Encyclopedia of Muhammad

تاریخ کی حقیقت

مطالعۂ تاریخ ازمنۂ قدیم سے ہی انسان کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے اور اس کی ظاہری کشش عقلِ انسانی کا واضح راستہ متعین کرتی رہی ہے۔سنجیدہ اذہان ماضی کے تاریخی واقعات کو ذاتی دانشورانہ دلچسپی کے ساتھ ساتھ کسی خاص تہذیب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کوسمجھنے کے لیے بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کی سماجی، معاشی، سیاسی حکمت عملیوں اور فیصلہ سازی کو ماضی کے تاریخی علم کی روشنی میں مرتب کرنے کے لیے بھی تاریخ کا مطالعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

تاریخ کے مطالعے میں قدیم سیاسی ، سماجی ، فنی ، تعلیمی ، عسکری تاریخ اور مذہبی گروہوں کی کا میابیوں مثلاً مسلمانوں کی تاریخ وغیرہ پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اس مطالعہ کی بدولت اُس عہد کی زندگی کی سمت اور جہت کو جاننے کے بعد ہم علم کے اس سانچے سے اچھی طرح لیس ہوجاتے ہیں جس کی عہدِحاضر میں ہمیں اپنی دانشورانہ ، نظریاتی اور جسمانی زندگیوں کی تعمیر کے لیے ضرورت ہے۔یہ مطالعہ ہمیں ماضی میں پیش آنے والے واقعات و حوادثات کے قریب لے جاتا ہے یوں ہم ان کے اسباب و علل کے بارے میں جان کر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح اس وقت سے اب تک حالات و عوامل میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہم ان اہم شخصیات کے بارے میں بھی جانتے ہیں جو ماضی کے ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کےدوران تبدیلی کا محرک اور سرچشمہ ثابت ہوئے ہیں ۔

تاریخ کا دائرہ کار

تاریخ کا تعلق سماجی نظم وساخت، افراد اور سماجی گروہوں کے درمیان تعلقات کے طرزِ عمل اور طریقۂ کار، مثلا جنسی میلان ، قیادت، بنیادی اساسی ڈھانچے، تخصیص ِ کار، مواصلاتی نظام اور اس طرح کے بنیادی عوامل سے ہے۔ یہ ان حالات و کیفیات اور عوامل کا مطالعہ کرتی ہے جو کسی بھی تہذیب کی فطرت پر اثر انداز ہوکر اسےمتاثر کرتے ہیں مثلاًوحشت و بربریت ،خون خواری وسفاکیت، صحبت پسندی وسماجی میل جول، گروہ بندی کے احساسات اور ایسے اطوار و اسالیب جن کی بدولت ایک انسانی گروہ دوسرے پر فوقیت حاصل کر تا ہے۔یہ شاہانہ اقتدار ، شاہی خانوادوں اور ان میں پائے جانے والے بہت سے مناصب ودرجات کی سرگزشت ہے۔ مزید براں یہ مختلف اقسام کے نفع بخش پیشوں اور ذرائع روزگار کے ساتھ ساتھ علم و شعور اور ان فنون اور ہنر مندیوں کا بھی احاطہ کرتی ہے جنہیں انسان اپنی فعالیت اور سعی کے طور پر اپناتے ہیں اوران میں ایک دوسرے سے مسابقت کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ان تمام اداروں،سماجی تنظیموں اور ان دساتیر اور رسوم کا بھی مطالعہ کرتی ہے جو کسی بھی تہذیب اور تمدّن میں اس کی فطرت کے تحت کارخانۂ قدرت میں جنم لیتے ہیں ۔

انسانی ترقی و ارتقا میں قدیم تہذیبوں کا کردار

دنیا کی اہم وقدیم تہذیبوں کی تاریخ سے آگہی، انسانی تاریخ کو بڑے پیمانےپر جاننے اور سمجھنے کا ذریعہ ہے جس میں قدیم غاروں کی دیواروں پر کنندہ نقوش سے لے کر آج کی دنیا کی جدید ترین ایجادات شامل ہیں۔ اگرچہ تہذیب و تمدّن کی اصطلاح کسی منفرد وجود یا واضح پہچان کی حامل اجزائے ترکیبی کے کسی خاص مجموعے کی طرف اشارہ نہیں کرتیں تاہم یہ عام طورپر انسانی معاشروں کو ثقافت اور صنعت و حرفت میں ترقی کی اعلیٰ سطح کے مطابق بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ تاہم یہ تعریف غیر واضح اور موضوعی ہے اور یہ انسانی معاشروں کے طویل ماضی میں وقوع پذیر ہونے والے تغیروتبدل کے حوالے سے ان مفروضوں پر مبنی ہے جنہیں جدید علمیت قبول ہی نہیں کرتی۔ تاریخ کو نہ تو لازمی طور پرتکنیکی وفنی یا جمالیاتی کارناموں تک محدود کرنا چاہیے اور نہ ہی اسے تمدّنی ترقی کے کسی خاص مرحلے کی نمائندگی کرنی چاہیے بلکہ ایک وسیع تر مفہوم میں یہ مجموعی انسانی ترقی میں خیالات و تصوّر ات، سیاسی کامیابیوں اور کارناموں، معاشی فراوانی و مرفہ الحالی، سماجی و اخلاقی اقدار کے ڈھانچے اور فن تعمیر کے شعبوں میں ہونے والی فکری و عقلی شراکت کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

اکثر یہ یقین کیا جاتا ہے کہ تمام بڑی تہذیبوں نے خیالات و تصوّر ات کے ارتقا و ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ہے جس کے نتیجے میں انسان نے وحشت و بربریت سے ترقی کے تازہ ترین مراحل تک کا سفرطے کیا ہے مگر یہ نقطۂ نظر کچھ مخصوص تہذیبوں کی عظمت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے اور باقی ماندہ کوکم تر سمجھتے ہوئے ادنی ٰ و کم رتبہ ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ جدید علما اور محققین کو ترقی ، تشکیل، اور ارتقا کے اس طویل سفر میں باقی ماندہ اقوام کے حصے اور شراکت کو شامل کرنے کا احساس ہوا ہے۔

تہذیب کےبنیادی عناصر

ول ڈیورانٹ(Will Durrant) کے مطابق تہذیب ثقافتی تخلیق و آفرینش کو ترقی و فروغ دینے والا سماجی نظام ہے جس کی تشکیل چار عناصر کرتے ہیں:معاشی رسائی، سیاسی ساخت و تنظیم ، اخلاقی اقدار و روایات اور تحصیلِ علم و فن کی جستجو۔
وہ اس میں مندرجہ ذیل عناصر کو بھی شامل کرتا ہے:

  1. تہذیب کا قیام و استحکام
  2. تہذیب کے حالات
  3. تہذیب کے معاشی اجزا ءو عناصر
  4. تہذیب کے سیاسی اجزا ءو عناصر
  5. تہذیب کے اخلاقی اجزاء و عناصر
  6. تہذیب کے ذہنی و عقلی اجزاء و عناصر
  7. تہذیب کی قبل از تاریخ داغ بیل 1

گورڈون چلائیڈ (Gordon Childe) نامی امریکی مورخ اور ماہرِ آثارِ قدیمہ نے دس خصوصیات پر مشتمل ایسی فہرست مرتب کی ہے جو ایک تہذیب کو مختلف اقسام کے دیگرمعاشروں سے ممتاز کرتی ہے۔اس فہرست کوکئی مرتبہ نظرِ ثانی اور تبدیلی کے عمل سے گزار کر دوبارہ مرتب کیا گیا۔لیکن ماہر آثار قدیمہ چارلس ریڈمین(Charles Redman) کا نقطہِ نظر مزید بہتر تصویر پیش کرتا ہے جسکے مطابق کسی بھی تہذیب کی بنیادی خصوصیات میں وہاں کی شہری آبادیاں ، کل وقتی ماہرین (جو زراعت سے وابستہ نہیں ہوتے)، ضرورت سےزائد پیداوار کا ارتکاز، طبقاتی ڈھانچہ اور ریاستی سطح کی تنظیم (حکومت ) شامل ہیں۔ جبکہ تہذیب کی ثانوی خصوصیات میں وہاں کی یادگار عوامی عمارات، وسیع مربوط تجارتی سلسلے اور رابطے، اعلی ٰمعیارکی یادگار فنی تخلیقات، تحریری مواد اور عین سائنسی علوم کی ترقی و نمو کا کردار اہم ہوتا ہے ۔2

آفاقی تہذیب کا معیار

اس فہرست میں موجود معیارات کی صحت و صداقت سے قطع نظر ہم اپنے قاری کی توجہ اس نکتے کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ یہ فہرست مادی فوائد کے گرد گھومتی نظر آتی ہے اور واضح طور پر اخلاقی و نظریاتی ارتقا و نموکو نظر انداز کردیتی ہے۔ کیا تہذیب کے یہ لوازمات اور اجزائے ترکیبی ایک آفاقی تہذیب کی تشکیل کے لیے کافی ہیں یا پھر یہ پیمانے صرف یورپی یا مغربی تہذیب کے لیے ہی موزوں ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ وہ پیمانہ جو آفاقی تہذیب تشکیل دیتا ہے صرف الہامی پیغام سے ہی اخذکیا جا سکتا ہے جو کہ انبیاءاور الہامی متون کے ذریعے ہی ہم تک پہنچا ہے۔چونکہ حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک اللہ عزّوجل کا پیغام مستقل طور پر یکساں رہا ہے اس لیے آفاقی تہذیب کےلیے ہمیشہ سے بنیادی عامل کی حیثیت وہی رکھتا ہے۔سب سے پہلے نبی حضرت آدم جو اوّل البشر ہیں اس عظیم آفاقی تہذیب کا نقطۂ آغاز تھے جنہوں نے عقیدۂ وحدانیت(Monotheism)کی بنیاد پرنظریاتی، اخلاقی اور سماجی تشکیل و ارتقا کے ساتھ ترقی کی۔ علم موجودات کے وجود سے متعلق سوال اور وجودِ انسانی کے مقصد سے لے کر سماجی اور اخلاقی زندگی تک ایک خدا کا تصوّر انبیا ء کی توثیق و تصدیق اور ایمان کے دیگر عناصر و اجزا کے ساتھ ان کے بیان و گفتگو میں ہمیشہ غالب رہاہے۔

یہاں اس اندیشے کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے کہ انبیاء کا سلسلہ ءِ نسب اور ایمان کے دیگر اجزا صرف مذہبی اساطیر اور دیومالائی کہانیوں کو بیان کرتےہیں جن کا کوئی معقول مادی ثبوت نہیں ہے نیزانہوں نے انسانی سوچ ، خیالات اور عقل کی تشکیل و ارتقا میں یا تو سرے سےکوئی حصہ ہی نہیں ڈالا یا پھر بہت ہی کم تعاون کیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی تہذیب و تمدّن کی تاریخ پر لکھی گئی کتب کا بہت بڑا انبار ، صرف غیر معمولی واقعات اور ثقافتی وتہذیبی اشیاءکو محفوظ کرتا ہے اور صرف اس مواد کو محفوظ کرتا ہے جوتہذیب کے لیے ضروری عناصر و عوامل کی مذکورہ بالافہرست سےہم آہنگ و موافق ہوں۔یوں یہ مصنفین مذہبی علامات اور تشخیصی عناصراور ان کو جانچنے اور پرکھنے کے پیمانوں اور اصولوں کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جو کہ بیان ِتاریخ میں نقص اور خیانت ہے ۔

الہامی رہنمائی کی ضرورت

انسانی علم کے عمومی طور پر چار ذرائع ہیں جن میں وجدان، رسمی ذرائع ، عقلی قیاس اور تجربات سے حاصل کیا گیا علم شامل ہے۔
• وجدان وہ علم کہلاتاہے جو کسی احساس یا خیال کی بنیاد پر حاصل ہو اور سچ ثابت ہو سکتا ہو۔3
• رسمی ذرائع سے مراد وہ علم ہے جو آپ اپنے والدین سے یا کسی کتاب سے حاصل کرتے ہیں جو یہ بتاتاہے کہ چیزوں کی ماہیت کیا ہےاور کون سی چیز کیا ہے۔
•عقلی قیاس سے مراد وہ ذریعۂ علم ہے جس کی بنیاد استدلال اور ثبوت پر ہو۔ 4 اس طرح کے علم سے مراد مفروضہ قائم کرنا اور اس کا ثبوت دینا یا کسی دوسرے طریقے سے کسی چیز کا ثبوت پیش کرنا ہے۔
•تجرباتی علم سے مراد وہ علم ہے جو حسی تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ استدلال اور ثبوت انتہائی احتیاط سے مرتب کیے گئے مشاہدات اور قابل تغیر اشیاء کی سائنسی طریقوں سے جوڑ توڑ اورتبدیلی، تحقیقی نمونوں اورخاکوں کی تکرار اور اعداد و شمار جمع کرنے اور ان کی تاویل و توضیح کے نتیجے میں حاصل کیا جاتا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کا انسانی علم ہمارے حواس کی ترجمانی کا نام ہے۔اس دنیا کے متعلق تمام معلومات ہمارےحواس ِ خمسہ کی بدولت ہم تک پہنچتی ہیں۔یوں جس دنیا کے بارے میں ہم جانتے ہیں وہ صرف وہی ہے جو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں ، جو ہمارے ہاتھ چھو کر محسوس کر سکتے ہیں، جو ہماری ناک سونگھ سکتی ہے، ہماری زبان جس کا ذائقہ چکھ سکتی ہے اور ہمارے کان جسے سن سکتے ہیں۔ ہر وہ چیز جس کا ہم خارجی دنیا کے طور پر ادراک کرتے ہیں دراصل ہمارے دماغ میں تخلیق پانے والے برقی اشاروں(Electrical Signals) کا ایک تاثر اور ردِعمل ہے۔ سیب کے سرخ ہونے ، لکڑی کے سخت ہونے، اس کے علاوہ ماں باپ، خاندان اور ہر وہ چیز جو کسی کی ملکیت اور تصرف میں آ سکتی ہے، گھربار، ملازمت و کاروبار ، یہاں تک کہ یہ صفحات بھی، سب کے سب، صرف اور صرف ہمارے ذہن میں تخلیق پانے والے برقی اشارات پر مبنی ہیں۔با الفاظ ِ دیگر ہم سیب کا خارجی دنیا میں اصل رنگ کبھی نہیں جان سکتے نہ ہی وہاں (خارجی دنیا میں)لکڑی کی حقیقی وضع و بناوٹ تک ہماری رسائی ہو سکتی ہے۔نہ ہی ہم اپنے والدین کی حقیقی شکل وصورت اور حلیہ جان سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے باقی چاہنے والوں کا۔ وہ سب خارجی دنیا میں قادرِ مطلق خدا کی تخلیقات کے طور پر اپنا وجود اور ہستی رکھتے ہیں تاہم جب تک ہم اس دنیا میں موجود ہیں ہمارا براہِ راست تجربہ دماغ میں بننے والے عکس یا چیزوں کی نقول پر ہی منحصر ہے۔

اس عمل کو مزید وضاحت سے سمجھنے کے لیے ہم ان حواس خمسہ پر غور کرتے ہیں جو ہماری خارجی دنیا کے متعلق ہمیں تمام معلومات بہم پہنچاتے ہیں۔اگر انسانی بصارت کی بات کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کے انسان کے دیکھنے کا عمل مرحلہ وار طریقے سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ روشنی جو کہ فوٹونز(Photons) نامی ذرّات پر مشتمل ہوتی ہے کسی بھی چیز پر پڑنے کے بعد منعکس ہو کر سفر کرتی ہوئی آنکھ کے سامنے کے حصے میں موجود عدسے میں داخل ہو جاتی ہے جہاں اس چیز کا عکس منعطف ہو کر آنکھ کے پچھلے حصے میں موجود پردۂ بصارت (Retina) پر اُلٹا پڑتا ہے۔ یہاں بصری محرکات (Visual Stimuli) برقی اشاروں(Electrical Signals) میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔یہ برقی اشارے نیورون(Neuron) نامی خلیوں کے ذریعے دماغ کے پچھلے حصے میں موجودایک انتہائی چھوٹی سی جگہ میں پہنچتے ہیں جو بصری مرکز(Vision Center) کے نام سے جانی جاتی ہے۔بہت سے سلسلہ وار مراحل سے گزرنے کے بعد یہ برقی اشارے ایک تصویری عکس کی صورت میں انسان کے حیطۂ ادراک میں آجاتے ہیں۔

ایک اہم حقیقت جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں اور جس حقیقت کا تجربہ کرتے ہیں وہ ہمارے دماغ میں موجود ہے اور ہم اس چیز کی اصلیت کو کبھی نہیں جان سکتے جو فی الحقیقت خارج میں موجود ہے ۔ بہت سی تکنیکی جدّتیں مثلاً اصل سے مشابہت رکھنے والے نظام جنہیں محرک عمل (Simulators) کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ انسانی خواب اس حقیقت کےسب سے اہم ثبوت ہیں۔مزید براں یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی حواس کی صلاحیت بہت ہی محدود ہے اور یہ صرف مادّے کا ادراک کر سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بہت سے مشاہدات اور تجربات سے یہ بھی واضح ہے کہ ہمارے حواس حقیقت کے شعور میں بہت سنگین غلطیاں کرسکتے ہیں ۔یوں باآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسانی حواس علم کا ایک مستند و معتبر ذریعہ نہیں ہیں اور اگر کسی درجے میں ہیں بھی تو نہایت ہی محدود اور سطحی نوعیت کے علم کا ۔
جہاں تک تعلق عقلِ انسانی کا ہے تو اس کو ان معنوں میں علم کا ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ یا تو موجودہ علم میں سے حقائق اخذ کرنے کے لیے یا استخراجی اسباب سے نتائج کے استدلال (Priori)کے لیے یا پھر لازمی سچائیوں مثلاً ریاضی کے حقائق کی خالصتًا عقلی بنیاد پر دریافت کے لیے استعمال ہوتی ہے ۔

وجدان یا الہام (Intuition) وہ علم ہے جو ایک ایسے احساس یا خیال سے حاصل ہوتا ہےجوآنے والے وقت میں سچ ثابت ہو جائے۔اسے تین اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔

  1. نفسیاتی وجدان:وہ الہام یا وجدان جو خالصتاًانسان کی ذہنی صلاحیت سے وقوع پذیر ہو۔
  2. شیطانی وجدان: ایسا الہام یا وجدان جو جنّوں اور شیاطین کے ساتھ خارج میں تعلق کی بنا پر حاصل ہو۔
  3. ربانی وجدان:وہ الہام جو من جانب اللہ ہوتا ہے۔یہ یا تو برا ہِ راست خدائےوحده لا شریک کی طرف سےہوتا ہے یا فرشتے کے واسطے سے وقوع پذیر ہوتا ہے ۔قرانِ حکیم میں موسیٰ کی ماں کی طرف کیے گئےالہام کا ذکر موجود ہے۔5 تاہم کسی فرد کا الہام کسی بھی صورت میں عالمگیر رہنمائی کا ذریعہ نہیں ہو سکتا ۔یہ صرف ایک فرد کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے جو دوسروں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔

مذکورہ بالا بحث واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی ذرائع علم میں خامیاں و کمزوریاں اور نقائص موجود ہیں جو ایک اعلی ٰ و برتر اور کامل ذریعۂ علم کے متقاضی ہیں ۔اسی لیے اللہ عزوجل نے انسان کو تاریخ کے ہر عہد میں ربانی الہامی علم کے توسط سےہدایت عطا فرمائی ہے۔ الہامی علم نے عقلی و منطقی استدلال ، عقلی گفتگو اور تحلیلی و تجزیاتی نقطۂ نظر کو فروغ دیا جبکہ اس کے برعکس توہم پرستی اور علت و معلول کے درمیان غیر منطقی تعلق کا نتیجہ بت پرستی ، مظاہر پرستی اور انسانوں کی دوسرے انسانوں کے ہاتھوں ذہنی و جسمانی غلامی اور سیاسی و مذہبی درجہ بندی اور تقسیم کی صورت میں سامنے آیا ۔

انسانی تہذیب و تمدّن کو قدرتی وآفاقی نمونے پر ڈھالنے کے لیے بھی الہامی ہدایت و رہنمائی ضروری ہے مگر بد قسمتی سے انسانوں نے رشد و ہدایت کے گزشتہ الہامی ذرائع کو مال و دولت کی حوس ، اور طاقت و اقتدار اور مرتبے کے حصول کی خاطر پراگندہ اور مسخ کر دیا ۔ بالآخر قران ِ حکیم نے اللہ عزوجل کی آخری وحی کی حیثیت سے اور نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفےﷺ نے اپنی سنتِ مبارکہ سے نظریاتی اور عملی طور پران تمام سوالات اور اشکالات کے جوابات عطا فرمائے جو عہدِ عتیق سے انسانی ذہنوں میں موجود تھے اور جن کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت نے انسانی تہذیب و تمدّن کے لیے ایک عالمگیر آفاقی نمونہ اور انسانی زندگی کے لیے ضابطہ اخلاق بھی مہیا فرمایا۔

تخلیق کے نظریات

ابتدائے آفرینش اور تخلیقِ کائنات سے متعلق سوالات علما ءو محققین کے درمیان ایک انتہائی پر جوش بحث کا حصّہ رہےہیں جن کے مختلف نوعیتوں کےجوابات سامنے آئے ہیں ۔تاہم کوئی عینی و بصری ثبوت کسی بھی نظریۂ تخلیق کی تائید نہیں کرتا اس لیے ابتدائے کائنات کی حقیقت کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے ۔سوائے اس کا ئنات کے خالق و مالک اور اس کےرسول ﷺکے کسی نے بھی قطعاً ناقابلِ تردید توضیح پیش نہیں کی کہ کس طرح اس کائنات اور موجودات کی تخلیق ہوئی ۔ اس تاریخی مظہر کی لا تعداد غیر مذہبی توضیحات میں "عظیم الشان دھماکے سے ابتدائے کائنات کا نظریہ (The Big Bang Theory)" کائنات کی تشریح و توضیح کے حوالے سےعہد حاضر کاسب سے معروف اور قابلِ قبول سمجھا جانے والا نظریہ ہے۔

اگرآسان الفاظ میں بات کی جائے تو یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات کی ابتدا ایک معمولی سی اکائی سے ہوئی جو13.8بلین سال تک مسلسل پھیل کر موجودہ شکل اختیار کر چکی ہے جسے ہم کائنات کے طورپر جانتے ہیں جبکہ ابتدا سے ہی موجود توانائی او ر مادّےکی کثافت کائنات کے اس پھیلاوٴ کے ساتھ ساتھ کم ہو تی جا رہی ہے۔6تاہم یہ بگ بینگ ماڈل (The Big Bang Model) بھی اہل ِ علم کے نزدیک یکساں طور پر قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ہموار اور سپاٹ کائنات کی پیش گوئی کرتا ہے جس میں ہر طرف جہاں بھی نظر ڈالیں مادے کی تقسیم بڑے پیمانے پر لگ بھگ ایک جیسی ہی ہونی چاہیےاور کائنات میں کوئی بھی جگہ بلا سبب ناہموار اور اونچی نیچی نہیں ہونی چاہیے مگر حقیقت اس کے برخلاف ہے۔

اللہ عزّوجل نے انبیاء و مرسلین (جن کی تعدا دکم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے) پر نازل شدہ مقدس الہامی کتب و صحائف میں اس کائنات اورانسانِ اوّل کی تخلیق و آفرینش کو صراحتاً بیان فرمایا ہے تاہم اس کی جزیات مختلف الہامی مذاہب کے محفوظ شدہ ادب میں معمولی طور پرجدا ہیں۔قران ِ حکیم میں ارشادِ ربانی ہےکہ خالقِ کائنات نے سورج،چاند ، سیاروں اور دیگر اجرامِ فلکی کواپنے اپنےانفرادی مدار ، محور اور روش کے ساتھ تخلیق فرمایا ہے۔ارشادِ ربانی ہے:

  وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ33 7
  اور وہی (اﷲ) ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے:

  أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ 308
  اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے۔

سورہِ جاثیہ کی آیات ِ بیّنات میں خالق ِ خائنات کا ارشاد ہے:

  إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِلْمُؤْمِنِينَ 3 وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَابَّةٍ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ 4وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ 5 9
  بےشک آسمانوں اور زمین میں ایمان والوں کے لیے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔اور تمہاری پیدائش میں بھی، اور جانوروں میں بھی، جن کو وہ پھیلاتا ہے یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں اور وہ جو خدا نے آسمان سے رزق نازل فرمایا پھر اس سے زمین کو اس کے مرجانے کے بعد زندہ کیا اس میں اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔

انسان ،اللہ تعالی کی وہ بے مثال تخلیق ہے جسے مصورِ کائنات نےایک خاص انداز اور اسلوب سےتخلیق فرمایا ہےاور وہ منفرد و بے مثال صلاحیتیں بخشی ہیں جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں کی گئی ہیں۔ انسان علم وشعور کی روشنی سے معمور وہ روح ہے جس کی اس کرۂ ارضی پر آفرینش ایک مرد حضرت آدم اور ایک عورت حضرت حوا سے ہوئی ہے۔جیسا کہ قرانِ حکیم میں ارشاد ہے:

  يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ 1310
  اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔

لگ بھگ پچھلے سو سال کے دوران مذہبی کونیات سے سائنسی کونیات کی طرف منتقلی بالکل واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہےجس کی وجہ سے عقلی و منطقی استدلال کے ساتھ اس کائنات کی وضاحت میں اس مخصوص عقیدے یعنی ایک خدا کی اس کائنات کے تنہا خالق و مالک ہونے اور اس کو برقرار رکھنے والی ذات کے طور پر موجود ہونے کے تصوّر کی بہت کم گنجائش رکھنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ تاہم زاویۂ نظر کی تبدیلی کے مضمرات اور نتائج کی جستجو سے پہلے ہم اس نقطے کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ تخلیقِ کائنات کے عقیدۂ توحید پر مبنی وضاحت کو اس بنا پر رد کرنا کہ یہ غیر سائنسی ہے اور اس کے ثبوت کے لیے ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں، بالکل بے معنی ہے۔ اگر منطقی طور پر بات کی جائے تو بگ بینگ (The Big Bang Theory) کے نظریے کی بھی اسی طرح کی ہی حیثیت نظر آتی ہے۔ بگ بینگ(The Big Bang Theory) کا نظریہ بھی اس مظہرِ قدرت کی مکمل وضاحت نہیں کرتا۔ یہ نظریہ دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات اپنی پیدائش سے ہی مستقل پھیلاوٴ کے رجحا ن کی حامل ہے جو مادےکی تباہی اور نقاہت کی طرف میلان رکھتی ہے۔ نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity)کے مطابق خلا(Space) ساکن و جامد رہنا پسند نہیں کرتی۔یہ یا تو پھیلتی رہتی ہے یا کچھ خاص حالات میں سکڑتی ہے۔تاہم ابتدا میں کائنات انقباض یا سکڑی ہوئی کیفیت میں کیوں تھی یہ سوال ابھی تک اسرار کے پردے میں لپٹا ہوا ایک معمہ ہے۔

بایں وجوہ اگر کوئی شخص تخلیقِ کائنات کی مذہبی تشریح و توضیح قبول کرنے کے معاملے میں اس لیے ہچکچاہٹ کا شکار ہے کہ اس میں پر اسراریت اور اخفا کا عنصر ہے تو اسے کائنات کی سائنسی تشریح و توضیح کو بھی اسی پیمانے پر پر کھ کر رد کردینا چاہیے کیونکہ پراسراریت اور اخفا کا عنصرتو یہاں بھی ویسے ہی موجود ہے۔ وجودیاتی منتقلی اور تبدیلی کی حمایت کے لیے لازمی استقرائی تجرباتی و مشاہداتی تعلق یہاں نہیں پایا جاتا۔”The Routledge Companion to Theism” نامی کتاب تکوینیاتی توضیح وتشریح کے لیے نظریۂ اضافیت کی درستگی اور صحت پر اعتراضات اٹھاتی ہےاس کے مطابق:

  Big-bang theology overreaches if it says that general relativity and the singularity theorems have settled once and for all that the universe had a beginning in time. In fact, relativistic cosmology predicts its own invalidity for times close to a dynamic singularity, such as the big bang. (For a dissenting opinion, see Misner 1969.) The reason that relativistic cosmology predicts its own invalidity is that in the neighborhood of singularities, gravitational effects are intense, and quantum effects can be expected to play a predominant role. But general relativity does not incorporate quantum effects, and indeed it is untested in such regimes of intense gravitational force. Thus, there is little reason to believe that the singularity theorems make a valid prediction about the structure of a future successor theory of general relativity that includes quantum effects.11
  "اگر بگ بینگ کا نظریہ یہ دعویٰ کرے کہ عمومی اضافیت(General Relativity)اور اکائیت کے قضیوں (Singularity Theorems) کا ہمیشہ کے لیے تصفیہ ہو چکا ہے اور کائنات کا آغاز وقت میں ہی ہوا تھا تو وہ فریب دہی کا مرتکب ہے۔ درحقیقت اضافیاتی کوینیات (Relativistic Cosmology)،حرکیاتی اکائیت(Dynamic singularity)کے قریب کے زمانے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات (مثلا بگ بینگ)کے سلسلے میں اپنی عدم ِ صحت کے متعلق خود پیشن گوئی کرتی ہے۔ (مخالف نظریئے کے لیے Misner 1969 دیکھیں)۔ اضافیاتی کوینیات (Relativistic Cosmology) کے اپنی عدم صحت کے متعلق پیشن گوئی کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اکائیت (singularity)سے متصل بعد کے زمانے میں کششِ ثقل کے اثرات بہت شدید ہیں نیزاس دوران قدری یا کوانٹم اثرات (Quantum Effects) کا غالب اور فیصلہ کن کردار بھی متوقع ہے۔ تاہم عمومی اضافیت(General Relativity) قدری اثرات (Quantum Effects) کا احاطہ نہیں کرتی اور فی الحقیقت اتنی شدید کششِ ثقل کی قلمرو میں یہ غیر آزمودہ (Untested)ہے۔یوں اس بات پر یقین کرنے کے حق میں بہت ہی معمولی دلائل ہیں کہ اکائیت کے قضیے (Singularity Theorems) مستقبل میں عمومی اضافیت کی جگہ لینے والے نظریہ کے متعلق درست پیشن گوئی کرسکتے ہیں جس میں قدری اثرات(Quantum Effects) بھی شامل ہیں۔"

مذہبی حلقوں اور ملحدین کی جانب سے بگ بینگ (The Big Bang Theory) نظریے کو مختلف نوعیت کےردِ عمل کا سامنا رہا۔دونوں ہی اس سائنسی نظریے کو اپنے بیانیے کی حمایت میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے اسے ان میں سے کسی ایک سے لازمی طور پر جوڑنا مشکل ہے تاہم یہ نظریہ پوری علمی روش اور فکری میدان پرکلی طور پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔کائنات کے دوام ا ور لامحدودیت یا محدودیت، وسعت یا جمود اور ہر غیر معمولی یا معمولی ردوبدل اورتبدیلی کی قادرِ مطلق خدا کی طرف نسبت یا خود مختار محرکات کی طرف نسبت جیسے اختلافات اور فرق اس نظریے کےبرتاوٴ اور طریقۂ کار کی نشاندہی کرتے ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بگ بینگ اس کائنات کی آفرینش کی ایک توضیح ہےجو اس مظہرِ قدرت کا کوئی وجودیاتی مقصد فراہم نہیں کرتی۔ یہ نظریہ اس بارے میں کوئی مفروضہ قائم نہیں کرتا کہ یہ کائنات کس مظہر یا ذات نے تخلیق کی ہےاور نہ ہی یہ فرض کرتا ہےاس واقعہ سے پہلے کیا تھا ۔تاہم آج کے دور میں سائنس ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پر اپنے آپ کو تمام دنیا میں قابلِ قبول بنانے کے مقصد کی بارآوری کی سعی کر رہی ہے۔

الہیاتی کوینیات سے ہٹ کر اس نظریے کی جدید ملحدانہ مادّی تشریح و توضیح آج کے عہد کی ذہنیت کی اس طرح تنظیم کرتی ہے کہ تمام تعلیمی مضامین کا مطالعہ اسی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے کیاجائے نیز یہ توضیح کچھ خاص تمثیلی نمونوں کے مطابق تعلیم کا خاکہ تشکیل دیتی ہے۔ اسی طرح انسان کےآسٹریلوپیٹیکس افیرینسس (Australopithecus Afarensis) کہلانے والے گوریلوں سے موجودہ نوعِ بشر (Homo Sapiens) تک ارتقائی سفر کا نظریہ جس کی بنیاد سائنسدانوں کی تحقیقات ہیں انسان کی غیر مذہبی، مادّی اور لادینی آغاز کی وضاحت میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔

قدیم تہذیبوں میں عقیدۂ توحید

قدیم انسانی تہذیبوں کی تاریخ کا مطالعہ بظاہریہ تاثردیتا ہے کہ قدیم دنیا کے باشندوں نےکبھی ایک خدا کی پرستش نہیں کی۔ایک محقق ٹم وائٹمارش (Tim Whitmarsh) جو کہ یونانی تہذیب کے پروفیسر ہیں اور سینٹ جان کالج ، یونیورسٹی آف کیمبرج سے منسلک ہیں اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ الحاد یونان اور روم میں واضح طور پر عام تھا نیز اس نے دیگر معاشروں میں بہت زیادہ نمو پائی۔12 یہ نظریہ واضح طور پر مذہبی عقیدے کے انسانوں کے لیے ایک طے شدہ ترتیب ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے اور الہامی مذاہب کے نظریۂ توحید کی طرف انسان کے قدرتی میلان اور رغبت کے دعوے کے لیے بہت کم گنجائش باقی چھوڑتا ہے۔ اپنی کتاب"Battling the Gods"میں مصنف دعویٰ کرتا ہے کہ ماضی میں کفر اور بے اعتقادی قدیم یونانیوں اور رومیوں میں بہت عام تھی ۔بلکہ یوں سمجھیں کہ یہ دنیا کی ہر تہذیب میں ہر جگہ موجود تھی۔ اس قدیم الحادی دور کا خاتمہ مشرک معاشروں کی شکست کے ساتھ ہوا جو اسے عموماً توحیدی مذاہب کی قوتوں کے مقابل کے طور پر برداشت کرتے تھے ۔ توحید پرستوں نے ایک خدا کو ماننے کا مطالبہ کیا اور مابعد روشن خیالی دور (Post Enlightenment Era) میں دوبارہ ابھر کر سامنے آئے۔

یہاں ہمارا مقصد فلسفۂ الحاد یا اس جیسے نظریات پر گفتگو کرنا نہیں ہے بلکہ اس بات پر زور دینا ہے کہ تاریخ ِتہذیب سے متعلق کتب میں تاریخی حقائق کو مخصوص تناظر میں قلمبند کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ ان کتب میں کسی اہم تہذیب کی جو عام خصوصیات بیان کی جاتی ہیں ان میں اساسی، معاشی ، سیاسی اور عسکری تبدیلیوں کو شامل کیا جاتا ہے جبکہ توحید کے آثار کو منہاکردیا جاتا ہے حالانکہ یہ انسانوں اور دنیا کے آغاز سے ہی رائج رہے ہیں۔

تاریخ کے گمشدہ حقائق

الہامی مذاہب یا انبیاءکی قدیم تاریخ بڑی حد تک غیر تحریرشدہ ہے اس لیے تمام انبیاءکی سرگرمیوں اور کارناموں اور ان کے تشکیل کردہ معاشروں کی خصوصیات کی نشاندہی کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ تاہم تینوں الہامی مذاہب میں نازل ہونے والےصحائف میں تاریخی واقعات کو کچھ مختلف تفصیلات کے ساتھ قلمبند کیا گیا ہے جس میں نبیوں کی تعداد ، تخلیق کائنات ، انسانی زندگی کا زمانہ اور دیگرپہلو شامل ہیں۔

قرآن مجید میں مذکور 25 انبیائے کرام کے متعلق بیان کردہ مختلف واقعات کے ذریعے تاریخی مواد بہم پہنچایا گیا ہے جو مختلف ادوار کے اخلاقی ، معاشرتی ، سیاسی اور معاشی عوامل کی نشاندہی کرتا ہے۔تاہم واقعات کو جزوی غیر ضروری تفصیلات کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا۔ زیادہ تر مقدس کتاب کے شارحین اور مفسرین نے کسی بھی پیغمبر کے عہد سے متعلق تاریخی تفصیلات جمع کرنے کے لیے اضافی کوششیں نہیں کیں بلکہ انبیاء کے ذریعے پھیلائے گئے خدائی پیغام کے معجزاتی اور حیران کن پہلو افشا کرنے پر ہی توجہ مرکوز کی۔

قرآن مجید کے مطابق ، کبھی بھی کوئی قوم یا زمین کا کوئی خطہ الہامی پیغام یا انبیا ءو رسل کے وجود سے خالی نہیں رہا بلکہ تمام اقوام ِ عالم میں مختلف مقامات پر اور مختلف اوقات میں انبیاء کرام مبعوث کیے گئے۔جیسے کہ قرآن میں ارشادِ ربانی ہے:

  إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ 2413
  بیشک ہم نے آپ کو حق و ہدایت کے ساتھ، خوشخبری سنانے والا اور (آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی امّت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہے۔
  وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ 3614
  اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو، سو اُن میں بعض وہ ہوئے جنہیں اللہ نے ہدایت فرما دی اور اُن میں بعض وہ ہوئے جن پر گمراہی (ٹھیک) ثابت ہوئی، سو تم لوگ زمین میں سیر و سیاحت کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔

لہٰذا یہ خدا تعالیٰ کے عدل و احتساب کے نظام کا ایک حصہ ہے کہ اس نے حکم جاری کیا ہے کہ وہ ہر اس شخص کو سزا نہیں دے گا جس تک انبیا ءاور رسولوں کی دعوتِ حق نہ پہنچی ہو۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے:

  مَنِ اهْتَدَى فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا 1515
  جو کوئی راہِ ہدایت اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کے لئے ہدایت پر چلتا ہے اور جو شخص گمراہ ہوتا ہے تو اس کی گمراہی کا وبال (بھی) اسی پر ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہم ہرگز عذاب دینے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں۔

ا للہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف مبعوث کیے جانے والے تمام انبیا ء کی داستانیں ہمیں نہیں بتائیں جس کی کچھ خاص وجوہات ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ اللہ کا پیغام پوری دنیا میں ہر قوم اور زمین کے ہر خطے تک پہنچ چکا ہے۔ یوں صرف مشرق وسطی اور افریقہ ہی الہامی رحمتوں سے اپنا حصہ وصول کرنے والے خطے نہیں تھے بلکہ ہر براعظم اور ثقافت نے یا تو مثبت اشاروں یا پھر معاندانہ رویئے کے ساتھ الہامی پیغام وصول کیا۔ اس حقیقت کا اوپر بھی ذکر کیا گیا ہے کہ انبیاءکی تاریخ کا بڑا حصہ ایسےتاریخی ریکارڈ اور ثبوتوں کے ساتھ غیر تحریری ہے جو کسی بھی قدیم تہذیب کی خصوصیات بیان کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے لہذا قرآن (اور بائبل، یعنی عہد نامہ قدیم و جدید کے ادب) کے مندرجات کے علاوہ ، ان کی جدوجہد ، کارناموں اور دیگر متعلقہ تاریخی واقعات کو سپردِقلم نہیں کیا گیا ہے۔

تاریخ دانوں کی ثقاہت

قدیم مورخین کی ثقاہت اورقابل ِ اعتماد ہونے کی اہلیت پر بھی سنجیدگی سے سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا قدیم تاریخ کے مطالعے کے جدید آلات میں مورخین کو ان کی صحیح اہلیت کے مطابق دیکھنےاور پرکھنے کی صلاحیت موجود ہے؟ مثلاً کچھ بادشاہوں اور جنگجوؤں جیسے وحشی جیولیس سیزر(Julius Caesar) ،قاتل سکندر (Alexander)درندہ صفت سُلا (Sulla)وغیرہ کی شان و شوکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تاریخی ریکارڈ کے دوسرے حصوں کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔تاریخ کی کتابوں کے صفحات پلٹنے سے پہلے ان کے مخصوص نقطۂ نظر ، تعصبات اور ثقافت اور تہذیب کی اہلیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے وضع کردہ معیار پر بھی غور کرنا چاہیے۔

یہاں ہمارے قارئین کے لیے یہ ذکر دلچسپ ہوگا کہ یونانی مصنف ہیروڈوٹس (Herodotus)کو رومی مصنف اورعوامی مقرر سیسرو(Cicero) نے اس کی مشہور کتاب "The Histories" کی وجہ سے "تاریخ کا باپ(The Father of History)" کہا ہےحالانکہ وہ بذات خود ایک جھوٹا اور بد کردار آدمی تھا جو مختلف سرکاری عہدوں پر رہ کر ان سے ناجائز فائدے اٹھاتا تھا ۔وہیں دوسری طرف اسی ہیروڈوٹس (Herodotus)کو نقادوں کی جانب سے " جھوٹوں کا باپ (The Father of Lies)" بھی کہا گیا ہے۔ ان نقادوں کا دعوی ہے کہ اس تاریخ کی حیثیت طویل اساطیر سے بس تھوڑی سی ہی زیادہ ہے۔یوں سمجھ لیں کہ مصر ، افریقہ اور ایشیا کے آس پاس کے اپنے اسفار پر اپنی تحقیق کی بنیاد رکھتے ہوئے ، ہیروڈوٹس (Herodotus)نے اپنے مشاہدات اور مقامی لوگوں سے مذاکروں کو جامع انداز میں ،مستقل مزاجی سے محفوظ کیا ہے۔

ہیروڈوٹس(Herodotus)نے تاریخ کے بہت سے حصوں کو بڑھا چڑھا کر من گھڑت انداز سے پیش کیا ہے۔اسی وجہ سے حقیقت کوافسانے سے اور سچ کو تعصب سےجدا کرنا انتہائی مشکل ہے۔16 کچھ تاریخی حقائق جنہیں ہیروڈوٹس(Herodotus) نے مزاحیہ حد تک غلط بیان کیا وہ یہ ہیں: اس نے بابل بِیموت (Babylon the Behemoth)کا تذکرہ دوسرے تمام شہروں کے مقابلے میں زیادہ عظیم الشان اور بڑے شہر کے طور پرکیا۔یہاں وہ دعوی کرتا ہے کہ بابل کے داخلی راستے پر پیتل کے 100 دروازے ایستادہ کیے گئے تھے نیز یہ کہ بابل کی فصیلیں 100 میٹر (328 فٹ) اونچی ، 22 کلومیٹر (14 میل) طویل ، اور 50 میٹر (164 فٹ) چوڑی تھیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے ایک گہری ، پانی سے بھری خندق بھی دیکھی تھی جس نےچاروں طرف سے پورے شہر کا احاطہ کیا ہو اتھا ۔ جہاں تک مورخین کا تعلق ہے تو وہ اس بات پربھی متفق نہیں ہیں کہ ہیروڈوٹس (Herodotus)حقیقت میں کبھی بابل آیا بھی تھا یا نہیں۔ ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اس نےغالباً اس شہر کے بارے میں اپنی بیان کردہ تفصیل کی جزیات خود ہی گھڑ لی تھیں۔ آثار قدیمہ کے ثبوت ہمیں بتاتے ہیں کہ بابل کے آٹھ دروازے تھے سو نہیں، نیز وہ اتنا عظیم الشان نہیں تھا جتنا ہیروڈوٹس(Herodotus) نے دیدہ دلیری سے دعوی کیا تھا۔ لہذا ، اگرچہ اس نے بابل کے بارے میں ایسےلکھا ہے جیسے وہ خود وہاں رہا ہو ، لیکن زیادہ غالب گمان یہی ہے کہ وہ خود شاید کبھی بابل نہیں گیاتھا۔

اسی طرح ہیروڈوٹس (Herodotus)نے مصر کا انتہائی تفصیل سے ذکر کیا ہے جس میں دریائے نیل ، مردہ اجسام کو حنوط کرنے ، مصر میں مرد و عورت کےصنفی کردار ، جانوروں ، مقدس تہواروں اور معاشرے کے دیگر سماجی ، ثقافتی اور سیاسی پہلوؤں پر تبادلہ خیال موجود ہے۔تاہم زیادہ تر مورخین اس بات پر شک وشبہے کا اظہار کرتے ہیں کہ کیا حقیقت میں ہیروڈوٹس کبھی مصر گیا بھی تھا یا نہیں۔اس نے مصر کے تذکرے میں کئی اہم چیزوں کے ذکر سے پہلو تہی کی ہے۔مثال کے طور پر ، وہ تین عظیم اہراموں کے بارے میں انتہائی تفصیل سے بیان کرنے کے باوجود ابوالہول (Sphinx)کا کہیں ذکر ہی نہیں کرتا۔ابوالہول کا ذکر اس طرح حذف کر دینا انتہائی مشتبہ غلطی ہے۔ (اگر اس نے حقیقت میں اہراموں کو دیکھا تھاتو اس نے یقینا ابولہول کو دیکھا ہو گا) مزید برآں ، ہیروڈوٹس (Herodotus)مردہ اجسام کو حنوط کرنے کے تینوں طریقےبیان کرتا ہے جن میں مہنگے ترین طریقےسے لے کر سستے ترین طریقے تک شامل ہیں۔ ہیروڈوٹس(Herodotus) کےدعوی کے مطابق مصری اشرافیہ ، حنوط کرنے کے لیے مردہ اجسام سے اعضا کو ان کے پیٹ کے بائیں طرف سے الگ کیا کرتے تھے ، جبکہ عام لوگ جسم سے پیٹ اور دیگراعضا کو جلداز جلد دور کرنے کے لیے دیودار کے تیل کے حقنے استعمال کرتے تھے۔گو ہیروڈوٹس (Herodotus)کا کام ایک غیر ثقہ جھوٹ کا پلندہ ہے جس کی حقیقت سوائے سنی سنائی کہانیوں سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں ہے مگر تاریخ و تہذیب کے بیان میں اس کو جو حیثیت یورپی مؤرخین نے دی ہے اس کی بنیادی وجہ اس کی توحید دشمنی اور حبِ الحاد ہے کیونکہ اس کی بیان کردہ تہذیب و ثقافت کے مطابق سارے معاشرے بت پرست اور ملحد تھے جن میں انبیاء کا ظہور اور توحید کے ماننے والوں کا وجود تک نہ تھا اور یہی چیز آج کے دین دشمن معاشروں اور تہذیبوں کو مطلوب ہے اسی لیے وہ ان کا امام بھی ہے اور (Cicero)جیسے عوامی مقرر کا باپ بھی ۔

تصوّر توحید سے متعلق غلط فہمیاں

بنیادی اعداد و شمار میں پائی جانے والی ان غلطیوں کے علاوہ ، قدیم تاریخ کے پس پردہ ایک خاص نقطہ نظر سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش نے بھی توحید پرست مذاہب کے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے چیزوں کو ایک خاص نظر سے دیکھنے کے انداز و اسلوب کی تشکیل کی ہے۔قدیم تاریخ کا ہر ذخیرہ قدیم یونان میں ہرکولیس(Hercules)کی طرح معاشرتی ثقافت کو مشرکانہ روایات و اقدار اور نیم دیوتاؤں اور اوتاروں کے ساتھ لازم و ملزوم بنا کر پیش کرتا ہے لیکن انبیاءو مرسلین کی اہمیت اور ان کےمخصوص ادوار کو نظرانداز کرتا ہے جیسے ان کا وجود اس خطۂ زمین پر کبھی تھا ہی نہیں۔ مثال کے طور پر قدیم مصر میں بادشاہ (جنہیں بعد میں فرعون کہا جاتا تھا) الہامی بادشاہت کا دعویٰ کرتے تھے۔وہ دیوتاوٴں کے نمائندے ہونے اور انسانی اوتار یا زمین پر مجسم خدا ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ صرف وہ ہی ایک ایسی ہستی ہیں جو معاشرے اور خدا یا دیوتاوٴں کے مابین رابطے اور الہامی احکامات کی وصولی کا ذریعہ ہیں۔

کیا یہ کہنا واقعی درست ہے کہ تصوّر توحید ، جسے ہم تینوں الہامی مذاہب میں ایک خدا پر اعتقاد سے تعبیر کرتے ہیں ، قدیم زمانے میں کبھی موجود نہیں تھا ، جیسا کہ قدیم تہذیبوں پر ہماری تاریخ کی کتابوں میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ؟ اگر ہاں ، تو کیا اس نے انسانی نظریات کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا ہے یا صرف شرک اور اصنام پرستی کا اثر ہی چہار سو پھیلا ہواتھا؟ توحید کا لفظ خاص طور پر یہودیت ، عیسائیت ، اور اسلام کے تصوّر اِلٰہ (تصوّر معبود)کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہی وہ پیغام تھا جس کی تبلیغ و ترویج نبی ِ آخر الزماں حضرت محمدمصطفےٰ ﷺ نے بھی فرمائی۔قرآنِ حکیم میں ارشادِ ربانی ہے:

  قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ 1 اللَّهُ الصَّمَدُ 2 لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ 3 وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ 417
  (اے نبئ مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے، اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہے، نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہے، اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہے۔

خدا کی قدرت اور ذات و صفات میں شریک کرنےکی کسی بھی شکل کی بیخ کنی کرتے ہوئے ، اسلام نےاس الہامی پیغام کو اپنی اصل حالت میں جاری و ساری رکھا ہوا ہےجو آفرینشِ آدم سے لے کر خاتم الانبیاء حضرت محمدﷺ تک ہزاروں انبیاء و مرسلینکے توسط سے جاری ہے۔ قرآن ِمقدس میں اس آفاقی پیغام کی تبلیغ وترویج کاصراحت کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے نیز پیغامِ توحید کی ترویج و اشاعت ہی انبیائے کرام کا واحد کار منصبی رہا ہے جسے انہوں نےہمہ وقت انتہائی ذمہ داری، تندہی اور الولعزمی کے ساتھ سرانجام دیا ہے۔

آسٹریلوی آثار قدیمہ کے انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر کِلفورڈ ولسن(Dr. Clifford Wilson) نے " (The Concept of Monotheism in Ancient Times)" کے عنوان سے لکھی گئی اپنی کتاب میں متعدد قدیم ثقافتوں میں پائے جانے والے توحیدی تصوّر کے ثبوتوں کی وضاحت کی ہے۔ خاص طور پر اس کتاب کے گیارویں باب میں مصر اور دیگر قدیم تہذیبوں میں توحید پرستی کے پختہ ثبوتوں کا سراغ لگایا گیاہے جو دلچسپی رکھنے والے قارئین کے مطالعہ کے لیے انتہائی سودمند ثابت ہوسکتے ہیں۔

حقیقت میں قدیم دنیا توحید پرست تھی اور ایک سچے خدا پر یقین رکھتی تھی۔ ڈاکٹر آرتھر سی کسٹینس (Dr. Arthur C. Custance) نے ایک سلسلہ لکھا تھا جس کا نام" The Doorway Papers’ (Brockville, Ontario, Canada)" تھا ۔اس سلسلے کے چونتیسویں شمارے میں ، انہوں نے بہت سارے مؤرخین کے خیالات کے برخلاف یہ ثابت کرنے کے لیے ثبوت پیش کیے ہیں کہ عہدِ قدیم میں بہت سارے لوگوں کا یہی معاملہ تھاکہ وہ توحید پرست تھےمحققین نےقدیم اقوام کے ریکارڈ کی جانچ کر تے ہوئے کہا ہے کہ:

  ... found themselves dealing with a tremendous number of Gods and Goddesses and other spiritual powers of a lesser sort which seemed to be always at war with one another and, much of the time, highly destructive. … As earlier and earlier tablets, however, began to be excavated and brought to light, and skill in deciphering them increased, the first picture of gross polytheism began to be replaced by something more nearly approaching a hierarchy of spiritual beings organized into a kind of court with one Supreme Being overall.18
  "انہوں نے اپنے آپ کو دیوتاوٴں اور دیویوں کی ایک بہت بڑی تعداد اور دوسری ان سے تھوڑا کم قسم کی روحانی طاقتوں کی حامل شخصیات کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے پایا جو ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ حالت ِ جنگ میں ہی نظر آتے تھےاور ان کا زیادہ تر وقت انتہائی تباہ کن اور تخریبی نوعیت کی سرگرمیوں کی ہی نذر ہوتا تھا ۔ جیسا کہ کھدائی کے نتیجے میں پہلے کے عہد اور پھر اس سے بھی پہلے کے عہد کی الواح اور نقوش سے ان کے ثبوت ملتے ہیں۔اور وقت کے ساتھ ساتھ ماہرین اور محققین کی ان عبارات کو حل کرنے اور سمجھنے میں مہارت بھی بڑھتی گئی جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر شرک کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے معاشرے کی پہلی تصویر کی جگہ روحانی مخلوقات کی درجہ بندی سے ملتے جلتے نظام کی تصویر لینے لگی ۔ جسےایک عدالت یا دربار کی طرح منظم کیا گیا تھاجس میں صرف ایک ہی ایسی ذات تھی جو سب پر غالب تھی ۔"

اسٹیفن لینگڈن (Stephen Langdon)کی کتاب "Semitic Mythology" نے بھی 1931 میں اس نظریہ کی تائید کی کہ شرک اور اصنام پرستی سے قبل توحیدکا عقیدہ ہی غالب تھا۔ (حالانکہ یہ نقطہ نظر اس وقت کے مقبول قائم اعتقاد کے منافی تھا)۔ اس نے اپنا نقطہ نظر بہت واضح طور پر بیان کرتے ہوئےکہا:

  In my opinion the history of the oldest civilization of man is a rapid decline from monotheism to extreme polytheism and widespread belief in evil spirits. It is in a very true sense the history of the fall of man.19
  "میری رائے میں نوعِ بشر کی قدیم تہذیب کی تاریخ ،عقیدۂ توحید سے بدترین شرک کی طرف تیزی سےزوال اور بڑے پیمانے پر شیطانی روحوں پر اعتقاد کی داستان ہے۔ یہ صحیح معنوں میں آدم ِ خاکی کے بدترین زوال کی تاریخ ہے۔"

وہ مزید کہتا ہے کہ قدیم دنیا میں سب سے گہرا ثقافتی و تہذیبی اثر و رسوخ رکھنے والےسمیری مذہب (Sumerian Religion) کی تاریخ کاکتبوں، دیواروں اور پتھروں پر کندہ تحریروں، نقوش اور دیگر آثار سے سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ان آثار کے ذریعے انسان کے قدیم ترین مذہبی تصوّر ات تک رسائی ممکن ہے۔ یہ ثبوت و شواہد بلا خوف ِ تردید اصلاً توحید پر مبنی عقیدےکی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ قدیم سامی اقوام (Semitic People) کے تحریری آثار اور ادبی باقیات بھی ابتدائی توحید پسندی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یوں عبرانی (Hebrew)اور دوسرے سامی مذاہب کے کلدیوتی یا ٹوٹمی الاصل (Totemic origin) ہونے کا نظریہ اب پوری طرح سے بد اعتمادی کا شکار ہو چکا ہے۔ 20

توحید سے دیومالائی کہانیوں تک کا سفر

میکس مولر(Max Muller) نامی جرمن اسکالر نے 1875 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب" Lectures on the Science of Language"میں لکھا ہےکہ :

  Mythology, which was the bane of the ancient world, is in truth a disease of language. A myth means a word, but a word which, from being a name or an attribute, has been allowed to assume a more substantial existence. Most of the Greek, the Roman, the Indian, and other heathen Gods are nothing but poetical names, which were gradually allowed to assume divine personality never contemplated by their original inventors. … Eos was the name of dawn before she became a Goddess, the wife of Tithonos, or the dying day. Fatum, or Fate, meant originally what had been spoken; and before Fate became a power, even greater than Jupiter, it meant that which had once been spoken by Jupiter, and could never be changed - not even by Jupiter himself. … Zeus originally meant the bright heaven, in Sanskrit Dyaus; and many of the stories told of him as the supreme God, had a meaning only as told originally of the bright heaven, the Danae of old, kept by her father in the dark prison of winter...21
  "توہم پرستی اور خرافات پر اعتقاد جو قدیم دنیا کے لیے ایک وبال اور زہر ِ قاتل تھے در حقیقت لسانیات کا ایک مرض ہے۔ایک دیومالا سے مراد دراصل ایک لفظ ہوتا ہے، لیکن یہ ایک ایسا لفظ ہوتا ہے جسے نام یا صفت ہونے سے کہیں زیادہ ایک حقیقی وجود حاصل کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ بیشتر یونانی ، رومی ، ہندوستانی اور دیگر مشرک اقوام کے خدا وٴں کی حیثیت قدیم شعرا کے قصیدوں اور نظموں میں موجود ناموں کے سوا کچھ نہیں ۔ جن کو بتدریج ایک ایسی مافوق البشرہستی کا لبادہ اوڑھنے کی اجازت دی گئی جس کے بارے میں اس لفظ کے اصل ایجاد کاروں نے کبھی سوچا تک نہیں تھا۔ مثلا "ای اوس(Eos)" دراصل وقتِ سحر کا نام تھا لیکن بعد میں اسے دیوی کا درجہ دیا گیا، اور اسے ٹیتھونس (Tithonos)کی بیوی بھی قرار دیا گیا اور مرنے والا دن بھی کہا گیا۔اسی طرح فاطم(Fatum) یا تقدیر کا مطلب دراصل وہی تھا جو اس لفظ سےاصلاًمراد لیا جاتا تھا۔ قسمت کے دیوتا جیوپیٹر (Jupiter) سے بھی بڑی طاقت بن جانے سے پہلے ، اس کا مطلب وہی تھا کہ جو کبھی جیوپیٹر نے خود مراد لیا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ اسے کبھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا تھا یہاں تک کہ خود مشتری بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا تھا۔ زئیوس(Zeus) کا اصل مطلب سنسکرتی زبان میں روشن آسمان تھااور بہت سی کہانیاں جو اسے عظیم خدا کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں ان میں اس لفظ سے حقیقی معنی ٰ یعنی روشن آسمان ہی مراد لیا گیا ہے۔"

ایک اور کتاب”History of Sanskrit Literature “میں میکس مولر (Max Mueller)نے لکھا :

  There is a monotheism that precedes the polytheism of the Veda; and even in the invocation of the innumerable Gods the remembrance of a God, one and infinite, breaks through the mist of idolatrous phraseology like the blue sky that is hidden by passing clouds.22
  یہ تصوّر توحید ہی ہے جو وید کے مشرکانہ عقائد سے پہلے موجود تھا۔ یہاں تک کہ ان انگنت خداؤں کی عبادت میں، خدا ئے واحد کی یاد (ذکر ) ،جواکیلا و یکتا اور لامحدود ہے، بت پرستی پر مبنی کلام کے دھندلکوں میں سے یوں چھلکتا ہے جیسے آسمان سے گزرتے ہوئے گہرے سیاہ بادلوں کی اوٹ سے کہیں کہیں نیلے آسمان کی جھلک نظر آہی جاتی ہے۔

توحید یعنی ایک خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصولوں پر اعتقاد نے بھی انسان کے خود ساختہ اخلاقی نظام کو الہامی مذاہب کے ذریعے متاثر کیا ہے۔ یہ دعوی کرنا غیر حقیقت پسندی پر مبنی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ ہر قدیم تہذیب کی بنیادیں دراصل الہامی مذاہب کے توحیدی پیغام میں ہی پنہاں ہیں۔یہ پیغام انبیائے کرامنے ہر دور میں کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں تک پہنچایا ہے اور حضرت محمد مصطفےﷺپر اس کا اختتام ہوا۔ جبکہ شرک کا معمولی سایہ بھی انسانی عقل و شعور اور حکمت و بصیرت کی کمی کا مظہر ہے اور اس کی بنیاد انسانی تخیل اور حقیقی عقیدے کی بدعنوانی پر ہے۔

تہذیب و تمدّن پر لکھی گئی تاریخ کی کتابوں میں کسی بھی طرح کی غلط بیانی یا حقائق کو چھپانے کے عمل ( جیسا کہ عام طور پر کیا جارہا ہے) کا مطالعہ ادھوری یا نامکمل سچائی کے طور پر کرنا چاہیے جو الہامی پیغام کی کامل اعانت و شراکت کے ساتھ مرتب کیے جانے کی مستحق ہے۔مذکورہ بالا بحث کے نتیجے میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قدیم تہذیب کی تاریخ جس طرح تاریخی کتابوں میں پیش کی گئی ہےاس طرح کی ملحدانہ یا محض مادیت پسندانہ روش پر مبنی نہیں بلکہ اس میں الہامی مذہب کا بھی بہت بڑا حصہ تھا جو تاریخ کی کتب میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر محفوظ ہی نہیں کیا گیا ہےکیونکہ انبیاء کرام کی تعلیمات جو مبنی پر توحید تھیں اس کی بنیاد خدا ترسی ،خدا خوفی اور خدا تعالی کی عبادات پر مبنی تھیں جو کہ عمومی تاریخ دانوں کا موضوع اس لیے نہیں رہا کہ انکے مزاج میں جو عیاشی ،جاہ پرستی اور نفسانی شہوات کا غلبہ تھا اس کی تکمیل اس تہذیب و تمدّن کے بیان سے تو ہو سکتی ہے جس میں آتوم(Atum)جیسے جھوٹے خدا خود لذتی اور زناکاریوں میں مصروف دکھائے گئے ہیں لیکن اس تہذیب و تمدّن جس کو انبیاء کرام نے نہ صرف پیش کیا بلکہ اس کا نفاذ بھی کرکے دکھایا اس میں نہ ان کے نفوس کی حرام کاریوں کے لیے کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اللہ کی مخلوق کے استحصال کی کوئی گنجائش ۔

تہذیب کی حیثیت متعین کرنے کے معیارات

اب ہم کسی بھی تہذیب کی حیثیت متعین کرنے والے معیار کی طرف بڑھتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی ، فنِ تعمیر ، عسکری مہارت ، زراعت اور تجارت کی شکل میں علم اور اس کے بیانات وہ مشترکہ اجزا ہیں جن کی مدد سے ہی عموماایک تاریخ دان کسی قدیم تہذیب کا معائنہ اور اس کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ علم کی فطرت اور اس کی بنیادی اساسیات ، حتمی طور پر مادی فوائد یا دنیاوی اغراض و مقاصد کے گرد گھومتی ہیں جبکہ ترقی و ارتقااور پیشرفت کے تصوّر ات کو علم کی مخصوص شکلوں کے نتائج کے طور پر مانا جاتا ہےمگر الہامی مذاہب ، خاص طور پر اسلام ، علم کے عالمی تصوّر کے ساتھ خدا اور عالمِ آخرت کے تصوّر ات کو مربوط کرتے ہوئے اپنی تہذیب و تمدّن کی عالیشان عمارت کی تعمیر کرتا ہے ۔

مسلم علماءنے زندگی کے مختلف شعبوں کی تعریف ، دائرہ کار اور اس کے اطلاق پر کتابوں کے انبار لگا دئے ہیں ۔ مثلا ً امام غزالی جو علم کی مختلف اقسام ، اچھے اور برے علوم اور ان کے مضمرات پر گفتگو کرتے ہیں،نے تحصیل ِعلم کےمذہبی مصادر وذرائع کی فضیلت اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف علوم میں فرق کرنے کے لیے ٹھوس بنیادی رہنما اصول تیار کیے ہیں ، جن کی بنیاد آخرت پرتوجہ مرکوز کرنے اوراللہ تعالی کی بندگی میں سیکھنے کے ماحاصل پر مبنی ہے۔معاشی خوشحالی اور فراوانی و بہتات کبھی بھی حضرت سلیمان اور حضرت یوسف کی طرح کسی بھی نبی کی قائم کردہ ریاست کا بنیادی مقصد نہیں رہا حالانکہ ان کی سلطنت اور طاقت دونوں ہی بہت وسیع تھے۔

حضرت داؤد کے بیٹے ، حضرت سلیمان کو خدا نے بہت سے تحائف عطا کیے تھے ، جن میں جانوروں سے بات کرنے کی صلاحیت ، بے مثل دانش و حکمت اور جنات پر حکمرانی کرنا بھی شامل تھا ۔ یہاں تک کہ ہوا کو بھی ان کے تابع کردیا گیا تھا۔ وہ عمر بھرہمیشہ خدا ئے واحد و یکتا کے وفا دار و شکر گزار رہے اور عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کی۔ اللہ عزوجل کی طرف سے انہیں ایسی بادشاہت کا شرف بخشا گیا تھا جو ان سے پہلےاور ان کے بعد اور کسی کو عطا نہیں کی گئی۔ تاہم وہ جہاں بھی گئے اللہ عزوجل کا پیغام پھیلایا۔ قرآن حکیم میں ذکر ہے کہ حضرت سلیمان نے قوم ِ شیبہ کے لوگوں کو ایک خط بھیجا جو سورج کی پوجا کرتے تھے۔ خط میں انہیں یوں مخاطب کیا گیا تھا:

  إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 30أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ وَأْتُونِي مُسْلِمِينَ 3123
  بیشک وہ (خط) سلیمان (علیہ السلام) کی جانب سے (آیا) ہے اور وہ اللہ کے نام سے شروع (کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہے، (اس کامضمون یہ ہے) کہ تم لوگ مجھ پر سربلندی (کی کوشش) مت کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجاؤ۔

حضرت سلیمان نے خداکے تمام احکامات کو پورا کیا جس کے نتیجے میں ان کی زندگی کے آخر میں انہیں جنت میں اللہ کے قرب کی بشارت سنائی گئی۔ انہیں دنیا کے عظیم ترین حکمرانوں میں شمارکیا جاتا ہے ۔

دنیاوی بادشاہت و اقتدار کے حامل پیغمبروں کی تاریخ کی ایک اور عمدہ مثال حضرت یوسف ہیں جوبادشا ہت سے قبل اپنے بہن بھائیوں ، بادشاہ اور دیگر لوگوں کے ذریعے مختلف مشکلات سے دوچار ہوئے یہاں تک کہ انہیں کئی سال جیل میں بھی گزارنا پڑے ۔یہاں بھی انہوں نے اپنے قیدی ساتھیوں کو اللہ کا پیغام پہنچایا۔ انہوں نے خوابوں کی تاویل کے معجزے کا اظہار فرمایا اور اس سے پہلے ان لوگوں کو مطلع کیا کہ یہ ایک خاص وصف ہے جسے اللہ نے مجھے عطا فرمایاہے۔ تاہم حضرت یوسف نے ان لوگوں کو سمجھایاکہ مختلف خداؤں پر یقین کرنا کتنا احمقانہ اور بے معنیٰ فعل ہے اور انہیں اللہ عزوجل کی وحدانیت اور قیامت کے دن، یوم ِ حشر اور حیات بعد الموت کے بارے میں بتایا اور سمجھایا۔ متعدد آزمائشوں کا سامنا کرنے کے بعد حضرت یوسف پوری ریاست کے سربراہ بن گئے اور یوں مصرکی عوام ان کے زیرِ اقتدار آگئے اور انہیں دولت اور زرعی پیداوار کی کثرت کا تجربہ ہوا۔ تاہم ، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بادشاہت ملنے کے بعد انہوں نے اللہ کے حقیقی پیغام کو نظرانداز کردیا کیوں کہ وہ اپنے لوگوں کو ہمیشہ خدا ئے وحدہ لاشریک کے حضور شکر گزاری و سپاس گزاری کے ساتھ فرمانبرداری و اطاعت کی تلقین کرتے رہتے تھے اور تمام مقررہ عبادتیں ادا کرتے تھے۔

مذکورہ بالا مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ انبیاء کی سرزمین (خاص طور پر مصر) کی تفصیل بڑی حد تک محفوظ شدہ نہیں ہے اور ان عظیم تہذیبوں کی تفصیلات تلاش کرنا آسان نہیں ہے جو پیغامِ الہی کے دائرۂ اثر میں رہیں ۔ تاہم مقدس کتاب قرآن مجید میں چند اہم نشانات کا نہایت موزوں طریقے سے تذکرہ کیا گیا ہے جس سے بخوبی یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک حقیقی تہذیب کو کیسا ہونا چاہیے۔

ہمارے پاس دوسرے متمول معاشروں کی متعدد مثالیں موجود ہیں ، جنہوں نے نخوت وتکبر کے ساتھ مالکِ کُل کے سامنے سر تسلیم ِخم کرنے سے گریز کیا اور عاد اور ثمود کے لوگوں کی طرح اللہ کی ذات سے بغاوت کے مرتکب ہوئے۔ لوگوں کو خدا کی طرف راہ راست پر موڑنے کے لیے ہی انبیاءِکرام مبعوث کیے گئے تھے تاہم ان تہذیبوں کے باسیوں نے اپنے مشرکانہ طریقے جاری رکھے جس کی وجہ سے اللہ نےان پر مختلف عذابات نازل فرمائے اور ان کے شہروں اور بستیوں کے نام و نشان تک مٹا دیے۔ قرانِ حکیم میں اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:

  أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ 6إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ 7 الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ 8 وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ 9 وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ 10 الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ 11 فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ12 فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ1324
  کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے (قومِ) عاد کے ساتھ کیسا (سلوک) کیا؟، (جو اہلِ) اِرم تھے (اور) بڑے بڑے ستونوں (کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے، جن کا مثل (دنیا کے) ملکوں میں (کوئی بھی) پیدا نہیں کیا گیا، اور ثمود (کے ساتھ کیا سلوک ہوا) جنہوں نے وادئ (قری) میں چٹانوں کو کاٹ (کر پتھروں سے سینکڑوں شہروں کو تعمیر کر) ڈالا تھا، اور فرعون (کا کیا حشر ہوا) جو بڑے لشکروں والا (یا لوگوں کو میخوں سے سزا دینے والا) تھا، (یہ) وہ لوگ (تھے) جنہوں نے (اپنے اپنے) ملکوں میں سرکشی کی تھی، پھر ان میں بڑی فساد انگیزی کی تھی، تو آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔

معاشی خوشحالی اللہ کی ان گنت نعمتوں میں سے ایک ہے جس کا ردِ عمل خدا کی اطاعت ، عاجزی اور شکرگزاری کی صورت میں ہونا چاہیے۔یہی معاملہ دوسری مادّی طاقتوں اور نعمتوں کا بھی ہے۔ آسائش و خوشحالی ، عالی شان و فلک بوس عمارتیں اور فنی مہارتیں ، زرخیزی اور زراعت ، کاروبار اور تجارت جیسے عوامل کسی بھی طاقتور تہذیب کے ثانوی پہلو ہیں ۔ ایک عظیم تہذیب کی بنیادی خصوصیت در حقیقت اس علم کے تصوّر پر مبنی ہے جو انسان کو اللہ کی اطاعت اور قرب کی طرف لے جاتا ہے۔ کائنات کی سب سے سچی کتاب قرآن حکیم بھی اس حقیقت کی تائید کرتی ہے۔

آج کی مغربی تہذیب

اس مادّی دنیا کی زیب و زینت ، ترقی کے خام تصوّر ات اور دنیا پرستی کو زندگی کا محور سمجھنے کی وجہ سے لوگ زندگی کے اُس اصل مقصد سے گمراہ ہو گئے ہیں جو الہامی مذاہب نے فراہم کیا تھا۔ دورِ حاضر میں سب سے زیادہ غالب مغربی تہذیب ، علم اور طاقت کے ان تمام دائروں میں ، جن کی اساس بنیادی طور پر گریکو رومن(Greco-Roman) روایت پر رکھی گئی ہے ، صدیوں سے ترقی کے تصوّر کے لیے پانچ اہم مفروضوں کو بہت اہم سمجھتی ہے ۔ جنہیں ماہر معاشیات رابرٹ نیسبیٹ (Robert Nisbet) نےیوں ذکر کیا:

  1. ماضی کی قدر۔
  2. مغربی تہذیب کی نجابت و شرف ۔
  3. معاشی و تکنیکی ترقی کی قدر و منزلت۔
  4. عقلی اور سائنسی علم پر یقین رکھنا جو منطقی استدلال سے حاصل کیا گیا ہو۔
  5. زمین پر زندگی کی حقیقی اہمیت اور قدر ۔

گویامغربی فلسفہ،ترقی کے تصوّر کوبالکل مختلف انداز سے دیکھتا ہے۔ افلاطون فطرت کی ایک ریاست سے لے کر ثقافت ، معیشت اور سیاسی نظم و نسق کی اعلیٰ سطح تک، ارتقا کو انسانیت کی ترقی سمجھتا ہے۔25

نشاۃِ ثانیہ کے دور میں سائنس کااصولیاتی طریقۂ کار ارسطالیسی فلسفیانہ نظام (Aristotelian Work)سے تجرباتی نظریہ کی طرف منتقل ہوگیا جس کے نتیجے میں عمومی طور پر فطرت اور سائنسی ترقی کے بارے میں نقطۂ نظر بدل گیا ، جس نے فنی اور معاشی ترقی کے دروازے کھول دیے۔ مزید یہ کہ انسان نے لامحدودانسانی کمال اور ترقی کے نظریے کی راہ ہموار کرتے ہوئےخدا کی طرح بننے کا خواب دیکھا ۔ روشن خیال مؤرخ اور فلسفی والٹیئر (Voltaire)نے پیشرفت اور ترقی کے خیال کو عقلیت پسندی کے ساتھ متصل کر دیا اور سائنس اور عقل کو معاشرتی ترقی کی قوتِ متحرکہ کے طور پر دیکھا۔ کانٹ (Kant)ترقی کا راستہ بربریت سے تہذیب اور روشن خیال ثقافت کی طرف پیش قدمی، جنگ و جدال کے خاتمے ، بین الاقوامی تجارت کی ترقی اور روشن خیالی پر مبنی ذاتی مفاد کی طرف پیشرفت سے گزرتے ہوئے دیکھتا ہے۔

ترقی کے مغربی تصوّر نے زاویۂ نظر کو قرون وسطی کی عقلیت سے معاشرے کی لادینیت اور قدیم یونانی نظریات کی ازسرِنو تشکیل کی طرف موڑدیاہے۔ اس اہم نظریاتی تبدیلی نے زمین پر انسانی جنت کے قیام کی راہ ہموار کردی جس پر انسان آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس غیر منصفانہ اور بے جاتبدیلی نے مغرب میں عیسائیت کے معاشرتی اور بنیادی ڈھانچے اور دنیا بھرکے مذاہب کی اساس کو مجروح کیا ہے جبکہ مذہبی دانشور مذہبی متن کی معذرت خواہانہ تشریح کے ذریعے اپنے نقطہ نظر کے دفاع کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جدید تہذیب کی دیواروں کو نئی شکل دینے کے اس عمل میں کامیابی اور ترقی کا نظریہ الٹا کھڑا نظر آتاہے۔

اسلام میں ترقی کا تصوّر

یہاں ہم اسلام میں ترقی اور پیشرفت کے وہ تصوّر ات پیش کرتے ہیں جو قرآن اور سنت ِرسول نے عطا فرمائے ہیں ۔ حدیث میں بہترین لوگوں کی تعریف ان لوگوں کے طور پر کی گئی ہے جو پیغمبر اکرم ﷺ کےعہد سے تعلق رکھتے ہیں اور جیسے جیسے نسل در نسل آہستہ آہستہ "سنہری عہد" سے لوگ دور ہوتے جائیں گے یہ درجہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

  خير الناس قرني، ثم الذين يلونھم، ثم الذين يلونھم، ثم يجيء أقوام تسبق شھادة أحدهم يمينه، ويمينه شھادته.26
  بہترین لوگ میرے عہد کے ہیں ، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے۔ پھر ان کے بعد وہ لوگ آئیں گے جن کی گواہی ان کی قسم سے اور انکی قسم انکی گواہی پر سبقت کرے گی ۔

دوسرے لفظوں میں ، اسلام میں بہترین لوگ یہ ہیں۔

  1. پہلا طبقہ:حضرت محمد ﷺ اور ان کے اصحاب۔
  2. دوسرا طبقہ:وہ لوگ جنہوں نے پہلے طبقے کی پیروی کی۔ (جنہیں تابعین کے نام سے جانا جاتا ہے)
  3. تیسرا طبقہ:وہ لوگ جنہوں نے تابعین کی پیروی کی ۔ (جن کو تبع تابعین کہا جاتا ہے)

سب سے قیمتی، بابرکت ، اہم اورسنہری عہد وہ دور تھا جب اللہ عزوجل کے آخری نبی حضرت محمدﷺبذات خود اپنےلوگوں میں موجود تھے ، اس کے بعد دوسرے اور تیسرےدور اوراس کے بعد آنے والے لوگ آہستہ آہستہ نبیﷺ کے ساتھ وابستگی اور تعلق میں کمی کی بنیاد پر حاصل کردہ مرتبے و حیثیت کے حوالے سے زوال کا شکار ہوتے گئے۔ یہ بات واضح ہے کہ بہترین تہذیب ، معاشرہ ، ثقافت اور لوگ ، حضرت محمدﷺکی انتہائی صحبت میں رہنے والے نفوسِ قدسیہ کا ہی تھا۔ مدینہ اس کرۂ ارض پر وہ پہلا شہر تھا جہاں ایک حقیقی تہذیب کےایسے آفاقی اصول وضع ہوئے جن پر ہر جگہ عمل ہونا چاہیے۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  1. باضابطہ عبادات اور دعاؤں کے ذریعے اللہ رب العزت کے ساتھ مسلمانوں کا رابطہ قائم کرنا۔
  2. معاشرتی اور اخلاقی قوانین کا قیام جو مسلمانوں کو بھائی چارگی کے بندھن میں جوڑتےہیں ۔
  3. مسلمانوں اور غیرمسلموں کے مابین تعلقات کی وضاحت کرنے والے قوانین کا قیام۔
  4. پائیدار شہری انفراسٹرکچر کا قیام اور پڑوسی قبائل اور ریاستوں سے تعلقات۔
  5. معاشرتی اور معاشی سہولیات کا قیام (بازار ، گلیاں، سڑکیں اورعوامی سہولیات وغیرہ)
  6. ریاست کے دفاع کے لیے معقول فوج کا قیام۔

کسی بھی معاشرے کا بنیادی فر يضہ ان ذرائع اور وسائل کا حصول و قیام ہے جو انسانوں کو خدا کے سامنے جھکنے میں بغیر کسی رکاوٹ یا مزاحمت کے معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ باقی تمام شعبے (معاشی، فوجی، معاشرتی انفراسٹرکچروغیرہ) بھی اسی مقصد کی تکمیل کے لیے قائم کیے جاتے ہیں۔ ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں ، سیاسی پیشرفت کے ساتھ ساتھ ، پیغمبر اسلام ﷺپر ایمان اورآپﷺکےعشق کے دامن میں ، انسانی خیالات و افکار کی بلندی کا مشاہدہ کیا گیا۔اس دوران دینی تعلیم کے عظیم مراکز علم اور سائنسی ترقی کے مراکز بھی تھے۔ سائنس نےمسلم دنیا میں تقریباً786 عیسوی سے 1258 عیسوی کے دوران ترقی اور ارتقا کی منازل طے کیں جس میں مضامین کی ایک وسیع فہرست موجود ہے جن میں خاص طور پر فلکیات، ریاضی اور ادویات قابلِ ذکر ہیں۔ سائنسی تحقیق کے دیگر میدانوں میں علم ِکیمیا اور کیمیا گری ، نباتیات اور زراعت ، جغرافیہ اور نقشہ نگاری ، بصریات ، دواسازی ، طبیعیات اور حیوانیات وغیرہ شامل تھے۔

انسانی علوم کے مضامین میں، تاریخ کے مطالعہ نے مسلمانوں کو ایک خاص جذبہ عطا کیا جس کے تحت انہوں نے ایک مشن کے طور پر نہ صرف اپنی بلکہ دوسروں کی بھی تاریخ مرتب کی۔ انہوں نے حقائق کو بصیرت کے ساتھ بیان کیا اور واقعات ، لوگوں اور جگہوں کو ایک فلسفیانہ جہت سے پیش کیا جس کا اظہار مشہورِ زمانہ عالمی تاریخ میں کیا گیا ہےجسے بغداد کے الطبری (838 تا923 عیسوی) نے تحریر کیا تھا۔ اپنے انتہائی ضخیم کام کے تعارف میں ، اس نے تاریخ کے علم اور اس کے مضمرات کے لیے ایک مکمل جلد وقف کردی ہے۔

طبری کی طرح متعدد دیگر مسلم مورخین مثلاابن خلدون، ابن کثیر، ابن عساکر وغیرہ نے بھی انبیاء اور بادشاہوں کی تاریخ پر مستند متن تحریر کیا ہےجو اب بھی حضرت ابراہیم سےلے کر دسویں صدی تک کے دور کی ایک جامع دستاویزہے ۔ مسلمانوں نے نہ صرف قدیم دنیا کے مثبت و تعمیری ورثے کو محفوظ کیا بلکہ اس کی تدوین،تنظیم،تشریح، تنقید ، نظر ثانی ، اور تشکیل نو کی اور بالآخراسے ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا ہے۔آئندہ آنے والے صفحات بھی انہی کاوشوں کا ایک تسلسل ہے جس میں حضور علیہ السلام کے دور مبارک کی تہذیبوں کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے اور اسکے بعد یہ بتانے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی تہذیب اپنی جامعیت اور آفاقیت کے اعتبار سے اس قابل نہیں ہے کہ اس کو اپنا رہنما بنا کر مِن و عن قبول کر لیا جائے بلکہ ہر تہذیب میں وہ کمزوریاں تھیں جن کی وجہ سے یہ از حد ضروری تھا کہ کوئی ایسی شخصیت ضرور تشریف فرماہو جس کی آمد ایک ایسی تہذیب و ثقافت کی بنیاد رکھے جس میں وہ تمام خوبیاں تو موجود ہو ں جو ان سات بڑی تہذیبوں میں پائی جاتی تھیں لیکن کوئی ایک بھی ایسی خامی موجود نہ ہو جو اس کے عالمگیر قبولیت کے رستے میں رکاوٹ بنے ،وہ تہذیب ان سات تہذیبوں سے ارفع و اعلی ہو اور ہر اس کمزوری سے محفوظ ہو جو انسان کو اللہ سے دور کر دے اور ہر اس خوبی سے مالا مال ہو جو انسان کو اپنے خالق حقیقی کے قریب کر دے ۔

حضور سرور ِ عالم ﷺ کی آمد کے ساتھ ہی اس تہذیب و ثقافت کی بنیاد پڑی جو مذکورہ بالاتمام کمزوریوں سے پاک ایک عالمگیر تہذیب و ثقافت ہے جس کی قبولیت اور آفاقیت ہر دور اور ہر علاقے کے لیے اپنے اندر گنجائش لیے ہوئے ہے اور ہر زمانے و علاقے کی ہر عمرانی تبدیلی کو اپنے اندر سماتے ہوئے ا س کا بہترین حل فراہم کرتی ہے جس کو ہم ’’اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت ‘‘ کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں اور جس کی آفاقیت ابد الآباد تک ہے اور ان شاء اللہ رہے گی جیسا کہ اگلے صفحات سے واضح ہو جائے گا ۔

 


  • 1 Will Durant (1942), The Story of Civilization: Our Oriental Heritage, Simon and Schuster, New York, USA, Part One, Pg. 1-90.
  • 2 Chris Scarre & Brian M. Fagan (2016), Ancient Civilizations, Routledge, New York, USA, Pg. 7-8.
  • 3 Bertrand Russell (2008), The Problems of Philosophy, Arc Manor, Maryland, USA, Pg. 52.
  • 4 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/topic/rationalism: Retrieved: 21-08-2019
  • 5 القرآن ،سورۃ القصص 28 : 07
  • 6 Routledge Encyclopedia of Modernism (Online): https://www.rem.routledge.com/articles/big-bang-theory: Retrieved: 12-12-2019
  • 7 القرآن، سورۃ الانبیاء33:21
  • 8 القرآن، سورۃ الانبیاء30:21
  • 9 القرآن،سورۃ الجاثیۃ 45 : 3-5
  • 10 القرآن،سورۃ الحجرات 13:49
  • 11 Charles Taliaferro Et. Al (2013), The Routledge Companion to Theism, Routledge, New York, USA, Pg. 245
  • 12 University of Cambridge (Online): https://www.cam.ac.uk/research/news/disbelieve-it-or-not-ancient-history-suggests-that-atheism-is-as-natural-to-humans-as-religion: Retrieved: 13-12-2019
  • 13 القرآن، سورۃ الفاطر 24:35
  • 14 القرآن، سورۃ النحل36:16
  • 15 القرآن، سورۃ بنی اسرائیل15:17
  • 16 J.A.S. Evans (1968), The Classical Journal: Father of History or Father of Lies; Reputation of Herodotus, The Classical Association of the Middle West and South Inc., Minnesota, USA, Vol. 64, No. 1, Pg. 11-17.
  • 17 القرآن، سورۃ الاخلاص112 : 1-4
  • 18 Doorway Papers by Arthur C. Custance (Online): https://custance.org/Library/Volume4/Part_II/chapter1.html: Retrieved: 13-12-2019
  • 19 Dr. Henry Morris (2000), The Long War Against God, Baker Books, Arkansas, USA, Pg. 293.
  • 20 Stephen Langdon (1964), The Mythologies of All Religions: Semitic, Cooper Square Publishers Inc., New York, USA, Vol. 5, Pg. 10-11.
  • 21 Max Muller (2010), Lectures on the Science of Language in 1861, Project Gutenburg, Utah, USA, Pg. 12.
  • 22 Max Muller (1859), A History of Ancient Sanskrit Literature, Williams and Norgate, London, U.K, Pg. 559.
  • 23 القرآن ،سورۃ النمل 27 : 30-31
  • 24 القرآن، سورۃ الفجر89 : 6-13
  • 25 Stanford Encyclopedia of Philosophy (Online): https://plato.stanford.edu/entries/progress/: Retrieved: 13-12-2019
  • 26 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری،صحیح بخاری، حدیث :2652، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص :329