Encyclopedia of Muhammad

اِسلامی تاریخ

اسلام دینِ ابراہیمی کی موحّدانہ روایت کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی ہے ۔ اسی لیے آج دین ِحنیف اور ملت ابراہیمی کی جامع، کامل اور مکمل شکل کہیں اور نہیں بلکہ اسلام اور صرف اسلام کی صورت میں ہی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ، ملت ابراہیمی کے اعمال و افعال اور عبادات کی واحد، قابل اعتبار اور بااعتماد امین و وارث ہے۔ اسلام کی حضرت ابراھیم کے ساتھ وہ اعلی ترین نسبت ہے جس کا خود اسلام اعتراف بھی کرتا ہے اور اعلان بھی۔ چنانچہ یہ حقیقتِ واقعہ ہے کہ اسلام کوئی جداگانہ تہذیب نہیں اور نہ ہی مشرق و مغرب کی کسی چھوٹی یا بڑی تہذیب سے متاثر ایسی تہذیب ہے جو اپنے اعمال و افعال کے لیے کسی دوسرے نظام یا مذہب یا فکرو فلسفہ یا پھر کسی مذہب کی خوشہ چین ہو۔

مغربی مصنفین کی یہ رائے کہ اسلام کی تہذیب اپنے ما قبل کی تہذیبوں اور خصوصاً یونانی و رومی تہذیب سےمأخوذ ہے، لیکن وہ ایک جداگانہ تہذیب صرف اس وجہ سے بن گئی ہے کہ عربی ذہنیت نے اُس پرانے موا دکو ایک نئے اسلوب سے ترتیب دے کر اس کی ظاہری شکل و صورت بدل دی ہے۔ یہی نظریہ ہے جس کی بنا پر یہ لوگ اسلامی تہذیب کے عناصر ایرانی، بابلی ، سریانی، فینیقی، مصری، یونانی اور رومی تہذیبوں میں تلاش کرتے ہیں اور پھر عربی خصائص میں ا س ذہنی عامل کا سراغ لگاتے ہیں جس نے ان تہذیبوں سے اپنے ڈھب کا مسالہ لے کر اسے اپنے ڈھنگ پر ترتیب دیالیکن یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ اسلامی تہذیب اپنی ذات و جوہر میں خالص اسلامی ہے اور کسی غیر اسلامی مؤثر کے اثر کا اس میں ذرّہ برابر دخل نہیں ہے البتہ عرضی امور میں عربی ذہنیت، عربی روایات اور ما قبل اور بعد کی تہذیبوں کے اثرات اس میں ضرور داخل ہوگئے ہیں۔ عمارت میں ایک چیز تو اس کا نقشہ ، اس کامخصوص طرز تعمیر، اس کا مقصد اور اس مقصد کے لیے اس کا مناسب و مطابق ہونا ہے اور یہی اصل و اساس ہے، دوسری چیز اس کا رنگ روغن ، ا س کے نقش و نگار، اس کی زینت و آرائش ہے، اور یہ ایک جزوی و فروعی چیز ہے۔ پس جہا ں تک اصل و اساس کا تعلق ہے اسلامی تہذیب کا قصر کلیۃً اسلام کی اپنی تعمیر کا نتیجہ ہے۔ اس کا نقشہ اس کا اپنا ہے ، کسی دوسرے نقشے کی مدد ا س میں نہیں لی گئی ہے ۔ اس کا طرز تعمیر خود اسی کا ایجاد کردہ ہے ، کسی دوسرے نمونہ کی نقل اس میں نہیں کی گئی ہے۔اسی طرح اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جس قسم کی تعمیر ہونی چاہئے تھی اسلامی تہذیب ٹھیک ویسی ہی ہے، ا س مقصد کے لیے جو کچھ اس نے تعمیر کردیا اس میں کوئی بیرونی مہندس نہ ترمیم کی قدرت رکھتا ہے ا ور نہ اضافہ کی۔ باقی رہے جزئیات و فروع، تو اسلام نے ان میں بھی دوسروں سے بہت کم استفادہ کیا ہے حتیٰ کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھی بیشتر اسلام کے اپنے ہیں۔ البتہ مسلمانوں نے دوسروں سے رنگ روغن ، نقش و نگار اور زینت و آرائش کے سامان لے کر ا ن میں اضافے کردیے ہیں اوروہی دیکھنے والوں کو اتنے نمایاں نظر آئے کہ انہو ں نے پوری عمارت پر نقل کاحکم لگادیا ۔1

جغرافیہ عرب (اسلام کی جائے پیدائیش)

جنوب میں بحرِ عرب ، مشرق و مغرب میں خلیجِ فارس اور بحرِ احمر کے درمیان بننے والا یہ جزیرہ عرب کے نام سے جانا جاتا تھا۔ عرب کے مشرق میں ایران تھا جہاں طاقتور ساسانی سلطنت قائم تھی جبکہ شمال میں رومی یا بازنطینی سلطنت تھی جو دورِ قدیم کی سب سے بڑی شہنشاہیت مانی جاتی تھی ۔ ان دونوں سلطنتوں نے عرب جغرافیہ کو اپنی سیاست کا اکھاڑہ بنا رکھا تھا۔ عرب کے بہترین زرخیز علاقے براہِ راست ان کے قبضے میں تھے۔ عراق پر ایرانیوں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ شام،اردن، فلسطین، اور لبنان رومی سلطنت کا حصہ بنے ہوئے تھے۔ عرب کے مشرق و مغرب میں اگر خلیجِ فارس اور بحر احمر کی قدرتی آبی دیواریں تھیں مگر یہ حصے بھی پڑوس کی طاقت ور شہنشاہیتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہ تھے۔ مشرق سے ایران کے بحری بیڑے خلیجِ عمان کو عبور کرکے نہایت آسانی سے عرب کے علاقے میں گھس آتے تھے۔ مغرب میں بحرِ احمر کے اس پار کے دونوں ممالک، مصر اور حبشہ، رومی شہنشاہیت کے ماتحت تھے اور وہ ان کے ذریعے سے ہر وقت عرب کے بظاہر اس محفوظ حصہ میں دخل اندازی کر سکتے تھے۔

شمال میں شام کی سرحدوں سے ملتی ہوئی امارت غساسنہ عربیہ تھی جو رومی سلطنت کے تابع تھی اور بعثت نبوی کے زمانہ میں اس کا امیر حارث بن ابی شمرغسانی تھا۔ اسی طرح امارت بصری تھی۔ وہ بھی رومی شہنشاہیت کے زیراثر تھی۔ یہاں رومی تمدن چھایا ہوا تھا اور ان کے اثر سے یہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد مسیحی ہوگئی تھی۔

عراق کی سرحد پر امارتِ حیرہ عربیہ تھی جو ایران کے تابع تھی۔ خلیجِ فارس کے کنارے کنارے متعدد عرب ریاستیں تھیں۔ وہ سب ایران کے زیراثر تھیں، مثلاً امارتِ بحرین، جس کا امیر منذر بن ساوی تھا۔ یہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد ایرانی تہذیب کے اثر سے مجوسی ہوچکی تھی۔

قدیم یمن، موجودہ یمن سے بہت زیادہ وسیع تھا۔ اس میں مختلف قبائل کی حکومتیں قائم تھیں۔ سب سے بڑا یمنی علاقہ وہ تھا جس کا دارالسلطنت صنعاء تھا۔ نجران اسی کے اندر واقع تھا۔ یمن میں بیرونی نفوذ کا آغاز غالباً 343ء سے ہوتا ہے جبکہ سلطنت روم نے یہاں اپنے عیسائی مبلغین بھیجنے شروع کیے۔ ان عیسائی مبلغین کو نجران میں کامیابی ہوئی اور وہاں کے بیشتر لوگ عیسائی ہوگئے۔ 2

تاریخ

اسلام کی یہ تہذیب سرزمین عرب پر رونما ہوئی جو ازمنہ قدیم سے خانہ بدوش قبائل کی سرزمین چلی آرہی تھی جس کے گرد و پیش مصر اور عراق کے تمدن کی عمارتیں تعمیر ہوئیں اور زمانے کے انقلابات میں سے گزرتی رہیں ۔ عرب کے خانہ بدوش قبیلوں کے سردار شیوخ یا ملوک کہلاتے تھے۔ ان قبیلوں نے عرب کی چراگاہیں جن میں وہ اونٹ ، بھیڑ اور بکری کے گلّے پال سکتے تھے ، آپس میں بانٹ رکھی تھیں۔ عرب قدیم زمانے سے مصر عراق اور شام کی متمدن آبادیوں کے ساتھ اپنے ہاں کی پیداوار لوبا ن ، مر، قہوہ اور دوسری جڑی بوٹیوں کی تجارت کرتے چلے آرہے تھے ۔ عام طور پر عربستان کی زندگی کاحال صدیوں سے یہی چلا آتا تھا لیکن جزیرہ نمائے عرب کے جنوب مغرب میں اور جنوب میں جو خطہ یمن ، عدن اور حضر موت کے اضلاع پر مشتمل ہے اس میں ایک ہزار قبلِ مسیح کے وقت یا اس سے قبل ایک متمدن مملکت قائم ہوچکی تھی جس کا نام سبا تھا ۔ سبا کا ذکر یہودیوں کی کتابوں اور اشوریوں کی کتابوں میں آیا ہے یہ اسی کی ملکہ تھی جس نے ایک ہزار قبل ِمسیح کے قریب یہودیہ کے شوکت و تجمل والے بادشاہ سلیمان کی اطاعت کادم بھرا تھااور ان کا مذہب قبول کرلیا تھا۔ پانچویں صدی مسیحی میں جب مشرقِ ادنی میں رومی قیصروں اور ایرانی شہنشاہوں کے درمیان اپنے حلقہءِ اثر و اقتدار کو بڑھانے کے لیے حریفانہ کش مکش جاری ہوئی تو جو قبیلے شام کی سرحد کے قریب رہتے تھے وہ رومیوں کےز یر ِاثر آگئے اور عراق کی سرحد کے عرب قبیلے ایرانیوں کے حلیف بن گئے۔ مملکت سبا کے متمدن عربوں کی اہمیت ان دونوں سلطنتوں کی نظر میں اس لیے بہت بڑھ گئی کیونکہ یہ لوگ ایک بڑی تجارتی شاہراہ پر بیٹھتے تھے۔ ہندوستان اور چین کا تجارتی مال جو بحری رستے سے کشتیوں پرآتا تھا ان ہی کے ہاتھوں میں سے گزرتا تھا اور سبا والوں کے تاجر اس مال کو خرید کر یمن سے فلسطین کی منڈیوں تک پہنچانے کا بندوبست کرتے تھے ۔ ا س تجارت کے باعث نیز اپنے ہاں کی قیمتی پیداوار لوبان اور مرکی تجارت کےبا عث مملکت کے سب لوگ بہت خوش حال تھے۔ اپنی بستیوں کو سیراب کرنے کے لیے انہوں نے عدن کےقریب کی پہاڑیوں میں مآرب سے چند میل کے فاصلے پر بند لگاکر ایک بہت بڑا ذخیرہءِآب تعمیر کر رکھا تھاجسے وہ عرم کہتے تھے۔ یہ بند 247ء سے 400 ء تک کے عرصہ میں ٹوٹ کر اس سیل کا باعث بنا جس نے سبا والوں کے تمدن کو تباہ کردیا۔ عرم کا بند شکستہ حالت میں آج بھی موجود ہے۔ اس بند کے آثار سبا کے قدیمی ترقی یافتہ تمدن کی شہادت دے رہے ہیں۔

سبا والوں نے آبنائے باب المندب کوعبورکرکے شمال مشرق افریقہ کےزر خیز خطہ حبشہ میں بھی اپنی نو آبادی قائم کرلی تھی جو وقت گزرنے پر وہاں ایک جداگانہ مملکت کی صورت اختیار کرگئی۔ چوتھی صدی مسیحی کے آغا ز میں جب رومی قیصر قسطنطین نے دینِ مسیحی کو اپنی شہنشاہی اغراض کا آلہ بنانے کی پالیسی اختیارکی تو حبشہ میں عیسائیت پھیل چکی تھی۔ چنانچہ اسکندریہ کے چرچ کی ایک شاخ حبشہ میں قائم ہوگئی ا س وقت سے حبشہ کے عیسائی حکمران مذہبی تعلق کے باعث رومی قیصروں کے زیر ِاثر آگئے۔ چھٹی صدی مسیحی میں یعنی 500 ء کے بعد جب رومیوں اور ایرانیوں کے درمیان پے درپے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تو رومیو ں نے حبشہ والوں کو اکسایا کہ وہ مملکت سبا پر حملہ کرکے یمن میں اپنا تسلط قائم کرلیں اس وقت تک نجران کے علاقے میں جو یمن سے مشرق کی جانب واقع ہے عیسائیت پھیل چکی تھی اور نجران کے عیسائی حبشہ والوں کے حلیف بن گئے تھے۔یمن کے یہودی سردار ذونواس نے یہ دیکھ کر نجران پر حملہ کیا اور نجران کے عیسائیوں کو شکست دےکر نجران کےسید حارث کو قتل کردیا۔ ذونواس نے نجران میں ایک خندق کھدواکر اس میں آگ جلائی اور ایسے عیسائیوں کو جو مرتد ہونے کے لیے تیار نہ تھےا س آگ میں ڈلواکر ختم کردیا ۔ اس واقعہ کے بعد حبشہ والوں نے یمن پر چڑھائی کی اور ذونواس ا ور اس کے ساتھیوں کو قتل کرکے یمن پر قبضہ جمالیا۔ ا س مہم میں قیصر روم کے بحر ی بیڑے نے حبشہ والوں کی امداد کی۔ شاہ حبشہ کے دوسرے نائب ابرہہ نے عرم بند کی مرمت کرائی اور وہاں پتھرپر ایک کتبہ تحریر کرایا جس سے اس کاعیسائی ہونا ظاہر ہے ۔ یہ واقعات 522ء تک ظہور پذیر ہوچکے تھے ۔3 اسی ا برہہ نے 570ء میں ہاتھیوں کا لشکر لے کر مکّہ پر چڑھائی کی تھی۔ ابرہہ کا اراد ہ یہ تھاکہ کعبہ کو مسمار کردے جس میں عربوں کے بت رکھے ہوئے تھے اور جہاں دور کے عرب چڑھاوے چڑھانے کے لیے آیا کرتے تھے۔ ابرہہ کے لشکر پر سمندر کی جانب سے آنے والی ابابیلوں4 کے جھنڈ نے کنکریاں گرائیں جنہیں ابابیل کہیں سے اپنی چونچوں اور پنجوں میں اٹھاکر لائے تھے۔ کنکریو ں کی ا س بارش سے ہاتھی گھبرائے جنہوں نے اپنے ہی لشکر کو پاؤں تلے روندڈالا5 اور ابرہہ کو ناکام واپس لوٹنا پڑا ۔ ابرہہ نے صنعاء نامی شہر میں ایک کلیسا بنایا تھا اور اس کی خواہش یہ تھی کہ آئندہ عرب کے لوگ مکّہ کےکعبہ کے بجائے اس معبد میں حج اور طواف کریں6 عربوں میں یہ سال عام ا لفیل کے نام سےمشہور ہوا۔7

جزیرہ نما عرب پر کبھی بھی کسی ایک بادشاہ کا اقتدار نہیں رہا۔یہ خِطّہ چھوٹی چھوٹی قبائلی تقسیمات اورحدود میں بٹا ہوا تھا جوزیادہ تر انتشار کی حالت میں تھیں۔اس انتشار اور بے لگام آزادی کی وجہ سے بے حیائی، بے ہنگم بدکاری، بداخلاقی، بدتہذیبی، بد تمیزی اور سرکشی پر مبنی روش کو عربوں کی زندگی میں فروغ ملنے لگا جس نے عربوں کی پوری سماجی زندگی کو متاثر کیا اور یہ انسانی محرومی اور اخلاق باختگی اس سرزمیں کے تاریک اُفق پر صدیوں چھائی رہی ۔

عرب کے قدیم باشندے

قدیم زمانے سے نوح کے بیٹےسام (Shem)کی اولاد عرب میں آباد تھی۔8 مختلف ادوار کے حوالے سے مؤرخین نے عرب باشندوں کو تین اقسام میں تقسیم کیا ہے جن کو عرب بائدہ ،عرب مستعربہ، اورعرب عاربہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔9 کچھ تاریخ دانوں نے عاربہ اور مستعربہ دونوں کو یکساں رکھا ہے اور انہوں نے عربوں کوصرف دو اقسام میں تقسیم کیا ہے یعنی عرب بائدہ اور عرب باقیہ۔10 عرب بائدہ سے وہ لوگ مراد ہیں جنھوں نے ابتدائی دورمیں عرب کو آباد کیا تھا اور وہ اپنا کوئی سراغ چھوڑے بغیر دنیا سے مٹ گئے تھے۔ عرب باقیہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اب بھی عرب میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہیں یعنی: عاربہ اور مستعربہ۔ دوسرے مؤرخین نے عربوں کو چار اقسام میں نامزد کیا ہے جن کو عرب بائدہ یا عرب عریبہ، عرب مستعربہ ، عرب ِتابعہ، اور عرب مستعجمہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 11

اہل عرب

عرب کے اصل باسی خانہ بدوش تھے۔ ان کی زندگی کا زیادہ تر وقت پانی کی تلاش اور ذرائع حیات کی جستجومیں صرف ہوتا تھا۔زندگی کی بقاکے لیے درکاربنیادی ذرائع اورلوازمات کی تلاش کے بعد قدیم عرب کے باشندوں کے پاس کوئی اہم کارِحیات نہیں تھا ۔یوں ان کے پاس کافی فارغ وقت بچ جاتا تھا جسےوہ صحرا کےکھلے آسمان تلے، زندگی کے تفکرات اور باضابطہ سوچوں سے آزاد ہو کر گزارنا پسند کرتے تھے۔ ان حالات اور اس ماحول میں عربوں میں خاص طور پر دو اہم صفات کا ارتقا اورنمو ہوا۔ان عربوں کی پہلی اہم خصوصیت ان کے یہاں فنِ شاعری کا ارتقاء جبکہ دوسری اہم صفت اپنی بقا کے لیےکی جانےوالی انتھک جدوجہد تھی جس نے انہیں جنگ کے لیے ہمہ وقت چوکس بنا دیا تھا، جس کے نتیجےمیں وہ جرات و بہادری کا شاہکار بن گئے تھےاور اپنی زندگی داوٴ پر لگانے سے نہیں ہچکچاتے تھے۔مستقل دوبدو باہمی مقابلوں اور فتوحات نے فطرتی طور پر انہیں خود ستائشی کے احساس اور بڑھتے ہوئے غیرت وحمیّت اور شخصی وقارکے جذبے سے شناسا کر دیا تھا۔

فراغت اور شاعرانہ تخلیقات سے گہری رغبت نےانہیں جائز و ناجائز قربت کے احساسات اور مے نوشی کی طرف بھی مائل کر دیا تھا۔ ان کی جرأت و بہادری ،میدان ِ جنگ میں بے باکی اور عرب ثقافت نے انہیں ایفائے عہد کا اس حد تک پابند بنا دیا تھا کہ وہ اسےاپنی عزت و آبرو اور وقار کا معاملہ سمجھتے تھے۔ان کی دیگر عادات میں جوا و قمار بازی، تیر اندازی، شاعری ، مسابقت اور عظمت و وقار کا اظہار شامل تھا۔مختصر یہ کہ عرب اور اس کے موسمی حالات عربوں کے کردار اور مزاج کی تخلیق کے بنیادی عوامل تھے۔

زیادہ تر عرب اپنی قوتِ حافظہ سے اپنےآباؤاجداد کا بالکل ٹھیک ٹھیک شجرۂ نسب محفوظ رکھنے کے معاملے میں بہت حساس واقع ہوئےتھے۔وہ اپنے آباوٴاجداد کے نام اور ان کے کمالات انتہائی فخریہ انداز سے بیان کرتے تھے اور جنگ کے دوران اپنے لوگوں میں اسی سے جوش و جذبہ اور بہادری کی صفت کو ابھارتے تھے۔شاید یہ عرب کے ماحولیاتی حالات تھے یا پھر علم الانساب سے ان کا شغف تھا جس کے سبب ان کی قوتِ حافظہ انتہائی مضبوط ہو گئی تھی۔ان کے لیے کئی سو اشعار پر مشتمل شاعری کے دیوان صرف ایک مرتبہ سن کر صحت کے ساتھ حرف بحرف یاد کرلینا معمولی اور سادہ سی بات تھی۔یہ اہلِ عرب کا شاعری کے فن، فصاحت وبلاغت، علم البیان اور زبان و ادب پر عبور ہی تھا جس کے سبب وہ غیرعربوں کو عجم یا گونگے لوگ کہا کرتے تھے۔

اہلِ عرب بہت زیادہ سخت روایات کے امین تھے۔اگر کسی قبیلے کا کوئی فرد دوسرے قبیلےکے ہاتھوں مارا جاتا تھاتو مقتول کا قبیلہ بدلہ لینے تک چین سے نہیں بیٹھتا تھا کیونکہ بدلہ نہ لینا باعث شرم و عار سمجھا جاتاتھا۔عموماً بدلہ اور انتقام صرف مجرم تک محدود نہیں رہتا تھا بلکہ قبیلے کے باقی افراد بھی اس انتقام کی آگ کا شکار ہو جاتے تھے ۔مخالف قبیلہ ان بے گناہ افراد کے انتقام کے لیے موقع دیکھ کردوسرے قبیلے کے بے گناہ افراد کی جان لے لیتا، یوں انتقام در انتقام اور دشمنی و عداوت کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا جو سالوں اور عشروں پر محیط ہو تاتھا۔

اگرچہ کہ اہلِ عرب کی طرف انبیاء و مرسلینتشریف لائےجن میں حضرت ہود ، حضرت شعیب ،اور حضرت صالح بھی شامل ہیں12 تاہم انبیائے کرامسے سلوک کے معاملے میں اہل ِ عرب بھی بنی اسرائیل کی طرح ہٹ دھرم، خودسر ،ضدی اور معاندانہ روش کے حامل ثابت ہوئے۔ اپنی باغیانہ روش ، سرکشی پر مبنی رویئے اور غیر منظم سو چ کی وجہ سے وہ سابقہ انبیائے کرامکی تعلیمات سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔نتیجتاً انبیائے کرامکی توہین اور ان سےبد تہذیبی سے پیش آنے کے سبب بھی عرب تباہی کا شکار ہوئے۔ خود عرب قبائل اور خاندان میں سے بعض کی عادات ایسی تھیں کہ جس سے یہ بات بالکل واضح ہوچکی تھی کہ اب عرب گمراہی ، بداخلاقی اور شرک کا مرکز بن چکا ہے۔ لڑکیوں کا زندہ درگور کرنا، 13 جوا بازی، شراب نوشی، اعلانیہ بدکاری، خواتین پر ظلم و ستم، غلاموں کے ساتھ وحشیانہ سلوک،عورتوں کی خرید و فروخت، امن و سلامتی والے مہینوں کی ناقدری و بے حرمتی، رہزنی ، لوٹ مار، اغوا ، قتل و غارت گری، شر و فساد، فتنہ وقتال، توہم پرستی ، نجوم و مظاہر پرستی، اعمال و اخلاق کے بجائے حسب و نسب پر فخر، خدا کے ماسوا ہر چیز کو قابل پرستش سمجھنا، ہاتھوں کے بت بنا کر اس کی پرستش کرنا بلکہ خود خانۂ خدا کو بتوں کا مرکز بنا ڈالنا وہ قبیح اعمال اور کریہہ عقائد تھے جن کے ہوتے ہوئے اس معاشرے کا راہ ہدایت پر گامزن ہونا امر محال تھا کیونکہ امراء و غرباء، شرفاء و نجباء، پڑھے لکھے اور ان پڑھ، چھوٹے اور بڑے اور مرد و زن سمیت پورا عرب معاشرہ گمراہی و ضلالت کے تاریک و عمیق گڑھے میں گر چکا تھا۔ 14 ایسی صورت حال میں کسی بھی سابقہ نبی و مرسل کی تعلیمات اول تو موجود ہی نہیں تھیں اور اگر تحریف زدہ شکل میں موجود بھی تھیں، تب بھی ان انبیاء کو ماننے کا دعوی کرنے والوں کی ایمانی، اعتقادی اور اخلاقی صورت حال کفار و مشرکین سے کسی بھی طور پر بہتر نہیں تھی۔ ایسی صورت حال میں عرب و عجم کے لوگوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ خدائے وحدہ لاشریک پر ایمانِ خالص کے علم بردار بن کر کھڑے ہونگے اور اس کے احکامات کی بجا آوری اور منہیات سے اجتناب کی بنیاد پر ان کی زندگی کا نظم و ظبط قائم ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ چراغ ہدایت کے حامل بن کر باقی دنیا کو نور ہدایت سے منور کرنے کی تگ و دو کریں گے یہ محض خام خیالی تھی۔ایمان و اخلاق کی اس بد ترین صورت حال میں اللہ تعالی نے عرب و عجم کے انسانوں پر اپنا خصوصی احسان فرمایا اور نبی آخر الزماںﷺ کو ان کے درمیان تاجدار ختم نبوت کے طور پر مبعوث فرمایا۔15

نبی کریم ﷺ کی ولادت اور بعثت

اللہ تعالی نے نبوت کے آخری تاجدار کی آمد سے قبل زمینی حالات ،واقعات ،معاملات اور اسباب کو آپ ﷺ کی موافقت میں اس طور پر جمع کر دیا تھا کہ اب پیغمبرانہ مشن انسانی اور بشری کام کے بجائے ایک ایسی حقیقت بن گیا تھا کہ تاریخ میں بعثت نبی ﷺ کے موڑ پر اللہ تعالی نے کارِنبوت کا مشن براہ راست خود اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔ جیسے کہ سورۃ التوبہ میں مذکور ہے:

  يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ 3216
  وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا نور اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ (یہ بات) قبول نہیں فرماتا مگر یہ (چاہتا ہے) کہ وہ اپنے نور کو کمال تک پہنچا دے، اگرچہ کفار (اسے) ناپسند ہی کریں۔

اس مقدس اور آفاقی مشن کی تکمیل کے لیے اللہ تعالی نے جو ماحول اور لوگ پیدا فرمائے وہ عام انسانوں کی مانند محض توالد و تناسل کی کڑی نہ تھی بلکہ ہزاروں سال پر مبنی وہ زرخیز اور ثمر بار انسانوں کا گروہ تھا جس میں اللہ تعالی نے تاریخ کےسب سے منفرد ،ممتاز ،باکمال ،جامع الصفات ،باکردار انسان صحابہ کی صورت میں پیدا فرمائے ،جنہیں قرآن نے خیر امت کہا۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں اللہ تعالی نے دنیا کی دوسری ثقافتوں اور تہذیبوں سے متاثر اور آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے صحرائی ماحول میں پیدا فرمایا ،جس کی وجہ سے وہ اپنی اصل فطرت پر قائم تھے ،اس کے ساتھ ساتھ جس چیز کو وہ حق سمجھ لیتے اس کے ساتھ کھڑے ہونا ،وقت دینا ،مال قربان کرنا ،اپنی جان بلکہ اپنے اہل خانہ تک کو قربان کر دینا،ان کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا ۔دوسری تمام صفات کے ساتھ ساتھ باکمال قوت ِ حافظہ جس کو وہ اب تک شعر و شاعری،قصص و اخبار اور احساب وانساب کے یاد رکھنے کے لیے استعمال کرتے تھے ۔ اب حضور ﷺ کی آمد کے بعد بحیثیت صحابی رسول حضور ﷺ کے کسی عمل کی طرح عمل کرنا ،کسی فعل کو بعینہ اسی طرح دہرانا ،کسی حکم کی تعمیل کرنا اور ہر معاملے میں اتباع ِ رسول کو فوقیت دینا ،چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے واقعے کو سن اور تاریخ کے اعتبار سے یاد رکھنا ،لمبے اور مختصر خطبوں کو ایک مرتبہ ہی میں حفظ کرنا اور پھر پورے اللہ کے کلام کو اپنےحافظے میں محفوظ کرنا ان کے لیے کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ یہی وہ افراد تھے ،جنہیں اللہ تعالی نے اسلام کے تاریخی ریکارڈ کو محفوظ کرنے کاکردار عطا فرمایا تاکہ اسلام کی جملہ تعلیمات و احکام اور واقعات کا مستند ریکارڑ پہلے حافظے کی صورت میں پھر تحریر کی صورت میں تیار و محفوظ کر سکیں ،یہی وہ تاریخی ریکارڈ ہے ،جسے آج قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔

اس کے ساتھ ایسے حالات و واقعات اللہ کی طرف سے اپنے آخری رسول ﷺ کی نبوت کے اثبات و اتمام کے لیے جمع کر دیے گئے کہ جب 570 عیسوی میں مکۃ المکرمہ میں آپکی ولادت ہوئی اور پھر آپ ﷺ نے 610عیسوی میں اعلان نبوت فرمایا تو قدرتی طور پر آپ ﷺکے پیغام ِنبوت کے حق میں ایسے حالات جمع کر دئے گئے جن کی وجہ سے پیغام ِنبوت کی تکمیل خود آپکی زندگی میں ہی ممکن ہو سکی۔مثلا ًلوگوں نے اگرچہ کہ بظاہر کعبہ کو تمام عرب قبائل کے بتوں کا مرکز بنا ڈالا تھا لیکن اس مشرکانہ اجتماع میں خیر کا پہلو یہ تھا کہ اسی سبب سے تمام قبائل ِعرب مکّہ میں آکر جمع ہو جاتے تھے ۔ نبی کریم ﷺکی پیدائش کے سال ۵۷۰ عیسوی میں بیت اللہ کو ڈھانے کا وہ منصوبہ جو یمن کے حاکم ابرہہ نے بنایا تھا اللہ کی طرف سے اس کو ناکام کر دیا گیاتاکہ بیت اللہ کی مرکزیت کو قائم رکھا جا سکے ،حضور ﷺ کے قبیلہ قریش کا پورے عرب کے لیے ذہنی، مذہبی اور روحانی قیادت کے مقام پر فائز ہونا ،حضور ﷺ کا براہ راست حضرت ابراہیم و اسماعیلکا فرزند ہونا،آپ ﷺکے آباؤ اجداد کی نجابت و شرافت کا پورے عرب میں مشہور و معترف ہونا، آپﷺکےو الدین کریمین کی عفت و پارسائی کا دور دور تک شہرہ ہونا ،خود نبی کریم ﷺ کی ولادت سے پہلے رویائےصالحہ کے ذریعے اہل ِعرب کے بعض سرکردہ افراد کو حضور ﷺ کے بارے میں خدائی بشارات ملنا ،ولادت سے قبل والد کا اور چھ سال کی عمر میں والدہ کا اور پھر آٹھ سال کی عمر میں آپ ﷺ کے مربی دادا عبد المطلب کا وصال پا جانے کے باوجود تمام ہم عصر اور بااثر افراد کے مقابلے میں اعلٰی ترین انسانی و جسمانی اوراخلاقی و روحانی اوصاف سے آپﷺ کا متصف ہونا ،پورے اہل عرب میں آپﷺ کا الصّادق اور الامین مشہورہونا ،عین جوانی کے عالم میں دنیاوی لذائذ و کشائش سے بے رغبتی اور تعلق مع اللہ کی طرف بے پناہ رغبت سمیت اعلان نبوت کے معاً بعد خود آپ ﷺ کے سب سے زیادہ واقف کار رفقاء کا آپ پر ایمان لانا اور پھر یکے بعد دیگرے مکۃ المکرمہ کے ممتاز اہل ثروت و سیاست شخصیات کا آپ ﷺ پر ایمان لاکر شرفِ صحابیت کو قبول کرنا ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ منفرد اور بے مثال واقعات وحالات تھے،جنہوں نے اسلام کے ماقبل دور کو دورِ جہالت اور مابعد کے دور کو دورِ اسلام بنا دیا یعنی پوری انسانی تاریخ اس کے بعد دو واضح حصوں میں بٹ گئی ،اب قیامت تک تاریخ کا ایک دھارا اہل ایمان کا رہے گا ،دوسرا دھارا تمام تر مذہبی دعوؤں کے باوجود اللہ تعالی کی وحدانیت کے منکرین و مخالفین کا رہے گا ۔

حضورﷺ کی یہ تاریخی کامیابی محض اتفاقی حادثہ نہ تھی بلکہ اس کے لیے درکار جدو جہد و وسائل حضور ﷺ نے اللہ کی ذات پر پختہ ایمان ، توکل اور اس کی اعانت و نصرت کے سبب،مسلسل اور مستقل کوشش کی بنا پر حاصل کیے کیونکہ اعلان نبوت کے بعد آپ ﷺنے پورے عرب کے ایمان و اعتقاد پر کاری ضرب لگا کر اپنے مشن کا آغاز دعوت ،شہادت،انذار ،تبشیر اور ابلاغ کےذریعے کیا ،جس کے نتیجہ میں عرب بالعموم اور اہل مکّہ بالخصوص آپ ﷺاور آپ کے اصحاب کے جانی دشمن بن گئے اور یہ دشمنی اس قدر بڑھی کہ انہوں نے اہل ایمان پر شدید ظلم و ستم شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں آپ ﷺ کی اجازت سے گیارہ مرد اور چار عورتوں نے نبوت کے پانچویں سال ماہ رجب میں کشتیوں کے ذریعے حبشہ ہجرت کی۔17واضح رہے کہ اللہ کے لیے اور اللہ کی راہ میں ہجرت بھی سنت ِ ابراہیمی کا حصہ رہی ہے ،جس کا مقصد حفاظت ِنفس و جاں سے زیادہ ،حفاظتِ دین و ایمان تھا،اسی مقصد کے تحت ان اصحاب ِ رسول نے اپنے پیدائشی وطن،آبائی سرزمین ،عزیز و اقارب ،دوست رشتہ دار،تعلقات و ناطوں کو چھوڑ کر ایک اجنبی سرزمین میں بسنے اور اجنبی لوگوں کےد رمیان رہنے کوبرضاو رغبت قبول فرمایا ۔

مسلمانوں کی بڑی تعداد کا حبشہ ہجرت کرجانااور حضرت حمزہ اور حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے نے مکّہ والوں کو اتنا مشتعل کر دیا کہ انہوں نے حضور ﷺ سمیت مکّہ میں بسنے والے تمام اہل ِایمان کا سماجی مقاطعہ کا فیصلہ کر لیا ،جس کی رو سے کسی بھی شخص کو مسلمانوں کے ساتھ معاشرتی ،تجارتی یا مالی تعلقات رکھنے کی اجازت نہیں تھی یعنی بالفاظ دیگر مسلمانوں کو معاشی ،مالی اور اخلاقی طور پر اتنا مجبور کرنا تھا کہ وہ اسلام کو ترک کرکے دوبارہ اپنے سابقہ دین کو قبول کر لیں۔تین سالہ اس بدترین ظلم کے نتیجے میں بچوں ،مردوں ،عورتوں ،بوڑھوں ،بیماروں اور کمزور افراد میں سے کئی کی حالت انتہائی نازک ہوگئی لیکن موت کو سامنے دیکھنے کے باوجود کسی ایک شخص نے بھی اسلام کو ترک کرنے کا ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا حالانکہ تین برسوں پر مشتمل مسلمانوں کی زندگی کا یہ انتہائی اذیت ناک ،درد ناک اور کربناک دور وہ تھا جس میں انہیں درختوں کے پتے ،اُبلی ہوئی کھالوں کے ٹکڑے اور سوکھی اور خراب شدہ روٹیوں کے بچے کچھے ٹکڑوں کے ماسوا کوئی چیز میسر نہ تھی ۔تین سال کے بعد اللہ تعالی نے اس بائیکاٹ کے معاہدے کی دستاویز کو دیمک خوردہ کر دیا اور اس میں اللہ اور محمد ﷺ کے الفاظ کے سوا کوئی اور شے باقی نہیں بچی ۔ 18 اس طرح مسلمانوں کا سماجی مقاطعہ ختم ہوا ۔

حضور ﷺ کی زندگی میں اس کے بعد وہ سال آیا جسے تاریخ میں عام الحزن کہا جاتا ہے یعنی غم کا سال ،آپ ﷺ کی عمر مبارک اگرچہ انچاس برس آٹھ ماہ اور گیارہ دن ہو گئی تھی کہ آپ ﷺکے چچا ابو طالب کا ستاسی سال کی عمر میں وصال ہو گیا اور پھر ان کے وصال کے تین یا پانچ دن کے بعد ماہ ِ رمضان المبارک میں بعثت کے دس سال بعد حضرت خدیجہ کا بھی وصال ہو گیا۔جنہوں نے پچیس برس تک آپ ﷺکی رفاقت کا بھر پور حق ادافرمایا ۔ 19

ان صدمات کے نتیجے میں ایک طرف آپﷺ رنج و غم کا شکار ہوئے اور دوسری طرف اہل مکّہ کے ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہو گیا ۔چنانچہ آپ نے اہل مکّہ کے متبادل کے طور پر طائف کے قبیلہ بنوثقیف کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے طائف تشریف لے آئے ۔ 20 یہاں کے لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے پیغام پر لبیک کہنے کے بجائےنہ صرف آپﷺکی مخالفت کی بلکہ انتہائی سخت بلکہ گستاخانہ رویہ اختیار کیا ،شریر لوگوں کے گروہ آپ پر ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور پتھر برسانے لگے یہاں تک کہ آپ کے قدمین شریفین زخموں سے لہو لہان ہو گئے ۔طائف میں سوائے عداس کے کوئی بھی شخص ایمان لانے پر تیار نہیں ہوا۔21

سفر طائف کےدوران اور پہلے پیش آنے والی سختیوں اور دشمنیوں کے نتیجہ میں اللہ کے رسول ﷺ کا مغموم ہو جانا ایک فطری امر تھا ،جس کے نتیجہ میں رب تعالیٰ نے چاہا کہ آپ ﷺ کو خوش کرنے کے لیے ان مغیبات کا نظارہ کروایا جائے،جس پر ایمان لانے کے لیے آپ ﷺ نے اپنا تن ،من ،دھن قربان کر رکھا تھا تاکہ آپکی دعوت ،شہادت میں بدل سکے چنانچہ ہجرت سے قبل آپ ﷺ کو رب تعالی کی طرف سے آسمانی سفر پر لے جایا گیا22 جسے واقعہ معراج کہا جاتا ہے۔قرآن كریم میں اس واقعے كی طرف اس طرح اشاره كیا گیا ہے :

  سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِہٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَه لِنُرِيَه مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّه هوالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُا 123
  وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔

اس سفر کے دوران آپ ﷺ نے ان تمام حقائق کا اپنی نگاہوں سے مشاہدہ فرمایا جو اپنی اصل کے اعتبار سے اُخروی حقائق ہیں،آپ ﷺ کا یہ آسمانی سفر اہل ایمان کے ایمان میں زیادتی اور اہل کفر کی سرکشی میں مزید اضافے کا باعث بھی ثابت ہوا ۔

نبوت کے گیارہویں سال چھ افراد نے یثرب سے آکر حضور ﷺ کی دعوت کو قبول کیا ،ان ہی چھ افراد نے واپس یثرب جا کر دعوت اسلام کا کام شروع کیا ،جس کے نتیجہ میں نبوت کے بارہویں سال مزید بارہ افراد نے حضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت فرمائی اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا وعدہ کیا ،اس واقعے کو تاریخ اسلام میں بیعت عقبہ اولی کہا جاتا ہے ۔ان تمام افراد نے حضور ﷺ سے یہ بھی وعدہ فرمایا کہ وہ واپسی پر یثرب میں اسلام کی دعوت کا فریضہ کما حقہ سر انجام دیں گے ۔ان کی دعوت کے نتیجے میں اگلے برس یعنی نبوت کے تیرہویں سال 73 مرد اور دو خواتین نے آکر حضور ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ۔آپ ﷺ نے ان میں سے بارہ افراد کو ذمہ داروں کی حیثیت میں منتخب فرمایا کہ وہ واپس جا کر اپنی قوم کی تعلیم و تعلم کا بیڑہ اٹھائیں ،ان 72 افراد کی یثرب واپسی پر مسلمانوں کی تعداد ایک دم بڑھ گئی اور مسلمانوں کو کسی حد تک قوت و طاقت بھی حاصل ہو گئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کا متبادل مرکز غیر اعلانیہ طور پر یثرب میں قائم ہوگیا ،اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے بھی ہجرت کی اجازت عطا کی گئی ۔24

اس کے بعد حضور ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ سب سے پہلے غار ثور میں تین دن قیام فرمایا اور اس کے بعد دو اونٹوں پر سوار ہو کر یثرب کی جانب روانہ ہوئے ۔ 2516 دن کے سفر کے بعدحضور ﷺ کی یثرب میں تشریف آوری ہوئی اور آپ ﷺنے اس شہر کا نام المدینۃ المنوره رکھا26اور اسے مکۃ المکرمۃ کی طرح حرم قرار دیا۔27

حضور ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست اسی شہر یعنی المدینۃ المنوّرہ میں قائم فرمائی ۔یہ ایک باقاعدہ ریاست تھی،جس کے لیے تمام مطلوب ادارے یکے بعد دیگرے حضور ﷺ کی سرپرستی میں قائم ہوتے چلے گئے۔ ان اداروں کا مرکزی سیکریٹریٹ مسجد نبوی تھا،جہاں پر ریاست مدینہ کے سیاسی معاملات ،عسکری امور اور اقتصادی و مالی معاملات کو حسن و خوبی کے ساتھ سر انجام دیا گیا اور وہیں پرصفہ کے چبوترے کی شکل میں پہلا تعلیمی مرکز قائم کیا گیا ،حضور ﷺ نے اسی مسجد میں تمام باشندوں کو انصاف فراہم کرنےکے لیے مکمل عدالتی نظام بھی قائم فرمایا ۔مدینہ طیبہ کی معاشرت جو اسلام سے قبل مختلف مذاہب کے رسوم و رواج کا ملغوبہ تھی، دس ہجری تک تمام رسوم و رواج اسلامی تعلیمات کے رنگ میں رنگ گئے ۔اسلا می تاریخ کا یہ عہدِ زریں پوری انسانی تاریخ کا منفرد دور اس معنی میں ہے کہ یہاں نبی کریم ﷺ کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ایک ایسا مثالی معاشرہ وجود میں آیا ،جس میں ایمان ،اسلام ،اعلی انسانی اوصاف و اخلاق سے کم تر کوئی چیز قابل قبول نہ تھی۔یہ عباد الرحمن (رحمن کے بندوں ) 28 کا مجموعہ تھا ،جن کی زندگی کا مقصد حضرت ربعی بن عامر کے الفاظ میں یہ ہے:

  اللّٰه ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادةلعباد الى عبادة اللّٰه.29
  یعنی الله نے ہم کو بھیجا ہے تاکہ وہ جس کو چاہے ہم اس کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی عبادت کی طرف لے آئیں ۔

 


  • 1 سید ابوالاعلی مودودی، اسلامی تہذیب اور اس کے اصول اور مبادی، مطبوعہ: اسلام پبلیشر پرائیوٹ لمیٹڈ، لاہور، پاکستان،1997ء، ص: 6-7
  • 2 مولانا وحیدالدین خان،پیغمبرِ انقلاب، مطبوعہ :ملک کمپنی ،لاہور،پاکستان ،2010ء، ص: 97-99
  • 3 مرتضی احمد خان میکش، تاریخ اقوام عالم، مطبوعہ: گنج شکر پریس، لاہور، پاکستان، 2016ء، ص: 207-208
  • 4 أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تأویل القرآن، ج-24، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2000م، ص:606
  • 5 القران، سورۃ الفیل 105 :1-5
  • 6 علامہ غلام رسول سعیدی،تبیان القرآن، ج-12، مطبوعہ:فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان، 2000ء ، ص:979
  • 7 شيخ احمد بن محمد قسطلانی، المواہب الدنیہ بالمنح المحمدیہ(مترجم: محمد صديق ہزاروی)، ج-1، مطبوعہ: فريد بك اسٹال، لاہور، پاكستان، 2004ء، ص:510
  • 8 علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، تاریخ طبری(مترجم:سید محمد ابراھیم)، ج-1، مطبوعہ:نفیس اکیڈمی، کراچی، پاکستان ،2004ء ، ص:142
  • 9 أبو الفداء عماد الدين إسماعيل، المختصر في أخبار البشر، ج-1، مطبوعۃ: المطبعة الحسينية المصرية، مصر، (ليس التاريخ موجوداً)، ص:99
  • 10 أبو الفرج المعروف بابن العبري، تاريخ مختصر الدول، مطبوعۃ: دار الشرق، بيروت، لبنان، 1992م، ص:93
  • 11 Akbar Shah Najeebabadi (2000), The History of Islam, Darussalam, Riyadh, Saudi Arabia, Vol. 1, Pg. 52-54.
  • 12 نورالدین علی بن سلیمان الہیثمی، موارد الظمآن الی زوائد ابن حبّان، ج1-، مطبوعۃ: دار الثقافۃ العربیۃ، دمشق، السوریۃ، 1992م، ص: 193
  • 13 القرآن، سورۃ التکویر 81: 8
  • 14 القرآن، سورۃ آل عمران 3: 103
  • 15 القرآن، سورۃ آل عمران 3: 164
  • 16 القرآن ،سورۃ التوبۃ 32:9
  • 17 ابو عبد اللہ محمد بن سعد بغدادی ،طبقات ابن سعد (مترجم :علامہ عبد اللہ العمادی )،مطبوعہ :نفیس اکیڈمی ،کراچی ،پاکستان ،(سن اشاعت ندارد)،ص:216
  • 18 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص :156-162
  • 19 شیخ احمد بن محمد قسطلانی ،المواہب اللدنیہ بالمنح المحمدیہ (مترجم :محمد صدیق ہزاروی )،ج-1،مطبوعہ:فرید بک اسٹال ،لاہور ،پاکستان ،2004ء،ص :166
  • 20 ابو محمد عبد الملك بن ھشام المعافری، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص :300-302
  • 21 ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی المالکی، شرح الزرقانی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م، ص:50-56
  • 22 ابو الحسن علی بن ابی الكرم عزالدین ابن الاثیر ،الکامل فی التاریخ (مترجم :مولوی عبد الرحمن )،ج-1 ،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ،اردو بازار ،کراچی ،پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:577
  • 23 القرآن ،سورۃ بنی اسرائیل 17 : 1
  • 24 ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری ،صحیح البخاری، مطبوعۃ:دارالسلام للنشر والتوزيع، الریاض، السعودیۃ، 1999م،ص:655
  • 25 محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق (مترجم :علامہ محمد اطہر نعیمی ) ،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ ،لاہور ،پاکستان ،1421ھ ،ص :345
  • 26 ابو نعیم احمد بن عبد الله الاصبهانی،المسند المستخرج على صحيح الإمام مسلم، ج-4، حدیث:3196، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996م، ص:48
  • 27 ابو عبد الله محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:1867، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزيع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:655
  • 28 القرآن ،سورۃ الفرقان 63:25
  • 29 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی ،البدایۃ والنھایۃ ،ج-7،مطبوعۃ :دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م،ص:39