Encyclopedia of Muhammad

رسول اللہ ﷺکی وِلادَت اور شیطان کی چیخ و پکار

نبی کریم کی ولادتِ با سعادت پر تمام خلقِ خدا شادمانی و مسرّت میں جھوم رہی تھی لیکن ایک ملعون ایسا بھی تھا جو اس وقت بھی پریشان اور حزن وملال کا شکار تھا۔ابلیس لعین اس سے پہلے کبھی اتنا رنج و غم کا شکار نہ ہوا جتنا آپ کی پیدائش پہ ہوا۔ رسول اکرم کی ولادت با سعادت کی وجہ سے انسانیت حقیقی عظمت و ترقی سے آشنا ہوئی جو یقینا اس سے پہلے مشاہدات میں تودرکنار اذہان میں بھی متصوّر نہیں ہوئی تھی۔آپ کی ولادت سے قبل لوگوں نے اپنی تخلیق کا اصل مقصد پسِ پشت ڈالدیا تھاجس کی وجہ سے ابلیس لعین خوش و خرم اور اپنے مقصد میں کامیاب و کامران تھالیکن جب نبی کی ولادت ہوگئی تو اب شیطان کو انتہائی صدمہ لاحق ہوگیا۔

شیطان کی غمزدگی

رسول اکرم کی ولادت پر تمام مخلوقات میں سے ایک ہی خلقت ایسی تھی جو غمزدہ و پریشان تھی اوراس کی غمزدگی کی وجہ اس کے برسوں کے بنائے ہوئے نظام کی تباہی وبربادی تھی۔ایک منقول روایت میں ابلیس لعین کے آپ کی ولادت پر غمناک ہونے کی اسی وجہ کو نقل کرتے ہوئے امام صالحی شامی تحریر فرماتے ہیں:

  وروى ابن أبى حاتم عن عكرمة قال: قال إبليس لما ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: لقد ولد الليلة ولد يفسد علينا أمرنا.1
  ابن ابی حاتم نے عکرمۃ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺکی ولادت ہوئی تو ابلیس نے کہا:آج رات وہ ہستی پیدا ہوگئی ہے جو ہمارے معاملہ (نظام)کو خراب کردے گی۔2

اس روایت سے واضح ہوجاتا ہے کہ ابلیس کو آپ کی ولادت سے اپنے نظام (satantic order)کی خرابی کا معلوم ہوچکا تھا جس کی بنیاد پر اس نے اس افسر دگی کا اظہار برملا اپنے لشکر کے سامنے کیا۔ اسی طرح اس حوالہ سے حضرت عکرمہ سے ایک حدیث مبارکہ منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:

  أن إبليس لعنه اللّٰه لما ولد صلى اللّٰه عليه وسلم ورأى تساقط النجوم قال: لقد ولد الليلة ولد يفسد علينا أمرنا ثم أمر أولاده أن يأتوه بتربة من كل أرض وھو يشمھا فلما شم تربة تھامة: قال: من ھھنا دھينا.3
  جب رسول اکرم اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تو ابلیس لعین نے تاروں کے گرنے کو دیکھتے ہوئے کہا کہ ا ٓج کی رات ایسا نو مولود پیدا ہوا ہے جو ہمارے نظام کو درہم برہم کردے گا۔پھر اس نے اپنے چیلوں کو تمام روئے زمین کی مٹی لانے کا کہاجس کو وہ سونگھنے لگا۔جب اس نے تہامہ کی مٹی سونگھی تو اس نے کہاکہ اسی جگہ سے ہم برباد کیے جائیں گے۔

دراصل ابلیس ملعون کی یہ تمام تگ و دو فقط اس وجہ سے تھی کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے اپنے نظام کی ہونے والی تباہی وبربادی سے بچ جائے لیکن اسے بھی نبیِ مکرم کی ولادت کے بعد والے حالات سے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ اب اس کے کید ومکرکے بچے رہنے کی کوئی تدبیر ایسی نہیں جو کلیۃکفر و شرک اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی معصیت پر مشتمل ہو۔

شیطان کی اپنے تئیں تدبیر

جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتاہے تو شیطان اسے چھوتا ہے تاکہ بچہ روئے یا حواس باختہ ہوجائےجیساکہ حدیث مبارکہ میں منقول ہے:

  مامن بنى آدم مولود الایمسه الشیطان حین یولد فیستھل صارخا من مس الشیطان غیر مریم وابنھا.4
  ہر بنی آدم کو اس کے پیدا ہوتے ہی شیطان چھوتا ہے تب ہی وہ بچہ شیطان کے چھونے کی وجہ سے چیخ کر روتا ہے سوائے مریم و ابن مریم کے۔

اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ شیطان پیدا ہوتے ہی بچہ کو چھو کر پریشان کرتا اور رُلاتا ہےالبتہ حضرت مریم و ابن مریم اس کی حرکت سے محفوظ رہے۔یہی وجہ تھی کہ جب شیطان لعین نے اپنے لشکر کے سامنے اس افسردگی کا اظہار کیا کہ آج رات ہمارے نظام کو درہم برہم کرنے والا اس دنیا میں آچکا ہے تب اس کے لشکریوں نے اسے مشورہ دیتے ہوئے کہا:

  لو ذھبت إليه فخبلته فلما دنا من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعث اللّٰه جبريل فركضه برجله ركضة فوقع بعدن. 5
  کاش تو ان کے پاس جائے اور ان کی فہم و دانش کو خراب کردے۔جب وہ حضور کے قریب ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل کو بھیجاانہوں نے اسے ٹانگ مارکر عدن میں پھینک دیا۔6

اس روایت کو شیخ حلبی نے بھی نقل کیا ہے۔7اسی طرح امام سیوطی نے بھی نقل کیا ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہےکہ نبی کریم پیدا ہوئے تو ساری زمین نور سے منور ہوگئی۔8بہر کیف جب شیطان اس پر قادر نہیں ہے کہ صالحین پر اپنا زور چلا سکے9 تو آپ پر اس کازور چلناتو بدرجہ اتم نا ممکن تھاخواہ آپ نومولودگی کی حالت ہی میں ہوں۔نیز اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ شیطان نے آپ کو بھی اسی طرح چھو کر تکلیف پہنچانا اور آپ کے فہم کو نقصان پہنچانا چاہا لیکن باری تعالیٰ نے اپنے محبوب و مکرم رسول کی حفاظت فرمائی اور حضرت جبریل کے ذریعہ ابلیس لعین کو مار پڑوائی۔

شیطان کا آسمانوں سے دھتکارا جانا

عرب میں کہانت کا رواج عام تھا جس کی وجہ صر ف یہ تھی کہ ان کاہنوں کے پاس جنات قید ہوتے جن کے ذریعہ وہ آسمانوں کی خبریں معلوم کرتے اور لوگوں کو اپنی طرف سے اضافہ کر کے بتاتے۔اسی طرح ابلیس بھی آسمانوں کی خبریں سنا کرتا تھا اور جنات وکاہنوں کے ذریعہ سے انسانیت کو گمراہ بھی کیا کرتا تھا۔پھر بعد میں اس کو آسمانوں پر چڑھنے سے ہی روک دیا گیا۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے عبد العزیز حموی تحریر فرماتے ہیں:

  وكان ابلیس یخرق السموات السبع فلما ولد عیسٰى حجب من ثلاث سموات وكان یصل الى اربع فلما ولد محمد صلى اللّٰه عليه وسلم حجب من السبع ورمیت الشیاطین بالشھب الثواقب . 10
  ابلیس ساتوں آسمانوں میں(جاکر فرشتوں کے کلام کو )ا چک لیتا تھا مگر جب حضرت عیسی پیدا ہوئے تو تین آسمانوں سے اسے روک دیا گیا ا ور وہ صرف چار آسمانوں تک پہنچ پاتا۔پھر جب رسول اللہ پیدا ہوئے تو ساتوں آسمانوں سے اس پر پابندی لگادی گئ اوران کو شعلہ دار ستاروں سے مارا گیا۔

اسی روایت کو مزید تفصیل کے ساتھ صاحب حلبیہ نے نقل کیا ہےچنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  عن ابن عباس رضي الله عنهما أن الشياطين كانوا لا يحجبون عن السموات، وكانوا يدخلونھا ويأتون بأخبارھا مما سيقع فى الأرض فيلقونھا على الكھنة، فلما ولد عيسى عليه السلام حجبوا عن ثلاث سموات وعن وھب عن اربع سموات ولما ولدرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حجبوا عن الكل وحرست بالشھب فما يريد أحد منھم استراق السمع إلا رمى بشھاب.11
  حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ( پہلے زمانے میں )شیطانوں کو آسمانوں میں جانے کی ممانعت نہیں تھی چنانچہ وہ آسمانوں کے اندر پہنچ جاتے اور وہاں وہ باتیں سن لیتے جو دنیا میں پیش آنے والی ہیں۔ پھر یہ شیاطین وہ باتیں کاہنوں کوبتلا دیتے۔(جن کے متعلق عام لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں) پھر جب حضرت عیسیٰ کی پیدائش ہوئی تو انہیں( اوپر کے) تین آسمانوں میں جانے سے روک دیا گی وہب روای سے مروی ہے کہ چار سے روکا گیا۔اس کے بعد جب آنحضرت پیدا ہوئے تو شیاطین کو تمام آسمانوں میں جانے سے روک دیا گیااور فرشتے ان (آسمانوں)کی حفاظت ستاروں سے کرنے لگے۔ چنانچہ شیاطین میں سے اب جب بھی کوئی وہاں کی باتیں سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کوشہابِ ثاقب یعنی ستارے مارے جاتے ہیں۔12

یعنی اگر شیاطین اس پابندی کے باوجود بھی کلام ِملائکہ کو سننے کے لیے آسمانوں پر چڑھتے ہیں تو اب ان کو مارنے اور بھگانے ےکےلیے بھڑکتے ہوئے ستاروں کو ان پر پھینکا جاتاہےجیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشادفرمایاہے:

  اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَةالْكَـوَاكِبِ6 وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ مَّارِدٍ7 لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَى الْمَلَاِ الْاَعْلٰي وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ8 دُحُوْرًا وَّلَھمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ9اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَــطْفَلى فَاَتْــبَعَه شِھابٌ ثَاقِبٌ10 13
  بے شک ہم نے آسمانِ دنیا (یعنی پہلے کرّۂ سماوی) کو ستاروں اور سیاروں کی زینت سے آراستہ کر دیا، اور (انہیں) ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنایا، وہ (شیاطین) عالمِ بالا کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور اُن کو بھگانے کے لیے ہر طرف سے اُن پر (انگارے) پھینکے جاتے ہیں، اور اُن کے لیے دائمی عذاب ہے، مگر جو (شیطان) ایک بار جھپٹ کر (فرشتوں کی کوئی بات) اُچک لے تو چمکتا ہوا انگارہ اُس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔

یوں شیطان اور اس کے چیلوں کو آسمانوں پر جانے سے روک دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ وہ اس طریقہ سے اپنی اختراع کردہ باتوں سے انسانوں کو گمراہ نہ کرسکے۔شیخ احمد قسطلانی نے اسی حوالہ سے چند اشعار بھی اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:

  ضاءت   لمولده   الآفاق   واتصلت   بشرى   الھواتف  فى  الإشراق  والطفل
وصرح  كسرى  تداعى  من  قواعده   وانقض     منكسر    الأرجاء    ذا ميل
ونار   فارس   لم  توقد  وما خمدت   مذ   ألف  عام   ونھر  القوم  لم  يسل
خرت   لمبعثه   الأوثان  وانبعثت   ثواقب  الشھب  ترمى  الجن  بالشعل.14

  رسول اکرم کی ولادت کے وقت تمام آفاق روشن ہوگئے اور صبح و شام ہمیں غیبی ہاتفوں سے خوشخبری ملنے لگی ۔کسریٰ کا محل اپنی بنیادوں سمیت گرگیا اور اس کے کنارے بہت جلدی گرنے لگے ۔ ایران کا آتش کدہ نہ جل سکا حالانکہ ایک ہزار سال سے یہ آگ کبھی نہ بجھی تھی اور قوم کا دریا (بحیرہ ساوہ) جاری نہ ہوسکا۔ نیز آپ کی ولادت کے وقت بت سَرنِگوں ہوگئے اور شہاب (ستارے) اپنے شعلوں سے شیطانوں کو مارنے لگے۔15

رسول مکرم کی ولادت کے ساتھ ہی شیطان کے اس طریقۂ گمراہیت کوخاص طور پر مسدود کردیا گیا اور اس میں ایک حکمت یہ بھی تھی کہ رسول مکرم پر نازل ہونے والی وحی الہٰی کو شیاطین و جنات سے محفوظ و مامون کردیا جائے۔

نبی کریم ﷺکی ولادت اور شیطان کی چیخ

رسول مکرم کی ولادت پر جب ابلیس غمگین ہوا تو ساتھ ہی ساتھ اس نے واویلا بھی کیا۔تفسیر ِابن مخلد جس کے بارے میں ابنِ حزم نے کہا ہے کہ اس جیسی کتاب دوسری نہیں لکھی گئی 16 امام سہیلی نے اس کے حوالہ سے شیطان کے اس واویلے کو نقل کیا ہےچناچہ آپ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  ان إبليس لعنه اللّٰه رن أربع رنات رنة حين لعن ورنة حين أھبط ورنة حين ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ورنة حين أنزلت فاتحة الكتاب.17
  بلا شبہ ابلیس لعین چار مرتبہ زور سے چیخا اور رویا۔ایک اس وقت چیخا جب اس کو ملعون قرار دیا گیا۔ دوسری باراس وقت چیخا جب اس کو آسمانوں سے زمین پر اتاردیا گیا۔ تیسری بار اس وقت چیخا جب آنحضرت کی ولادت ہوئی ،چوتھی بار اس وقت چیخا جب آنحضرت پر سورۂ فاتحہ نازل ہوئی۔

مذکورہ روایت کو صاحب ِاکتفاء، 18صاحبِ امتاع 19 اور اسماعیل بن کثیر نے بھی من و عن نقل کیاہے۔20 ظاہر ہے کہ جب برسوں پرانا اپنا نظام تباہ و بربا ہوتا نظر آئے تو یہی حالت ہوتی ہے۔رسول مکرم کی ولادت کے وقت شیطان کے چیخنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درجِ ذیل اشعار میں شاعر نے کہاہے:

  لمولده  قدرن  ابلیس  رنة   فسحقاله  ماذا  یفید  رنینه 21
  آپ کی پیدائش کے وقت شیطان بہت غم و الم کے ساتھ چیخا۔ پس ہلاک ہوا وہ(شیطان)اور اس کے چیخنےسے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ 22

یعنی رسول مکرم کی ولادت پر ابلیس رویا تو بہت لیکن اس کے رونے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوسکا ۔ ان تمام تر باتوں سے یہ بات روز ِروشن کی طرح ثابت ہوجاتی ہے کہ نبی آخر الزماں کی ولادت عالمِ خلق پر عظیم عطیہ خداوندی ہےاور اس عطیہ خداوندی پر عالم خلق میں ہر کسی نے خواہ عالم بشر ہو یا جن،عالم ملائک ہو یا کوئی اور عالم یہاں تک کہ چرند وپرند اور سمندری و میدانی تمام تر مخلوق نے اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا۔بس ایک نامراد و ناکام اور سرکش جن تھا جو اس عظیم نعمت پر رنج و غم کا پیکر بنا ہوا تھااور وہ سرکش جن ابلیس لعین تھا۔

نبی کریم کی ولادتِ باسعادت کا غم اور افسوس صرف شیطان لعین اور اس کے لشکر کو ہوا تھاجس کی وجہ ان کے نظامِ گمراہی کا تباہ وبرباد ہونا تھا۔دوسرے لفظوں میں حضور اکرم کی ولادت احقاقِ حق و ابطالِ باطل کے لیے ہوئی تھی۔پھر دنیا نے اپنی آنکھوں سےدیکھا کہ آپ جیسے جیسے زندگی کی منازل طے کرتے گئے تو ساتھ ساتھ معاشرہ سے برائی بھی مٹاتے گئے یہاں تک کہ اپنے وصال کے بعد بھی تا قیامت اس پیغام کے جاری و ساری رہنے کا اور اس کو آنے والے انسانوں تک پہنچانے کا بھی انتظام بصور ت "جماعتِ صحابہ "فرماگئے ۔

 


  • 1 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدٰی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:350
  • 2 ایضا (مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور، پاکستان،2012ء،ص:311
  • 3 ياسين بن خير الله بن محمود الخطيب العمرى، الروضة الفيحاء فى أعلام النساء، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر، 2005م، ص: 31
  • 4 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری،صحیح البخاری،حدیث:3431،مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1999م،ص:578
  • 5 امام محمد بن یوسف الصالحه الشامى،سبل الھدٰى والرشاد فى سیرۃ خیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:350
  • 6 ایضا(مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور، پاکستان،2012ء،ص:311
  • 7 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:100
  • 8 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الخصائص الکبرٰی،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص:86
  • 9 القرآن، سورۃ الحجر40:15
  • 10 عزّ الدین عبد العزیز بن محمد الحموی،المختصر الکبیر فی سیرۃالرسولﷺ،مطبوعۃ:دار البشیر، عمان، 1993م، ص:23
  • 11 ابو الفرج علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی،انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:101
  • 12 علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی، سیرتِ حلبیہ (مترجم:مولانا اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص:223
  • 13 القرآن،سورۃ الصّٰفّٰت10-6:37
  • 14 شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:70
  • 15 ایضا(مترجم:مولانا محمد صدیق ہزاروی)،مطبوعہ :فرید بک اسٹال ، لاہور،پاکستان ، 2004ء، ص:82-83
  • 16 علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی، سیرتِ حلبیہ (مترجم:مولانا اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص:220
  • 17 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی،الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ہشام،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م، ص:278
  • 18 ابو الربیع سلیمان بن موسی الاندلسی،الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہﷺ والثلاثۃ الخلفاء،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2000م، ص:109
  • 19 ابو العباس تقی الدین احمد بن علی الحسینی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃوالمتاع،ج-4، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1999م،ص:59
  • 20 ابو الفداء اسماعیل ابن کثیر الدمشقی،السیرۃ النبویۃ لابن کثیر،ج-1،مطبوعۃ:دار المعرفۃ للطباعۃوالنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1976م،ص:212
  • 21 ابو الفرج علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی،انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:99
  • 22 علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی، سیرتِ حلبیہ (مترجم:مولانا اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ،کراچی، پاکستان، 2009ء،ص:221