encyclopedia

مسجد قباء کی تعمیر

Published on: 12-Nov-2025
image
قُباء میں آمد:8 ربیع الاوّل، نبوت کے چودھویں (14)سال آپ ﷺ قباء تشریف لائے۔پہلی تعمیر:اوّلین مہاجرین نے قباء میں قیام کے دوران مسجدِ قباء کی تعمیر کی اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا۔دوسری تعمیر:تحویلِ قبلہ کے بعد آپ ﷺ نے از سر نو اس کی تعمیر فرمائی۔مسجدِ قبا کی زمین کا انتخاب:اللہ کے ھکم سے نبی کریم ﷺ نے اونٹنی کی مدد سے زمین کا احاطہ فرمایا، پھروہ خطہ مالک سے خرید لیا گیا۔مسجدِ قبا کی برکات:نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس مسجد میں ادا کی جانے والی نماز عمرے کے برابر ہے۔
LanguagesEnglishEspanolPortugueseDutch

حضرت محمد مصطفیٰSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب مکہ سے یثرب کی جانب ہجرت فرمائی تو دورانِ سفر 4 روز کے لئے قباء کے علاقے میں قیام فرمایا۔ 12یہ اجلالِ نزول آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اعلانِ نبوت کے چودھویں سال، پیر کے دن، 8 ربیع الاول کو بمطابق 23 ستمبر، 622 عیسوی کو فرمایا۔ 3 اس وقت قباء اور اس کے اطراف میں بسنے والےقبائل نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا پُر تپاک استقبال کیا اور اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کے یہاں قیام فرمائیں لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے قیام کے لیے كلثوم بن ہِدم بن امرئ القيس بن الحارث کے گھر کا انتخاب فرمایا جن کا تعلق قبیلہ بنی عمر بن عوف سے تھا۔ 4آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قبا ء میں قیام کے دوران كلثوم بن ہِدم کے گھر کے علاوہ حضرت سعد بن خیثمہRadi Allah Anho کے گھر پر بھی لوگوں سے ملاقاتیں فرمایا کرتے تھے۔ 5 حضرت ابوبکر صدیقRadi Allah Anhoجو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ اس سفر میں ہم رکاب تھے ان کا قیام حضرت خبیب بن اساف Radi Allah Anhoکے گھر پر تھا اور ایک قول کے مطابق آپRadi Allah Anhoحضرت خارجہ بن زیدRadi Allah Anhoکے گھر پر مقیم ہوئے۔ 6

قبا ء میں نمازوں کی ادائیگی

حضرت محمد مصطفیٰSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قبا ء میں پہنچنے سے پہلے کئی مہاجرین وہاں تشریف لا چکے تھے۔ مزید یہ کہ حضرت مصعب بن عمیرRadi Allah Anhoکی کوششوں سے قبا ء اور یثرب میں کئی لوگ دائرہ اسلام میں بھی داخل ہو چکے تھے۔ان مسلمانوں نے اپنی نمازوں اور عبادات کی ادائیگی کے لیے مساجد کی تعمیرات بھی کر لی تھیں چنانچہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam قبا ء تشریف لائے تو پہلے سے ہی ایک مسجد وہاں پر بنی ہوئی تھی جس میں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے نماز ادا فرمائی۔اس واقعے کا ذکر حضرت جابر Radi Allah Anho اس طرح بیان فرماتے ہیں :

لبثنا بالمدينة قبل أن يقدم النبي صلى اللّٰه عليه وسلم بسنتين، نعمر المساجد، ونقيم الصلاة. 7
ہم رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مدینہ منورہ تشریف لانے سے دو برس قبل اس طرح رہتے تھے کہ ہم اس قیام کے دوران مساجد کی تعمیر کیا کرتے تھے اور وہاں نماز قائم کیا کرتے تھے۔

احمد بن يحیٰ بلاذری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:

وكان من تقدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى المدينة، بعد أبى سلمة بن عبد الأسد، ومن نزلوا عليه بقباء، بنوا مسجدا يصلون فيه، والصلاة يومئذ إلى بيت المقدس، فجعلوا قبلته إلى ناحية بيت المقدس، فلما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم صلى بهم فيه.8
وہ لوگ جو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے پہلے اور ابو سلمہ بن عبد الاسد کے بعد مدینہ کی طرف آئے، وہ قبا ء میں آباد ہوئے۔ انہوں نے وہاں ایک مسجد بنائی اور اس میں نماز ادا کی۔ اس وقت ہم نے بیت المقدس (یروشلم) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تشریف لائے تو اس مسجد میں ہی ہمارے ساتھ نماز ادا کی۔

یہاں پہنچ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنی نمازوں کی ادائیگی یروشلم میں واقع بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے فرمائی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بیت المقدس کے رخ پر نماز کی ادائیگی کا یہ حکم اللہ تعالی نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی ہجرت سے3 برس قبل مکۃ المکرمہ میں دیا تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس وقت بیت المقدس کے رخ پر نماز کی ادائیگی اس طرح فرمایا کرتے تھے کہ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے بیت اللہ ہوتا تھا اور بیت اللہ کو بیچ میں رکھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بیت المقدس کے رخ پر اپنی نمازوں کو ادا کیا کرتے تھے 9اسی لیے مشرکین مکہ نے نماز کے دوران آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سمتِ قبلہ کی تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ قبا ء میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نماز کی اس طور پر ادائیگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہاں مہاجرین نے پہلے سے ہی مسجد کی تعمیر کر رکھی تھی جبکہ مسجد قبا ء بعد میں خود آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنے دست مبارک سے بمع صحابہ کرامRadi Allah Anhum کی جماعت کے تعمیر فرمائی۔

مسجد قبا ء کی زمین

جب اہل قبا ء نے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے یہ درخواست کی کہ وہ قبا ء میں خود اپنے دست مبارک سے مسجد کی تعمیر فرمائیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے وہاں بیٹھے لوگوں کو حکم دیا کہ ان میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر اونٹ پر سوار ہو جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق Radi Allah Anho اونٹ پر سوار ہوئے لیکن وہ اونٹ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ پھر حضرت عمر Radi Allah Anhoنےبھی اس اونٹ پر تشریف فرما ہوکر کوشش فرمائی لیکن اس اونٹ نے کوئی حرکت نہیں کی۔ پھر حضرت علیRadi Allah Anhoاس اونٹ پر سوار ہوئے تو وہ اونٹ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے جب یہ دیکھا تو ارشاد فرمایا:

أرخ زمامها وابنوا على مدارها فإنها مأمورة.10
(اے علی!) اس (اونٹنی) کی رسی کو چھوڑ دو اور اسکے( گھومنے سے بن جانے والے) حلقے میں مسجد بناؤ کیونکہ یہ (اللہ کے حکم کی) پابند ہے۔

چنانچہ مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کا ٹکڑا مختص کر لیا گیا اور اسے اس کے مالک کلثوم بن ہِدم سے قیمت دے کر خرید لیا گیا۔

مسجد قبا ء کی دوبارہ تعمیر

مسجد قبا ء کو دوبارہ از سر نو اس وقت تعمیر کیا گیا جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کے قبلہ کو بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھیر دیا۔اس حوالہ سےحضرت ابو سعید خدری Radi Allah Anhoکی مندرجہ ذیل روایت میں یہ وضاحت موجود ہے :

لما صرفت القبلة إلى الكعبة أتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم - مسجد قباء فقدم جدار المسجد إلى موضعه اليوم وأسسه.11
جب کعبہ کی سمت میں قبلہ تبدیل کیا گیا تور سول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسجد قبا ء تشریف لائے اور مسجد کی دیوار کو اس دن اپنے مقام سے آگے بڑھایا اور اس کی نئی بنیاد رکھی۔
اس حوالے سے دوسری روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :
وفى هذه السنة كان تجديد بناء مسجد قباء روى عن أبى سعيد الخدرى قال لما صرفت القبلة الى الكعبة اتى رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلم مسجد قباء فقدم جدار المسجد الى موضعه اليوم وأسسه بيده وحوّل قبلته الى جهة الكعبة وكانت الى جهة بيت المقدس ونقل رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلم وأصحابه الحجارة لبنائه.12
اسی سال مسجد قبا ء کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی۔ حضرت ابو سعید خدری Radi Allah Anhoسے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جب قبلہ کعبہ کی طرف تبدیل کیا گیا تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس علاقے کی طرف تشریف لے گئے جہاں پر آج مسجد قبا ء کی دیواریں موجود ہیں اور اس کی بنیاد رکھی، اور اپنا رخ کعبہ کی طرف بدل دیاجبکہ اس کا رخ پہلے بیت المقدس کی طرف تھا۔ صحابہ کرام نے مسجد کی بنیاد میں پتھر رکھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیروی کی۔

چنانچہ مستند روایات کے مطابق آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسجد قبا ء کی بنیاد ہجرت کے 16 یا 17 ماہ بعد رکھی کیونکہ مسلمانوں کا نماز کی ادائیگی کے لیے قبلہ اسی وقت تبدیل ہوا تھا۔مسجد قبا ء کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے مزید تفصیلات اس روایت میں ملتی ہیں:

أنه صلى اللّٰه عليه وسلم لما أراد بناءه قال: يا أهل قباء ائتوني بأحجار من الحرة، فجمعت عنده أحجار كثيرة.13
جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسجد قبا ء کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : کہ اے قبا ء والوں مجھے حرہ سے پتھر لاکر دو ،تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس بہت سارے پتھر جمع کردیے گئے۔

جہاں تک مسجد قبا ء کا بیت اللہ کی سمت میں ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ خود حضرت جبرائیل Alaihis Salamکی نشاندہی پر اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کی سمتِ قبلہ کو متعین فرمایا جس کی وجہ سے اس مسجد کا رخِ قبلہ سب سے زیادہ درست ہے، جیسا کہ روایت میں مذکور ہے:

أن جبرائيل عليه السلام هو الذي أشار للنبي صلى اللّٰه عليه وسلم إلى موضع قبلة مسجد قباء. 14
حضرت جبرئیل Alaihis Salamنے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے لیے مسجد قبا ء کے قبلہ کی سمت کی نشاندہی فرمائی ۔

اسی حوالے سے دوسری روایت میں آتا ہے:

إن جبريل عليه السلام هو يؤم الكعبة قالت: فكان يقال: إنه أقوم مسجد قبلة.15
جبرئیل Alaihis Salamبیت اللہ کی طرف نشاندہی فرمارہے تھے۔ (حضرت شموس بنت نعمانRadi Allah Anha فرماتی ہیں) قبلہ کے اعتبار سے یہ سب سے زیادہ درست سمت والی مسجد ہے۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مسجد قبا ء کی سمتِ قبلہ کو متعین فرمانے کے بعد اپنے صحابہ کرامRadi Allah Anhumکے ساتھ اس کی تعمیرات کا آغاز فرمایا جس کا ذکر درج ذیل حدیث میں ملتا ہے :

بنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مسجد قباء وقدم القبلة إلى موضعها اليوم، وقال جبريل يؤم بي البيت.16
رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دوبارہ مسجد قبا ء کی تعمیر فرمائی اور قبلہ کو اپنی (پرانی) جگہ سے آگے کردیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam (اس موقع پر) فرمارہے تھے کہ جبرئیل Alaihis Salam ( تعین سمتِ قبلہ کے بارے میں ) میری رہنمائی کررہے ہیں۔

اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے:

أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حين أسسه كان هو أول من وضع حجرا في قبلته ثم جاء أبو بكر بحجر فوضعه ثم جاء عمر بحجر فوضعه إلى حجر أبي بكر ثم أخذ الناس في البنيان.17
جب نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مسجد قبا کی بنیاد رکھ رہے تھے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبلہ (خانہ ءِ کعبہ) کی سمت میں پتھر رکھے، پھر (حضرت) ابوبکرRadi Allah Anhoایک پتھر لے کر آئے اور اسے آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی پیروی کرتے ہوئے اسی سمت میں رکھا۔ پھر (حضرت) عمر Radi Allah Anhoایک پتھر لے کر آئے اور اسے(حضرت) ابو بکر Radi Allah Anhoکی متابعت میں رکھا۔ پھر دوسرے لوگ اس میں شامل ہوئے اور اس کی بنیاد رکھی۔

اس حوالہ سے ایک اور روایت حضرت شموس بنت نعمان Radi Allah Anhaسے منقول ہے، وہ فرماتی ہیں:

نظرت إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حين قدم، ونزل وأسس هذا المسجد، مسجد قباء، فرأيته يأخذ الحجر - أو الصخرة - حتى يصهره الحجر، وأنظر إلى بياض التراب على بطنه وسرته، فيأتي الرجل من أصحابه ويقول: بأبي وأمي يا رسول اللّٰه، أعطني أكفك، فيقول: «لا خذ حجرا مثله» حتى أسسه....18
میں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف دیکھا، جب آپ (قبا ء) تشریف لائے، (آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) اترے اور مسجد قبا ء کی بنیاد رکھی، تو میں نے آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) کو پتھر یا چٹان اٹھاتے دیکھا یہاں تک کہ جب آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) نے پتھر اپنے قریب کیا تو میں نے مٹی کی سفیدی آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) کے پیٹ پر دیکھی ، ایک شخص صحابہ کرام میں سے آیا اور کہنے لگا: میرے ماں باپ آپ(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) پر قربان ہوں مجھے دیں تاکہ یہ پتھر میں اٹھاؤں ،تو آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) نے فرمایا: نہیں بلکہ (تم بھی)اسی طرح دوسرا پتھر اٹھا کر لاؤ ،یہاں تک کہ آپ (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ) نے اپنا والا پتھر بنیاد میں رکھ دیا۔

مسجد قبا ء کی برکات

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس شخص کے لیے جو اس مسجد میں ا ٓکر نماز ادا کرتا ہے بڑی رحمتوں، برکتوں اور اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:

صلاة في مسجد قباء كعمرة.19
مسجد قبا ء میں نماز (ادا کرنا) ایک عمرہ کے برا بر ہے۔

دوسری روایت میں یوں منقول کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:

من تطهر في بيته، ثم أتى مسجد قباء، فصلى فيه صلاة كان له كأجر عمرة.20
جوشخص اپنے گھر سے پاک صاف ہوکر نکلا پھر مسجد قبا ء آیا اور اس میں نماز ادا کی تو وہ نماز اس کے لیے عمرہ جتنے اجر کے برابر ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت میں آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا:

....في ذاك خير كثير يعني مسجد قباء.21

ترجمہ: (اللہ تعالی نے) اس مسجد میں بہت زیادہ خیر رکھی ہے ،یعنی مسجد قبا ء میں۔

سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شخص جو اس مسجد میں جا کر نماز کی ادائیگی کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتیں اور اجر و ثواب موجود ہے۔


  • 1  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 494
  • 2  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1996م، ص: 263
  • 3  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 191
  • 4  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، القاھرۃ، مصر، 1955م، ص: 492- 493
  • 5  أبوالفداء إسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-2، مطبوعۃ: عيسى البابي الحلبي، القاهرة، مصر، 1976م، ص: 270
  • 6  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 266
  • 7  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 76
  • 8  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1996م، ص: 263-264
  • 9  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 502
  • 10  محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-3، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 268
  • 11  ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 188
  • 12  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس ﷺ، ج-1، مطبوعة: دار صادر، بيروت، لبنان، د۔ت۔ط، ص: 368
  • 13  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص: 76
  • 14  أبوالفداء إسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-2، مطبوعۃ: عيسى البابي الحلبي، القاهرة، مصر، 1976م، ص: 293
  • 15  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 802، ج-24، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 318
  • 16  أبو زید عمرزيد الشهير بابن شبة النمیری، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ، ج-1، مطبوعۃ: طبع علی نفقۃ سید حبیب محمود احمد، جدہ، السعودیہ، 1399ھ، ص: 51
  • 17  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام، ج-4، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 154
  • 18  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی،المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 802، ج-24، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 318
  • 19  أبو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجۃ القزوینی، سنن ابن ماجہ، حدیث: 1411، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:249
  • 20  ایضاً، حدیث: 1412، ص: 250
  • 21  ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 11178، ج-17، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 272

Powered by Netsol Online