نبی کریم وجہ تخلیق ِکائنات ہیں۔آپ ہی وہ مبارک ہستی ہیں جن کی بشارت ہر نبی نے اپنی امت کو اورپھر انہوں نے اپنی نسلوں کو دی تھی۔نسل در نسل یہ بشارت ان لوگوں میں منتقل ہوتی رہی یہاں تک کہ ان لوگوں نے جو آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے 1 انہوں نے آپ کی بعثت کے بعدآپ کے نبی ہونے کا انکار کردیا اور نامراد ہوگئے۔ 2اس سے واضح ہوجاتاہے کہ بالعموم سابقہ امتیں اور بالخصوص علمائے یہود و نصاری آپ کی تمام نشانیا ں، جو ماقبل صحف ِمطہرہ میں مذکور ہوئیں اور ماقبل انبیاء ِکرام سے ان تک پہنچی ، کو جانتے تھے۔
اسی طرح یہ احبار وراہبین آپ کی ولادت کے وقت کو اور اس کی نشانیوں کو بھی جانتے اور آپس میں اس کا تذکرہ بھی کرتے تھےچنانچہ شیخ حلبی اسی حوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئےاپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
كانت الأحبار من يھود والرھبان من النصارى والكھان من العرب قد تحدثوا بأمر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قبل مبعثه لما تقارب زمانه أما الأحبار من يھود والرھبان من النصارى، فلما وجدوا فى كتبھم من صفته وصفة زمانه....ووقعت تلك الأمور التى كانو ايذكرونھا فعرفوھا وھذا فيه تصريح بأن الملائكة كانت تذكره صلى اللّٰه عليه وسلم فى السماء قبل وجوده.3
یہودی عالم،عیسائی راہب اور عرب کے کاہن آنحضرت کے متعلق آپ کی بعثت سے پہلے باتیں کیا کرتے تھے۔ جب آپ کے ظہورِ نبوت کا وقت قریب آگیا تھا۔جہاں تک یہودی عالموں اور عیسائی راہبوں کے اس سے متعلق خبریں دینے کا تعلق ہے تو اس کی بنیاد ان کی قدیم آسمانی کتابیں تھیں۔جن میں آپ کی نبوت ،حلیے اور زمانے کا تذکرہ موجود تھا۔۔۔بالآخر وہ واقعات رونما ہوگئے جن کا یہ سب تذکرہ کیا کرتے تھے۔اس طرح انہوں نے آپ کو پہچان لیا(لیکن اس کے باوجود ایمان نہیں لائے)۔اس میں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ ملائکہ آپ کا تذکرہ آسمانوں میں آپ کے وجود سے پہلے بھی کیا کرتے تھے۔ 4
اسی حوالہ سے ایک قول حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہےجس کو ابن جوزی نقل کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:
كانت یھود قریظة والنضیر وفدک وخیبر یجدون صفة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عندھم قبل ان یبعث وان دار ھجرته المدینة فلما ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قالت احبار یھود: ولد احمد اللیلة فلما نُبِّى قالوا: نُبِّى أحمد یعرفون ذلک ویقرون به ویصفونه فما منعھم عن اجابته الاالحسد والبغى.5
قریظہ،نضیر،فدک اور خیبر کے یہودی نبی کریم کے احوال اپنی تورات میں آپ کی بعثت سے پہلے پاتے تھے کہ آپ کی ہجرت گاہ مدینۃ المنورہ ہوگی۔جب رسول اللہ کی ولادت ہوگئی تو یہودیوں کے عالم نے کہا:آج رات احمد()پیدا ہوگئے ہیں۔پھر جب آپ کونبی بنا دیا گیاتو کہنے لگے:احمد()کو نبی بنادیا گیا،وہ اس بات کو جانتے تھے اور اس کا اقرار کرتے تھے۔آپ کی خبریں بھی (لوگوں)سے بیان کیا کرتے تھے لیکن انہیں حسد اور سرکشی نے آپ کی بات ماننے سے روکے رکھا۔6
مذکورہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب آپ کو نہ صرف یہ کہ جانتے تھے بلکہ جاننے سے بڑھ کر پہچانتے بھی تھے۔اسی کا ذکرقرآن ِمجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَه كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھمْ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْھمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھمْ يَعْلَمُوْنَ1467
اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب عطا فرمائی ہے وہ اس رسول (آخر الزماں حضرت محمد اور ان کی شان و عظمت) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسا کہ بلاشبہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور یقیناً انہی میں سے ایک طبقہ حق کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔
اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی کریم کو اہل کتاب اپنے بیٹوں کی طرح جانتے پہچانتے تھے لیکن آپ کی رسالت ونبوّت پر ایمان لانے کے بجائے ہٹ دھرمی ، بغض اور عداوت کی وجہ سے الٹا آپ کی مخالفت کرتے رہے۔ اہل کتاب کو آپ کی ولادت سے پہلے اور بعد کی چند نشانیاں معلوم تھیں اور وہ آپ کے پیداہونے کے بعد ایک ایک کر کے ان کی تصدیق کرتے بھی رہے تھے اور لوگوں کو بتاتے بھی رہے تھے لیکن ان سب کے باوجود خود اس خیر ِعظیم سے محروم رہے۔
جب یمن کےبادشاہ تبع حمیری نے مدینۃ المنورہ پر چڑھائی کرنے اور اس کو تباہ و برباد کرنے کا ارادہ کیا تو علماءِ یہو د نے بادشاہِ یمن کو اس سے باز رکھنے کے لیے آخری نبی کی بعثت کی خوشخبری دی جس کی بنا پر وہ تخریبِ مدینہ سے باز آگیا۔ اس واقعہ کو تفصیل سے ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالہ سے نقل کیا ہےچنانچہ وہ اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
وتبان أسعد أبو كرب الذى قدم المدینة وساق الحبرین من یھود المدینة إلى الیمن وعمر البیت الحرام وكساه وكان قد جعل طریقه حین أقبل من المشرق على المدینة وكان قد مربھا فى بدأته فلم یھج أھلھا وخلف بین أظھرھم إبنا له فقتل غيلة فقدمھا وھو مُجمع لإخرابھا وإستئصال أھلھا وقطع نخلھا فجمع له ھذ الحيى من ألأنصار ورئيسھم عمر وبن طلّة أخو بنى النجار...فبينما تبع على ذلك من قتالھم إذ جاى حبران من أحبار اليھود من بنى قريظة...عالمان راسخان فى العلم حین سمعا بما يريد من إھلاك المدينة وأھلھا فقالا له: أيھاالملك لاتفعل فانک إن أبيت إلا ماتريد حيل بینك وبينھا ولم نأمن عليك عاجلة العقوبة فقال لھما ولم ذلك؟ فقالا: ھى مھاجر نبى يخرج من ھذا الحرم من قريش فى آخر الزمان تكون داره وقراره فتناھى عن ذلك ورأى ان لھما علما وأعجبه ماسمع منھما فانصرف عن المدينة واتبعھما على دينھما.8
تبان اسعد ابو کرب وہی ہے جو مدینہ آیا اوروہاں کے دو یہودی علماء کو اپنے ساتھ ملکِ یمن لے گیا ۔ وہاں بیت الحرام کی تعمیر کی اور اس پر غلاف چڑھایا۔ 9 پہلے جب وہ مشرق سے مدینہ(منوّرہ ) کی طرف سے اپنا راستہ بناتا ہوا آیا تھا تو اس وقت اس نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ظلم و ستم نہیں کیا تھا۔وہ اپنے بیٹے کو یہاں چھوڑ گیا تھاجس کو اچانک ایک حملہ میں قتل کردیا گیا ۔اس لیے بادشاہ اس ارادہ اور نیت سے مدینہ(منوّرہ ) کی طرف آیا کہ وہ اس کو تباہ کردے،یہاں کے لوگوں کو قتل کردے اور کھجور کے پیڑ کاٹ دے۔اس کے مقابلہ کے لیے انصار کا ایک قبیلہ متحد ہوگیاجس کا سردار بنی نجار میں سے عمرو بن ظلّہ تھا۔۔۔ابھی ان کی جنگ جاری تھی کہ بنی قریظہ کے دو یہودی عالم تبع کے پاس آئے۔یہ دونوں عالم علم میں بہت بڑا درجہ رکھتے تھے۔جب انہیں معلوم ہوا کہ تبع مدینہ و اہل مدینہ کو تباہ کرنا چاہتا ہےتو انہوں نے بادشاہ کو اس سے روکا اور کہا کہ وہ ایسا ارادہ نہ کرے۔اگر وہ اپنے ارادے سے باز نہ آیا تو اس شہر اوربادشاہ کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوگی یعنی اللہ تبارک اس کو مدینہ کی بربادی سے روکے گا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کو فوری طور پر کوئی سزا ملے۔بادشاہ نےاس کی وجہ پوچھی تو عالموں نے کہا کہ مدینہ نبی(آخر الزماں)کی ہجرت کا مقام ہے۔وہ نبی قریش کے قبیلہ میں آخری زمانہ میں ظاہر ہوگا۔مدینہ(منوّرہ )اسی کا گھر اور رہنے کی جگہ ہوگی۔یہ سن کر وہ اپنے ارادے سے باز آگیا اوراس کو اندازہ ہوگیا کہ ان علماء کو آنے والے واقعات کا علم اور اندازہ ہے۔اس نے ان سے جو چیز سنی اس کو پسند کیا۔ چنانچہ وہ مدینہ (منوّرہ ) سے واپس چلاگیااور ان کے مذہب کی پیروی کرنے لگا۔10
اس روايت كو من وعن ابن اسحاق نے11 اپنی کتاب میں نقل کیاہے۔بیہقی نے 12 کچھ متغیر الفاظ کے ساتھ اورابوالحسن ماوردی نے درجِ ذیل الفاظ کی زیادتی کے ساتھ اسی بات کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے:
وذھب إلى اليھود فقتل منھم ثلاثمائة وخمسين رجلا...فقام إليه رجل من اليھود كبير السن فقال: أيھا الملك مثلك لايقتل على الغضب ولا يقبل قول الزور....فانك لا تستطيع أن تخرب ھذه القرية.13
وہ بادشاہ یہود کے پاس گیا اور ان کے ساڑھے تین سو (350) افراد کو قتل کردیا۔۔۔تو ایک عمر رسیدہ یہودی آدمی بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوااور اس نے کہا:اے بادشاہ تیرا جیسا آدمی غصہ کی حالت میں قتل نہیں کرتا اور جھوٹی گواہی کو قبول نہیں کرتا۔۔۔بہر کیف تم اس بستی کو خراب کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے۔
یعنی رسول مکرم کی بعثت و ولادت کی اطلاع سن کر اس بادشاہ نے اپنے ارادہ کو پس پشت ڈال دیا اور مدینہ و اہل مدینہ کو اپنے بیٹے کے قتل کے جرم میں معاف کردیا۔
حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ جب شاہِ یمن یعنی تبع مدینہ آیا اور جنگ و جدال کا ارادہ کیا تو شامول نامی یہودیوں کا سب سے بڑا عالم اس کے پاس آیا اور کہا کہ اولادِ اسماعیل سے ایک نبی پیدا ہوگا جس کی جائے ولادت مکّہ، نام احمد ()اور یہ مدینہ اس کادارِ ہجرت ہوگا جہاں آپ اس وقت قیام پذیر ہیں۔ یہاں اس کے اصحاب اور دشمنوں کے مابین ایک عظیم لڑائی ہوگی۔یہ سن کر شاہ یمن تبع حمیری نے شامول نامی یہودی سے چند سوالات کیے جنہیں نقل کرتے ہوئےامام دیار بکری تحریر فرماتے ہیں:
قال تبع فمن يقاتله وھو نبى كما تزعمون قال يسير اليه قوم فيقتلون ھنا قال فأين يكون قبره قال بھذا البلد قال فان قوتل فلمن تكون الدائرة قال تكون عليه مرّة وله مرّة وبھذا المكان الذى أنت به غلبته فيقتل به أصحابه مقتلة ثم يقتلون فى مواطن ثم تكون العاقبة له فيظھر فلا ينازعه فى ھذا الامر أحد قال وما صفته قال رجل ليس بالقصير ولا بالطويل فى عينيه حمرة...قال تبع فمالى بھذا البلد من سبيل وما كان ليكون خرابه على يدى.14
تبع نے سوال کیا ان سے قتال کون کرے گا جبکہ وہ نبی ہوگا؟ شامول نے جواب دیا ان کی قوم ان کی طرف بڑھے گی اور یہاں ان سے لڑے گی، پوچھا ان کا مدفن کہاں ہوگا؟ اس نے کہا: اسی شہر میں تو تبع نے پھر دریافت کیا کہ جب ان کے درمیان لڑائی ہوگی تو فتح کس کو نصیب ہوگی؟ اس نے کہا: اس نبی کو اور کبھی ان کے دشمنوں کو۔اس جگہ پر جہاں تونے غلبہ حاصل کرلیاہے اس نبی کے ساتھی ان کے ساتھ مل کر ایک جنگ(بدر) لڑیں گے پھر مختلف جگہوں پر جنگ کریں گےمگر آخر کار مکمل کامیابی اسی نبی کو ہوگی۔ اس کے بعد کوئی ان سے اس معاملہ میں اختلاف و نزاع نہ کرے گا۔ پھر تبع نے نبی کریم کے اوصاف کے بارے میں سوال کیاتو اس یہودی عالم نے کہا:نہ تو یہ نبی پست قامت ہوں گے اور نہ ہی دراز قامت(بلکہ میانہ قد ہوگا)۔ان کی دونوں آنکھوں میں سرخی ہوگی۔تبع نے سن کر کہا:پھر میرے لیے اس شہر میں کوئی سبیل نہیں اور نہ ہی اس شہر کی بربادی میرے ہاتھوں لکھی ہے۔
جس وقت شامول نے ظہور نبوت کی یہ نشانیاں بیان کیں اس وقت اس کے ہمراہ اور بھی یہودی علماءتھے انہوں نے کہا: ہم یہیں رہیں گے شاید ہم بعثت"احمد()"کے زمانے کو پالیں چنانچہ تبع نے ہر ایک کوایک کنیز اور مال و متاع عطا کیااور وہ مدینہ شریف ہی میں اقامت پذیر ہوگئے ۔اس كوبيان کرتے ہوئے شیخ حلبی تحریر فرماتے ہیں:
وكان فى ر كابة مائة ألف وثلاثون ألفا من الفرسان ومائة ألف وثلاثة عشر ألفا من الرجالة فأخبر أن أربعمائة رجل من أتباعه من الحكماء والعلماء تبايعوا أن لا يخرجوا منھا فسألھم عن الحكمة فى ذلك؟ فقالوا: إن شرف البيت إنما ھو برجل يخرج يقال له محمد ھذہ دار إقامته ولا يخرج منھا فبنى فيھا لكل واحد منھم دارا واشترى له جارية وأعتقھا وزوجها منه وأعطاھم عطاء جزيلاوكتب كتا با وختمه ودفعه إلى عالم عظيم منھم وأمرہ أن يدفع ذلک الکتاب لمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم إن أدركه وفى ذلك الكتاب أنه آمن به وعلى دينه وبنى دار له صلى اللّٰه عليه وسلم ينزلھا إذا قدم تلك البلد ويقال إنھا دار أبى أيوب وأنه من ولد ذلك العالم الذى دفع إليه الكتاب أى فھو صلى اللّٰه عليه وسلم لم ينزل إلا دارہ ولما خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : أى دعا إلى الإسلام أرسلوا إليه ذلك الكتاب مع شخص يسمى أبا ليلى فلما رآه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال له: انت أبو ليلى الذى معك كتاب تبع الأول؟ فقال له أبو ليلى: من انت؟ قال: أنا محمد ھات الکتاب.15
اور اس تبع کی ہمرکابی میں ایک لاکھ تیس ہزار(1,30000) گھڑ سوار اور ایک لاکھ تیرہ ہزار (1,13000) پیادہ مرد تھے پس اسے خبر دی گئی کہ اس کے فرمانبرداروں میں سے چارسو (400)حکماء و علماء نے اس شہرِمدینہ سے نہ نکلنے کا(اور اس میں رہائش کا) ارادہ کرلیا ہے تو تبع نے ان سے اس کی حکمت دریافت کی تو انہوں نے کہا: (اس شہر کے)گھروں کا شرف ایک خاص شخص کی وجہ سے ہے جو یہاں ہجرت کرے گا جس کا نامِ نامی (سیّدنا)محمد()ہوگا ،یہ شہر اس کی (ہجرت کے بعد)اقامت گاہ ہوگا اور اس سے پھر وہ نہیں نکلےگا۔پھر تبع نے ان میں سے ہر ایک کے لیے ایک گھر بنایااور ہر ایک کے لیے ایک باندی خریدی جس کو آزاد کر کے ان سے نکاح کروایااور انہیں ایک خطیر رقم صرف کرنے کے لیے مرحمت کی۔انہیں ایک مکتوب لکھا جس کو مہر بند کیا اور ان میں سب سے بڑے عالم کواس حکم کے ساتھ دیا کہ اگر وہ اس نبی آخر الزماں کو پالے(تو انہیں پہنچادے)۔اس مکتوب کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ تبع حمیری نبی آخر الزماں پر اور ان کے دین پر ایمان لاتا ہے اور ایک گھر نبی آخر الزماں کے لیے تعمیر کروایا کہ جب وہ اس شہر میں قدم رنجہ فرمائیں تو اس گھرمیں نزول فرمائیں۔کہاجاتا ہے کہ وہ گھر حضرت ابو ایوب انصاری کا تھااور آپ اسی عالم کی اولاد میں سے تھے جس کو تبع نے مکتوب دیا تھا۔ یعنی نبی کریم ﷺ(بحکمِ خداوندی)حضرت ابو ایوب انصاری ہی کے ہاں نزول فرماسکتے تھے ۔پھر جب رسول اللہ نے انہیں دیکھا تو ان سے ارشاد فرمایا: آپ وہی ابو لیلی ہیں جن کے پاس تبع اول کا مکتوب ہے؟ تو ابو لیلی نے حیرانگی میں آپ سے عرض کیا کہ آپ کون ہیں؟آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں(سیّدنا)محمد()ہوں تم وہ مکتوب لے آؤ۔
مذکورہ بالا خط کا مضمون کو بیان کرتےہوئے ابن حدیدۃ تحریر فرماتے ہیں:
أما بعد يا محمد فإنى آمنت بك وبكتا بك الذى ينزله اللّٰه عليك وأنا على وینك وسنتك آمنت بربك ورب كل شىء وبكل ما جاء من ربك من شرائع الإسلام والإيمان وإنى قبلت ذلك فإن أدركتك فبھا ونعمت وإن لم أدر كك فاشفع لى يوم القيامة ولا تنسى فإنى من أمتك الأولين وتابعيك قبل مجيئك وقبل أن يرسلك اللّٰه وأنا على ملتك وملة أبيك إبراهيم وختم الكتاب .16
اما بعد!اے (سیّدنا)محمد()بلاشبہ میں آپ پر ایمان لایا اور آپ کی اس کتاب پر بھی جو اللہ تبارک وتعالیٰ آپ پر نازل فرمائے گا۔میں آپ کے دین اور آپ کے طریقہ پر ہوں۔میں آپ کے رب پر ایمان لایا اور ہرچیز کے رب پر اور اسلام و ایمان کے ہر اس حکم پر جو آپ اپنے رب کی طرف سے لے کر آئے ۔ اگر میں نے آپ کو پالیا تو ٹھیک اور کیا ہی بہتر ہوگا اوراگر نہیں پاسکا تو آپ میری قیامت میں شفاعت فرمایئے گا اور مجھے بھول مت جائیے گا کیونکہ میں آپ کی ولادت و بعثت سے پہلے آپ کی اولین امت اور اولین اتباع کرنے والوں میں سے ہوں ۔میں آپ کی ملت اور آپ کے والد حضرت ابراہیم کی ملت پر ہوں۔اس مضمون پر خط مہر بند کردیا۔
تبع حمیری کے مکتوب کے عنوان پر جو الفاظ رقم کروائے تھے اس کو شیخ حلبی نے یوں تحریر کیا ہے:
وكتب عنوان الكتاب: إلى محمد بن عبد اللّٰه خاتم النبيين والمرسلين ورسول رب العالمين من تبع الأول حميرأمانة اللّٰه فى يد من وقع ھذاالکتاب فى يده.17
تبع نے مکتوب کا عنوان یہ لکھوایا:"محمد بن عبد اللہ() جو خاتم النبیین والمرسلین " اور" رب العالمین کے رسول" ہیں ان کی طرف تبع اول حمیری کی طرف سے۔جس کے ہاتھ میں یہ خط آئے اس کے ہاتھ میں یہ اللہ کی امانت ہے۔
جب رسول مکرم نے اس مکتوب کو پڑھا تو اس کا خیر مقدم فرمایا اور آپ نے مذکورہ خط پڑھ کر تین بار فرمایا کہ مرحبا اے صالح بھائی تبع۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ شاہِ یمن تبع حمیری اور رسول مکرم کے درمیان ایک ہزار(1000) سال کا فاصلہ تھا اور ایک ہزار(1000)سال پہلے شاہ ِیمن نے یہود علماء سے نبی آخر الزماں کی اطلاع پاکر اس مکتوب کو لکھوایا تھا۔
شاہِ یمن تبع اول حمیری نے نبی مکرم کی آئندہ ہونے والی ولادت اور شہر مدینہ دار الہجرت کو دیکھ کر آپ پر ایمان لانے کو حق سمجھا جس کو ایک مکتوب کی شکل میں لکھ کر ایک قبیلہ کو دیا اور ساتھ ہی اس نے چند اشعار ایسے بھی کہے جن میں اس ایمان کی جھلک نمایاں تھی چنانچہ صاحبِ روض الانف اس کے چند اشعار کونقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
لما آمن الملك بمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم وأعلم بخبره قال:
شهدت على أحمد أنه
نبي من الله باري النسم
فلو مد عمري إلى عمره
لكنت وزيرا له وابن عم
وجاهدت بالسيف أعداءه
وفرجت عن صدره كل هم.18
جب بادشاہ (سیّدنا)محمد پر ایمان لے آیا اور آپ کے احوال سے باخبر ہوا تو اس نے یہ اشعار کہے: میں نے نبوت احمد() کی گواہی دی کہ وہ اللہ کی طرف سے سچے پیغمبر ہیں۔میں ان کے زمانہ میں بعثت تک زندہ رہا تو ان کا وزیر بنوں گا اور چچیرا بھائی۔ ان کے دشمنوں کے ساتھ تلوار سے جہاد کروں گا اور ان کے سینے سے ہر غم دورکروں گا۔
ان اشعار کو ابن حدیدۃ19 اور صاحب المقتفیٰ نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔20 ابن ِکثیر بھی ان اشعار کو نقل کرنے کے بعد رقمطراز ہیں:
ولم يزل ھذا الشعر تتوارثه الأنصار ويحفظونه بينھم وكان عند أبى أيوب الأنصارى رضي الله عنه.21
ان اشعار کو انصار وراثت در وراثت نقل کرتے اور محفوظ کرتے رہے اور بالآخر حضرت ابو ایوب انصاری کے پاس پہنچے۔
تبع حمیری کے مذکورہ بالا واقعہ سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم کی بعثت و ولادت و ہجرت اور دیگر کئی اہم واقعاتِ نبوی کو اہلِ کتاب جانتے تھے اور انہیں انبیاءِبنی اسرائیل کی طرف سے یہ اطلاعات وعلامات بتائی گئی تھیں تاکہ وہ ان کو دیکھ کر صحیح راہ متعین کرنے میں کامیاب وکامران ہوسکیں ۔
سیف بن ذی یزن جو خاندان حمیری کا فرد تھا اس نے حضور سرور کائنات کی پیدائش کے دو سال بعد یمن پر اقتدار حاصل کرلیا تھا اور پھر اہل حبشہ کو یمن سے نکال دیا تھا۔ سیف بن ذی یزن کو عرب کے بڑے بڑے سردار اس اقتدار کے حصول پر مبارک با د دینے کے لیے پہنچے۔ انہیں مبارک باد دینے والے سرداروں میں قریش کے مکّہ کے سردار حضرت عبد المطلب بھی شامل تھے ۔حضرت عبد المطلب نے اٹھ کر اجازت چاہی تاکہ وہ بات کریں تو سیف نے کہاکہ اگر آپ ان تمام لوگوں کے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو آگے آئیں اور گفتگو کریں۔ حضرت عبد المطلب نے پہلے پہل بادشاہ اور اس کی بادشاہت کی سلامتی کی دعا کی جس کو سن کر بادشاہ نے حضرت عبد المطلب کو مزید اپنے قریب کیا اور دریافت کیا کہ آپ کون ہیں؟اس سوال کے جواب میں آپ نے کہا کہ میں عبد المطلب ، ہاشم بن عبدمناف کابیٹا ہوں اور ہم یہاں اس لیے آئے ہیں کہ آپ کو مبارک باد دیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ ملک اور بادشاہی عطا کی ہے۔ 22
سیف نے آپ کی قدر دانی کی اور چند دنوں کی مہمان نوازی کے بعد آپ سے چند باتیں کی جو رسول مکرم کے حوالہ سے تھیں۔ان باتوں کو نقل کرتے ہوئے ابو نعیم اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
ياعبد المطلب إنى مفوض ايك من سر علمى مالو غيرك يكون لم أبح به ولكن وجد تك معدنه فاظلعتك طلعه فليكن عندك مطويا حتى يأذن اللّٰه عز وجل فيه فإن اللّٰه بالغ أمره إنى أجد فى الكتاب المكنون والعلم المخزون الذى اخترناه لأنفسنا واحتجبناه دون غيرنا خبرا عظيما وخطرا جسيمافيه شرف الحياة وفضيلة الوفاة للناس كا فة ولر هطك عامة ولك خاصة.23
اےعبد المطلب میں تمہیں ایک راز منتقل کرنے لگا ہوں۔کوئی اور ہوتا تواسے یہ نہ بتلاتا مگر میں نے تمہیں اس کا امین پایا ہے۔یہ راز تمہارے پاس محفوظ رہنا چاہیے تا آنکہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ ظاہر فرمادے ۔ کیونکہ وہ اپنے امر پر غالب ہے۔میں نے خفیہ کتاب اور مخزون علم میں پڑھا ہے جو صرف ہمارے خاندان کے لیے ہے،کوئی اور اسے نہیں پاسکتا۔ ایک عظیم خبر ظاہر ہونے والی ہے جو دوسروں کے لیے خطرہ بھی ہوگی۔اس میں حیاتِ انسانی کے لیے شرافت و فضیلت کا خزانہ ہوگا، بالعموم تمہارے وفد کے لیے او ربالخصوص تمہارے لیے ۔ 24
حضرت عبدالمطلب نے اس راز کی بات کو سن کر بادشاہ سے کہا : خدا تمہیں خوش رکھے اور نیکی و بھلائی کی توفیق رفیق سے نوازے ۔ جس راز کی بات آپ کررہے ہیں وہ راز کیا ہے ؟ اس پر بادشاہ نے حضرت عبدالمطلب سے کہا:
إذا ولد بتھامة غلام بين كتفيه شامة كانت له الإمامة ولكم به الزعامة إلى يوم القيامة قال عبد المطلب: أيھا الملک لقد أبت بخير ما آب بمثله وافد قوم ولولا ھيبة الملک، وإجلاله وإعظامه، لسألته من سراره إياى، ما ازداد سرورا قال له الملك: ھذا حينه الذى يولد فيه، أوقد ولد؟ اسمه محمد: يموت أبوه وأمه ويكفله جده وعمه، قد ولدناه مرارا، واللّٰه باعثه جھارا، وجاعل له منا أنصارا، يعز بھم أولياءہ ويذل بھم أعداءه، ويضرب بھم الناس، عن عرض ويستفتح بھم كرائم أھل الأرض يعبد الرحمن.25
جس وقت تہامہ (سر زمین حجاز)میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے دونو ں کندھوں کے درمیان علامت(مہرِ نبوت)ہوگی، اس کے لیے امامت ہوگی اور تمہارے لیے قیامت تک سیادت ہوگی۔عبد المطلب نے کہا:اے بادشاہ تحقیق مجھے اس قدر خیر اور بھلائی آپ سے حاصل ہوئی ہےکہ جس قدر بھلائی کسی قوم کے وفد کے سربراہ کو نہیں ہوئی۔اگر بادشاہ کی ہیبت ورعب، جلالت ِشان اور عظمت آڑے نہ ہوتی تو میں اپنے اور اس پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں مزید راز پوچھتا تو مجھے بہت زیادہ خوشی حاصل ہوتی۔بادشاہ نے حضرت عبد المطلب سے کہا:یہی اس کے پیدا ہونے کا وقت ہے جس میں وہ پیدا ہوگا یا وہ پیدا ہو بھی گیا ہوگا!اس کا نام محمد()ہوگا،اس کے والدین انتقال کر جائیں گے،اس کی کفالت اس کا دادا اور چچا کریگا۔ہم نے باربار اس کے پیدا ہونے پر غور کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کو علی الاعلان مبعوث فرمائے گا۔ہم ہی سے اس کے مددگاربنائے گا۔انہی کے ذریعہ ان کے دوستوں کو عزت وغلبہ عطا فرمائے گااور دشمنوں کو ذلّت سے دوچار کریگا۔انہی کے ذریعہ لوگوں کی عزتوں کا دفاع کروائے گااور دھرتی پر بسنے والے شرفاء کوغلبہ عطا کریگا۔وہ نبی()رحمن (ﷻ)کی عبادت کریگا۔ 26
اسی طرح کا مضمون اما م ماوردی ،27 امام سیوطی 28اورعمر ابن کثیر نے 29 بھی اپنی اپنی کتبِ سیر میں نقل کیاہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم کی ولادت و بعثت کی ا طلاع اہل کتاب کو تھی اور بعض ان میں سے خوش نصیب تھے جنہیں ان کی تصدیق کرنے اور حق کا اظہار کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔
نبی اکرم کی ولادت کی خبر اہلِ کتاب کو پہلے سے دیدی گئی تھی اورکئی ایک روایات اس موضوع پر شاہد و کافی ہیں۔ذیل میں حضرت کعب بن احبار سے ایک روایت درج کی جاتی ہے جس میں وہ اس نبی آخر الزماں کی ولادت سے متعلق سابقہ نبی کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں۔اس روایت کو نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف نبہانیتحریر فرماتے ہیں:
وعن كعب الاحبار قال رأيت فى التوراة ان اللّٰه تعالى اخبر موسى عن وقت خروج محمد صلى اللّٰه عليه وسلم أى من بطن امه وموسى اخبر قومه أن الكواكب المعروف عندكم اسمه كذا اذا تحرك وسارع موضعه فھو وقت خروج محمد د صلى اللّٰه عليه وسلم وصار ذلک ممايتوارثه العلماى من بنى اسرائيل.30
حضرت کعب الاحبار فرماتے ہیں: میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وہ وقت بھی بتادیا تھا جس وقت حضورِ اکرم نے شکمِ مادر سے اس دنیا میں تشریف لانا تھا۔حضرت موسی نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ فلاں مشہور ستارہ جب حرکت کرنے لگے اور اپنی جگہ چھوڑدے تو وہ حضور کی ولادت کا وقت ہوگا۔علمائے بنی اسرائیل اس بات کو نسل در نسل منتقل کرتے رہے۔31
اس روایت سے واضح ہوجاتا ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء کو آپ کی ولادت کی خبر واضح طور سے معلو م تھی اور وہ اس کو نسل در نسل منتقل کرتے چلے جاتے تھے یہاں تک کہ رسول مکرم کی ولادت و بعثت ہوئی اور بعض لوگ تصدیق کر کے کامیاب ہوگئے۔
اسی طرح ایک یہودی کے حوالہ سے منقول ہے کہ وہ مکّہ میں رہتاتھا اور اس انتظار میں وہاں رہائش پذیر تھا کہ عنقریب آخر الزماں نبی کی ولادت ہونے والی ہےچنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے صاحب الاکتفاء تحریر فرماتے ہیں:
وحکى الواقد عن سليمان بن سحيم قال: كان بمكة يھودى يقال له يوسف، فلما كان اليوم الذى ولد فيه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وسلم قبل أن يعلم به أحد من قريش قال: يا معشر قريش قد ولد نبى ھذه الأمة فى بحرتكم ھذه اليوم وجعل يطوف فى أنديتھم فلا يجد خبرا، حتى انتھى إلى مجلس عبد المطلب فسأل فقيل له: ولد لابن عبد المطلب غلامفقال: ھو نبى والتوراة.32
واقدی نے سلیمان بن سحیم سے نقل کیا کہ وہ فرماتے ہیں:مکّہ مکرّمہ میں ایک یہودی تھا جس کا نام یوسف تھا۔جس وقت رسول اللہ کی ولادت مبارکہ ہوئی تو قریش میں اس خبر کے معلوم ہونے سےپہلے ہی اس نےکہا:اے قریشیوں! تمہاری اس وادی میں آج کے دن اس امت کے نبی()کی ولادت ہوچکی ہے۔وہ یہودی ( یہی معلوم کرنےکے لیے) مکّہ کے گلیوں میں چکر لگارہا تھا لیکن اسے کوئی خبر نہیں ملی یہاں تک کہ وہ حضرت عبد المطلب کی مجلس تک پہنچ گیا۔اس نے جب اس کےمتعلق سوال کیا تو اسے جواب دیا گیا کہ حضرت عبد المطلب کے پوتے کی ولادت ہوئی ہے۔یہ سن کر اس نے کہا:تورات کی قسم یہی وہ نبی()ہے۔
اس روایت سے واضح ہوتاہے کہ احبارِ یہود کو ولادت باسعادت کی اکثر نشانیاں معلوم تھیں۔یہی وجہ تھی کہ ولادتِ رسول کی خبر پھیلنے سے پہلے ہی یہ یہودی اس کے متعلق معلومات کررہا تھا۔ جس طرح یہودی احبار کو نبی اکرمکی ولادت کا علم تھا اسی طرح وہ ایک دوسرے سے بھی اس چیز کاتذکرہ کرتے رہتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے مروی ایک روایت کو نقل کرتے ہوئے صاحب الامتاع تحریر فرماتےہیں:
عامر بن ربیعة قال: سمعت زيد بن عمرو بن نفيل يقول: إنا ننتظر نبيا من ولد إسماعيل، ثم من بنى عبد المطلب، ولا أرانى أدركه وأنا أؤمن به وأصدقه وأشھد أنه نبى، فإن طالت بك مدة فرأيته فأقرئه منى السلام، وسأخبرك ما نعته حتى لا يخفى علیك، فقلت: ھلم، قال: ھو رجل ليس بالطويل ولا بالقصير، ولا بكثير الشعر ولا بقليله، وليست تفارق عينه حمرة، وخاتم النبوة بين كتفيه، واسمه أحمد.33
عامر بن ربیعہ نے کہا:میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کہتے سنا کہ بلا شبہ ہم اولاد اسماعیل میں ،بنو عبد المطلب میں سے ایک نبی کا انتظار کررہے ہیں۔مجھے نہیں لگتا کہ میں انہیں پالوں گا حالانکہ میں ان پر ایمان لاتا ہوں ، ان کی تصدیق کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ بے شک وہ نبی ہیں۔اگر تمہاری عمر لمبی ہو اور تم اس نبی کو پالو تو ان سے میرا سلام کہنا۔میں تمہیں ان کا حلیہ بتادیتا ہوں تاکہ تم پر کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔میں نے کہا جلدی بتائیں!اس نے کہا: نہ تو وہ لمبے قد کے ہوں گے اور نہ ہی پست قامت (بلکہ میانہ قد کے ہوں گے)،نہ ہی زیادہ بال والے ہوں گے اور نہ ہی کم بال والے اور ان کی آنکھ سے سرخی کبھی جدا نہیں ہوگی،مہر نبوت ان کے کاندھوں کے درمیان ہوگی اور ان کا نام(سیّدنا)احمد() ہوگا۔
اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ علمائے یہود ونصاریٰ نبی آخر الزماں کی ولادت و بعثت کی علامات کو جانتے اور آپس میں ایک دوسرے کو ان سے آگاہ کیا کرتے تھے تاکہ اس نبی آخر الزماں کی تصدیق کر کے کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں لیکن ایسا بہت کم افراد کرتے تھے تب ہی اکثریت نبی آخر الزماں کا زمانہ بعثت پانے کے باوجود آپ پر ایمان نہیں لائی اور انکار کر کے خسران کا شکار ہوگئی۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوفجب ملکِ یمن جاتے تو وہاں کسی عسکلان نامی بزرگ کے ہاں ٹھہرتے تھے اور وہ بوڑھا ہر دفعہ آپسے چند سوالات کیا کرتا تھاچنانچہ ابن عساکر اپنی سند سے حضرت عبدا لرحمٰن بن عوف سے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
سافرت الى اليمن قبل مبعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فنزلت على عسكلان بن عواكن الحميرى وكان شيخا كبيرا قد أسنى له فى العمر حتى عاد كالفرخ...وكنت لا ازال إذا قدمت الى اليمن نزلت عليه فيسألنى عن مكة والكعبة وزمزم ويقول ھل ظھر فيكم رجل له نبه له ذكر ھل خالف احد منكم عليكم فى دينكم فأقول لا فأسمى له من قريش وذوى الشرف حتى قدمت القدمة التى بعث فيھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بعقبھا فوافيته وقد ضعف وثقل سمعه فنزلت عليه واجتمع عليه ولده وولد ولده فأخبروه بمكانى فشد عليه عصابة على عينيه وأسند فقعد فقال لى انتسب لى يا اخا قريش فقلت له انا عبد الرحمن بن عوف بن عبد عوف بن الحارث بن زھرة قال حسبك يا اخا زھرة الا أبشرك ببشارة وھى خير لك من التجارة قلت بلى قال أنبئك بالمعجبة وأبشرك بالمرغبة ان اللّٰه عز وجل قد بعث فى الشھر الاول من قومك نبيا ارتضاه صفيا وأنزل عليه كتابا وجعل له ثوابا ينھى عن الأصنام ويدعو الى الاسلام يامر بالحق ويفعله وينھى عن الباطل ويبطله.34
میں رسول کریم کی بعثت سے قبل یمن گیا ہوا تھااور عسکلان بن عواکن حمیری کے ہاں ٹھہرا جوانتہائی بوڑھےہوچکےتھےاور ان کی عمر کافی زیادہ ہوگئی تھی یہاں تک کہ وہ پرندہ کے چھوٹے بچہ کی طرح ہوگئے تھے۔۔۔ جب بھی میں یمن میں ان کا مہمان بنتا تو وہ مجھ سے مکّہ مکرّمہ، کعبہ اور آب زمزم کے بارے میں پوچھتے اور کہتے کہ کیا تم میں کسی ایسے شخص کا ظہور ہوا ہے جس کے متعلق خبریں مشہور ہیں ؟کیا تم میں سے کسی ایک نے تمہارے دین کی مخالفت کی ہے ؟تو میں کہتا "نہیں" پھر میں انہیں قریش اور اشرافیہ کی نشاندہی کرتا ۔یہاں تک کہ یمن جانے کاوہ موقع آیا جس کے معاً بعد ہی رسول اللہ کی بعثت ہوئی تو میں نے اس بزرگ سے آنے کا وعدہ پورا کیا تو وہ اس وقت انتہائی کمزورہوچکے تھے،میں نے اسی کے ہاں قیام کیا۔ اس نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو اکٹھا کرکے انہیں میرے متعلق آگاہ کیا پھر اس کی آنکھیں بوجھل ہوئیں تو وہ وہیں ٹیک لگاکر بیٹھ گیا اور مجھ سے کہا: اے قریشی بھائی! ذرا اپنا نسب بیان کرو تو میں نے کہاکہ میں عبد الرحمٰن بن عوف بن عبد عوف بن حارث بن زہرہ ہوں تو ا س نے کہا بس کافی ہے۔ اے میرے زہری بھائی کیاتمہیں ایک بشارت نہ دوں جو تمہارے لیے تجارت سے بہتر ہے؟میں نے کہا: ہاں بتایئے تو اس نے کہا: میں تمہیں عجیب وغریب خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مہینہ میں تمہاری قوم میں سے ایک نبی مبعوث کرکے اسے صفی بنایا ہے ، اس پر کتاب نازل فرمائی ہے اور اس کے لیے ثواب ٹھہرایا ہے۔ وہ بت پرستی سے روکتا ہے،اسلام کی دعوت دیتا ہے، حق کا حکم کرتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا ہے ،وہ باطل سے روک کر اس کی بیخ کنی کرتاہے۔
یعنی نبی مکرم کی آمد کی اطلاع اور آپ کی ولادت کی علامات اہلِ کتاب جانتے تھے اور ہر ایک چیز جو اس لحاظ سے رسول اکرم اس کی خبر نا جاننے والوں کو دیا کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودنے اسی طرح ایک اور واقعہ حضرت ابو بکر صدیقسے بھی روایت کیا ہے جس کو نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف نبہانی تحریر فرماتے ہیں:
قال خرجت الى الیمن فى تجارة قبل ان یبعث النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فنزلت على شیخ من الازد عالم قد قرء الکتب وحوى علمًا كثیرًا واتى علیه من السن ثلاث وتسعون سنة فلما تاملنى احسبک حرمیا قال ابوبکر فقلت نعم انا من تیم بن مرة انا عبد اللّٰه بن عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعید بن تیم بن مرة قال بقیت لى فیک واحدة قلت ماھى قال اكشف لى عن بطنک قلت لاافعل او تخبرنى لم ذاک فقال انى اجد فى العلم الصحیح الصادق ان نبیا یبعث فى الحرم یعاونه على امره فتى وكھل فاما الفتى فخواض غمرات وكشاف معضلات واما الکھل فابیض نحیف على بطنه شامة وعللى فخذه الیسرى علامة فلا علیک ان ترینى ماخفى على قال ابو ابكر فكشفت له عن بطنى فراى شامة سوداء فوق سرتى فقال انت ھو ورب الکعبة... فقضیت بالیمن اربى ثم اتیت اتیت الشیخ اودعه فقال احامل انت منى ابیاتا الى ذلك النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فقلت نعم وقال ابیاتا ذكر فیھا انه صاحب احبارًا ورھبانًا وكھانًا وكلھم اخبرہ بظھور النبى صلى اللّٰه عليه وسلم مکة وتنکسیه الاوثان وانه یدعوا الناس سرًا وجھرًا الى اتباعه فحفظت وصیته وشعره وقدمت مکة...فقرعت الباب علیه فقلت یامحمد فقدت من نادى قومک فاتھموك بالغیبة وتركت من دین آبائك فقال یا ابا بكر انى رسول اللّٰه الیك والى الناس كلھم فآمن باللّٰه.35
حضرت صدیق اکبر نے فرمایا: میں نبی کریم کی بعثت سے قبل تجارت کی غرض سے یمن گیا جہاں ایک ازدی بزرگ کے ہاں اترا۔ وہ ازدی بزرگ کتاب کا قاری اور زبردست عالم تھا اور چھیانوے(96) سال کا ہوچکا تھا۔ مجھے غور سے دیکھنے کے بعد کہا میرا خیال ہے کہ تم حرم سے تعلق رکھتے ہو۔ میں نے جواب دیا ہاں میں تمیم بن مرہ کے قبیلہ سے ہوں،یعنی میں عبد اللہ بن عثمان بن عامربن عمرو بن کعب بن سعید بن تیم بن مرہ ہوں۔ اس نے کہا کہ اب تم میں صرف ایک نشانی باقی رہ گئی ہے۔ میں نے پوچھا: وہ کونسی؟ اس نے کہا:ذرا اپنے شکم سے کپڑا ہٹائیے ۔ میں نے جواب دیا میں ایسا اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ آپ مجھے اس کی وجہ نہ بتائیں؟ تو اس نے وضاحت کی کہ میں صحیح سچے علم میں یہ پاتا ہوں کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہوگا جس کے فریضۂ نبوت میں ایک نوجوان اور ایک ادھیڑ عمر کا آدمی اعانت کرے گا۔ نوجوان معرکہ آرائیوں میں گھسنے والا ،پیچیدگیوں کو کھولنے والا ہوگا اور وہ کہنہ سال آدمی گورا نحیف و نزار ہوگاجس کے شکم پر تل اور بائیں ران پر ایک نشانی ہے۔ تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ تم مجھے وہ پوشیدہ نشانی دکھا دو۔ حضرت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں میں نے اپنے شکم پر سے کپڑا ہٹایا تو اس نے ناف کے اوپر سیاہ تل دیکھا اور کہا :رب کعبہ کی قسم! وہ ادھیڑعمر آدمی تم ہی ہو۔۔۔پھر میں نے یمن میں اپنے بقیہ کام مکمل کیے اور واپس اسی شیخ کےپاس آیا جس کو چھوڑ گیا تھا۔پس اس نے کہا کہ کیا تم میرے چند اشعار اس نبی مکرم کے پاس لے جاؤگے؟میں نے کہا جی بالکل۔اس نے ایسے اشعار کہے تھے جس میں یہ ذکر تھا کہ وہ ازدگی بزرگ احبار و رہبان اور کاہنوں کا ہمنشین رہاہےاور سب ہی نے اس کو نبی مکرم کے مکّہ مکرمہ میں ظہور کی اور اس کے بتوں کو توڑنےکی خبر دی ہے ۔ اس کی بھی کہ وہ نبی لوگوں کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر(بحکمِ خداوند) اپنی اتباع کی طرف دعوت دےگا۔حضرت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں کہ میں نے اس کی وصیت اور اس کے اشعار یاد کرلیے اور مکّہ واپس آگیا۔۔۔میں نے نبی مکرم کا دروازہ کھٹکھٹایا تو آپ باہر تشریف لے آئے ۔میں نے کہا کہ اے(سیّدنا)محمد() آپ اپنی قوم کی مجلس میں غیر حاضر تھے کہ وہ آپ پر تہمت لگا رہے ہیں کہ آپ نے اپنا آبائی دین ترک کردیا ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابو بکر بلا شبہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیغمبر ہوں تمہاری طرف اور پوری انسانیت کی طرف تو تم اللہ تبارک وتعالیٰ پر ایمان لے آؤ۔
یوں حضرت صدیق اکبر نبی مکرم پر ایمان لے آئے ۔اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ رسول مکرم کی علامات تو ماقبل کتب وصحف میں مذکور تھیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نبی مکرم کے بعض قریب و سابق اصحاب کی بھی نشانیاں مذکور تھیں جیسا کہ قرآن مجید میں بھی اس کو بیان فرمایا گیا ہے 36 جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول مکرم ہی وہ آخری نبی و رسول ہیں جن کا انتظار کیا جارہا تھا ۔
اسی طرح ایک اور روایت جو حضرت عباس سے مروی ہے اس میں بھی اسی طرح کا ایک اور واقعہ مذکور ہے کہ ایک یہودی عالم نے حضرت عبد المطلب سے ملاقات کے دوران آپ کے متعلق چند سوالات دریافت کیے اور کسی نشانی کو دیکھنا چاہاچنانچہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی ان کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
قال عبد المطلب قدمنا الیمن فى رحلة الشتاء فنزلت على حبر من الیھود قال ممن الرجل قلت من قریش قال من ایھم قلت من بنى ھاشم قال اتاذن لى ان انظر الى بعضك قال نعم مالم یكن عورة قال ففتح احدى منخرى فنظر فیھا ثم نظر فى الاخرى فقال اشھد ان فى احدى یدیك ملكا وفى الاخرى نبوة وارى ذلك فى بنى زهرة...قال ھل لك من شاعة قلت وما الشاعة قال الزوجة قلت اما الیوم فلا فاذا رجعت فتزوج منھم فرجع عبد المطلب الى مكة فتزوج ھالة بنت وھب بن عبد مناف فلولدت له حمزة وصفیة وتزوج ابنه آمنة بنت وھب فولدت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقالت قریش افلج عبد اللّٰه على ابیه.37
حضرت عبد المطلب نے فرمایا:ہم سرمائی تجارتی قافلے کے ہمراہ یمن گئے تو میں ایک یہودی عالم کے گھر مہمان ٹھہرا ۔ اس نے دریافت کیا تم کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟ میں نے بتایا بنو قریش سے ہوں۔اس نے پھر سوال کیا قریش کی کس شاخ سے ہو؟ میں نے جواب دیاکہ بنو ہاشم سے۔ اس نے کہا: اگر تم مجھے اجازت دو تو میں تمہارے جسم کے بعض حصوں کا معائنہ کرلوں؟ میں نے کہا: ہاں البتہ ایک شرط ہے کہ بے پردگی نہ ہو۔ چنانچہ اس نے میری ناک کے ایک نتھنے کو کھول کر دیکھا پھر دوسرے کو دیکھا تو کہا کہ گواہ رہو : تمہارے ایک ہاتھ میں سلطنت ہے اور دوسرے میں نبوت اور میرا خیال ہے کہ نبوت بنو زہرہ میں ہے ۔۔۔ اس نے پوچھا کیا تمہارے پاس شاعہ ہے؟میں نے کہا کہ یہ شاعہ کیا شئی ہے؟تو اس نے کہا بیوی ہے؟ میں نے اسے بتایا اس وقت تو نہیں ہے تو اس نے کہا واپس جاکر بنو زہرہ سے شادی کرلینا۔ چنانچہ عبدا لمطلب نے مکّہ واپس آکر ہالہ بنت وھب بن عبدمناف سے شادی کرلی جس سے حمزہ اور صفیہ پیدا ہوئے اور اپنے بیٹے عبدا للہ کوآمنہ بنت وہب سے بیاہ دیا جس سے نبی کریم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ قریش کہا کرتے تھے کہ عبد اللہ اپنے باپ عبد المطلب سے بازی لے گئے۔
اس روایت سے بھی یہی واضح ہوا کہ نبی مکرمکی علامات کو یہاں تک کہ آپ کے خاندان کو بھی اہل کتاب پہچانتے تھے۔
ایک اور واقعہ كتب ِ سير میں مذکور ہے کہ ایک شامی راہب نے اہل مکّہ سے آپ کی ولادت کے بارے میں تذکرہ کیاچنانچہ روایت میں منقول ہے:
وكان بمرّ الظھران راھب من أھل الشام يدعى عيصاوقد كان آتاه اللّٰه علما كثيرا وكان يلزم صومعة له ويدخل مكة فيلقى الناس ويقول: يوشك أى یقرب أن يولد فيكم مولود يا أھل مكة تدين له العرب، ويملك العجم: ھذا زمانه، فمن ادركه واتبعه أصاب حاجتھومن أدركه وخالفه أخطأ حاجته.38
مر الظہر ان کے مقام پر ملک شام کا ایک راہب رہتا تھا جس کا نام عیصی تھا۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے زبردست علم دیا تھااور وہ ہر وقت اپنی عبادت گاہ میں رہتا تھا ۔ وہ جب بھی مکّہ آتا تو لوگوں سے ملتا اور کہتا: اے اہل مکّہ بہت قریب زمانے میں تمہارے درمیان ایک بچہ پیدا ہوگا اور سارا عرب اس کے راستے پر چلے گا، وہ عجم کا بھی مالک ہوجائے گااور یہی اس کا زمانہ ہے ،جو اس کے زمانے کو پائے گا اور اس کی پیروی کرے گا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائےگا۔جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ اپنے مقصد اور آرزوؤں میں ناکام ہوگا۔
چنانچہ مکّہ میں اس زمانے میں جو بھی بچہ پیدا ہوتا وہ اس کے بارے میں تحقیق کرتا اور کہتا کہ ابھی وہ بچہ نہیں پیدا ہوا، آخر جب وہ صبح ہوئی یعنی وہ وقت آیا جس میں آپ کی ولادت ہوئی تو عبد المطلب اپنے گھر سے نکلے اور عیص کے پاس آئے۔ عیص نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں عبد المطلب ہوں ، پھر انہوں نے اس راہب سے پوچھا کہ اس بچے کے بارے میں کیا کہتے ہو۔ اس نے کہا: بے شک وہ بچہ پیدا ہوگیا جس کے بارے میں تم سے کہا کرتا تھا اور وہ ستا رہ جس کا طلو ع ہونا اس بچے کی پیدائش کی علامت ہے آج رات نکل آیا ہے اور اس کی علامت یہ بھی ہے کہ اس وقت اس بچے کو درد ہورہا ہے۔یہ تکلیف اسے تین دن رہے گی اور اس کے بعد وہ ٹھیک ہوجائے گا۔پھر اس نے عبد المطلب سے کہا کہ جو کچھ میں نے تم سے اس بچے کے متعلق کہاہے اس کا کسی سے ذکر مت کرنا اس لیے کہ لوگ اس بچے سے اتنا زبردست حسد کریں گے کہ آج تک کسی سے نہیں کیا گیاہوگا اور اس کی اتنی سخت مخالفت ہوگی کہ کبھی کسی کی نہیں ہوئی ہوگی ۔39اس مضمون کو صاحب سبل نے بھی نقل کیاہے۔ 40
حضرت حلیمہ سعدیہ جب نبی کریم کو دوبارہ مکّہ واپس لارہی تھیں تو حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے نبی کریم کو دیکھ لیا تھا اور اپنے ساتھ حبشہ لیجانے کے در پہ ہوگئے تھےچنانچہ روایت میں منقول ہے:
أن نفرا من الحبشة نصارى رأوه معھا حين رجعت به بعد فطامه، فنظروا إليه وسألوھا عنه، وقلبوه، ثم قالوا لھا: لنأخذن ھذا الغلام فلنذھبن به إلى ملكنا وبلدنا، فإن ھذا غلام كائن له شأن نحن نعرف أمره فلم تكد تنفلت به منھم.41
حبش کے کچھ عیسائیوں نے آپ کو حضرت حلیمہ کے ساتھ دیکھا جب وہ آپ کے ساتھ مدت رضاعت کے بعد واپس لوٹ رہی تھیں۔ انہوں نے آپ کو بغور دیکھا اور حضرت حلیمہ سے آپ کے بارے میں سوالات کرنے لگےاور آپ کو اپنے پاس کرلیا۔پھر وہ حضرت حلیمہ سے کہنے لگےہم ا س بچہ کو ضرور پکڑ لیں گے اوراپنے ملک اورشہرلے جائیں گے۔ یہ بچہ بڑی شان والا ہے، ہم اس کے متعلق خوب جانتے ہیں۔حضرت حلیمہ نے جلدی ان سے جان چھڑائی۔
مذکورہ بالا تمام حوالہ جات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپ کی ولادت وبچپن،لڑکپن وجوانی، بعثت و کہولت ، اقامت وہجرت،سیر و غزوات الغرض کئی اہم واقعاتِ نبوی ا وراہم علامات ایسی تھیں جو علماء یہود ونصاری جانتے تھے۔نہ صرف اتنا بلکہ آپ کے بعض جلیل القدر اصحابِ عظّام کی نشانیاں بھی انہیں معلوم تھی ۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر وہ علامات جن کا ظہور آپ کی ولادت سے قبل اور بعد ،بعثت سے قبل اور بعدہوا اس کو اچھی طرح پہچانتے تھے اور دوسرے اشخاص کوان سے آگاہ بھی کرتے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان اہلِ کتاب میں سے بعض ہی وہ خوش نصیب افراد تھے جو مشرّف بہ اسلام ہوئے جیسے عبد اللہ بن سلا م ،کعب بن احبار وغیرہ اور دیگر اکثریت نے بغض و عناد کی بنیاد پرآپ کا نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ کی مخالفت بھی کی اور اب بھی مخالفت کے درپے ہیں لیکن بحکم الہی ان تمام تر کوششوں کے باوجود دینِ محمدی غالب ہوتا رہا اور آپ کی تعلیمات پھیلتی رہی یہاں تک کہ آج روئے زمین کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں آپ کی اتباع کرنے والے موجود نہ ہوں۔