قبلہ سے مرادوہ سمت ہے جس کی طرف رخ کر کے مسلمان اپنی عبادات بالخصوص نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔1زمین پر انسانی تاریخ کے آغاز کے ساتھ اہل ایمان کا کعبہ یعنی سمتِ عبادت مکۃ المکرمہ میں واقع بیت اللہ ہی رہا ہے 2جسے سب سے پہلےملائکہ نے، پهر حضرت آدم
اور پھر حضرت ابراہیم واسماعیل
نے مختلف ادوار میں تعمیر فرمایا ۔ 3تمام انبیائے کرام
، ان کی اولادوں اوران کے متبعین نےہمیشہ بیت اللہ ہی کی سمت رخ کرکےاپنی عبادات کو ادا کیا۔ 4حضرت محمد مصطفیٰ
بھی ابتداء میں اللہ کے اس ہی گھر کی طرف رخ کر کےنماز ادا فرمایا کرتے تھےلیکن ہجرتِ مدینہ سے پہلےاللہ تعالی ٰکے مطابق آپ
اور تمام مسلمانوں نےاپنی عبادت کے رخ بیت اللہ سے تبدیل کرکے بیت المقدس(یروشلم)کی طرف پھیر دیا۔5یہ سلسلہ16 یا 17ماہ تک جاری رہا 6یہاں تک کہ دوبارہ مسلمانوں کو بیت اللہ کی سمت عبادت کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔
کا قبلہحضرت محمد مصطفیٰ
نے مکّۃ المکرّمہ میں نمازوں کی ادائیگی شروع کی تو آپ
کعبۃ اللہ کی طرف رخ کر کےاپنی عبادات ادافرمایاکرتے تھے۔ 10 سال تک آپ
نے بیت اللہ کے رخ پراپنی نمازوں کو ادا کیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سےآپ
نےاپنا رخ بیت المقدس کی طرف کر کے اپنی نمازوں کو ادا فرمایا۔ طبرانی
نقل کرتے ہیں:
صلى النبي أول ما صلى إلى الكعبة ثم صرف إلى بيت المقدس وهو بمكة فصلى ثلاث حجج ثم هاجر فصلى إليه بعد قدومه إلى المدينة ستة عشر شھرا ثم وجھه اللّٰه إلى الكعبة. 7
رسول اللہنے پہلے بیت اللہ کی طرف رخ انور کر کے نماز ادا کی اس کے بعدمکّہ ہی میں 3 سال تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی۔ پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد 16 ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کی ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ(
)کا رخ بیت اللہ کی طرف پھیر دیا ۔
اس روایت کے مطابق تحویل قبلہ کا واقعہ اعلانِ نبوت کے دسویں سال پیش آیاجبکہ آپ
نےمدینہ منورہ ہجرت اعلانِ نبوت کے تیرہویں سال میں فرمائی۔ آپ
کے سفر ِمعراج کا واقعہ بھی اعلانِ نبوت کے دسویں سال کا ہے جب آپ
پہلے بیت المقدس تشریف لے گئے اور پھر وہاں سےآسمانوں کی طرف محو سفر ہوئے۔چنانچہ یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ
کو اس سفرِ معراج کے دوران یا اس کے فوراً بعد ہی تحویل قبلہ کا حکم دیا۔تحویل قبلہ کے واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئےقرآن کریم ارشاد فرماتا ہے:
سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ1428
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں''قل اللہ المشرق والمغرب''کی تشریح کرتے ہوئے حضرت ابن عباس
فرماتے ہیں :
قل( يا محمد )للّٰه المشرق(الصلاة إلى الكعبة )والمغرب( الصلاة التي صليتم إلى بيت المقدس كلاهما بأمر اللّٰه .9
آپ کہہ دیں( اے محمد) مشرق اللہ ہی کےلیے ہے، یعنی) بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا(اورمغرب ''بھی اللہ ہی کے لیے ہے'')(یعنی) وہ نمازیں جو آپ(
)نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ادا کی ہیں،دونوں اللہ پاک کے حکم سے تھیں۔
اس بات کی مزید تائیدامام بیضاوی
10اور امام زمحشری
11بھی فرماتے ہیں۔ تاہم امام بیضاوی
اس میں مزید یہ اضافہ کرتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا حکم اس لیے دیا گیا تھاتاکہ اس وقت کے یہودیوں کی تالیف قلب کر کے انہیں اسلام کو قبول کرنے پر آمادہ کیا جاسکے12کیو نکہ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان مبلغین کو دوسرے قبائل اور شہروں کی طرف بھیجا جارہا تھا۔ خصوصاً یثرب کی طرف کئی مسلمان مبلغین کو روانہ کیا گیا تھا جس کے ارد گرد یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے۔
جب آپ
نے اپنارخ انور بیت المقدس کی طرف تبدیل فرمایاتو اس بات کا شدید خطرہ تھاکہ مشرکین مکّہ اس پرنہایت سخت انداز سے معترض ہوں گےتاہم انہوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يصلي وهو بمكة نحو بيت المقدس، والكعبة بين يديه، وبعد ما هاجر إلى المدينة ستة عشر شھرا، ثم صرف إلى الكعبة. 13
رسول اللہمکّہ مکرّمہ میں بھی بیت المقدس کی طرف رخ انور کر کے نماز ادا کیا کرتے تھے حالانکہ بیت اللہ آپ (
) کے سامنے ہوتا تھا،اور ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں بھی 16 ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی پھر آپ (
) کو بیت اللہ کی طرف عبادت کی ادائیگی کےلیے پھیر دیا گیا۔
اسی موقف کو امام بزار 14امام طبرانی 15امام بیہقی 16رحمۃ اللہ علیہم اور دوسرے محدثین نےبیان کیا ہے۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ
اپنی نماز میں بیت المقدس کا رخ کرتے ہوئے بیت اللہ کو بھی اپنے سامنے رکھا کرتے تھے اسی لیے کسی بھی مشرک یا غیر مسلم نے تحویل قبلہ کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر جب انصار کے سردار براء بن معرور بن خنسہ انصار مدینہ کے ساتھ آپ
سے ملاقات کرنے کے لیے ا ٓرہے تھے تو انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے اپنی پشت یا کمر کو بیت اللہ کی طرف کرنے سے انکار کردیا اور نہ ہی اپنی عبادت کے لئے بیت اللہ کے علاوہ کسی دوسری سمت میں عبادت کرنے پر راضی ہوئے۔وہ لوگ جو اس سفر میں ان کے ساتھ تھے انہوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بیت المقدس کی سمت میں ہی عبادت کریں لیکن براء نے ان کے اس خیال کو مسترد کر دیا اور مسلسل بیت اللہ کے رخ پر اپنی نمازیں ادا فرمائیں جبکہ ان کے دیگر ساتھی اپنی نماز شام یعنی مغرب کے رخ پر بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کرتے رہے۔ جب یہ لوگ مکّہ پہنچے تو برا ءبن معرور نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ انہوں نے جو کچھ اس سفر کے دوران کیا ہے اس پر انہیں تردد ہے جس پربھتیجے نے اپنے چچا کو یہ مشورہ دیا کہ انہیں آپ
کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا معاملہ پیش کر دینا چاہیے تاکہ وہ صحیح فیصلہ فرما سکیں۔ چنانچہ برا ءجب آپ
کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ
نے ان کی پوری گفتگو سن کر انہیں یہ تنبیہ فرمائی کہ بہتر ہوتا کہ وہ اس موقع پر کچھ کہے بغیر خاموشی سے بیت المقدس کی سمت میں اپنی نمازوں کو ادا کرتے رہتے کیونکہ یہ رب تعالیٰ کا دیا ہوا حکم تھا۔ 17
حضرت مصعب بن عمیر
اور دوسرے مبلغین کی کوششوں اور کاوشوں سے اسلام یثرب اور اس کے مضافات میں تیزی سے پھیلنے لگا۔اسی طرح وہ مہاجرین جو آپ
کے یثرب ہجرت فرمانے سے قبل یہاں تشریف لے آئے تھے انہوں نے مختلف مقامات پر مساجد کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا تھا تاکہ مسلمان وہاں ا ٓکر اپنی نماز ادا کر سکیں۔18ان مساجد کا رخ اس وقت بیت المقدس کی سمت پر تھا ۔ بلاذری لکھتے ہیں:
وكان من يقدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم إلى المدينة، بعد أبى سلمة بن عبد الأسد، ومن نزلوا عليه بقباء، بنوا مسجدا يصلون فيه، والصلاة يومئذ إلى بيت المقدس، فجعلوا قبلته إلى ناحية بيت المقدس، فلما قدم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم صلى بھم فيه.19
وہ لوگ جو رسول اللہسے پہلے اور ابو سلمہ بن عبد الاسد کے بعد مدینہ کی طرف آئے اور قبا میں آباد ہوئے، انہوں نے وہاں ایک مسجد بنائی اور اس میں نماز ادا کی۔ اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی تو انہوں نے بھی اپنا قبلہ بیت المقدس کو بنایا۔ جب آپ
وہاں تشریف لائے تو اس میں ان کے ساتھ نماز ادا کی۔
یہی وجہ تھی کہ ہجرت کے وقت مسلمان اپنی نمازوں میں بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور یہ سلسلہ تقریبا 16 یا 17 ماہ تک جاری رہا جس کے بعد دوبارہ کعبۃ اللہ کو مسلمانوں کے لیے قبلہ قرار دیا گیا اور مسلمان کعبۃ اللہ کی سمت میں اپنی نمازیں ادا کرنے لگے۔20
یروشلم میں واقع بیت المقدس کی سمت میں مسلمانوں نے تقریبا 16 یا17 ماہ تک اپنی نمازوں کو ادا کیا لیکن مسلمانوں کا یہ عمل یہودیوں کواسلام کی طرف مائل نہ کرسکا۔ 21آپ
ان حالات میں بار بار آسمان کی طرف اپنی نظر مبارک اٹھا کراس بات کے خواہاںاور منتظر تھےکہ رب تعالیٰ ان کی سمتِ قبلہ بیت المقدس سےبیت اللہ کی طرف بدل دے۔اس حوالہ سے قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ٰ نےارشاد فرمایا :
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ14422
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہواپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیں۔
روایات میں اس بات کو صراحت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے کہ سمتِ قبلہ کی تبدیلی کا یہ عمل دوران نماز واقع ہوا۔آپ
اس وقت 4 رکعات والی نماز کی امامت فرما رہے تھے جن میں سے2 رکعت نمازادا کی جاچکی تھیں۔ ابتدائی2رکعتیں یروشلم میں واقع بیت المقدس کی سمت میں پڑھی جا چکی تھیں کہ اللہ تعالیٰ کا سمتِ قبلہ کی تبدیلی کا حکم نازل ہوگیاچنانچہ نماز کی بقیہ 2رکعتیں بیت المقدس کی سمت میں ادا کرنے کے بجائے کعبۃ اللہ کی سمت میں ادا کی گئیں۔ کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تبدیلیِ قبلہ کا حکم اللہ تعالیٰ نے ظہر کی نماز میں نازل فرمایاتھا 23جب کہ کئی مستندروایات کے مطابق قبلہ کی تبدیلی نماز عصر میں کی گئی تھی۔24اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب تبدیلیِ قبلہ کا حکم نازل ہواتو یہودی اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی:
سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ14225
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہیں، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
تحویل قبلہ کایہ واقعہ مسجد بنو سلمہ میں واقع ہوا جسے بعد میں مسجد قبلتین کا نام دیا گیا۔ 26اپنی حقیقت کے اعتبار سےتحویل قبلہ کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کا حکم اہل ایمان کےلیےایک بڑی آزمائش وامتحان کا معاملہ تھاجس پروہ نہایت ثابت قدمی کے ساتھ قائم ودائم رہےاورآزمائش کے اس مرحلہ پرنہایتکامیابی کے ساتھانہوں نےاپنے دین وایمان کی حفاظت فرمائی ۔ 27تمام صحابہ کرام نے بغیر کسی پس وپیش کے اس نازک ترین معاملہ میںنہ صرف خود اللہ اور اس کے رسول
کی اطاعت واتباع کا حق ادا کیا بلکہ انہوں نےاس حکم کو آگے تک پہنچانے کاحق بھی ادا فرمایا ۔