دلکش نظاروں، گھنے جنگلات، وسیع صحراؤں اور گہری وادیوں پر مشتمل سرزمینِ افریقہ کرۂ ارض میں پائے جانے والے مختلف معاشروں اور تہذیبوں کا حیران کن امتزاجی مرکز و منبع تھا ۔دنیائے عالم کا دوسرابڑا نمایاں و عظیم برّاعظم ہونے کی وجہ سے متعدد ثقافتوں اور طرز تمدن پر مشتمل منفرد زمینی ٹکڑاتھا۔وہاں موجود ہر تہذیب اپنے بے مثل و بے مثال اور یکتا دستورِ زندگی ، زبان اور معاشرتی نظام کے سبب نمایاں تھی۔قدیم افریقہ مصری، رومی، نائجیریائی اور حبشی تمدن و مدنیت کا دیس تھا جس میں ان کے علاوہ بھی کئی اقوام بستی تھی۔
افریقہ انسانی تاریخ کے نمایاں مقامات میں سے ایک اہم جگہ ہے ۔یہ ابتدائی زمانے کے لوگوں کی جائے پیدائش اوردُنیا کی قدیم ترین اور انتہائی طاقتور تہذیبوں کا مسکن رہی ہے ۔1قدیم یونانی تحاریر اور مصریوں کے محفوظہ دستاویزات میں درج ہے کہ تیسری صدی قبل مسیح دور میں ایتھوپیا ئی تہذیب کا شماردنیا کے ترقی یافتہ سماجوں میں کیا جاتا تھا۔ ایتھوپیائی تمدن کو دستاویزی صورت میں محفوظ کرنے کا آغازدوموت(D’mt) بادشاہ کے دور میں ہوا تھا۔ 2دوموتی سلطنت دسویں سے پانچویں صدی قبل مسیح کے دوران "یہا" کے مقام پر موجود دار الخلافہ سے پھلی پھولی تھی۔ سبیئن (Sabean)میں طاقتور چاند کے خدا "المقاہ" کا معبد موجود تھا اسی وجہ سے وہ باقی علاقہ جات کی نسبت نمایاں حیثیت کا حامل تھا، جو آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ محققین دوموت سلطنت میں سی بئنیائی تہذیب کے موثر ہونے کے متعلق مختلف رائے رکھتے تھے لیکن معبد کی موجودگی اور لسانی مماثلت خصوصی طور پر سیبئنیائی تمدن کی موجودگی کی جانب نشاندہی کرتی دکھائی دیتی ہے۔3سی بئنیائی بادشاہت کا نظام کم درجے کی ایسی بادشاہتوں نے بھی اپنایا ہوا تھا جن کا مقصد صرف طاقت کا حصول تھا۔یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہا یہاں تک کہ پہلی صدی عیسوی میں مملکت اکسومائت(Aksumite) کا ظہور ہوگیا تھا۔ مملکت اکسومائت ایتھوپیائی سلطنت کی پیش رو بادشاہت تھی جو تقریباً2000 سال تک قائم رہی اور اس کا اختتام آخری ایتھوپیائی سلطنت ہائلے سیلاسی اول (Haile Selassie-I)کے زوال پر رونما ہوا تھا۔ 4
قدیم افریقہ زمین پر دوسرا بڑا بر اعظم تھا۔ اس کا رقبہ تقریباً11.7 ملین مربع میل پر محیط تھا۔ اس کے شمال میں بحیرۂ روم اور اس کی ساحلی پٹی اسپین، اٹلی، اور یونان سے جا ملتی تھی۔ اس کے علاوہ یورپ سے بھی اس کا ساحل قریب تھا۔بحیرۂ احمر کی تنگ پٹی افریقہ کو مشرق وسطی کے خطے سے جدا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ افریقہ کے مغربی ساحلی علاقے بحر اوقیانوس کے شمالی اور جنوبی دامن پر واقع تھےجبکہ مشرقی حصہ مکمل طور پربحر ہند سے جا ملتا تھا۔ بر اعظم افریقہ اپنے وسیع و عریض رقبہ کے سبب جداگانہ رنگ و ڈھنگ کی حامل سرزمین کہلاتی تھی۔قدیم افریقہ میں کرۂ ارض کا کشادہ اور بڑے رقبہ پر پھیلا ہوا صحرا بھی موجود تھاجسے صحرائے اعظم کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ صحرا بر اعظم افریقہ کے شمالی علاقے کے وسط میں کثیر رقبہ پر پھیلا ہوا شمال کو جنوب سے جدا کرتاتھا۔ صحرا کے شمال میں موجود علاقے عہد بعید کی تہذیب سے مالا مال تھے۔5صحرا ئےاعظم ،بحر اوقیانوس سے بحر احمر تک وسیع و عریض علاقے پر پھیلا ہوا تھا،جو کہ تقریباً 3.3 ملین مربع میل رقبہ پر مشتمل ،بر اعظم کے تین چوتھائی حصے پرمحیط تھا۔ 6سیاہ اور سانولے رنگ کے حامل باشندوں کے علاقے کو ایتھوپیا کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ براعظم افریقہ کے افقی حصہ پر نیوبیااور حبشہ کے ممالک موجود تھےجبکہ نچلی سطح پر کانگو(Congo)، زیریں گنی (Lower Guinea)اور کیفریریا (Caffraria)نامی مملکتیں موجود تھیں۔ لیکن یہ ممالک کبھی متحد نہ ہوسکے۔ عہد نامہءِ قدیم و جدید اور قدیم تاریخی تحاریر میں مذکور ہے کہ مملکت ایتھوپیا نیوبیا اور حبشہ پر مشتمل تھی۔7 افریقہ پروپریا(Africa Propria)، جسے عمومی الفاظ میں افریقہ کے مختلف صوبے کہا جاتا تھا، براعظم کے شمال سے جنوبی حصہ پر موجود ساحلی کناروں پر واقع تھے۔افریقہ کے جنوبی مقام کے خلیجی حصہ دلدل(Quicksand) پر مشتمل خطرناک علاقے تھے۔اسی مقام سے سمندر کا دوسرا حصہ بھی منسلک تھا جس کا رخ شمال مشرقی ساحلی علاقوں کی جانب جاتاتھا۔ یہ دلدلی مقام بھی وسیع رقبہ پرمحیط تھا۔ ان دونوں دلددلی علاقوں کے درمیان شہر طرابلس واقع تھا۔ افریقہ کے مشرقی حصہ میں مملکت نیومیڈیا (Numidia)موجود تھی جسے اب الجزائر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ساحلی بحر پر شہر یوٹیکا(Utica) آباد تھاجسے تاریخی نام کاٹومائنر (Cato Minor) سے موسوم کیا جاتا تھا ، یہ علاقہ روم کی آزادی چھن جانے پر بہت زیادہ سنگین کیفیت سے دوچار ہو گیا تھااور آخر کار خود ہی اپنی تباہی کاسبب بن گیا تھا۔قرطاج (Carthage)کی مثل یوٹیکا (Utica)ٹائریائی کالونی (Tyrian colony)تھی، یہ کالونی بن تو گئی تھی لیکن اپنی امتیازی حیثیت اور جدا گانہ پہچان اس وقت حاصل کرنے کے قابل ہوئی جب اس کا حریف زوال پذیری کا شکار ہوگیا ۔ 8
3000 قبل مسیح سے بھی تقریباً 10000 سال پہلے بر اعظم افریقہ ایک لمبے عرصے تک نمی سے بھرپور علاقہ تھا۔ اسی موسم نے صحرائے اعظم کے پھیلاؤ میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔اس وقت جھیلوں میں پانی کی مقدار موجودہ حجم سے کہیں بڑھ کر تھی اور جنگلات بھی انتہائی گھنے ہوا کرتے تھے۔لیکن دوسری اور خاص طور پر پہلی صدی قبل مسیح میں براعظم کا موسم قدرے خشک ہوگیا ، پانی سے بھرے علاقے اور جنگلات میں کمی آتی چلی گئی اور سر سبز و شادابی انحطاط کا شکار ہوگئی تھی۔یہ موسمیاتی تبدیلی بارشوں کی کمی اور انسانوں کی موسم کش سرگرمیوں کے وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ کم و بیش 1500 یا 2000 سال قبل جب عیسائیوں کے دور کا سورج طلوع ہوا تھا ، اس دور میں حیاتیاتی جغرافیائی تبدیلی کی رفتار میں تیزی آتی گئی ۔ زمین پر جنگلات کی مقدار کم ہونا شروع ہوگئی اور کھلے میدانوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ یہ تبدیلی یقینی طور پر زرخیز زمین کو لمبے عرصے تک بغیر کسی کاشت کے رکھنے پرواقع ہوئی تھی، اس کے علاوہ جانوروں کے لیے خوراک، جنگلات کی کٹائی، آہن گری اور لکڑیوں کو جلا کر کوئلہ حاصل کرنے جیسے متعدد افعال بھی جنگلاتی علاقوں میں واضح کمی کا سبب بنےتھے۔ 9
افریقہ میں مذاہب کی ابتداء کرنے والا کوئی ایک شخص نہیں تھااور نہ ہی ان کی کوئی مرکزی شخصیت تھی ۔ روایتی طور پر افریقی مذاہب مختلف علاقوں اور لوگوں میں جدا جدا اور منفرد طریقہ کا ر پر مبنی تھے،لیکن بہت سی ایسی رسومات بھی تھیں جو وہاں موجود کثیر مذاہب میں مشترک تھیں۔ کائنات میں موجود ہر شے کی عبادت کا تصور تقریباً تما م ہی غیر الہامی مذاہب میں موجود تھا۔ اسی وجہ سے نام نہاد روحانی مذاہب اور خود ساختہ بنائے گئے ادیان کے مابین کوئی واضح فرق موجود نہیں تھا۔ زیادہ تر افریقی رواج میں اعلیٰ ہستی کے وجود کا عقیدہ رکھا جاتا تھا، جسے موجد، کفیل، مہیا کرنے والا اور تمام مخلوقات کو سنبھالنے والےکے طور پر مانا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کا یہ بھی نظریہ تھا کہ اعلی خدا کےمددگار متعدد چھوٹے خدا اور آباؤ اجداد کی ارواح بھی ہیں۔ چھوٹے خدا ہمہ وقت انسانی معاملات کو سنبھالنے میں لگے رہتے تھے۔ لوگ ان خداؤں سے مختلف عبادات، قربانیوں اور دعاؤ ں کے ذریعےروابط قائم رکھنے کا تصور رکھتے تھے۔ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ انسانی وجود نامکمل ہے اوریہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا کیونکہ بیماری، مصیبت و تکلیف اور موت انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔ افریقی اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ گناہوں اور غیر اخلاقی امور میں پڑجانے کے سبب تکالیف آتی ہیں کیونکہ اس سے ہمارے خدا اور آباو ٔاجداد ناراض ہو جاتے ہیں اور اس طرح کے اعمال کی انجام دہی در اصل معاشرے کے رسوم و رواج سے روگردانی ہے۔ افریقی یہ سمجھتے تھے کہ خداؤں کی عبادات کرنے سے انسانی زندگی پر آنے والی اذیتوں میں کمی آتی ہے ، چاہے اس کے لیے ہمیں ناراض خداؤں کو راضی کرنا پڑے یا معاشرتی لڑائی جھگڑوں کا خاتمہ کرنا پڑے۔مذہبی عبادات کےبارے میں وہ یہ تصور رکھتےتھے کہ اس کے ذریعے لوگوں کی امداد ہوتی ہے اور ان کے روایتی اقدار کی دوبارہ بحالی کی جاتی ہے۔آباؤ اجداد، موجود زندہ انسان ، مرنے کے قریب افراد اور وہ انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوں گے، ان تمام کے تمام کرداروں کو معاشرے کا بنیادی حصہ سمجھا جاتا تھا۔عبادات کو دنیا میں موجود انسانوں اور دنیا کے علاوہ دیگر مخلوقات کے مابین تعلق قائم کرنے کی رہنمائی فراہم کرنے والے افعال اور سماجی زندگی میں توازن برقرار رکھنے میں معاون مانا جاتا تھا۔ ان کا یہ ماننا اور کہنا تھا کہ انسانوں کو چاہیے کہ اپنے ارد گرد موجود روحانی قوتوں سے تعلق کو پختہ ومستحکم کریں ۔10
افریقی اس عظیم خدا پر ایمان رکھتے تھےجس نے اس کائنات کو تخلیق کیا تھا۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ عظمت والاخدا اس دنیا سے بہت دور ہے اور اسےانسانی روز مرّہ کے معاملات سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ 11افریقی باشندے جن کی تہذیب میں بادشاہوں اور سرداروں کا اونچا مرتبہ ہوا کرتا تھا ، اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ خدا سب سے بلند اور بڑا شہنشاہ ہے۔ افریقیوں میں کثیر تعداد ایسی تھی جو ایک خدا پر ایمان رکھتی تھی۔12
افریقیوں کےسمعی اور تحریری دونوں تمدنی ذرائع اس امر کی جانب اشارہ کرتےہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ تمام افریقی اس بات پر اعتقاد رکھتے تھے کہ خلق کرنے کی قوت اعلی خدا کی ممتاز ترین خصوصیت ہے۔افریقیوں کی انسانی تخلیقی اساطیر میں اس بات کا واضح اور پختہ ثبوت موجود ہے کہ ماقبل تاریخی دور سے لے کر آج تک وہ عظیم المرتبت خدا کو تمام مخلوقات کا خالق تصور کرتےآئے ہیں۔مزید برآں ، مختلف افریقی قبائل اور گروہوں نے خدا کوجو بھی نام دیا تھا وہ اس تصور کی واضح ترجمانی کرتا تھاکہ عظیم خدا ہی آسمانوں و زمین اور اس میں موجود ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے۔ 13
افریقی نظریے کے مطابق عظیم خدا ہی سب سے اعلی و برتر ہستی ہے۔اس فضیلت و برتری کی واضح توثیق متعددعہد عتیق کی افریقی دستاویزات اور ان کے روایتی اعتقادات سے ملتا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچےہیں۔اُس بلند و برتر خدا کا نام ہرمخصوص قبیلے و گروہ نے اپنی خاص زبان و بیان میں متبائن رکھا ہوا تھا اور یوں اسے کثیر ناموں سے موسوم کیا گیا تھا۔افریقی عظیم خدا کو مختلف اسما ءسے پکارا کرتے تھے لیکن ہر زبان میں اس کا معنی و مفہوم ایک ہی خدا تصور کیا جاتا تھا، اس سے ان کی مراد متعدد خدا نہ تھی۔ایک طرف بزرگ و برتر واحد خدا کو مانا جاتا تھا اور دوسری جانب متعدد نام ایک خدا کے تصور کو بدلنے کا احتمال بھی رکھتے تھے۔واحد ہونے کا یقین ہونے کے سبب افریقی اعتقاد رکھتے تھے کہ عظیم خدا توحید کا مظہر ہے اور اسی نے افریقہ کے نظام کو ترتیب دیا ہے۔ 14
افریقہ میں مذہبی طور پر ایک رب کو ماننے والے اور شرکیہ اعتقاد رکھنے والے دونوں تصورات کے حامل لوگ پائے جاتے تھے۔ افریقی مذاہب میں توحید پرستی اور شرک دونوں کہیں نہ کہیں موجود تھے،لیکن افریقیوں کا نظریۂ توحید خالص مذہبی عقیدے کے طور پر مانا جاتا تھا ۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اعلی ہستی مختلف صغیر روحانی دیویوں پر حکومت کرتی ہےاوران کم درجہ والے دیوی دیوتاؤں کا تعلق خاص طورپر اعلی ہستی یعنی خدائے واحد کے ساتھ ہے۔افریقیوں کا جنتی بادشاہت کے متعلق تصورِ خدا عیسائیوں کے خدائی طرز فکر سے بہت مماثلت رکھتاتھا، جس میں ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اعلی خدا بزرگوں اور فرشتوں پر حکومت کرتا ہے۔ افریقیوں کے مذہبی پیشواؤں نے بیک وقت ایک خدا اور متعدد ذیلی دیوی دیوتاؤں کا تصورعوام الناس میں پیدا کردیا تھا جو کہ واضح طور پر خود ساختہ تشکیل دیا گیا تصور تھا۔ 15
افریقی باشندے مافوق الانسانی قوتوں پر بھی اعتقاد رکھا کرتے تھے۔ان کا یہ ماننا تھا کہ ان کا براہ راست تعلق انسانی زندگی کےافعال و اعمال سے ہوتاہے۔ ان طاقتوں کو وہ خدا اور روحانی قوت کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔ انتقال شدہ افرادکی روحوں کو بھی مافوق الانسانی قوتوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ 16مافوق الفطرت قوتوں کو روحانی دنیا کے باشندے تصور کیا جاتا تھا۔ ان میں سے کچھ بڑے خدا اور بعض کو ثانوی خدا تصور کیا جاتا تھا۔ان کے علاوہ دیگر قوتوں کو آبائی روحانی قوت کے طور پر بھی مانا جاتا تھا۔انتقال کرجانے والے انسانوں کو مافوق الانسانی قوت کے طور پر قبول کرلیا جاتا تھا۔ افریقی اپنے ان نظریات کے سبب، جب کسی انسان کی روح پرواز کرجاتی تو اس شخص کی آخری رسومات کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔ بعض افریقی مافوق الفطرت قوتوں کے بارے میں یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ یہ ہمارے فوت شدہ آبا٫ و اجداد ہی ہیں۔ دیگر دوسرے مذہبی گروہوں کا یہ نظریہ تھا کہ روحانی آسمانی قوتیں خاص طور پر اور بطور احترام عبادت گاہوں میں جمع ہوتی ہیں۔بعض تجزیہ نگار یہ تاثر دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ افریقی شرک و بت پرستی میں مبتلا تھے کیونکہ ان میں کم درجہ کی خدائی قوتوں اور بزرگ و آباء واجداد کی شخصیات کو بھی خدائی قوت کے طور پر تصور کیا جاتا تھا۔واضح طور پر دیکھا جائے تو افریقی مذہب شرک پر مبنی تھاکیونکہ وہاں خدائے یکتا پر ایمان رکھنے کے ساتھ ثانوی خدائی طاقتوں اور مزید کم درجہ کی روحانی قوتوں اور دیوی دیوتاؤں کی موجودگی کا عقیدہ بھی موجود تھا۔ 17
براعظم افریقہ کے شمال مغربی خطہ میں مقیم باشندوں کے متعلق یہ شواہد ملتے ہیں کہ انہیں بربریوں نے تقریباً10000 سال قبل مسیح سے پہلےاس مقام پر آباد کیا تھا۔ 18تاریخ قدیم سے ہمیں اس بات کاواضح ثبوت ملتا ہے کہ بربری باشندےوہاں کے رسمی مذہب بربریت پر عمل کیا کرتے تھےلیکن جب ابراہیم کی تعلیمات شمالی افریقہ تک پہنچ گئیں تو وہاں موجود دیگر مذاہب ناپید ہوگئے تھے۔بربروں کےسماجی مذہب میں سابقہ پیشروؤں کی عبادت ، بت پرستی اور روح پرستی میں بہت زیادہ شدت پائی جاتی تھی۔کثیر تعداد میں بربری عقائد ایسے تھے جو گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ان کے مذہب میں شامل ہوچکےتھے۔یوں ہی دیگر افریقی مروّجہ مذاہب کی رسوم و رواج اور ان کی تعلیمات کا اثر بھی اس مذہب پر پڑا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے قدیم مصری مذہب وہاں پائے جانے والے مختلف مذاہب مثلاًقرطانجیت، یہودیت، آئبیریائی روایتی اعتقادات اور ہیلینیائی مذہبی عقائد پر مشتمل تعلیمات کا اشتراکی مذہب تھا۔
عہد عتیق میں شمال مشرقی افریقی خطہ کُش کے نام سے موسوم تھا۔ یہ مقام مصر کے قریب جنوبی حصہ میں واقع تھا۔ ہیروڈوٹس(Herodotus) اور دیگر قدیم محرر اسے ایتھوپیا کہتے تھےجو موجودہ دور میں نیوبیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کُش کے باشندے قدیم دور میں اور آج بھی افریقی تمدن اور زبان استعمال کرتے ہیں، لیکن قدیم دور میں ان کی تہذیب پر شمالی علاقہ جات کا بہت زیادہ اثر موجود تھا۔
میروئٹک (Meroitic)دور میں (350 قبل مسیح سے 350 عیسوی)کُشی عبادت گاہوں میں متعدد خدائی قوتوں کی موجودگی کا عقیدہ رکھا جاتا تھاجو واضح طور پر مصری بنیادی عقائد میں سے نہیں تھا۔ان خداؤں میں سب سے طاقتور شیر کے سر والا مذکر دیوتا اپیدیمک (Apedemak)تھاجسے خاندان ِاقتدار کا خاص مربی و سرپرست اور معبود تصور کیا جاتا تھا۔اپیدیمک کو فتح و نصرت دینے والا اور کھیتی باڑی کے لیے زمین میں زرخیزی پیدا کرنے والا خدا بھی مانا جاتا تھا۔افریقہ کے قدیم شہر میروئے (Meroe) اور اس کے علاوہ کُش کے جنوبی خطہ میں واقع کثیر دیگر علاقوں اورقصبوں میں اپیدیمک دیوتا کے کثیر معابد تعمیر تھے۔افریقی شاہی مرکز سے بہت دور شمالی علاقہٴجات میں یہ مذہب دیگر مقامات کی نسبت زیادہ پھیلا ہوا تھا۔
اپیدیمک کے علاوہ ممکنہ طور پر دو مزید مقامی دیوتاؤں کی بھی پرستش کی جاتی تھی جن کے نام ایرنسنوفس (Arensnuphis)اور سیبیومیکر (Sebiumeker) تھے۔ ان دونوں خداؤں کو معبد کے باہری دروازوں کے اطراف پر بطور نگراں نصب کیا جاتا تھا۔ان خداؤں کے علاوہ مزیدحبشی نما خدوخال کی حامل معمائی دیویوں کی موجودگی کا عقیدہ بھی قائم تھا جن کے نام آج تک معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔مذہب کُش میں بعض خاص جانوروں کو واضح اہمیت حاصل تھی۔ معبد کےماحول کی منظر کشی کرنے والے تصویری خاکوں میں گائے ،بیل اور مویشیوں کو واضح طور پر دکھا یا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی شہر موسوّرت (Musawwarat)میں ہاتھی کو مقدس جانور کے طور پر مانا جاتا تھا۔19
بادشاہت اکسوم (Aksum)عہد بعید کی سلطنتوں میں سے ایک تھی۔ یہ مملکت قدیم دور میں موجودہ شمالی ایتھوپیا اور اریٹریا(Eritrea)کے مقام پر واقع تھی۔ 20اکسومیائی شہنشاہ طاقتور اور مضبوط اقتدار کے حامل بادشاہ تھے۔اکسومی بادشاہ اپنی ذات کو بادشاہوں کا بادشاہ، اکسوم کا بادشاہ، ہمیار(Himyar)، رئدان (Raydan)،سبا(Saba) ، سالہن(Salhen) ، تسیامو(Tsiyamo)،بیجا (Beja) کے القابات سے موسوم کیا کرتے تھے۔21
اکسومیائی باشندے مشرکانہ عقائد کی اقتداء کیا کرتے تھے، یہی مذہب جنوبی عرب میں بھی رائج تھا۔اس مذہب میں ہلالی اور مکمل چاند کی تصویر کو جنوبی عرب اور شمالی مضافاتی علاقوں میں مذہبی رسومات میں استعمال کیا جاتا تھا۔22فرنسس اينفرے(Francis Anfray)اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اکسومیائی ماده پرست ایسٹر(Astar)، اس کے بیٹے مہریم (Mahrem)اور بہر (Beher) کی پوجا کیا کرتے تھے۔اسٹیو کپلان (Steve Kaplan) بیان کرتا ہے کہ اکسومیائی تمدن کے سبب مذہب میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئی تھی جس میں ایسٹر کو پرانا دیوتامانتے ہوئے پرستش کی جاتی تھی اور اس کے علاوہ دیگر خدا ؤں کی جگہ تین خداؤں مہرم (Mahrem)، بہر (Beher)اور مدر(Medr)کے تصور نے لے لی تھی جسے تثلیثیت کہا جاتا تھا۔اس نے اسی تناظر میں یہ تصور بھی پیش کیا کہ اکسومی تہذیب بنیادی طور پر یہودیت سے بہت متاثر تھی۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ یہودیت کا پیغام پھیلانے والے ابتدائی لوگوں نے قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی ملکہ سبا كے دور سے چوتھی صدی عیسوی میں عيسائی مذہب قبول کرنے والےبادشاہ ايزانا(King Ezana)کے دور تک ايتھوپیا پر اپنے قدم جمائے ہوئے تھے۔
تاریخ دان اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ عیسائیت کا پیغام سکندر کے ذریعے 40 عیسوی میں پہلی مرتبہ افریقہ تک پہنچا تھا۔ سکندر اعظم نے ہیلینی(Hellenic) سلطنت کے طرز پرایک شہر بسایا تھا۔تقريباً اسی دور میں ہی مصر میں عیسائی مذہب پھیلنا شروع ہوگیا تھا جس کی ترویج کا بیڑا وہاں کے مقامی باشندوں نے اٹھایا ہوا تھا۔مصر کے وہ اصل باشندے جو عیسائیت میں یعقوبی فرقے کے پیرو کار تھے، اپنے مذہب کی بنیادی تعلیمات میں سینٹ مارک (Mark)کے متبعین کہلواتے تھے جو عیسائی مذہبی کتاب انجیل کا مصنف تھا اور مصر میں عیسائیت کو پھیلانے کے لیے آیا تھا۔ افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ قرطاج (Carthage) شہر کے راستے بھی کی گئی تھی۔ قرطاج یونان کا صوبہ تھا جو موجودہ تیونس میں واقع تھا۔ تقریباً 44 قبل مسیح سے قرطاجیوں نےرومی تہذیب کو اپنایا ہوا تھا ، ان کی مادری زبان لاطینی تھی اور ان کا سرکاری مذہب رومی خداؤں کی پوجا کرنا تھا۔ عیسائیوں کو وہاں بہت تنگ کیا گیا یہاں تک کہ ان کا قتل عام بھی کیا گیا تھا ۔ بہرحال ، چونکہ عیسائیت شمالی افریقہ میں بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوچکی تھی تو عیسائیوں نے انتہائی اعلی پائے کے رہنما تیار کیے جن میں ٹارٹولین(Tertullian)، سینٹ اگسٹائن(Saint Augustine)، سینٹ قبرصی (Saint Cyprian)اور سینٹ پرپیچوا (Saints Perpetua)نمایاں تھے۔ 350 عیسوی میں قدیم اکسومیائی سلطنت، جو موجودہ دور میں ایتھوپیا سے جانی جاتی ہے، نے سرکاری طور پر عیسائی مذہب کو قبول کرلیا تھا۔ اکسومی بادشاہ عیزانا( (320-356 ADکا ایتھوپیا کی تاریخ میں نمایاں مقام ہے ۔ اپنے دورِ حکومت کے آخری وقت میں اس بادشاہ نے عیسائیت کو قبول کرلیا تھا اور یوں افریقہ کا پہلا عیسائی بادشاہ قرار پایا تھا۔ اس نے اپنی سلطنت میں عیسائیت کو ریاستی مذہب کا درجہ دے دیا تھا،23جب کہ وہ افریقی مذہب پر پختہ یقین رکھتا تھا ۔اکسومیائی عیسائی جو بعد میں ایتھوپیائی عیسائی کہلانے لگے ، مصر کے قبطیوں میں عیسائیت پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہی اکسومیائی عیسائی آج ایتھوپیائی عیسائی کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ 24
الوئےسیس ایم لیوگیرا(Aloysius M. Lugira) نے ایک طویل فہرست پیش کی ہے جس میں افریقی مذاہب کے متعلق ذکر کیا گیا ہے جو اُس دور میں افریقہ کے مختلف اضلاع میں رائج تھے۔ ان میں ڈنکا مذہب(Dinka Religion)، نیور مذہب(Nuer Religion)، شلّک مذہب(Shilluk Religion)، گلّا مذہب(Galla Religion)، اچولی مذہب(Acholi Religion)، اتیسو مذہب(Ateso Religion)، بگنڈا مذہب(Baganda Religion)، بگیسو مذہب(Bagisu Religion)، بنیانکور مذہب(Banyankore Religion)، لانگی مذہب (Langi Religion)، بنیورو مذہب (Banyoro Religion)اور اس کے علاوہ مزید مذاہب کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔25 ان مذاہب کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور ہر مذہب کے الگ الگ خدا اور مذہبی عقائد ہوا کرتے تھے لیکن عہد مذکورہ کے کچھ عرصہ بعد انہوں نےعیسائیت کوقبول کرلیا تھا۔اس کے بعد جب حضرت محمد ﷺ نے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی تو ان میں سے کثیر افرادنے مذہب اسلام قبول کرلیا لیکن عہد جدید میں آج بھی افریقہ کے مختلف مقامات پر الگ الگ مذاہب کو مانا جاتا ہے۔
افریقی سرزمین دنیا میں ہونے والی تجہیز و تکفین کی قدیم رسومات کے ثبوت فراہم کرتی ہے۔ ہرٹو (Herto)کے قریب ایتھوپیا کے مقام پر جہاں عہد عتیق کے انسانوں کی باقیات موجود ہیں, 160,000سالہ قدیم بچے کی کھوپڑی دریافت ہو ئی تھی جسے انتہائی چمکاکر بہت قرینے اور احتیاط سے محفوظ کیا گیا تھا، ممکنہ طور پر اسے مذہبی رسومات میں متعدد بار استعمال بھی کیا گیا تھا۔گیرو(ایسی زمین جس میں کثیر مقدار میں دھاتیں موجود ہوں یا چکنی مٹی جو رنگ و روغن كے ليے استعمال كی جاتی ہو۔)اور دیگر معدنیات جیسے خول وغیرہ افریقہ میں تدفین کے عمل اور دیگرمذہبی رسومات میں ہزاروں سال سے استعمال کی جارہی تھیں جوآج تک جاری و ساری ہیں۔ لال مٹی اعلی درجے کی مذہبی رسومات میں استعمال کی جاتی تھی، ان کے عقیدے کے مطابق یہ مٹی زندگی اور موت دونوں کیفیات کے لیے اہم ہے۔
اکسوم میں چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح کے درمیانی دور میں ایتھوپیا کے بلند پہاڑی علاقے میں ایک شہر یا سلطنت موجود تھی جہاں بادشاہوں کی قبروں کے نشانا ت آج بھی موجود ہیں اور ان پر دنیا کے بلند ترین ستون نما یک سنگی چوکور تعمیرات (obelisks)قائم کی گئی تھیں جس کی اونچائی 100 فٹ تک رکھی گئی تھی۔ اس دور میں قبروں پر یک سنگی تعمیر اور رہنماؤں کے لیے سنگ خارا سے مقبرے تعمیر کیے جاتے تھے۔ یہ تمام مقبرے ایتھوپیا کی بلند پہاڑی والے مقام سے لے کر بحیرہ ءِاحمرکے ساحل تک متعدد مقامات پر ترتیب سے قائم کیے گئے تھے ۔مردہ سوزی یعنی لاش جلانے کا عمل بھی مردوں کی آخری رسومات کے طور پر کیا جاتا تھا، افریقہ کے قدیم شواہد اس عمل کے وہاں رائج ہونے کے حوالے سے ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مغربی کینیا میں موجود دراڑ نما گھاٹی (Rift Valley)کے ساتھ مشہور ماہر آثاریات میری (Mary)اور لوئس لیکی (Louis Leakey)نے پتھروں کے دور کے غار کی کھدائی کی تھی۔ اس غار کو نجیرو دریائی غار (Njoro River Cave)سے جانا جاتا تھااوریہ تقریباً 1200 قبل مسیحی دور سے تعلق رکھتا تھا۔ اس مقام پر متعدد مردہ سوزی کی باقیات موجود تھیں اور اس کے علاوہ آخری رسومات میں استعمال کی جانے والی اشیاء بھی نیم جلی ہوئی حالت میں رکھی ہوئی تھیں۔ ان اشیا میں لکڑی كے بنے ہوئے برتن، ٹوکریاں، مٹکے، خول اور نیم قیمت پتھر جن کو ایک رسی میں پروکر بطور زیور استعمال کیا جاتا تھا، موجود تھیں۔افریقہ کے طول و عرض میں مردے کی آخری رسومات قبائلی طور پر ترتیب دی جاتی تھیں، اور ان ریت و روایات میں آباؤاجداد کی روحوں کے ساتھ تعلق کو پختہ کرنے اور ان کی عزت و احترام کا بھی خاص خیال کیا جاتا تھا۔ 26
عہد آہن کے دور میں ہونے والی مردے کی آخری رسومات اور تدفین کے حوالے سے انتہائی کم ثبوت حاصل ہوئے ہیں۔ کثیر تعداد میں قبروں میں رکھی جانے والی اشیا ءمیں سالم برتنوں کے ڈھیر گیبون(Gabon) کے دارالحکومت لبریویل (Libreville) میں ملے ہیں۔جنوبی کانگو میں نیاری (Niari)دریائی علاقے کے سر سبز علاقے میں موجود پبیالا (Mbiala)نامی غار سے تین ضخیم انسانی سروں اور ہڈیوں کے ڈھیر دریافت ہوئے ہیں جن میں سے دو کھوپڑیاں جوان عورتوں کی تھیں اور حیرت انگیز طور پر ان کے نچلے جبڑے غائب تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہڈیوں کو جان بوجھ کر توڑا گیا تھا اور بغیر کسی اعضائے ترکیبی کے پھیلا دیا گیا تھا۔ایک چھوٹی لوہے کی سلاخ اور ایک خود ساختہ لوہے کا نیزااور تیر کی نوک مخصوص ہڈیوں کے قریب رکھی ہوئی تھی۔ اس اندازِترتیب کی کوئی خاص توجیہ 1310 قبل مسیح سے آج تک بیان نہیں کی جاسکی ہے۔اندرونی کانگو کے آب گیری علاقہ میں تشیاپا (Tshuapa) نامی دریا موجود ہے، اس کے قریب نیچے کی جانب کچھ مکانات تعمیر ہیں جنہیں مچھلی کے شکار کا پڑاؤ بھی کہا جاتا تھا، وہاں قلیل مقدار میں تدفین کا عمل سادی زمین میں گڑھاکھود کر کیا گیا تھا۔مرنے والے افراد کے جسموں کو دریا کے کناروں میں زمین پر چت لٹا کر یا مڑی ہوئی کیفیت میں دفن کیا گیا تھا۔بعض مقامات پر نابالغ بچوں کی ہڈیاں بالغ شخص کی ہڈیوں کے ساتھ ایک ہی قبر میں رکھی گئی تھیں۔ ایک چھوٹی بچی کی لاش بھی دریافت ہوئی جس کے ایک بازو پر لوہے کی چوڑی اور گلے میں گوشت خور جانور کے دانتوں کا ہار موجود تھا۔ وہ عورت جو حالتِ حمل میں انتقال کرجاتی ، اس کی کمر کی نچلی ہڈی کے نیچے لال رنگ کا مادہ ، ممکنہ طور پر رنگ بھی موجود تھا۔ ان قبور میں سے کوئی ایک ازروئے امکان 660 قبل مسیح کے دور کی معلوم ہوتی تھی۔ کانگو کے آب گیری علاقہ کےشمال مغربی علاقے میں ایک اور تدفین کا طریقہ جونسبتاً کم درجے کا معلوم ہوتاتھا، دریافت ہوا تھا،جس میں دریائے لوا پر ملیوبا (Maluba)کے مقام پر زمین سے ایک پست قد کے شخص کا ڈھانچہ نکالا گیا تھا۔تدفین کا ایک انداز سرزمین ٹیکی کانگو (Teke land Congo)سےبھی دریافت ہوا جس میں مٹکےنما ظروف اور لوہے کے گول برتن قدیم عہد آہن سے قائم شدہ لوہے کی بھٹی سے نکالے گئے تھے۔جنوبی کیمرون (Southern Cameroon) اور گیبون (Gabon) میں گھروں میں کھودے گئے گڑہوں میں نمایاں طور پر بڑی مقدار میں برتن اور ظروف ملے ہیں جن میں مکمل سالم اور تقریباً ثابت برتن، آب دار چکنے پتھر کے اوزار اور ان چیزوں کے مختلف ٹکڑے بھی موجود تھے۔ اس کے علاوہ گھسے ہوئے پتھر، جلا ہوا روغنِ تاڑ (Charred Oil Palm Nuts) ، افریقی کالے پھل والا زیتون (Canarium Schweinfurthii) اور لکڑی کا کوئلہ بھی موجود تھا۔بعض موجدین نے غیر یقینی اور امکانی صورتوں کو جمع کرنے کے بجائے اپنی تحقیق کو صرف بامقصد چیزوں کی نشاندہی تک ہی محدود کر رکھا تھا۔ممکنہ طور پر اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر مٹی کے برتنوں کو زمین کھود کر دفن کیا جس طرح 650 سے2300 قبل مسیحی دور کے دوران اندرونی کانگو کے آب گیری علاقے میں دفن کیے گئے تھے۔ممکن ہے کہ تدفینی رسومات کی ادائیگی کے دوران اسلاف پرستی بھی کی جاتی ہو۔ 27
مرنے والے اشخاص کے جسموں کو ان کے مرنے والے مقام پر ہی دفن کردیا جاتا تھا اور ان کی قبروں میں کوئی شے نہیں رکھی جاتی تھی۔ مردوں کو مختلف حالتوں میں قبر میں رکھاجاتا تھا۔28بنٹو (Bantu) دور کی قبروں میں آخری رسومات کی عکاسی کی گئی تھی، مردے کو کثیر تعداد میں جواہرات سے آراستہ کیا جاتا تھا جس میں کنگن، انگوٹھیاں، گلے کے ہار، جھمکا، موتیوں کی لڑیاں، سمندری سیپیاں، موتیوں اور شفاف و شیشہ نما پتھربھی پہنائے جاتے تھے، اس کے علاوہ دیگر چیزیں بھی موجود تھیں جن میں سکے اورا سی طرح ترتیب میں چھوٹے چھوٹے صلیب بھی رکھے جاتےتھے۔ 29
شمالی افریقہ میں زمین پرپتھرسے بنائے گئے انتہائی بڑے مقبروں کی مثل تعمیرات شمالی یورپ میں بھی موجود ہیں۔ممکنہ طور پر ان کا تعلق پہلی صدی قبل مسیح سے تھا۔ الجیریا میں مزورا (Mzora)کے قبرستانی ٹیلوں کی طرح بڑی بڑی عمارات موجود ہیں جن کی موٹائی 177 فٹ تقریباً 54 میٹرہے۔ مقبروں کی شاندار عمارتوں کو میڈریسن (Medracen) کہا جاتا تھا جو تقریباً 131 فٹ چوڑ ی ہوا کرتی تھی۔ ان عمارات کا تعلق چوتھی اور تیسر ی صدی قبل مسیح سے تھا۔ان تعمیرات میں فونیشیائی عکس نظر آتا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ عمارات مکمل طور پر لبنانی تھیں۔30
انسانی جان کی قربانی کو قرطاجی مذہب میں اہم عنصر شمار کیا جاتا تھا۔ یہ رسم افریقہ میں فونیشیائی (Phoenicia)دور سے بھی قبل تقریباً تیسری صدی قبل مسیح میں موجود تھی۔ بچوں کی قربانی بعل(Baal) دیوتا کوپیش کی جاتی تھیں۔ ان بچوں کی ہڈیوں کو جلا کر قبر میں دفن کردیا جاتا اور اس پر علامتی پتھر یا لوح تربت (stelae)نصب کردیا جاتا تھا۔ قرطاج میں موجود ٹانت (Tanit)کے مقدس مقام پر ہزاروں کی تعداد میں اس طرح کی قبور دریافت ہوئی ہیں، اس کے علاوہ ہڈرومیٹم(Hadrumetum)، سرٹا(Cirta)، قسطنطنیہ(Constantine)، موتیا(Motya)، کارالیس (Caralis) موجودہ کیجلیاری(Cagliari) اٹلی، نورا (Nora)اور سلسس (Sulcis)میں اسی طرح کی قبور موجودتھیں۔ قرطانجی مذہب میں یہ تعلیم دی جاتی تھی کہ انسان خدا کے آگے کمزور و ناتواں ہے کیونکہ خداغالب قوت رکھنے والا اور فیصلے بدلنے میں خود مختار ہے۔ 31
اکثر قدیم افریقی قبیلوں کے رسوم و رواج کے تحریری ثبوت ناپید ہیں ۔جو کچھ ان کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں اس میں ان کے رہنے سہنے کے ڈھنگ کےمتعلق بتایا گیا ہے۔ افریقی بر اعظم میں ابتدائی انسان، قبائل کی صورت میں یا چھوٹے گروہوں میں رہا کرتے تھے ، ہر قبیلے کی سربراہی کا کوئی سرکاری نظام موجود نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے معاملات اندرونی طور پر حل کیا کرتے تھے۔ قبیلوں میں کسی قسم کے کوئی خاص قوانین نافذ نہیں تھے،ریت و رواج زبانی کلامی طور پر ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوا کرتے تھے۔ بعض قبائل شکار کے ماہر ہوا کرتے تھے، لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ شکار کرتے ہوئے ہجرت کرتے، جہاں انہیں شکار ملتا اسی مقام کی جانب اپنا قبیلہ منتقل کردیا کرتے تھے۔ افریقہ میں عمومی طور پر دو معاشرتی طبقات تھے، ایک طبقہ ممتاز شخصیات پر مشتمل ہوتا اور دوسرے میں عام افراد شامل ہوا کرتے تھے، ہر پیدا ہونے والے بچے کا شمار کسی نہ کسی خاص طبقہ سے ضرور ہوا کرتا تھا۔ طاقت اور انتظام، مرکزیت پر محیط ہوا کرتاتھا اورسربراہی کا منصب مرد ہی سنبھالا کرتے تھے۔ مرد سردار یا منتظم کا انتخاب ماں کے خاندان سے ہوا کرتا تھا۔32
قدیم افریقی دن کے گھنٹوں اور منٹوں کا حساب لگانے میں کم توجہ دیا کرتے تھے، وہ زیادہ تر موسموں کی آمدو رفت کی علامات کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ 33 ماہر آثار قدیمہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عہد قدیم کے افریقی وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے جنتری اور اس کے حساب و کتاب کا نظام وضع کیا تھا۔ جنوبی افریقہ کے قریب ایک مقام پر بابون کی ہڈی دریافت ہوئی جو واضح طور پر قدیم دور کی معلوم ہوتی تھی، اس ہڈی کو کھرچ کر کچھ نشان بنائے گئے تھے یا اعداد کو کندہ کیا گیا تھا۔ 34جدید ماہر آثاریات کے انكشافات کے مطابق ہڈی كاایک ٹكڑا حالیہ دنوں میں جمہوریہ کانگو سے دریافت ہوا ہے جو تقریبا 9000 سے 6500 قبل مسیح کے درمیانی دور کا معلوم ہوتا ہے۔ اس ہڈی کی سطح پر 39 جگہ کسی چیز سے کھرچنے کے نشانات موجود تھے۔ ابتداء میں اس ہڈی کے متعلق یہ تاثر قائم تھا کہ یہ کسی عددی علامت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن جب اس کے بارے میں مزید چھان بین کی گئی تو ماہرین نے اس رائے کو ترجیح دی کہ ان علامات کے ذریعے چاند کے مختلف مراحل کی وضاحت کی جاتی تھی۔ 35
قدیم افریقی علمِ فلکیات میں کافی مہارت رکھا کرتےتھے۔ دنوں کے تسلسل، مہینوں، موسموں، اور سالوں کی تعیین زمین کے سورج اور چاند کے ساتھ دائروی چکر اور حرکت کے ذریعے کی جاتی تھی۔ سب سے بڑی دریافت افریقہ میں موجود جنوبی ایتھوبیا اور شمال مغربی کینیا کے علاقے بورانا(Borana) میں رائج جنتری نظام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا تھی۔بورانا میں سات ستاروں اور اس کاتشکیل پانے والا وہ گروہ جب وہ زمین یا کسی اور سیارے اور سورج کے ساتھ ایک ہی قطار میں ہوتا ہے، کی مدد سے نظام جنتری تشکیل دیا گیا تھا ، اس جنتری میں سورج کی گردش کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ حال ہی میں ، ماہر آثاریات نے کینیا میں نہر ِٹرکانا (Lake Turkana)کے قریب ایک مقام دریافت کیا ہے جہاں ایک جیسے 19 پتھروں کے بنائے گئے ستون کو ایک جگہ جمع کر کے رکھا گیا تھا۔ اس مقام کو ناموراتنگا(Namoratunga) کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا جس کا معنی "پتھر کے بنے ہوئے انسان "کیا جاتا تھا۔ ان پتھروں پر کھرچ کر لکھائی بھی کی گئی تھی جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا تعلق 3000 سال قبل مسیح سے ہے۔بورانا (Borana)میں مرتب شدہ جنتری میں شمار کیا گیا وقت قمری سال کے354 دن اور 12 مہینوں پر مشتمل تھا؛ لیکن اس قمری تقویم میں ہفتوں کا شمار نہیں کیا گیا تھا۔ ہر تین سال بعد ایک لوند کےمہینے (Leap month)کا اضافہ کیا جاتا تھا تاکہ قمری سال 365 دنوں پر مشتمل شمسی سال کے برابر ہوجائے۔بورانی جنتری سات ستاروں یا ستاروں کے گروہ پر انحصار کیا کرتی تھی۔ ان کے جدید نام ٹرائےاینگیولم(Triangulum) ، خوشۂ پروین(Pleiades)، ثور کا انتہائی چمکدار ستارہ(Aldebaran)، بیلاترکس(Bellatrix)، جوزائی پٹی(Orion’s Belt)، سائف(Saiph)، اور سگ ستارہ (Sirius)ہیں۔سال کا آغاز اس وقت کو تصور کیا جاتا تھا جب ستارہٴ ٹرائےاینگیولم کا نئے چاند سے ہم وقتی ربط قائم ہوجاتا تھا۔ اسی طرح مہینے کے آغاز کا اندازہ ستارہ خوشۂ پروین کا نئے چاند سے مجتمع ہونے کے وقت کیا جاتا تھا، اور اسی طرح بالترتیب دیگر مہینوں اور سالوں کوبھی شمار کیا جاتا تھا۔بورانا جنتری میں مہینے کے صرف 27 ایام کے نام رکھے گئے تھے جبکہ اصل میں ایک مہینہ 30 دنوں پر مشتمل ہوا کرتا تھایوں بقیہ دنوں کا شمار کرنے کے لیے ستائسویں دن کے بعد اٹھائیسویں دن سے از سرِ نو دوبارہ شروع سےدنوں کو نام دیا کرتے تھے۔36 ان کے علاوہ دیگر افراد بھی قمری اور شمسی دونوں سالوں کے شمار میں فرق کیا کرتے تھے، جس میں بارہ مختلف مہینوں کو اپنے شماری درجے میں چار غیرمساوی شدہ ہفتوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ یوں مہینہ کی ابتداچاند کی غیر موجودگی میں ہوا کرتی اور پھر پہلا ہفتہ 10 دن، پھر 10 دن، اس کے بعد 4 دن اور آخری ہفتہ 5 دنوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ان ایام میں ہر ایک دن کی خاص روحانی اہمیت ہوا کرتی تھی ، ان کا یہ ماننا تھا کہ ہر دن انسانوں کے لیے یا تو خوشخبری کی نوید لے کر آتا ہے یا اس میں کوئی بد قسمتی آپڑتی ہے۔ اس کے علاوہ نیا سال پالتو جانوروں کی پرورش اور جنگلی مخلوقات کی نشونما کی خبر بھی لے کر آتا ہے۔بعض اقوام نے موسموں کا شمارکرنے کا انتہائی درست نظام وضع کیا تھا۔ مثال کے طور پر کامبا (Kamba)جسے آج کینیا (Kenya) کہا جاتا ہے، کی روایات میں بارش اور خشک موسموں کی آمد کا وقت سورج کی مدد سے متعین کیاجاتا تھا۔ کامبا (Kamba)کے باشندے کھلے میدانوں میں خاص مقامات پر خطوط کھینچ کر حساب لگایا کرتے تھے، ان میں سورج کی وضع اور کیفیت کا تخمینہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد موجود تھے اور حیرت انگیز طور پر ان میں موسموں کے آنے کے متعلق بالکل درست پیش گوئیاں کرنے کی اہلیت بھی موجود تھی۔37
قدیم دور میں افریقی خاندان ایک ایسے کنبہ پر مشتمل ہوا کرتا تھا جو رسوم و رواج اور معاشرتی طور پر متحرک رہتاتھا۔ وہ مل جل کر رہا کرتے تھے کیونکہ خاندان کا ہر فرد اپنے گھرانے کی معاشرتی گاڑی چلانے اور رسوم و رواج کی ہم آہنگی میں اہم رکن تصور کیا جاتا تھا۔ یوں ایک گھرانہ مکمل افریقی سماج میں ثقافتی طور پر پیوست و مربوط اشخاص پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ایک ساتھ اور منظم طور پر آگے بڑھنے کی لگن کی وجہ سےخاندان کے تمام افراد اجتماعی طور پر زمین میں کاشت کاری کیا کرتے اور زرعی مصنوعات کی پیداوار میں شامل ہوا کرتے تھے۔ عام طور پرقدیم افریقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان اپنی نسل اور خاندان بڑھانے پر خاص توجہ دیاکرتے تھے۔ وسيع خاندان متعدد گھرانوں پر مشتمل ہواكرتا جو بالخصوص ايك ہی باپ کی پشت سے ہوا کرتے تھے۔ زیادہ بڑے خاندان کئی پیڑہی پر مشتمل ہوا کرتے تھے، وہ ایک ہی احاطہ میں قائم مختلف جھونپڑیوں میں زندگی بسر کرتے تھے، ہر جھونپڑی میں الگ گھرانہ مقیم ہوا کرتاتھا۔ نائجیریا کے جنوب مغربی حصے میں موجود" یوروبا "کے مقام پر کچھ ایسے خا ص گھرانے مقیم تھے جن کی یہ ذمہ داری تھی کہ بادشاہ کی تعلیم و تربیت اور چناؤ انہیں قبائل میں سے کی جائے کیونکہ ان قبائل میں زبانی تاریخ مشہور تھی کہ ان کے آباؤاجداد ہی نے اس مقام پر قبائل کو آباد کیا تھا اورتہذیب و تمدن اور ثقافت کی بنیاد رکھی تھی۔ تمام گھرانوں کا سربراہ ان میں موجود سب سے بوڑھا شخص ہو اکرتا تھا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ افریقی سماج میں باپ کے نسلی سلسلے کے ذریعے وراثت پانےکا سلسلہ موجود تھا۔ اس کے علاوہ قدیم دور سے تعلق رکھنے والا افریقی معاشرہ غالب طور پر عمر رسیدہ افراد کی زیر نگرانی قائم تھا، اس کا معنی یہ ہے کہ سب سے بوڑھے مرد و خواتین کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا تھا کہ سماج کی رہنمائی اور سرپرستی بوڑھے افراد کرسکتے ہیں کیونکہ وہ مال و دولت کے ساتھ ساتھ عقل و فہم میں بھی بہتر ہوتے ہیں، جو کہ عمر گزرنے کے ساتھ ہی حاصل ہوتی ہے۔ یوں ہی یوروبا (Yoruba)کے باشندوں کے بڑے خاندانوں میں ایسا عمر رسیدہ شخص جو روز مرہ کے امور کی دیکھ بھال کیا کرتا ، اسے اولوریبی (Oloriebi)کے نا م سے موسوم کیا جاتا یا خاندان کے سربراہ کا لقب دیا جاتا تھا۔ افریقہ کے تمام خاندان زراعت پر انحصار نہیں کیا کرتے تھےبلکہ ان میں سے بعض ہنر مند بھی تھے، جیسے کچھ خاندانوں نےلکڑی پر کندہ کاری کاپیشہ اختیا رکیا ہوا تھا اور بعض آہن گر تھے۔اس کے علاوہ کچھ تفریح فراہم کرنے کا کام کیا کرتے اور کچھ نے روحانی علوم سیکھ رکھے تھے، لوگوں کو مذہبی تعلیم دیتے اور علاج معالجہ بھی کیا کرتے تھے۔تما م پیشوں کو بطور وراثت اگلی پیڑہی میں منتقل کرنے کا رجحان تھا۔ افریقہ میں ایک خاندان اپنی ہی برادری میں شادی کرنے کو خاص ترجیح دیا کرتا تھا تاکہ صلاحیتیں اور ہنر ایک ہی خاندان میں نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں ۔ ان کا یہ طریقہ کار قدیم صنعت گری اور دستکاری کی بقا اوراپنی اصل حالت میں قائم رکھنے میں بنیادی عنصر کے طور پر نمایاں تھا۔اعلی نسبی خاندانوں میں غلاموں کو گھر کا فرد ہی تصور کیا جاتا تھا۔ اکثر صورتوں میں ان غلاموں کو زرعی پیداوار کی غرض سے خریدا جاتا تھا۔ان کے نظریے کے مطابق مالکوں کے پاس یہ طاقت موجود تھی کہ وہ اپنے غلاموں کو چاہیں تونہ صرف قتل بلکہ حد تو یہ تھی خداؤں کے حضور چڑہاوے کے طور پر قربان بھی کرنے کی مذہبی اجازت رکھتےتھے۔کنیز اس وقت اپنے مالک کی بیوی بن سکتی تھی جب مالک اسے اور اس کی اولاد کو آزاد کردیا کرتا تھا۔ 38
ایک خاندان و گھرانہ مرد، اس کی زوجہ یا ازواج اور بچوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ خاندان میں خونی رشتہ دار ،پوتے پوتیاں، اور ان کی اولادیں بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔ افریقی سماج میں باپ کی اہلیت اس چیز کو مد نظر دیکھ کر جانچی جاتی کہ وہ گھر سےباہر کس طرح لوگوں سے روابط طے کرتا ہے ۔ اسے ایک اچھا اور بہترین منتظم اسی طور پر تسلیم کیا جاتا جب وہ عوامی معاملات اور برتاؤ میں اچھے مراسم رکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ جس مرد کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتیں ، اس گھرانے بشمول بچوں ، زیورات، گھریلو اشیاء، کاشت کاری کی فصل اور اناج گاہ کی سربراہ گھر کی والدہ ہوا کرتی تھی۔بیویوں کا آپس میں تعلق ایک ساتھی کا ہوا کرتا تھا۔ پہلی بیوی کا دیگر ازواج کے مقابلے میں کوئی خاص رتبہ نہیں ہوا کرتا تھا لیکن اسےعمر میں بزرگی کی وجہ سے خاص عزت دی جاتی تھی۔پہلی بیوی کی اہم ذمہ داری خاندانی مفاد میں گھر سے باہر ادا کی جانے والی مذہبی رسومات اور دیگر تقریبات میں بطور رہنما اور بنیادی کردار ادا کرنے والی عورت کے طور پر ہوا کرتی تھی، اس کے علاوہ باقی ازواج اس کے ماتحت امور سر انجام دیا کرتی تھیں۔افریقیوں کی اعلی نفاست و نسبی اور سماجی اقدار میں اس بات پر زور دیا جاتا کہ رشتہ دار اور ان سے منسلک لوگ عام معاملات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔خاندان کے تمام افراد پر ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا لازم و ملزوم سمجھا جاتا تھا۔ 39
افریقی سماج ،اس کی زمین اور موسم نے مل کر اس کے فن تعمیر کو ترتیب دیا تھا۔ جب افریقہ کے قبائل نے نیل کی وادی میں سکونت اختیا ر کی تو انہوں نے وہاں پہاڑوں اور میدانوں میں موجود پتھروں کا کثرت سے استعمال کیا تھا۔ اس دور سے قبل عمارت اور مکانات سورج کی روشنی میں پکائی جانے والی نرسل و کنول کے درختوں کی مدد سے بنائی گئی اینٹوں سے تعمیر کیے جاتے تھے۔یہ پودے دریاؤں میں وافر مقدار میں اگا کرتے تھے۔ 40
زیادہ تر قدیم افریقی چکنی مٹی، رش(ایک قسم کا پودا)، ڈالی، گھاس، بمبو اور درختوں کی چھالوں کو تعمیرات میں استعمال کیا کرتے تھے۔ ابتداء میں تعمیرات کے لیے پتھر افریقہ کے شمال مشرقی اور مشرقی علاقوں میں استعمال ہونا شروع ہوئےتھے۔ اس کے علاوہ افریقہ کے دیگر مقامات میں پتھر کا استعمال انتہائی قلیل تھا، اسےصرف قربان گاہ اور مقبروں کے لیے کام میں لایا جاتا تھا۔اس کے بعد پتھر کو یوں استعمال کیا جاتا کہ اسے کھود کر نکالا جاتا اور بغیر کسی کٹائی و تراش کے اصل حالت میں ہی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ زیادہ تر افریقی جھونپڑیوں میں رہا کرتے تھے۔ چھونپڑیوں میں کوئی کھڑکی نہیں رکھی جاتی تھی صرف ایک دروازے کی جگہ کھلی چھوڑ دی جاتی تھی۔یہی وجہ تھی کہ گھروں کے اندر کھانا پکانے کے لیے جلائی جانے والی آگ اور چکنی مٹی سے بنائی گئی بھٹیوں کا دھواں موجودرہتا تھا۔ جھونپڑیوں کو زیادہ تر دائروی شکل اور ایک حد تک بیضوی صورت میں تشکیل دیاجاتا تھا۔ اس کی دیواریں چکنی مٹی سے بنائی جاتی تھیں ، عورتیں مختلف مقامات سے زمین کھود کر مٹی لانے کا کام انجام دیاکرتی تھیں۔ چکنی مٹی کی دیواروں کو دائرے میں تہہ در تہہ تعمیر کیا جاتا تھا،سب سے پہلے نچلی تہہ بچھائی جاتی جو تقریباً آٹھ انچ اونچی رکھی جاتی تھی، اس میں دروازے کے لیے جگہ چھوڑ دی جاتی تھی۔ اس کے بعد اگلی تہہ پہلی کے اوپر بچھائی جاتی تھی۔ بعض اوقات دیواروں کو شاخوں اور ڈنڈوں سےباندھ کر تشکیل دیے گئے ڈھانچے کی مدد سے بنایا جاتا تھا۔شاخوں کی مدد سے بنائے گئے ڈھانچے پر دونوں اطراف سے مٹی کا لیپ کردیا جاتا تھا۔ وہ مقامات جہاں چکنی مٹی ناپیدتھی، ان جگہوں پر دیواروں کو درختوں کی چھال اور جالیوں سے بنایا جاتا تھا۔ ایسی دیواریں زیادہ تر سر سبزعلاقوں میں بنائی جاتی تھیں جو افریقہ کے بارانی علاقوں سے نسبتاًخشک ہوا کرتے تھے۔
5095-2780 قبل مسیحی دور سے تعلق رکھنے والے صحرائے اعظم میں مقیم چر واہوں کے قبائل اپنی جھونپڑیاں ڈالیوں سے بنایا کرتے تھے اور اس کی چھت کو گھاس سے ڈھک دیا کرتے تھے۔ قدیم افریقی گھروں کی تعمیرات میں جن اشیا ءکا استعمال کیا جاتا تھا وہ زیادہ پائیدار نہیں ہوا کرتی تھیں۔اگر گھروں کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوتی تو وہ جلدہی منہدم ہوجایا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر افریقہ کے وہ علاقے جہاں نمی کا تناسب زیادہ ہوتا، لکڑی بہت جلد بوسیدہ ہوجاتی تھی۔اس کے علاوہ خشک علاقوں میں دیمک لکڑیاں کھاجایا کرتی تھی۔ یہاں تک کہ ہوا اور بارش سے چکنی مٹی سے بنی ہوئی اینٹیں بھی جھڑ جایا کرتی تھیں۔41بعض مقامات پر جلی ہوئی چکنی مٹی جو ٹہنیوں کے نقوش کے ساتھ پھیلی ہوئی تھیں، دریافت ہوئیں ہیں ، جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ اینٹوں کو بناتے ہوئے یا دیواروں پر چکنی مٹی کا لیپ کرنے لیےان ٹہنیوں کا کوئی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ کافی مقامات پردیواروں کو سہارا دینے والی کھدائی کے آثار بھی دریافت ہوئے تھے۔ 42
افریقی قبائل میں عورت کا احترام کیا جاتا تھا ۔ عورت معاشرے میں بنیادی کردار ادا کرنے والے افراد میں شامل تھی۔ طاقت ،اثر و رسوخ کا تعین معاشرے کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا، جس میں مر د یا عورت میں خاص فرق نہیں کیا جاتا تھا۔ وین نیکرک(Van Niekerk) کے مطابق طاقت یا اثر و رسوخ کے حوالے سے مرد و عورت میں کوئی خاص فرق نہیں کیا جاتا تھا، اگر کسی خاتون کو قبیلے کی سرداری کے لیے منتخب کرلیا جاتا تو اسے معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔افریقہ میں کثیر ایسے قبائل بھی تھے جہاں عورت و مرد معاشرتی طور پر برابر رتبہ رکھا کرتے تھے، دیگر معاشروں میں عورت و مرد کو برابری کا مرتبہ نہیں دیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر ، کینیا میں موجود ماسائی (Maasai) قبیلے میں عورت کو جائیداد رکھنے کا، طلاق دینے کا اور اہم فیصلے کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔
صحرائے اعظم سےتعلق رکھنے والے توؤاریگ(Touareg) نامی باشندوں کے قبائل میں عورت کو اپنے شوہر کے حاصل کرنے کا اختیا ر تھا، حقیقت یہ تھی کہ جب ان عورتوں کے شوہر کسی دور دراز کےمقام پر چلے جاتے تو وہ کسی اور کو بھی اپنا محبوب بنا لیا کرتی تھیں۔43عورت کو طلاق ہونے یا اولاد کی پرورش کی صورت میں جائیداد رکھنے کا حق دیا جاتاتھا۔
افریقہ میں بچوں کی پرورش میں صرف خاندان ہی شامل نہیں ہوا کرتا بلکہ ایک پورا قبیلہ یا سماج ان کی تعلیم و تربیت میں پیش پیش رہتا تھا، اس کے علاوہ ان کے آباء بھی اس جانب توجہ دیا کرتے تھے۔ بچوں کی نشونما اور پال پوس کے عمل میں سماجی اقدار اور رسومات کا مضبوطی سے خیال رکھا جاتا تھا اور اسے ہر قبیلہ خاص اہمیت دیا کرتا تھا۔ زیادہ تر افریقی تہذیب میں معاشرتی روایات و رسومات کا آغاز بچے کی پیدائش سے ہی کردیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر کیکویو (Kikuyu)کی قدیم تہذیب میں نومولود بچے کا مشیمہ (Placenta) ایسی زمین میں دفنا یا جاتا تھا جہاں کاشت نہ کی گئی ہو۔یہ رسم اس لیے ادا کی جاتی تھی کہ ان کے مذہبی پیشواؤں کے نزدیک کھلا پشیمہ اس چیز کی علامت تھا کہ یہ نیا ، زرخیز اور طاقتور ہے۔ دوسری جانب یانسیوں (Yansi) کی رسومات میں پیدائش کے موقع پر باقیات کو دریا برد کردیا جاتا تھا، ان کا یہ نظریہ تھا کہ یوں کرنا اس بات کی جانب نشاندہی کرتا ہے کہ یہ بچہ اسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔دونوں رسومات اس غرض کی پختگی کے لیے ادا کی جاتی تھیں کہ آئندہ مستقبل میں صحت مند و تندرست بچے پیدا ہوں۔ مثال کے طور پر قدیم دور میں اکانی قوم میں باپ بچے کی پیدائش پر سب سے پہلے اپنے آباؤ اجداد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے مشروب سب کو خود پیش کیا کرتا تھا۔ اکانی باپ پر بچے کو پہلا تکیہ فراہم کرنےکی بھی ذمہ داری تھی، جو ایک صاف پرانے کپڑے پر مشتمل ہوا کرتا تھا، اس تکیے کے متعلق یہ نظریہ تھا کہ اس کے ذریعے باپ کی روحانی صلاحیت بچے میں منتقل ہوجاتی ہے۔ قدیم افریقی باشندے اس عقیدے پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ بچوں کا نام اس کی تجسیم نو اور دوبارہ جنم کی علامت ہے ، یوں افریقی اپنی اولادوں کا نام اپنے ان آباء کے اسماءپر رکھا کرتے جو بظاہر ان سے مشابہت رکھتا ہو یا اس کی عادات و سکنات اُن اجداد سے ملتی جلتی ہوں۔ بچے کا نام دادا اورپردادا کے ناموں پر بھی رکھا جاتا تھا، اس کے علاوہ قبیلوں کے سرداروں کے نام پر بھی بچوں کے نام رکھے جاتے تھے۔
افریقہ میں زیادہ تر لوگ بچوں کو دودھ پلانے کے وقت کو انتہائی اہم گردانتے تھے ،دودھ پلانےکی مدت زیادہ سے زیادہ 12 سے 14 ماہ ہوا کرتی تھی۔ افریقہ کےدیگر معاشروں میں کانوں کی چھدائی ،متعدد اقسام کے زیورات اور مسحور کن اشیاء کو پہننا اس بات کی علامت سمجھی جاتی تھیں کہ یہ بچہ معاشرہ کا کامل فرد بن چکا ہے۔ بچوں کو متعددفنون اور ہنر سکھانے کے لیے مختلف امور تفویض کیے جاتے تھے۔ خاص طور پر قدیم دور سے تعلق رکھنے والے بعض معاشروں میں دو سے چار سال کی عمر میں بچوں کو شکار اور گھریلو امور کی انجام دہی میں شامل کرلیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بھیڑ بکریوں کو چرانے اور گھریلو جانوروں کو کھانا کھلانے کی ذمہ داری بھی انہیں کو سونپ دی جاتی تھی۔جیسے ہی بچے اپنی درمیانی عمر میں پہنچتے، ان پر خصوصی ذمہ داریاں ڈال دی جاتی تھیں جس میں گھر کے لیے پانی کا انتظام کرنا ، مال مویشیوں کو چرانا، فصل کاشت کرنا، پکانا اور پیغام رسانی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا شامل تھا۔ بڑوں کی رہنمائی میں بچے اپنے خاندان کے لیے غذا ئی ذخائر میں اضافہ کیا کرتے ، اس کے علاوہ تجارت اور کاروبار کے لیے بہتر معاشی مواقع وضع کرنے میں مددگار ہواکرتے تھے۔ 44
کثیر افریقی سماجی روایات میں جب بچے سنِ بلوغ کی عمر کو پہنچ جاتے تو ان کی معاشرے میں باضابطہ شمولیت کے لیےقبائلی رسومات ادا کی جاتی تھیں۔یہ قدیم رسم و رواج آج بھی قدیم روایات پر چلنے والے افریقی قبائل میں ادا کی جاتی ہیں۔ اُس دور میں باضابطہ شمولیت کی رسم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بچوں کو کسی مخصوص اور خفیہ مقام پر لےجایا جاتا تھا جہاں بچوں کو مختلف تربیتی مشقوں سے گزارا جاتا تاکہ ان کی طاقت و قوت کو جانچا جاسکے، بعض مواقع پرعلامت کے طور پر زخم بھی لگایا جاتا جو اس بات کی نشاندہی کرتا کہ اِس طرح بچے میں متوقع تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے۔بعض باضابطہ شمولیت کی رسومات مرنے اور پیدائش پر بھی دہرائی جاتی تھیں۔ حقیقت میں باضابطہ شمولیت کا سب سے اہم اور کلیدی عنصر مذہبی تعلیمات ، جنسیات، اور مخصوص عادات و سکنات کی تربیت دینا تھی جس سے بچے کو لازمی گزرنا پڑتا تھا۔رسومات کا یہ پہلو اس غرض و غایت اور مقصد کو پختہ کرنے لیے ادا کیا جاتا کہ جب معاشرتی فرد کی حیثیت سے شامل ہونے والے بچے قبیلے میں اپنے بڑوں کے پاس واپس لوٹیں تو وہ اس قابل ہوں کہ انہیں معاشرے و سماج میں عزت و وقار کے ساتھ رہنے سہنےکا ڈھنگ حاصل ہوجائے۔45
قدیم افریقہ میں غلامی مختلف النوع طرز پر موجود تھی۔قرض کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو ، جنگوں کے قیدیوں کو، فوجیوں ، اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو غلام بنایا جاتا تھا۔ 46دیگر قدیم تہذیبوں کی طرح، عہد عتیق میں افریقی بھی جنگوں میں کامیابی حاصل ہوجانے کی صورت میں قیدیوں کو غلام بنالیا کرتے تھے۔ جرائم پیشہ افراد کو سزا کے طور پر غلام بنا لیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ غلاموں کو خطرناک اور جان لیوا گہری زیر زمین کانوں میں کام کرنے لیے بھی بھیجنےکا رواج تھا، جہاں بعض اوقات کثیر اموات واقع ہوجاتی تھیں۔ بعض غلاموں کو جنگوں میں لڑنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ کچھ غلاموں کی ذمہ داری گھریلو امور میں معاون کے طور پر لگا دی جاتی تھی ۔کثیر ایسے بھی مواقع موجود تھے کہ غلاموں کو ریاستی اداروں میں کام کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے قرون وسطی میں غلام بادشاہ کی دست بستہ خدمت کے پابند ہوا کرتے تھے۔ایسی کنیزوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جو کپڑے بننے کا ہنر جانتی اور دیگر گھریلو امور سےاچھی طرح واقفیت رکھا کرتی تھیں؛ کچھ غلام عورتوں کو داشتہ کے طور پر بھی فروخت کردیا جاتا تھا۔ غلاموں کو حاصل کرنے میں افریقی نسلی امتیاز نہیں برتتے تھے بلکہ مغلوب افریقیوں کو بھی غلام بنا لیا کرتے تھے۔ مالک اور غلام دونوں ہی سیاہ فام ہواکرتے تھے بس فرق صرف اتنا ہوتا کہ دونوں کا تعلق مختلف قبائل سے ہوا کرتا تھا۔ 47
افریقہ میں غلاموں کی اقسام خاص طور پر خاندانی تعلقات اور نظام پر مشتمل تھیں۔ کثیر افریقی قبائل میں جہاں زمین کی ملکیت کا تصور موجود نہیں تھا، غلاموں سے کسی ایک خاندان کے لیے رہنے کی جگہ بنانے پر زور دیا جاتا پھر اسی کی طرز پر بقیہ تمام افراد کے رہنے کے لیے گھروں کی تعمیرات کروائی جاتی تھیں۔ 48اس ضرورت کی بناء پر غلام اپنے آقا کی وراثت میں خاص حیثیت اختیار کرلیا کرتا تھا اور اس کی اولاد اپنے آقا کے خاندان میں بطور غلام تقسیم در تقسیم ہوتی چلی جاتی تھی۔غلاموں کی اولاد آقا کے خاندان اور اس کے جاننے والوں میں اچھی طرح جانی پہچانی جاتی تھی ،یہاں تک کہ بعض اوقات غلام معاشرے میں ترقی پا کر نمایاں مقام بھی حاصل کرلیا کرتے تھے ،بعض تقریبات میں انتظامات میں سب سے اعلی مناصب پر غلام ہی ذمہ داریاں سنبھالا کرتے تھے۔لیکن ان تمام صورتوں کے باوجود غلامی کا دھبہ ان کے ماتھے پر لگا رہتا تھا ۔ بادشاہ کے غلام اور عام افراد کے غلاموں میں واضح فرق موجود تھا۔
قدیم افریقی خوراک مختلف ذرائع سے حاصل کیا کرتے تھے۔ وہ شکار کیا کرتے، مچھلیاں پکڑتے، مختلف غذاؤں کو جمع کرتے، مردار کھاتے،مویشیوں کا گوشت استعمال کرتے اور کاشت کاری کا بھی عمل کیا کرتے تھے۔ان کی خوراک میں بڑے اور چھوٹے شکار، پرندے، مچھلیاں، چوہے، ٹڈے، کیکڑے، گھونگھے، کستورا مچھلی، پھل، پھلیاں، جنگلی اناج، کھنبیاں یا چھتے اور اس کے علاوہ دیگر پیڑ پودے شامل تھے۔ قدیم دور میں افریقی شکار اور خوراک صرف کسی خاص تقریب یا وقت کے لیے جمع کیا کرتے جس میں وہ مزید دیگر سرگرمیوں کے لیے تیاری کیا کرتے تھے، جیسے معاشرتی میل جول اور فنی قابلیت کے جوہر دکھانے کے لیے تقاریب منعقد کرنے کا رواج عام تھا۔ بعض تاریخ دان اس بات پر زور دیا کرتے تھے کہ افریقیوں کی تقاریب زیادہ ترشادی بیاہ پر مشتمل نہیں ہوا کرتی تھیں بلکہ اپنا وقت گزارنے کے لیے مختلف سرگرمیاں بھی اختیار کیا کرتے تھے۔اصل میں بھوک ہی انہیں کاشت کاری کرنے پر مجبور کیا کرتی تھی، اس کے علاوہ یہی سبب ہجرت، انقلاب، جنگوں اور شہنشاہیت کے پیچھے کارگر ہوا کرتا تھا۔
بعض شکاریوں نے بھی کچھ جنگلی پودوں کو جمع کرنے کا عمل شروع کردیا تھا۔پیشہٴ زراعت کی باقاعدہ ابتداء اور اسے جاری رکھنے کا مطلب یہ تھاکہ تواتر کے ساتھ اناج و غلہ کی ترسیل موجودہو اور اس کے علاوہ مزید اضافی مقدار بھی جمع کی جاسکتی ہو جو ایسے وقت میں کام آئے جب لوگوں کے پاس مال و زر میں کمی واقع ہوجائے اور دوسری صورت میں اناج تجارتی معاملات اور دیگر ضروریات کے لیے بطور روپیہ وسکہ رائج الوقت استعمال کیا جاسکے۔ ایتھوپیا کے باشندے نوگ (Noog)کی کاشت کاری کیا کرتے ، نوگ ایک پودا تھا جس سے تیل حاصل کیا جاتا تھا، اس کے علاوہ تیف (teff)کی کھیتی باڑی بھی کیا کرتے تھے، تیف چھوٹے حجم کا اناج تھا جو ایتھوپیا کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا جاتا تھا۔ایتھوپیا میں مختلف اقسام کی گندم اور جو کی فصل بھی بوئی جاتی تھی۔ مغربی افریقہ کے باشندے ایسے پودوں کی فصل بڑے پیمانے پر کاشت کیا کرتے تھے جس کا استعمال عموماً یخنی بنانے میں کیا جاتا تھا۔ ان پودوں میں شکر قندی اور لوکی کی بیل وغیرہ شامل تھی۔ اگبو (Igbo)کے باشندے ترکاری کو نشاستہ (Carbohydrate Staple) اور ملکی خاص پیداوار کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔وہ انہیں کٹائی کرکے گول شکل دے دیا کرتے ، پھر انہیں چٹنی میں ڈبو کر کھایا کرتے تھے۔ کناروں میں موجود علاقوں کے باشندے مختلف النوع عناصر کی کاشت کاری کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ شکار ، مختلف اقسام کی غذائی اشیاء جمع کیا کرتے اور مچھلیاں استعمال کیا کرتےتھے۔مختلف موسم خوراک میں تبدیلی کاباعث بنتے تھے۔ مثال کے طور پر، مغربی سوڈانی پٹی میں بتدریج پانی کےاخراج و زیاں کے سبب اناج کی فصل میں کافی کمی واقع ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ دیگر افریقی باشندے ایسے علاقوں میں مقیم تھے جہاں پانی کی وافر مقدار موجود تھی وہ ان علاقوں میں زراعت کیا کرتے اور مال مویشی بھی پالا کرتے تھے۔یوں اپنی خوراک میں دونوں چیزوں مثلاً فصل اور موشیوں کو استعمال کیا کرتے تھے۔کسان گھنے جنگلات والے علاقوں میں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے، پالتو جانوروں میں صرف گائے اور پرندے رکھا کرتے تھے۔ کھانوں کی تیاری اور اس کااستعمال مذہبی تقریبات یا رسومات سے منسلک ہوا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر، مغربی علاقوں کے رہائشی اپنے سماج اور برادری میں رائج غذا استعمال کیا کرتےجو گوشت اورسفوف شدہ غلہ دونوں کو ملا کر تیار کیا جاتا تھا۔ عورتیں اناج کا سفوف تیار کرتے وقت مناجات و زبانی عبادات کیا کرتی تھیں، علاوہ ازیں معاشرے میں موجود غلہ اور مویشیوں کا بطور غذا استعمال یک جہتی کی علامت بھی سمجھا جاتا تھا۔ اگبو (Igbo) میں ترکاریوں کااستعمال نیا سال آنے سےقبل بالکل منع تھا۔ یہ اس وجہ سے کیا جاتا تھا تاکہ پودوں کے زیر زمین تنے میں بالیدگی کا عمل پختگی کے ساتھ جاری و ساری رہے۔ 49
چکنائی کی ضروریات تاڑ کے پیڑ (Elaeis Guineensis) اور لوبان کے درختوں (Canarium Schweinfurthii)سے پوری کی جاتی تھیں۔اس کے علاوہ دیگرضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوب مقدار تیل پیدا کرنے والے جنگلی پودوں سے حاصل کی جاتی تھیں۔شکار اور موسمی ماہی گیری کا کام بغیر کسی شک و شبہ کے انسانی غذا کی اضافی ضروریات میں پائی جانے والی کمی کو پورا کردیا کرتا تھا ۔ لیکن یہ امر بھی واضح ہے کہ قدیم افریقیوں کی غذائی ضروریات کا براہ راست کوئی ثبوت ڈھونڈنا اس لیے بھی مشکل ہے کیونکہ ملنے والی ہڈیوں کی حالت ایسی نہیں تھی جن سے ان کی غذائی اجناس کے متعلق معلومات حاصل ہوسکیں۔ ابتدائی دورِ عہدِ آہن میں بحر اوقیانوس کی ساحلی پٹی پر موجود علاقوں میں معاشی استحکام کی ترقی و مہارت میں خاصہ اضافہ ہوا تھا، اس مقام پرابتدائی دور میں مچھلی وسیپیوں کی خرید و فروخت کا کام کیا جاتا تھا۔ ساحلی پٹی پر سیپیوں یا خولوں کے ڈھیر کے ذریعے کی جانے والی معاشی سرگرمیوں کا انحصار دریاکے دہانے پر موجود اشیاء اور چمرنگ کے ذخائر پر ہوا کرتا تھا جسے عموماً ماہی گیری کے عمل اور دیگر اشیاء جمع کرنے کے دوران حاصل کیا جاتا تھا۔ یہ اشیاء شکار میں ہونے والی کمی کو پورا کرنے کے کام آتی تھیں۔جب سمندر میں لہروں کا اتار چڑھاؤ کم ہوتا ہے تو خول والی مچھلی (Shellfish) کی کثیر مقدار چمرنگ(Mangrove Muds) کے درختوں کےکیچڑ اور دھکیل جڑ(Prop Roots) سے حاصل کی جاتی تھی۔50
تقریباً5000 قبل مسیح کے دور میں مغربی افریقہ کے قدیم باشندوں نے تاڑ کے درختوں سے روغن کشید کرنے کی ابتداء کی تھی۔ تاڑ کے درختوں سے کثیر فوائد حاصل کیے جاتے تھے۔ اس پیڑ کی لکڑی اور شاخیں تعمیرات کے لیے استعمال کی جاتیں اور اس کے پتوں سے چٹائیاں اور ٹوکریاں بنی جاتی تھیں۔ عہد عتیق کے افریقی باشندے تاڑ کے درخت کے لال پھلوں سے روغن نکالنے کا طریقہ سیکھ چکے تھے۔ان پھلوں کو کشید کیا جاتا اور پھر بڑے برتن میں ابالا جاتا، اس کے بعد اس کا روغنی پانی چھلنی کی مدد سے علیحدہ کردیا جاتااورآخر میں تیل میں سے پانی کو علیحدہ کرکے تاڑ کا تیل حاصل کرلیا جاتا تھا۔ روغن تاڑ غذا تلنے ، روٹی بنانے اور اس کے علاوہ دِیا جلانے کے کام میں استعمال کیا جاتا تھا۔ 51
افریقہ کےمشرقی علاقوں میں کاشت کاری کا سلسلہ ایتھوپیائی سرزمین تک موجود تھا، لیکن جغرافیائی اور موسمی رکاوٹوں کے سبب اس سے آگے مزید کھیتی باڑی نہیں کی جاتی تھی۔ جنگلی جانوروں کے شکاری صرف صحرائے اعظم کے جنوبی علاقوں میں موجود تھے جہاں مال مویشیوں کو گھروں میں پالنے کے رواج کی ابتداءقریب قریب 3000 قبل مسیحی دور میں ہوئی تھی۔ لیکن اس کے بعد اگلے ہزار سال تک کھیتی باڑی کے کوئی شواہد نہیں ملتے ہیں۔ 2000 قبل مسیح عیسوی دور کے درمیان صحرائے اعظم کے شمالی علاقوں میں مقیم باشندوں نے متعدد اقسام کی فصلوں کی کاشت کاری کا کام شروع کردیا تھا، وہ لوگ موسم کے مطابق زمین پر فصل لگایا کرتے تھے۔ مغربی افریقہ میں چاول اور شکر قندی کی پیداوار کی جاتی، اس کے علاوہ صحرائے اعظم کے جنوب سے لے کر سوڈان کے سر سبز علاقوں کے درمیان واقع مقام تک جہاں جغرافیائی اور موسمی تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں ، جسے ساحل بھی کہا جاتا ہے، وہاں کے مقیم باشندے خشک سالی کو روکنےوالے اناج اگایا کرتے تھے۔ کھیتی باڑی اور شکار کا عمل یکم عیسوی سے قبل سیرینگیٹی (Serengeti)کے جنوبی علاقوں تک نہیں پہنچا تھا۔کینیا اور تنزانیہ کے آس پاس مشرقی افریقہ میں خون چوسنے والی مکھیاں کثیر مقدار میں پائی جاتی تھیں، اس کےکا ٹنے سے مرض النوم جیسی مہلک بیماری واقع ہوجاتی تھی، یہ بیماری انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے انتہائی خطرناک تھی۔ مال مویشیوں کی بیماری کے خطرے کے پیش نظر کسان اور چرواہے شمال مغربی افریقہ میں مزید شمال کی جانب ہجرت کا عمل شروع کردیا کرتے تھے اور اپنے ساتھ اشیائے ضروریہ کے علاوہ کاشت کاری کا سامان بھی لے جایا کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس علاقے کے مقامی باشندوں نےایشیا میں بوئی جانے والی فصلوں کی کاشت کاری کا عمل بھی اپنے مقامی علاقوں میں شروع کردیا تھا جن کے بیج یا دیگر فصل اگانےوالی اشیاء ہندوستان سے آنے والے تاجر لے کر آئے تھے۔
قدیم افریقہ ایک بہت بڑا بر اعظم تھا ، اس میں مختلف علاقوں میں متبائن موسم موجود تھے یہی وجہ تھی کہ اس کا جغرافیہ کھیتی باڑی کے عمل میں بہت بڑی رکاوٹ رہا ہے۔بر اعظم افریقہ کی لمبائی کرۂ ارض کے شمال سے شروع ہوکر جنوبی علاقوں تک اور چوڑائی میں خط استواء سے گزرتے ہوئے مزید آگے کے علاقوں تک واقع ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ افریقہ کے کثیر علاقے ،دیگر مقامات سے جدا موسم رکھتے تھے۔ دنوں کی لمبائی اس امر پر منحصر تھی کہ کون سا علاقہ خط استواء سے کتنی دوری پر واقع ہے؛ دنوں کا حساب لگانا ضروری یوں بھی سمجھا جاتا تھاکیونکہ افریقہ میں کثرت سے ایسے پودے موجود تھے جس کی اچھی نشونما لمبے دنوں میں ہی ممکن تھی۔ اس کے علاوہ صحرائے اعظم فصلوں اور کاشت کاری کے فروغ میں مزید ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ مشرق وسطی کے علاقوں میں دریائے نیل کی وجہ سے اچھی پیداوار ہوا کرتی تھی، کیونکہ وہاں کے دیرپا و مستحکم موسم اور پانی کی وافر مقدار میں موجودگی اور مسلسل رساؤ کاشت کاری میں کافی معاون تھا۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات جیسے مشرقی سمت کے قریبی علاقے اور ایتھوپیا کے اونچے مقامات میں بھی موسمی تبدیلیاں کم رونما ہونے کے سبب کھیتی باڑی کی جاتی تھی ۔ شمالی افریقہ کا موسم اور جغرافیہ صحرائے اعظم کے جنوبی یا جنوب سے متصل علاقوں سے مختلف تھا۔ افریقہ میں پیدا ہونے والے خاص اور اہم اناج میں سرغو، باجرا اور افریقی چاول شامل تھے۔ افریقی شکر قندی، تاڑ کے پیڑ، گوار کے بیج اور مونگ پھلیوں کے کھیت بھی لگایا کرتے تھے۔سرغو اور باجرے کے ذخائر ساحل کے خشک علاقوں میں جمع کیے جاتے تھے۔ چاول اور شکر قندی کے کھیت مغربی افریقہ کی اختتامی پٹی پر موجود سر سبز جنگلات کی زمینوں پر زیادہ اچھی نشونما پاتے تھے۔ ایتھوپیا کے باشندے "کوراکانی "نامی لمبا باجرہ ، افریقی گندم اور چاول کی فصل کاشت کیا کرتے تھے۔ سرغو، گھاس کی شکل کی ہوا کرتی تھی جسے اسی کے دانےکے لیے اگایا جاتا تھا۔ اس کے ذریعے لوگ گوشت اور غلہ کو ملا کر غذا اور حریرہ یا دلیہ تیار کیا کرتے تھےاور ان غذاؤ ں کو متعدد سبزیوں اور چٹنیوں کے ساتھ تناول کیا کرتے تھے۔ قدیم افریقی دور میں کاشت کیا جانے والا چاول ایشیا کے جنگلی چاول سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا تھا۔اندازاً200 عیسوی میں دریائے نیل کے قریب کاشت کیا جانے والا افریقی چاول مغربی افریقی علاقوں میں گھریلو استعمال میں بھی لایا جاتا تھا۔ شکر قندی پودوں کوزیر زمین تنے یا جڑوں میں اگایا کرتے تھے۔ وہاں کے مقامی اسے آلو کی طرح پکایا کرتے ، ابالتے اور اس کے گودے کوتیل میں تل کرتناول کیاکرتے تھے۔ 52
زیادہ تر افریقی سماج میں آئین و قوانین کاکوئی مرتب شدہ تحریری ضابطہ موجود نہیں تھا۔عام طور پر تمام قبیلوں کے اراکین کو اپنےقوانین اچھی طرح ذہن نشین ہوا کرتے تھے۔ اس دور کےروایتی قبائلی معاشرے میں کچھ ایسے جرائم کا بھی ارتکاب کیا جاتا تھاجسے آج کی جدید دنیا میں بھی جرم تصور کیا جاتا ہے جیسے قتل کرنا، چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ اور اس کے علاوہ دیگر قبیح و سنگین جرائم بھی اس دورمیں کیے جاتےتھے۔ علاوہ ازیں بڑوں کی بے ادبی اور ان سے جھوٹ بولنا بھی سماجی و قانونی گرفت کا باعث سمجھا جاتا تھا۔ قبائلی علاقوں میں کسی جرم کی سزا سماج یا برادری کے قوانین کے مطابق ہی دی جاتی تھی، جو شخص بھی کسی جرم کا ارتکاب کرتااسے برادری سے بے دخل کردیا جاتا یا اسے سر ِعام سب کے سامنےسزا دی جاتی تھی۔53
قدیم دور کے افریقی قبائل باہمی رشتوں اور تعلقات کے ساتھ آپس میں مل کررہا کرتے تھے، ان میں مختلف خاندان اور انجمنیں موجود ہوا کرتی تھیں۔ خاندان قبیلے کا جز سمجھا جاتا تھا، خاندان کا رکھ رکھاؤ اور طریقہ کار قبائلی سماج اور رواج کے مطابق ہوا کرتا تھا۔پورے بر اعظم افریقہ کے رسوم و رواج میں مأت (Ma’at)تصور کے مطابق آپس تعلقات اوردیگرلوگوں سے مراسم استوار کیے جاتے تھے۔اس ڈھنگ سے ایک مرتب شدہ ذمہ دار معاشرہ ترتیب پا گیا تھا۔معاشرے کی مستحکم وضع و تشکیل مأت (Ma’at) مذہب کی تعلیمات کے مطابق طے کی گئی تھیں اور یہی ان قبائل کا مذہب بھی تھا۔باالفاظ دیگر، ہر قبیلہ اور اس کا مذہب بالکل واضح اور منفردتھا کہ ہر قبیلے یا سماج کا کائنات کے متعلق تصور جدا گانہ ہو اکرتا تھا۔ تمام افریقی تاریخ میں بہت کم ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہب کو انصاف اور بدلہ لینےکے لیے استعمال کیا گیا ہو ورنہ تمام قبیلوں کا جداگانہ علاقہ ہوا کرتا تھا۔ زیادہ تر معاشروں کی ایک ہی اقدار اور روایتی رسوم و رواج ہوا کرتی تھیں۔بعض قبائل کے سردار ہوا کرتے اور کچھ میں قبیلے کے عمر رسیدہ افراد سیاسی و معاشرتی طور پر اعلی حیثیت پر برا جمان ہوا کرتے تھے۔نظام کے استحکام اور قوانین پر عمل درآمد کروانے کے لیے خفیہ انجمنیں بھی قائم کی جاتی تھیں، جیسے لائبیریا (Liberia)کی پورو (Poro) نامی برادری جس میں تمام مرد ایک خاص عمر میں شامل کیے جاتے تھے۔
لڑائی جھگڑا، چھپ کر وار کرنا ، اور غیبت قریبی رشتہ داروں میں عام طور پر پائی جاتی تھی یہاں تک کہ بعض اوقات کثیر مواقع پر ناقابل قبول رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑجاتا تھا۔چونکہ قدیم ابتدائی افریقی سماج کا کوئی سربراہ نہیں ہوا کرتا تھا، اسی لیے گھریلو آپسی معاملات کو خاندان کے لوگ ہی طے کیا کرتے تھے۔ ہر خاندان یا کنبے کا اپنا ذاتی نگراں ہوا کرتا تھایا بعض اوقات خاندان کے افراد کسی ایک فرد کو سربراہی کے لیے منتخب کرلیا کرتے تھے۔پنچائیت اور عدالتیں ساتھ ساتھ چلتی رہتی تھیں۔ پنچائیت میں خاندانی تنازعات کو حل کرنے، رفیق حیات کے ساتھ برا رویہ اپنانے، وراثت کے تضادات، قرض کی ادائیگی میں ناکامی کے معاملات دیکھے جاتے تھے، ان معاملات میں فیصلہ کرنے کے لیے بیٹھک گھر ہی میں رکھی جاتی تھی، عوامی مقامات یا سب کے سامنے پنچائت لگانے سے اجتناب کیاجاتا تھا۔ تمام متعلقہ فریق ایک دوسرے کے قریب قریب بے تکلفی اور اتفاق سے اپنے اپنے حساب سے بیٹھا کرتے تھے۔ معاملے کی چھان بین اور تفتیش فریقین ِتنازع کے ہاتھ میں ہی ہوا کرتی تھی، اور وہ ایک دوسرے پر الزام عائد کیے بغیر معاملہ حل کرنے کی جانب جایا کرتے تھے چونکہ علاقہ بہت وسیع ہوا کرتا تھا اور شکایات کے لیے رائے دہی زیادہ بہتر انداز میں قانونی بیٹھک میں ہی دی جاسکتی تھیں۔ یہ سوچ اس غرض سے عمل میں لائی گئی تھی تاکہ دونوں فریقین کے مابین غلطی کی نشاندہی آسانی سے کی جاسکے۔ یہ طریقہ و اسلوب وضع کرنے کا بنیادی مقصد تمام فریقین میں ہم آہنگی و اتحاد پیدا کرنا اور زیادہ اہم معاملہ کا حل تلاش کرنا تھا۔ اس بات کو پسند کیا جاتا تھا کہ تمام فریقوں میں مشترک باتوں کو خاص اہمیت دی جائے نہ کہ ان کے درمیان تضادات و اختلافات کو پروان چڑھایا جائے۔بعد ازیں ، جو بھی مسئلہ حل ہونے سے رہ جاتا تو اسے نظر انداز کردیا جاتا تھا یا اسے کوئی مسئلہ تصور ہی نہیں کیا جاتا تھا۔ان مجالس کا مقصدقصور وار گروہ یا فریقوں کو دوبارہ یکجا کرنے ، قبیلے میں دوبارہ داخلے، دوبارہ معاشرہ میں عزت کا مقام دلوانے، اور آپس کی رنجشوں اور غصے کو ختم کروانا شامل تھا۔ مجالس کا اختتام قصوروار کے معافی مانگے پر کیا جاتا، جو ایک معاہدہ کی صورت میں ہوتا جس میں کچھ قیود بھی لگائی جاتی تھیں۔ 54
برّ ِ اعظم افریقہ کے علاقوں کی قدیم ثقافتوں میں سب سے زیادہ مشہور اور پرانی ثقافت مصر کی تھی جو نئے سنگی (Stone Age) سے شروع ہوئی تھی۔ مصر میں نئے سنگی(Stone Age) دور قریباً 4000 قبل مسیح میں شروع ہوچکا تھا جو 3000 قبل مسیح میں ختم ہوا۔ اس وقت سے شاہی خاندانوں کی حکومت کا آغاز ہوگیا اور اسے عام اصطلاح کے مطابق تاریخی دور سمجھنا چاہیے ۔
نئے سنگی ثقافت کے اثرات آہستہ آہستہ تیونس ، الجزائر، مراکش اور صحرائے اعظم کے جنوبی علاقے سے ہوتے ہوئے جا بجا پھیلے ہوئے ملتے ہیں۔ کانسی کے دور(Bronze Age) مختلف حصوں میں ہوتے ہوئے جا بجا پھیلا جبکہ یہ دور افریقہ کےمختلف حصوں میں بہت بعد میں پہنچا جبکہ سنگی دور اس وقت تک بالکل ختم نہ ہوا جب تک فینیقیوں نے حضرت عیسیٰ سے سات آٹھ سو سال قبل لوہے کا استعمال عام نہ کردیا۔
سوڈان میں وسطی سنگی دور کے کچھ اوزار ملتے ہیں اور دریائے کانگو کے طاس میں پالش کیے ہوئے سنگی اوزار بھی اسی دور میں بننے لگے تھے، نئے سنگی دور کی مختلف ثقافتیں بھی وجود میں آگئی تھیں ، لیکن سوڈان اور نائجیریا ہی ان میں نمایا رہے۔حقیقی کانسی کا عہد اس حصے میں آیا ہی نہیں ، البتہ مسیحی سنین شروع ہونے کے بعد لوہے کا استعمال ہونے لگا اور بعض مقامات پر اس نے بڑی ترقی کی ۔ 55
بر اعظم افریقہ انسانی تاریخ میں خصوصی حیثیت رکھتا ہے۔ ابتدائی دور کے آثار قدیمہ کی دریافت سے انسانی ترقی اور عروج کی کثیر علامات ملی ہیں۔ بر اعظم افریقہ کرۂ ارض کا ایک ایسا خطہ ہے جہاں تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو کثیر بڑی تہذیبوں اور سلطنتوں نے ترقی کی منازل طے کیں اور زوال کا بھی شکار ہوئیں۔ قدیم دور سے تعلق رکھنے والی بڑی تہذیبوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
مطلع آفتاب کی سمت سے تعلق رکھنے والے افریقی خطے ناہموار اور پیچیدہ جغرافیہ کے حامل تھےجو اپنی چھوٹی اور بڑی دونوں اقسام کی تہذیبوں اور ثقافتوں سے شدت سے متاثر تھا۔ اس کے علاوہ افریقی سماج اپنے زمینی خطہ کے قریب واقع مصری سلطنت سے بھی متاثر تھا۔ وہ باشندے جو مصر کے جنوبی حصے سے کشتیوں پر سفر کرکے دریائے نیل کے اوپری حصے کی جانب جاتے ، اس صورت میں انہیں تیز پہاڑی ندیوں کے پانچ وسیع حصوں سے گزرنا پڑتا جسے آبشار بھی کہتے ہیں۔چھٹے آبشار پر شہر میرو(Meroe)واقع تھا ، اس کے علاوہ دریا کے وسط میں ایک بڑا جزیرہ بھی موجود تھا۔ یہ ایک ایسا عمدہ اور ممتاز شہر تھا جہاں جگہ بہ جگہ زبردست جسیم مجسمہ اور مورتیاں تراش خراش کرکے نصب کی گئی تھیں اور چھوٹے اہرام مصر نما مقبرےبھی تعمیر کیے گئےتھے، لیکن یہ زمینی حصہ مصری سلطنت میں شامل نہیں تھا۔ 600 قبل مسیحی دور سے تعلق رکھنے والے مشرقی افریقہ میں قدیم دورکی ترقی یافتہ نوک (Nok)نامی تہذیب کی طرح میرو تہذیب بھی ثقافت و تمدن سے بھرپورتھی جو اپنی منفرد شناخت رکھتی تھی اور اس کے علاوہ اس نے کثیر مصری رسومات کو بھی اپنی تہذیب میں شامل کیا ہوا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ میرو (Meroe)بہت زیادہ طاقتور شہر بن چکا تھا اور اس نے مصر پر مکمل تسلط کے ساتھ حکومت کی تھی۔ میرو (Meroe)شہر کے خاندان اشرافیہ کی آخری رسومات منفردطریقہ کا ر سے ادا کی جاتی تھیں۔اس میں سونا اور سفید مرمری پتھر کے مختلف نمونے یا مورتیاں تیار کی جاتیں اور اس کے علاوہ انسانی قربانی بھی پیش کی جاتی تھی۔ شہر میرو (Meroe) میں سات ملکاؤں کے بھی مقبرے دریافت ہوئے تھے۔ طاقتور اور مضبوط خود مختار حکمران ملکہ کی حیثیت سے انہیں کینڈیس (Candace)کے لقب سے بھی موسوم کیا جاتا تھا جس کا معنی ملکہ یا ملکہ کی ماں تھا۔
شہر میرو (Meroe) لوہے کی صنعت کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر اعتماد کرتے تھے کہ لوہے کی کاریگری اور اس شے کے ذریعے مختلف اشیاء بنانے کی صنعت کی ابتدا ءمیرو (Meroe)سے ہی ہوئی اور براعظم افریقہ کو عبور کرتے ہوئے یہ نائجیریا میں نوکی باشندوں تک پہنچ چکی تھی۔ میرو کے تاجر ان اپنی تجارتی سرگرمیوں کو ترقی دینے میں بھی کافی مہارت رکھتے تھے، انہوں نے خریدو فروخت کے معاملات کو محفوظ رکھنے کے لیے منقوشی لکھائی یا تصویروں کا استعمال سیکھ لیا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ میرو (Meroe)شہر بحر روم ا ور افریقہ کے دیگر علاقوں کے مابین ایک واضح اور اہم تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا۔دریائے نیل پر واقع شہر کے باشندے مختلف دور دراز ملکوں سے تجارت کیاکرتے تھے جس میں چین بھی شامل تھا۔ میروئی (Meroitic) تاجر ہاتھی دانت اور اس کے علاوہ سونے کے سلیقے سے بنائے گئے برتنوں کی ہزاروں میل دور مغربی افریقی خطوں سے تجارت کیا کرتے تھے۔ آخرکار میرو (Meroe)کا زوال ان کے قریب ترقی حاصل کرنے والی اکسومی تہذیب سے سبب ہوا، جس نے میرو کے بڑے تجارتی راستوں کو اپنے قبضے میں لے لیا جس کے سبب شہر میرو (Meroe) مالا مال ہوا تھا۔ 56
وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے مغربی افریقہ کے وسط میں ریگستانی خطہ میں اضافہ ہوتا چلا گیا ، کثیر صحرائی باشندوں نے صحرا سے جنوب کی جانب ہجرت کرنا شروع کردی تھی ، یہاں تک کہ مغربی افریقہ کے مشہور دریا نائیگر (Niger River) کے نچلے حصے پر جنگلات یا بلند نائیگر کے سر سبز علاقوں میں منتقل ہوگئے تھے۔500 اور 625 عیسوی کے دوران متعدد سلطنتوں نے ترقی کی منازل طے کیں اور مختلف بادشاہتوں کے زیر سایہ ان دونوں خطوں میں پروان چڑھیں کیوں کہ ان خطوں میں تعلیمی نظام کمزوری کا شکار تھا اس کے علاوہ مختلف مذاہب کی موجودگی کے ساتھ شہری حدود بھی بے ترتیبی کا شکار تھیں۔یہاں کے باشندے فن لوہار ، تجارت ، زراعت اور فنون میں اوسط درجہ کی واقفیت رکھتے تھے۔
مغربی افریقہ میں پروان چڑھنے والی وسیع اور مضبوط تہذیبوں نے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کے ذریعے ترقی کی منازل طے کی تھیں۔ ان میں سے ہر ایک تہذیب نے تعلیم اور وراثت میں ملنے والے فنون میں مزید ترقی اور جدت لانے کی جانب پیش رفت کی تھی۔ انہوں نے تجارتی مقاصد کے لیے اپنے روابط دیگر ممالک اور تہذیبوں سے بڑھائے اوریوں خطہ سے باہر رہنے والے مختلف گروہوں اور باشندوں سے جان پہچان ہونے پر مزید نئے طریقہ کار اور فنون سیکھ لیے تھے۔57
اکسومی باشندے عرب تاجروں کی اولادیں تھیں جو بحیرۂ احمر کو عبور کرکے یہاں مقیم ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو مصری تمدن سے یکسر مختلف تھی۔ 300 عیسوی کے قریبی دور میں شہر اکسوم (Aksum)نے مملکت میرو (Meroe) پر اپنی حکومت قائم کی اورشمال مشرقی افریقہ میں واقع اس کے تجارتی مرکز پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا۔ اکسومیوں نے تجارت کو تین راستوں پر تقسیم کیا ہوا تھا، ان میں مغربی افریقہ کے درمیانی علاقے، بحیرۂ روم کے قریب واقع مختلف تہذیبیں، اور بحر ہند کے ارد گرد موجود ممالک شامل تھے۔ بحر احمر پر واقع ادولس (Adulis)کی مصروف بندرگاہ شہر اکسوم کے لیے ایک بڑے تجارتی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔اکسوم (Aksum)کی زیادہ تر تجارتی سرگرمیاں ان خطوں سے منسلک تھیں جہاں سکندر اعظم نے حکومت کی تھی، اسی لیے اکسوم (Aksum)کی سرکاری زبان یونانی تھی۔اکسوم (Aksum) میں جاری سکوں اور تاریخی مقبروں کی اندرونی سطح پر یونانی زبان میں تحاریر نقش تھیں۔
قدیم دور سے تعلق رکھنے والے اکسومی حکمرانوں نے خوبصورت، متاثر کن، اونچے اور لمبے گول نما پتھروں کو مقبروں کی تعمیرات میں استعمال کیا تھاجسےسٹیلائے(Stelae)کہا جاتا تھا۔ سٹیلائےپر منقوش تحاریر اکسومیائی بادشاہوں اور اس کی تاریخ کے متعلق معلومات فراہم کرتی ہیں۔عرب کے وہ باشندے جنہوں نے اکسومیائی سلطنت قائم کی ،مسلمان نہیں تھے، اور جب انہوں نے یونان کے ساتھ اپنے تجارتی معاملات کو فروغ دیا تو انہوں نے عیسائیت میں دلچسپی لینا شروع کردی اور یوں عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا۔ اس کے بعد 450 عیسوی دور میں اکسومی سلطنت کا مذہب سرکاری سطح پر عیسائیت ہو گیاتھا۔58
اکسوم آج کے ایتھوپیا میں موجود ایک قدیم سلطنت تھی جو چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں پھلی پھولی تھی۔ یہ صحرائے افریقہ کے جنوبی حصے کا سب سے پہلا مقامی اور علاقائی تمدن تھا۔59اگر افریقی جغرافیہ پرنظر ڈالی جائے تو اکسومی سلطنت ایک بڑے تکون نما شکل میں ہمیں نظر آتی ہے جس کا طول و عرض تقریباً 300 کلومیٹر لمبا اور 160 کلومیٹر چوڑا تھا،شمال کی طرف سے 13 اور 17 ڈگری اور مشرق کی جانب 30 سے 40 ڈگری کے زاویے کے درمیان واقع تھا۔ یہ خطہٴ زمین کیرن (Keren)کے شمال سے جنوب میں واقع الاگوئی (Alagui)تک اور پھر ساحل پر واقع شہر ادیولس (Adulis) سے مغرب میں واقع تکازے (Takkaze)کے مضافاتی علاقے تک پھیلا ہوا تھا۔اس علاقے میں ادی داہنو (Addi-Dahno)حقیقت میں وہ آخری علاقہ تھا جس کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جاسکی ہیں، یہ علاقہ اکسوم (Aksum)سے تقریباً 30 کلومیٹر دوری پر واقع تھا۔ 60سلطنتِ اکسوم (Aksum) حبشہ کے شمالی حصہ پر موجود سطح مرتفع پر واقع ٹگرے(Tigray)نامی علاقے کے شمالی کنارےپر واقع تھی اس کے علاوہ یہ مقام مشرقی و مغربی 7000 فٹ نشیبی علاقے کے کنارے پر واقع تھا جہاں براہ ِمختلف وادیوں اور بحر احمر سے بھی پہنچا جا سکتا تھا۔ شہر اکسوم (Aksum)کے ذریعے مغرب میں نچلی سطح کی جانب سوڈانی علاقوں تک اور براستہ وادئ تکازے مزید آگے کی طرف رسائی بھی موجود تھی۔ قدیم دور میں شہر کے ارد گرد پانی کو ذخیرہ کرنے اور آبپاشی کے لیے پشتہ کے متعدد نظام موجود تھے کیونکہ ان مقامات پر مختلف جگہوں پر پانی کے چشمے پائے جاتے تھے۔ اکسوم (Aksum) کی زمین تقریباً100 میل تک ساحل سے دور علاقے اور شہر مساوا (Massawa) میں واقع بحر احمر کی بندرگاہ اور قدیم ادیولس (Adulis)سے کچھ جنوب مغربی علاقے میں واقع تھی۔ اس کے علاوہ اریٹریا (Eritrea) کی حدود بھی اکسوم سے زیادہ دور نہیں تھی۔ 61
اکسومیائی سکّےخاص اہمیت کے حامل تھے۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ ان ہی سکوں کے ذریعے اکسوم پر حکومت کرنے والے اٹھارہ بادشاہوں کے نام کی معلومات حاصل ہوسکی ہیں۔اب تک کئی ہزار سکے دریافت ہوچکے ہیں۔ شہر اکسوم کے ارد گرد واقع قابل کاشت اورہل چلانے کے قابل زمین سے کثیر تعداد میں سکے دریافت ہوئے ہیں، خاص طور پر جب بارشوں کے موسم میں پانی زمین سے مٹی کو بہا لے جاتا تھا۔تو اس بہہ جانے والی مٹی کے نیچے سے کئی دبے ہوئے سکے برآمد ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر سکے کانسی کے بنے ہوئے تھے جو تقریباً 8 سے 22 ملی میٹر ناپ کے تھے۔ ان سکوں پر بادشاہوں کی تصویریں کندہ کی گئی تھیں جس میں ان کا سر اور کندھے بنائے گئے تھے، کچھ سکوں پر بادشاہوں کے سروں پر تاج بھی دکھایا گیا تھا۔ صرف ایک سکہ ایسا ملا ہے جس میں بادشاہ کو تخت پر بیٹھا دکھایا گیا تھا۔ سکوں پر مختلف علامات بھی موجود تھیں۔ ابتدائی دور کے بادشاہ جن میں اینڈیبس(Endybis)، افیلاس(Aphilas)، اوساناس اول(Ousanas-I)، وزیبا(Wazeba)، ایزانا(Ezana) شامل تھے، انہوں نے گول نما اور مجوف شکل کے سکوں کوبنایا تھا۔جب ایزانا (Ezana) عیسائی ہوا تو اس نے سکوں پر صلیب نقش کروانا شروع کردیا تھا، یہاں تک کہ سکے کے درمیان اور اطراف میں میں بھی علامات منقش کی گئی تھیں، اس کے علاوہ کناروں پر مختلف الفاظ یا علامات نقش کی گئی تھیں۔ بعض صورتوں میں ، بادشاہ کا سینہ دو جھکے ہوئے بھٹوں کے چار چوب میں نقش کیا جاتا اور ایک سیدھا بھٹہ سکہ کے درمیان میں افیلاس (Aphilas)اور ایزانا (Ezana) میں استعمال ہونے والے سکوں میں کندہ کیا گیاتھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بھٹہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہو کہ طاقت و قوت کا انحصار زمین کی زرخیزی سے وابستہ ہے۔
سکہ سازی کے عمل کا کوئی خاص وقت یا تاریخ میسر نہیں ہے۔ اسی لیے اس عمل کے متعلق بہت سی قیاس آرائیاں بھی کی گئیں ہیں، لیکن جب بات ان کی چھان پھٹک کے بارے میں آتی ہےتوممکنہ طور پر سکّہ سازی کی سب سے پرانی قسم اسے ہی کہا جاتا ہےجسے اینڈیبس (Endybis) کے دور سلطنت میں ڈهالا گيا تها۔
سرزمینِ ایتھوپیا میں ابتدائی طور پر جو حروف استعمال کیے جاتے تھے وہ جنوب عربی الفاظ کی مثل تھے۔ ایتھوپیا میں استعمال ہونے والی بول چال ایک ایسی زبان کی نقل تھی جو جنوبی عرب میں رائج سامی لہجہ سے میل جول رکھتی تھی۔ اکسومیائی تحاریر جنوبی عربی لکھائی سے مختلف تھی لیکن اس کے باوجود اکسومی تحریر کا طریقہ کار جنوب عربی لکھائی سے مشتق شدہ تھا۔
ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والی دستاویزات کی سب سے پہلی مثال ہمارے دور کے مطابق دوسری صدی سے تعلق رکھتی تھی،وہ تحاریر حرف صحیح سے متعلق تھیں۔ یہ الفاظ آج بھی اپنے جنوب عربی ماخذ کی یاد دہانی کرواتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظوں کو لکھنے کا طریقہ کار اور ان کی بناوٹ میں تبدیلی آتی چلی گئی ۔ لکھائی کی سمت ابتدا میں متغیر تھی لیکن بعد میں اس کے لیے ایک خاص انداز مختص کردیا گیا تھا، اور بالآخر انہوں نے بائیں سے دائیں جانب لکھائی شروع کردی تھی۔ ان ابتدائی تحاریر کو پرت دار چٹان سے تراشی گئی تختیوں پر کندہ کیا گیا تھا۔ ان تختیوں پر کندہ کیے گئے کلمات کثیر التعداد نہیں تھے بلکہ یہ تختیاں کچھ ہی الفاظ پر مشتمل تھیں۔سب سے قدیم تحریری ثبوت اریتھریا (Erythrea) کے ایک قصبے مطرہ (Matara)کے مقام سے دریافت ہوئے تھے۔اس کے علاوہ کسی دھاتی تختی پر کندہ کی گئی تحریرکا بھی کھوج ملا ہے جو قریب قریب تیسری صدی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس تحریر میں بادشاہ گدارا(King Gadara) کے متعلق معلومات درج تھیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وہ پہلی ایتھوپیائی تحاریر تھیں جس پر اکسوم کا نام درج تھا۔اس کے علاوہ دیگر تحاریر پتھروں پر کندہ کی گئیں تھیں۔سب سے منفرد اور بہترین کندہ کاری چوتھی صدی سے تعلق رکھنے والے بادشاہ ایزانا کی تھی۔اسی دورمیں سب سے پہلے تحریر کو ارکان تہجی میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد یہ انداز ایتھوپیائی زبان کو لکھنے کا مستقل طریقہ کا ر بن چکا تھا۔ حرف علت کا استعمال حرف صحیح کے ساتھ یکجا کرکے کیاجاتا، جس سے زبان کی ادائیگی کے اتار چڑھاؤ اور آواز کی خصوصی کیفیات کی نشاندہی کی جاتی تھی۔
کندہ کی گئیں تحاریر کے ملنے سے یہ بات بھی منکشف ہوئی تھی کہ یہ زبان گئیز (Ge'ez)کے نام سے موسوم تھی۔یہ سامی باشندوں کے جنوبی خطہ میں مستقل زبان کے طور پر استعمال کی جاتی اور اس کے ساتھ ساتھ اکسومی بھی اسے استعمال کیا کرتے تھے۔62 بعد کے دور میں ایتھوپیا کے گرجا گھروں میں بھی اسے باقاعدہ رواج دیا گیا تھا۔گئیز (Ge'ez)وہ سامی زبان تھی جس کو جنوبی حصے میں بیرونی مقام پر واقع گروہ بھی استعمال کیا کرتے تھے۔اس میں جنوب عربی لہجہ اور امھاری (Amharic) زبان بھی شامل تھی۔ اس کے علاوہ گئیز (Ge'ez) کا شمارایتھوپیا کی اصل زبانوں میں ہوا کرتا تھا۔ایتھوپیا میں رواج پانے والی گئیز (Ge'ez)اور دیگر زبانوں کو بائیں سے دائیں جانب پڑھا اور لکھا جاتا تھا ، جبکہ ان کے علاوہ سامی زبانوں کو اس کے برعکس دائیں سے بائیں جانب لکھا اور پڑھاجاتا تھا۔ 63
اکسوم(Aksum) ابتدائی طور پر ایک ریاست تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جاگیرداری نظام میں صوبہ کی صورت اختیار کرگئی جو اس دور میں انتظامی دارالخلافہ بھی کہلاتا تھا۔تاریخ سے ہمیں یہ شواہد ملے ہیں کہ بادشاہوں نے مختلف مہمات سر کی تھیں لیکن خصوصی طور پر اپنی توجہ اپنے اقتدار کو تشکیل دینے ، اپنی حکومت کو قائم کرنے اور شمالی ایتھوپیا کی ٹکڑوں میں بٹی ہوئی متعدد ریاستوں پر اپنی دھاگ بٹھانے میں مرکوز رکھا کرتے تھے۔ ان کے اہم مقاصد میں تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ایک ہی بادشاہت اور نظام کے تحت لانا شامل تھا۔ کامیابی کا انحصار اکسومیائی حکمرانوں کی طاقت پر اور دیگر قدیم ایتھوپیائی ملکاؤں کے قائم کردہ نظام سے بہترنظم و ضبط پر مبنی نظام رائج کرنے پر ہواکرتا تھا۔بعض اوقات یہ عمل اس وقت کیا جاتاجب تخت شاہی کو حاصل کرنے والا بادشاہ اپنی حکومت کی شروعات میں شکرانے کے طور پر پوری سلطنت میں ایک مہم کا آغاز کیا کرتا جس میں کم سے کم بادشاہ کی رسمی طور پر اطاعت و تسلیم کا عہد لیا جاتاتھا۔بہرحال یہ عمل ایک اکسومی سلطان نے کیا تھا جس کا نام تاریخ میں نہیں ملتا ، لیکن یہ وہی شخص تھا جس نے قدیم دور کی دو زبانی یادگار تحریروں کو تشکیل دیا تھا ۔ ان تحریریروں کو مونومینٹم اڈیولٹینم(Monumentum Adulitanum) کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔بادشاہ ایزانا (Ezana) کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ دوبارہ نئے سرے سے اپنی دور حکومت کا آغاز کرے اور اپنی حکمرانی کا پرزور دعوی کرے ۔
بادشاہت کو قائم کرنے والوں نے ایک سلطنت تعمیر کرنے کے لیے حکومتی نظام سنبھالا ہوا تھا۔ دوسری صدی کے قریبی دور سے چوتھی صدی کی ابتدا تک اکسومیوں نے عسکری اور سیاسی جدوجہد کے لیے جنوبی عرب کے درمیانی علاقوں میں اجرت پر اپنے فرائض انجام دیےتھے۔ چوتھی صدی میں اکسومیوں نے اس وقت زوال پذیر ہونے والی مورائے کی بادشاہت پر اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ یوں انہوں نے ایک ایسی سلطنت قائم کرلی جو شمالی ایتھوپیا کے سر سبز و شاداب اور زرخیز زمینوں کو شامل کرتے ہوئے سوڈان اور جنوبی عرب تک پھیل چکی تھی۔ اس سلطنت میں رومی سلطنت کی سرحد پرموجود جنوبی ممالک کے رہنے والے تمام باشندے بھی شامل تھے ، اس کے علاوہ مغرب میں صحرائے اعظم اور مشرق میں واقع ٱلرُّبْع ٱلْخَالِي نامی عربی صحرا کے اندرونی حصے کے درمیانی علاقے بھی اکسومی سلطنت میں شامل تھے۔
ریاست اکسوم اور اس کی ماتحت حکومتیں مختلف مملکتوں میں منقسم تھیں۔ ان کے حکمران اکسومی بادشاہ کے زیر سایہ اپنے ریاستی امور سر انجام دیتے اور انہیں خراج دیا کرتے تھے۔ یونانی طاقتور اکسومی حکمرانوں کو اپنا بادشاہ تصور کیا کرتے تھے۔صرف عظیم اثانا سیوس (Athanasius)اور چوتھی اور پانچویں صدی کے انوموئیائی چرچ کے تاریخ دان جنہیں فلوستورجیس (Philostorgius)کے نام سے موسوم کیاجاتا تھا، اکسومی بادشاہوں کو جابرانہ حکومت کرنے والے، ظالم اور غاصب کہا کرتے تھے۔ بعض محررین جیسے افیسس کا جان(John of Ephesus)، بیتھ آرسم کے شمعون (Simeon of Beth-Arsam)اور "بک آف ہمیارائٹس" (Book of the Himyarites)کے مصنف نے بادشاہ کا لقب "ملک"(Mlk)اکسومی سلطانوں کو دیا تھا۔اس کے علاوہ ان کے ماتحت ریاستی حکمران عرب کے قدیم باشندوں کے بادشاہ اور آئوا ('Aiwa) کو بھی القابات دیا کرتے تھے۔ ان تمام بادشاہوں کو اکسومی اصطلاح میں نیگس (Negus)کہا جاتا تھا۔علاوہ ازیں نیگس کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا تھا کہ یہ جنگوں کے وقت میں عسکری فوج کی فاتح صفوں میں رہنے کے بجائے مختلف کاروائیوں کے متعلق منصوبے بنانے کی ذمہ داری سنبھالا کرتے تھے۔
یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ عدالتی اراکین حکومت کا انتظامی نظام سنبھالتے اور سفیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ یونانی رسوم و رواج کو اپنانے والے شامی، ایڈیسیس (Aedesius)اور فرامینٹیس (Frumentius)، جنہیں شاہی غلام بنالیا گیا تھا، آگے چل کر ان میں سے ایک کو شراب بھرنے کے کام پر لگا دیا گیا جبکہ دوسرے کو اکسومی بادشاہ کے معتمد اور خزانچی کے مقام پر فائز کردیا گیا تھا۔ 64
اکسومی سماج میں مستحکم افراد اور مزدور طبقوں کے درمیان ایک بڑی تعداد پیشہ وروں اور ماہر کاریگروں کی بھی موجود تھی۔ اکسومی مادی سماج طبعی سادگی سے یکسر دور الگ الگ درجات میں منقسم تھا، جو اس بارے میں واضح شواہد پیش کرتا ہے کہ اکسومی باشندےمتعدد فنون میں مہارت رکھتے اورمختلف تکنیکی اور فنیاتی علوم پرٹھوس و مضبوط دسترس بھی رکھتے تھے۔ وہاں پتھروں کو زمین میں سے نکالا جاتا، اور اس کے بڑے بڑے ٹکڑے کرکے دور دراز مقامات پر لے جایا جاتا تھا، ان پتھروں کو تراش خراش کر مجسمہ بنایا جاتا اور اس کے علاوہ یادگاری تعمیرات اسٹیلائے (Stelae) بھی قائم کیے جاتےتھے۔ علاوہ ازیں عمارتی تعمیرات میں بھی ان پتھروں کو استعمال میں لایا جاتا تھا اور بعض اوقات ان پر کندہ کاری بھی کی جاتی تھی۔پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بند تعمیر کیے جاتے، ان پر چبوترے بنائے جاتے اور بہتر آبپاشی کا نظام بھی تشکیل دینے کی جانب پیش قدمی کی جاتی تھی۔ اینٹوں کو بنا کر آگ میں پکایا جاتا ، چونے کا گارا بنا یا جاتااور اینٹیں اور محرابیں بنانے کے کام میں لایا جاتا تھا اس کے علاوہ لمبی قوس(Arches) نما جگہیں بنانے کے متعلق بھی ٹھوس شواہد ملتے ہیں۔علاوہ ازیں بڑی مقدار میں مٹی سے برتن بھی بنائے جاتے تھے، وہ لوگ برتن بنانے کے لیے سانچہ کو استعمال میں نہیں لاتے تھے لیکن اس کے باوجود بہترین قسم کے برتن تشکیل دیاکرتے تھے۔مابعد المنطقی مہارت سونے ، چاندی، تانبے، کانسی اور لوہے کے کام میں موجود تھی۔ اثر آفریں و موثر طریقہ کار امور کی انجام دہی کے لیے جانتے تھے، جس میں سودھنا، آہن گری، تپا کر جوڑنا، میخیں بنانا،تختی بنانا، برما کاری، سوراخ کاری، گھڑائی، دھاتوں کو چمکدار بنانا، ملمّع کاری جس میں نکتہءِ پگھلاوٴتک تانبے کوتپایا جاتااور پارے کی دلکش پرت سے سطحی صورت کو ڈھالا جاتاتھا۔ اس کے علاوہ مزید رنگ و روغن بنانے اور سکوں پر ضرب لگانے کا کام بھی بخوبی انجام دیا جاتا تھا۔ہاتھی دانت کی تراش خراش کا عمل بھی بہترین مہارت سے کیا جاتا تھا۔ جانوروں کے چمڑے کو بھی استعمال میں لایا جاتا تھا ۔ ممکنہ طور پر اس سے لباس بنائے جاتے تھے۔شراب انگور سے بنائی جاتی تھی۔شیشہ بنانے کا فن بھی وہاں موجود تھا، اس کام کے لیے زیادہ تر شیشہ دیگر مقامات سے بطور خام مال خریدا جا تا تھا۔
پہلی صدی عیسوی کے دوران ادیولس (Adulis)اور اکسوم (Aksum)افریقہ کی اہم بندرگاہوں والے شہر بن چکےتھے۔ ہندوستان، عرب، فارس ، بحیرۂ روم کے علاقے اور افریقہ کے اندرونی ممالک کے ساتھ تسلی بخش اور باکفایت تجارتی جال کے قیام نے اکسوم کو ایک مالدار اور مستحکم ممالک کی صف میں شامل کردیا تھا۔ اکسوم ایسےمقام پر واقع تھا جہاں سے بحر ہند اور بحر احمر تک رسائی زیادہ آسان تھی۔ ایسا بہت زیادہ دیکھنے میں آیا تھا کہ ملبوسات اور میناکاری کے سامان کے ساتھ غلاموں کی خریدو فروخت کا کام بھی کیا جاتا تھا۔ اکسومی کامیابی کے ساتھ اپنے تجارتی امور نمٹا رہے تھےتو ان کے تاجروں نے سوچا کہ اگر ہم سکے بنانے کا کام بھی شروع کردیں تو ہمیں کاروبار کرنے میں زیادہ آسانی میسر آجائے گی، یوں اکسومی سلطنت کے باشندے وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے سکے بنانے کے کام کا آغاز کیا تھا۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی اکسوم سر سبز علاقوں میں سے افریقہ کے اہم مقامات میں شامل تھا، اس کی زمینیں کھیتی باڑی کے لیے انتہائی موزوں تھیں۔
بادشاہ نے ریاست سے باہر موجود مختلف شہروں سے تجارت کرنے کی غرض سے آنے والے تاجروں پر محصول لاگوکردیے تھے۔ اس کے علاوہ پڑوسی ممالک کے بادشاہوں سے بھی خراج وصول کرنا شروع کردیا تھا تاکہ اکسومی حکومت اور بیس ہزار کی آبادی کی ضروریات اور ان کےاخراجات کو پورا کیا جاسکے لیکن اس تمام معاملات کے باوجود اکسوم کی معاشی ترقی کا انحصار تجارت پر ہی مبنی تھی۔
درآمدی اشیاء کا اکسومی باشندوں کی زندگیوں میں انتہائی کلیدی کردار تھا۔ خاص طور پر طبقہ امراء ان درآمدات سے بہت مستفید ہوا کرتے تھے۔جیسے کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ ریاست اکسوم کا مقام اور سلطنت، افریقی براعظم کے دور دزار علاقوں سے بھی خام مال کو حاصل کرنے کے لیے آسان راستہ کے طور پر استعمال کیے جاتے تھے اور یہی اکسومی خطہ بحر احمر سے بھی سمندری راستے سے تجارت کے لیے مواقع فراہم کرتا تھا۔ واضح طور پر یہ تجارتی معاملات اس وقت اپنے عروج پر تھے جب اکسوم ایک کامیاب اور مستحکم ممالک کی فہرست میں شامل تھا۔ادیولس (Adulis)میں قائم اکسومی بندرگاہ اکسوم سے تقریباً آٹھ دن کے فاصلے پر واقع تھی، اور یہی وہ راستہ تھا جہاں سے اہم تجارتی درآمدات اور برآمدات کا کام کیا جاتا تھا۔خاص طور پر عہد بعید میں بحر روم کے قریب واقع رومی اور یونانی سلطنتوں میں اندرونی افریقہ کی بنائی گئی نرالی و عجائب اشیاء کی بہت مانگ تھی۔ یوں اکسوم ایک ایسا تجارتی مرکز بن چکا تھا جہاں دنیا بھر کے ہنر مند اور تاجر افراداپنی مصنوعات کی تجارت کے لیے دور دراز سےامنڈ امنڈ کر آیا کرتے تھے۔
برآمدکی جانے والی اشیاء میں ہاتھی دانت، سونا، برکانی شیشہ، قیمتی پتھر، عطریات، گینڈے کے سینگ، دریائی گھوڑے کے دانت اور کھالیں، کچھوؤں کے گلدار خول، غلام، بندر اور دیگر زندہ جانور شامل تھے۔درآمدات کی جانے والی چیزوں میں لوہا اور دیگر دھاتیں اور ان سے بنائی گئی مختلف اقسام کی اشیاء ہوا کرتیں، اس کے علاوہ شیشہ ، چینی کی بنی ہوئی مصنوعات، متعدد اقسام کے کپڑے اور لباس، شراب، گنا، سبزیوں کا تیل، عطریات اور مصالحہ جات بھی شامل تھے۔افریقی مصنوعات کی دیگر ممالک سے تجارت میں زیادہ تسلسل و روانی نہیں تھی بلکہ ان برآمدات میں بنیادی طور پر خام مال اور صنعتی پیداوار کے لیے بنیادی اشیاء فراہم کرنا اور اِضافی قدری محاصِل کے اسباب کو مہیا کرنا شامل تھا۔
بحر روم سے بحر ہند تک تجارتی مقاصد کے لیے قائم بڑے اور اہم راستوں کی وجہ سے اکسوم کی معاشی حیثیت میں بتدریج استحکام آتا چلا گیا اور ان کے مالی ذخائر میں کثیر اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ معاشی پختگی طاقت کا باعث تھی، اسی مضبوطی کے سبب اکسومیوں کی حکومت بحر احمر کو بھی عبورکرکے یمنی پہاڑی علاقوں تک اور ممکنہ طور پر مغرب کی جانب وادئ نیل تک پھیل چکی تھی۔ اس سے واضح طور پر ریاست اکسوم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کیونکہ اس وقت افریقی اشیاء کے تجارتی مال کو دیگر ممالک تک پہنچانے میں اس کا واضح کردار تھا۔ اکسوم کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے اس نے تجارتی راستے کو وادئ نیل سے دریائے احمر کی جانب منتقل کردیا تھا اور یہی سبب مملکت میرو (Meroe)کی زوال پذیری کی وجہ بھی بنا تھا۔اکسومیوں کے سمندر پار ریاستوں سے تجارتی تعلقات نہایت ہی وسیع پیمانے پر تھے، جس کی جانب واضح اشارہ اکسومی سونے کے سکے کرتے دکھائی دیتے ہیں ، جن کی موجودگی کے آثار یمن اور ہندوستان میں اوراسی طرح ہندوستانی سکے شمال مشرقی ایتھوپیا سے ملتے ہیں۔65
قدیم ایتھوپیا جسے ابی سینیا (Abyssinia)کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، درحقیقت ایک الگ اور جدا ملک کی حیثیت سے موجود تھا۔ ایتھوپیا کے بادشاہ اپنے آپ کو سلیمان اور ملکہ سبا کی نسل سے بتاتے تھے جس کے بارے میں عہد نامہ عتیق میں بھی ذکر موجود ہے۔ ایتھوپیائی بادشاہوں کے عیسائی مذہب قبول کرنے کی وجہ وہ نیک فطرت افراد بنے جنہوں نے ملکہ کی بہت خدمت کی اور اس کے ساتھ تعاون کیا تھا۔سبا نام ان کے لیے اسی طرح تھا جیسے مصر کے فرعونوں، بطلیموسیوں اور ان کے شاہی وارثوں کو دیا جاتا تھا۔ان نیک فطرت افراد کے ماننے والوں کے علاوہ یقینی طور پر ابی سینیا کا عیسائی کلیسا سینٹ اتھاناسیس (St. Athanasius) کا احسان مند تھا جس نے ابی سینیا میں عیسائی مذہب کو نافذ کیا اور اس کی ترویج و اشاعت کی، اور ان افراد کو سکندریہ کے صَدَر بِشَپ کے تحت کرکے ایتھوپیا میں عیسائی مذہب کے سربراہان میں داخل کردیا تھا۔66
ابی سینیا میں شمالی عرض البلد میں چھ سے پندرہ ڈگری زاویے تک پھیلا ہوا نیوبیا کے جنوب میں واقع تھا۔ اس وجہ سے افریقی براعظم میں موجود دیگر ممالک میں یہ ایک نمایاں حیثیت کا حامل تھا ۔ ابی سینیا کو ایک وسیع سلطنت سے تشبیہ دی جاسکتی ہے اسی لیے مشرقی افریقی میدانی علاقوں میں اسے بہت ممتاز حیثیت حاصل تھی ۔ درحقیقت ایتھوپیا ایک بہت بڑا گڑینائٹ (Granite) اور سیاہ مر مریں پتھر کا زمینی خطہ تھا۔ اس کا اصل پہاڑی سلسلہ مشرق کی سمت جاتا تھا ۔ یہ پہاڑی سلسلہ شمال سے جنوب کی جانب 650میل تک پھیلا ہوا تھا جس کا نظارہ بحر احمر کی ساحلی پٹی سے واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا ۔ اس کے علاوہ یہ پہاڑی سلسلہ میسواور (Massowah) کے بالمقابل کیسن (Kasen) کے قریب تقریبا 8000فٹ بلند بہت بڑی دیوار کی طرح نظر آتا تھا ۔ اس پہاڑی سلسلے کی بلندی کوہ سویرا (Mount Souwaira) کی جانب 10,300فٹ جبکہ سطح مرتفع اینگو لالا (Plateau of Angolala) کی جانب تقریبا 11,000فٹ بلند ہے ۔ یہ پہاڑی سلسلہ سوئا (Shoa) کی جانب بھی تقریبا 10,000فٹ بلند ہے ۔
كچھ مشرقی اور افریقی ریاستیں قدیم ممالک کی مثل بعض خاص پہلووں کی منظر کشی کرتی دکھائی دیتی تھیں۔کش(Kush) نسل کو عام طور پر اگاس (Agas)اور خاص اشخاص کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور ریاست ابی سینیا (Abyssinia)کی بنیاد رکھنے والے لوگوں میں بھی ان کا شمار کیا جاتا تھا۔ مغرب کی جانب، انہوں نے قدیم دور سے تعلق رکھنےو الے شُمالی افریقہ کے مُقامی باشندوں اور سوڈان کے حبشیوں سے باہم شادیاں بیاہ رچائی ہوئیں تھیں، جو واضح طور پر نائیگر(Niger)، اور زیمبیائی (Zambesi)قبائل کے ساتھ اچھے تعلقات کی نشاندہی کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ مشرق میں سامی قوم، عرب اور جنوبی عرب کے قدیم باشندےجنہوں نے چوتھی صدی قبل مسیح میں بحر احمر کو عبور کیا اور افریقہ کے مکمل مشرقی حصہ پر اپنی حکومت قائم کرلی تھی ، انہوں نے مکمل طور پر ایک صوبے میں قیام کرلیا تھا جسے ان کے بعد امہارا (Amhara) کے نام سے موسوم کیا جا نے لگا تھا۔67
قدیم نیوبیا ئی(Nubian) خطہ موجودہ دور میں دریائے نیل کے قریب واقع مصر و سوڈان پر مشتمل علاقوں پر محیط تھا۔ابتدا میں اس علاقے میں نوبا نامی قبائل جنہیں کش(Kush) بھی کہا جاتا تھا،نے سکونت اختیا ر کی تھی۔انہوں نے وہاں ایک پھلتی پھولتی تہذیب کو جنم دیا تھا۔ وہاں کے باشندے قدیم نیوبیائی زبان استعمال کیا کرتے تھے ۔ 68
نیوبیا سب سے اہم سمجھی جانے والی سلطنت تھی۔احابش(حبشی لوگ) دوجماعتوں میں بٹ گئے تھے۔ ان میں سے پہلی جماعت جو نیل کے شرقی وغربی علاقے میں ٹھہری تھی وہ بعد میں دریائے نیل ہی کے کنارے مستقل سکونت پذیر ہوگئی تھی اور ان کی آبادیاں نیل کے بالائی علاقے میں مصروصعید اور اسوان کی قبطی آبادیوں کے قریب ترجاپہنچی،انہوں نے اپنی انہی آبادیوں میں سے ایک جگہ منتخب کر کے اسے اپنا دارالمملکت بنالیاتھا۔ یہ جگہ ایک چھوٹی بستی سے رفتہ رفتہ بڑھ کر ایک بہت بڑا شہر بن گئی اور وہ شہر دُنگلہ(Dongola) کہلانے لگا۔ انہی میں سے نوبہ زنگیوں کی دوسری جماعت نے پہلی جماعت سے الگ ہو کر اپنا نام "عَلوہ"رکھ لیا تھا۔ انہوں نے بھی بہت سی بستیاں بسائیں، پھر ایک بڑا شہر بسا کر اسے دارالمملکت بنالیا اور اس کا نام "سریہ"رکھ لیا تھا۔69
مملکت سوڈان شمال مشرقی افریقی خطہ میں واقع ہے۔ سوڈان کا نام عربی محاورہ بلاد السودان(حبشیوں کی سرزمین) سے اخذ کیا گیا تھا۔ ازمُنہ وُسطیٰ کے جغرافیہ دان انہیں آباد شدہ افریقی ممالک کے حوالے سے بیان کرتے ہیں جنہوں نے صحرائے اعظم کے جنوبی کناروں پر سکونت اختیار کی تھی۔ ایک صدی سے بھی زیادہ، پہلے سوڈان نے نوآبادیاتی خطہ زمین کی صورت اختیار کی اور ایک آزاد وخودمختار ریاست بن گیا ۔ اس کے پڑوس میں جنوبی سوڈان واقع تھا جو صحرائے اعظم کے جنوبی متصل علاقوں میں آباد کثیر قبائلی گروہوں کا دیس تھا۔ 70
پانچويں صدی قبل مسیح میں آخری دور ِحجر(Stone Age) کے لوگوں نے خشک صحرا سے وادئ نیل کی جانب ہجرت کی تھی جس میں انہوں نے زراعت اور کھیتی باڑی کا سامان بھی اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ ہجرت کے نتیجے میں مختلف سماج اورباہمی شادی بیاہ کے ذریعے جنیاتی مماثلت نے جنم لیا اور دیگر ممالک پر مذہبی معاشرتی برتری ہونے کے سبب 1700 قبل مسیح میں سلطنت کش (Kush) کا وجود ہوا جس کا درالخلافہ کرما (Kerma)کے مقام پر واقع تھا۔انسان شناسی اور آثاریاتی تحقیق اس امر کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ باقاعدہ خاندانی حکومتوں کے آغاز سے پہلے نیوبیا(Nubia) اور ناگادان (Nagadan) بلند مصر کے لوگ نسلی اور سماجی اعتبار سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھےاور یوں ایک ہی وقت میں 3300 قبل مسیح میں فرعونی بادشاہت کا نظام مرتب ہوا تھا۔ 71
شمالی سوڈان سے تعلق رکھنے والے ابتدائی تاریخی حوالے قدیم مصری ذرائع سے ہی سامنے آئے تھے۔ ان میں بلند مقام پر واقع سر زمین کو "کش "یا "مصیبت زدہ سرزمین "کے نام سے بیان کیا گیا تھا۔ ہزاروں سال سے بھی بعید 2700-2180 قبل مسیح میں موجود مصر کی قدیم سلطنت کا اپنے جنوبی پڑوسیوں پر حاکمانہ اور معنی خیز علامتی اثر قائم تھا، یہاں تک کہ اس کے بعد آنے والے ادوار میں بھی مصری سماج کا ترکہ اور اس کا مذہبی تعارف خاص اہمیت کا حامل رہا تھا۔
صدیاں گزرتی چلی گئیں اور ان کی تجارت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مصری تجارتی قافلے اناج و غلہ لے جاتے اور وہاں سے واپسی پر شہر اسوان سےہاتھی دانت، لوبان، کھالیں، عقیق احمر(ایک ایسا پتھر جس کی قیمت زیورات اور تیر کی نوک یا سر پیکان کے برابر ہوتی) لے کر لوٹتے تھےتاکہ دریا کے کنارے ایک طرف ہوکر اپنا تجارتی سامان جہاز پر لاد سکیں۔1720 قبل مسیحی دور کے آس پاس ہکسوس (Hyksos) نامی کنعان کے سامی خانہ بدوشوں نے مصر پر قبضہ کرلیا، ازمنہ وسطی کی حکومت کا خاتمہ کیا ، کش سے روابط ختم کروائے ا ور دریائے نیل کے ساتھ قائم قلعوں کو مسمار کردیا جن کو مصریوں نے پہلے اور دوسرے پانی کے جھرنے کے مابین موجود واوات(Wawat) نامی علاقے میں کانوں سے سونے کی روانی پر نظر رکھنے کے لیے تعمیر کروایا تھا۔مصریوں کی حکومت ختم ہوجانے کے بعد جو خلا پیدا ہوا اسے پُر کرنے کے لیے ثقافتی طور پر ایک جدا گانہ علاقائی کوشیائی سلطنت الکرماہ (Al-Karmah)کے مقام پر ابھر کر سامنے آئی، جہاں موجودہ دور میں دُنگلہ(Dongola)واقع ہے۔ 1570 قبل مسیح میں جب دوبارہ مصر نے ان علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی اور کش پر سیاسی اور عسکری برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، تو مصر کے شاہی افراد، مذہبی پیشوا ، تجار، اور ہنر مند و دستکار وں نے اسی مقام پر سکونت اختیا ر کرلی تھی۔مصری زبان تمام تر معاملات میں عام طور پر بول چال کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔
کثیر کشیائی باشندوں نے بھی مصری خداؤں کی عبادت کرنا شروع کردی تھی اور ان کے لیے گرجا گھروں کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ مصر کے معبد حکومتی سطح پر ہونے والی تمام مذہبی رسومات و تقریبات میں مرکز کی حیثیت اختیا رکر چکے تھے۔ بالآخرچھٹی صدی قبل مسیح میں عیسائی مذہب کی ترویج و اشاعت نے مصری فرعونی مذہب کوسوڈان سے ختم کردیا تھا۔72
سوڈانیوں کی نسل کی ابتداء کے حوالے سے تاریخ طبری میں منقول ہے کہ قوط بن حام بن نوح نے بخت بنت تاویل بن ترس بن یافث بن نوح سے شادی کی اس سے قوط کا ایک بیٹا قیط پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ یہی قبط تھا۔ کنعان بن حام بن نوح نے اریتل بنت بتاویل بن ترس بن یافث بن نوح سے شادی کی اس سے سیاہ رنگ کے بچے پیدا ہوئے جن کے نام توبہ،قرآن،زنج اور زغا وہ وغیرہ رکھ لیے گئے جو بڑے ہو کر سوڈان میں پھیلےاور ان سے ہی سوڈانی قوم وجود میں آئی۔73
دور بعید یعنی پتھر کے زمانے میں جو کم و بیش 10000 سے 2000 قبل مسیح پر مشتمل تھا، انسانی علاقوں کی تشکیل نو کے اولین ادوار سے تعلق رکھتا ہے، موجودہ دور میں نائجیریا کا تعلق بھی اسی مقام سے ہے۔ اس علاقے میں رہائش رکھنے والے ابتدائی باشندوں کی باقیات کے آثار ایوو الیرو (Iwo Eleru)چٹانی پناہ گاہ سے برآمد ہوئےتھے، ایوو الیرو (Iwo Eleru) چٹانی پناہ گاہ وہی مقام تھاجہاں آج جنوب مغربی سوڈان واقع ہے اور تاریخی حوالے سے 9000 قبل مسیحی دور پرانا ہے۔ اس علاقے میں کاشت کاری و کھیتی باڑی کے کام نے 4000 اور 1000 قبل مسیحی دور کے درمیان ترقی کی اور اسی کے ذریعے دیگر شعبہ جات میں بھی نائجیریا سےعروج حاصل کیا تھا، یعنی دیہات اور مختلف قبیلوں نے نائجیریا کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا تھا۔زراعت کا مطلب شکار اور غذا جمع کرنے کی دیگر سرگرمیوں سے کنارہ کَش ہونا اور خوراک کی ترسیل کے ایک مرکزی نظام کا مرتب کرنا ہے، یہی عمل لوگوں کو ایک جگہ مستقل طور پر مل جل کر رہنے کی راہیں کھولنے کا سبب بھی بنتا ہے۔74
ان علاقوں میں موجود قدیم ریاستیں موجود ہ نائجیریا ئی رقبہ کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھیں اور لا مرکزی نوعیت پر مشتمل تھیں اور یہاں موجود سیاسی نظام بے ربط اورنا پَيوَستَہ صورت اختیار کیا ہوا تھا۔اس نظام کو ابتدائی دور کے ماہرین لاقومیتی اور غیر ریاستی معاشرہ کہا کرتے تھے جو غیر منظم اور گمراہ کن درجہ بندی و قوانین کی جانب عکاسی کرتا تھا۔ حقیقت میں لا قومیتی عنصر سیاسی اثر و رسوخ کی کمی کے سبب پیدا ہوتا ہے اور یوں بد نظمی و انارکی وجود میں آتی ہے، جن کا نظارہ ان معاشروں میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ قوانین ، طور طریقے اور سیاسی تنظیم ان معاشروں میں انتشار کا شکار تھیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کی سیاسی طاقت و قوت دیہات اور قبیلوں تک ہی محدود رہتی اور اس سے باہر نہیں نکل پاتی تھی، حالانکہ ایک دوسرے سے ملتی جلتی معاشرتی شناخت کثیر دیہاتی گروہوں کو ایک دوسرے میں شامل ہونے میں مدد گار واقع ہوسکتی تھی۔تمام نائجیریائی معاشرے اولاً غیر منظم اور علیحدہ ریاستوں کی مانند انفرادی طور پر اپنے امور سرانجام دے رہے تھے۔نائجیریا کی درمیانی پٹی اور موجودہ دور کے جنوب مشرقی حصہ میں موجود کثیر معاشروں اور سماج نے غیر منظم ریاستی ڈھانچے کو اسی حالت پر برقرار رکھاجبکہ اس کے ارد گرد علاقوں میں مقیم افراد نے اس خطّہ کے دیگر علاقوں میں مضبوط ، مرکزی ریاستیں قائم کرلی تھیں۔75
اگبو (Igbo) معاشرے میں قائم دیہات میں سیاسی قوت اور اس کی دیکھ بھال عمر رسیدہ مذہبی پیشوا انجام دیا کرتے تھے۔ ان میں باپ کی طرف سے نسلی حصے سے وراثت پانے والے بڑے افراد کو سربراہ کے طور پر جانا جاتا تھا اور وہ سماج کے تمام تر اہم معاملات دیکھنے اور فیصلے کرنے کا ذمہ دار ہوا کرتے تھے۔ مختلف دیہاتی افراد ایک ہی بازار سے خریدو فروخت کیا کرتے اور وہی مقام مجتمع ہونے اور باہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے کی جگہ ہوا کرتی تھی۔دیہاتی سماج کے تمام تر افراد دیہاتی معاملات میں اپنی رائے رکھا کرتے تھے جبکہ دیہاتی سطح پر خفیہ انجمنیں اپنے دیہات کے مفاد ات کو مد نظر رکھتے ہوئے امور انجام دیا کرتی تھیں۔دیہاتی سطح پر لیے جانے والے فیصلے زبردستی نافذ نہیں کیے جاتے تھے ، گاؤں کا ہر فرد اس معاملے میں با اختیار تھا کہ چاہے تو دیہاتی شوری کے فیصلے پر عمل کرے یا اس کی پیروی نہ کرے، انہیں زبردستی اطاعت پر مجبور نہیں کیا جاتا تھا۔ہر دیہاتی گروہ کا نظام خود اختیاری طور پر کام کیا کرتا تھا؛ لیکن اس کے باوجود تمام دیہاتی انجمنیں اگبو (Igbo)قوم ہی تصور کی جاتی تھی، تمام دیہات ایک ہی زبان استعمال کیا کرتے ، ان کے مذہبی عقائد تقریباً ملتے جلتے اور اس کے علاوہ معاشرتی سرگرمیاں مثلاً شادی بیاہ، خفیہ انجمنوں کی رکن سازی اور دیوتاؤں سے پيش گوئیاں طلب کے لیے کی جانے عبادت ایک دوسرے میں یکساں تھیں۔اسی طرح کی انجمنیں دیگر غیر منظم سماج میں بھی موجود تھیں جیسےجنوب مشرقی خطہ میں اسوکو(Isoko)، ارہوبو (Urhobo)اور ابیبیو (Ibibio)اور درمیانی پٹی پرٹِو (Tiv)نامی متعدد معاشروں میں مختلف انجمنیں موجود تھیں۔ یوں پہلی ہزار سالہ عیسوی تاریخ کےمختلف ادوار میں متعدد معاشروں نے مل کر اس خطے میں ریاست کو قائم کرنے کے لیے کوششیں کیں اور اس کے لیے نظام کی بنیاد بھی رکھی تھی۔ 76
عہد آہن میں اگبو (Igbo)سماج کی اساسی معاشی سرگرمیوں میں رتالو(Yams) اور اروی (Cocoyams) کی کاشت کاری کا کام شامل تھا، اسی کی پیداوار پر ان کی معیشیت کا انحصار تھا۔ان دونوں فصلوں کی کاشت کاری نے اگبو (Igbo) سماج کے کام کرنے کے طریقہ کار کو مرتب کرنے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی جستجو کو پیدا کرنے میں مدد کی، مزید برآں ان میں معاشرتی درجہ بندی کو بڑھاوا دیا اور ان کے مختلف کاموں کو سرانجام دینےوالوں میں بھی تفریق کی تھی۔ روایتی طور پر ، رتالو وشکر قندی کی کاشت کاری اگبو س (Igbo)ماج کے اہم غذائی عنصر ہونے کی وجہ سے اہم فصل اور تمام کھیتیوں میں بادشاہ کا درجہ رکھتی تھیں۔ اگبوئی باشندے دیگر کاشت کی جانے والی فصلوں کے برعکس زیر زمین کاشت شدہ رتالوکو محفوظ کرکے سارا سال بطور غذا استعمال کیا کرتے تھے۔رتالو کی زیرِ زمین نباتیات ان کے پیداواری موسم مثلاً مارچ سے جون کےمہینوں کے علاوہ بہت اہمیت کے حامل ہوتے کیونکہ قحط کے ایام شروع ہوجاتے اور اسی کے ذریعے غذائی قلت(Unwu) کو پورا کیا جاتا تھا۔ 77مرد و زن تمام اگبو کی روایتی زرعی معیشیت میں کلیدی کردار اد اکرنے میں پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر بیویاں اپنے شوہر وں کے ساتھ رتالو کی نباتات کھیتوں میں لے کر جایا کرتیں اور مٹی میں اس کے پودے لگانے میں مدد کیا کرتی تھیں۔عورتوں پر بیلچے کی مدد سے کھیت کی نرائی کی ذمہ داری بھی عائد تھی تاکہ فصل حد سے زیادہ تجاوز نہ کرجائے۔زیادہ اہمیت کا حامل یہ امر ہے کہ اگبو قبائل وہی فصل کاشت کیا کرتے تھے جن کا خصوصی طور پر انہی سے تعلق ہوا کرتا تھا۔ان فصلوں کو "عورت فصل" کا نام دیا کرتے تھے اور اس میں بھنڈی کو بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ اگبو میں بھنڈی (Abelmochus Esculenta)کو بھی غذائی ضروریات کے لیے محفوظ رکھا جاتا تھا، اس کے علاوہ سیاہ مرچ، خربوزہ اور تین پتوں والا کچالو(Onu) بھی کاشت کیا جاتا تھا۔ 78
مقامی اور علاقائی کاروباری امور مذہبی ،سیاسی اور تجارتی لین دین کے حوالے سے مقدس مرکز میں سر انجام دیے جاتے تھے جس کا سربراہ زمین کی دیوی ایزیالا (Ezeala)کا مقدس مذہبی پیشوا ہوا کرتا تھا۔سرزمین اگبو (Igbo)قدیم بازار وں کو دیوی سے قریبی مناسبت کی وجہ سے "اہیا میو لا"( Ahia Muo Ala) یعنی زمین کی دیوی کا بازار کہا جاتا تھا۔ بازاروں کو ہفتہ وار آلا (Ala)کی تقریبات منعقد کرنے کے دوران لگایا جاتا تھا۔ آلا (Ala)ایک بڑا مذہبی تہوار تھا جس میں سماج کے تمام افراد شرکت کیا کرتے تھے۔ اسی لیے بازار کا دن ایک متبرک روز کی حیثیت رکھتا تھا۔79
نائجیریا کو کثیر آبادی اور معاشی سرگرمیوں کے سبب افریقہ کا عظیم خطہ بھی کہا جاتا تھا ۔ مملکت نائجیریا کو بین الاقوامی سلطنت کے طور پر دیکھا جاتا تھا کیونکہ اس میں 250 قبیلے آباد تھے، جن میں سے تین اہم اور بڑے قبائل تھے جن کے نام اگبو، ہاؤسا، اور یوروبا تھے۔ان قبیلوں میں 250 مختلف زبانیں بولی جاتیں اور یہ تینوں اپنی جداگانہ تہذیب و ثقافت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔اگر ہم صرف نائجیریا کے مختلف علاقوں کے خاندانی ، قانونی اور عدالتی نظام کو سمجھنے کے لیے اگبو(Igbo) پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں نسلی سلسلے میں وارث منتخب ہونے کا نظام رائج تھا۔اگبو کے باشندے دیہاتوں میں اپنی زندگی بسر کیا کرتے تھےاور ان کی پہچان اور رتبہ باپ دادا سے منسلک ہوا کرتا تھا۔ان کا معاشرہ آبائی وراثتی سلسلے کی پیروی کرتا تھا جس کا معنی یہ تھا کہ جب کسی عورت کی شادی ہوجاتی ، وہ اپنے والدین کا گاؤں چھوڑ کر اپنے شوہر کے گاؤں میں مستقل سکونت اختیار کرلیتی تھی۔
بڑے خاندان کے ساتھ رشتہ داری کے لیے خصوصی شرائط رکھی جاتی تھیں۔ یہی شرائط کسی شخص کے باپ اور والدین کی جانب سے دیگر رشتہ داروں کے تعارف کے لیے رکھی جاتی تھیں۔ بہن بھائیوں کی پہچان کے لیےنوا ننی/نوا ننا (nwa nne/nwa nna)شرط رکھی جاتی اور اسی طرح کی شرائط چچا زاد اور ماموں زاد بھائی بہنوں کے لیے بھی رکھی جاتی تھیں۔ ہر شخص کے کثیر ماں باپ ہوا کرتے تھے، کیونکہ ان لوگوں میں مختلف افراد سے جنسی تعلق قائم کرنے کا عام رواج تھا اور ان سے ہونے والی اولاد کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات بھی نہیں ہوا کرتی تھیں۔ 80 حرام کاری، زنا کاری اور مرد و زن کے ناجائز تعلقات ان کے معاشرہ میں عام تھے جو کہ بلا کسی حیل و حجت کے رائج تھے اور لوگ اس بات میں کوئی عیب اس لیے نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان کے اپنے تعلقات دوسروں کی عورتوں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا کرتے تھے جیسا کہ دوسروں کے خود ان کی عورتوں کے ساتھ تھے۔
جنوبی اگبو(Igbo) میں مقیم باشندوں کا تخلیق ِعالم کے متعلق نظریہ تین مختلف مکانی قوتوں پر مبنی تھا۔ ان کے نزدیک پہلی مکانی طاقت نے آسمان"ایلو اگوی" (Elu-igwe)کو گھیرا ہوا ہے، اور یہ اونچے خدا "چُکوو"(Chukwu) کا مسکن ہے، ان کا چُکوو (Chukwu) خدا کے بارے میں یہ عقیدہ تھا کہ یہ بارش، بجلی اور گھن گرج (Kamanu)کا دیوتا اور اس کے بجز دیگر متعدد دیوی دیوتاوں کا بھی خدا ہے۔ دوسری مکانی قوت "اووا "(Uwa)انسانوں کا مسکن ہے، اور اس میں چُکوو (Chukwu) کےماتحت کثیر دیوی دیوتا بھی رہتے تھے۔ مزید برآں شیطانی قوتیں بھی دوسری مکانی قوت میں رہتی ہیں لیکن ان کی پرستش نہیں کی جاتی ہے۔ تیسرا مکانی مسکن روحانی قوتوں"اعلی میو"(Ala Muo) کی جائے سکونت ہے، ان میں آباو اجداد کی روحیں رہتی ہیں، ان کا ایک خدا "چی" (Chi)بھی وہیں مقیم ہےاور اس کے علاوہ تیسرا مسکن شیطانی طاقتوں کا بھی ٹھکانا ہے۔ تینوں مکانی علاقے ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں لیکن خدا چُکوو (Chukwu) کو اگبو کے تمام دیوتاؤں کا حاکم مانا جاتاتھا، اس کے متعلق وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اسی نے اپنی شبیہ کے مطابق ایک مکمل اور بالکل درست دنیا تخلیق کی تھی۔ اگبو خدائی تخلیق کی کامل ومثالی دنیا اور انسانوں کی جانب سے خراب کردہ دنیا کے مابین تفریق کا بھی عقیدہ رکھتے تھے، ان کے نزدیک انسانوں نے "اعلی" خدا کی حرام کردہ مقدس قوانین اور اسلافی قاعدوں کی بے حرمتی کی ، جس کے نتیجے میں اچانک موت، غذائی قلت، قحط اور دیگرمصیبتیں اور تکالیف انسانوں پر آجاتی ہیں۔ ان کے یہ باطل عقائد اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے اندر آنے والے انبیاء اور مصلحین سے نہ تو کسی قسم کی ہدایت کا حصول کیا تھا بلکہ الٹا شیطانی ااور خود ساختہ عقائد کو اس انداز میں مروج کیا ہوا تھا کہ وہ نسل در نسل منتقل ہوکر لوگوں کے اندر حق کو ملتبس کیے رکھتے تھے۔
قدیم اگبو (Igbo) میں قائم سیاسی سماج کے دو درجات کے مابین فرق رکھنا ضروری ہے ، جس میں مختلف دیوتا اور اس کے انسانی نمائندے سیاسی مذہبی اقتدار کا نظام سنبھالتے تھے۔ ان میں سے پہلادرجہ خاندانی خونی رشتوں پر اور دوسرا نسبتاً چھوٹے علاقائی طبقے پر مشتمل تھا۔ خاندانی خونی درجے کو اوکپارا (Okpara)کہا جاتا تھاجو خاندانی آباوٴاجداد کے عملے "اوفو" (Ofo)پر مشتمل تھا، اور وہ خاندانی گروہ پرروحانی مسلمہ اثر ورسوخ رکھتے تھے۔ان کے رشتہ دار انہیں "اونیی نوےایزی" (onye nwe ezi)علاقے کے حکمران کا نام دیا کرتے تھے۔ اوکپارا (Okpara) اور اس کے رشتہ دار اپنے آباوٴاجداد "نڈیچے"(Ndiche)اور رتالو کی دیوی "نجوکو"(Njoku)، اور رتالو کی نئی فصل کی کٹائی سے پہلے اجلاس منعقد کرنے کی عام جگہ "اوو" (ovu)کے لیےقربانیاں بھی پیش کیاکرتے تھے۔وہ مذہبی طور پر علاقائی افعال کو دیکھنے والی اہم طاقت خدائے "اعلی ایزی "(Ala-ezi)کی عبادات کو ادا کرنے کا بھی خاص اہتمام کیا کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ علاقے کے دروازے پر تعینات روحانی طاقت "کمانو"(Kamanu)کی بھی پرستش کیا کرتے تھے، ان کے نزدیک کمانو دیوتا کے ذمہ علاقے اور اس میں مقیم افراد کو گناہوں اور شیطانی قوتوں سے بچانا تھا۔دیوی" ایزیالا (Ezeala)"چھوٹے علاقائی سطح پر تعینات دیوی دیوتاوٴں کی سربراہ تھی۔ وہ خاندانی ابویت و نسل کی کم درجے والی ریاست "اوفو اعلی"(Ofo Ala)کے اسلافی ارکان کا اجلاس منعقد کرواتی اور اس کی سربراہی کرتی تھی۔ اسے پورے سماج اور اس کی پوری زمین پر روحانی برتری اور اس میں عمل دخل کرنے کی اجازت تھی ،اسی کے سبب"اونیے نوی اعلی" (Onye Nwe Ala)یعنی" زمین کی مالکن" کا نام دیا گیا تھا۔دیوی "ایزیالا"ہفتہ وار لگنے والے بازار میں پیش کی جانے والی "آلا" (Ala) نامی منتی قربانی کی بھی ضامن تھی اور ساتھ ہی ساتھ دیوتا"آلا" (Ala) کے مقبرے" کے ارد گرد موجود "نجکو" اور "کمانو" دیوتاوٴں کےمقبروں کے لیے منعقد کی جانے والی عبادات کی بھی ذمہ دار تھی۔اسی طرح دیوی کی سالانہ اجتماعی عباداتی رسومات کے انتظامات کی صدارت کیاکرتی تھی۔ ان رسومات میں سماج کے "اوکپارا"، "ایزیجی" القاب کے افراد اور دیگر ارکان شمولیت اختیار کرتے تھے۔مزید برآں اگبو سماج یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ دیوی "ایزیالا" ہر مہینےمٹی میں چھپے ہوئے متعدد بے پھول پودوں کے پتوں کو توڑا کرتی تاکہ اپنی سماجی قمری جنتری میں سالانہ طور پر منعقد ہونے والے بڑے رسمی تہواروں کے لیے تاریخ کو معین کرسکے۔ 81
قدیم نائجیریا میں اوکپارا (Okpara) اور ایزیالا (Ezeala) کی مذہبی علامات "اوفو"(Ofo) اور "اوفو اعلی" (Ofo Ala)تھیں، ان کے ذریعے قانونی اور عدالتی نظام کو قوت عطاکی جاتی تھی۔ مثال کے طور پر ، اوکپارا (Okpara) اور اس کا مقررہ علاقہ اور اس کے خاندانی سربراہان کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ اپنے خونی رشتہ داروں کی شادی بیاہ و پیدائش کی تقاریب، اور مردے کی آخری رسومات کے لیے قانون سازی کرسکیں۔ اس کے علاوہ وہ پرانی دشمنی و عداوت کی بنا پر طول پکڑ جانے والے جھگڑوں ، میراث، اور جا نشینی کے معاملات میں ثالثی کا اور پنچائیت میں فیصلہ کروانے میں کردار ادا کیا کرتے تھے۔اسی طرح ایزیالا (Ezeala)دیوی دیہاتی سطح پر منعقد ہونے والے اجلاس کی صدارت کیا کرتی تھی۔ ان مجالس کا انعقاد سیاسی و مذہبی اور کارباری مرکز عام پر کیا جاتا تھاجسکو امالا کہا جاتا تھا اور امالا کے اجلاس میں اوکپارا، ازیجی لقب کے حامل مرد، ڈیبیا یعنی"ادویات اور پیش بینی کرنے والے مرد"، اور معاشرے کے تمام دیگر بالغ مرد حضرات شرکت کیا کرتے تھے۔وہ اس اجلاس میں باہم جھگڑے سلجھایا کرتے اور قانون تشکیل دیا کرتے تھے۔ ایسے اہم قوانین جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری سمجھے جاتے تھےانہیں "اوفو اعلی" کے ساتھ مل کر مزید مستحکم کیا جاتا اور انہیں پَروہِتی منظوری کے ساتھ نافذ العمل کیا جاتا تھا۔
"آلا "کے مذہبی قوانین کی خلاف ورزی ناگوار حرکت اور مکروہ فعل "ایرو، آلا، الو"(Iru Ala, Alu)تصور کیا جاتا تھا اور ایسے افعال کو سماج کےمذہبی توازن کو برباد کرنا تصور کیا جاتا تھا۔گناہ گار یا قانون شکن کو لائق سزاوار اور مجرم ٹھہرایا جاتا تاکہ زمین کی دیوی کا قہر و غضب نہ بڑھ جائے۔چینوا اچیبیز (Chinua Achebe’s)ان سنگین اور شدید سزاؤں کے متعلق تفصیل فراہم کرتا ہے جو "اوکونکوو "(Okonkwo)نامی جرم کے ارتکاب پر دی جاتی تھی،جس میں اگر کوئی شخص "آلا" کے حرام کردہ قوانین کی خلاف ورزی کرتا پایا جائے اور وہ اس طرح کہ مردے کی آخری رسومات میں حادثاتی طور پر اپنے خونی رشتہ دار کو قتل کردےتو بطور سزا مجرم کا علاقہ اور رتالو (Yam) کے کھیت تباہ وبرباد کردیے جاتےاور اسے خاندان کے ساتھ سات سال کے لیے جلا وطن کردیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ "آلا" کے قوانین صرف انسانوں کے لیے نہیں بنائے گئے تھے بلکہ جانوروں اور زمین پر پھلنے پھولنے والی دیگر مخلوقات کو بھی اپنے لپیٹ میں لےلیا کرتے تھے۔82 آلا اور اس کی مثل جو دیگر چھوٹے چھوٹے قوانین افریقہ میں رائج تھے وہ انسان کے لیے بہت حد تک غیر مناسب اس لیے بھی تھے کہ ان کے اندر وہ فکری اغلاط اور شعور کی کمزوریاں موجود تھی جو ہر انسان کے بنائے ہوئے قانون میں بالعموم پائی جاتی ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں یقینا انسان کے استحصال کا ہونا اور کمزور طبقہ کے ساتھ زیادتی کا ہونا ایک لازمی امر تھا جو افریقی قانون میں بھی موجود تھا۔
افریقہ کے شمالی خطوں میں قدیم دور سے جداگانہ تہذیبیں اور ثقافتیں موجو د تھیں۔اس کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا ایک دوسرے سے متفرق ہونا تھا کیونکہ افریقہ کے زمینی خدوخال طبعی طور پر ایک دوسرے سے مختلف تھے۔افریقہ کا شمالی خطہ بلند زمینوں پر مشتمل تھاجو مشرق سے ڈھلان کی شکل میں کھڑی عمودی چٹانوں کی حدود سےگھرا ہوا تھا اور اس میں "دناکل " (Danakil)کے نشیبی علاقے اور بحر احمر بھی شامل تھے۔مغرب میں موجود ممالک بلندی سے مزید ڈھلان کی جانب وادئ نیل کے وسیع میدان تک پہنچتے، لیکن یہ تمام خطہ "تاکازے" (Takezze)اور دیگر نیل کے قبائل پر مشتمل مزید مختلف ناہموار اور سنگلاخ زمینی علاقوں میں منقسم تھا ۔ شمالی علاقے بلندی سے نشیب کی جانب جاتے ہوئےزمینی خطوں پر مشتمل تھے، یہ زمینی خطہ آگے بڑھتے ہوئے بتدریج مزید بنجر اور خشکی والے علاقوں کی جانب اپنی حدود تک پہنچ جاتاتھاجس طرح سوڈانی نشیبی علاقے بحر احمر کے ساحل پر سمٹ کر ایک مقام پر ختم ہوجاتے تھے۔صرف جنوبی علاقے ہی وسیع وعریض بلند زمینوں پر مشتمل تھےجو چلتے چلتے مغربی سرحد کے قریب ایتھوپیائی سطح مرتفع کے علاقوں اور نیل ازرق کا منبع اور ایتھوپیا کی سب سے بڑی جھیل"ٹانا "سےجا ملتے تھے۔ شمالی سطح مرتفعی پر مشتمل علاقوں کا وسیع و عریض حصہ مغرب اور دریائے نیل کی جانب جاتی ہوئی پانی کی موریوں کی جانب جھکا ہوا تھا جس کے نتیجے میں نشیبی علاقوں اور وادیوں پر مشتمل ایک بہت بڑا پھیلا ہو اجال بن جاتا جو خطہ کے باہمی روابط بڑھنے میں بڑی رکاوٹ تھا۔83
اس خطہ زمین کے زیادہ تر باشندے کھیتی باڑی کے ذریعے اپنے غذائی اور معاشی معاملات کا نظام چلایا کرتے تھے، جس میں فصل کی کاشت کاری کرنے والے اور مال مویشیوں کے چرواہے دونوں شامل تھے۔ علاوہ ازیں اس کے ذریعے جنگلی وسائل کو جن میں جانور اور سبزیاں دونوں شامل تھے، جمع کیا کرتے جو اپنی اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ کھوتے جارہے تھے۔ یہ عمل اس وجہ سے کیا جاتا تھا کیونکہ اقلیت میں موجود افراد کی معاشی سرگرمیاں جداگانہ طرز کی تھیں ، ان میں سے کچھ گلہ بانی کرتے اور بعض جنگل میں شکار کیا کرتے تھے۔ ان علاقوں میں خاندانی روابط اور گفتگو کے لیے استعمال ہونے والی مختلف زبانوں کو "افروایشیائی زبانیں " کہا جاتا تھا۔ 84
قدیم افریقی بر اعظم کثیر تہذیبو ں اور ثقافتوں کا دیس تھا۔ تمام تہذیبیں جداگانہ طرز پر اپنا نظام چلا رہی تھیں اور ہر ایک اپنا منفرد و جدا گانہ ثقافتی، عدالتی، مذہبی، معاشرتی اور معاشی نظام اور پہچان رکھتی تھیں۔ لیکن ان تمام تہذیبوں میں بہت قلیل ایسی تھیں جو وقت کے ساتھ اپنے وجود اور اپنی سماجی رسومات کے ساتھ باقی رہ پائیں،اور کثیر ایسی تہذیبیں تھیں جو تاریخ کے بھنور میں گم ہوکر رہ گئیں ۔ان کی تباہی اور گمنامی کی بنیادی وجہ وسائل کی کمی نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کا نظام زندگی دیگر قدیم دور کی ترقی یافتہ اور اپنے وقت کی عظیم تہذیبی طاقتوں کی مانند دنیاوی خواہشات اور شیطانی عبادات پر مشتمل تھا جس میں شرک،جھوٹے خداؤں کی عبادت اور رب العالمین کے بارے میں غلط اعتقادات رکھنا تھا۔اس کے ساتھ مزید ان لوگوں میں زناکاری کا عام رواج، غلاموں اور کمزور وں کا استحصال اور اس کے علاوہ دیگر کثیر برے اعمال شامل تھے۔
سچائی یہ ہے کہ ایسا نظام جو ربانی سچائی کی بنیاد پر قائم ہو تہذیب سے تہی دامن، وحشی لوگوں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود بھی صدیوں تک قائم و دائم اور اپنی پختہ شناخت رکھتا ہے ۔ چونکہ قدیم افریقی تہذیبی نظام عدم مساوات اور ناانصافی پر مشتمل تھا، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنا وجود قائم رکھنے میں مکمل طور پرناکام ہوگیا تھا۔جس طرح کئی دوسرے ایسے سماج تھے جو تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنی پہچان بھی کھو چکے ہیں اور جو باقی بچ بھی گئے ہیں صرف نامکمل اور ناقص شکل و صورت میں ہی نظر آتے ہیں۔اسکے برعکس جو نظام ہائے زندگی وحی الہی اور نبوی فیض سے منور رہے وہ اپنی تمام تر ظاہری کمزرویوں اور اپنے ماننے والوں کی عملی و اخلاقی کمزوریوں کے باوجود بھی آج تک نا صرف قائم و دائم ہے بلکہ روز اول کی مثل زندہ اور تازہ ہے جن کی مثال یہود و نصاریٰ کی صورت میں آج بھی دیکھی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیمات اور وحی الہی کو بلا شبہ ترک بھی کیا اور ملتبس بھی کیا ۔ اس کے باوجود ان کے ماننے والے آج بھی بےشمار لبرلز، سیکیولر ز، دہریوں اور مشرکین سے منفرد نظر آتے ہیں اور اس کی واحد وجہ وہ نور ہدایت ہے جو وحی کی صورت میں ان کی اساس میں شامل اور عامل رہا ہے۔