقحط الوادى وأجدب العيال فھلم فاستعد! فخرج ابو طالب ومعه غلام كأنه شمس دجن تجلت عنه سحابة قثماء حوله أغيلمة فأخذه ابو طالب فألصق ظھرہ بالكعبة ولاذ بإصبعه الغلام وما فى السماء قزعة فأقبل السحاب من ھھنا وھھنا وأغدق واغدودق وانفجر الوادى وأخصب النادى والبادى. 20
  اور تحقیق حضرت حضرت ابو طالب نے نبی کریم کے روئے اقدس کے طفیل بارش کو طلب کیا ہے۔پس تحقیق ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے کہ راوی کہتے ہیں:میں مکّہ آیا جبکہ اہل مکّہ خشک سالی میں تھے تو اہل قریش نے کہا:اے ابو طالب وادی بنجر ہوگئی اور خاندان قحط زدہ ہوگیا لہذا چلیں اورکچھ مدد کریں۔ حضرت ابو طالب نکلے اور آپ کے ساتھ ایک لڑکا تھا جو گويا ابر آلود دن کا سورج تھا جس سے غبار آلود بادل ظاہر ہورہے تھےاور اس کے ارد گرد لڑکے تھے۔ حضرت ابو طالب نے اس بچے کو اٹھایا اور اس کی پیٹھ کعبہ سے لگائی اورآپ کی انگلی کو وہ بچہ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا جبکہ آسمان میں کوئی بادل کا ٹکڑا تک نہیں تھا(یعنی مطلع بالکل صاف تھا اور بارش کے کوئی آثار نہیں تھے)کہ اچانک یہاں وہاں سے بادل امنڈ آئے پھر بارش ہوئی اورموسلا دھار بارش ہونے لگی یہاں تک کہ وادی (پانی سے)بہنے لگی اور شہر و دیہات سب ہی سرسبز و شاداہوگئے۔

حضرت ابو طالب نے اسی موقع پر فی البدیہ چند اشعار بھی کہے تھےجس کا سب سے مشہور مصرعہ یہ ہے:

  وأبيض  يستسقى  الغمام  بوجھه   ثمال  اليتامى  عصمة  للأرامل.21

  وہ سفید چہرہ والے جن کے چہرہ انور کے طفیل بارش طلب کی جاتی ہے۔وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیواؤں کی عزت کے محافظ ہیں۔

یہ نور مبارک کی سعادتیں تھیں کہ قریش مکّہ کو اس نور مبارک کی برکتوں کی وجہ سے کئی بار قحط سالی سے نجات دی گئی،غموں اور دکھوں کا مدوا ہوا اورسکھ،راحت اور آسودگی ہر سو پھیل گئی۔

حضرت عبد المطلب کی مسرت

رسول کریم کی ولادت کے بعد جب آپ کی ولادت کی خبرآپ کےجدّ امجد حضرت عبد المطلب کو دی گئی تو جنابِ حضرت عبد المطلب کی خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ مرحوم صاحبزادہ کی جوان سالہ بیوہ کے آنگن میں ایک بے نظیر پھول کھلا جس کے دم قدم سے ہر سو خوشبو اور خوشیوں کی بہار آگئی۔اسی خوشی کو بیان کرتے ہوئے ابن سعد نقل فرماتے ہیں:

  لما ولدت آمنة بنت وھب رسول اللّٰه أرسلت إلى عبد المطلب فجاءه البشير وھو جالس فى الحجر معه ولده ورجال من قومه فأخبره أن آمنة ولدت غلاما فسر ذلك عبد المطلب وقام ھو ومن كان معه فدخل عليھا فأخبرته بكل مارأت وما قيل لھا وما أمرت به قال: فأخذه عبد المطلب فأدخله الكعبة.22
  جب سیّدہ آمنہ بنت وہب رسول اللہ کی ولادتِ باسعادت سے مشرف ہوئیں تو حضرت عبد المطلب کے پاس اس کی خوشخبری بھجوائی۔خوشخبری دینے والا حضرت عبدالمطلب کے پاس آیا جبکہ آپ مقام حجر میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے اور قوم کے افراد بھی تھے تو خوشخبری دینے والے نے آپ کو خبر دی کہ سیّدہ آمنہ نے ایک لڑکا جنا ہے۔اس خوشخبری نے حضرت عبد المطلب کو انتہائی مسرور کیا تو آپ اور آپ کے پاس موجود افراد اٹھے ۔حضرت عبد المطلب سیّد آمنہ کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کو ان تمام واقعات کی خبر دی جو انہوں نے دیکھے تھے نیزآپ کے بارے میں انہیں جو حکم دیا تھا اس سے بھی انہیں آگاہ فرمایا۔راوی نے کہا کہ حضرت عبد المطلب نے بچہ کو گود میں لیا اور کعبہ میں (شکر ادا کرنے کے لیے) لے گئے۔

جب حضرت عبد المطلب نبی کریم کو گود میں لے کر کعبہ میں گئے تو آپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحاق تحریر فرماتے ہیں:

  فأخذه عبد المطلب فأدخله فى جوف الكعبة، فقام عبد المطلب يدعو اللّٰه، ويشكر اللّٰه الذى أعطاه إياه.23
  حضرت عبد المطلب نے آپ کو گود میں لیا اورآپ کو خانہ کعبہ کے اندرلے گئےاور رب تعالیٰ سے دعائیں مانگنے لگے۔اس عطاء خداوندی پر اس کا شکرا دا کرنے لگے۔

اس موقع پر حضرت عبد المطلب نےاللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور درجِ ذیل اشعار میں اپنی خوشی کا اظہار فرماتے ہوئے نبی کریم کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی پناہ میں دیاچنانچہ اس کو نقل کرتے ہوئے ابن جوزی تحریر فرماتے ہیں:

  الحمد    للّٰه    الذى    اعطانى    ھذا  الغلام  الطیب  الاردان
قد  ساد  فى  المھد  على  الغلمان   اعیذه   بالبیت  ذى  الاركان
حتى    اراہ    بالغ    البنیان   اعیذه   من   شر   ذى   شنان
         من  حاسد  مضطرب  العیان.24

  سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ پاکیزہ لباس اور منزہ ذات والا پوتا عطا فرمایاہے۔ جو پنگھوڑے میں ہوتے ہوئے سب بچوں پر فوقیت لے گئے ہیں۔ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مبارک ارکان اور اطراف و اکناف والے گھر کی پناہ میں دیتا ہوں۔ حتی کہ(میری خواہش ہے کہ) میں ان کو اس حال میں دیکھوں کہ وہ مکمل مضبوط ا ورتوانا جوان ہوں۔میں ان کو کینہ ور دشمن کے شر سے(اللہ تعالیٰ)کی پناہ میں دیتا ہوں اور اس حاسد کے شر سے بھی جس کی آنکھیں مرضِ حسد کی وجہ سے بے چین و بے قرار ہیں۔25

ابن سعدنے بھی ان اشعار کو نقل کیا ہے۔ 26 امام ماوردی نے بھی اعلام النبوۃ میں یہ اشعارمتغیر الفاظ کے ساتھ نقل کیے ہیں چنانچہ وہ جناب ِحضرت عبد المطلب کے کعبہ سے نکلنے اور آپ کو واپس حضرت سیّدہ آمنہ کو دیتے ہوئے حضرت عبد المطلب کے ان اشعار کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  ثم خرج به إلى أمه فدفعه إليھا وقال: قد رأى فيه سمات المجد وتوسم فيه إمارات السؤدد أن محمدا لن يموت حتى يسود العرب والعجم وأنشأ يقول:

                   الحمد    للّٰه    الذى    اعطانى    ھذا   الغلام    الطیب   الاردان
                   أعيذه     بالواحد    المنان    من  كل  ذى  عيب  وذى  شنآن
                              حتى   أراه   شامخ   البنيان.27

  پھرحضرت عبد المطلب نبی کریم کو ان کی والدۂ محترمہ کے پاس لے گئے اور آپ کو ان کے سپرد کردیا پھر کہا:انہوں نے اس نومولود میں بزرگی کے آثار واضح دیکھے اور اس میں سرداری کی علامات کی نشاندہی کی کہ بلاشبہ(سیّدنا)محمد( ) اس وقت تک وصال نہیں فرمائیں گے جب تک عرب و عجم پر حکمرانی نہ کرلیں اورحضرت عبد المطلب نے یہ اشعار بھی کہے: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ پاکیزہ اور ممتاز پوتا عطا فرمایا۔میں اس کو احسان کرنے والے یکتا کی پناہ میں دیتا ہوں ہر قسم کے عیب اور بد بختی سے ۔یہاں تک کہ میں اسے مکمل مضبوط و توانا ئی کی حالت میں دیکھوں۔

نبی مکرم کے محترم داداجناب حضرت عبد المطلب نےان مذکورہ بالا اشعار کے علاوہ بھی چند ایسے اشعار کہے ہیں جن میں آپ نے اپنے محبوب پوتے سیّدنا محمد رسول اللہ کے حسن و جمال کو غلمانِ جنت کے حسن و جمال سے ممتاز و مشرف بتایا اور آپ کی عالی ذات اورمبارک صفات کی برکات سے مستقبل میں ساری دنیا کے مستفیض ہونے کا تذکرہ بھی فرمایا۔28ان اشعار سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عبد المطلب نےنبی کریم کی ولادت کے موقع پر ایسے اشعار پڑھے جن میں اللہ تبار ک وتعالیٰ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ نبی کریم کی مدح سرائی اورآپ کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور پناہ کی درخواست بھی کی گئ تھی۔

محترم دادا اورمکرم پوتے کی محبت

حضرت عبد المطلب کی حضورِ اکرم سےمحبت تمام آل واولاد اور اعزہ و اقرباء میں نمایاں مقام کی حامل تھی کیونکہ محترم دادا جانتے تھے کہ اس پوتے کی عظمت کی دنیا قائل ہوگی اور اسی بنا پر لوگوں کو بھی آپ کی محبت و الفت کی تلقین کیا کرتے تھے۔یہ محبت کئی مواقع پر بدرجہ اتم دوسروں پر آشکارا بھی ہوا کرتی تھی۔چنانچہ اس حوالہ سے نقل کرتے ہوئے ابن ہشام اپنی سیرت میں تحریر فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مع جده عبد المطلب ابن ھاشم وكان يوضع لعبد المطلب فراش فى ظل الكعبة فكان بنوه يجلسون حول فراشه ذلك حتى يخرج إليه لا يجلس عليه أحد من بنيه إجلا لا له قال: فكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يأتى وھو غلام جفر حتى يجلس عليه، فيأخذه أعمامه ليؤخروه عنه فيقول عبد المطلب إذا رأ ى ذلك منھم: دعوا ابنى، فو اللّٰه إن له لشأنا ثم يجلسه معه على الفراش ويمسح ظھرہ بيدہ ويسرہ ما يراہ يصنع.29
  حضور اکرم مکّہ میں اپنے داد اعبد المطلب بن ہاشم کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔عبد المطلب کے لیے خانہ کعبہ کے سایہ میں فرش (مَسنَد)بچھایا جاتا تھااور جب تک وہ خودوہاں آکر بیٹھ نہیں جاتے تھےان کے بیٹوں میں سے کوئی اس فرش پر بیٹھنے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ان کے بیٹھ جانے کے بعد بھی ان کے بیٹے والد کے احترام کی وجہ سے فرش پر نہیں بلکہ اس کے دائیں بائیں بیٹھتے تھے۔آپ جب وہاں آتے تو اپنے دادا کے پاس فرش پر ہی بیٹھ جاتے۔آپ کے چچاآپ کو وہاں سے ہٹانے کے لیے پکڑتے تو حضرت عبد المطلب انہیں کہتے کہ اسے چھوڑدو۔خدا کی قسم اس کی بہت زیاد ہ شان ہے۔ حضرت عبد المطلب آپ کو اپنے ساتھ اپنے فرش پر بٹھالیتےاور آپ کی پشت مبارک پر ہاتھ پھیرتے رہتے۔جب بھی آپ کو کوئی کام کرتے دیکھتے تو خوش ہوتے۔ 30

ابن اسحاق نے بھی اس روایت کو مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ 31 ایک روایت میں اس واقعہ کایوں ذکر منقول ہوا ہے:

  فكان وھو غلام يأتى وسادة جده فيجلس عليھا فيخرج جدہ وقدكبر فتقول الجارية التى تقود جده: انزل عن وسادة جدك فيقول عبد المطلب: دعوا ابنى فإنه يحس بخير.32
  نبی کریم لڑکپن کی عمر میں اپنے محترم دادا کی مَسند پر تشریف فرماہوجاتے۔ حضرت عبدالمطلب ضعیف العمر ہوگئےتھے، ایک دفعہ آپ گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کی ایک کنیز جو آپ کو سہارا دے کر چلاتی تھی اس نے کہا کہ اپنے دادا کی مسند سے اتریں تو حضرت عبدالمطلب نے فرمایا:میرے بیٹے کو بیٹھے رہنے دوکیونکہ اس میں خیر وبرکت جھلکتی ہے۔

یہ حضرت عبد المطلب کی محبت وشفقت ہی تھی کہ نبی کریم بھی کبھی اپنے آپ کو حضرت عبد المطلب کا بیٹا فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ مروی ہے کہ جنگِ حنین کے دن جب کفار کازور بڑھاتو رسول اکرم اپنی سواری پر سوار ہوئے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے:

  أنا النبى لا كذب أنا ابن عبد المطلب.33
  میں اللہ کا نبیِ بر حق ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے ،میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔

محترم دادا جناب حضرت عبد المطلب کی نبی کریم سے الفت و محبت قابل دیدنی تھی خصوصًا ان افراد کے لیے جو خاندانِ عبد المطلب میں سے تھے۔اسی محبت و الفت کے ساتھ حضرت عبد المطلب نے نبی کریم کی حیاتِ طیبہ پر انتہائی گہرے نقوش چھوڑے جس کی جھلک نبوی زندگی کے گوشوں میں آشکارا نظر آتی ہے۔

وصال وسپردگیِ کفالت

جنابِ ِحضرت عبد المطلب کی یہ محبت والفت تمام عمر بے مثل و بے نظیر رہی اور دم وصال بھی یہی الفت سبب بنی کہ جاتے جاتے اپنے محبوب پوتے کی کفالت کی وصیت فرما جائیں۔ چنانچہ آٹھ سال کی رفاقت کے بعد آپ کی کفالت کی ذمّہ داری اپنے دو بیٹوں یعنی نبی کریم کے سگے چچاؤں کو سپرد کرتے ہوئے اس دنیا سے وصال فرماگئے۔ نبی کریم کی حیات مبارکہ میں حضرت عبد المطلب کے چھوڑےہوئے نقوش کو بیان کرتےہوئے ڈاکٹر محمد یاسین مظہر صدیقی تحریر فرماتے ہیں:

  عظیم تر پوتے کی شخصیت و حیات پر بزرگ دادا کی چھتنار(گھنی) شخصیت و حیات کا سایہ کتنا گہرا تھا اس کا اندازہ اس حقیقت سے کیا جاسکتا ہے کہ پورے آٹھ(8) برس کا ایک لمحہ بھی حیات ِ نبوی میں اس کے حدود و قیود سے پرے نہ تھا۔ پیدائش سے قبل انتظارِ سعادت و محبت کاجانگداز لمحہ ہو یا درّ یتیم پوتےکے آنے کی پُرمسرت انتظار کی گھڑی ہو، دادا جان گرامی کی بیکراں محبت و شفقت اور بے پناہ الفت و مودت کی ایک بے مثال اور اچھوتی کہانی سناتی ہے۔ ولادت کے بعد کے تمام واقعات و حالات، کوائف و احوال اور سوانح و اعمال سب ہی تو دادا گرامی کے ساختہ پر داختہ تھے۔ماں کے انتقال کے بعد پوتے کو شفیق دادا نے پوری طرح اپنی شفقت و نوازش کے تلے بسالیا، ایسا نہیں تھا کہ دوسرے اعزہ اور اقرباء بالخصوص چچاؤں اور پھوپھیوں سے ان کو دور رکھا ہوکیونکہ آپ ان سب کے چہیتے تھے تاہم وہ اپنے دادا کے فرزند، محبوب اور جگر کے ٹکڑے تھے۔ ایسے لختِ جگر اور ایسے پارۂ دل کہ دادا کے نام سے عرب روایات کے مطابق موسوم و منسوب ہونے اور نہ صرف حیاتِ عبد المطلب میں بلکہ بعد کی نبوی حیات طیبہ میں بھی آپ محمد بن عبد المطلب ہی کہلاتے تھے ۔ دوسرے اسباب و وجوہ کے علاوہ سب سے بڑا رشتہ دادا اور پوتے کے خالص ارتباط کا تھا۔اسی خاص ربط و تعلق اور ارتباطِ باہمی نے دادا کو مجبور کردیا کہ اپنے نو خیز پوتے کی کفالت کی وصیت اپنی وفات کے وقت کردیں۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہےکہ آپ کی آئندہ کفالت و پرورش کی ذمہ داری دونوں سگے چچاؤں، جناب زبیر ہاشمی و جناب حضرت ابو طالب ہاشمی کے مشترکہ کاندھوں پر ڈالی تھی کہ یہی فطری اورمنطقی بات تھی۔ کفالتِ زبیر کی حقیقت، کفالت ِحضرت ابو طالب کی خیرہ کن روشنی میں ماند پڑگئی۔ لیکن دونوں چچاؤں نے بالخصوص اور دوسرے اعمام و عمات نے بالعموم اپنی خاندانی ذمہ داری پوری محبت و خاطر کے ساتھ نبھائی۔ رسول اکرم اپنے سگے چچاؤں کی خدمات کے ہمیشہ معترف و احسان مند رہے اور اس کا انعام دعوات صالحہ کی صورت میں دیا۔آٹھ (8)سال کی عمر شریف میں تھےکہ شفیق دادا کا بھی انتقال ہوگیا۔ ہوش و تمیز کا مبارک زمانہ تھا۔ واقعات بھی یاد رہے اور عظیم شخصیت کے نقش و نگار بھی۔ جنازہ اٹھا تو پیچھے پیچھے روتے جاتے تھے، قبرستان تک گئے اور تدفین میں حصہ لیا، مقام قبر اور اس سے زیادہ معبدِ پرورش یاد رہا۔ تازندگی آپ اپنے شفیق دادا کو یاد کرتے رہے ۔ جناب عبد المطلب ہاشمی کی حیات اور کارناموں کی ساری معنویت اور تمام تر عظمت اسی بنا پر ہے کہ وہ حضرت محمد کے دادا تھے۔ اسی رشتۂ خاص نے ان کو ایک عظمت کا ہالہ عطا کردیا ہے اور ان کے سینے پر بزرگی کا تمغہ سجادیا ہے۔ کہنے کو وہ اس حیاتِ مستعار میں صرف آٹھ(8)برسوں تک رسول اکرم کی حیات مبارک میں دخیل رہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا سایۂ عظمت تا زندگی حاوی اورمحیط رہا۔ 34

ان تمام باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد المطلب شروع ہی سے تا دمِ آخر نبی کریم کی انتہائی نگہداشت فرماتےتھے۔اپنی حیات ِجاودانی کی طرف منتقلی کے وقت بھی آپ نے اس بات کا انتظام بذات خود فرمایا کہ نبی کریم کی کفالت ان کے سگے عم محترم حضرت ابو طالب وحضرت زبیر کریں ۔بنظر غائر دیکھا جائے تو آپ کے دادا محترم نے اعلی اور با کمال طریقہ سے نبی کریم کی کفالت کا حق ادا فر مایا اورکبھی آپ کو پریشان و غمگین نہ ہونے دیا اور اسی طرح آپ کے دونوں محترم چچاؤں نے کفالت کو بحسنِ خوبی انجام دیا بالخصوص حضرت زبیر کے وصال کے بعد حضرت ابو طالب نے اعلان نبوت کے بعد تک بھی پدرانہ شفقتوں میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ان سب کے اثرات نبی کریم کی حیات مبارکہ میں واضح پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دوران جنگ آپ رمز یہ انداز میں بلند و بالا آواز میں ارشاد فرمایا کرتے تھے"انا النبی لاکذب اناابن عبد المطلب"یعنی میں بلا شبہ نبی ہوں اور میں فرزندِ عبد المطلب ہوں۔ 35

 


  • 1 ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی، عبد المطلب ہاشمی، مطبوعہ: دار النوادر، لاہور، پاکستان، 2005ء، ص:104
  • 2 شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:364
  • 3 شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ (مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان2011ء،ص:495
  • 4 ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی،شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ،ج-4،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2012م،ص:162
  • 5 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:54
  • 6 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ(مترجم:مولانا محمد طیب)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:112-113
  • 7 شیخ نور الدین عبد الرحمٰن جامی، شواہد النبوۃ(مترجم:بشیر حصین ناظم)،مطبوعہ :مکتبہ نبویہ ،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:46-47
  • 8 ابو القاسم عبدالرحمن بن عبد اللہ السھیلی،الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ،ج-2، مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1412ھ،ص:95
  • 9 شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:52
  • 10 شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ (مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان، 2011ء،ص:61-62
  • 11 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ، ج-2،مطبوعہ:النوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی، لاہور، پاکستان،1997ء،ص:9
  • 12 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ(مترجم: مفتی غلام معین الدین )،ج-2،مطبوعہ:ضیا القرآن پبلی کیشنز ،لاہور، پاکستان،2012ء، ص:24
  • 13 شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:63
  • 14 شيخ احمد بن محمد القسطلانى،المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ(مترجم:محمد صدیق ہزاروی)، ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان،2011ء،ص:62
  • 15 شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:52
  • 16 شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدیۃ(مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان، 2011ء،ص:61-62
  • 17 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 72 -73
  • 18 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ(مترجم:علامہ عبد اللہ العمادی)، ج-1،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)، ص:107-109
  • 19 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السہیلی، الروض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص:105
  • 20 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:8
  • 21 ابو الربیع سلیمان بن موسی الاندلسی،الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہﷺ والثلاثۃ الخلفاء،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 2000م، ص:181
  • 22 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی،الطبقات الکبریٰ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،1990م،ص:83
  • 23 ابو عبید اللہ محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:97
  • 24 ابو الفرَج عبد الرحمٰن بن جوزی،صفۃ الصفوۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الحدیث ،القاہرۃ،مصر،2009م،ص:22
  • 25 ابو الفرَج عبد الرحمٰن بن جوزی، الوفا باحوال المصطفیٰ ﷺ(مترجم: علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعۃ: حامد اینڈ کمپنی ، لاہور، پاکستان، 2002ء، ص:125
  • 26 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی، الطبقات الکبریٰ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:83
  • 27 ابو الحسن علی بن محمد ماوردی،اعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دار ومکتبۃ الھلال، بیروت، لبنان،1409 ھ،ص:210
  • 28 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی،الروض الانف،ج-2،مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001م، ص:157
  • 29 ابو محمد عبد الملک بن ھشام ،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام،مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،2009م،ص:135
  • 30 ابو محمد عبد الملک بن ہشام،سیرۃ النبیﷺ (مترجم:مولوی قطب الدین احمد)،مطبوعہ:الفیصل ناشران وتاجران کتب، لاہور، پاکستان، 2006ء، ص:185-186
  • 31 ابو عبید اللہ محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:116
  • 32 ابو بکر احمد بن حسین البیھقی،دلائل النبوۃومعرفۃ اصحاب الشریعۃﷺ، ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:88
  • 33 ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث:18707، ج-30، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:635
  • 34 ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی، عبد المطلب ہاشمی ، مطبوعہ: دار النوادر، لاہور، پاکستان،2005ء، ص:108-109
  • 35 جمال الدين السُّرَمَرِى، خصائص سيد العالمينﷺوما له من المناقب العجائب على جميع الأنبياء عليهم السلام، مطبوعۃ:مکتبۃ التوفیقیۃ،القاہرۃ، مصر، 2015م، ص:357