Encyclopedia of Muhammad

بعدا ز وِلادَت معجزات کا ظہور

رسول اکرم کی ولادت کے بعد ظہور پذیر ہونے والے معجزات کو متقدمین ارباب سیرنے باہمی مناسبت کی وجہ سے دوران ولادت رونما ہونے والے معجزات کے ساتھ ہی ذکر کیا ہے علیحدہ سے اس پر کلام نہیں کیالیکن یہاں پر ان معجزات کی تفصیل کو واضح کردیاگیا ہے ۔بعد ازو لادت معجزات کے طور پر رونما ہونے والے واقعات اسی حکمت کے تحت رونما ہوئے ہیں جس حکمت کے تحت قبل از ولادت اور بوقت ولادت معجزات کا ظہور ہواہے یعنی یہ تمام ہی واقعات جو بصورت معجزات ظاہر ہوئے وہ آپ کی نبوت کا پیش خیمہ تھے 1اورساتھ ہی ساتھ اس بات پر دلیل بھی کہ آپ کی تشریف آوری در اصل احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا سبب عظیم ہے۔ 2 اسی طرح ان معجزات کی صور ت میں ظاہر ہونے والی رحمت باری تعالیٰ اس بات کی طرف نشاندہی کرتی ہے کہ رحمت ونعمت کے تمام راستوں کا افتتاح و دوام آپ سے مضبوط تعلق کی بناء پر ہے ۔

نداء ِکفالتِ درِّ یتیم

رسول اكرم کی ولادت سے قبل جب آپ اپنی والدہ محترمہ حضرتِ سیّدہ آمنہ کے شکمِ اقدس میں دو ماہ سے كم کی حمل کی صورت میں موجود تھے تب آپ کے والدِ محترم حضرت عبد اللہ وصال فرماگئے تھے3اور یوں آپ کی ولادت درِّیتیم کے طور ہوئی تواس وقت ملائکہ نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے آپ کی درّ یتیمی کے حوالہ سےعرض کیا چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن عباس ایک منقول روایت میں فرماتے ہیں :

  انه لما توفى عبد اللّٰه قالت الملائکة الھنا وسیدنا بقى نبیک یتیما فقال اللّٰه تعالى انا له حافظ ونصیر.4
  جب ابو النبی حضرت عبد اللہ وصال فرماگئے تو ملائکہ نے (پرورش کے حوالہ سے دریافت کرتے ہوئے)عرض کیا کہ اے ہمارے معبود و سردار تیرا نبی (درّ)یتیم ہوگیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس کا محافظ ومددگار ہوں۔

چونکہ عموما ًپرورش والد کرتا ہے اور نبی کریم تو دُرِّ یتیم تھےاسی وجہ سے ملائکہ نے عرض کیا اور ان کی معروض کے پیشِ نظر اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں جواب عنایت فرمایا۔اسی طرح تفسیر بحر المحیط میں اس حوالہ سے منقول ہے:

  وقيل لجعفر الصادق: لم يتم النبى صلى اللّٰه عليه وسلم من أبويه؟ فقال: لئلا يكون عليه حق لمخلوق.5
  امام جعفر صادق سے دریافت کیاگیاکہ نبی کریم اپنے والدین کریمین کے سائے سے کیوں دور ہوئے تو انہوں نےکہا کہ تاکہ آپ پر کسی مخلوق کا حقِّ (تربیت)نہ ہو۔

نبی اکرم کی ولادت کے بعدآپ کی کفالت کے حوالہ سے نداکی گئی تو کئی مخلوقا ت نے اس بابت اپنی گزارش عرض کی چنانچہ اس حوالہ سے صاحب مواہب تحریر فرماتے ہیں:

  وقد ذكر وا أنه لما ولد صلى اللّٰه عليه وسلم قيل: من يكفل ھذہ الدر ة اليتيمة التى لايوجد لمثلھا قيمة؟ قالت الطيور: نحن نكفله ونغنم خدمته العظيمة، قالت الوحوش: نحن أولى بذلك ننال شرفه وتعظيمه، فنادى لسان القدرة: أن يا جميع المخلوقات: إن اللّٰه تعالى قد كتب فى سابق حكمته القديمة أن نبيه الكريم يكون رضيعا لحليمة الحليمة.6
  علماءذکر فرماتے ہیں کہ جب نبی اکرم کی ولادت باسعات ہوئی تو کہا گیا کہ اس دریتیم کی پرورش کون کرے گا جس کی مثل کسی کا مقام نہیں۔ پرندوں نے کہا: ہم اس بچے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں اور اس کی خدمت عظیمہ کو غنیمت جانتے ہیں۔ وحشی جانوروں نے کہا: ہمیں اس کا زیادہ حق ہے کہ یہ شرف و عظمت ہم حاصل کریں۔ چنانچہ زبان قدرت سے اعلان ہوا کہ اے تمام مخلوق! بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی سابق حکمت قدیمہ میں لکھ دیا ہے کہ اس کے نبی کو دودھ پلانے کا شرف حضرت حلیمہ سعدیہ کو حاصل ہوگا۔ 7

یعنی رسول کریم کی درّیتیمی میں اس بات کا اظہار کرنا مقصود تھا کہ آپ کی حفاظت وپرورش کا نگہبان اللہ تبارک وتعالیٰ ہی ہے اور اس میں کسی کا آپ پر کوئی احسان نہیں ہے جیساکہ دوسروں کی پرورش میں ہوتاہے۔

پنگھوڑے میں گفتگو

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف سے منقول ہے کہ جب رسالت مآب اس عالم میں رونق افروز ہوئے تو کوہِ ابو قبیس کے جنوں کو مقام حجون 8کے جنوں نے سیّدانس و جان کی ولادت کی بشارت دیتے ہوئے یوں کہا:

  فاقسم ما انثی من الناس انجبت
ولا ولدت انثی من الناس واحدہ
کما ولدت زھریۃ ذات مفخر
نجیۃ من لوم القبائل ماجدہ
وقد ولدت خیر البریۃ احمداً
فاکرم مولود واکرم والدہ
وقال اللذی علی ابو قبیس۔۔۔۔۔
یا ساکنی البطحاء لا تغلطوا
ومیّرّوا الامرل بفعل مضیٰ
ان بنی زھرۃ من سرّکم
فی غابرالامر و عند البُدیٰ
واحدۃ منکم فھاتوا لنا
فیمن مضیٰ فی الناس اومن بقی
واحدۃ من غیر ھم مثلھا
جنینھا مثل النبی التقیّ.9
  میں قسم کھاتا ہوں کہ کوئی عورت انسانوں میں نہ خود اتنی سعادت مند ہے اور نہ کسی نے اتنے سعادت مند اور نجیب و شریف کو جنم دیا ہے۔جیسا کہ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والی قابل صد افتخار امتیازی اوصاف کی مالکہ قبائل کی ملامت اور طعن و تشنیع سے منزّہ اور مبرّا اور مجدو بزرگی کی مالکہ حضرت آمنہ نے مقدس اور سعادت مند بچے کو جنم دیا ہے۔تحقیق اس نے جنم دیا ہے اس ذات اقدس کو جو سب مخلوق میں سے بہتر ہیں اور احمد کے پیارے نام سے موسوم ۔ پس کس قدر عزت والا اور کتنا بلند شان والا مولود ہے۔
ابو قبیس پر موجود جن اس ہاتف کے جواب میں یوں گویا ہوا:
اے بطحا کے رہنے والو دھوکہ نہ کھاؤ اور مغالطہ میں نہ رہو۔ اور سابقہ اعمال و افعال سے حقیقت امر معلوم کرو۔بے شک بنو زہرہ ابتداء اور انتہا دونوں میں تمہارا ہی حصہ ہے اور وہ شاخ اور سَروناف کے رشتہ میں تمہارے ساتھ شریک ہیں۔مگر تم گزشتہ لوگوں میں سے یاجو باقی بچ رہے ہیں ان میں سے کوئی ایسی مقدس عورت دکھاؤ اور پاکیزہ ماں بتلاؤ۔جس کا بیٹا بنی زہرہ کی لاڈلی آمنہ کے مقدس بیٹے جیسا ہو جو کہ مقام نبوت کے مالک ہیں اور خدا ترس اور پابند احکام خدا وند جل وعلیٰ۔ 10

یعنی انسانوں کے علاوہ آپ کی آمد و ولادت کی خبر جنات کو بھی دی جا چکی تھی کیونکہ آپ کی رسالت دونوں کے لیے یکساں ہے تبھی جنات کو بھی ان نشانیوں میں سے بعض کی خبر دی گئی تھی اور جنات نے بھی اس خبر سےایک دوسرے کو آگاہ کیا تھا۔

بعدِ ولادت ایک یہودی کی آمد

رسول اکرم کی ولادت کے تھوڑے عرصہ بعد حضرت عبد المطلب کے پاس ایک یہودی آیا جس نے رسول اکرم کو دیکھنے کے بعداپنی کتاب کی ایک نشانی بیان کی۔چنانچہ اس حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی تحریر فرماتے ہیں:

  و أخرج أبو نعیم من طریق الواقدى عن شیوخه قالوا بینا عبدالمطلب یوماً فى الحجر وعندہ أسقف نجران وكان صدیقاً له وھویحادثه ویقول انا نجد صفة نبى بقى من ولد اسماعیل ھذا مولده من صفت كذا وكذا فأتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فنظر الیه الأسقف والى عینیه والى ظھرہ والى قدمیه فقال ھو ھذا ماھذامنک قال ابنى قال الأشقف لا مانجد أباه حیاً قال ھوابن ابنى وقد مات أبوه وأمه حبلى به قال صدقت قال عبدالمطلب لبنیه تحفظوا بابن أخیکم ألا تسمعون مایقال فیه.11
  ابونعیم نے واقدی سے اور وہ اپنے شیوخ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عبدالمطلب "الحجر"میں تشریف فرما تھے۔ نجران کا ایک پادری ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ آپ کا دوست تھا ،وہ آپ سے یوں محو گفتگو تھا: ہم نے اپنی کتاب میں پایا ہے کہ ایک نبی باقی رہ گیا ہے وہ اولادِ اسماعیل سے ہوگا، یہ شہر اس کی جائے ولادت ہوگا، وہ فلاں فلاں صفت سے متصف ہوگا۔ اتنے میں حضور وہاں تشریف لے آئے اس پادری نے آپ کو بڑے غور سے دیکھا۔ اس نے آپ کی آنکھوں کی طرف دیکھا، آپ کی پشت مبارک اور آپ کے قدموں کو دیکھا۔ آپ کے تمام اعضاء کو دیکھ کر اس نے کہا: وہ نبی جس کا ذکر سابقہ کتب میں ہے وہ یہی ہے پھر اس پادری نے حضرت عبدالمطلب سے پوچھا :اس لڑکے کا آپ سے کیا تعلق ہے؟ انہوں نے کہا یہ میرا بیٹا ہے۔ اس نے کہا یہ آپ کا بیٹا نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم نے پڑھا ہے کہ اس کے والد اس کی پیدائش سے قبل وفات پاچکے ہوں گے ۔ پھر حضرت عبدالمطلب نے کہا یہ میرا پوتا ہے، ابھی یہ شکم مادر میں ہی تھے کہ ان کے والدِ محترم کا انتقال ہوگیا یہ سن کر اس پادری نے کہا کہ آپ نے سچ کہا ہے۔حضرت عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اپنے اس بھتیجے کی ہر ممکن حفاظت کرو کیا تم سن نہیں رہے کہ اس کے بارےمیں کیا کہا جارہا ہے۔12

اسی حوالہ سے حضرت حسان بن ثابت سے ایک روایت منقول ہے جس میں انہوں نے اپنے بچپن کی تقریباً سات(7)سال کی عمر کا واقعہ بیان فرمایاہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

  سمعت يھوديا يصرخ بأعلى صوته على أطمة بيثرب: يا معشر يھود...طلع الليلة نجم أحمد الذى ولد به. 13
  میں نے ایک یہودی کو دیکھا کہ وہ یثرب کے ایک بلند مقام سے یہودیوں کو "اے گروہِ یہود"کہہ کر پکار رہا ہےکہ گزشتہ رات احمد کا ستارہ طلوع ہوگیا ہے،جس میں ان کی پیدائش ہوگئی۔14

اس روایت کو ابن اسحاق نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔15اسی طرح کی ایک روایت حضرت ام المؤمنین عائشہ الصدیقہ سے مروی ہے:

  كان يھودى قد سكن مكة، فلما كانت الليلة التى ولد فيھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: يا معشر قريش: ھل ولد فيكم الليلة مولود، قالوا: لا نعلم قال: انظروا، فإنه ولد فى ھذه الليلة نبى ھذه الأمة بين كتفيه علامة فانصرفوا فسألوا فقيل لھم قد ولد لعبد اللّٰه بن عبد المطلب غلام فذھب اليھودى معھم إلى أمه فأخرجته لھم فلما رأى اليھودى العلامة خر مغشيا عليه وقال: ذھبت النبوة من بنى إسرائيل يا معشر قريش: أما واللّٰه ليسطون بكم سطوة يخرج خبرھا من المشرق والمغرب.16
  ایک یہودی مکّہ مکرّمہ میں رہتا تھا،جس رات رسول اکرم کی ولادت باسعادت ہوئی اس نے کہا:اے جماعت قریش!کیا آج رات تم لوگوں کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟انہوں نے کہا :ہمیں معلوم نہیں۔اس نے کہا کہ دیکھو آج اس امت کا نبی( )پیدا ہوا ہےجس کے دونوں کاندھوں کے درمیان علامت ہے۔وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے اور معلوم کیا تو کہا گیا کہ حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے۔وہ یہودی ان قریشیوں کے ہمراہ آپ کی والدہ ماجدہ کے پاس گیاچنانچہ حضرت سیّدہ آمنہ نے آپ کو ان لوگوں کے پاس باہر بھیجا۔جب یہودی نے علامت دیکھی تو بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔افاقہ کے بعد کہنے لگا:اے قریش بنی اسرائیل سے نبوت چلی گئی۔ اے گروہِ قریش سنو! اللہ کی قسم اس نبی ( )کو تمہارے ذریعہ ایسی شان وشوکت حاصل ہوگی کہ اس کی خبر مشرق و مغرب میں پھیلے گی۔17

اس روایت کو امام حاکم،18 بیہقی 19 او ر متاخرين ميں شاه محد ث دہلوی نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔20امام واقدی اس حوالہ سے نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

  أنه كان بمكة يھودى يقال له يوسف، لما كان اليوم أى الوقت الذى ولد فيه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قبل أن يعلم به أحد من قريش قال: يا معشر قريش قد ولد نبى ھذه الأمة الليلة فى بحرتكم، أى ناحيتكم ھذه، وجعل يطوف فى أنديتھم فلا يجد خبرا، حتى انتھى إلى مجلس عبد المطلب فسأل، فقيل له: قد ولد لابن عبد المطلب: أى لعبد اللّٰه غلام، فقال، ھو نبى والتوراة.21
  مکّہ میں ایک یہودی رہتا تھا جس کا نام یوسف تھا، اس وقت جب رسول اللہ پیدا ہوئے تو اس سے پہلے کہ قریشیوں کو آنحضرت کی ولادت کی خبر ہوتی اس یہودی نے قریشیوں کو بتایا کہ گزشتہ رات اس امت کا نبی( ) اس علاقہ میں پیدا ہواہے۔ اس کے بعد وہ قریش کے گھرانوں میں بچے کے متعلق معلوم کرنے کے لیے پھرنے لگا مگر اسے کچھ پتہ نہ چل سکا۔ آخر گھومتے گھومتے وہ حضرت عبد المطلب کی مجلس میں پہنچ گیا۔جب وہاں بچے کے متعلق تحقیق کی تو اس کو بتلایا گیا کہ ابن عبد المطلب یعنی حضرت عبد اللہ کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس یہودی نے یہ سنتے ہی کہا کہ توریت کی قسم وہ اس امت کا نبی ( )ہے۔22

اِسی طرح ایک روایت میں حضرت اسماء بنت ابی بکر سے منقول ہے کہ آپ کی ولادت کےبعد دوافراد نجاشی کےپاس گئے تو نجاشی نے چند سوالات کیے جو رسول کریم کی ولادت کے متعلق ہی تھے۔چنانچہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے صاحبِ سبل الھدی تحریر فرماتے ہیں :

  كان زيد بن عمرو بن نفيل وورقة بن نوفل يذكران أنھما أتيا النجاشى بعد رجوع أبرهة من مكة، قالا: فلما دخلنا عليه قال: أصدقانى أيّھا القرشيان: ھل ولد فيكم مولود أراد أبوه ذبحه فضرب عليه بالقداح فسلم ونحرت عنه جمال كثيرة؟ فقلنا نعم. قال: فھل لكما علم به ما فعل؟ قلنا: تزوّج امرأة منا يقال لھا آمنة تركھا حاملاً وخرج قال: فھل تعلمان ولدت أم لا؟ قال ورقة: أخبرك أيھا الملك إنى قد قربت عند وثن لنا إذ سمعت من جوفه هاتفاً يقول:
ولد النّبء فذلّت الأملاك ........ ونأى الضّلال وأدبر الإشراك
ثم تنكّس الصنم على رأسه فقال زيد: عندى خبره أيھا الملك، إنى فى مثل ھذه الليلة خرجت حتى أتيت جبل أبى قبيس إذ رأيت رجلاً ينزل له جناحان أخضران فوقف على أبى قبيس ثم أشرف على مكة فقال: ذلّ الشيطان وبطلت الأوثان وولد الأمين. ثم نشر ثوباً معه وأھوى به نحو المشرق والمغرب فرأيته قد جلّل ما تحت السماء وسطع نورٌ كاد يخطف بصرى، وھالنى مارأيت وخفق الھاتف بجناحيه حتى سقط على الكعبة فسطع له نور أشرقت له تھامة وقال: زكت الأرض وأدّت ربيعھا. وأومأ إلى الأصنام التى كانت على الكعبة فسقطت كلھا. قال النجاشى: أخبركما عما أصابنى: إنى لنائم فى الليلة التى ذكرتما فى قبّتى وقت خلوتى إذ خرج على من الأرض عنق ورأس وھو يقول: حلّ الويل بأصحاب الفيل، رمتھم طيرٌ أبابيل بحجارة من سجّيل، ھلك المعتدى المجرم، وولد النبى المكى، من أجابه سعد ومن أباه عند، ثم دخل الأرض فغاب فذھبت أصيح فلم أطق الكلام ورمت القيام فلم أطق القيام فأتانى أھل فقلت: احجبوا عنى الحبشة فحجبوھم فأطلق اللّٰه لسانى ورجلي.23
  حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت کیا ہے، بتایا جاتا ہے کہ زید بن عمرو اور ورقہ بن نوفل نجاشی کے پاس گئے۔ اس وقت ابرہہ مکّہ مکرّمہ سے واپس جاچکا تھا۔ انہوں نے کہا: جب ہم اس کے پاس گئے تو نجاشی نے کہا: اے قریشیو! مجھے سچ بتانا کہ تم میں ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جس کے والد ِگرامی کو ذبح کرنے کا ارادہ کیا گیا۔پھر جب ان کے لیے قرعہ اندازی کی گئی تو وہ بچ گئے اور ان کی طرف سے بہت سے اونٹ ذبح کیے گئے؟ ہم نے کہا : ہاں! اس نے پوچھا: کیا تمہیں علم ہے کہ انہوں نے کیا کیا؟ہم نے کہا: اُنہوں نے ایک (مقدس)عورت سے شادی کی جسے( سیّدہ) آمنہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے انہیں بحالتِ حمل چھوڑا اور عازمِ سفر(وصال) ہوگئے۔ نجاشی نے کہا:کیا تمہیں علم ہے کہ ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے یا نہیں۔ ورقہ نے کہا: بادشاہ سلامت! میں آپ کو(اس کے متعلق) بتاتا ہوں۔ ایک دفعہ میں اپنے ایک بت کے قریب ہوا۔ میں نے اس کے پیٹ سے کسی ہاتف کو سنا وہ کہہ رہا تھا: "نبی کریم پیدا ہوئے، بادشاہ ذلیل ہوگئے، گمراہی دور چلی گئی اور شرک پیٹھ پھیرکر دور ہوگیا"۔ پھر وہ بت اپنے منہ کے بل گر پڑا۔ زید بن عمرو نے کہا: اے بادشاہ! مجھے اس کے بارے میں علم ہے۔ میں اس رات باہر نکلااور کوہِ ابی قبیس پر آیا۔ میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے دو سبز پر تھے اور وہ کوہِ ابی قبیس پر کھڑا تھا۔ پھر اس نے مکّہ مکرّمہ کی طرف دیکھا۔ اس نے کہا: شیطان ذلیل ہوگیا، بت باطل ہوگئےاور الامین پیدا ہوگئے۔ پھر اس نے اپنے پر مشرق سے مغرب تک پھیلادیے۔ میں نے دیکھا کہ اس کے نیچے ہر چیز روشن ہوگئی ہے۔ ہاتف اپنے پروں سے پھڑپھڑایا حتیٰ کہ وہ خانہ کعبہ پر گر پڑا اور اس کا نور قریب تھا کہ میری بینائی اچک لیتاجس سے سارا تہامہ روشن ہوگیا۔ اس نے کہا: زمین پاک ہوگئی اور اس کی بہار لوٹ آئی۔ اس نے ان بتوں کی طرف اشارہ کیا جو خانہ کعبہ کی چھت پر تھےتو یکدم سارے نیچے گر پڑے۔ نجاشی نے کہا: اب میں تمہیں اپنے بارے میں بھی بتاتا ہوں۔ میں اس رات سویا ہواتھا جس رات کا تذکرہ تم کررہے ہو۔ میں اپنے خیمہ میں تنہا تھاکہ اچانک زمین سے ایک سر بمع گردن یہ کہتے ہوئے بلند ہوا۔اصحابِ فیل پر ہلاکت اتری کہ ابابیل نے انہیں پتھروں سے برباد کردیا، ظالم اور مجرم ہلاک ہوگئے ۔ نبی مکی پیدا ہوگئے ہیں جس نے ان کی صدا پر لبیک کہا وہ کامیاب ہوگیا جس نے انکار کیا وہ سرکشی کرگیا۔ پھر وہ سر زمین میں داخل ہوگیااور غائب ہوگیا۔ میں چیخنے لگا، میں گفتگو بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا مگر میں کھڑا نہ ہوسکا۔ میرے اہلِ خانہ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں کہا کہ اہلِ حبشہ کو مجھ سے دور لے جاؤ۔ وہ انہیں دور لے گئے تو رب تعالیٰ نے میری زبان اور ٹانگیں چھوڑدیں۔24

اس روایت کو امام سیوطی نے بھی نقل کیا ہے 25 اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس قسم کی اوربے شمارروایات ہیں جن میں علمائے اہل کتاب نے نبی کریم کی ولادت باسعادت کی خوشخبریاں دی ہیں26 جن میں قبل از ولادت اور بعد از ولادت کے کئی واقعات کتب سیر میں منقول ہیں جن سب کا ماحصل یہ ہے کہ نبی اکرم کی ولادت اہل دنیا کے لیے باعثِ فلاح و نجات تھی اور اہل کتاب آپ کی آمد کے منتظر تھے۔

حضور کا گہوارہ میں چاند سے باتیں کرنا

رسول اکرم کی ولادت کے معاً بعد یعنی بوقتِ ولادت اللہ تباک وتعالیٰ کی حمدوثناء کرنا کتب سیر میں منقول ہے جس کو ابو نعیم اور27شیخ حلبی 28 دونوں آئمہ نے نقل کیا ہے۔اس کے علاوہ رسول اکرم جب اپنے پالنے میں ہوتے تو اس وقت آپ چاند سے بھی ہمکلام ہواکرتے تھےچنانچہ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت عباس بن حضرت عبد المطلب سے روایت کیا کہ وہ فرماتےہیں:

  يا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم دعانى إلى الدخول فى دينك أمارة لنبوتك رأيتك فى المھد تناغى القمر وتشير بأصبعك فحيث أشرت إليه مال قال صلى اللّٰه عليه وسلم إنى كنت أحدثه ويحدثنى ويلهينى عن البكاء وأسمع وجنته تسجد تحت العرش.29
  یا رسول اللہ مجھے تو آپ کی نبوت کی نشانیوں نے آپ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ گہوارے میں چاندسے باتیں کرتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند جھک جاتا تھا۔ حضور نے فرمایا: میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آواز کو سنا کرتا ہوں۔

اسی طرح اس حوالہ سےالروضۃ الفیحاء میں یوں مذکور ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:

  قال صلى اللّٰه عليه وسلم: كنت أحدثه ويحدثني ويلهيني عن البكاء وأسمع وجبته، أي سقطته، حين يسجد تحت العرش.30
  رسول کریم نے ارشاد فرمایا:میں اس سے باتیں کیا کرتا تھا اور وہ مجھ سے باتیں کیا کرتا تھا اور مجھے رونے سے روکے رکھتا تھا اور میں اس کے غروب ہونے کی آواز بھی سنتا تھا جب وہ عرش کے نیچے سجدہ ریز ہوتا۔

اسی طرح رسول اکرم جب اپنے پالنے میں ہوتے تو فرشتے آپ کی خدمت پر معمور تھے اور وہ آپ کو جھولا دیا کرتے تھےچنانچہ اس حوالہ سے امام سیوطی نقل فرماتے ہیں:

  وذكر ابن سبع فى الخصائص ان مھده صلى اللّٰه عليه وسلم كان یتحرک بتحریک الملائکة وان اول كلام تکلم بھا قال: اللّٰه اكبركبيراوالحمد للّٰه كثيرا.31
  ابن سبع نے"الخصائص " میں بیان کیا کہ آپ کے گہوارے کو فرشتے ہلاتے تھے اور سب سے پہلا کلام جو آپ نےکیا وہ یہ تھا: اللہ اکبر کبیراوالحمد للہ کثیرا (اللہ تبارک وتعالیٰ بڑا ہے اور تمام تعریفیں بے حساب اللہ کے لیے ہیں)۔ 32

یعنی رسول کریم کو فرشتے کھلایا کرتے تھے اورچاند بھی آپ کی خدمت پر معمورتھا جس کو دیکھ کر حضرت عباس نے آپ کی فضیلت و صداقت کو پہچان لیا تھا اور اعلان نبوت کے بعد آپ پر ایمان لے آئے تھے۔33

انگوٹھے سے دودھ

نبی کریم کی ولادت کے بعد جہاں کئی معجزاتی واقعات کا ظہور ہوا وہاں ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر صاحبِ سبل الھدی نے کیا ہے ۔چنانچہ وہ حضرت سیّدہ آمنہ سے مروی روایت کو نقل کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  عن آمنة أنھا قالت: وضعت عليه إناء فوجدته قد انفلق الإناء عنه وھو يمصّ إبھامه يشخب لبناً.34
  حضرت سیّدہ آمنہ سے روایت ہے کہ میں نے( آپ کی پیدائش کے بعد) آپ کے اوپر ایک برتن ڈھانپ دیا (مگر صبح کو) میں نے دیکھا کہ وہ برتن پھٹ کر آپ کے اوپر سے ہٹ چکا ہے اورآپ اس حال میں تھے کہ اپنا انگوٹھا چوس رہے تھے جس سے دودھ نکل رہا تھا۔

اس روایت کی تفصیل ذیلی روایت سے ہوتی ہے جس کو البدایہ والنہایہ میں اسماعیل بن کثیر نےذکر کیاہے وہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  كان المولود إذا ولد فى قريش دفعوه إلى نسوة من قريش إلى الصبح يكفأن عليه برمة، فلما ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم دفعه عبد المطلب إلى نسوة فكفأن عليه برمة، فلما أصبحن أتين فوجدن البرمة قد انفلقت عنه باثنتين ووجدنه مفتوح العينين شاخصا ببصره إلى السماء. فأتاھن عبد المطلب فقلن له ما رأينا مولودا مثله، وجدناه قد انفلقت عنه البرمة، ووجدناہ مفتوحا عينيه شاخصا ببصره إلى السماءفقال احفظنه فإنى أرجو أن يكون له شأن .35
  جب قریش میں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ عورتوں کے حوالے کردیتے تھےاور وہ عورتیں اس کو ایک ہانڈی سے صبح تک ڈھانپ دیتی تھیں۔جب رسول اللہ پیدا ہوئے تو حضرت عبد المطلب نے آپ کو عورتوں کے حوالے فرمادیا اور انہوں نے آپ کو ایک ہانڈی سے ڈھانپ دیا۔جب وہ صبح آئیں تو انہوں نے دیکھاکہ ہانڈی کے دو ٹکڑے ہوچکے ہیں اور نبی کریم کو دیکھا کہ دونوں چشمان مقدّسہ کھلی ہوئی ہیں اور آپ آسمان کی جانب نظریں بلند کیے ہوئے ہیں۔وہ عورتیں حضرت عبد المطلب کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ ہم نے اس جیسا بچہ نہیں دیکھا ۔ہم نے ا س بچہ کو اس حال میں پایا کہ اس پر ہانڈی دو ٹکڑے ہوچکی تھی اور ہم نے اس بچہ کو اپنی نظریں آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے پایا تو حضرت عبد المطلب نے فرمایا کہ اس بچہ کی حفاظت کرو کیونکہ مجھے امید ہے کہ یہ انتہائی عظمت وشرف والا ہوگا ۔

اسی طرح مروی ہے کہ آنحضرت کی ولادت کے بعد آپ کے دادا عبدالمطلب ،نے آپ کو اپنے گھر کی عورتوں کے سپردکیا تھا جن میں ان کی بیٹی یعنی آپ کی پھوپھی پیش پیش تھیں۔چنانچہ ابن عساکر اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  فأتا هن عبد المطلب فقلن له مارأينا مولودا مثله...وجدناه مفتوحا عينيه شاخصا ببصره إلى السماء فقال احفظنه فإنى أرجو أن يصيب خيرا.36
  پھر جب ان کے پاس حضرت عبد المطلب تشریف لائے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم نےایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا کیونکہ یہ نومولود صبح کو ہمیشہ بیدار ہی نظر آتا ہے اور آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکتا رہتا ہے۔ اس پرحضرت عبدالمطلب جواب دیتےتھے کہ اس کی انتہائی نگہداشت کریں کیونکہ مجھے امید ہے کہ وہ بڑی شان کو پہنچے گا ۔

چونکہ آپ کی ولادت کے وقت بھی کئی معجزاتی واقعات رونماہوئے تھے اور حضرت عبد المطلب و حضرت سیّدہ آمنہ کے اظہار کرنے سے دیگر افراد کو بھی معلوم ہوگئے تھے اسی وجہ سے بیت عبد المطلب کی خواتین نے یہ جملہ کہا کہ ہم نے ایسا نومولود نہیں دیکھا ۔اس جملہ سے صاف واضح ہورہا ہے کہ خاندان عبد المطلب کے افراد بھی اس نومولود کی اہمیت و فضیلت سے با خبر ہوگئے تھے۔

حضرت عبد المطلب نے رسول اللہ کی ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کیا اور اپنی قوم کےمعززین کو مدعو کیا تو انہوں نے نبی کریم کے نام کی انفرادیت کے پیشِ نظر ایک سوال کیا۔چنانچہ اس کو نقل کرتے ہوئے امام سمہودی تحریر فرماتے ہیں:

  وفى سابع مولده ذبح جدّه عنه اعنى عقیقته ودعا قومه الاكرمين فحضروا ولیمته فلما فرغوا منھا قالوا ماسمیته یا عبد المطلب قال سمیتھه محمداياكرام قالوافلم رغبت عن اسماى آبائک واھل بیتک الاعلام قال رجوت ان يكون محمودا فى السمائ للّٰه وفى الارض لخلقه وقد حقق اللّٰه تعالى رجائه كما سبق فى علمه بعظیم حقه.37
  آپ کی ولادت کے ساتویں دن آپ کے جدّ امجد حضرت عبدالمطّلب نے آپ کی طرف سے قربانی کی یعنی آپ کا عقیقہ کیا اور اپنی معزز قوم کو دعوت پر بلایا تو وہ سب آپ کے عقیقہ کی دعوت پر تشریف لائے۔جب وہ کھانے سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے کھانا تناول کرنے کے بعددریافت کیا: اے عبد المطلب! اس بچے کا نام کیا رکھا ؟آپ نے فرمایا: میں نے اس بچے کا نام( سیّدنا)"محمد" ( )رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنے باپ دادا اور گھر والوں کے ناموں سے کیوں بے رغبتی کی ؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ میں امید کرتا ہوں یہ بچہ آسمانوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں اور زمین میں لوگوں کے درمیان بھی قابل تعریف ہوگا۔ بالتحقیق اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عبد المطلب کی امید کو ثبت فرمادیا جیساکہ اس کے علمِ ازلی میں آپ کے مقامِ عظیم کے متعلق طے کیا جا چکا تھا۔

وہ تمام معجزاتی واقعات جو رسول اکرم کی ولادت کے بعد رونما ہوئے فی الحقیقت ان کے اظہار کا مقصد نبی کریم کی انفرادیت و امتیازیت سے لوگوں اور بالخصوص اہل کتاب کوروشناس کراناتھا تاکہ آئندہ زمانہ میں جب نبی کریم بحکمِ الہی اعلان نبوت فرمائیں تو رونما ہونے والے واقعات و معجزات ممد ومعاون بنیں اور لوگ آپ کی طرف مزید کھنچے چلے آئیں۔خصوصًا یہ معجزات اہل کتاب کے لیے واضح طور پر براہین ِ قاطع کی حیثیت رکھتے تھے کیونکہ ان میں سے اکثر علامات و واقعات کو وہ جانتے تھے جس کی بنا پرانہیں نبی کریم کی یعنی نبی آخر الزماں کی پہچان ا پنے بچوں کی طرح تھی جیساکہ قرآن مجید میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے 38 اور عمومی طور پر یہ معجزاتی واقعات آج بھی افرادِ انسانی کےلیے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت ہی رکھتےہیں کہ وہ ہستی جس کی پیدائش کے بعدمعجزاتی واقعات رونما ہوئے وہ ضرور ایک چنیدہ اور مخصوص فرد تھے جنہیں رب تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے مختص کیا تھا اور انہی کی تعلیمات کو ماننے میں انسانیت کی فلاح ہے۔

 


  • 1 شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-1، مطبوعة:دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م،ص:74
  • 2 القرآن، سورة الجمعة2:62
  • 3 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ، ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:74
  • 4 شيخ احمد بن محمد القسطلانى، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، ج-1، مطبوعة:دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2009م،ص:64
  • 5 ابو حیان محمد بن یوسف الاندلسی، البحر المحیط فی التفسیر، ج-10، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:497
  • 6 شیخ احمدبن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:79
  • 7 شیخ احمدبن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ (مترجم: مولانا محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:93-94
  • 8 مقام حجون وہ مقام ہےجہاں اہلِ قریش اپنے کپڑے دھوکر سکھایا کرتے تھے اور اس کے نیچے قبرستان بھی تھا ۔(ادارہ)
  • 9 ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، الوفاء باحوال المصطفی ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاہرۃ، مصر،1976م،ص: 162 -163
  • 10 ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، الوفاء باحوال المصطفی ﷺ (مترجم: علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ: حامد اینڈ کمپنی ، لاہور، پاکستان،2002ء، ص:125-126
  • 11 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلین ﷺ،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ بیروت، لبنان، 2005م، ص:122
  • 12 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی،حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّدالمرسلینﷺ(مترجم:علامہ ذوالفقار علی ساقی)،ج-1،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور، پاکستان،2013ء،ص:262
  • 13 ابو محمد عبد الملک بن ہشام الحمیری،السیرۃ النبویۃ ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:129
  • 14 ابو محمد عبد الملک بن ہشام الحمیری،السیرۃ النبویۃ (مترجم:مولوی قطب الدین احمد)، ج-1،مطبوعہ:الفیصل ناشران ِ وتاجرانِ کتب، لاہور، پاکستان، 2006ء،ص:177
  • 15 ابو عبید اللہ محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:132
  • 16 شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:69
  • 17 شیخ احمد بن محمد القسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ(مترجم:مولانا محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال، لاہور، پاکستان،2011ء، ص:81-82
  • 18 ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین،حدیث:4177، ،ج-4،مطبوعۃ:المکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان2006م، ص:1566
  • 19 ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃ ﷺ، ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:108
  • 20 شاہ عبد الحق محدث دہلوی،مدارج النبوۃ،ج-2،مطبوعہ:نوریہ رضویہ پبلشنگ کمپنی،لاہور،پاکستان،1997ء،ص:15
  • 21 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ الامین المأمونﷺ،ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:102
  • 22 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، سیرتِ حلبیہ(مترجم:مولانا محمد اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ: دار الاشاعت ، کراچی، پاکستان،2012ء، ص:225
  • 23 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م،ص:351
  • 24 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی،سبل الھدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ (مترجم: پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)،ج-1، مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز ،لاہور، پاکستان، 2012ء،ص: 312-313
  • 25 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی،الخصائص الکبریٰ،ج-1،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م، ص: 89 -90
  • 26 جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ،ضیا النبی ﷺ،ج-2،مطبوعہ :ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور، کراچی، پاکستان، 2013ء،ص:32
  • 27 ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی ،دلائل النبوۃ،ج-1،مطبوعۃ:مکتبۃ العصریۃ، بیروت، لبنان،2012م، ص: 76 -77
  • 28 ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامون ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:84
  • 29 ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر،تاریخ دمشق،ج-3،مطبوعة:دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م،ص:360
  • 30 ياسين بن خير الله بن محمود العمرى،الروضة الفيحاء فى أعلام النساء،ج-1، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ،القاہرۃ، مصر،2005م، ص: 31
  • 31 جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج-1،مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008م،ص:91
  • 32 جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ(مترجم:مفتی سیّدغلام معین الدین)،ج-1،مطبوعہ:زاویہ پبلیشرز،لاہور،پاکستان، 2014ء، ص:126
  • 33 ابو القاسم علی بن حسن ابن عساکر،تاریخ دمشق،ج-3،مطبوعة:دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م،ص:360
  • 34 امام محمد بن یو سف الصالحٰى الشامی ،سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-1،مطبوعة:دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،2013م،ص:346
  • 35 أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي، البداية والنهاية، ج-2، مطبوعة: دارالفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 265 -266
  • 36 ابو القاسم علی بن حسن ابن عساكر ،تاریخ دمشق،ج-3،مطبوعة:دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1995م،ص:80
  • 37 امام نور الدین علی بن احمد سمہودی، الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃ ﷺ،مطبوعۃ: زاویۃ ببلشرز، لاہور، باکستان، 2015م،ص: 112
  • 38 القرآن،سورۃالانعام120:6