encyclopedia

تحویل قبلہ

Published on: 30-Oct-2025

تحویلِ قبلہ

ابتدائی قبلہ:مکہ مکرمہ میں واقع بیت اللہ (کعبۂ مشرفہ)۔قبلہ کی تبدیلی:بیت المقدس کی طرف۔بیت اللہ کی طرف قبلہ کی واپسی:مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری کے تقریباً 16 سے 17 ماہ بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبلہ دوبارہ بیت اللہ کی طرف موڑ دیا گیا۔دائمی اثرات:کعبہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا دائمی قبلہ قرار پایا؛ اور مسجدِ قبلتین اس واقعے کی یادگار بن گئی۔
LanguagesEnglishPortugueseDutch

قبلہ سے مرادوہ سمت ہے جس کی طرف رخ کر کے مسلمان اپنی عبادات بالخصوص نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔1زمین پر انسانی تاریخ کے آغاز کے ساتھ اہل ایمان کا کعبہ یعنی سمتِ عبادت مکۃ المکرمہ میں واقع بیت اللہ ہی رہا ہے 2جسے سب سے پہلےملائکہ نے، پهر حضرت آدم sym-9 اور پھر حضرت ابراہیم واسماعیل sym-10 نے مختلف ادوار میں تعمیر فرمایا ۔ 3تمام انبیائے کرام sym-3 ، ان کی اولادوں اوران کے متبعین نےہمیشہ بیت اللہ ہی کی سمت رخ کرکےاپنی عبادات کو ادا کیا۔ 4حضرت محمد مصطفیٰ sym-1بھی ابتداء میں اللہ کے اس ہی گھر کی طرف رخ کر کےنماز ادا فرمایا کرتے تھےلیکن ہجرتِ مدینہ سے پہلےاللہ تعالی ٰکے مطابق آپ sym-1اور تمام مسلمانوں نےاپنی عبادت کے رخ بیت اللہ سے تبدیل کرکے بیت المقدس(یروشلم)کی طرف پھیر دیا۔5یہ سلسلہ16 یا 17ماہ تک جاری رہا 6یہاں تک کہ دوبارہ مسلمانوں کو بیت اللہ کی سمت عبادت کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔

مکّہ میں حضرت محمد مصطفیٰ sym-1کا قبلہ

حضرت محمد مصطفیٰ sym-1نے مکّۃ المکرّمہ میں نمازوں کی ادائیگی شروع کی تو آپ sym-1کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر کےاپنی عبادات ادافرمایاکرتے تھے۔ 10 سال تک آپ sym-1نے بیت اللہ کے رخ پراپنی نمازوں کو ادا کیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سےآپsym-1نےاپنا رخ بیت المقدس کی طرف کر کے اپنی نمازوں کو ادا فرمایا۔ طبرانی sym-4 نقل کرتے ہیں:

صلى النبي أول ما صلى إلى الكعبة ثم صرف إلى بيت المقدس وهو بمكة فصلى ثلاث حجج ثم هاجر فصلى إليه بعد قدومه إلى المدينة ستة عشر شھرا ثم وجھه اللّٰه إلى الكعبة. 7
رسول اللہ sym-1نے پہلے بیت اللہ کی طرف رخ انور کر کے نماز ادا کی اس کے بعدمکّہ ہی میں 3 سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد 16 ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ(sym-1 )کا رخ بیت اللہ کی طرف پھیر دیا ۔

اس روایت کے مطابق تحویل قبلہ کا واقعہ اعلانِ نبوت کے دسویں سال پیش آیاجبکہ آپ sym-1نےمدینہ منورہ ہجرت اعلانِ نبوت کے تیرہویں سال میں فرمائی۔ آپ sym-1کے سفر ِمعراج کا واقعہ بھی اعلانِ نبوت کے دسویں سال کا ہے جب آپsym-1پہلے بیت المقدس تشریف لے گئے اور پھر وہاں سےآسمانوں کی طرف محو سفر ہوئے۔چنانچہ یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ sym-1 کو اس سفرِ معراج کے دوران یا اس کے فوراً بعد ہی تحویل قبلہ کا حکم دیا۔تحویل قبلہ کے واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئےقرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ1428
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں''قل اللہ المشرق والمغرب''کی تشریح کرتے ہوئے حضرت ابن عباس sym-8فرماتے ہیں :

قل( يا محمد )للّٰه المشرق(الصلاة إلى الكعبة )والمغرب( الصلاة التي صليتم إلى بيت المقدس كلاهما بأمر اللّٰه .9
آپ کہہ دیں( اے محمد sym-1) مشرق اللہ ہی کےلیے ہے، یعنی) بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا(اورمغرب ''بھی اللہ ہی کے لیے ہے'')(یعنی) وہ نمازیں جو آپ(sym-1 )نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ادا کی ہیں،دونوں اللہ پاک کے حکم سے تھیں۔

اس بات کی مزید تائیدامام بیضاویsym-410اور امام زمحشریsym-411بھی فرماتے ہیں۔ تاہم امام بیضاوی sym-4اس میں مزید یہ اضافہ کرتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا حکم اس لیے دیا گیا تھاتاکہ اس وقت کے یہودیوں کی تالیف قلب کر کے انہیں اسلام کو قبول کرنے پر آمادہ کیا جاسکے12کیو نکہ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان مبلغین کو دوسرے قبائل اور شہروں کی طرف بھیجا جارہا تھا۔ خصوصاً یثرب کی طرف کئی مسلمان مبلغین کو روانہ کیا گیا تھا جس کے ارد گرد یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے۔

جب آپ sym-1نے اپنارخ انور بیت المقدس کی طرف تبدیل فرمایاتو اس بات کا شدید خطرہ تھاکہ مشرکین مکّہ اس پرنہایت سخت انداز سے معترض ہوں گےتاہم انہوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يصلي وهو بمكة نحو بيت المقدس، والكعبة بين يديه، وبعد ما هاجر إلى المدينة ستة عشر شھرا، ثم صرف إلى الكعبة. 13
رسول اللہsym-1مکّہ مکرّمہ میں بھی بیت المقدس کی طرف رخ انور کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے حالانکہ بیت اللہ آپ (sym-1 ) کے سامنے ہوتا تھا،اور ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں بھی 16 ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی پھر آپ (sym-1 ) کو بیت اللہ کی طرف عبادت کی ادائیگی کےلیے پھیر دیا گیا۔

اسی موقف کو امام بزار 14امام طبرانی 15امام بیہقی 16رحمۃ اللہ علیہم اور دوسرے محدثین نےبیان کیا ہے۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ sym-1اپنی نماز میں بیت المقدس کا رخ کرتے ہوئے بیت اللہ کو بھی اپنے سامنے رکھا کرتے تھے اسی لیے کسی بھی مشرک یا غیر مسلم نے تحویل قبلہ کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔

برا ءبن معرور کی مزاحمت

بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر جب انصار کے سردار براء بن معرور بن خنسہ انصار مدینہ کے ساتھ آپ sym-1 سے ملاقات کرنے کے لیے ا ٓرہے تھے تو انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے اپنی پشت یا کمر کو بیت اللہ کی طرف کرنے سے انکار کردیا اور نہ ہی اپنی عبادت کے لئے بیت اللہ کے علاوہ کسی دوسری سمت میں عبادت کرنے پر راضی ہوئے۔وہ لوگ جو اس سفر میں ان کے ساتھ تھے انہوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بیت المقدس کی سمت میں ہی عبادت کریں لیکن براء نے ان کے اس خیال کو مسترد کر دیا اور مسلسل بیت اللہ کے رخ پر اپنی نمازیں ادا فرمائیں جبکہ ان کے دیگر ساتھی اپنی نماز شام یعنی مغرب کے رخ پر بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کرتے رہے۔ جب یہ لوگ مکّہ پہنچے تو برا ءبن معرور نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ انہوں نے جو کچھ اس سفر کے دوران کیا ہے اس پر انہیں تردد ہے جس پربھتیجے نے اپنے چچا کو یہ مشورہ دیا کہ انہیں آپ sym-1 کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا معاملہ پیش کر دینا چاہیے تاکہ وہ صحیح فیصلہ فرما سکیں۔ چنانچہ برا ءجب آپ sym-1 کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپsym-1نے ان کی پوری گفتگو سن کر انہیں یہ تنبیہ فرمائی کہ بہتر ہوتا کہ وہ اس موقع پر کچھ کہے بغیر خاموشی سے بیت المقدس کی سمت میں اپنی نمازوں کو ادا کرتے رہتے کیونکہ یہ رب تعالیٰ کا دیا ہوا حکم تھا۔ 17

ہجرت کے وقت مسلمانوں کا قبلہ

حضرت مصعب بن عمیر sym-5اور دوسرے مبلغین کی کوششوں اور کاوشوں سے اسلام یثرب اور اس کے مضافات میں تیزی سے پھیلنے لگا۔اسی طرح وہ مہاجرین جو آپ sym-1کے یثرب ہجرت فرمانے سے قبل یہاں تشریف لے آئے تھے انہوں نے مختلف مقامات پر مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا تھا تاکہ مسلمان وہاں ا ٓکر اپنی نماز ادا کر سکیں۔18ان مساجد کا رخ اس وقت بیت المقدس کی سمت پر تھا ۔ بلاذری لکھتے ہیں:

وكان من يقدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى المدينة، بعد أبى سلمة بن عبد الأسد، ومن نزلوا عليه بقباء، بنوا مسجدا يصلون فيه، والصلاة يومئذ إلى بيت المقدس، فجعلوا قبلته إلى ناحية بيت المقدس، فلما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم صلى بھم فيه.19
وہ لوگ جو رسول اللہ sym-1سے پہلے اور ابو سلمہ بن عبد الاسد کے بعد مدینہ کی طرف آئے اور قبا میں آباد ہوئے، انہوں نے وہاں ایک مسجد بنائی اور اس میں نماز ادا کی۔ اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی تو انہوں نے بھی اپنا قبلہ بیت المقدس کو بنایا۔ جب آپ sym-1وہاں تشریف لائے تو اس میں ان کے ساتھ نماز ادا کی۔

یہی وجہ تھی کہ ہجرت کے وقت مسلمان اپنی نمازوں میں بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ تقریبا 16 یا 17 ماہ تک جاری رہا جس کے بعد دوبارہ کعبۃ اللہ کو مسلمانوں کے لیے قبلہ قرار دیا گیا اور مسلمان کعبۃ اللہ کی سمت میں اپنی نمازیں ادا کرنے لگے۔20

نماز کے دوران تبدیلی قبلہ کا حکم

یروشلم میں واقع بیت المقدس کی سمت میں مسلمانوں نے تقریبا 16 یا17 ماہ تک اپنی نمازوں کو ادا کیا لیکن مسلمانوں کا یہ عمل یہودیوں کواسلام کی طرف مائل نہ کرسکا۔ 21آپ sym-1ان حالات میں بار بار آسمان کی طرف اپنی نظر مبارک اٹھا کراس بات کے خواہاںاور منتظر تھےکہ رب تعالیٰ ان کی سمتِ قبلہ بیت المقدس سےبیت اللہ کی طرف بدل دے۔اس حوالہ سے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ٰ نےارشاد فرمایا :

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ14422
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہواپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں۔

روایات میں اس بات کو صراحت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے کہ سمتِ قبلہ کی تبدیلی کا یہ عمل دوران نماز واقع ہوا۔آپ sym-1 اس وقت 4 رکعات والی نماز کی امامت فرما رہے تھے جن میں سے2 رکعت نمازادا کی جاچکی تھیں۔ ابتدائی2رکعتیں یروشلم میں واقع بیت المقدس کی سمت میں پڑھی جا چکی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کا سمتِ قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوگیاچنانچہ نماز کی بقیہ 2رکعتیں بیت المقدس کی سمت میں ادا کرنے کے بجائے کعبۃ اللہ کی سمت میں ادا کی گئیں۔ کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلیِ قبلہ کا حکم اللہ تعالیٰ نے ظہر کی نماز میں نازل فرمایاتھا 23جب کہ کئی مستندروایات کے مطابق قبلہ کی تبدیلی نماز عصر میں کی گئی تھی۔24اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تبدیلیِ قبلہ کا حکم نازل ہواتو یہودی اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی:

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ14225
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔

تحویل قبلہ کایہ واقعہ مسجد بنو سلمہ میں واقع ہوا جسے بعد میں مسجد قبلتین کا نام دیا گیا۔ 26اپنی حقیقت کے اعتبار سےتحویل قبلہ کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کا حکم اہل ایمان کےلیےایک بڑی آزمائش وامتحان کا معاملہ تھاجس پروہ نہایت ثابت قدمی کے ساتھ قائم ودائم رہےاورآزمائش کے اس مرحلہ پرنہایتکامیابی کے ساتھانہوں نےاپنے دین وایمان کی حفاظت فرمائی ۔ 27تمام صحابہ کرام نے بغیر کسی پس وپیش کے اس نازک ترین معاملہ میںنہ صرف خود اللہ اور اس کے رسول sym-1کی اطاعت واتباع کا حق ادا کیا بلکہ انہوں نےاس حکم کو آگے تک پہنچانے کاحق بھی ادا فرمایا ۔


  • 1  مولوی فیروز الدین، فیروز اللّغات اردو جامع، مطبوعہ: فیروز سنز، لاہور، پاکستان، ص: 948
  • 2  القرآن، سورۃ آل عمران 3: 96
  • 3  محمد بن أحمد القرشي العمري المعروف بابن الضياء، تاريخ مكة المشرفة والمسجد الحرام والمدينة الشريفة والقبر، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2004م،ص: 27-28
  • 4  أبو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البيان عن تأويل آي القرآن المعروف بتفسير الطبری، ج-2، مطبوعۃ: دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان، الجيزة، مصر، 2001م، ص: 673
  • 5  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 502
  • 6  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 40، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 10
  • 7  ابو الفضل أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1379ھ، ص: 502
  • 8  القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 142
  • 9  عبد الله بن عباس رضي الله عنهما،تنوير المقباس من تفسير ابن عباس (جمعه أبو طاهرالفيروزآبادى)، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، د۔ت۔ط۔، ص: 20
  • 10  ابو سعيد عبد الله بن عمر الشيرازي البيضاوي، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، مطبوعۃ: دار المعارف، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 108
  • 11  ابو القاسم محمود بن عمرو جار الله الزمخشري، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان، 1407ھ، ص: 198
  • 12  ابو سعيد عبد الله بن عمر الشيرازي البيضاوي، أنوار التنزيل وأسرار التأويل، مطبوعۃ: دار المعارف، بیروت، لبنان، 2013م، ص: 108
  • 13  ابو عبد اللہ احمد بن محمد الشیبانی، مسند الامام احمد بن حنبل، حدیث: 2991، ج-5، مطبوعۃ: مؤسسۃالرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 136
  • 14  ابو بكر أحمد بن عمرو العتكي المعروف بالبزار، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، حدیث:4825، ج-11، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009م، ص: 107
  • 15  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث: 11066، ج-11، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاہرۃ، مصر، 1994م، ص: 67
  • 16  ابو بكر احمد بن الحسين البيهقی، السنن الکبرٰی، حدیث: 2193، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص: 4
  • 17  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 119- 120
  • 18  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي، انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون ، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، البیروت، لبنان، 1427ھ، ص:76
  • 19  احمد بن يحى البلاذري، جمل من أنساب الأشراف، ج-1، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1996م، ص: 263-264
  • 20  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 40، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 10
  • 21  ایضاً
  • 22  القرآن، سورۃ البقرۃ2: 144
  • 23  أبو الفتح محمد بن أحمد ابن سيد الناس الربعي،عيون الأثر في فنون المغازي والشمائل والسير، ج-1، مطبوعۃ:دار القلم، بیروت، لبنان، 1993م،ص: 269
  • 24  محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 40، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 10
  • 25  القرآن، سورۃ البقرۃ 2: 142
  • 26  ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج-1، مطبوعۃ: دار الطباعۃ للنشر والتوضیع، الریاض،السعودیۃ، 2009م، ص: 457
  • 27  ایضاً، ص: 461

Powered by Netsol Online