Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

قدیم روم کا سیاسی نظام

753 قبل مسیح میں بادشاہ رو مولس(Romulus) نے روم کی بنیاد ایک شہری ریاست کے طور پر رکھی۔مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے کرتے چند ہی صدیوں میں روم نےایک چھوٹی سی شہری ریاست سے بڑھ کر ایک وسیع و عریض بادشاہت کی شکل اختیار کر لی اور بالآخر یہ بادشاہت تاریخ عالم کی ایک بڑی سلطنت کے طور پر نمودار ہوئی جس کی سرحدیں یورپ، ایشیاء اور افریقہ کے بر اعظموں تک پھیل گئی تھیں۔ قدیم رومی سلطنت ادب ، فلسفہ ،فن سپاہ گیری اور نظام سیاست میں عروج کی بدولت دنیا کی ایک عظیم تہذیب کے طور پر نمایاں ہوئی ۔رومیوں نے اپنے طرز حکمرانی اور دیگر خوبیوں کے باعث آنے والی نسلوں کے لیے ایک جدید ریاست کا نظام پیش کیا جو تدریجاً ترقی کرتے کرتے جدید جمہوری نظام کی شکل میں مرتب ہوگیا تھا۔ تاہم روم میں مختلف اوقات میں الگ الگ سیاسی نظام نافذ العمل رہےجن میں ملوکیت یا بادشاہت، جمہوری اور شہنشاہیت کا نظام شامل تھا۔روم میں جمہوری نظام ایتھنز (Athens) سے آیا جو رومی بادشاہ کی مسلسل مداخلت کے باوجود روم میں نافذ کر دیا گیا۔ روم میں جمہوریت کی ناکامی کے بعد27 قبل مسیح میں شہنشاہیت کا نظام نافذ کردیا گیا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رومی نظام ِحکومت کی بنیاد مادہ پرستی اور طاقتور طبقے کے اقتدار پر استوارتھی جس کے باعث یہ نظام ایک عام شہری کی سوچ اور نظریات کی عکاسی نہیں کرتا تھا اوراسی وجہ سے یہ ناکام ہو گیا تھا۔

رومی سیاست کے نظام کو مندرجہ ذیل ادوارمیں تقسیم کیا جاتا ہے :

  1. دور ملوکیت (753 قبل مسیح تا 509 قبل مسیح)
  2. جمہوری دور حکومت (509 قبل مسیح تا 31 قبل مسیح )
  3. رومی شہنشاہت ( 27 قبل مسیح تا 476 عیسوی)

نظام ملوکیت

قدیم روم میں حکومت کی ابتدا بادشاہت کے نظام سے ہوئی۔ رومی بادشاہ مطلق العنان خود مختار حکمران تھے جن کی حکومت روم اور اس کے ملحقہ علاقوں پر تھی۔تاہم بادشاہی دور کی مدت اور بادشاہوں کی تعداد کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔1 تاہم رابرٹ فرینک لِن(Robert Franklin) کے بقول بادشاہت کے عہد کاآغاز روم کے قیام اور اس کے پہلے بادشاہ رو مولس(Romulus) کی753 قبل مسیح میں تخت نشینی سے ہوا تھا۔2رومی بادشاہ گورنروں اور ٹیکس جمع کرنے والے خاص عمال کو خودنامزد کرتے تھے۔بادشاہ کارِحکومت کی انجام دہی میں سینیٹرز کی مشاورت پر بھروسہ کرتے تھے تاہم ان سینیٹرز کے علاوہ بادشاہوں کے مشیر بھی ہوتےجنہیں روم کےمعززین میں سے منتخب کیا جاتا تھا۔ اتحادی ریاستیں اور شہر بھی نظمِ سلطنت کا حصہ ہواکرتی تھیں۔ بادشاہت کےدور میں قانون تحریری شکل میں موجود نہیں تھا تاہم قانون کا زیادہ تر مدار رسم و رواج ، روایات اور قدیم قوانین کی نظائر پر تھا۔3

روم کے دور ملوکیت میں سات حکمرانوں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے کوئی بھی سرزمین روم کا اصل باشندہ نہیں تھا۔4اس عہد کے بادشاہ صرف سیاسی سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ مذہبی قیادت بھی ان ہی کے ہاتھ میں ہوا کرتی تھی۔ مذہبی قائد کے طور پر ان کا کام شہر میں امن و امان قائم رکھنا اورشہر کو دیوتاوٴں کی خوشنودی دلانا بھی تھا۔اہل روم کا خیال تھا کہ دیوتا اشاروں میں پیغام دیتےہیں اوریہ اشارے اکثر گرج چمک، طوفانوں اور پرندوں کی اڑان کے انداز وغیرہ میں پنہاں ہوتے ہیں۔ روم میں بادشاہ ان غیبی اشاروں کی تعبیر کرتے اور کوئی بھی اہم کام ان اشاروں کی تعبیر کے بغیر نہیں کیا جاتا تھا۔5 ان کا یہ تصور تھا کہ بادشاہ کی ذات میں مذہبی، سیاسی اور عسکری قیادت جمع ہوجاتی ہےاس لیے وہ اپنی ذات کو دیوتاوٴں کی مانند سمجھنے لگے تھے۔اکثر وہ اپنے غلط اور قابل نفرت فیصلوں کو مذہب کے لبادے میں ملفوف کرکے پیش کرتے تھے ۔6

قدیم رومی یہ سمجھتے تھے کہ بادشاہ لامتناہی طاقت کا مالک ہے، اسےایمپیریم(Imperium) کہا جاتا تھا۔رومی اس لفظ سے ریاست میں نظم وضبط مراد لیتے تھے۔یہ رومیوں کے اس یقین کی ترجمانی کرتا تھا کہ جب ایک شخص کو ریاست کے ارکان کی طرف سے اقتدار سونپ دیا جائے تو اس کی مکمل اطاعت کی جائے۔بادشاہ کو منتخب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ اس عہدے کے لیےصحیح شخص کا انتخاب کیا جائے مگر جب ایک مرتبہ بادشاہ کا انتخاب ہو جاتا اور اسے بادشاہ تسلیم کر لیا جاتا تو اسے مکمل اختیار دے دیا جاتا تھا۔ بادشاہوں کے لامحدود اختیارات کا یہ عالم تھا کہ وہ رعایا کی زندگی اور موت کے بھی مالک سمجھے جاتے تھے۔7

روم سے بادشاہت کا خاتمہ 509 قبل مسیح میں ہوا تھا۔ روم کا آخری بادشاہ ٹارکوئن(Tarquin the Proud) جو کہ ایک مغرور و متکبر بادشاہ کے طور پر جانا جاتا تھا، جب وہ شہر سے باہرتھا اس وقت اس کی غیر موجودگی میں روم کی اشرافیہ پر مشتمل سینیٹ نے اس کے اقتدار کے خاتمے کا اعلان کر کےایک نئی حکومت قائم کردی جس کی بنیادجمہوری نظریات پر رکھی گئی تھی۔8

روم میں بادشاہی نظام کے دوران زنا، جنسی استحصال اور قتل کے ایسے سینکڑوں واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں جن میں خود بادشاہ ملوث تھے مگرچونکہ ان کے حکم اور فیصلے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا تھا اس لیے بادشاہوں کو کوئی روکنے والا نہ تھا۔ملوکیت کے ا س نظام کے خاتمے کا ذمہ دار آخری بادشاہ ٹارکوئن (Tarquin) تھا جس نے ظلم کی تما م حدیں پار کرلی تھیں۔اس نے ایک خوبصورت جوان عورت لوکریٹیا(Lucretia) کو بزور تلوار مجبور کیا کہ وہ اس کی جنسی خواہش کی تسکین کرے۔اس مقصد کے لیےاس نے لوکریٹیا(Lucretia) کو ڈرایادھمکایا کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اسے اور ایک غلام کو قتل کر کے ان دونوں پر زنا اور آپس میں ناجائز تعلقات کا الزام لگا دے گا۔بادشاہ کے خوف سے اس عورت نے اپنا آپ بادشاہ کے سپرد کردیا مگر بادشاہ کے جاتے ہی اس نے اپنے شوہر اور والد کو بادشاہ کے کرتوت کے بارے میں ا ٓگاہ کر دیااور بالآخرگہرے رنج اور بے بسی کے احساس سے مجبور ہو کر لوکریٹیا(Lucretia) نے دل میں خنجر گھونپ کر خود کشی کر لی۔ اس کے والد اور رشتہ داروں نے بادشاہ سے انتقام لینے کی قسم کھائی اور اس کی لاش کو کولاٹیا (Collatia) کے بازار میں لے گئے۔روم کے لوگوں نے جب حقیقت ِ حال سنی تو تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے افرادبادشاہ کے خلاف مشتعل ہو گئے ۔انہوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور بادشاہ کی معزولی کا مطالبہ کر دیا۔اس عوامی رد عمل کے نتیجے میں سینٹ نے 509 قبل مسیح میں بادشاہت کے نظام کا خاتمہ کر دیا تھا۔9

جمہوریت

یونانی تہذہب کے اثرات نے جب رومیوں کو سیاسی اور تمدنی شعور دیا تو انہوں نے رفتہ رفتہ جمہوری قدروں کی جانب قدم بڑھائے۔ بادشاہت کا رواج ختم ہوگیا تو اشرافیہ کی حکومت سینیٹ کے ذریعے قائم ہوگئی لیکن یہ طرزِحکومت بھی موزوں ثابت نہ ہوا اور شہر کے انتظامی معاملات میں خرابیاں پیدا ہوتی چلی گئیں۔ اس کا حل اشرافیہ کی حکومت نے یہ نکالا کہ جب شہر کے حالات زیادہ خراب ہوجاتے تو سینٹ ایک افسر مقرر کردیتی جسے آمر (Dictator) کہتے تھے جو چھ ماہ کے لیے روم کی تقدیر کا مالک بن جاتا تھا۔ اس 6 ماہ کے عرصے میں اگر اس کی کارکردگی تسلی بخش ہوتی تو اس کے عہدے کی معیاد بڑھادی جاتی اور اگر کارکردگی تسلی بخش نہ ہوتی تو اسے عہدے سےہٹا دیا جاتا تھا۔ پھر دو کونسلیں انتظامی امور انجام دیتیں جو سال بھر کے لیے تشکیل دی جاتی تھیں۔ ان کے پاس وسیع اختیارات ہوتے مگر کوئی غیر قانونی حرکت سرزد ہوتی تو سال گزرنے سے پہلے ہی ان کو توڑ دیا جاتا اور مقدمہ چلایا جاتا تاکہ جرم ثابت ہونے پر سزادی جائے۔ گویا مستقل ادارہ سینیٹ تھااوراس کا ممبر بننے کے لیے طبقہ اشرافیہ سے ہونا ضروری تھا۔10

چوتھی صدی قبل مسیح میں عوام نے بھی سینیڑچنے جانے کی دوڑ میں شمولیت کا مطالبہ کرنا شروع کردیا اور ایسی اسمبلی بنانے پر زور دیا جس میں عام لوگوں کی بھی نمائندگی ہو۔ ہر سال اسمبلی لوگوں کے معاملات کی نگہداشت کے لیے طبقہ اشرافیہ میں سے امید واروں کا چناؤ کیا کرتی تھی جنہیں ٹریبیونز(Tribunes) کہا جاتا تھا۔انہیں یہ اختیار تھا کہ ہر اس قانون کو روک سکیں جو عام عوام کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہو۔اسی دوران عام لوگوں نے بھی سینیٹر بننے کا حق حاصل کرلیا ۔یوں اگر ان میں سےکوئی امید وار الیکشن میں حصہ لینے کے لیے متعینہ آمدنی کے پیمانے پر پورا اترتا اور الیکشن میں کامیاب ہو جاتا تو اسے بھی حکومتی سفیر کے طور پر چن لیاجاتا تھا۔ 11

اس مطالبہ کے ماننے کے بعد عوام کی اسمبلی قائم ہوگئی جس نے ابتداء میں عوام کے مفادات میں قانون سازی کی اوربعد میں ان قوانین کا اطلاق تمام شہریوں پر ہونے لگا۔ اس طرح دو اسمبلیاں قائم ہوگئیں جن میں سے ایک امراء کی تھی اوردوسری عوام کی۔ رفتہ رفتہ قوانین بنانے کے تمام اختیارات عوام کی اسمبلی کو مل گئے اور اسے عوامی عدالت کی حیثیت بھی حاصل ہوگئی۔اسمبلیوں کے بارے میں لیزلی ایڈکنز (Lesley Adkins)رقم طراز ہے:

  رومی حکومت میں صرف مرد شہریوں کو قانون سازی اور الیکشن میں حکومتی وزراء کو ووٹ دینے کا اختیارحاصل تھا۔ووٹنگ کے مراحل عوامی اسمبلیوں میں منعقد ہوتے تھے جس کا رکن ہر شہری تھا۔ 139 قبل مسیح میں باقاعدہ خفیہ بیلٹ پیپرز(Ballet papers) متعارف نہیں ہوئے تھے۔ تب تک ووٹنگ کے مراحل سب کے سامنے زبانی رائے دہی سے ہی انجام پذیر ہوا کرتے تھے ۔ کل چار اسمبلیاں تھیں جن میں سے تین کو مشترکہ طور پر کمیٹیا (Comitia) سے موسوم کیا جاتا تھا جس کے معنی ٰ" تمام شہریوں، عام عوام اور حکومتی عہد داران کے اجتماع" کے تھےجبکہ اس اجتماع کی جگہ کمیٹیم(Comitium)کہلاتی تھی۔سینیٹرز کااسمبلی میں پہنچنے والےقوانین کی نوعیت پر مکمل کنٹرول ہوتا تھا۔اسمبلی کی کاروائی کے دوران کسی قسم کے اظہار خیال اور گفتگو کی اجازت نہیں تھی تاہم بعض اوقات ووٹنگ کا عمل شروع ہونے سے پہلے عام بات چیت ہوا کرتی تھی۔اس موقع پر موجود افراد میں مرد، عورتیں، غلام اور دوسرے ملکوں کے باشندے شامل ہوتے تھے۔روم کے جمہوری دور کے خاتمے کے قریب کے عہد میں بہت سے شہری روم شہر سے اور اس کے قرب و جوار سے سکونت ختم کرچکے تھے جس کی وجہ سےانہیں حق رائے دہی کے استعمال میں مشکلات کا سامنا تھا۔تیسری صدی قبل مسیح تک کمیٹیا (Comitia)کا وجود برقرار تھا لیکن پہلی صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ اپنے اختیارات کھو چکی تھی۔ 12

عوام کی طاقت کو طبقہ امراء نے تسلیم تو کرلیا مگراعلیٰ ترین عہدے طبقہ امراء ہی کے پاس رہے ۔عوام نے اس بارے میں بھی مطالبات پیش کیے ۔ یہ مطالبات جس شخص نے پیش کیے اس کا نام لی سینس (Licinus)تھا ۔ جب ان مطالبات کو منظور کرلیا گیا تو اسی کے نام پر لی سینین (Licinian)قوانین تشکیل دیے گئے جن سے عوام کو بڑی مراعات حاصل ہوئیں۔ان قوانین کی رو سے مذہبی عہدے بھی عوام اور امراء میں برابر تقسیم ہوئے اور ہر شہری کو1500ایکڑ زمین رکھنے کا حق ملا۔ حکومت کے بڑے بڑے عہدے بھی عوام کو ملنے لگے۔ تقریباً 200 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد روم میں جمہوریت پروان چڑھی ۔

جمہوریت کا زوال

جمہوری نظام حکومت میں مرورِ وقت کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی انتظامی اور عمرانی خرابیاں رونما ہونے لگیں جس سے امن وامان کی صورت حال بگڑتی چلی گئی۔ہر سالارِ فوج جو کسی علاقہ کو فتح کرتا، وہ بے انداز ہ اختیارات کا مالک بن جاتا اور کسی بھی قسم کی من مانی کرنے سے باز نہ آتا تھا۔ ظاہری طور پر اگر چہ جمہوری حکومت اپنے تمام ا داروں کے ساتھ قائم تھی لیکن اس کے ادارے رفتہ رفتہ بے اثر ہوتے چلے گئے اور ان میں نہ یہ قوت رہی کہ بیرونی حملہ آوروں کی یلغار کے سامنے بند باندھ سکیں اور نہ ان میں یہ صلاحیت رہی کہ وہ اندرونِ ملک اٹھنے والی بے چینی کی لہروں کو قابو میں لاسکیں۔ چنانچہ دن بدن حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ شمالی افریقہ اور گاوٴل(Gaul) کی مہمات (112 تا101 قبل مسیح) میں شہرت حاصل کرنے والا سپہ سالار ماریس(Marius) 108 قبل مسیح میں کونسل منتخب ہوا مگر اس نے اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کے باعث جمہوریت کو مطلق العنانی کے راستہ پر چلانا شروع کردیا۔86 قبل مسیح میں ماریس(Marius) کی وفات اور متھریوائز پر فتح( 84 قبل مسیح) کے بعدسُلا (Lucius Cornelius Sulla) مطلق العنان ڈکٹیٹربن گیا اور اس نے ماریس (Marius)کے حامیوں کو کچل کر رکھ دیا۔ اگر چہ اس کے عہدہ کی مدت صرف چھ ماہ مقرر ہوئی تھی مگر وہ 4 سال تک اس عہدہ پر قابض رہا۔ اس زمانہ میں سینٹ کا ادارہ موجود توتھا لیکن روم پر اصل حکمرانی سُلا (Sulla)اپنی فوج کی مدد سے کررہا تھا۔ نئے طالع آزماؤں میں سب سے پیش پیش جو لیس سیزر(Julius Caesar)تھا جو رومی سرداروں میں نہایت قابل تھا لیکن پرلے درجہ کا حریص بھی تھا۔ اس نے (58 تا 50 قبل مسیح) میں اپنی وسیع فتوحات کی بدولت شہرت حاصل کرلی اور اپنے کارناموں کو خوب پھیلایا۔ آخر کار اس نے 49 قبل مسیح میں روم پر حکمرانی کے لیے اپنی جان کی بازی لگادی اور سینیٹ کے احکام کو نظر انداز کرتے ہوئےتربیت یافتہ سپاہیوں کی فوج لے کر پومپی(Pompey) کو شکست دینے کے لیے( جو اس کا داماد اور سابقہ حلیف تھا )اٹلی سے ہسپانیہ، وہاں سے یونان، پھر میسیڈونیا(Macedonia)اور وہاں سے مصر گیا۔ مصر پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ پومپی(Pompey) قتل ہوچکا ہے۔ مصر کی نوجوان ملکہ کلِیوپیٹرا(Cleopatra)نے سیزر(Caesar) سے مدد کی التجائیں کیں تاکہ اس کا متزلزل تخت بحال رہے۔ سیزر(Caesar) کو کلِیوپیٹرا(Cleopatra) سے محبت ہوگئی اور اس کے بطن سے اسکا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا تاہم وہ اپنے اصل نصب العین کو زیادہ عرصہ تک فراموش نہ رکھ سکا۔13

شہنشاہیت کا قیام

آخری مخالف کوہسپانیہ میں شکست دینے کے بعد سے سیزر(Caesar) اپنی مرضی کے مطابق تنہا حکومت کا کاروبار چلاتا رہا۔ سیزر(Caesar) کی حکمرانی میں یونانی استبداد اور مشرقی مطلق العنانی کے خصائص جمع ہوگئے تھے۔ یونانی آمروں کی مانند سیزر(Caesar) کو بد نظمی سے تنگ آئے ہوئے عوام کی حمایت حاصل تھی ۔ اس کی بعض پالیسیاں بڑی دانشمندانہ اور تعمیری تھیں۔ اس نے قدیم اور غلط تقویم کی جگہ 365دن کا نیاسال جاری کیا جس میں ہر چوتھے سال ایک دن کا اضافہ کردیا جاتاتھا۔ اس نے اٹلی کے مزید شہروں کو حقوقِ خود مختاری عطا کردی اور اس طرح رومی شہریت کی توسیع کو بامعنی بنادیا تھا۔ اس نےمرکز کے بعض اختیارات صوبوں کو منتقل کردیے جن کی اشد ضرورت تھی۔ ان اچھی باتوں کے برعکس سیزر (Caesar)نے جمہوریت کے تمام اداروں کو معطل کردیا اور کونسل، عوام کے ٹریبون، ڈکٹیٹر اور اعلیٰ مذہبی پیشوا، چاروں کے اختیارات خودسنبھال لیے۔ سینیٹ کو مجبور کردیا کہ اس کی پیش کردہ تجاویز کو بحث وتمحیص کے بغیر منظور کرلے۔ ساتھ ہی یہ بھی اہتمام کیا کہ رعایا سکندرِ اعظم(Alexander the Great) اور مصری بطلیموسیوں (Ptolemies)کی طرح خود اس کی بھی پرستش کرے۔ بالاخردشمنوں نے سیزر (Caesar)کو سینٹ میں قتل کردیا۔

آکیٹوین(Octavian) جو اس کی بھانجی کا بیٹا تھا اس کا جانشین بنا اور اس کے نقش قدم پر چلنا شروع کردیا۔ اس نے اپنے پندرہ سالہ دورِ حکومت میں دشمنوں کو عبرتناک شکست دی۔ اس کا سب سے بڑا اور آخری حریف مارک اینٹونی(Mark Antoni)تھا جو اس کی بہن آکٹیویا (Octavia)کا شوہر بھی تھا۔ وہ مصر چلا آیا تاکہ مصر کی ملکہ کلِیوپیٹرا(Cleopatra) سے مدد طلب کرے لیکن وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔ اس عشق بازی نے اسے قابل سپہ سالار کی صفات سے بھی محروم کردیا۔ نیز اپنے اہل وطن کی نگاہوں میں اس کی جو قدرومنزلت تھی وہ بھی جاتی رہی۔ وہ اب روم کا جری جرنیل نہیں رہا تھا بلکہ صرف مصر کی ملکہ کا شوہر بن کررہ گیا تھا۔ چنانچہ اس کے ہم وطن رومی اس سے بیزار ہوکر اس کے حریف آکیٹوین(Octavian) سے جاملے۔ 30قبل مسیح میں آکیٹوین(Octavian) نے مارک اینٹونی(Mark Antoni)کو شکست دی۔ اس صدمہ کی تاب نہ لاتے ہوئے مارک اینٹونی(Mark Antoni)اور کلِیوپیٹرا(Cleopatra) دونوں نے خودکشی کرلی۔ 14

یوں مصر کو بھی رومی مملکت میں شامل کرلیا گیا اور اس طرح آکیٹوین(Octavian) نے سلطنت روم کا مکمل اقتدار حاصل کرلیا، جمہوریت نے جو مدت سے بستر مرگ پر ایڑیاں رگڑرہی تھی، دم توڑدیا۔ آکیٹوین(Octavian) کا مقصد یہ تھا کہ جمہوری اوضاع قائم رہیں مگر اپنے اختیارات بڑھا کر حکومت کا اقتدار مستحکم کرلیا جائے۔ وہ اپنے آپ کو رومی جمہوریت کا بحال کنندہ کہتاتھا۔جمہوریت پرستی کا کردار قائم رکھنے کے لیے وہ ہر نمائش سے احتراز کرتا اورایک سادہ سے مکان میں رہائش پذیر رہا۔ اس کے بچے بھی عام لوگوں کے بچوں کی طرح گھریلو کام کاج سیکھتے۔ سرکاری دعوتوں میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھتا۔ وہ اپنے آپ کو شہنشاہِ معظم یاسیزر(Caesar) کی طرح دیوتا کا بیٹا کہلانے کے بجائے جمہوریت کا پہلا شہری کہلانا پسند کرتا تھا۔ آخر اسے آگسٹس (Augustus)کے لقب سے ملقب کیا گیا یعنی محترم ومعظم اور تاریخ میں اسی لقب سے پہچانا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ رعایا کے مختلف گروہ، آگسٹس(Augustus) کو دیوتا کی طرح پوجنے لگے۔ 15

آکیٹوین آگسٹس(Octavian Augustus) کے بعد اسی خاندان کے چار شہنشاہوں نے روم پر حکومت کی۔ یہ سارے حکمران چونکہ اپنا رشتہ جیولیس سیزر (Julius Caesar) سے ملاتے تھے اس لیے ان کو جولین سیزر(Juliun Caesar)کہا گیا۔ ان میں سے دو حکمران تو اچھی انتظامی صلاحیتیں رکھتے تھے لیکن کلی گوتر (CaliGutar) اور نیرو (Nero) اپنی عیاشیوں اور ظالمانہ وحشیانہ حرکتوں کی وجہ سے تاریخ میں بہت بدنام ہوئے۔

68 ء میں نیرو (Nero) کی خودکشی کے بعد جولین سیزر(Juliun Caesar) شہنشاہوں کا دور ختم ہوا۔ ان کی جگہ فلاوین(Flavian) حکمرانوں نے لی جو فوجی طاقت کے زور پر آئے تھے۔ اُسی عہد میں یہودیوں نے بغاوت کی اور یروشلم تباہ و برباد ہوا۔ پومیائی(Pompey) کے پہاڑوں سے لاوا اُبلا جس سے کئی شہر ویران ہوگئے۔ فلاوین (Flavian)حکمران 30سال حکومت کرتے رہے پھر روم کی شہنشاہیت میں 5عمدہ شہنشاہوں کا دور آیا جسے انتونی (Antony)دور کہا جاتا ہے۔ ان کے نام نروا (Nirva)، تراجن (Trajan) ،ہیدرین (Hadrian) ، اینٹولیس پِیس (Antoninus Pius)اور مارکس اریلیس(Marcus Aurelius) تھے۔ اس سلسلے کاآخری شہنشاہ مارکس اریلیس (Marcus Aurelius) فوجی جرنیل ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھا۔ اس نے اپنے فلسفے کی بنیادانسانیت سے محبت پر رکھی لیکن عیسائیوں کو بڑے پیمانے پر قتل بھی کرایا حالانکہ اس سے پہلے کے بادشاہوں نے عیسائیوں پر ظلم بند کردیے تھے اور تمام رعایا کی خوشحالی اور عمومی ترقی کے کام زیادہ کیےتھے۔

180 عیسوی میں مارکس اریلیس(Marcus Aurelius) کے بعد روم کی عظیم سلطنت بری طرح خانہ جنگی کا شکار ہوئی۔ یہ صورتحال دو سو سال تک رہی اور اس عرصے میں آس پاس کے حملہ آور قبائل اور بیرونی طاقتیں زور پکڑتی رہیں۔ 282 عیسوی تک تقریباً 15شہنشاہوں کی حکومت رہی مگر خانہ جنگی بدستور رہی۔ 285 عیسوی میں ڈیوسلیشن (Diocletian)شہنشاہ بنا تو اس نے شہنشاہیت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔16

27 قبل مسیح میں شہنشاہ اگسٹس (Augustus) کی تخت نشینی سے قائم ہونے والی شہنشاہیت کا اختتام 476 عیسوی میں آخری شہنشاہ رومیولیس اگسٹلس (Romulus Augustulus) کی معزولی پر ہوا۔ سلطنت کے عہد کو عموما 500 سال پر محیط سمجھا جاتا ہے جس کے دورِ عروج کے دوران دوسری صدی عیسوی میں اس کا رقبہ35لاکھ مربع میل اور آبادی تقریبا100ملین افراد پر مشتمل تھی۔حکومت مکمل طور پر خود مختار تھی ،شہنشاہ کا تقرر عموما فوج کے تعاون سے ہوتا جو طاقت کا اصل سرچشمہ تھی۔17گورنروں کو حکومت تنخواہ دیتی تھی اور وہ اپنے بیوی بچوں کو ساتھ رکھ سکتے تھے۔سینیٹ پر امن صوبوں کے معاملات میں مداخلت کم ہی کرتی تھی۔ عموما گورنر کا تعین ایک سال کے لیے کیا جاتا تھا ۔ دیگر تمام صوبے ایک پروکونسل (Pro Consul)کے زیر اختیار ہوتے تھے جو کہ شہنشاہ خود ہوتا تھا جس کے عہدے کی کوئی مدت مقرر نہیں تھی۔18

مصر و شام میں حکومت

رومیوں کا ہم عقیدہ اور ہم مذہب ہوکر اور حکومت کے ساتھ خلوص اور وفاداری کا اظہار کرکے بھی کوئی قوم یا فرد رومیوں کے ظلم وستم سے بچ نہیں سکتا تھا۔کسی قوم کو اندرونی خود مختاری کا حق نہیں تھا، اور نہ اپنے ملک میں واجبی حقوق سے مستفید ہونے کا موقع تھا ۔ ڈاکٹر الفرڈ بٹلر(Alfred Butler) کے مطابق مصر میں رومی حکومت کی صرف ایک ہی غرض و غایت تھی کہ جس طرح ممکن ہو رعایا سے مال لوٹ کھسوٹ کر حکام کو فائدہ پہنچایا جائے۔اسےرعایا کی بہبود اورخوشحالی اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کا خیال تک نہیں آتا تھا۔ رعایا کی تہذیب اور اخلاق کو درست کرنا اور ترقی دینا تو بڑی چیز ہے، ملک کے مادی وسائل کو ترقی دینے کی بھی اسے بالکل فکر نہ تھی۔ مصر پر رومیوں کی حکومت ایک ایسی پردیسی حکومت تھی جو صرف اپنی طاقت پر بھروسہ کرتی تھی اور محکوم قوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنے تک کو بھی ضروری نہیں سمجھتی تھی۔19

اندرونی خلفشار کے باوجود ابتداء میں رومیوں کا شامیوں کے ساتھ اچھا اور منصفانہ برتاؤتھا۔ لیکن جب ان کی حکومت کمزور ہوگئی تو اس نے بدترین قسم کی غلامی کی شکل اختیار کرلی اور بدترین معاملہ جو غلام اور رعیت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے رومیوں نے اپنی محکوم رعایا کے ساتھ روا رکھا۔ روم نے شام کا بھی براہ راست الحاق نہیں کیا اور شام کے باشندوں کو کبھی بھی رومیوں کی طرح شہری حقوق نہیں دئیے اورنہ ہی ان کے ملک کو رومی سلطنت اور سرزمین کا درجہ ملا۔شامی ہمیشہ غریب الوطن افراد کی طرح رعایا بن کر رہے یہاں تک کہ اکثر سرکاری ٹیکس ادا کرنے کے لیے وہ اپنی اولاد کو بیچ دینے پر مجبور ہوتے۔ مظالم کی زیادتی تھی اور غلام بنانے اور بیگار لینے کا عام رواج تھا تاہم اسی بیگار سے رومی حکومت نے وہ ادارے اور کارخانے تعمیر کیے جو رومیوں کا کارنامہ سمجھتے جاتے ہیں۔ رومیوں نے شام پر 700 سو سال تک حکومت کی۔ان کے آتے ہی ملک میں اختلافات، خود سری اور تکبر کی بنیاد پڑ گئی تھی اور قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ 20

سلطنت کے زوال کے اسباب

رومی سلطنت کی تباہی کا سبب صرف وہاں کی بڑھتی ہوئی برائی اور بد عنوانی نہ تھی بلکہ بنیادی خرابی ، اخلاقی فساد اور حقائق سے گُریز کی عادت تھی جو اس سلطنت کے قیام اور نشوونما میں پہلے ہی دن سے موجود تھی۔یہ خرابی سلطنت کے اندر جڑ پکڑ چکی تھی۔کسی انسانی جماعت کی تعمیر جب کبھی اس طرح کی کمزور اور کج بنیاد پر کی جائے گی تو اس کو گرنے سے صرف ذہانتیں اور عملی سرگرمیاں نہیں بچا سکتیں اور چونکہ خرابیوں ہی پر اس سلطنت کی بنیاد تھی اس لیے اس کا خاتمہ اور زوال بھی ضروری تھا ۔ ر ومی سلطنت صرف ایک چھوٹے سے طبقہ کی عیش اور راحت رسانی کا ذریعہ تھی اور جمہور عوام سے ناجائز منفعت اندوزی اور رعایا کاخون چوس کر ایک مخصوص طبقے کو سامان ِ عیش و عشرت بہم پہنچانا ہی اس حکومت کا مقصد تھا۔ بلا شبہ روم میں تجارت امانت داری اور انصاف کے ساتھ جاری تھی اور یہ بات حکومت کی بنیادی خصوصیات میں سمجھی جاتی تھی نیز اس سے بھی انکار نہیں کہ حکومت اپنی طاقت و قابلیت میں اور اپنے عدالتی نظام میں ممتاز تھی لیکن یہ تمام خوبیاں حکومت کو تباہی سے نہیں بچا سکتی تھیں اور نہ ہی اساسی غلطیوں کے سخت انجام سے محفوظ رکھ سکتی تھیں۔21

روم کی آزادآبادی دو بڑے طبقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک طبقہ تو وہ تھا جسے تمام ذاتی اورسیاسی حقوق ملے ہوئے تھے اور جو روم پر حکمراں تھا۔ اس طبقے میں امراء اور شرفاء کے طور پربڑے بڑے زمیندار اور صاحبِ جائیداد لوگ تھے جن کے پاس دولت جمع ہوگئی تھی۔دوسرا طبقہ چھوٹے زمینداروں ،تاجروں، کاریگروں اور مزدوروں کاتھا جنہیں کچھ ذاتی حقوق تو حاصل تھے مگر سیاسی حقوق نہ ملے تھے۔ عوام اورامراء میں کشمکش ہونے لگی ۔ عوام اپنی معاشرتی حالت کو بہتر بنانا چاہتے تھے، مگر طبقہ امرا کے لوگ عوام کو سیاسی طور پر پسماندہ ہی رکھنا چاہتے تھے ۔ کیونکہ حکومت پر طبقہ امراء کا قبضہ تھااور وہ عوام کو اپنا دست نگر رکھنے ہی میں اپنی بقا سمجھتے تھے ۔

سینٹ کا ادارہ

ابتدائی زمانے میں سینٹ کو بزرگوں کی مجلس شمار کیا جاتا تھا اور فی الحقیقت رومی سیناٹس (Roman Senatus) سے بھی یہی مراد تھی۔اس ادارے کے ارکان کا چناوٴ قوم کے معززین میں سے کیا جاتا تھا۔22سینٹ کا ادارہ روم کے جمہوری دور میں قانون سازی اور روایت کے تحفظ کاضامن سمجھا جاتا تھا ۔یہ ادارہ جمہوریت اور شہنشاہیت دونوں ہی ادوار میں روم کے وقار کی علامت رہا۔ سینٹ دراصل روم کے بادشاہوں کی مشاورتی کونسل کے فرائض سر انجام دیتاتھا تاہم 509 قبل مسیح میں جمہوری نظام کے قیام کے بعد اس نے یہی خدمت روم کےمنتخب نمائندوں کو فراہم کرنا شروع کردی۔ ابتدا میں سینٹ کا ادارہ صرف رومی اشرافیہ پر مشتمل تھا جن کی ممبر شپ کی مدت تاحیات تھی۔اشرافیہ ناصرف کونسلز پرقانون سازی کے معاملات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے تھے بلکہ اپنے عہدے اور دولت کے ذریعے اسمبلیوں کے ارکان کی رائے دہی پر بھی اثر انداز ہوتے تھے۔ غیر معمولی حالات کے علاوہ ہمیشہ جمہوری دور میں سینٹ کا ادارہ طاقت کا اصل مرکز رہا۔

وسطی جمہوری دور میں سینٹ میں شمولیت کے لیے طبقہ اشرافیہ کی اہلیت میں تبديلی کی گئی اور عام عوام میں سے لوگوں کو سینیٹ کا رکن بننے کا اختیار دیا گیا تھا۔ سینیٹ ارکان کی مجالس مرکز کے کسی بھی کھلے میدان میں منعقد کرلی جاتی تھیں جس کی اجازت روم کا بڑا مذہبی پیشوا دیا کرتا تھا لیکن اکثر سینیٹ کی عمارت میں ہی مجلس کا انعقاد کیا جاتا تھا۔23روم کے عہد وسطی ٰ اور بعد کے زمانے میں کوئی بھی شہری کومیٹیا (Comitia) یا کونسلیم(Concilium) کی جانب سے پہلی مرتبہ مجسٹریٹ منتخب ہوتے ہی سینٹ میں شامل ہو جاتا تھا۔اسے صرف اسی صورت میں برخاست کیاجا سکتا تھا کہ جب اس پر بد اخلاقی کا الزام ثابت ہو جائے۔شروع میں سینیٹ کے ارکان کی تعداد100تھی۔بعد میں اسے بڑھا کر 300 کردیا گیا۔80 قبل مسیح میں یہ تعداد 600 تک اور اس کے بعد جیولیس سیزر (Julius Caesar)کے عہد میں مزید اضافہ کر کے 900کردی گئی۔24سینیٹر منتخب ہونے کے لیے کم سے کم عمر کی حد لیکس ویلیااینالیس (Lex Villia Annalis) کے قوانین کے مطابق 31سال مقرر تھی تاہم اگسٹس(Augustus) نے یہ حد کم کر کے 25سال کردی تھی۔25

اہم سیاسی رہنما

رومی سلطنت کے حاکم روم کے شہریوں اور فوج دونوں پر حکومت کرتے تھے۔ یہ وسیع سلطنت ترقی کرتے ہوئے یورپ، شمالی افریقہ اور مشرقی ایشیاء تک پھیل گئی تھی۔ روم کی سلطنت کے حکمران متعدد القابات سے جانے جاتے تھے، مثال کے طور پرسیزر (Caesar)اورامپرٹر (Impertor)وغیرہ۔ ان کی حکمرانی کا مسلسل قیام اس سلطنت کی فوج ہی کی مرہون منت ہوا کرتا تھا اور فوج ہی کی بدولت حکمران لمبے عرصے تک بادشاہ کے منصب پر براجمان رہتے تھے۔ اس سلطنت کے مختلف علاقوں کے نظام کو چلانے کے لیے صوبائی بنیادوں پر گورنرز تعینات کیے جاتے تھے جو روم کی عوام اور سینیٹ کے منتخب اراکین کو جوابدہ ہوا کرتے تھے۔روم کے کچھ مشہور حکمران کی تفصیل درج ذیل ہیں:

جیولیس سیزر (Julius Caesar)

جولیس سیزر(Julius Caesar) 12 جولائی100 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ اس کی اصل شہرت فوجی جرنیل کی تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ حکومت کے مختلف شعبوں کی ذمہ داریاں بھی سنبھالتا رہا تھا۔ یہ ریاست کے بڑے لوگوں سے منسلک تھا۔ایک سینیٹر کے طور پر حکومتی سطح پر عوامی امور کے دفاتر کا ذمہ دار رہا تھا۔ ایک فوجی افسر کی حیثیت سےسب سے پہلے اسپین(Spain) میں کافی مقبو ل ہوا۔ اس نے کراسس(Crassus) اور پومپی (Pompey) کی ریاستوں سے ایک غیر رسمی اتحاد تشکیل دیا۔گاؤل (Gaul)اور الیریکم(Illyricum) کا ذمہ دار ہونے کے ناطے اس نے پورے گاؤل (Gaul)کو فتح کیا یہاں تک کہ اس کو سینیٹ کی طرف سے عوامی دشمن کے نام سے موسوم کیا گیا۔یوں ایک جنگ کا آغاز ہوگیا جو ربیکن اور اس کے اپنے شہر کو عبور کرتے ہوئے اٹلی تک جا پہنچی۔48 قبل مسیح میں اس نے فراسلس کے مقام پر پومپی(Pompey) کو شکست دی اور وہاں کا بھی حکمراں بن گیا۔48 قبل مسیح میں اپنے حریفوں کو شکست دے کر وہ روم کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔26 مصر کی ملکہ کلِیوپیٹرا(Cleopatra) اور جیولیس سیزر (Julius Caesar) (قیصر) کے درمیان معاشقانہ تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ 44قبل مسیح میں سینیٹ کے ممبروں نے سازش کرکے قیصر جولیس کو قتل کردیا۔ 27

جیولیس سیزر (Julius Caesar)نے اشرافیہ کی حکومت اوراقتدار کی بجائےحکومت کو جمہوری انداز سے چلانے پر زور دیا اور نچلے طبقے کو مزید حقوق دینے کی حمایت کی۔اس نے کئی مشہور اصلاحات کیں جن میں غریبوں میں مزید زمین کی تقسیم اور سیاسی اصلاحات شامل تھیں جنہیں سینٹ نے پسند نہیں کیا تاہم جیولیس سیزر (Julius Caesar) کبھی سینٹ کو خاطر میں نہیں لایا۔اسے جب کوئی فیصلہ کرنا ہوتا تو سینیٹ کو بتا دیتا کہ اتنے عرصے میں یہ قانون منظور کرنا ہے۔سینیٹ کسی قسم کی چون و چراں کیے بغیر اس کا حکم مان لیتی تھی جس کی وجہ اس کی شخصی طاقت تھی جس کا منبع اس کی فوجی قوت تھی۔اس نے کیلنڈر کی اصلاح کی، پولیس کا محکمہ قائم کیا، قرتاج (Carthage) کی تعمیر نو کا حکم دیا اور ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کیں۔مجموعی طور پر جیولیس سیزر (Julius Caesar)کا عہد خوشحالی کا دور تھا تاہم اشرافیہ اس سے بہت خائف تھی۔ انہیں ڈر تھا کہ کہیں وہ مکمل طور پر سینیٹ کے ادارے کو ختم ہی نہ کردے۔28

آگسٹس سیزر (Augustus Caesar)

آگسٹس سیزر (Augustus Caesar)روم کا پہلا حکمران جسے آگسٹس(Augustus)کا اعزازی لقب دیا گیا تھا۔ وہ 23 ستمبر 63 قبل مسیح میں پیدا ہوا اوراس کی وفات کیمپینیا (Campania)میں نولا (Nola)کے مقام پر 19 اگست 14 عیسوی کو ہوئی تھی۔یہ گائیس جیولیس سیزر آکٹیویس(Gaius Julius Caesar Octavius) کا بیٹا تھا۔ 2944 قبل مسیح میں جب اس کی عمر 19 برس کی تھی تو اس کے والد کو سینیٹ کی عمارت کے اندر قتل کردیا گیا ۔ حب الوطنی کے فطری جذبے کے پیش نظر اس نے جمہوری ریاست کے اختتامی دور کے خطرات میں بہترین منصوبہ سازی اور رہنمائی کی۔ آکٹیم(Actium) کے معرکہ کے بعد اس کا کوئی حریف باقی نہیں رہا۔ ریاست کے اس نئے حکمران کے عہدے کے نام کے سلسلے میں کچھ مشکلات پیش آئیں تاہم اس نے خود کو بادشاہ اور آمر کہلانے سے انکار کر دیا۔ بالآخر 27 قبل مسیح میں سینیٹ کے فیصلے سے اسے آگسٹس(Augustus) کا لقب دیا گیا ۔ یہ خطاب عزت و توقیر کے ان معانی کی نشاندہی کرتا ہے جو ایک انسان کی بشری قابلیتوں سے انتہائی ارفع و اعلیٰ ہوں۔ 30

سال کے ایک مہینے کا نام اگست (August)اسی کے اعزاز میں رکھا گیا تھا۔ 19 قبل مسیح میں اسے رومی سلطنت کے تمام صوبوں کا مکمل اقتدار سونپ دیا گیا۔ اس کے بعد آگسٹس سیزر(Augustus Caesar) نے پوری سلطنت پرمکمل اختیارات کے ساتھ حکمرانی کی اور سلطنت ِ روم کا پہلا شہنشاہ کہلایا۔اس کی حکرانی کو آنے والے شہنشاہوں کے لیے ایک پیمانہ ٹھہرایا گیا۔ 2 قبل مسیح میں آگسٹس کوپاٹر پاٹرائے (Pater Patriae) یا بابائے مُلک (Father of the country)کا خطاب دیا گیا۔

آگسٹس(Augustus) نے امن و مان کی فضا کو دوبارہ بحال کیا اور روم کی معیشت، فنون اور زراعت کو وسعت دی۔ اس نے تعمیراتی لائحہ عمل کا آغاز کیا جس کے تحت اس نے جیولیس سیزر(Julius Caesar) کے منصوبوں کو مکمل کیا اور اس کے بعد اس نے سلطنت روم کے لیے اپنے عالی شان لائحہ عمل مرتب کیا۔31اس کے آخری الفاظ یہ تھے:

  "میں نے روم کو اینٹوں کا شہر پایا لیکن میں اسے سنگ مرمر جیسا چھوڑ کر جارہا ہوں۔"32

نیروکلاڈیس (Nero Claudius)

نیرو(Nero) کا پورا نام نیرو کلاڈیس سیزر اگسٹس جرمینیکس(Nero Claudius Caesar Augustus Germanicus) تھا۔33نیرو(Nero) جیولین کلاڈین (Juliun Claudian)سلسلے کا آخری رومی حکمران تھاجس نے 54عیسوی سے 64 عیسوی تک روم پر حکومت کی تھی۔ نیرو (Nero) ڈومیٹس اہینوباربس (Domitius Ahenobarbus) اور حاکم کلاڈیس(Claudius) کی بھتیجی یا بھانجی جیولیا اگریپینا (Julia Agrippina)کا بیٹا تھا۔34

روم کےبے رحم، خود پسند، ظالم اور بے اعتدال پانچویں شہنشاہ نیرو (Nero) کا عہد شہنشاہیت کی عظیم قوت کو بے دریغ استعمال کرنے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کثیر تعداد میں قابل نفرت اور حقارت آمیز افعال نیرو (Nero)سے منسوب ہیں۔ اس کی پیدائش 37 عیسوی میں اینٹینم (Antinum)کے ساحل بحر کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ہوئی تھی۔ یہ قصبہ روم سے شمال کی جانب 50 میل کی دوری پر واقع تھا۔ بادشاہ نیرو شہنشاہ اگسٹس(Augustus) کی پرپوتی اگریپینا صغری (Agrippina the Younger) کا بیٹا تھا۔ 49 عیسوی میں اگریپینا (Agrippina)نے چوتھے بادشاہ کلاڈیس (Claudius)سے شادی کی۔ کلاڈیس(Claudius) نے آگے آنے والے سال میں اگریپینا (Agrippina)کے بیٹے کو اپنا لیا تھا۔

اپنے بیٹے کے لیے شہنشاہیت کا واضح موقع دیکھ کرسازشی اور جاہ طلب صفت کی مالک اگریپینا (Agrippina) نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کلاڈیس(Claudius) کو زہر دے کر مار دیا ، یوں اس کا 17 سالہ بیٹا نیرو(Nero) شہنشاہیت کے تخت پر نیرو کلاڈیس سیزر اگسٹس (Nero Claudius Caesar Augustus)کے طور پر براجمان ہوگیا تھا۔ اپنے دور اقتدار کے ابتدائی ادوار میں بادشاہ نیرو (Nero)نے ذمہ داری اور تعمیری طرز حکومت کا راستہ اختیا کیا لیکن بالآخر اس نے اپنی قبیح طبیعت کا مظاہرہ کردیا ۔ اس نے اپنے دور حکومت میں وحشیانہ اور ظالمانہ افعال میں اضافہ کیا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں میں اس نے اپنے سوتیلے بھائی، ماں، بیوی آکٹیویا (Octavia)اور اپنی دوسری بیوی پوپائیا(Poppaea)کو قتل کروادیا۔اس نے غیر قانونی طریقے سے متعدد امرا ءکی جائیدادوں کو ضبط کیا ، حکومتی مال و اسباب کو اپنی شاہ خرچیوں اور عیش و عشرت پر بے دریغ استعمال کیا اور دن بدن اس کے مکروہ وقبیح افعال میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔

نیرو(Nero) کی سفاکیت کا ایک اور مظاہرہ جولائی 64 عیسوی میں ہونے والی آتشزدگی کے موقع پر دیکھنے میں آیا جس سے اس کی بدنامی میں مزید اضافہ ہوا۔اس واقعہ کے نتیجے میں شہرِِِِ روم کادو تہائی حصہ آتشزدگی کی نذر ہو گیا ۔کہا جاتا ہے کہ نیرو(Nero)نے بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی اور شہر کی تعمیر نو کے کئی منصوبے تشکیل دیے لیکن زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ یہ آگ نیرو(Nero)نے خود جان بوجھ کر لگوائی تھی۔ان کے اس خیال کو مزید تقویت اس امر سے ملی جب نیرو(Nero)نے شہر کے آگ سے تباہ ہوجانے والے ایک بڑے حصے پر گولڈن ہاوٴس (the Golden House) کے نام سے اپنا ذاتی محل اور شاہی باغات تعمیر کروادیے۔روم کے بہت سے لوگ نیرو(Nero)کے اس عوامی زمین پر غاصبانہ قبضے پر اس کے خلاف ہوگئے۔اسے قتل کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا تاہم اسے ا س کی خبر ہوگئی جس کے نتیجے میں اس نے عوام پر مزید ظلم و ستم کا بازار گرم کرد یا۔اس نےسینکڑوں افراد کو قتل کرا دیا نیز سینکڑوں جلا وطن کردیے گئے۔بالآخر سینٹ نے نیرو(Nero)کو عوام کا دشمن قرار دیا جس کے نتیجے میں اسے بھیس بدل کر شہر سے فرار ہونا پڑا۔سپاہی اسے تلاش کر رہے تھے اس لیے جیسے ہی اسے احساس ہوا کہ سپاہی اس کے قریب پہنچنے والے ہیں تو اس نے خود کشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ۔35

جسٹینین اول (Justinian-I)

شہنشاہ جسٹینین (Justinian)اول(482ء- 565ء)کی وجہ شہرت رومی قوانین کے ضابطہ کی تشکیل تھی جو اس کے دور میں نافذ العمل تھا۔ جسٹینین (Justinian)کے ضابطہ کار نے قانون میں رومی تخلیقی جوہر کانقش محفوظ کردیا تھا۔ یہ بعد ازاں متعدد یورپی ممالک میں قانون کے میدان میں پیش رفت کا سبب بھی بنا۔ غالباً کسی دوسرے ضابطہ قانون نے دنیا پر یوں ان مٹ نقوش ثبت نہیں کیے تھے۔ جسٹینین (Justinian)موجودہ یوگو سلاویہ میں ٹاؤریسیم میں 483ء میں پیدا ہوا۔ وہ ایک ناخواندہ "تھریسی" کسان جسٹن اول کا بھتیجا تھا۔ جس نے فوج میں خدمات انجام دیں اور پھر مشرقی رومی سلطنت کافرمانروا بن گیا۔ جسٹینین (Justinian)نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اپنے چچا کی معاونت سے تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ 527ء میں لاولد جسٹن نے جسٹینین (Justinian)کو اپنا معاون شہنشاہ بنالیا۔ اسی برس وہ چل بسا اور اس کے بعد اپنی موت تک جسٹینین (Justinian)خود مختار حکمران رہا تھا۔36

مارکس اورلیؤس (Marcus Aurelius)

رومی بادشاہوں میں مارکس اور لیوس (Marcus Aurelius) ایک خاص شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے اتالیقوں نے اسے عمدہ تعلیم دی تھی۔ گو اُس کے دور میں کئی ناگہانی مصیبتیں آئیں مثلاً سیلاب، بربریوں کے حملے، بغاوتیں اور قحط لیکن اس نے حکومتی اور سماجی نظام قائم رکھا۔ 20 سال تک (161 تا 180قبل مسیح) وہ بادشاہ رہا اور اس تمام عرصہ میں ہمیشہ وہ اپنے فرض کی طرف متوجہ رہا۔ وہ صبح سے لے کر رات گئے تک کام کرتا رہتا تھا۔ تعیش کی زندگی سے نفرت کرتا اور غریب لوگوں کی طرح رہتا تھا۔ وہ ہر وقت ہر شخص کے لیے حاضر رہتا۔ اس نے قومی اخراجات کم کیے، خونی کھیلوں کو کم کیا اور سڑکوں کی مرمت کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے ایک مختصر کتاب میڈیٹیشن(Meditation) بھی لکھی ۔ وہ ایک روحانیت پسند بادشاہ کی حیثیت سے تمام رومی بادشاہوں میں انفرادی حیثیت رکھتاتھا۔ اس کے خیال میں انسان کا نصب العین"روح کا امن" ہے جو نیک ذہانت ، انصاف، برداشت اور خوش مزاجی سے نصیب ہوسکتا ہے۔ 37

مارکیوس تیولیوس سائیسیرو (Marcus Tullius Cicero)

مارکیوس تیولیوس سائیسیرو(Marcus Tullius Cicero) روم کے جمہوری عہد کے آخری دور کی ایک اہم سیاسی شخصیت تھا۔38وہ ارپینم (Arpinum) کے مقام پر 106 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔ 39 وہ ایک سیاستدان کے ساتھ ساتھ ایک قانون دان، ایک عالم، ایک ادیب بھی تھا جس نے روم میں ہونے والی آخری خانہ جنگی کے دوران جمہوریت کے اصولوں کو سر بلند رکھنے کی کوشش کی۔ اس خانہ جنگی نے بالآخرروم کی جمہوریت کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔40ا س کا تحریری مجموعہ ان تقریرو ں پر مشتمل ہے جو دوسروں نے لکھیں اور دنیا کے سامنے پیش کیں۔41وہ پہلے کونسل منتخب ہوا اور پھر سینٹ کا ممبر منتخب کر لیا گیا۔ اس کی قونصلی کے دوران63 قبل مسیح میں کیٹلائین کی سازش ہوئی جسے دبانے کے لیےبہت سے رومی شہریوں پرمقدمات چلائے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔وہ جیولیس سیزر(Julius Caesar) کا دشمن ہو گیا تاہم اس نے 47 قبل مسیح میں جیولیس سیزر (Julius Caesar) کی معافی قبول کرلی۔ مارکیوس تیولیوس سائیسیرو(Marcus Tullius Cicero) 43 قبل مسیح میں قتل کردیا گیا تھا۔42

مختلف ادوار میں اہلِ روم نے اپنے بادشاہوں کو مقدّس ہستی کا درجہ دیا ہےخواہ باعتبارسیرت وہ ظالم وجابراورسفّاک ہی کیوں نہ ہو۔یہاں تک کہ کچھ بادشاہوں کو خدا یا دیوتا بھی تصور کیا گیا جس کے نتیجے میں انہوں نے مزید سرکشی اور خود سری کا اظہار کرتے ہوئے ظالمانہ اور جابرانہ انداز میں حکومتیں کیں ،لوگوں کا ناحق قتل عام کیا ،عورتوں کی عصمت دری کی اور قوموں کی قومیں تباہ و برباد کر ڈالیں جو اس بات کا بین ثبوت تھا کہ وہ خدا کہلانا تو کجا انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں تھے کیونکہ جو ظالمانہ روش ان رومی حکمرانوں نے اختیار کر رکھی تھی وہ ایک شریف انسان بھی اختیار نہیں کرتا جس کا لازمی نتیجہ روم کی تباہی اور بربادی کی صورت میں نکلنا تھا اور تاریخ نے دیکھا کہ روم نہ صرف تباہ ہوا بلکہ اسکی تہذیب و تمدن بھی خس و خاشاک میں مل گئی ۔

 


  • 1 Don Nardo (2002), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Rome, Greenhaven Press Inc., California, USA, Pg. 134.
  • 2 Robert Franklin Pennell (1890), Ancient Rome: From the Earliest Times Down to 476 A.D., Allyn and Bacon, Boston, USA, Pg. 207.
  • 3 Michael Burgan (2009), Empire of Ancient Rome, Chelsea House Publishers, New York, USA, Pg. 83.
  • 4 Carroll Moulton (1998), Ancient Greece and Rome, Simon & Schuster, New York, USA, Vol. 4, Pg. 4.
  • 5 Dorothy Mills (1937), The Book of the Ancient Romans, G. P. Putnam’s Sons, New York, USA, Pg. 57-59.
  • 6 Don Nardo (2002), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Rome, Greenhaven Press Inc., California, USA, Pg. 128.
  • 7 Dorothy Mills (1937), The Book of the Ancient Romans, G. P. Putnam’s Sons, New York, USA, Pg. 57-59.
  • 8 Don Nardo (2002), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Rome, Greenhaven Press Inc., California, USA, Pg.134-135.
  • 9 William Smith (1913), A Smaller History of Rome, John Murray, London, U.K., Pg. 29-30.
  • 10 پروفیسرآفاق صدیقی، سیرۃ البشر، مطبوعہ: الحمد پبلی کیشنز،کراچی،پاکستان،2009 ء، ص:153-155
  • 11 Norman Bancroft Hunt (2009), Living in Ancient Rome, Chelsea House, New York, USA, Pg. 13.
  • 12 Lesley Adkins and Roy A. Adkins (2004), Handbook to Life in Ancient Rome, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 39-40.
  • 13 کرین برنٹن ،جان بی کرسٹوفر اور رابرٹ ایل ولف،تاریخ تہذیب (مترجم: مولانا غلام رسول مہر)، ج-1،مطبوعہ:شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہو، پاکستان، 1965ء،ص:138-141
  • 14 ایضا
  • 15 کرین برنٹن ،جان بی کرسٹوفر اور رابرٹ ایل ولف، تاریخ تہذیب (مترجم: مولانا غلام رسول مہر)، ج-1،مطبوعہ:شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور، پاکستان، 1965ء ،ص:145
  • 16 پروفیسرآفاق صدیقی، سیرۃ البشر، مطبوعہ: الحمد پبلی کیشنز،کراچی،پاکستان،2009 ، ص:134-136
  • 17 Don Nardo (2002), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Rome, Greenhaven Press Inc., California, USA, Pg. 131.
  • 18 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to life in Ancient Rome, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 46.
  • 19 Alfred J. Butler (1902), The Arab Conquest of Egypt and the Last Thirty Years of Roman Dominion, The Clarendon Press, Oxford, UK., Pg. 42.
  • 20 محمد بن عبدالرزاق بن محمد کرد علی، خطط الشام، ج- 1، مطبوعہ:مکتبۃ النوری، دمشق، السوریۃ،1403ھ،ص:101
  • 21 Briffault Robert (1919), The Making of Humanity, George Allen and Unwin Ltd. London, U.K., Pg. 159.
  • 22 William Smith (1875), A Dictionary of Greek and Roman Antiquities, John Murray, London, U.K., Pg. 1016.
  • 23 Don Nardo (2002), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Rome, Greenhaven Press Inc., California, USA, Pg. 138-139.
  • 24 Lesley Adkins & Roy A. Adkins (2004), Handbook to life in Ancient Rome, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 40.
  • 25 William Smith (1875), A Dictionary of Greek and Roman Antiquities, John Murray, London, U.K., Pg. 1019.
  • 26 Lesley Adkins and Roy A۔ Adkins (2004), Handbook to Life in Ancient Rome, Facts on File Inc., New York, USA, Pg. 14.
  • 27 مرتضی احمد خاں میکش،تاریخ اقوام عالم،مطبوعہ:الوقا رپبلی کیشنز،لاہور ،پاکستان ،2006ء،ص:181-224
  • 28 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/Julius_Caesar/: Retrieved: 11-02-2019
  • 29 Isidore Singer (1902), The Jewish Encyclopedia, Funk and Wagnalis Company, New York, USA, Vol. 2, Pg. 314.
  • 30 James Orr (1915), The International Standard Bible Encyclopedia, The Howard – Severance Company, Chicago, USA, Vol. 1, Pg. 332.
  • 31 Ancient History Encyclopedia (Online Version): https://www.ancient.eu/augustus/: Retrieved: 11-02-2019
  • 32 C. Suetonius Tranquillus (1796), The Life of the Twelve Caesars (Translated by Alexander Thomson), G. G. & Robinson, London, U.K., Pg. 119.
  • 33 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/biography/Nero-Roman-emperor: Retrieved: 06-12-2018
  • 34 The Catholic Encyclopedia (Online Version): http://www.newadvent.org/cathen/10752c.htm: Retrieved: 06-12-2018
  • 35 Don Nardo (2002), The Greenhaven Encyclopedia of Ancient Rome, Greenhaven Press Inc., California, USA, Pg. 45-46.
  • 36 مائیکل ہارٹ،سو عظیم آدمی (مترجم: محمد عاصم بٹ)،مطبوعہ: تخلیقات،لاہور، پاکستان، 1998ء، ص:497-500
  • 37 پروفیسر بشیر احمد خاں ،دنیا کی تاریخ،مطبوعہ :مکتبہ نظامیہ،کراچی، پاکستان،1957ء، ص: 107 -109
  • 38 John H. Haaren & A. B. Poland (1904), Famous Men of Rome, American Book Company, New York, USA, Pg. 203.
  • 39 W. Lucas Collins (1871), Cicero, William Blackwood and Sons, London, U.K., Pg. 2-3.
  • 40 Encyclopedia Britannica (Online Version): https://www.britannica.com/biography/Cicero: Retrieved: 08-12-2018
  • 41 J. L. Strachan-Davidson (1894), Cicero and the Fall of the Roman Republic, G. P. Putnam & Sons, London, U.K., Pg. 2.
  • 42 Stanford Encyclopedia of Philosophy (Online Version): https://plato.stanford.edu/entries/ancient-political/#CicLif/: Retrieved: 08-12-2018