رسول اکرم کےوقت ِ ولادت کے قریب قریب ظاہر ہونے والے معجزات کی تفاصیل کتبِ سیر میں اپنے تمام تر گوشوں کے ساتھ اسی طرح مذکور ہیں جس طرح نبی اکرم کے استقرارِ حمل کے دوران رونما ہونے والے معجزات کی تفاصیل مذکور ہیں۔ ان معجزات کے ظہور کا آغاز تو آپ کے استقرار حمل بلکہ اس سے پہلےہی سےشروع ہوگیا تھاجیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ فرماتے ہیں:
كان من دلالة حمل آمنة برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أن كل دابة كانت لقريش نطقت تلك الليلة، وقالت: حمل برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورب الكعبة، وھو إمام الدنيا وسراج أھلھا، لم يبق سرير لملك من ملوك الدنيا إلا أصبح منكوسا، وفرت وحوش المشرق إلى وحوش المغرب بالبشارات، وكذلك أھل البحار يبشر بعضھم بعضا، وله فى كل شھر من كل شھور حمله نداء فى الأرض ونداء فى السماء: أن أبشروا فقد آن أن يظھر أبو القاسم صلى اللّٰه عليه وسلم ميمونا مباركا لم يبق فى تلك الليلة دار إلا أشرقت ولا مكان إلا دخله النور، ولا دابة إلا نطقت.1
رسول کریم کےوالدۂ ماجدہ سیّدہ آمنہ کے شکمِ مبارک میں آنے کی نشانیوں میں سے یہ بھی تھی کہ جس شب آپ شکم مادر میں مکین ہوئے توقریش کا ہر جانور پکار اٹھاکہ رب کعبہ کی قسم رسول اللہ جو دنیا کے سردار ہیں وہ حمل میں جلوہ گر ہوچکے ہیں ۔بادشاہان عالم کے تخت اوندھے ہو گئے ، مشرق کے جنگلی جانور، مغرب کے جانوروں کو بشارت دینے گئے ، اسی طرح سمندری جانوروں نے بھی ایک دوسرے کو مبارک دی اور استقرارِ حمل کے ہرمہینہ میں آپ کے متعلق زمین اور آسمان میں منادی کرائی گئی کہ تمہیں بشارت ہو کہ مقدس اور مبارک ابو القاسم کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے ، ایک اور روایت میں ہے کہ اس رات کو کوئی گھر ایسا نہ تھا ،جو روشن نہ ہوا ہو، کوئی مکان ایسا نہ تھا جس میں نور ِمحمدی داخل نہ ہوا ہو، اور کوئی جانور ایسا نہ تھا ، جو بول نہ اٹھا ہو ۔2
اسی طرح ان معجزات کے ظہور کا سلسلہ آپ کی ولادت کے زمانہ کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ذیل میں ان واقعات کاذکرہے جو رسول اکرم کی ولادت مبارکہ کے وقت پیش آئے جنہیں متقدمین سیر نے اپنی کتابوں میں ذکر فرمایا ہے۔
رسول اکرم کی ولادت سے جس لعین کوسب سے زیادہ تکلیف ہوئی اور جو کسی بھی طور پر اس کو برداشت نہیں کرسکا وہ ابلیس رجیم تھا۔یہ ابلیس آپ کی ولادت کے وقت غمزدہ ہوا چنانچہ اس حوالہ سے حضرت عکرمہ سے ایک حدیث مبارکہ منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
أن إبليس لعنه اللّٰه لما ولد صلى اللّٰه عليه وسلم ورأى تساقط النجوم قال: لقد ولد الليلة ولد يفسد علينا أمرنا ثم أمر أولاده أن يأتوه بتربة من كل أرض وھو يشمھا فلما شم تربة تھامة: قال: من ھھنا دھينا.3
جب رسول اکرم اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تو ابلیس لعین نے تاروں کے گرنے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ا ٓج کی رات ایسا نو مولود پیدا ہوا ہے جو ہمارے نظام کو درہم برہم کردے گا۔پھر اس نے اپنے چیلوں کو تمام روئے زمین کی مٹی لانے کا کہاجس کو وہ سونگھنے لگا۔جب اس نے تہامہ کی مٹی سونگھی تو اس نے کہا کہ اسی جگہ سے ہم برباد کیے جائیں گے۔
یعنی شیطان لعین کی پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ اس کا بنایا ہوا برسوں پرانا کفر وشرک پر مبنی نظام جس ذات عالی کے لائے ہوئے پیغام سے درہم برہم ہوجاتا وہ نبیِ اکرم کی ذات عالیہ تھی اور اسی وجہ سے وہ غمزدہ تھا۔پھر اسے کسی چیلے نے مشورہ دیا کہ تمہیں تو یہ قدرت دی گئی ہے کہ کسی نومولود کو چھوکر پاگل کردو تو اس نومولود کو ہاتھ لگادینا تاکہ وہ صحیح نہ رہے۔ابلیس لعین ایسا کرنے گیا لیکن کر نہیں سکاچنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے اور ماقبل روایت کی شرح کرتے ہوئے صاحب سیرت حلبیہ تحریرفرماتے ہیں:
وھذا يدل على أن تساقط النجوم كان عند إبليس علامة على وجود نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم فقال له جنوده: لو ذھبت إليه فخبلته، فلما دنا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعث اللّٰه جبريل فركضه برجله ركضة وقع بعدن وكون تساقط النجوم كان عند إبليس علامة على وجود نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم .4
اور یہ (ستاروں کے گرنے والی)روایت ا س بات پر دلالت کرتی ہے کہ ستاروں کا گرنا ابلیس کے نزدیک ولادت نبوی کی نشانی تھا( تبھی اس نے اس ہلچل کی بنا پر تہامہ کی مٹی سونگھنےکے بعد تباہی کی بات کی)تو اس کے چیلوں نے اس سے کہا کہ تو اس نومولود تک جااور اسے (چھوکر)حواس باختہ کردے۔پھر جب وہ(ایسا ہی کرنے کے لیے)رسول اللہ کے قریب ہواتو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت جبریل کو بھیجا تو حضرت جبریل نے اس لعین کو ایک شدید ٹھوکر ماری جس سے وہ عدن شہر میں جا گرا۔
یعنی جب شیطان کو یہ قدرت نہیں دی گئی کہ صالحین پر قادر ہوکر اپنا زور چلا سکے جیساکہ قرآن مجید میں ہے 5 تو یہ کیونکر ہوسکتا تھا کہ اس کا زور آپ پر چل سکےخواہ آپ زندگی کے ابتدائی ساعتوں میں ہی تھے۔
حضوراکرم کی ولادت کے وقت کی اطلاع کتب سابقہ میں بھی ذکرکی گئی ہے جو کہ اہل کتاب کے انبیاکرام کے ذریعہ سے ان کے امتیوں تک اور پھر امتیوں کے توسط سے نسل در نسل چلتی آگے منتقل ہوتی رہی ہے ۔چنانچہ شیخ حلبی سیرت حلبیہ میں6 اور شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی جواہر البحار میں تحریر فرماتے ہیں:
وعن كعب الاحبار رضى اللّٰه عنه قال رایت فى التوراة ان اللّٰه تعالى اخبر موسی عن وقت خروج محمد صلى اللّٰه عليه وسلم اى من بطن امه موسى علیه الصلوة والسلام اخبر قومه ان الكوكب المعروف عندكم اسمه كذا اذاتحرك وسارعن موضعه فھو وقت عروج محمد صلى اللّٰه عليه وسلم وصار ذلك ممایتوارثه العلما من بنى اسرائیل.7
حضرت کعب الاحبار فرماتے ہیں کہ میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وہ وقت بھی بتا دیا تھا جس وقت حضور نے شکم مادر سے اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ فلاں مشہور ستارہ جب حرکت کرنے لگے اور اپنی جگہ چھوڑ دے تو وہ حضور کی ولادت کا وقت ہوگا ۔علمائے بنی اسر ائیل اس بات کونسل درنسل منتقل کرتے رہے۔8
اس طرح رسول اکرم کی ولادت کے زمانہ کی خبر دورِ ولادت کے اہل کتاب تک پہنچ گئی تھی اور وہ وقتاً فوقتاً مختلف حلیوں میں آپ کی ولادت کے بارے میں معلوم کرنے مکّہ میں آتے رہتے تھے جیسا کہ حضرت بی بی عائشہ صدیقہ نے مکّہ کے ایک یہودی تاجر کے بارے میں بیان کیا ہے۔ 9
علمائے یہود یعنی احبار نے آنے والی نسلوں کو سینہ بسینہ وہ خبریں پہنچائیں جو انہوں نے آپ کی تشریف آوری کے متعلق اپنے انبیاء کرام سے سنی تھیں ۔اسی طرح اہل کتاب کے عابدوں اور راہبوں نے آپ کے ظہور کی بشارتیں اپنے آنے والی نسلوں کوسنائیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انبیاء کرام نبی اکرم کو پہچانتے اور بارگاہ الہی میں آپ کا وسیلہ پیش کیاکرتے تھے۔چنانچہ علامہ ابن جوزی نے سرکار دو عالم کی آمد پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے سیر و حدیث کی حقیقتوں کو سمیٹتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
ہر ایک نبی اپنے رب کے حضور (اس نور محمدی سے) توسل کرکے پناہ مانگتا رہا چنانچہ سیّدنا آدم کی توبہ انہی کے وسیلے سے قبول ہوئی۔ حضرت ادریس کوانہی کی وجہ سے مقام بلند میں رفع کیا گیا۔ حضرت نوح نے کشتی میں انہی کا وسیلہ پکڑا اور حضرت یونس نے اپنی دعا میں اسی وسیلے پر اعتماد فرمایا ۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ انہی کو شفیع لائے اور حضرت ایوب نے انہی کے واسطے سے تضرع ووزاری کی۔ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو انہی کی منزلت اور مرتبت سے روشناس کرایا اور انہوں نے رب سے دعا مانگی کہ میں ان کا وزیر اور امتی بنوں ۔ حضرت عیسیٰ نے انہی کے وجودِ باجود کی بشارت دی اور آپ کی تشریف آوری کے زمانے تک قائم و زندہ رہنے کی مہلت مانگی ساتھ ہی یہ استدعا بھی کی کہ وہ آپ کے معاون و مددگار بنیں۔10
یوں سیّدنا محمد رسول اللہ کی ولادت کے زمانہ کے بارے میں انبیاء کرام کی دی گئی خبروں کے مطابق مکّہ میں کئی راہب و احبار ان کی تصدیق کےخاطر آیا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک شامی راہب اس خیال سے مکّہ مکرّمہ میں آکر بس گیا کہ آپ کی آمد کا وقت قریب آرہا تھا11 اوروہ آپ کے انوار سے منور ہونا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام جلال الدین السیوطی تحریر فرماتے ہیں:
كان بمر الظھران راھب من أھل الشام يدعى عيصى وكان قد آتاه اللّٰه علما كثيرا وكان يلزم صومعة له ویدخل مكة فيلقى الناس ويقول انه يوشك ان يولد فيكم مولود يا أھل مكة تدين له العرب ويملك العجم ھذا زمانه فمن أدركه واتبعه أصاب حاجته ومن أدركه وخالفه أخطأ حاجته وتاللّٰه ما تركت أرض الخمر والخمير والأمن ولا حللت أرض البؤس والجوع والخوف إلا فى طلبه فكان لا يولد بمكة مولود إلا يسأل عنه فيقول ما جاء بعد فلما كان صبيحة اليوم الذى ولد فيه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خرج عبد المطلب حتى أتى عيصى فوقف فى أصل صومعته فناداه فقال من ھذا قال انا عبد المطلب فاشرف عليه فقال كن أباہ فقد ولد ذلک المولود الذى كنت احدثكم به عنه يوم الإثنين وھو يبعث يوم الاثنين ويموت يوم الاثنين وإن نجمه طلع البارحة وآية ذلک انه الآن وجع فيشتكى ثلاثا ثم يعافى فاحفظ لسانك فإنه لم يحسد حسده احد ولم يبغ على احد كمايبغى عليه.12
مر ظہران نامی جگہ میں ایک شامی راہب تھا جسے عیصی کہا جا تا تھا ۔ا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کوکثیر علم عطا فرمایا تھا اور یہ اپنی عبادت گاہ میں ہی رہتا تھا۔وہ مکّہ میں داخل ہوتا اور لوگوں سے ملتا اور کہتاکہ اے اہل مکّہ عنقریب تم میں ایک نومولود پیدا ہوگا ۔تمام اہل عرب اس کے دین پر ہوں گے اور وہ عجم پر حکومت کرےگا اوریہ اس کی پیدائش کا زمانہ ہے۔ پس جس نے اس کو پالیا اور اس کی اتباع کرلی تو اس نے اپنامقصد (زندگی) پالیا۔جس نے اس کو پایا اور اس کی مخالفت کی تو اس نے اپنا مقصد (زندگی)گنوادیا۔اللہ کی قسم میں نے کھانے پینے اور سکون والی جگہ نہیں چھوڑی اور بنجر ، افلاس اورخوف والی جگہ نہیں آیا مگر اسی کی طلب میں ۔جب بھی مکّہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اس کے بارے میں سوال کرتاتھا اورپھر سوال کے بعد کہتا کہ ابھی وہ نہیں آیا۔جب اس دن کی صبح نمودار ہوئی جس میں رسول اکرم پید اہوئے تو حضرت عبد المطلب عیصی کے پاس آئے اور اس کی عبادت گاہ میں جاکر اسے آواز دی۔اس نے کہا کہ کون ہے؟ تو آپ نے کہا کہ میں عبد المطلب ہوں تو وہ آپ کے پاس آیا اور کہا: تم ہی اس بچہ کے دادا ہوپس تحقیق وہ بچہ پیدا ہوچکا ہے جس کے بارے میں، میں تمہیں کہا کرتا تھا۔وہ پیر کے دن پیدا ہوااور پیر کے دن ہی اعلانِ بعثت کرےگا اور پیر کے دن ہی وصال کرےگا۔بلا شبہ آج ہی کی رات اس کا( پیدائشی علامتی) ستارہ طلوع ہوا ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ اس وقت تکلیف میں ہے جو کہ تین دن رہے گی اور پھر وہ تندرست ہوجائےگا ۔پس تم اپنی زبان قابو میں رکھو کیونکہ کسی سے اس کے جتنا حسد نہیں کیا گیا اور کسی کی اس کے جتنی مخالفت بھی نہیں کی گئی ۔
اسی طر ح اس حوالہ سے ایک یہودی کی بیان کردہ نشانی کو نقل کرتےہوئےشیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی تحریر فرماتے ہیں:
ان یھودیا قال لعبد المطلب یا سید البطحاء ان المولود الذى كنت حدثتکم عنه ولد البارحة قال عبدالمطلب لقد ولد لى البارحة غلام قال الیھودى ماسمیته قال محمداً قال الیھودى ھذہ ثلاث یشھدن على نبوته احداھن ان نجمه طلع البارحة والثانیة ان اسمه محمد والثالثة انه یولد فى صیابة قومه وانت یاعبدالمطلب صیابتھم.13
ایک یہودی نے حضرت عبدالمطلب سے کہا اے سیّد بطحا! جس بچے کے متعلق میں آپ سے گفتگو کرتا تھا آج وہ پیدا ہوگیا ہے ۔حضرت عبدالمطلب نے فرمایا :آج تو میرے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ یہودی نے پوچھا کہ آپ نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا نام"مُحَمَّد"( )رکھا ہے۔ یہودی نے کہا کہ یہی تین نشانیاں ان کی نبوت کی علامت ہیں: (1) آج رات اس نبی کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے۔(2) اس کا نام گرامی"محمد"( )ہوگا۔ (3) وہ قوم کے بہترین خاندان میں پیدا ہوگا اور آپ اپنی قوم کے بہترین خاندان میں سے ہیں۔ " 14
ان روایات سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ نبی اکرم کی ولادت ہونے سےپہلے ہی ٹوٹتے ستاروں کاہجوم اور ایک خاص معلوم ستارہ کا طلوع اور دیگر اس جیسے واقعات کا رونما ہونا منتظر لوگوں کے لیے علامات تھیں تاکہ بعد میں وہ کوئی حجت پیش نہ کرسکیں۔
سیّدنا محمد رسول اللہ کی ولادت کے وقت بت وغیرہ بھی گر گئے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ نومولود شرک وکفر کے خاتمہ کے لیے مبعوث کیے گئے تھےچنانچہ آپ کی ولادت کی رات رونما ہونےوالے واقعات کو بیان کرتے ہوئے امام سیوطی تحریر فرماتے ہیں:
ونكست الأصنام كلھا وأما اللات والعزٰى فإنھما خرجا من، خزانتھما وھما يقولان ويح قريش جاءھم الأمين جاءھم الصديق لا تعلم قريش ماذا اصابھا.15
اور تمام بت اوندھے گر پڑےلیکن لات و عزیٰ کا یہ حال تھا کہ وہ دونوں اپنے اپنے مقامات سے بحکم رب اٹھ کر نکل آئے تھے اور کہتے تھے کہ قریش کا بھلا ہو ان کے یہاں امین آگئے ہیں، ان میں صدیق تشریف لے آئے لیکن قریش کواس کا علم نہیں ہے کہ ان کے یہاں کتنا بڑا واقعہ وقوع پذیر ہوچکا ہے۔16
اسی طرح اس حوالہ سے ایک اورروایت میں یوں مذکور ہے کہ حضرت عبد المطلب فرماتے ہیں کہ میں اس رات کعبہ میں تھا اور میں نے بتوں کو دیکھا کہ سب بت اپنی اپنی جگہ سے سر کے بل گر پڑے ہیں اور دیوارِ کعبہ سے یہ آواز آرہی ہے:
ولد المصطفى المختار الذى تھلک بیده الکفار ویطھر من عبادة الاصنام و یامربعبادة الملک العلام.17
مصطفی ٰ مختار پیدا ہوئے۔ان کے ہاتھ سے کفار ہلاک ہوں گے اور کعبہ بتوں کی عبادت سے پاک ہوگا۔ وہ اللہ کی عبادت کا حکم دیں گے جو حقیقی بادشاہ اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔
اسی طرح آپ کی ولادت سے متعلق وہ چند اشعار جوآپ کے محترم چچا حضرت عباس بن عبد المطلب نے آپ کی اجازت سے کہے ہیں ان میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے ۔چنانچہ عبدالرحمن بن جوزی ان اشعا ر کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وفى حدیث العباس بن عبدالمطلب أنه قال: یا رسول اللّٰه انى أرید أن أمتد حک قال: قل: لا یفضض اللّٰه فاک فأنشأ یقول: 18
من قبلھا طبت فى الظلال وفى مستودع حيث يخصف الورق
ثم ھبطت البلاد لا بشر انت ولا مضغة ولا علق
بل نطفة تركب السفين وقد ألجم نسرا وأھله الغرق
تنقل من صالب إلى رح إذا مضى عالم بدا طبق
حتى احتوى بيتك المھيمن من خندف علياء تحتھا النطق
وانت لما ولدت أشرقت الأرض وضاءت بنورك الأفق
فنحن فى ذلك الضياء وفى النور وسبل الرشاد نخترق.
حضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ آپ ، نے فرمایا: یا رسول اللہ! میں آپ کی تعریف کرنا چاہتا ہوں، آپ نےارشاد فرمایا: بولیےاللہ آپ کے منہ کوسلامت رکھے چنانچہ آپ نے کہا:"اس سے پہلے آپ پردوں میں رہے، ماں کے پیٹ میں جہاں پردہ ہوتا ہے پھر شہروں ( دنیا ) میں آئے، اس وقت آپ نہ تو بشر تھے، نہ لوتھڑا اور نہ ہی خون، بلکہ ابھی نطفہ تھے۔ نسر(بت) کو لگام دی گئی اور اس کے پوجنے والوں کو غرق کردیا گیا۔ یہ(پاکیزہ) پیٹھوں میں ہوتےچلا آیا اوربالآخر اپنی والدہ کے شکم مبارک تک آپہنچا۔ آپ جب پیدا ہوئے تو زمین روشن ہوگئی اور آپ کے نور کی وجہ سے ہر طرف روشنی ہوگئی اور ہم بھی اسی روشنی میں ہیں، نور میں ہیں اور ہدایت کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔20
یعنی رسول اکرم کی ولادت کے وقت کئی بت اوندھے منہ گر پڑے اور ان کے پجاریوں کو لگام ڈالی گئی ۔اسی طرح آپ کی ولادت سے زمین روشن و منور ہوگئی۔
جس طرح نبی اکرم کے استقرار حمل کے دوران رحمت خداوندی کا ظہور ہوا کرتا تھا جیساکہ ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے کہ حضرت آمنہ ، نے فرمایا:میرے اس بیٹے کی عجیب شان ہے،میں نے اسے اپنے حمل میں لیا اور اس سے زیادہ ہلکا اور آسانی والا بابرکت حمل کوئی دوسرا نہیں دیکھا21 بالکل اسی طرح آپ کی ولادت کے وقت بھی یہ سلسلۂ رحمت و کرم اپنے عروج پر تھاچنانچہ شیخ احمد بن محمد قسطلانی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
لما حضرت آمنة الولادة قال للملائكة: افتحوا أبواب السماء كلھا، وأبواب الجنان، وألبست الشمس يومئذ نورًا عظيمًا، وكان قد أذن اللّٰه تعالى تلك السنة لنساء الدنيا أن يحملن ذكورًا.22 ولیس المراد ان جمیع نساء الدنیا حملن بل الحاملات منھن.23
جب حضرت آمنہ ، کے یہاں ولادت کاوقت قریب ہوا تو اللہ تعالیٰ نےملائکہ کو حکم دیا کہ آسمانوں اور جنتوں کے تمام دروازے کھول دواور اس دن خورشیدِ عالم کو مزید نور سے مزین کیا گیا۔ اس سال تمام جہاں کی عورتوں کو رسول اللہ کی عظمت و رفعت کی وجہ سے اولاد نرینہ سے نوازا گیا۔اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام عورتیں حاملہ ہوگئیں بلکہ(وہ مراد ہیں) جو حاملہ تھیں۔ 24
نہ صرف اتنا بلکہ فرشتے باہم مژدے سناتے اترے اور دنیا کے پہاڑوں کا ارتفاع بڑھ گیا، سمندر کی سطح گہری اور دریا کی روانی تیز ہوگئی۔ شیطان ملعون کو ستر طوقوں میں جکڑ کر بحر عمیق میں الٹا کرکے ڈال دیا گیا اور اس کی ذریات اور سرکش جنوں کو پابہ زنجیر کرکے بند کردیا گیا۔ کوئی درخت ایسا نہ تھا جس میں پھل نہ آیا ہو، کسی قسم کا خوف نہ تھا اور دور دراز علاقوں اور راہوں میں امن وعافیت تھی ۔ جب حضور کی ولادت ہوئی تو سعادت کی بارشیں ہونے لگیں۔ دنیا کو نور کی چادر پہنا دی گئی۔ملائکہ بشارتیں دینے لگے ۔تمام آسمانوں میں ایک ستون زبرجد کا اور ایک ستون یاقوت کا لگادیاگیا۔ 25
نبی اکرم کی ولادت کی رات میں یہ سلسلۂ رحمتِ باری تبارک وتعالیٰ انفرادی انداز سے جاری و ساری تھا جس میں جنت کی زیبائش ،بتوں کا گرنا شامل تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام جلال الدین السیوطی تحریر فرماتے ہیں:
وقد انبت اللّٰه ليلة ولد على شاطئى نھر الكوثرسبعين الف شجرة من المسك الأذفر جعلت ثمارھا بخور أھل الجنة وكل اھل السموات يدعون اللّٰه بالسلامة...وأما البيت فأياما سمعوا من جوفه صوتا وھو يقول الآن يرد على نورى الآن يجيئنى زوارى الآن أطھر من أنجاس الجاھلية أيتھا العزى ھلكت.26
جس رات میں سیّد الانبیاء کی ولادت ہوئی، اللہ تعالیٰ نے حوض کوثر کے کناروں پر مشک ذخر سے معطر ستر ہزار درخت اُگائے اور ان کے پھلوں کی خوشبو کو اہل جنت کے لیے بحور بنایا۔ اس روز تمام آسمان والے اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی دعا مانگتے تھے ۔۔۔ خانہ کعبہ کایہ حال تھا کہ بہت دنوں تک لوگوں نے اس سے یہ آواز سنی، اب اللہ تعالیٰ میرے نور کو لوٹادے گا اور جوق درجوق توحید پرست میری زیارت کو آئیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ مجھ کو جاہلیت سے پاک کردے گا اور اے عزیٰ تو ہلاک ہوگیا ۔ 27
اسی طرح کے دیگر رونما ہونے والے واقعات کتب سیر میں بالتفصیل مذکور و منقول ہیں جن میں قدر مشترک بات یہ ہے کہ آپ کی ولادت کے وقت سلسلۂ رحمت باری کا نزول نہایت کثرت سے جاری تھا۔ 28
رسول اکرم کی ولادت کے وقت ایک نور نکلا تھا جس کے بارے میں صاحب سبل الھدی یوں تحریر فرماتے ہیں:
وروى ابن سعد عن محمد بن عمر الأسلمى بأسانيد له متعددة عن آمنة أنھا قالت: لما وضعته خرج معه نور أضاء له ما بين المشرق والمغرب.29
ابن سعد نے محمد بن عمر اسلمی سے اپنی کئی متعدد اسناد کے ذریعہ حضرت سیّدہ آمنہ ، سے روایت کیاہے کہ آپ فرماتی ہیں:جب آپ میرے بطن سے جدائے ہوئے تو آپ کے ساتھ ایک نور نکلا جس کے سبب مشرق و مغرب کے درمیان سب روشن ہوگیا۔ 30
حضور نے اسی واقعہ کی نسبت خود ارشاد فرمایا ہے:
ورویا امى التى راتوكذلك امھات الانبیاء یرین.31
میں وہی خواب ہوں جسے میری والدہ نے دیکھا تھااور اسی طرح ،کی مائیں ایسا ہی نور دیکھا کرتی ہیں۔
اسی حوالہ سے مسند امام احمد میں حضر ت عرباض بن ساریہ سلمی ،سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم نے ارشاد فرمایا:
إنى عند اللّٰه فى أم الكتاب لخاتم النبيين، وإن آدم لمنجدل فى طينته، وسأنبئكم بتأويل ذلك، دعوة أبى إبراھيم وبشارة عيسى قومه، ورؤيا أمى التى رأت أنه خرج منھا نور أضاءت له قصور الشام.32
میں اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک ام الکتاب میں خاتم النبین لکھا گیا حالانکہ آدم اپنے خمیر میں گوندھے پڑے تھے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میری شان کیا ہے ۔ میں دعائے ابراہیمی ہوں اور اپنے بھائی عیسی کی دو بشارت ہوں جو انہوں نے اپنی قوم کو دی اور اپنی ماں کا وہ حسین خواب اور اس کی حقیقی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا ان میں سے ایک نور نکل کر چمکا جس سے ان کے لیے شام کے محلات روشن ہوگئے ۔
اسی نور کی طرف آنحضرت کے چچا حضرت عباس نے اپنے قصیدے میں اشارہ کیا ہے ۔ 33اسی طرح عثمان بن ابی العاص ، اپنی والدہ فاطمہ ، سے راوی ہیں کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو میں نے دیکھا کہ کمرہ نور سے بھر گیا اور ستارے اتنے قریب آگئے کہ میں سمجھی کہ وہ مجھ پر گر نے کو ہیں ۔ 34
مذکورہ بالا واقعات کی نوعیت ایک خارجی سطح کی تھی جبکہ ذیلی واقعات وہ ہیں جو حضرت سیّدہ آمنہ نے بطور خاص مشاہدہ فرمائے اور کتب سیر نے جنہیں شرح و بسط کے ساتھ نقل کیا۔ ربیع الاوّل کا مہینہ ، دو شنبہ کا دن اور صبح صادق کی ضیاء بار سہانی گھڑی تھی، رات کی بھیانک سیاہی چھٹ رہی تھی اور دن کا اجالا پھیلنے لگا تھا جب مکّہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کی جواں سال بیوہ بہو کے حسرت ویاس کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے سادہ سے مکان میں ازلی سعادتوں اور ابدی مسرتوں کا نور چمکا۔ایسا مولودِ مسعود تو لد ہوا جس کے من موہنے مکھڑے نے، صرف اپنی غمزدہ ماں کو ہی سچی خوشیوں سے مسرور نہیں کیا بلکہ ہر درد کے مارےکے لبوں پر مسکراہٹیں کھیلنے لگیں۔ اس نورانی پیکر کے جلوہ فرمانے سے جہاں کہیں بھی مایوسیوں اور حرماں نصیبیوں نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے وہاں امید کی کرنیں روشنی پھیلانے لگیں اور ٹوٹے دلوں کو بہلانے لگیں۔ صرف جزیرۂ عرب کا بختِ خفتہ ہی بیدار نہیں ہوا بلکہ انسانیت جو صدیوں سے ہوا و ہوس کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور ظلم و ستم کے آہنی شکنجوں میں کسی ہوئی کراہ رہی تھی، اس کو ہر قسم کی ذہنی، معاشی اور سیاسی غلامی سے رہائی کا مژدۂِ جاں فزا ملا۔ فقط مکّہ و حجاز کے خدا فراموش باشندے، خدا شناس اور خود شناس نہیں بنے بلکہ عرب و عجم کے ہر مکین کے لیے میخانۂ معرفت کے دروازے کھول دیے گئے اور سارے نوع انسان کو دعوت دی گئی کہ جس کا جی چاہے آگے آئے اور اس مئے طہور سے جتنے جام نوش جاں کرنے کی ہمت رکھتا ہے اٹھائے اور اپنے لبوں سے لگالے۔ طیورِ خوش نوا زمزمہ سنج ہوئے اور خزاں کی چیرہ دستیوں سے تباہ حال گلشنِ انسانیت کو سرمدی بہاروں سے آشنا کرنے والا آگیا۔ سربگر یباں غنچے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ انہیں جگانے والا آیا اور جگا کر انہیں شگفتہ پھول بنانے والا آیا۔ افسردہ کلیاں مسکرانے لگی تھیں کہ ان کے دامن کو رنگ ونکہت سے فردوس بداماں کرنے والا آیا۔ علم و آگہی کے سمندروں میں حکمت کے جو آبدار موتی آغوش صدف میں صدیوں سے بے مصرف پڑے تھے ان میں شوقِ نمود انگڑائیاں لینے لگا۔35رسولِ اکرم کی ولادت کے دوران حضرت سیّدہ آمنہ نے کئی ماوراء الحس واقعات کا مشاہدہ فرمایا ہے جو در حقیقت آپ کی برکت کی وجہ سے آپ کی والدۂ محترمہ کے لیے باعثِ اطمینان و افتخار تھے۔ حضرت آمنہ آپ کی ولادت کے متعلق بیان کرتےہوئے فرماتی ہیں کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ میں حاملہ ہوگئی ہوں، نہ مجھے کوئی بوجھ محسوس ہوا جو ان حالات میں دوسری عورتوں کو محسوس ہوتا ہے۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ میرے ایامِ ماہواری بند ہوگئے ہیں۔ ایک روز میں خواب اور بیداری کے بین بین تھی کہ کوئی آنے والا میرے پاس آیا اور اس نے پوچھا: آمنہ! تجھے علم ہے کہ تو حاملہ ہے؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ پھر اس نے بتایا: تم حاملہ ہو اور تیرے بطن میں اس امت کا سردار اور نبی تشریف فرما ہوا ہے، اور جس دن یہ واقعہ پیش آیا وہ سوموار کا دن تھا۔حمل کے ایام بڑے آرام سے گزرے۔ جب وقت پورا ہوگیا تو وہی فرشتہ جس نے مجھے پہلے خوشخبری دی تھی وہ آیا اس نے مجھے کہا کہ یہ کہیں کہ میں اللہ واحد کی اس کے لیے ہر حاسد کے شر سے پناہ مانگتی ہوں 36
حضرت سیّدہ آمنہ نے دوران ولادت جن واقعات کا مشاہدہ کیا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتےہیں کہ آپ کی ولادت بھی انفرادی و نمایاں طور سے ہوئی ہے تاکہ لوگوں میں اس کا چرچہ ہو اور اس سے ان کے دلوں میں آپ کی محبت پیوست ہوجائےچنانچہ امام جلال الدین السیوطی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
وتقول لقد اخذنى ما يأخذ النساء ولم يعلم بى أحد من القوم فسمعت وجبة شديدة وامرا عظيما فھالنى ذلك فرأيت كان جناح طير أبيض قد مسح على فؤادى فذھب عنى كل رعب وكل وجع كنت أجد ثم التفت فإذا انا بشربة بيضاء لبنا وكنت عطشى فتناولتھا فشربتھا فأضاء منى نور عال ثم رأيت نسوة كالنخل الطوال كأنھن من بنات عبد مناف يحدقن بى فبينا أنا أعجب وإذا بديباج أبيض قد مدبين السماء والأرض وإذا بقائل يقول خذوه من اعين الناس قالت ورأيت رجالا قد وقفوا فى الھواء بأيديھم أباريق فضة ورأيت قطعة من الطير قد أقبلت حتى غطت حجرى مناقيرھا من الزمرد وأجنحتھا من اليواقيت فكشف اللّٰه عن بصرى وأبصرت تلك الساعة مشارق الأرض ومغاربھا ورأيت ثلاثة أعلام مضروبات علما فى المشرق وعلما فى المغرب وعلما على ظھر الكعبة.37
حضرت آمنہ فرماتی ہیں میری قوم کاکوئی فرد میرے حال سے واقف نہ تھا۔ میں تنہا گھر میں تھی، میں نے ایک بڑی گڑگڑاہٹ کی آواز سنی جس سےمیں ڈرگئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک سفید پرندہ آیا اور اپنا پَر میرے سینے پر مَلا، میراخوف جاتا رہا میں نے مڑکر دیکھا تو سفید مشروب میرے سامنے تھا جسے میں دودھ سمجھی ،میں پیاسی تھی تو میں نےاسے لیا اور پینا شروع کیا ۔مجھ سے ایک نوربلند ہواپھرمیں نے دراز قد، خوب صورت عبدمناف کے قبیلے کی عورتوں کی طرح خواتین کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ انہیں میری حالت کا کیسے علم ہوا ؟پھر مجھے تکلیف کا احساس ہونے لگا، اب ایک اور گڑ گڑاہٹ کی آواز سنائی دی ۔ مجھے یوں دکھائی دیا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک سفید ریشمی چادر پھیلادی گئی ہے اور ایک کہنے والے کو سنا وہ کہ رہا ہے کہ انہیں لوگوں کی نظروں سے چھپا کر رکھو ۔ مجھے مردوں کی ایک جماعت دکھائی دی جو آسمان پر کھڑےہیں ان کے ہاتھ میں چاندی کے سفید لوٹے ہیں۔ میں نے پرندوں کی ایک ٹکڑی دیکھی جو میرے مکان کی چھت پر بیٹھ گئی ،ان کی آمد سے میرے مکا ن کی چھت بھرگئی، ان کی چونچیں سبز زمرد اور پَریاقوت سے بنے ہوئے تھے ۔میں نے نگاہ اٹھائی تو مجھے مشرق و مغرب کے افق دکھائی دیے جہاں عَلَم لہرارہے تھے۔38 ایک عَلَم مشرق ، دوسرامغرب میں تھا اور مجھےا یک علم کعبہ کی چھت پر لہراتا نظر آیا۔39
اسی حوالہ سے حضرت عباس نے اپنی بیان کردہ حدیث کو کچھ اضافہ کے ساتھ بیان کیا ہے۔چنانچہ ان سے مروی ایک روایت میں منقول ہے:
قلت يا آمنة ما الذى رأيت فى ولادتك من علامة ھذا الصبى فقالت رأيت علما من سندس على قضب من ياقوت قد ضرب بين السماء والارض ورأيت نورا ساطعا من رأسه قدبلغ السماء ورأيت قصورالشام كلھا شعلت ناراورأيت سربا من القطا قد سجدت له ونشرت اجنحتھا ورأيت تابعة شعيرة الاسدية قدمرت وھى تقول مالقى الاصنام والكھان من ولدك ھذا ھلكت شعيرة والويل للاصنام ثم الويل لھا ورایت شابا من اتم الناس طولا وشدھم بیاضا فاخذ المولود منى فتفل فى فیه ومعه طاس من ذھب فشق بطنه ثم اخرج قلبه فشقه شقا فاخرج منه نکتة سوداء فرمى بھا ثم اخرج صرة من حریر اخضر ففتحھا فاذا فیھا شئى كالدرة البیضاى فحشاہ به رضى اللّٰه عنه رده الى مکانه ثم مسح على بطنه فاستیقظ فنطق فلم افھم ماقال الا انه قال انت فى امان اللّٰه وحفظ اللّٰه وكلاء ته قد حشوتک علما وحلما ویقینا وایمانا وعقلا وشجاعة وانت خیر البشر فطوبى لمن اتبعک وآمن بک وعرفک والویل ثم الویل قلھا سبع مرات لمن تخلف عنک وخرج منھا ولم یعرفک ثم تفل فیه اخرى تفلة شدیدة ثم ضرب الارض ضربة فاذا ھو بماى اشد بیاضا من اللبن فغمسه فى ذلك ثلاث غمسات فماظںنت الا انه قد غرق ومامن مرة یخرجه الارأيت ضوء وجھه كالشمس الطالعة ولقد رأيت بريق وجھه يقع على قصور الشام كوقوع الشمس ثم قال امرنى ربى عزوجل ان انفخ فيك بروح القدس فنفخ فيه فالبسه قميصا فقال ھذا امانك من آفات الدنيا.40
میں(یعنی حضرت عباس) نے حضرت آمنہ سے پوچھا اے آمنہ! اس مبارک بچے کی ولادت کے وقت آپ نے کیادیکھا؟ آپ نے فرمایا اے عباس! میں نے سندس کا ایک جھنڈا دیکھا جو یا قوت کے بانس پر لہرا رہا تھا ،وہ زمین اور آسمان کے درمیان معلق تھا۔میں نے آپ کے سَر مبارک پر نور کو پھیلتے ہوئے دیکھا حتیٰ کہ وہ نورِ مبارک آسمان تک پہنچ گیا۔ میں نے اس نور میں شام کے محلات کو دیکھا کہ وہ تمام کے تمام شعلہ زن تھے۔ پھر میں نے کو نجوں کے ایک ڈار کو دیکھا جنہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور اپنے پروں کو پھڑ پھڑایا ۔اس کے بعد میں نے"شعیرۃ الاسدیۃ"کو دیکھا وہ یہ کہتی ہوئی جارہی تھی کہ کہانت اور بت پرستی کو آپ کے بچے کی ولادت سے جو نقصان ہوا اس نے شعیرہ کو ہلاک کردیا ہے ۔بت پرستی کے لیے ہلاکت ہو پھر دوبارہ بت پرستی کے لیے ہلاکت ہو۔ میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جو لوگوں میں سب سے زیادہ لمبا اور سب سے زیادہ سفید تھا ،اس نے مجھ سے میرے لخت جگر کو پکڑ لیا، اس کے منہ مبارک میں لعاب دہن لگایا اس کے پاس سونے کا ایک طشت تھا۔ اس نے آپ کے بطن ِمبارک کو شق کیا پھر آپ کے قلبِ مبارک کو نکالا پھر قلب کو شق کیا۔ اس میں سے کالے رنگ کا نکتہ نکال کر اس کو پھینک دیا۔ پھر اس نے سرخ رنگ کی تھیلی نکالی اسے کھولا جس میں سفید موتی کی طرح کوئی چیز تھی۔ اس نے اس کے ساتھ آپ کے قلب کو بھر دیا، پھر اس نے آپ کو اپنی جگہ پر لوٹا دیا۔ اس نے آپ کے پیٹ مبارک پر ہاتھ پھیرا تو حضور مکرم نیند سے بیدار ہوئے، آپ محو کلام ہوئے لیکن میں آپ کے کلام کونہ سمجھ سکی۔ اس شخص نے آپ سے کہا "اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے میں نے آپ کے دل مبارک کو علم ، حلم، یقین، ایمان ، عقل اور شجاعت سے لبریز کردیا ہے آپ تمام انسانوں سے بہترین ہیں خوشخبری ہو اس شخص کے لیے جس نے آپ کی پیروی کی، آپ پر ایمان لایا اور آپ کا عرفان حاصل کیا پھر ہلاکت ہو ہلاکت ہو( اس نے یہ سات(7) مرتبہ کہا)اس شخص کے لیے جس نے آپ کی مخالفت کی اور آپ کو نہ پہچانا"۔ پھر اس نوجوان نے آپ پر اپنا لعاب دہن لگایا۔ زمین پر ایک شدید چوٹ لگائی۔ زمین میں سے دودھ کی طرح سفید پانی نکل آیا، اس نے آپ کو اس پانی میں تین دفعہ غوطہ دیا۔ میں نے یہی گمان کیا کہ آپ ڈوب گئے ہیں لیکن وہ نوجوان جب بھی آپ کو غوطہ دے کر نکالتا میں دیکھتی کہ آپ کے چہرے کی نورانیت درخشاں آفتاب کی طرح ہوگئی ہے میں نے آپ کے چہرۂ اقدس میں ایک روشنی دیکھی جو شام کے محلات پر اس طرح پڑ رہی تھی جس طرح سورج کی روشنی پڑتی ہے ۔پھر اس نوجوان نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ میں "روح " پھونک دوں اس نے آپ میں "روح " کو پھونکااور ایک قمیص آپ کو پہنائی اور کہا کہ یہ دنیا کی آفات سے آپ کے لیے امان ہے۔41
مذکور رہ بالا روایت کو ابن کثیر نے بھی کچھ مختلف جزئیات کے ساتھ نقل کیا ہےچنانچہ وہ اس روایت کو نقل کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وإنى لوحيدة فى المنزل وعبد المطلب فى طوافه، قالت: فسمعت وجبة شديدة، وأمرا عظيما، فھالنى ذلك،وذلك يوم الإثنين، ورايت كان جناح طير أبيض قد مسح على فؤادى فذھب كل رعب وكل فزع ووجل كنت أجد، ثم التفت فإذا أنا بشربة بيضاء ظنتھا لبنا، وكنت عطشانة، فتناولتھا فشربتھا فأصابنى نور عال، ثم رأيت نسوة كالنحل الطوال، كانھن من بنات عبد المطلب يحدقن بى، فبينا أنا أعجب وأقول: واغوثاه من أين علمن بى؟واشتد بى الأمر وأنا أسمع الوجبة فى كل ساعة أعظم وأھول، وإذا أنا بديباج أبيض قد مدبين السماء والأرض، وإذا قائل يقول: خذوه عن أعين الناس، قالت: رأيت رجالا وقفوا فى الھواء بأيديھم أباريق فضة وأنا يرشح منى عرق كالجمان، أطيب ريحا من المسك الأزفر، وأنا أقول: يا ليت عبد المطلب قد دخل على، قالت: ورأيت قطعة من الطير قد أقبلت من حيث لا أشعر حتى غطت حجرتى، مناقيرھا من الزمرد، وأجنحتھا من اليواقيت، فكشف اللّٰه لى عن بصيرتى، فأبصرت من ساعتيى مشارق الأرض ومغاربھا، ورأيت ثلاث علامات مضروبات، علم بالمشرق، وعلم بالمغرب، وعلم على ظھر الكعبة، فأخذنى المخاض واشتدبى الطلق جدا، فكنت كأنى مسندة إلى أر كان النساء، وكثرن على حتى كأنى مع البيت وأنا لا أرى شيئا، فولدت محمدا، فلما خرج من بطنى درت فنظرت إليه فإذا ھو ساجد وقد رفع أصبعيه كالمتضرع المبتھل، ثم رأيت سحابة بيضاء قد أقبلت من السماء تنزل حتى غشيته، فغيب عن عينى، فسمعت مناديا ينادى يقول: طوفوا بمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم شرق الأرض وغربھا، وأدخلوه البحار كلھا، ليعرفوه باسمه ونعته وصورته.42
(حضرت آمنہ فرماتی ہیں) میں گھر میں اکیلی تھی اور جناب عبد المطلب طواف کرنے گئے تھے ، تو ایک ایسے زبردست دھماکے کی آواز سنی ، کہ میں ڈر گئی ، پھر میں نے یوں محسوس کیا ، کہ سفید پرندوں نے اپنے بازؤوں سے میرے دل کو چھوا، تو دہشت اور درد کاملاً جاتا رہا۔ پھر میں نے غور کیا ، تو مجھے سفید رنگ کا شربت پیش کیا گیا ، میں پی گئی ،اور میں نے اپنے اندر زبردست خدائی تجلی محسوس کی ۔ بعدہٗ میں نے کئی بلند بالا عورتیں ، جو عبد مناف کی عورتوں کی طرح تھیں دیکھیں۔ جو مجھے گھیرے ہوئے تھیں ، دریں حال میں حیران تھی اور واویلا کر رہی تھی کہ انہیں میرے بارے میں کس نے بتایا ہے،وہ کہنے لگیں کہ ہم میں فلاں خاتون آسیہ زوجۂ فرعون اور فلاں مریم دُختر ِعمران ہے ،اور باقی بہشت کی حوریں ہیں ۔ میری حالت مزید بگڑ گئی ، میں نے دیکھا کہ ایک چادرزمین و آسمان کے درمیان تان دی گئی ۔ میں نے ایک شخص کو کہتے سنا ۔ لوگوں کی نگاہ آپ پر نہ پڑنے دو، پھر میں نے کچھ لوگوں کو اوپر فضامیں کھڑا دیکھا، جن کے ہاتھوں میں چاندی کے لوٹے تھے ۔ پھر میں نے پرندوں کا ایک غول دیکھا ،جنہوں نے میرے حجرےکو گھیر لیا، ان کی چونچیں زمرد کی تھیں اور بازو یاقوت کے تھے ۔ اللہ نے میری آنکھوں سے پردہ اٹھادیا۔ چنانچہ میں نے مشرق و مغرب کا مشاہدہ کیا اور تین جھنڈے گڑے دیکھے ۔ ایک مشرق میں ، ایک مغرب میں اور ایک کعبے کی چھت پر ۔ اس حال میں مجھے درد زہ شروع ہوگیااور شدت اختیار کرگیا، مجھے ایسا محسوس ہواگویا کہ میں ان خواتین کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی ہوں ۔میرے ارد گرد بہت سی عورتیں جمع ہوگئیں گویا کہ وہ سب میرے گھر کی ہی فرد ہوں۔ یہاں تک کہ آپ کی ولادت ہوئی ، دیکھا کہ آپ سجدے میں پڑے ہیں ، اور آپ نے اپنی انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائی ہوئی ہیں ، جیسے کوئی عجز و نیاز سے زاری کرتا ہے ۔ پھر میں نے آسمان سے سفید بادل آتا دیکھا ،جس نے آپ کو ڈھانپ لیا اور میری نگاہوں سے چھپا لیا۔ پھر میں نے سنا ، ایک منادی کرنے والا کہہ رہا تھا ۔ کہ آپ کو مشرق و مغرب میں ہر طرف گھماؤ۔ سمندروں میں لے جاؤ، تاکہ سب آپ کے نام ،ا وصاف اور شکل و شباہت سے واقف ہو جائیں ۔
اسی طرح کی دیگر روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سیّدہ آمنہ نے دورانِ ولادت کئی طرح کی مختلف اشیاء اور مختلف ذواتِ مقدسہ کو دیکھا جن میں وہ چند جنتی عورتیں بھی شامل ہیں جن کا ماقبل میں ذکر ہوا ہے۔
جن عورتوں کو حضرت سیّدہ آمنہ نے بوقتِ ولادت اپنے پاس دیکھا تھا ان کے بارے میں آپکے حوالہ سے شیخ حلبیتحریر فرماتے ہیں:
أنھا قالت لما أخذنى ما يأخذ النساء أى عند الولادة وإنى لوحيدة فى المنزل رأيت نسوة كالنخل طولا كأنھن من بنات عبد مناف يحدقن بى....ما رأيت أضوأ منھن وجوھا، وكان واحدة من النساء تقدمت إلى فاستندت إليھا، وأخذنى المخاض، واشتد على الطلق، وكان واحدة منھن تقدمت إلى وناولتنى شربة من الماء أشد بياضا من اللبن وأبرد من الثلج وأحلى من الشھد، فقالت لى: اشربى فشربت، ثم قالت الثالثة: ازدادى فازددت، ثم مسحت بيدھا على بطنى وقالت: بسم اللّٰه اخرج بإذن اللّٰه تعالى، فقلن لى: أى تلك النسوة: ونحن آسية امرأة فرعون، ومريم بنت عمران، وھؤلاء من الحور العين.43
حضرت آمنہ فرماتی ہیں جب میں اس تکلیف میں مبتلا ہوئی جو ایسے وقت میں عورتوں کو ہوتی ہے تو اس وقت میں گھر میں اکیلی تھی مگر پھر میں نے کچھ عورتوں کو دیکھا جو کھجور کے درخت کی طرح لمبی ڈیل ڈول کی تھیں بالکل ایسی جیسے عبد مناف کے خاندان کی عورتیں ہوں اور یہ سب عورتیں میرے چاروں طرف جمع ہوگئیں۔۔۔ ان عورتوں کے چہرے ایسے چمک دار اور روشن تھے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے، پھر ان عورتوں میں سے ایک بڑھ کرمیرے قریب آگئی اور میں اس کا سہارا لے کربیٹھ گئی، اس کے بعد مجھے دردِزہ ہوا اور تکلیف بڑھ گئی، پھر ایسا معلوم ہو ا جیسے ان عورتوں میں سے ایک میرے پاس تھوڑا سا پانی لے کر آئی جو دودھ سے زیادہ سفید تھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہدسے زیادہ میٹھا تھا، پھر اس نے مجھ سے کہا کہ اسے پی لو، میں نے وہ شربت پی لیا، پھر تیسری عورت نے کہا اور پیو، میں نے تھوڑا اور پی لیا، اس کے بعد اس نے میرے پیٹ پر ہاتھ پھیر ا اور کہا ۔"بِسْمِ اللہِ! اللہ کے حکم سے باہر44 تشریف لے آئیں"۔ اس حالت میں حضور نبی کریم پیدا ہوئے۔ میں نے دیکھا تو آپ سربسجود تھے اور اپنی انگشت شہادت آسمانوں کی طرف اٹھائی،یوں محسوس ہوتا تھا جیسے روکر التجا کی جارہی ہو۔ اس کے بعد ان عورتوں نے مجھے بتلایا کہ ہم میں سے ایک فرعون کی بیوی آسیہ ہے اور ایک عیسیٰ کی والدہ مریم بنت عمران ہیں اور ان کےساتھ جنت کی حوریں ہیں۔45
یعنی یہ خواتین نبی اکرم کی والدہ کے پاس اس لیے تشریف لائیں کہ انہیں اطمینان و انسیت حاصل رہے اور ان کی پریشانی میں کمی واقع ہو۔
مذکورہ بالا مشاہدات کے علاوہ بھی کچھ مزید مشاہدات حضرت سیّدہ آمنہ نے ملاحظہ فرمائے چنانچہ آپ کے حوالہ سے جمال الدین سرمری تحریر فرماتے ہیں:
قالت: بينا أنا أتعجب من ذلك إذا بثلاثة نفر ظننت أن الشمس تطلع من خلال وجوھھم فى يد الواحد منھم إبريق من فضة وفى الإبريق ريح كريح المسك وفى يد الثانى طست من زمرذ خضراء لھا أربع نواحى وعلى كل ناحية من نواحيھا لؤلؤة بيضاء وإذا قائل يقول: ھذه الدنيا شرقھا وغربھا وبرھا وبحرھا فاقبض ياحبيب اللّٰه على أى ناحية شئت منھا قالت: فنظرت فإذا ھو قابض على وسطھا فسمعت قائلا يقول: قبض على الكعبة ورب الكعبة أما إن اللّٰه تعالى قد جعلھا لك قبلة ومسكنا ورأيت على يد الثالث حريرة بيضاء قد طويت طيا شديدا فنشرھا فأخرج منھا خاتما تحار أبصار الناظرين دونه فأخذه صاحب الطست وأنا أنظر إليه فغسله بماء الإبريق سبع مرات ثم ختم بالخاتم بين كتفيه ختما واحدا ولفه فى الحريرة واستدار عليه بخيط من المسك الأذفر ثم حمله فأدخله بين أجنحته ساعة قال ابن عباس رضى اللّٰه عنھما: كان ذلك رضوان خازن الجنان قالت وقرأ فى أذنه كلاما كثيرا لم أفھمه وقبل بين عينيه وقال له أبشر: يا محمد فما بقى لنبى علم إلا وقد أعطيته وانت أكثرھم علما وأشجعھم قلبا معك مفاتيح النصر وقد أعطيت الأمن من الخوف والرعب.46
حضرت سیّد ہ آمنہ فرماتی ہیں کہ مجھے تین شخص نظر آئے، ان کے چہرے آفتاب سے زیادہ روشن تھے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کاکوزہ تھاجس میں سے کستوری کی خوشبو آرہی تھی۔ دوسرے ہاتھ میں زمردکاایک طشت تھاجس کے چار پہلو تھے،ہر پہلو پر سفید موتی جڑا ہوا تھا، کسی کہنے والے نے کہاکہ یہ دنیاہے جس کی حدود مشرق ومغرب اور بحروبر میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اے حبیب خدا آپ جو کچھ چاہیں قبول کرلیں۔ پھر مجھےایک کہنے والے نے کہاکہ آج سےکعبۃ اللہ کو عظمت ملی ہے کیونکہ حضور کی وجہ سے یہ قبلۂ امت محمدیہ بنے گا ۔میں نےبچہ کے ہاتھ میں سبز ریشم کا ٹکڑا دیکھا، یہ ریشم نور سے بھرپور تھا۔ جب حضور نے آنکھیں کھولیں تو سامنے ایک ایسی انگشتری رکھی دکھائی دی کہ دیکھنے والی آنکھیں خیرہ رہ گئیں، جس کو اس کوزے کے سفید پانی سے سات باردھویا گیا۔ حضور کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر ِنبوت رکھی گئی اس پر ریشم کا ٹکڑا اور مشکِ اذفر کی دو تاریں باندھ دی گئیں اور پھر ا س بچہ کو میری گود میں رکھا گیا۔آپفرماتی ہیں کہ خازنِ جنت حضرت رضوان بھی اسی حالت میں حاضر ہوئے اور حضور کے کانوں میں تیز تیز باتیں کرتے جاتے تھے، مجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں ۔پھر آپ کی دونوں آ نکھوں کے درمیان بوسہ دےکر کہنے لگے۔ حضور آپ کو مبارک ہو! پیغمبری کا کوئی ایسا علم نہیں جو آپ کوعنایت نہ کیا گیا ہو۔ آپ علم میں سب پیغمبروں سے برتر ہیں ۔آپ شجاعت میں سب سے زیادہ بہادر ہیں ۔ آپ کے ہاتھ میں اللہ کی فتح کی کنجیاں ہیں، اب آپ کو کسی قسم کا ڈر یاخوف نہیں ہونا چاہیے ۔
اسی طرح کی ایک اور روایت میں ایک اور شخص کے بارے میں ذکر ہے جس نے آپ سے گفتگو بھی کی چنانچہ حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ ایک اور شخص داخل ہوا تو اس نے تو پہلوں سے بھی زیادہ بات کی۔ حضور کے منہ پر منہ رکھ دیا اور چومنے لگا جس طرح کبوتر اپنے بچے کی چونچ پر چونچ رکھتا ہے۔ میں دیکھتی رہی وہ محمد محمد( ) کہہ کر پکارے جاتا پھر کہتا" زِدنی زِدنی"اور ساتھ ہی انگلی سے اشارہ کرتا ، پھر چومتا، کہتا اچھا دوست تمہیں مبارک ہو۔ تجھے پیغمبروں کی حلیمی عنایت کی گئی ہے۔ اس نےحضور کو اٹھایا اور میری نظروں سے غائب کردیا میر ا دل دھڑکنے لگا،میں نے کہا اے قریش آج کی رات میرے بچے کی ولادت ہے جو آتا ہے جو چاہتا ہے بچے کے ساتھ کرتا ہے،میں بے بس ہوں میرے قبیلے کا کوئی فرد میرے پاس نہیں، میں ان عجائبات میں گھری ہوئی ہوں۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ بچے کو پھر میرے پہلو میں لاکر رکھا گیا جبکہ آپ کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح درخشندہ تھا۔ حضور کےجسم معطر سے کستوری سے بھی لطیف تر خوشبو مہکتی تھی۔ اتنے میں آوازآئی کہ بچے کولے لو ہم نے اسےمشرق و مغرب میں گھمالیا ہے،تمام پیغمبروں کے سامنے لے گئے ہیں، ابھی ابھی اپنے باپ حضرت آدم کے پاس تھا اور انہوں نے آپ کو گودمیں لیا اور ددنوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا تھااور کہا تھا تم میرے بیٹوں کے سردار ہو،اولین و آخرین کے سردار ہو، تمہیں دنیا کی عزت اور آخرت کا شرف مبارک ہو، جو شخص آ پ کے دین پر ہوگا قیامت کے دن محترم ہوگا ۔اہل ایمان آپ کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، یہ بات کہتے ہوئے بچہ میرے حوالے کیا اور نظروں سے غائب ہوگیا اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا۔47
اسی طرح مشاہداتِ حضرت سیّد ہ آمنہ کوبیان کرتے ہوئے صاحب امتاع تحریر فرماتے ہیں:
ثم أقبلت سحابة أخرى أعظم من الأولى ونور، يسمع منھا صھيل الخيل وخفقان الأجنحة من كل مكان، وكلام الرجال، حتى غشيته فغيب عنى أطول وأكثر من المرة الأولى، فسمعت مناديا ينادى ويقول: طوفوا بمحمد الشرق والغرب على مواليد النبيين، واعرضوه على كل روحانى من الجن والإنس والطير والسباع، وأعطوه صفاء آدم، ورقة نوح، وخلة إبراھيم، ولسان إسماعيل، وصبر يعقوب، وجمال يوسف، وصوت داود، وصبر أيوب، وزھد يحى، وكرم عيسى، واعمروه فى أخلاق الأنبياءثم تجلت عنه فى أسرع من طرف العين، فإذا به قد قبض على حريرة خضراء، مطوية طيا شديدا، ينبع من تلك الحريرة ماء معين، وإذا قائل يقول: بخ بخ، قبض محمد على الدنيا كلھا، لم يبق خلق من أھلھا إلا دخل فى قبضته طائعا بإذن اللّٰه تعالى.48
پھر تھوڑی دیرکے بعد ایک اور بادل کا ٹکڑا دکھائی دیا، وہ پہلے سے بڑا بھی تھااور نورانی بھی۔ مجھے اس بادل سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں سنائی دیں،پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دی اور لوگوں کی مختلف باتیں۔ پھر دوبارہ حضور میری نظروں سے غائب ہوگئے اور اس دفعہ کا وقفہ پہلے وقفہ سے زیادہ تھا۔ کسی منادی دینے والے نے کہاکہ (سیّد نا) محمد کو مشرق و مغرب میں لے جاؤ۔ تمام پیغمبروں کے سامنے لے جاؤ، تمام روحوں کو زیارت سے مشرف ہونے دو،جن و انس طیورو حوش، چرند، پرندحضور کو دیکھ لیں، اس بچے کوحضرت آدم کی صفات، حضرت نوح کی رقت، حضرت ابراہیم کی خلت،حضرت اسماعیل کی لسانی فصاحت، حضرت یوسف کا جمال ، حضرت یعقوب کی بشارت،حضرت داؤد کی خوش آواز، حضرت ایوب کاصبر، حضرت یحییٰ کا زہد اور حضرت عیسیٰ کا کرم دےدو۔ تمام پیغمبروں کے اخلاق کویکجا کرکے فطرت(سیّد نا) محمد میں رکھ دو ۔بادل کا یہ ٹکڑا بھی غائب ہوگیا اور میں نے دیکھاکہ ایک سبز ریشمی کپڑے میں جس سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھےحضور میرے پاس ہیں۔ مجھے ایک منادی کی مزید آواز آئی کہ مبارک ہو، محمدمصطفی دنیا میں تشریف لارہے ہیں۔ دنیا بھر کی مخلوق اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے آج سے ا ٓپ کے قبضہ میں ہے ۔
اسی طرح خطیب بغدادی کے حوالہ سے مذکورہ بالا روایت کو صاحب الخمیس نے بھی نقل کیا ہے49جس سےیہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم کی ولادت کے وقت حضرت سیّد ہ آمنہ نے کئی طرح کے واقعات و معجزات کا مشاہدہ کیا اور انہیں اپنے قریبی افراد سے بیان بھی کیا۔
حضور اکرم کوولادت کے بعد زمین کے مشرق ومغرب میں اور اسی طرح سمندر میں لیجا یاگیا تاکہ خلقِ خدا آپ سے متعارف ہوجائےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی تحریر فرماتے ہیں:
رأیت سحابة بیضاء قد اقبلت من السماء نزلت حتی غشیته فغیب عن وجھى فسمعت منادیا ینادى ویقول طوفوا بمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم شرق الارض وغربھا وادخلوه البحار كلھا عیرفوہ باسمه ونعته وصورته ویعلموا انه یسمى فیھا االماحى لایبقى شئى من الشرک الا محى به ثم تجلت عنه فى اسرع وقت فأذاانا به. مدرج فى ثوب صوف ابیض اشد بیاضا من اللبن وتحته حریرة خضراء وقد قبض على ثلاثة مفاتیح من الؤلؤ الرطب الابیض واذا قائل یقول قبض محمد صلى اللّٰه عليه وسلم على مفتاح النصرة ومفتاح الریح ومفتاح النبوة.50
(حضرت سیّد ہ آمنہ بیان فرماتی ہیں :)پھر میں نے دیکھا کہ سفید رنگ کا بادل آسمان کی طرف سے آیا۔ اس نے حضور مکرم کو ڈھانپ لیا۔آپ مجھ سے غائب ہوگئے، میں نے ایک ندا کرنے والے کی ندا کو سنا وہ یہ صدا لگا رہا تھا کہ محمد ( )کو زمین کے مشرق اور مغرب میں لے جاؤ۔ انہیں سمندروں کی بھی سیر کراؤتاکہ یہ سب بھی آپ کے اسم مبارک، نعت اور شکل مبارک سے آشنا ہوجائیں اوریہ بھی انہیں معلوم ہوجائے کہ سمندروں میں آپ کا نامِ مبارک "ماحی "ہےیعنی شرک آپ کی بدولت مٹ جائے گا۔پھر تھوڑی دیرکے بعد وہ بادل چھٹ گیا اور محمد مصطفیٰ کو میں نےسفید صوف میں لپٹا ہوادیکھا جو دودھ سے زیادہ صاف اور ریشم سے زیادہ نرم تھا۔آپ کے نیچے سبز رنگ کا ریشم تھا۔حضور نے سفید رنگ کی تین چابیوں کو پکڑ لیا،منادی کرنے والے نے ندا کی کہ محمد عربی نے نصرت،منافع اور نبوت کی چابیوں پر قبضہ کرلیا ہے۔51
پھرحضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ آپ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہے ہیں اور آپ سے خالص کستوری کی خوشبو آرہی ہے ۔ اتنے میں میں نے تین آدمی دیکھے، ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا، دوسرے کے ہاتھ میں زمردکا تھال اور تیسرے کے پاس سفید ریشمی کپڑا تھا ۔ کپڑے کو کھولا ، تو اس میں سے ایک ایسی انگوٹھی نکلی ،جسے دیکھنے سے آنکھیں چندھیا جاتیں ۔ اس نے آپ کو لوٹے سے سات مرتبہ نہلایا، آپ کے کندھوں کے درمیان مہر لگائی اور آپ کو ریشمی کپڑےمیں لپیٹا ، تھوڑی دیر کے لیے اپنے پیروں کے نیچے رکھا اور پھر مجھے واپس کر دیا۔52
جس طرح نبی کریم کی ولادت کے دوران دیگر کئی کمالات ومعجزات رونماہوئے اسی طرح آپ کی ولادت بھی باقاعدہ ایک انفرادیت اور نمایاں طرز سے ہوئی ہے۔سب سےپہلے تو یہ کہ رسول اکرم کی ولادت بالکل صاف و شفاف ہوئی ہے ۔چنانچہ اس حوالہ سے صاحبِ سبل الھدی تحریری فرماتے ہیں:
عن إسحاق بن أبى طلحة مرسلاً رحمه اللّٰه تعالى أن آمنة قالت: وضعته نظيفاً، ما ولدته كما يولد السّخل، ما به قذر.53
اسحاق بن ابو طلحہ سے مرسلاروایت یہ کہ حضرت آمنہبیان فرماتی ہیں:میں نے انہیں(رسول کریم )کو ستھرا پیدا کیا ہے ایسے پیدا نہیں کیا جیسا کہ بکری کا بچہ پیدا ہوتا ہے ،دورانِ ولادت ان کے ساتھ کسی قسم کی نا مناسب چیز نہیں تھی۔
اسی طرح حضرت صفیہ بیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے آپ کو نہلانے کاا رادہ کیا تو آواز آئی: اے صفیہ! ہم نےاپنے محبوب کو پاک صاف پیدا کیا ہے۔54
رسول اکرم نے اپنی ولادت کے دوران چند کلمات بھی ادا فرمائے ہیں جنہیں مختلف کتب سیر میں مختلف انداز اور کلمات کے ساتھ نقل کیا گیا ہے چنانچہ ابو نعیم نے اس حوالہ سے ایک روایت کو عبد الرحمٰن بن عوف کی والدہ الشفاء کے حوالہ سے اپنی "دلائل" میں نقل کیا ہے جس میں مذکور ہے:
قالت أى الشفاء بنت عمرو: لما ولدت آمنة محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم وقع على يدى، فاستھل، فسمعت قائلا يقول: رحمك ربك، قالت الشفاء: فأضاء لى مابين المشرق والمغرب، حتى نظرت إلى بعض قصور الشام، قالت: ثم ألبنته، وأضجعته.55
میری والدہ شفاء بنت عمروفرماتی ہیں کہ حضرت سیّد ہ آمنہ نے حضور کو جنا تو آپ میرے ہاتھوں پر تشریف لائےپھر آپ نے بلند آواز سے تسبیح بیان کی ۔پھر میں نے ایک شخص کو کہتے سناکہ آپ پر خدا کی رحمت ہو ۔ پھر مشرق و مغرب تک ساری دنیا چمک اٹھی یہاں تک کہ میں نے شام کے بعض محلات دیکھ لیے ۔ بعدمیں ہم نےہی آپ کو کپڑے میں لپیٹا اور لٹا دیا۔
اسی طرح مروی ہے کہ حضرت صفیہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول کریم پیداہوئےتوسب سے پہلے آپ نے سجدہ فرمایا اور پھر فصیح و بلیغ زبان میں "لَا اِلٰه اِلَّا اللّٰه اِنِّى رَسُولُ اللّه" پڑھا۔میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ کے نور سے تمام گھر روشن ہوگیا۔56
اسی طرح اس حوالہ سےامام سہیلی سے نقل کرتے ہوئے شيخ احمد حلبی تحریرفرماتے ہیں:
أنه صلى اللّٰه عليه وسلم لما ولد تكلم، فقال: جلال ربي الرفيع وروي أن أول ما تكلم به لما ولدته أمه حين خروجه من بطنھا اللّٰه اكبر كبيرا والحمد للّٰه كثيرا وسبحان اللّٰه بكرة وأصيلا.57
بلا شبہ نبی کریم جب پیدا ہوئے تو آپ نے یہ کلام فرمایا:میرے رب کی بزرگی بلند ہے اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ بے شک جب نبی کریم کو ان کی والدہ محترمہ نے جنا تو آپ نے سب سے پہلے یہ کلام فرمایا:ا للہ سب سے بڑا ہے اور تمام تعریفیں کثرت کے ساتھ اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے لیے صبح و شام ہر عیب سے پاکی ہے ۔
ان روایات میں قدرِ مشترک بات یہ ہے کہ رسول کریم نے سب سے پہلے اس دنیا میں آکر اللہ تبار ک وتعالیٰ کی حمد وستائش بیان فرمائی ہے جو کہ انبیاء کرام کا وظیفۂ حیات ہے۔
اسی طرح نبی کریم نے نہ صرف تسبیح و تہلیل بیان فرمائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے پیدا ہوتے ہی ہاتھوں کوزمین پر رکھ کر سرانور کو آسمان کی طرف بلند بھی فرمایاگویا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدو ستائش کے ساتھ ساتھ اس کی بارگاہ ربوبیت میں سجدہ ریزی بھی فرمانا چاہتے ہوں چنانچہ اس حوالہ سے حافظ ابو نعیم دلائل میں تحریرفرماتے ہیں:
فلما وضعته نارت الظراب لوضعه، واتقى الأرض بكفيه، حين وقع، وأصبح يتأمل السماء بعينيه، وكفأن عليه برمة ضخمة، فانفلقت عنه فلقتين.58
جب حضرت آمنہ نے آپ کو جنا تو آپ کی پیدائش کی وجہ سے بلندٹیلے روشن ہوگئے اورآپ نےاپنی ہتھیلیوں سمیت زمین پر ٹیک لگایا۔( گویا کہ سجدہ کی حالت میں ہوں)اور صبح کے وقت آپ کی آنکھیں آسمان کی جانب مرکوز تھیں۔(عورتوں نے) آپ پر عرب کے رواج کے مطابق ایک ہانڈی رکھدی تو (جب آپ کو دیکھا گیا )تو اس ہانڈی کے دوٹکرے ہوچکے تھے۔
اس واقعہ کو ابن حبان 59اورصاحب سبل الھدی نے بھی اپنی کتاب میں اسی طرح نقل فرمایاہے۔ 60 اسی طرح اس حوالہ سے شیخ حلبی ان روایات کو نقل کرتےاوراس پر تبصرہ کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ولما ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وقع على الأرض مقبوضة أصابع يده يشير بالسبابة كالمسبح بھا أقول: وفى رواية عن أمه أنھا قالت «لما خرج من بطنى نظرت إليه، فإذا ھو ساجد قد رفع أصبعيه كالمتضرع المبتھل ولا مخالفة، لجواز أن يراد بأصبعيه السبابتان من اليدين، وفى سجوده إشارة إلى أن مبدأ أمره على القرب من الحضرة الإلھية قال وروى ابن سعدأنه صلى اللّٰه عليه وسلم لما ولد وقع على يديه رافعا رأسه إلى السماء وفى رواية وقع على كفيه وركبتيه شاخصا ببصره إلى السماء.61
جب آنحضرت پیدا ہوئے تو زمین پر اس طرح تشریف لائے کہ آپ کی مٹھی بند تھی اور شہادت کی انگلی اس طرح اٹھی ہوئی تھی جس طرح اس سے تسبیح(یعنی نماز میں خدا کی وحدانیت کا اشارہ)کیا کرتے ہیں ۔ ميں(شيخ حلبی)کہتا ہوں کہ ایک روایت میں منقول ہے کہ آنحضرت کی والدہ فرماتی ہیں کہ آپ کی پیدائش کے بعد جب میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ سجدہ میں تھے اور آپ نے اپنی انگلیاں اس طرح اٹھارکھی تھیں جیسے کوئی انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرنے والا ہوتا ہے ۔ ان روایتوں میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ ممکن ہے انگلیوں سے دونوں ہاتھوں کی شہادت کی انگلیاں مراد ہوں ۔ پیدائش کے وقت آپ کے سجدے کی حالت میں ہونے سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ کی پاکیزہ زندگی کی ابتداء ہی اللہ تعالیٰ سے قرب کے ساتھ ہے۔جبکہ ابن سعد سے روایت ہے کہ حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ جب آپ پیدا ہوئے توآپ اپنے ہاتھوں کےبل زمین کی طرف مائل تھے۔ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ آپ اپنی ہتھیلیوں اور گھٹنوں کے بل جھکے ہوئے تھے اور آپ کی نگاہیں آسمان کی طر ف بلندتھیں۔ 62
ابنِ ہشام نے بھی وقت ولادت آپ کے ہاتھ کے بل جھکے ہونے اور سرِ مبارک آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے ہونےکا تذکرہ کیا ہے۔63 اسی طرح اس حوالہ سے صاحب سبل الھدی تحریر فرماتے ہیں:
وروى ابن سعد وأبو نعيم بسند قوى عن حسان بن عطية أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لما ولد وقع على كفيه وركبتيه شاخصاً ببصره إلى السماء زاد السّهيلي: مقبوضة أصابع يده مشيراً بالسبّابة كالمسبّح بھا.64
ابن سعداور ابو نعیم نے قوی سند سے حسان بن عطیۃ سے روایت کیا ہے کہ جب حضور کی ولادت ہوئی تو آپ اپنی ہتھیلیوں اور گھٹنوں کے بل زمین پر تشریف لائے اور آپ کی نظر مبارک آسمان کی طرف تھی۔ امام سہیلی نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ کے ہاتھ مبارک کی انگلیاں بند تھیں صرف سبابہ سے آپ یوں اشارہ فرمارہے تھے گویاکہ تسبیح بیان فرمارہے ہوں۔65
اسی طرح آنحضرت کے پیدائش کے وقت آسمان کی جانب سر اور نگاہیں اٹھائے ہوئے ہونے کے متعلق قصیدہ ہمزیہ کے مصنف نے اپنے ان شعروں میں اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
رافعا رأسه و فى ذلك الرف عإلى كل سودد إيماء
رامقا طرفه السماء ومرمى عين من شأنه العلو العلاء.66
پیدائش کے وقت آپ اپنا سر اوپر اٹھائے ہوئے تھے اور اس سر کے اٹھانے میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ عظمت اور سرداری والے ہیں ۔ آپ کی نگاہیں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں اور آپ کی نگاہوں کا بلند مرکز آپ کی بلند و بالا شان کا اظہار کر رہا تھا۔67
ان روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم اس دنیامیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور اس کی تسبیح وتہلیل کرتےہوئے پیدا ہوئے اور اس میں اشارہ ہے کہ آپ کی بعثت اسی لیے ہوئی ہے کہ مخلوقِ خدا کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور اس کی تسبیح وتہلیل میں لگادیں۔
رسول کریم کی ولادت کے دوران ان مشاہدات و واقعات کے ملاحظہ کرنے کے بعد حضرت سیّد ہ آمنہ نے اپنے خسر محترم یعنی نبی کریم کے جدّ امجد حضرت عبد المطلب کو بلا بھیجا تا کہ انہیں بھی ان واقعات کے بارے میں بتانے کے ساتھ ساتھ نبی کریم کی ولادت کی خوشخبری دیں۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحاق نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
فلما وضعته، بعثت إلى عبد المطلب جاريتھا....فقالت: قد ولد لك الليلة غلام فانظر إليه، فلما جاءھا، أخبرته خبرہ، وحدثته بما رأت حين حملت به، وما قيل لھا فيه، وما أمرت أن تسميه، فأخذہ عبد المطلب فأدخله فى جوف الكعبة، فقام عبد المطلب يدعو اللّٰه، ويشكر اللّٰه الذى أعطاه إياه.68
جب حضرت سیّد ہ آمنہ نے رسول اللہ کو جنا تو (اس کی اطلاع دینے کے لیے) اپنی کنیز کو (آپ کے دادا)حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا۔۔۔(باندی نے آپ کے پاس جاکر)کہا کہ آپ کے ہاں رات ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوا ہےاسے آکردیکھ لیں۔پھر جب حضرت عبد المطلب حضرت سیّد ہ آمنہ کے پاس تشریف لائے توحضرت آمنہ نےان کو وہ سارے واقعات بتائے جو وقتِ حمل رونما ہوئے تھے،جو آپ کے بارے میں کہا گیاتھا اور جو نامِ نامی رکھنے کے بارے میں انہیں حکم دیا گیا تھا۔حضرت عبد المطلب نے آپ کو اٹھایا اورآپ کو خانہ کعبہ کے اندرلے گئےاور رب تعالی سے دعائیں مانگنے لگے۔اس عطاء خداوندی پر اس کا شکرا دا کرنے لگے۔
ان کےعلاوہ کچھ ایسے شعر بھی کہے جن میں انہوں نے اپنے پوتے آنحضرت کے حسن و جمال کو غلمان کے حسن و جمال سے برتر بتایا اور آپ کی ذاتِ والا صفات اور حیات طیبہ کی برکات سے آئندہ ساری دنیا کو فیض پہنچنے کا خیال بھی ظاہر کیا اور اپنے اس ارادے کا اظہار بھی کیا کہ وہ آپ کو بیت اللہ میں اللہ کی نذر کے طورپر لے جاکر پیش کریں گے۔69
اسی طرح دیگر واقعات کی طرح یہ بھی واقعہ منقول ہے کہ نبی کریم کی ولادت کے وقت بیت اللہ نے سجدہ کیا تھا۔چنانچہ اس حوالہ سے جمال الدین السرمری معجزات ولادت کا ذکرکرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں:
ومنھا: ما ذكر عبدالمطلب أنه كان عند الكعبة ليلة ولادة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قال: لما انتصف الليل إذا أنا بالبيت الحرام قد مال بجوانبه الأربعة فخر ساجدا فى مقام إبراھيم عليه الصلاة والسلام كالرجل الساجد ثم استوى قائما وأنا أسمع له تكبيرا عجيبا ينادى: اللّٰه أكبر رب محمد المصطفى الآن قد طھرنى ربى من أنجاس المشركين وحمية الجاھلية ونظرت إلى الأصنام كلھا تنتفض كما ينتفض الثوب ونظرت إلى الصنم الأعظم ھبل قد أكب على وجھه وسمعت مناديا ينادى: ألا إن آمنة ولدت محمدا صلى اللّٰه عليه وسلم .70
انہی نشانیوں میں سے ایک وہ بھی ہے جسے حضرت عبد المطلب نے بیان کیا ہے کہ وہ رسول کریم کی ولادتِ مبارکہ کی رات خانہ کعبہ میں تھے۔ فرماتے ہیں کہ جب رات کاآخری پہر آیا تومیں بیت الحرم میں ہی تھا اتنے میں خانہ کعبہ اپنے چاروں سمت سمیت جھکا اور مقام ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام میں ایک سجدہ کرنے والے شخص کی طرح سجدہ ریز ہوگیا اور پھر کھڑا ہوا تو میں نے اس سے ایک عجیب تکبیر سنی کہ وہ کہ رہا تھا : اللہ بہت بڑا ہے اللہ بہت بڑا ہے جومحمد مصطفیٰ کا رب ہے، تحقیق مجھے میرے رب نے بت پرستوں کی ناپاکیوں سے اوردور جاہلیت کی حمیت سے پاک فرمادیا۔میں نے بتوں کو دیکھا کہ تمام کے تمام اس طرح گرنے لگے جس طرح کپڑوں کو جھاڑا جاتا ہے۔میں نے سب سے بڑے بت ہبل کو دیکھا کہ وہ منہ کے بل گرا ہوا تھااور منادی کرنے والے کو سنا جو پکار رہا تھا:خبردار کہ حضرت سیّدہ آمنہ حضرت محمد( ) كی ولادتِ باسعادت سے مشرّف ہوگئی ہیں۔
اس موقع پر حضرت عبد المطلب نے درجِ ذیل اشعار بھی پڑھے:
الحمد للّٰه الذى اعطانى ھذا الغلام الطیب الاردان
قد ساد فى المھد على الغلمان اعیذه بالبیت ذى الار كان
حتى اراه بالغ البنیان اعیذه من شر ذى شنان
من حاسد مضطرب العیان .71
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ پاکیزہ لباس اور منزہ ذات والا پوتا عطا فرمایاہے۔ جو پنگھوڑے میں ہوتے ہوئے سب بچوں پر فوقیت لے گئے ہیں۔ میں ان کو اللہ تعالیٰ کے مبارک ارکان اور اطراف و اکناف والے گھر کی پناہ میں دیتا ہوں۔حتی کہ میں ان کو اس حال میں دیکھوں کہ وہ مکمل اور مضبوط وتوانا جوان ہوں۔میں ان کو کینہ ور دشمن کے شر سے(اللہ تعالی)کی پناہ میں دیتا ہوں اور اس حاسد کے شر سے بھی جس کی آنکھیں مرضِ حسد کی وجہ سے بے چین و بے قرار ہیں۔ 72
ابن سعد نے "طبقات الکبری"میں 73اور امام ماوردی نے "اعلام النبوۃ"میں بھی یہ اشعارمختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیے ہیں۔74بہر کیف ان سے واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت عبد المطلب نےنبی کریم کی ولادت کے موقع پر ایسے اشعار پڑھے جن میں اللہ تبار ک وتعالیٰ کی حمد و ثناء کے ساتھ ساتھ نبی کریم کی مدح و سرا اورآپ کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حضور پناہ کی درخواست بھی کی گئ تھی۔
آنحضرت کی پیدائش کے وقت جو عجیب واقعات پیش آئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس رات کعبے میں زلزلہ آیا اور وہ تین دن ، تین رات تک ہلتا رہا ۔چنانچہ اس حوالہ سے امام حلبی تحریر فرماتے ہیں:
ولیلة ولادته تزلزلت الکعبة ولم تسکن ثلاثة ایام ولیا لیھن وكان ذلک اول علامة رات قریش من مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم.75
آنحضرت کی پیدائش کی رات کعبے میں زلزلہ آیا اور وہ تین دن، تین رات تک ہلتا رہا اورآنحضرت کی پیدائش کی علامتوں میں یہ پہلی علامت تھی جس کو قریش نے دیکھا۔
اسی طرح اس روایت کو امام سیوطی نے بھی نقل کیا ہے 76اوریہ زلزلہ اس بات کی علامت تھی کہ کعبہ جیسی مقدس جگہ جس کو کفار نے بتوں کا اڈہ بنا رکھا تھا اس کو بتوں سے پاک کرنے اور اس کا احترام کرنے کا وقت آگیا۔اسی طرح یہ زلزلہ صرف کعبہ شریف میں نہیں بلکہ دیگر مقامات پر بھی آیا تھا۔ان میں سے کسریٰ 77نوشیرواں یعنی ایرانی سلطنت کے شہنشاہ کا محل بھی تھا جو ولادت ِ رسول کے وقت ہلنے لگا اور اس میں شگاف پڑگئے،وہ محل اچانک گر گیا۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے ابو نعیم اپنی دلائل میں تحریر فرماتے ہیں:
لما كان لیلة ولد فیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ارتجس ایوان كسرى وسقطت منه اربعة عشر شرافة.78
اس رات جس میں رسول اللہ متولد ہوئے تو کسریٰ کا محل ہلنے لگا اور اس کے چودہ کنگورے گرگئے۔
اس محل کے گرنے کی حکمت کے بارے میں شیخ حلبی کی رائے یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسا اس لیے فرمایا تاکہ محل کی تباہی و بربادی روئے زمین پر نبی کریم کی ولادت کی نشانی کے طور پر باقی رہے۔79
اسی طرح ولادت رسول کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی تھی کہ آپ کی پیدائش کے وقت فارس کی آگ جو کنگوروں میں مستقل جلتی رہتی تھی اچانک بجھ گئی چنانچہ شیخ ابو نعیم اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
وخمدت نار فارس ولم تخمد قبل ذلک بالف عام.80
(ولادت ِرسول کے بعد) فارس کے آتش کدہ کی آگ بھی بجھ گئی حالانکہ یہ آگ اس سے ایک ہزار (1000) سال پہلے سےنہیں بجھی تھی ۔
اسی حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی تحریر فرماتے ہیں:
وخمدت نار فارس مع ایقاد خدامها لهاوكتب صاحبن فارس لكسرى ان بیوت النار خمدت تلک اللیلة ولم تخمد قبل ذلک بالف عام.81
فارس کے آتشکدہ کی آگ اس کے خداموں کے بھڑکانے کے باوجودبجھ گئی ۔ اس کے متعلق فارس کے بادشاہ نے کسریٰ کو لکھا کہ (اس رات جس میں آنحضرت کی ولادت ہوئی) تمام آتش کدوں کی آگ ٹھنڈی ہوگئی جبکہ اس سے پہلے ایک ہزار (1000) سال سے نہیں بجھی تھی۔
اس مذکورہ نشانی کے علاوہ ایک یہ بھی نشانی ظاہر ہوئی کہ اسی رات میں دریائے ساوہ82 کاپانی بھی ختم ہوگیا تھا جو فارس کا مشہور دریا ہے ۔یہ دریا اس طرح سوکھ گیا جیسے اس میں کبھی پانی رہا ہی نہیں تھا حالانکہ یہ دریا کافی گہرا اور نہایت لمبا و چوڑا تھا۔ فارس کے بادشاہ کو یہ بات اس کے یمن کے گورنر نے لکھ کر بھیجی تھی۔83 اسی واقعہ کی طرف عیون الاثر کے مصنف نے ان شعروں میں اشارہ کیا ہے:
لمولدة إيوان كسرى تشققت مبانيه وانحطت عليه شؤونه
لمولده خرت على شرفاته فلا شرف للفرس يبقى
حصينه لمولده نيران فارس أخمدت.84
آنحضرت کی پیدائش کی برکت سے کسریٰ شاہ فارس کے محل کی بنیادیں پھٹ گئیں اور ان پر اس کی دیواریں گر گئیں۔آپ کی پیدائش سے اس کی بلندیاں جھک گئیں ، اب فارس والوں کا کوئی ایسا اعزاز نہیں رہا جس سے ان کی عظمت باقی رہے۔ آنحضرت کی پیدائش کی برکت سے فارس کے آتش کدوں کی آگ بجھ گئی.85
ان مذکورہ بالا نشانیوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ابلیس لعین کی پریشانی صد فیصد درست ہوئی کہ اس نومولود کی وجہ سے ہمارا مکمل نظام تباہ وبرباد ہوجائے گا کیونکہ مذکورہ بالا مقامات باطل کی پرستش کا منبع تھے اور ان کا گرنا اور تباہ ہونا حکمتِ الہیہ کے مطابق تھا تاکہ معلوم ہوجائے کہ حق آچکا ہے۔
کچھ خواب وہ تھے جو نبی کریم کے خاندان کے قریب ترین افراد نے آپ کی ولادت کے حوالہ سے دیکھے تھے جیسا کہ آپ کی والدۂ محترمہ اور آپ کے جد امجد نے دیکھے تھے۔لیکن کچھ خواب ولادتِ رسول کے وقت بادشاہوں نے بھی دیکھے تھے جن میں ان کی تباہی و بربادی دکھائی گئی تھی۔کتبِ سیر میں اکثر سیرت نگاروں نے ان خوابوں کو بیان کیا ہے۔یہاں مختلف کتب سیر سے اس خواب کو نقل کیا جا رہا ہے:
موبذان 86نے آنحضرت کی ولادت کے وقت خواب میں دیکھا کہ جفاکش اونٹ عربی گھوڑوں کو ہنکار رہے ہیں اور انہوں نے دجلہ یعنی بغداد کی نہر کو پار کرلیا ہے اور وہاں کے شہروں میں پھیل گئے ہیں۔ ادھر کسریٰ نے اپنے محل کو لرزتے اور اس کے جھروکوں کو گرتے دیکھا جس سے وہ سخت گھبرایا اور خوفزدہ ہوگیا مگر اس خیال سے کہ اپنی کمزوری ظاہر نہ ہو اس نے صبر سے کام لیا اور صبح کو اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہیں کیا مگر پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کی گھبراہٹ اور پریشانی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اس معاملے کو اپنے فوجی افسروں اور بہادر سرداروں سے چھپا نہیں سکتا چنانچہ اس نے ان سب سرداروں کو دربار میں حاضر ہونے کے لیے کہلوا دیا۔ اس کے بعد کسریٰ نو شیرواں نے اپنا تاج سر پر پہنا اور شاہی تخت پر جاکر بیٹھ گیا اور سرداروں کو اطلاع کرادی۔87
جب سب جمع ہوگئے تو اس نے ان سے کہاکہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تم لوگوں کو کیوں بلایا ہے؟درباریوں نے کہا کہ نہیں ہمیں بالکل معلوم نہیں ہے۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ بادشاہ کے پاس کسی دوسرے علاقے سےایک خط آیا جس میں اس حیرتناک واقعے کی اطلاع دی گئی تھی کہ جس رات میں بادشاہ کا محل پھٹا تھا اسی رات میں ہمارے آتش کدوں یعنی عبادت گاہوں کی آگ بجھ گئی۔ کسریٰ کے پاس ایک خط ایلیا کے گورنر کا آیا کہ رات دریائے ساوہ کا پانی خشک ہوگیا۔ ایک خط شام کے گورنر کے پاس سے آیا کہ رات وادئ سماوہ کا راستہ زلزلہ کی وجہ سے پھٹ کر ختم ہوگیا۔ اسی طرح ایک خط طبریہ کے گورنر کے پاس سے آیا کہ دریائے طبریہ میں اچانک پانی کا بہاؤ بند ہوگیا۔ان میں سے ہر حادثہ اسی رات میں پیش آیا جس میں آنحضرت پیدا ہوئے اور یہ ساری علامتیں آپ کی پیدائش کی وجہ سے ہی ظاہر ہوئیں ۔چنانچہ کسریٰ کو اب تک اپنے ہی واقعے کا رنج و غم کم نہیں ہوا تھا کہ اچانک یہ سب اندوہناک خبریں ملیں جس سے اس کا غم اور گھبراہٹ اور زیادہ بڑھ گئی۔ آخر کسریٰ نے یہ سب خبریں سننے کے بعدحاضرین کو وہ واقعہ سنایا جو خود اس کی پیش آیا تھا اور جس سے وہ بہت زیادہ خوفزدہ اور گھبرایا ہوا تھا۔ (یعنی محل کا لرزنا، اس میں شگاف پڑجانا اور اس کی چودہ (14)کھڑکیوں کا بغیر کسی کمزوری کے گر پڑنا ) ۔یہ ساری باتیں سن کر موبذان یعنی سب سے بڑے راہب نے کہا۔خدا بادشاہ کو سلامت رکھے میں نے بھی اس رات ایک خواب دیکھا تھا۔
اس کے بعد موبذان نے وہی اپنا اونٹوں والا خواب بیان کیا جو پچھلی سطروں میں ذکر ہوچکا ہےکسریٰ نے یہ سب کچھ سن کر پوچھا وہ کیا بات ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے یہ حادثے پیش آرہے ہیں؟موبذان نے کہا:یہ کوئی ایسا واقعہ ہے جو عرب کےعلاقے میں پیش آیا ہے۔ حیرہ میں جو آپ کا گورنر ہے آپ اس کے پاس پیغام بھیجئے کہ وہ اپنے علاقے سے یعنی عربوں میں سےکسی عالم کو آپ کے پاس بھیجے ۔ یہ لوگ نئے پیش آنے والےحادثوں کے متعلق بہت علم رکھتےہیں.88
کسریٰ کو یہ مشورہ پسند آگیا اوراس نے اسی وقت حیرہ کے گورنر کو یہ خط لکھاکہ "یہ فرمان ہے شہنشاہ کسریٰ کی طرف سے حیرہ کے گورنر نعمان ابن منذر کے نام۔ تم میرے پاس اپنے کسی عالم کو بھیجو کیونکہ میں اس سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتا ہوں"۔جب نعمان ابن منذر کو یہ شاہی فرمان ملا تواس نے ایک زبردست عالم اور کاہن عبدالمسیح غسّانی کو کسریٰ کے پاس بھیجا۔جب عبد المسیح کسریٰ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا میں چند سوالات کرنا چاہتا ہوں کیا تمھارے پاس اس کا علم ہے؟عبد المسیح نے کہا کہ بادشاہ جو پوچھنا چاہیں پوچھیں ۔اگر میرےپاس اس کا علم ہوا تو میں بتادونگا ورنہ کسی بڑے عالم سے پوچھ کر بتادونگا۔کسریٰ نے اسے تمام باتیں بتادیں۔عبد المسیح نے سن کر کہا کہ ان باتوں کے بارے میں میرے پاس علم نہیں ہے بلکہ ان کا علم میرے ماموں کے پاس ہے جو اس وقت شام میں رہتے ہیں اورلوگ انہیں سطیح کے نام سے پکارتے ہیں۔کسریٰ نے یہ سن کر اس سےکہا کہ تم جلدی اپنے ماموں کے پاس جاؤ اور ان باتوں کا معلوم کر کے مجھے بتاؤچنانچہ شاہ کسریٰ کی طرف سے عبدالمسیح ملک شام میں سطیح کے پاس پہنچا جو اس وقت اپنی آخری سانسیں پوری کررہا تھا ۔عبدالمسیح نے وہاں پہنچ کر سطیح کو سلام کیا ں مگر سطیح نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر عبدالمسیح نے سطیح کے سامنے کچھ شعر پڑھے جن میں سے ایک مصرعہ یہ ہے:
اَصَمَّ ام یسَمْع غطْریف الیَمن .89
یعنی یمن کا سردار بہرا ہوگیا ہے یا میری بات سن رہا ہے۔
جب سطیح نے عبدالمسیح کے یہ شعر سنے تو اس نے اپنا سر اٹھایا عبدالمسیح کے بتلانے سے پہلے اس کے آنے کا مقصد بتلاتے ہوئے کہا:
تجھے شاہِ ساسان نے بھیجا ہے اور اس لیے بھیجا ہے کہ اس کا محل لرزاٹھا اور آتش کدوں کی آگ بجھ گئی اور موبذان کے ایک خواب کی وجہ سے بھیجا ہے جس میں اس نے دیکھا ہے کہ کمزور اونٹ عربی گھوڑوں کو ہنکا ررہے ہیں اور انہوں نے دریائے دجلہ کو پار کرلیا ہے اور وہ دریائے دجلہ کے علاقے کے شہروں میں پھیل گئے ہیں۔90 اے عبدالمسیح ! اگر تلاوت بڑھ گئی یعنی مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور عصا91 لے کر چلنے والا ظاہر ہوگیا ، دریائے ساوہ خشک ہوگیا اور فارس کی آگ بجھ گئی یعنی مجوسی مذہب ختم ہوگیا تو جفا کش اونٹوں کے مقابلے میں گھوڑوں کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی اور نہ سطیح کے لیے ملک شام، شام رہے گا۔ ان ہی میں سے یعنی فارسیوں میں سے اپنے اپنے مرتبے کے اعتبار سے کچھ بادشاہ اور ملکہ ہوں گے مگر جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہو کررہے گا۔اس کے بعد سطیح اسی وقت مر گیا۔ 92اس کے بعد عبدالمسیح واپس کسریٰ کے پاس آیا اور جو کچھ سطیح نے کہا تھا وہ بادشاہ کو بتایا کسریٰ نے غالباً دوسرے کاہنوں سے بھی معلومات کی تھیں چنانچہ اس نے عبدالمسیح کی بات سن کر کہا:عرب کے نبی کافارس پر اس وقت تک قبضہ نہیں ہوگا 93جب تک کہ ہم میں سےچودہ اشخاص بادشاہ نہیں بن جاتے۔94
مذکورہ بالا تمام معجزات وواقعات کی تائیدوتوثیق درجِ ذیل ایک واقعہ سے ہوجاتی ہے جس میں بنو عامر قبیلہ کے ایک بزرگ نے نبی کریم کے پاس آکر چند سوالات کیے اور نبی کریم نےا ن سوالات کے جوابات دیےچنانچہ اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے شیخ حلبی تحریر فرماتے ہیں:
وعن شداد بن أوس رضى اللّٰه تعالى عنه قال بينا نحن جلوس مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إذ أقبل شيخ كبيرمن بنى عامر ھو بدرة قومه أى المقدم فيھم يتوكأ على عصا فمثل بين يدى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم ونسبه إلى جده، فقال: يا ابن عبد المطلب إنى أنبئت أنك تزعم أنك رسول اللّٰه إلى الناس أرسلك بما أرسل به إبراھيم وموسى وعيسى وغيرھم من الأنبياء ألا أنك فھت بعظيم، وإنما كانت الأنبياء والخلفاء أى معظمھم فى بيتين من بنى إسرائيل وأنت ممن يعبد ھذه الحجارة والأوثان، فمالك وللنبوة، ولكن لكل حق حقيقة فأنبئنى بحقيقة قولك وبدء شأنك؟ قال: فأعجب النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بمسألته ثم قال: يا أخا بنى عامر إن لھذا الحديث الذى سألتنى عنه نبأ ومجلسا فاجلس فثنى رجليه ثم برك كما يبرك البعير، فاستقبله النبى صلى اللّٰه عليه وسلم بالحديث فقال: يا أخا بنى عامر إن حقيقة قولى وبدء شأنى أنى دعوة أبى إبراھيم .95
حضرت شداد ابن اوسسے روایت ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ قبیلہ بنی عامر کاایک بڑا شیخ آپ کے پاس آیا۔ وہ اپنی قوم کا سردار تھا اور لاٹھی کے سہارے آیا تھا۔اس نے آپ کے سامنے ایک مثال دے کر بات کی اور آپ کے دادا تک آپ کا نسب ذکر کیا اور کہنے لگا:اے عبدالمطلب کے بیٹے! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنے آپ کو لوگوں کے لیے اللہ کا پیغمبر کہتے ہیں جس نے آپ کو وہی چیز (شریعت) دےکر بھیجا ہے جو ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ وغیرہ جیسے نبیوں کو دے کر بھیجا تھا مگر آپ نے ایک بہت بڑی بات زبان سے نکالی ہے۔ تمام انبیا ء اور خلفاء یعنی بڑے بڑے نبی، بنی اسرائیل کے دو خاندانوں میں ہوئے ہیں جب کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جو پتھروں اور بتوں کو پوجنے والے ہیں اس لیے تمہیں نبوت سے کیا کام! مگر چونکہ ہر بات کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے اس لیے تم اپنے دعویٰ کی حقیقت اور اپنی اصلیت مجھے بتلاؤ!آنحضرت کو اس شخص کے سوالات پسند آئے اورآپ نے اس سے فرمایا:اے بنی عامر کے بھائی! تم نے جو باتیں مجھ سے پوچھی ہیں ان کے جواب تفصیل اور وقت چاہتے ہیں۔اس پروہ شخص چار زانوں ہو کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے اونٹ ٹانگیں موڑ کر بیٹھا کرتا ہے اور اس نے اپنا رخ رسول اللہ کی طرف کرلیا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا:اے بنی عامر کے بھائی! میرے قول اور دعویٰ کی حقیقت اور اصلیت یہ ہے کہ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا96 اور اپنے بھائی عیسیٰ کی بشارت و خوش خبری ہوں۔97
یعنی نبی کریم نے بذات خود اس بات کی نشاندہی فرمائی کہ میں حضرات ابراہیم و عیسی کی دعا اوربشارت ہوں تو اسی طرح دیگر مذکور نشانیوں کی بھی گویا کے تصدیق ہوجاتی ہے کہ جس طرح ان دو پیغمبروں نے آپ کی ولادت کے بارے میں اپنی امت کو بتایا تو اسی طرح دیگر نشانیوں کو بھی بیان کیا ہوگا۔بہر کیف حضور نبی کریم کی ولادت کے وقت کئی معجزات ظاہر ہوئے جو آپ کی حقانیت و نبوت کی علامات کے طور پر ظاہر ہوئے۔ مذکورہ بالا تمام واقعات کا خلاصہ عظیم و نامور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ نےاپنی کتاب میں قلمبند فرمایا ہےچنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
عظیم شخصیات کی ولادت ہمیشہ غیر معمولی واقعات کا باعث بنتی ہے۔ چاہے ان کا تعلق مستقبل کے عظیم ہیرو کی اس دنیا میں آمد سے ہو یا نہ ہو۔آتش پرست ( مجوس ) آگ کی پرستش کرتے ہیں ۔ یہ ان کا معمول ہے کہ ان کے آتش کدوں میں ہروقت آگ روشن رکھی جاتی ہے اور وہ اسے کبھی بجھنے نہیں دیتے۔ مگر سوموارسترہ(17) جون پانچ سو انتر( 569 )عیسوی کی رات مدائن کے سب سے بڑے آتش کدہ میں جلتی ہوئی آگ یک لخت بجھ گئی حالانکہ یہ آگ صدیوں سے جلتی آرہی تھی اور کبھی نہیں بجھی تھی۔ اسی رات ایک زلزلہ بھی آیا جس نے شہنشاہِ ایران کے محل کےچودہ( 14 )کنگورے گرا دیے۔ اسی نوعیت کے اور بھی کئی واقعات عمل میں آئے ۔ حضرت عبد اللہ کی زوجہ حضرت آ منہ اپنے بیٹے کی پیدائش کے وقت بالکل اکیلی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اس مشکل وقت میں چند دراز قد خواتین کو اپنے پاس پایا۔ جب حضرت آمنہ نے ان سے ان کے بارے میں پوچھا تو ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ فرعون کی بیوی آسیہ ہے جس نے حضرت موسیٰ کی جان بچائی تھی جب انہیں ایک صندوق میں بند کرکے دریائے نیل کی لہروں کے سپرد کردیا گیا تھا۔ دوسری خاتون نے بتایا کہ وہ حضرت عیسیٰ کی والدہ مریم ہیں جبکہ باقی تمام خواتین جنت کی حوریں تھیں۔98 پھر حوروں نے حضرت آمنہ کے جسم کو اپنے پروں سے ڈھانپ کر حرارت پہنچائی تاکہ وہ ٹھنڈی ہوا سے محفوظ و مامون رہیں ۔ جلد ہی بچے کی ولادت ہوگئی ۔ یہ بچہ مختون پیدا ہوا۔ پیدا ہوتے ہی وہ زمین پر سجدے میں گرگیا اور شہادت کی انگلی اس طرح اٹھائی جیسے رب وحدہ لاشریک کی وحدانیت کی گواہی دے رہا ہو۔ اس کے بعد تین فرشتوں نے اس بچے کوایک چاندی کےبرتن میں تین بار غسل دیا۔ پھر اسے سفید ریشمی کپڑے سے ڈھانپا اور کچھ دیر کے لیے اپنے پروں سے حرارت پہنچائی ۔ پھر اسے اس کی والدہ کے حوالے کیا اور غائب ہوگئے ۔ یہ وہ متاثر کن مختصر روداد ہے جسے مسلمہ قدیم مصنفین نے بیان کیا ہے۔99
ان تما م واقعات و علامات سےیہ بات بخوبی سمجھ آجاتی ہے کہ نبی مکرم وہ واحد ہستی ہیں جن کے طفیل اور وسیلہ سے نظامِ کائنات کو خلق کیا گیا اور صرف آپ ہی وہ کریم و رحیم ذات عالی ہیں جو اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب اور معظم ہیں۔آپ کی عظیم الشا ن ولادت آپ کی عظمتِ نبوت اور قابلِ قدر پیغامِ رسالت کا اعلان تھا تاکہ متلاشیان وطالبانِ حق نورِ ہدایت کو قبول کرنے میں متردّد نہ ہوں۔