حضرت محمد مصطفیٰ
نے جب مکہ سے یثرب کی جانب ہجرت فرمائی تو دورانِ سفر 4 روز کے لئے قباء کے علاقے میں قیام فرمایا۔ 12یہ اجلالِ نزول آپ
نے اعلانِ نبوت کے چودھویں سال، پیر کے دن، 8 ربیع الاول کو بمطابق 23 ستمبر، 622 عیسوی کو فرمایا۔ 3 اس وقت قباء اور اس کے اطراف میں بسنے والےقبائل نے آپ
کا پُر تپاک استقبال کیا اور اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ آپ
ان کے یہاں قیام فرمائیں لیکن آپ
نے اپنے قیام کے لیے كلثوم بن ہِدم بن امرئ القيس بن الحارث کے گھر کا انتخاب فرمایا جن کا تعلق قبیلہ بنی عمر بن عوف سے تھا۔ 4آپ
قبا ء میں قیام کے دوران كلثوم بن ہِدم کے گھر کے علاوہ حضرت سعد بن خیثمہ
کے گھر پر بھی لوگوں سے ملاقاتیں فرمایا کرتے تھے۔ 5 حضرت ابوبکر صدیق
جو آپ
کے ساتھ اس سفر میں ہم رکاب تھے ان کا قیام حضرت خبیب بن اساف
کے گھر پر تھا اور ایک قول کے مطابق آپ
حضرت خارجہ بن زید
کے گھر پر مقیم ہوئے۔ 6
حضرت محمد مصطفیٰ
کے قبا ء میں پہنچنے سے پہلے کئی مہاجرین وہاں تشریف لا چکے تھے۔ مزید یہ کہ حضرت مصعب بن عمیر
کی کوششوں سے قبا ء اور یثرب میں کئی لوگ دائرہ اسلام میں بھی داخل ہو چکے تھے۔ان مسلمانوں نے اپنی نمازوں اور عبادات کی ادائیگی کے لیے مساجد کی تعمیرات بھی کر لی تھیں چنانچہ جب آپ
قبا ء تشریف لائے تو پہلے سے ہی ایک مسجد وہاں پر بنی ہوئی تھی جس میں نبی کریم
نے نماز ادا فرمائی۔اس واقعے کا ذکر حضرت جابر
اس طرح بیان فرماتے ہیں :
لبثنا بالمدينة قبل أن يقدم النبي صلى اللّٰه عليه وسلم بسنتين، نعمر المساجد، ونقيم الصلاة. 7
ہم رسول اللہکے مدینہ منورہ تشریف لانے سے دو برس قبل اس طرح رہتے تھے کہ ہم اس قیام کے دوران مساجد کی تعمیر کیا کرتے تھے اور وہاں نماز قائم کیا کرتے تھے۔
احمد بن يحیٰ بلاذری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:
وكان من تقدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى المدينة، بعد أبى سلمة بن عبد الأسد، ومن نزلوا عليه بقباء، بنوا مسجدا يصلون فيه، والصلاة يومئذ إلى بيت المقدس، فجعلوا قبلته إلى ناحية بيت المقدس، فلما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم صلى بهم فيه.8
وہ لوگ جو رسول اللہسے پہلے اور ابو سلمہ بن عبد الاسد کے بعد مدینہ کی طرف آئے، وہ قبا ء میں آباد ہوئے۔ انہوں نے وہاں ایک مسجد بنائی اور اس میں نماز ادا کی۔ اس وقت ہم نے بیت المقدس (یروشلم) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی۔ جب آپ
تشریف لائے تو اس مسجد میں ہی ہمارے ساتھ نماز ادا کی۔
یہاں پہنچ کر آپ
نے اپنی نمازوں کی ادائیگی یروشلم میں واقع بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے فرمائی۔ آپ
کو بیت المقدس کے رخ پر نماز کی ادائیگی کا یہ حکم اللہ تعالی نے آپ
کی ہجرت سے3 برس قبل مکۃ المکرمہ میں دیا تھا۔ آپ
اس وقت بیت المقدس کے رخ پر نماز کی ادائیگی اس طرح فرمایا کرتے تھے کہ آپ
کے سامنے بیت اللہ ہوتا تھا اور بیت اللہ کو بیچ میں رکھ کر آپ
بیت المقدس کے رخ پر اپنی نمازوں کو ادا کیا کرتے تھے 9اسی لیے مشرکین مکہ نے نماز کے دوران آپ
کی سمتِ قبلہ کی تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ قبا ء میں آپ
کی نماز کی اس طور پر ادائیگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہاں مہاجرین نے پہلے سے ہی مسجد کی تعمیر کر رکھی تھی جبکہ مسجد قبا ء بعد میں خود آپ
نے اپنے دست مبارک سے بمع صحابہ کرام
کی جماعت کے تعمیر فرمائی۔
جب اہل قبا ء نے آپ
سے یہ درخواست کی کہ وہ قبا ء میں خود اپنے دست مبارک سے مسجد کی تعمیر فرمائیں تو آپ
نے وہاں بیٹھے لوگوں کو حکم دیا کہ ان میں سے کوئی بھی کھڑے ہو کر اونٹ پر سوار ہو جائے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق
اونٹ پر سوار ہوئے لیکن وہ اونٹ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ پھر حضرت عمر
نےبھی اس اونٹ پر تشریف فرما ہوکر کوشش فرمائی لیکن اس اونٹ نے کوئی حرکت نہیں کی۔ پھر حضرت علی
اس اونٹ پر سوار ہوئے تو وہ اونٹ اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ آپ
نے جب یہ دیکھا تو ارشاد فرمایا:
أرخ زمامها وابنوا على مدارها فإنها مأمورة.10
(اے علی!) اس (اونٹنی) کی رسی کو چھوڑ دو اور اسکے( گھومنے سے بن جانے والے) حلقے میں مسجد بناؤ کیونکہ یہ (اللہ کے حکم کی) پابند ہے۔
چنانچہ مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کا ٹکڑا مختص کر لیا گیا اور اسے اس کے مالک کلثوم بن ہِدم سے قیمت دے کر خرید لیا گیا۔
مسجد قبا ء کو دوبارہ از سر نو اس وقت تعمیر کیا گیا جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کے قبلہ کو بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھیر دیا۔اس حوالہ سےحضرت ابو سعید خدری
کی مندرجہ ذیل روایت میں یہ وضاحت موجود ہے :
لما صرفت القبلة إلى الكعبة أتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم - مسجد قباء فقدم جدار المسجد إلى موضعه اليوم وأسسه.11
جب کعبہ کی سمت میں قبلہ تبدیل کیا گیا تور سول اللہاس حوالے سے دوسری روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں :مسجد قبا ء تشریف لائے اور مسجد کی دیوار کو اس دن اپنے مقام سے آگے بڑھایا اور اس کی نئی بنیاد رکھی۔
وفى هذه السنة كان تجديد بناء مسجد قباء روى عن أبى سعيد الخدرى قال لما صرفت القبلة الى الكعبة اتى رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلم مسجد قباء فقدم جدار المسجد الى موضعه اليوم وأسسه بيده وحوّل قبلته الى جهة الكعبة وكانت الى جهة بيت المقدس ونقل رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلم وأصحابه الحجارة لبنائه.12
اسی سال مسجد قبا ء کی دوبارہ بنیاد رکھی گئی۔ حضرت ابو سعید خدریسے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: جب قبلہ کعبہ کی طرف تبدیل کیا گیا تو رسول اللہ
اس علاقے کی طرف تشریف لے گئے جہاں پر آج مسجد قبا ء کی دیواریں موجود ہیں اور اس کی بنیاد رکھی، اور اپنا رخ کعبہ کی طرف بدل دیاجبکہ اس کا رخ پہلے بیت المقدس کی طرف تھا۔ صحابہ کرام نے مسجد کی بنیاد میں پتھر رکھ کر آپ
کی پیروی کی۔
چنانچہ مستند روایات کے مطابق آپ
نے مسجد قبا ء کی بنیاد ہجرت کے 16 یا 17 ماہ بعد رکھی کیونکہ مسلمانوں کا نماز کی ادائیگی کے لیے قبلہ اسی وقت تبدیل ہوا تھا۔مسجد قبا ء کی دوبارہ تعمیر کے حوالے سے مزید تفصیلات اس روایت میں ملتی ہیں:
أنه صلى اللّٰه عليه وسلم لما أراد بناءه قال: يا أهل قباء ائتوني بأحجار من الحرة، فجمعت عنده أحجار كثيرة.13
جب رسول اللہنے مسجد قبا ء کی تعمیر کا ارادہ فرمایا تو ارشاد فرمایا : کہ اے قبا ء والوں مجھے حرہ سے پتھر لاکر دو ،تو آپ
کے پاس بہت سارے پتھر جمع کردیے گئے۔
جہاں تک مسجد قبا ء کا بیت اللہ کی سمت میں ہونے کا تعلق ہے اس کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ خود حضرت جبرائیل
کی نشاندہی پر اللہ کے رسول
نے اس کی سمتِ قبلہ کو متعین فرمایا جس کی وجہ سے اس مسجد کا رخِ قبلہ سب سے زیادہ درست ہے، جیسا کہ روایت میں مذکور ہے:
أن جبرائيل عليه السلام هو الذي أشار للنبي صلى اللّٰه عليه وسلم إلى موضع قبلة مسجد قباء. 14
حضرت جبرئیلنے رسول اللہ
کے لیے مسجد قبا ء کے قبلہ کی سمت کی نشاندہی فرمائی ۔
اسی حوالے سے دوسری روایت میں آتا ہے:
إن جبريل عليه السلام هو يؤم الكعبة قالت: فكان يقال: إنه أقوم مسجد قبلة.15
جبرئیلبیت اللہ کی طرف نشاندہی فرمارہے تھے۔ (حضرت شموس بنت نعمان
فرماتی ہیں) قبلہ کے اعتبار سے یہ سب سے زیادہ درست سمت والی مسجد ہے۔
آپ
نے مسجد قبا ء کی سمتِ قبلہ کو متعین فرمانے کے بعد اپنے صحابہ کرام
کے ساتھ اس کی تعمیرات کا آغاز فرمایا جس کا ذکر درج ذیل حدیث میں ملتا ہے :
بنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم مسجد قباء وقدم القبلة إلى موضعها اليوم، وقال جبريل يؤم بي البيت.16
رسول اللہنے دوبارہ مسجد قبا ء کی تعمیر فرمائی اور قبلہ کو اپنی (پرانی) جگہ سے آگے کردیا اور آپ
(اس موقع پر) فرمارہے تھے کہ جبرئیل
( تعین سمتِ قبلہ کے بارے میں ) میری رہنمائی کررہے ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے:
أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حين أسسه كان هو أول من وضع حجرا في قبلته ثم جاء أبو بكر بحجر فوضعه ثم جاء عمر بحجر فوضعه إلى حجر أبي بكر ثم أخذ الناس في البنيان.17
جب نبی کریممسجد قبا کی بنیاد رکھ رہے تھے تو آپ
وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قبلہ (خانہ ءِ کعبہ) کی سمت میں پتھر رکھے، پھر (حضرت) ابوبکر
ایک پتھر لے کر آئے اور اسے آپ
کی پیروی کرتے ہوئے اسی سمت میں رکھا۔ پھر (حضرت) عمر
ایک پتھر لے کر آئے اور اسے(حضرت) ابو بکر
کی متابعت میں رکھا۔ پھر دوسرے لوگ اس میں شامل ہوئے اور اس کی بنیاد رکھی۔
اس حوالہ سے ایک اور روایت حضرت شموس بنت نعمان
سے منقول ہے، وہ فرماتی ہیں:
نظرت إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم حين قدم، ونزل وأسس هذا المسجد، مسجد قباء، فرأيته يأخذ الحجر - أو الصخرة - حتى يصهره الحجر، وأنظر إلى بياض التراب على بطنه وسرته، فيأتي الرجل من أصحابه ويقول: بأبي وأمي يا رسول اللّٰه، أعطني أكفك، فيقول: «لا خذ حجرا مثله» حتى أسسه....18
میں نے رسول اللہکی طرف دیکھا، جب آپ (قبا ء) تشریف لائے، (آپ
) اترے اور مسجد قبا ء کی بنیاد رکھی، تو میں نے آپ (
) کو پتھر یا چٹان اٹھاتے دیکھا یہاں تک کہ جب آپ (
) نے پتھر اپنے قریب کیا تو میں نے مٹی کی سفیدی آپ (
) کے پیٹ پر دیکھی ، ایک شخص صحابہ کرام میں سے آیا اور کہنے لگا: میرے ماں باپ آپ(
) پر قربان ہوں مجھے دیں تاکہ یہ پتھر میں اٹھاؤں ،تو آپ (
) نے فرمایا: نہیں بلکہ (تم بھی)اسی طرح دوسرا پتھر اٹھا کر لاؤ ،یہاں تک کہ آپ (
) نے اپنا والا پتھر بنیاد میں رکھ دیا۔
آپ
نے اس شخص کے لیے جو اس مسجد میں ا ٓکر نماز ادا کرتا ہے بڑی رحمتوں، برکتوں اور اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ آپ
نے ارشاد فرمایا:
صلاة في مسجد قباء كعمرة.19
مسجد قبا ء میں نماز (ادا کرنا) ایک عمرہ کے برا بر ہے۔
دوسری روایت میں یوں منقول کہ آپ
نے ارشاد فرمایا:
من تطهر في بيته، ثم أتى مسجد قباء، فصلى فيه صلاة كان له كأجر عمرة.20
جوشخص اپنے گھر سے پاک صاف ہوکر نکلا پھر مسجد قبا ء آیا اور اس میں نماز ادا کی تو وہ نماز اس کے لیے عمرہ جتنے اجر کے برابر ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت میں آپ
نے ارشاد فرمایا:
....في ذاك خير كثير يعني مسجد قباء.21
ترجمہ: (اللہ تعالی نے) اس مسجد میں بہت زیادہ خیر رکھی ہے ،یعنی مسجد قبا ء میں۔
سے واضح ہوتا ہے کہ وہ شخص جو اس مسجد میں جا کر نماز کی ادائیگی کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتیں اور اجر و ثواب موجود ہے۔