رومی تہذیب (خواہ اس کا تعلق جمہوری دور سے ہو یا شہنشاہی دور سے) کا خاص وصف اس کی عملی حیثیت ہے، جو ان کی نمایاں خصوصیت تھی۔ انہوں نے فنونِ لطیفہ، ڈرامے اور فلسفے کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دیا بلکہ یونانی کارناموں کو محفوظ رکھا ، وسیع پیمانے پر ان سے استفادہ کیا اور ان کی پیروی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن فوجی تنظیم ، نظم و نسق، قانون اور انجینئرنگ میں وہ قدیم زمانے کی تمام اقوام پر فائق تھے۔
رومی قوم اپنے زمانہ کی مہذّب قوم سمجھی جاتی تھی یوں بظاہراس کے اخلاق کا معیار بھی بلندہونا چاہیے تھا مگر حقیقت یہ تھی کہ اخلاقی لحاظ سے رومیوں کی حالت کسی بھی طرح قابل رشک نہ تھی۔ برائی کی مذمت کرنے کے باوجود اس کو قبول کرنے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتے تھے، اسی لیے ایک طرف تو رقص کی مذمت کی جاتی تھی لیکن دوسری جانب قسطنطنیہ میں رقص گاہیں اور ناچ گھر آباد کیے ہوئے تھے۔قانونی طور پر ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پر پابندی تھی لیکن جنسی خواہشات کی تسکین کا سامان بے لگام شہوت رانی کے ذریعے کردیا گیاتھا۔
رومی تہذیب و تمدن ظاہر پرستی سے مرعوب مادّہ پرستانہ نیم روحانی و نیم مادّی تہذیب تھی ۔ رومی لوگوں کی توجہ دنیاوی امور پر زیادہ تھی ۔ یہ لوگ سلطنت قائم کرنے اور نظم و نسق ٹھیک رکھنے کے ماہر تھے۔ ان کی ذہنی طاقت زیادہ تر قانون سازی اور تنظیمی ادارے بنانے میں ہی صرف ہوتی تھی۔ روم کے لوگ غالباً دنیا کی تاریخ میں واحد قوم ہیں جنہوں نے تن پروری اور عیش پرستی کو اصول کی حیثیت سے اپنایا ہوا تھا لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا الٹا رجحان بھی موجود تھا، یعنی نفس کشی۔1
سلطنتِ روم کی آبادی کےمتعلق انگریز مؤرخ ليزلی ايڈكنز تحریرکرتی ہے:
Augustus and Claudius suggest that around AD 14 there were about 5 million free inhabitants of Italy, to which some demographic analysts conjecture that a population of 2 to 3 million slaves should be added. Rome had a population of between 500,000 and 1 million, possibly around 800,000 in the time of Augustus. Other large cities had populations of 100,000 to 200,000.2
دورِ شہنشاہ آگسٹس اور کلاڈیس کےجو اعداد ملتے ہیں ان کے مطابق اٹلی میں 50,00,000رہائشی تھے۔ اس تعداد کے علاوہ 20,00,000سے 30,00,000 غلام بھی موجود تھے۔ روم کی آبادی 5,00,000 سے10,00,000 کے درمیان تھی جوکہ تقریباً 8,00,000 کے لگ بھگ بنتی تھی۔دیگر بڑے شہروں کی آبادی 1,00,000سے دو لاکھ2,00,000 تک تھی۔
رومی سماج کا ایک نمایاں مسئلہ یہ بھی تھا کہ ان کے مختلف طبقوں اور گروہوں کے درمیان تعلقات بگڑے ہوئے تھے۔معاشرتی تقسیم کےبیان میں رابرٹ ایف پینل(Robert Fennel) تحریرکرتاہے:
The Inhabitants of Rome were divided in to five classes:3
- Those who possessed both public and private rights as citizens i.e. Full Rights. (citizens of Rome).
- Those who were subjects and did not possess full rights. (citizens of Municipa).
- Those who were allies (socii).
- Those who were slaves who possessed no rights.
- Those who were resident foreigners who possessed the rights of trading.
ترجمہ: روم کے باشندے پانچ طبقوں میں بٹے ہوئے تھے:
(1) وہ جن کو اجتماعی اور ذاتی حقوق حاصل تھے یعنی تمام حقوق(روم کے اصل شہری)۔
(2) وہ جن کو تمام حقوق حاصل نہ تھے۔
(3) وہ جواہل روم کے اتحاد ی تھے۔
(4) وہ جو غلام تھے جنہیں کسی قسم کے کوئی حقوق حاصل نہ تھے۔
(5) وہ جو غیر ملکی تھے۔انہیں صرف تجارتی حقوق حاصل تھے ۔
روم کے سماج میں بلند ترین امارت طبقۂ امراء کی یا مجلسِ اکابر کے اراکین کی تھی جن میں امراءاور مال دار لوگوں کے خاندان شامل ہوتے تھے جنہوں نے ریاستی امور میں ہمیشہ اہم کردارادا کیا تھا۔ ان خاندانوں کی دولت کا خاص وسیلہ ان کی زمینی جائیدادیں تھیں۔ اس امارت کے نمائندے اکثر اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچتے تھے اور وہ مجلسِ اکابر کے بھی رکن تھے۔ دوسری سب سے اہم امارت وہ تھی جو سوار (Equestrians)کہلاتی تھی۔ یہ ماضی کی یادگار تھی اور اس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے اس کا اطلاق روم کی تاریخ میں ان مالدار شہریوں پر ہونے لگا تھا جو امراء کے خاندان سے تعلق نہ رکھتے تھے ، تاجر تھے یا پھر شاھوکار، آخر میں باقی آبادی تھی جس کے افراد پہلے ہی سے پلیبیئن (Plebian)کہلاتے تھے۔ دیہات میں پلیبیئن (Plebian)سے مراد کسان ہوتے تھے اور شہروں میں دستکار، چھوٹے تاجر، استاد دستکار اور دکاندارسب اسی طبقہ میں شامل تھے۔ 4
رومیوں کے نزدیک یہ تصور قائم تھا کہ عورتیں ہمیشہ ذہنی طور پر کبھی بڑی نہیں ہوتیں لہذا ضروری ہےکہ زندگی بھر ان کی حفاظت کی جائے اور رہنمائی کی جائے۔ شادی سے پہلے عورت اپنے والد کی سرپرستی میں ہوتی اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی ماتحت ہوتی تھی۔5 رومی مرد کبھی بھی عورتوں کو اپنے برابر نہیں مانتے تھے لیکن خواتین صرف گھر کی چار دیواری میں محدود نہ تھی۔6 اگر وہ امیروں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں تو ان کے پاس گھر کے کاموں کے لیے غلام ہوا کرتے لہذا زیادہ تر وقت وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ گذارتی یا دعوتوں میں جاتی تھیں۔7
عورتوں کو سیاسی حقوق حاصل نہ تھے، البتہ چند اقتصادی حقوق دے دئے گئے تھے، دوسرے اعتبارات سے انہیں کامل مساوات میسر تھی۔ ان کے متعلق یہ نہیں سمجھا جاتا تھاکہ وہ گھروں میں انسانوں سےکمتر درجہ رکھتی ہیں، جیسا کہ ایتھنز (Athens)میں ہوتا تھا۔ جمہوریت کے آخری دور میں باپ کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ نومولود بچے کو ماں سے چھین کر لوگوں کو دکھانے کے لیے باہر لے جائے۔ طلاق کی اجازت تھی اور اس کا خاصا رواج عام تھا،اتنا رواج بیسویں صدی (20th Century)سے پیشتر تاریخ کے کسی دوسرے دور میں نظر نہیں آتا تھا۔ اسکے برعکس اکثر خاندان بڑی خوشگوار زندگی بسر کرتے اور رومی منصف شوہراور بیوی یا والدہ اور بچوں کی باہمی محبت کواکثر سراہتے رہتے تھے۔8
روم میں اگرچہ آزادلوگوں کو کسی بھی وجہ سےغلام بنایاجاسکتاتھالیکن عموماً جنگوں کے نتیجے میں فاتح قوم مفتوح اقوام کے اسیرانِ جنگ کو مکمل غلامی کے شکنجے میں جکڑ لیا کرتے تھے۔رومی معاشرت آزاد اور غلام کی تقسیم کاشکار تھی۔جرائم اور سزاؤں میں بھی اس تفریق کا خاص لحاظ تھا۔آزاد کے جرم کی سزاکم اور غلام کی زیادہ تھی۔اسی طرح اشراف اور رعایا کا معاملہ تھا۔9
رومیوں کے یہاں اولین ایام سے غلامی چلی آرہی تھی۔ غلام خواہ ملکی ہوں یا غیر ملکی، جنگ میں ہاتھ آئے ہوں یا خریدے گئے ہوں، محض مال واسباب سمجھے جاتے تھے۔ ان کے آقاؤں کو ان کی موت وزندگی کا مکمل اختیار حاصل تھا۔ بہر حال اس تدریجی اصلاح کی بدولت جس نے بارہ تختیوں(The Twelve Tables)کے فرسودہ قوانین کو ہیڈرین(Hadrian)کے جامع ضابطہ قوانین میں تبدیل کیا تھا، غلاموں کی حالت قدرے بہتر ہوگئی تھی لیکن ان تبدیلیوں کے باوجود جو رومی شہنشاہوں کی انسان نوازی یا دانشمندی نے پرانے قوانین میں کیں، غلاموں کا وجودِ جسمانی کلیۃً مالک کی مرضی کے تحت ہوتا تھا۔سلطنت کے ہر ذی اقتدار شخص کے یہاں ہزاروں غلام تھے جنہیں ذرا ذرا سی تقصیرپر اذیت پہنچائی جاتی تھی اور کوڑے لگائے جاتے تھے۔10روم میں غلامی کی صورتحال بیان کرتے ہوئےمائیکل برگان(Michael Burgan) لکھتاہے:
Slavery was considered a normal part of life throughout the Mediterranean world. After a military victory, the winners took some of the losing soldiers home with them as slaves. More than 100,000 people might be forced into slavery after a single Roman victory. A person might also be ordered into slavery after committing a crime or failing to pay a debt. Pirates also raided ships and forced the passengers onboard into slavery. In some cases, poor parents sold their children into slavery. Slaves had no legal rights and could be sold whenever a slave owner chose. 11
روم کے علاقوں میں غلامی کو زندگی کا ایک عام حصہ سمجھا جاتا تھا۔جنگ میں فتح کے بعد، فاتحین مخالف فوجیوں کو غلام بنا کر اپنے گھر لے جاتے تھے۔عمومی طور پر ایک فتح کے بعد 1,00,000سے زیادہ افراد کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ اگر کوئی فرد کسی جرم کا ارتکاب کرتا یا قرض ادا کرنے میں ناکام ہوتا تو اسے غلام بنا لیا جاتا تھا۔ بحری قزاق جہازوں پر حملہ کرتے اور مسافروں کو جبراً غلام بنالیا کرتے تھے۔ بعض اوقات غریب والدین مجبوری میں اپنے بچوں کو بطورِ غلام فروخت کردیا کرتے تھے۔ غلاموں کوکسی قسم کا کوئی قانونی حق حاصل نہ تھا اور انہیں ان کا مالک اپنی مرضی سے کہیں بھی فروخت کرسکتا تھا۔
ان غلاموں سے عموماً تین مختلف مقامات پر کام لیا جاتا تھا:
اس کے متعلق کیرول مولٹن(Carrol Moulton) لکھتی ہے:
Slaves worked in a wide range of fields. Many were forced to work in the mines. They were often chained to their work areas, and most of them died of malnutrition and overwork. Agricultural slaves were somewhat better off because they worked in the open air. Many slaves—men, women, and children—worked in households. 12
غلام بڑے بڑے کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے۔بہت سوں کو معدنیاتی کانوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔عموماً انہیں ان کے کام کرنے کی جگہوں میں زنجیروں سے باندھ دیا جاتا تھا۔ان میں سے اکثرخوراک کی کمی اور کام کی زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوجایاکرتے تھے۔کھیتوں میں کام کرنے والے ان سے قدرے بہتر تھے کیونکہ وہ کھلی فضا ء میں کام کرتے تھے۔بہت سارے غلام مرد، عورتیں اور بچے گھروں میں کام کیا کرتے تھے۔
حقیقت یہ تھی کہ غلاموں کو رومی معاشرے کے کسی بھی طبقے کی اخلاقی حمایت حاصل نہیں تھی۔ رومی استعمار کی حرص وہوس کے لیے، سامان عیش وعشرت فراہم کرنے کی خاطر، غلاموں کے ریوڑ دن بھر کھیتوں میں جتے رہتے تھے۔ کام کے اوقات میں انہیں بیڑیاں پہنادی جاتی تھیں تاکہ وہ اپنے نگرانوں سے آنکھ بچا کر نکل نہ بھاگیں۔ ان پر بے تحاشہ کوڑے برسائے جاتے تھے۔ شام کو جب کام ختم ہوجاتا تو دس دس، پچاس پچاس کی مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر مویشیوں کی طرح انہیں غلیظ، بدبودار اور چوہوں اور کیڑے مکوڑوں سے پٹے ہوئے باڑوں میں بند کردیا جاتا تھا۔ اس حالت میں بھی ان کے ہاتھ پاؤں بیڑیوں سے آزاد نہیں ہوتے تھے۔ مویشیوں کو تو کھلے اور وسیع باڑوں میں رکھا جاتا مگر یہ بد نصیب لوگ زندگی کی اس سہولت سے بھی محروم تھے۔ کھانے کے لیے انہیں صرف اتنا دیا جاتا تھا کہ ان کا رشتہ جسم وجاں سے برقراررہے اور وہ اپنے آقاؤں کے لیے کام کرتے رہیں۔13
رومی تہذیب میں غلاموں کوآزاد شہری اپنی تفریح کا ذریعہ بھی بنایا کرتے تھے، یہ ان کا انوکھا طریقہ تھا۔ انہوں نے تفریح اور کھیل تماشے کے لیے بڑے بڑے اکھاڑے بنارکھے تھے جن میں چاروں طرف تماشائیوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ مختص ہوا کرتی تھی۔ درمیان میں غلاموں کو شیروں اور چیتوں سے لڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ جب کوئی درندہ کسی غلام کو یا غلام درندہ کو چیر پھاڑ دیتا تو تماشائی خوشی سے تالیاں بجاتے تھےبعض اوقات یہ کھیل اتنے بڑے پیمانے پر ہوتے تھے کہ کئی کئی ہزار آدمیوں کو بیک وقت تلوار کی نذر کردیا جاتا تھا۔ ٹیٹوس نے جو نسل ِانسانی کا دُلارا(Darling of the Human Race)کہلاتا ہے ایک دفعہ 50,000درندہ جانوروں کو پکڑوایا اور کئی ہزار یہودی قیدیوں کو ان کے ساتھ ایک احاطہ میں چھڑوادیا تھا۔ ٹراجان (Trajan)کے کھیلوں میں 11,000 درندے اور 10,000 آدمی بیک وقت لڑائے جاتے تھے۔ کلاڈیوس (Claudius)نے ایک دفعہ جنگلی کھیل میں 19,000آدمیوں کو تلواریں دے کر ایک دوسرے سے لڑادیا تھا۔ قیصر آگسٹس نے اپنی وصیت کے ساتھ جو تحریر منسلک کی تھی اس میں لکھتا ہے کہ میں نے 8,000 شمشیر زنوں اور 3,510جانوروں کے کھیل دیکھے ہیں۔ یہ سب تفریحات جنگی قیدیوں ہی کے دم قدم پر چل رہی تھیں۔14
اس سلسلے میں رومیوں کا شوقِ تماشا اس انتہا کو پہنچا ہوا تھا کہ وہ مجاز کے بجائے حقیقت کے روپ میں ان نظاروں کو دیکھنا پسند کرتے تھے۔ مثلاً آگ کے شعلوں کو بلند ہوتے دیکھنا مطلوب ہوتا تھا تو مصنوعی طور پر ایندھن کو آگ لگانے کے بجائے کسی غلام کے گھر کو آگ لگادیتے اور اس کے شعلوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اگر کسی کی موت کا منظر دیکھنا ہوتا تو غلام کو درندوں کے درمیان چھوڑ کر اس کے مرنے کا منظر دیکھتے تھے۔
روما میں جو لوگ آباد تھے ان کی تعداد تو مؤرخین نے لکھی ہے لیکن غلاموں کی صحیح تعداد کسی نے نہیں بتائی۔ قیاس و تخمین سے جو تعداد بتائی جاتی ہے وہ مختلف ہے اوراس کے اعتبار سے غلاموں کی آبادی روم کی آبادی کی تقریباً ایک چوتھائی تھی۔15اس حوالے سے ڈان نارڈو (Don Nardo)تحریر کرتاہے:
Yet no single people in human history kept as many slaves or relied as heavily on slave labor as did the ancient Romans.16
ابھی تک کی انسانی تاریخ میں کسی نے بھی اتنے غلام رکھے اور نہ ہی اتنا زیادہ مزدور غلاموں پر انحصار کیا، جتنا رومیوں نے کیا تھا۔
جیسے جیسے رومی امراء کی ضروریات غلاموں کے حوالے سے بڑھتی گئیں، ان کا انحصار بھی غلاموں پر بڑھتا چلا گیا ۔ چنانچہ غلاموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا، لہٰذا غلاموں کی خرید و فروخت ایک معمول کی بات تھی بعض فتوحات کے بعد 1,50,000سے زیادہ جنگی قیدی فروخت کیے گئے تھے۔ جولیس سیزر (Julius Caeser)نے فرانس میں ایک روز 63,000قیدی فروخت کیے تھے۔ اگسٹس (Augustus)کے عہد میں ایک شخص لیس نے ترکہ میں 4,250غلام چھوڑے تھے۔بلئیر (Blair)کا بیان ہے کہ کلاڈیوس (Claudius)کے عہد میں غلاموں کی تعداد 2,00,83,000 تھی۔17 فریڈرِک ڈبلیو فرّار(Frederic W. Farrar) کا بیان ہے کہ:
It is reckoned that in the empire there cannot have been fewer than 60,000,000 slaves. 18
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ سلطنت میں6,00,00,000 سے کم غلام نہ تھے۔
لہذا اس وقت کی دنیا میں غلاموں کی ا تنی بڑی تعداد اور کہیں بھی نہیں تھی۔19 اور شاید بلکہ یقیناً اس کے بعد بھی کسی سلطنت میں اتنی بڑی تعداد میں غلام کبھی نہیں رہے ہیں۔
رومیوں کے قوانین کے مطابق آقا کو اپنے غلام پر مکمل اختیار حاصل تھا یہاں تک کہ وہ اس کی موت اور زندگی کا بھی مالک ہوتا تھا۔20غلام کسی قسم کی جائیداد نہیں رکھ سکتاتھا۔ جو کچھ وہ حاصل کرتا سب اس کے مالک کا ہوتا تھا۔ اس کی گواہی تسلیم نہیں کی جاتی تھی، اور نہ ہی وہ فوج میں یا حکومت کے کسی عہدے پر فائز ہوسکتا تھا۔ ایسی صورت میں قانون اس کو موت کی سزا سنادیتا تھا۔ غلام عورتوں اور مردوں کی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی تھی اور یہ تعلق آقا کی مرضی پر منحصر ہوا کرتا تھا۔آقا پر اگر کسی قسم کا فرد جرم عائد کیا جاتا تو وہ تحقیقات کے لیے اپنے غلاموں کو پیش کرتا تھایا اسی مقصد کے تحت دوسرے کے غلاموں کو تحقیقات کے لیے طلب کرسکتا تھا۔ آخر الذکر صورت میں غلاموں سے پوچھ گچھ کے اس عمل کے دوران اگر وہ زخمی ہوجاتے یا مرجاتے تو ان کے مالک کو معاوضہ دے دیا جاتا تھا۔ غلام مرد کی شادی آزاد عورت سے اور آزاد مرد کی شادی غلام عورت سے قطعاً ممنوع تھی۔ اگر کوئی آزاد عورت کسی غلام سے شادی کرلیتی تو اس کے لیے سزاؤں میں سے ایک سزا یہ تھی کہ وہ قتل کردی جائے اور غلام کو زندہ جلادیا جائے۔یہ وہ افسوس ناک قوانین تھے جو رومی عہد میں غلاموں کے لیے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ غلاموں کو معاشرے کے کسی بھی طبقے کی اخلاقی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ان کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ محض جنسِ تجارت خیال کیا جاتا تھا۔21
غلاموں کے بارے میں رومہ کاایک قانون خاص طورسے سنگدلانہ تھا۔جب کوئی غلام اپنے آقاکے ظلم سے تنگ آکراُسے قتل کردیتاتواُس کے ساتھ گھر کے سارے غلاموں کو موت کی سزا دی جاتی تھی۔رومہ کے ایک زرخرید غلام کراسس کو بڑی عبرت ناک سزادی گئی تھی۔22
غلاموں کا کام اپنے آقاؤں کے جنسی جذبات کی تسکین بھی تھا۔ غلاموں کی بیویاں اور لڑکیاں ان کے لیے ناچنے گانے اور تفریح مہیا کرنے کے کام آتی تھیں۔ غلاموں کی عورتوں کو فروخت کردینا، کسی کو تحفے میں دے دینا ان کو قتل کردینا بھی ایک معمول کی بات تھی۔ جنسی استحصال کے حوالے سے لیزلی ایڈکنزمزیدلکھتی ہیں:
Prostitutes, including men and boys, were largely slaves, and it is known that they worked in brothels, as well as in places such as bathhouses or the tombs lining the roads into towns. Slaves were not paid for sex by their owner, because they were his property and he could use them as he wished.23
طوائفیں، مرد اور لڑکےزیادہ تر غلام تھے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ چکلوں اور اس کے ساتھ ساتھ حماموں اور شہروں میں شاہراہوں کے ساتھ واقع مقبروں وغیرہ میں بھی کام کرتے تھے۔ طوائفوں کو جنسی فعل کے بدلے پیسے دیے جاتے تھے، لیکن وہاں آزاد طوائفوں کوناپسند کیا جاتا تھا۔ غلاموں کو ان کے مالک کی طرف سے جنسی فعل کرنے پر کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا تھا،کیونکہ وہ اس کی جائیداد تھے اور وہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرسکتے تھے۔
رومی تہذیب میں غلاموں پر مظالم ڈھانا ایک عام بات تھی۔جس طرح ایک انسان کسی جانور کو بے دردی سے مار سکتا تھا، بیچ سکتا تھا یا اُسے ذبح کرسکتا تھا اسی طرح ایک آقا بھی اپنے غلام پر یہ حقوق رکھتا تھا۔ غلام آقا کی ملکیت شمار ہوتے تھے۔ لہٰذا جب وہ اپنی دوسری جائیداد کو فروخت کرتا تو ساتھ ہی غلام، ان کے بیوی بچے اور گھر بار بھی فروخت کردیے جاتے تھے۔آمدنی کا خاص ذریعہ غلاموں کی تجارت تھی اور رومی فوجیں مشرق میں غلام پکڑنے کی باضابطہ اور منظم مہموں پر روانہ ہوا کرتی تھیں۔غلاموں کے تاجر فوجوں کے ساتھ جاتےتاکہ موقع پر اچھے اچھے غلام خرید لیں۔24
ان کے یہاں غلاموں کو سزا دینے کے بھی عجیب و غریب طریقے رائج تھے مثلاً کسی غلام سے کوئی ادنیٰ سا جرم صادر ہوا تو انہوں نے ایک بڑا بھاری پتھر اس کی کمر پر لاد دیا اور اس پر طرفہ ستم یہ کہ غلام سے کہا گیا کہ اس حالت میں جاکر کھیتوں میں کاشت کاری کرو۔ کبھی ان کو بطور سزا الٹا لٹکادیا جاتا اور بڑی بڑی وزنی چیزیں ان کے جسم سے باندھ دی جاتیں اور کبھی ان کو اس بے دردی سے مارا جاتا کہ بے چارے پٹتے پٹتےقیدِ ہستی سے ہی آزاد ہوجاتے تھے۔25
غلاموں کو سزا دیتے وقت ان کے اعضاء توڑ دینا یا ان کے جسم کو سرخ لوہے سے داغ دینا تاکہ بھاگ جانے کی صورت میں شاخت ہوسکیں، ایک مروّجہ طریقہ تھا۔ ایچ۔ جی ویلز (H.G Wells) لکھتا ہے:
The agricultural workers in Italy in the latter days of the Republic and the early Empire suffered frightful indignities; they would be chained at night to prevent escape or have half the head shaved to make it difficult. They had no wives of their own; they could be outraged, mutilated and killed by their masters. A master could sell his slave to fight beasts in the arena. If a slave slew his master, all the slaves in his household and not merely the murderer were crucified.26
روم کے جمہوریہ بننے کے آخری اور ابتدائی دور میں اطالیہ میں زرعی غلاموں کو ہولناک زیادتیاں سہنی پڑیں تھیں۔ ان کے فرار کے سدّباب کے لیے رات کو انہیں زنجیروں میں باندھ دیا جاتا یا ان کے نصف سروں کے بال منڈوادیے گئے تاکہ وہ سب شناخت کرلیے جائیں۔ غلاموں کی اپنی بیویاں نہیں ہوتی تھیں۔ ان کے آقا کے پاس زد وکوب کرنے، اعضاء کاٹ دینے، حتیٰ کہ قتل کردینے کا بھی حق ہوتا تھا۔ آقا اپنے غلام کو اکھاڑے میں درندوں سے دوبدو لڑانے کے لیے بھی بیچ سکتا تھا۔ اگر ایک غلام اپنے آقا کو قتل کردیتا تو نہ صرف اسے بلکہ گھر کے سب ہی غلاموں کو سولی پر ٹانگ دیا جاتا تھا۔27
روم جس کی عظمت کے ترانے گائے جاتے ہیں، آقا کو حق دیتا تھا کہ اپنے غلاموں کے کندھوں پر پالکی میں بیٹھ کر سفر کرے اور انہیں چابک سے لہولہان کردے۔ رومی قانون میں آقا کو ناقابل تسخیرحق تھا کہ اس کے غلام اس کی سواری کے آگے آگے بھاگیں۔ غلام کو جوتے پہننے کا حق نہ تھا وہ ننگے پاؤں سواریوں کے آگے دوڑتے تھے۔ روم میں غلاموں کو زنجیروں میں جکڑ کر ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا۔ ان کو کھانے کے لیےجو خوراک دی جاتی وہ جانوروں کے چارے سے بدتر ہوتی تھی۔ گندا پانی ان کی پیاس بجھانے کے لیے مخصوص تھا۔ انہیں اذیت پہنچانا مالکوں کے نزدیک فن تھا۔ بلاوجہ انہیں گلا گھونٹ کر یا پھانسی چڑھا کر مار دینا روزمرّہ کا معمول تھا۔وحشی اور خونخوار جانوروں کے سامنے غلاموں کو پھینک دیا جاتا اور وہ انہیں چیر پھاڑ ڈالتے تھے۔ یہ سارے افعال مہذب آقاؤں کے لیے تفریح اور د ل لگی کا سامان مہیا کرتے تھے۔ وہ بیٹھے قہقہے لگاتے اور درندے انسانی جسم کو پارہ پارہ کردیتے تھے۔ رومی سلطنت کے جزیرے سپارٹا (Sparta)میں بدنام ِزمانہ "غلام اسکوائر"پر پہلی مرتبہ اس وقت غلاموں کو پھانسیاں دی گئی تھیں جب ان بے چاروں نے اپنی حالت زار پر احتجاج کیا تھا۔ ایسی بربریت پر تہذیب کے ان علمبرداروں کو نہ شرم محسوس ہوئی تھی نہ کسی کے ضمیر میں خلش پیدا ہوتی تھی۔28
روم میں غلام آزاد بھی ہوتے تھے لیکن اس میں پیچیدگیاں تھیں ۔ پھر آزاد کرنے والوں کی نیت بھی بخیر نہیں ہوتی تھی ۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی اس حوالے سے لکھتے ہیں:
اصولی خودغرضی اور کمینگی کا ظہور شاید اس قدر بھیانک شکل میں کہیں نہ ہواہوگا جتنا کہ یہاں غلاموں کو آزاد کرنے میں ہوتا تھا۔ غلام کو آزاد کرکے آزاد کرنے والا کچھ گنواتانہیں تھا بلکہ کچھ اور زیادہ حاصل کرلیتا تھا۔ رومیوں میں آزاد کرنا شرافت اور نجابت کی دلیل کم اور "صنعتی دیکھ بھال" کی زیادہ تھی۔ آقا کو بسا اوقات یہ زیادہ سود مند معلوم ہوتا تھاکہ وہ آزاد ہوکر غلام کی تجارت میں بحیثیت حصہ دار کے شریک ہو، بہ نسبت اس کہ کچھ غلام کمائے، وہ سب اسی کے نام اور اسی کی ذمہ داری کے ساتھ انجام پذیر ہو۔
لوگ غلام آزاد کرتے تھے تو ان کے اس عمل کا محرک کوئی اخلاقی نقطۂ نظر نہیں ہوتا بلکہ اس کی وجہ زیادہ تر اقتصادی ہوتی تھی۔ یہ سمجھتے کہ غلام اگر بحالت غلامی کوئی کاروبار کرے گا تو اس میں اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا کہ آزاد ہونے کے بعد اس کام کو کرنے میں ہوسکتا ہے۔روم میں غلام کی آزادی دو قسم کی تھی ایک باقاعدہ اوردوسری رسمی۔ پھر قسم اول کی تین قسمیں تھی۔ روم میں آزادی صرف زبان سے کہہ دینے سے ثابت نہیں ہوجاتی تھی بلکہ آقا کو عدالت میں حاضر ہوکرکہنا پڑتا تھا کہ میں اپنے غلام کو آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر مجسٹریٹ اس کا تحریری بیان لیتا تھااور اپنے دستخط اس پر ثبت کردیتا تھا۔ اس کے بعد شہر کے لوگوں کی فہرست میں اس کا نام درج کرلیا جاتااور اس کی آزادی کا اعلان کردیاجاتا تھا۔اب وہ اپنے تجارتی کاروبار اور دوسرے معاملات میں بالکل آزاد ہوتا تھا اور آزاد افراد کی طرح شہری حقوق کا مالک بھی لیکن اپنے آقائے سابق اور اس کے گھرانے کے ساتھ اس کے تعلقات اب بھی غلامانہ ہوتے تھے جن کے قائم رکھنے پر عرف اور قانون دونوں کی دفعات کے پیش نظر وہ مجبور تھا۔29
روما میں غلامی کا رواج اس حد تک تھا کہ اگر کہا جائے کہ غلامی ان کی ضرورت تھی تو بجا ہوگا کیونکہ ان کی عیش پرستی خوب عروج پر تھی۔ دوسری جانب جس انداز سے روما اطراف کی ریاستوں کو فتح کررہی تھی اس کی حرصِ بالادستی بھی اس غلامی کو باقی رکھنے کی متمنی تھی۔
مختصر یہ کہ رومی تہذیب غلاموں کے معاملے میں اپنی سفاکیت کی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ آقاؤں کے لیے تو ہر قسم کے حقوقِ انسانی بدرجہ اتم موجود تھے لیکن غلاموں کے لیے کوئی حقوق نہیں تھے۔ غلاموں کی کثرت حکومت اور امراء کے لیے باعث فخر تھی۔ مفتوح قوموں کی آبادی کو حسبِ ضرورت ہانک کر اپنے ساتھ لے جایا جاتا ا ور اپنی خدمت پر مامور کردیا جاتا تھا۔ غلام عورتیں اُمراء کے لیے عیاشی کا سامان ہوتی تھیں اور انکے بچے انکی دیگر تفریحات کا سامان۔درندگی اور سفاکیت کی وہ مثالیں جو رومیوں کی تہذیب میں ہمیں ملتی ہیں ،وہ کسی اور قدیم تہذیب میں موجود نہیں تھی،آج بھی جو اقوام بالخصوص وہ مخصوص غیر مرئی ہاتھ جو پوری دنیا کے نظام کو عملاچلاتے ہیں ،وہ بھی شاید رومیوں کی اسی درندہ صفت اور غیر انسانی تہذیب سے ہی متاثر ہیں کیونکہ ان کے ہاں بھی انسان کو غلام بنانا اور اسے جانوروں کی طرح اپنی خواہشات کی تکمیل کےلیے جَوتے رکھنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ،اسی لیے یورپ اور وہ علاقے جو آج بھی روسی تہذیب کو اپنا امام اور مقتدی مانتے ہیں انکے نزدیک دنیا کی ساری اقوام بھیڑ بکریوں کی مثل ہیں جن کے قتل عام سے نہ تو انکو کوئی دکھ ہوتا ہےاور نہ ہی انکے بھوکا پیاسا رہنے سے انکے کان پر جوں رینگتی ہے ۔
شادیوں کے معاملے میں رومی تمدن روایتی ڈگر پر قائم تھا۔ قدیم رومہ کاایک قانون تھاکہ جب کوئی مرداورعورت 12ماہ اکھٹے بسر کرتے تووہ میاں بیوی بن جاتےتھے۔30 شادیاں عموماً خاندانی ، سیاسی اور سماجی اسباب کے تحت ہی منعقد ہوا کرتی تھیں۔12سال کی عمر میں لڑکیوں کو عموماً بیاہ دیا جاتاورنہ 14سال کی عمر میں لازماً لڑکیوں کی شادی کردی جاتی تھی:
Marriages are usually arranged between families for business, political, or social reasons—the feelings of the young couple for each other are rarely taken into account. Although in theory the wife is subject to her husband’s will, in practice Roman matrons exercise great influence over the household and have their say over a child’s future spouse. Girls may be betrothed at birth and allowed to marry at the age of 12, but most wait until they are 14.31
زیادہ تر رومیوں کی شادیاں کاروباری، سیاسی اور سماجی بنیادوں پرمنعقد ہوتی تھیں۔ نوجوان جوڑوں کے درمیان پسند ناپسند کو شاذونادر ہی اہمیت دی جا تی تھی۔عام طور پر بیویاں شوہر کے ماتحت ہوتی تھیں۔ گھریلو امور میں رومیوں کی بیویوں کا بہت زیادہ تسلط ہوا کرتا تھا اور اپنے بچوں کیلیے جیون ساتھی کو منتخب کرنے میں بھی رائے دیا کرتی تھیں۔ عموما ً لڑکیوں کے لیےان کی پیدائش پر ہی منگیتر کا انتخاب کرلیا جاتا تھااور انہیں 12سال کی عمر میں شادی کی اجازت ہوا کرتی تھی، لیکن زیادہ تر گھرانے14 سال تک انتظار کیا کرتے تھے۔
شادیوں کا انعقادمنگنی کی رسم سے ہو ا کرتا تھا جودونوں فریقوں کے والد کی اجازت سے متعدد رشتہ داروں اور دوستوں کی موجودگی میں وقوع پذیر ہوا کرتا تھا۔ ان مہمانوں میں سے کچھ گواہ بنتے اور بقیہ افراد شادی کی تقریبات میں حصہ لیتے تھے۔ ان تقاریب کے لیے باقاعدہ شامیا نہ لگایا جاتا تھا۔لڑکے کی طرف سے اپنی منگیتر کو مہنگے اور سستے دونوں اقسام کےمختلف تحائف اور ایک انگوٹھی بطور تحفہ بھجوانا رشتہ پکا ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔32
روم کے قانون کے مطابق شادی یا نکاح صرف ایک معاہدے سے وجود میں آجاتا تھا۔33 یہ معاہدہ ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہوتا لیکن کرتے ان کے خاندان کے بڑےتھے۔ لڑکی کےلیے لڑکا پسند کرنے کا حق صرف گھر کےبڑے کو ہوتا جس کو اس زمانے میں پیٹر فیمیلیا(Paterfamilia) کہا جاتا تھا۔34 اگر کوئی والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرلیتا تو ایسا نکاح فاسد مانا جاتا تھا۔35 نکاح کے بعد بیوی اپنے شوہر کے ماتحت ہوتی یہاں تک کہ شوہر کو اس لڑکی کو جان سے مارنے کا بھی حق ہوتا تھا۔36
روم کے امراء کے نزدیک شادی ایک بوجھ تھا کیونکہ شادی کے بعد ان کی آزادی محدود ہوجاتی تھی اور وہ اس چیز کو شدید ناپسند کرتے تھے۔37 اسی وجہ سے ان کے نزدیک بیویوں کی بھی خاص اہمیت نہ تھی۔ کسی عام چیز کی طرح یہ امراء اپنی بیویاں دوستو ں کو ان کی شہوانی لذت پورا کرنے یا ان کے لیے بچہ جننے کے لیے دے دیا کرتے تھےاور بیویوں کو انکار کرنے کا کوئی حق نہ تھا۔ جیسے کہ نسباؤم(Nussbaum) لکھتی ہے:
Cato had married Martia the daughter of Philippus as a girl; he was extremely fond of her, and she had borne him children. Nevertheless, he gave her to Hortensius, one of his friends, who desired to have children, but was married to a childless wife, until she bore a child to him also, after which Cato took her back to his own house as though he had merely lent her.38
کاٹو نے مارشیا سے نکاح کیا جو کہ فیلیپوس کی بیٹی تھی۔ اس سے اس کے کئی بچے پیدا ہوئے تھے اور وہ اسے بہت پسند بھی کرتا تھا۔ پھر بھی اس نے کچھ عرصہ کے لیے اپنی بیوی ہورٹین سیس کو دے دی تاکہ وہ اس کے دوست کو بھی بچے پیدا کرکے دے۔ جب اس کی بیوی نے یہ کام مکمل کرلیا تو کاٹو نے اپنی بیوی کو اپنے گھر واپس رکھ لیا اور ساتھ رہنا شروع ہوگیا جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
یہ وہ رذیل حرکات تھیں جو اہل روم میں عام تھیں نہ تو یہ کرنے والا کوئی قباحت محسوس کرتا تھا اور نہ ہی انکا معاشرہ اسکو برا سمجھتا تھا اور اسطرح ہر عورت کئی مردوں کے ساتھ اور ہر مرد کئی عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کیے رکھتاتھا۔
اس دور میں طلاق دینا بہت آسان تھا39 لیکن خواتین طلاق دینے سے کتراتی تھیں کیونکہ طلاق کے بعد بچے والد کی سرپرستی میں رہتے تھے۔40 اکثر طلاقیں روم کے امراء کے گھروں میں ہوا کرتی تھیں41 ان کی تاریخ کی پہلی طلاق 231 قبل مسیح میں واقع ہوئی جب اسپورئیس کارویلئیس نے اپنی بیوی کو بانج ہونے کی وجہ سے طلاق دی تھی 42ورنہ یقینا یہ سلسلہ عرصہء درازسے ان میں رائج و موجود تھا ۔
اہل روم کی اکثریت مشرک تھی لہٰذا ان کے نزدیک نسل کشی کی بھیانک رسم پر عمل کرنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔43 روم کے قوانین میں باقاعدہ لکھا تھا کہ اگر کسی بچہ میں پیدائش کے وقت کوئی عیب ہو تو اسے جلد از جلد موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔ 44اسی لیے اکثر رومی مرد اور عورت جو شادی کی عمر کو پہنچتے اس بات کو دل سے تسلیم کرتے کہ شادی کہ بعد ایک یا اس سے زیادہ بچوں کو دفن کرنا پڑسکتا ہے۔45
نسل کشی روم کے کسی خاص خطہ میں محدود نہ تھی بلکہ سلطنت کے اکثر حصے پر پھیلی ہوئی تھی۔46 نسل کشی کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ نومولود بچے کو اس کے والد کے قدموں میں رکھ دیا جاتا ، اگر وہ والد اس بچہ کو اپنی اولاد تسلیم کرلیتا تو وہ زندہ رہتا ورنہ اس بچہ کو مار دیا جاتا تھا۔ رومیوں کے نزدیک اس طریقہ سے ان کی نسل پاک رہتی تھی۔47 حالانکہ چند سطریں قبل ہی (Nussbaum)کے حوالے سے یہ بات تحریر کی گئی ہے کہ وہ شوہر اور بیویاں بدلتے رہتے تھے اور انکے نزدیک اس گھناؤنے فعل سے انکی نسل ناپاک بھی نہیں ہوتی تھی ،کچھ لوگ تو اتنے ظالم ہوتے کہ اپنے نو مولود بچہ کے ساتھ بھاری وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیتے تاکہ وہ ڈوب کر مرجائے۔48 رومیوں کی ان حرکتوں کے باجود جدید دور کے ماہرین اور مورخین کا رومی تہذیب کے لیے تعریفوں کے پل باندھنا عقل سے ماورا ہے۔
روم میں خاندانی نظام والد کے ماتحت ہوا کرتا تھا اور والد کی مرضی قانون کا درجہ رکھتی تھی۔ اس بارے میں انگریز مؤرخ ڈوروتھی ملزتحریرکرتاہے:
The Father was the head of the Family, and his word was law over all the members of his household. He could exercise the power of life and death over his sons, and if he chose, he might even sell them into slavery.49
والد گھر کا سربراہ ہوا کرتا اور اس کے کہے ہوئے الفاظ تمام گھر والوں کے لیے قانون کا درجہ رکھتے تھے۔ وہ اپنے بیٹوں کی موت و حیات کے لیے فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا تھا اور اگر وہ چاہتا تو انہیں بطور غلام بیچ بھی سکتا تھا۔
اس کے ساتھ ساتھ قدیم زمانے میں رومی خاندان میں نظم و ضبط پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ کیوں کہ رومی جانتے تھے کہ کوئی قوم حکومت نہیں کرسکتی تاوقتیکہ خود اسے اطاعت کرنی نہ آئے۔ مگر آگے چل کر بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام زیادہ تر غلاموں پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ غلام عموماً بداخلاق اور آوارہ ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ رومی تعلیم ایک انحطاط یافتہ یونانی تعلیم بن گئی تھی۔ خصوصاً فنِ خطابت میں یہ بات بالکل صادق آتی تھی۔ فنِ خطابت عوام کو بہکانے اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کا فن تھا اور اسے جمہوریت کے ذریعے کی جانے والی حکومت میں انتہائی اہمیت حاصل تھی ۔
رومی معاشرہ بعض لوگوں کے نزدیک متمدن اورمہذب معاشرہ شمار ہوتاتھامگر حقیقت اسکے بر عکس تھی ،اس تہذیب نے انسانی اجتماعیت کے کئی پہلوؤں میں کچھ مفیداضافے کیے تھے 50لیکن اکثریت ضلالت و گمراہی کی تھی ،روم کی جمہوری ریاست کے باشندے سپاہی بھی تھے اور کسان بھی۔ وہ کھیتی باڑی بھی کرتے تھے اور اپنی روز مرّہ کی زندگی میں جن چیزوں کی ضرورت پڑتی تھی خود ہی اسے بنالیتے تھے۔ ان میں جو لوگ دولت مند تھے ان کے پاس چند غلام بھی ہوتے تھے جو کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن وہ خود بھی کھیتی باڑی کے کام میں اپنے غلاموں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے کسانوں اور کاری گروں کاشمار غریب لوگوں میں ہوتا تھا۔ یہ کاریگر ہتھیار، اوزار،زرہ بکتر، گھر کی آرائش کا سامان، برتن اور کپڑا تیار کرتے تھے۔ جمہوریت کے قائم ہونے کے بعد کوئی 200برس تک روما کے لوگ خاصے خوش حال رہے تھے۔ سینیٹ(Senate) کو جب اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ شہر میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے تو ان میں سرکاری اراضی تقسیم کردی جاتی تھی 51لیکن اجنبیوں پر جوتجارت یا صنعت کے سلسلے میں آتے تھے،محصول لگایا جاتا تھا۔52غیر رومی اقوام کے لیے رومی معاشرت میں کوئی عزت کی جگہ نہ تھی۔غیر رومی ماتحت علاقوں کی دولت توسمٹ کر رومی معاشرہ میں پہنچ جاتی مگر غیر رومی لوگ ذلت وحقارت سے نوازے جاتے تھے۔53 عام لوگوں کوبغیر تنخواہ کےفوج میں بھرتی ہوناپڑتابلکہ ان کو محصول بھی دینے پڑتےتھے،اس وجہ سے کسان تباہ ہوگئے اورعام لوگ امیروں کے اس ظلم سے بہت تنگ آگئے تھے۔54
دیہات میں رہائش پذیر رومی عموماً سادہ زندگی گزارنے والے لوگ تھے۔ یہ لوگ اپنی بود و باش کے لحاظ سے بہت سادہ زندگی گزارنے والے تھے۔ وہ عموماً خود اپنی محنت کے بل بوتے پر جیتے تھے۔ان کی معاشرت اور سماجی زندگی کے متعلق Ancient History Encyclopediaمیں لکھا ہے:
Outside the cities in the towns and on the small farms of Rome, people lived a much simpler life - dependent almost entirely on their own labor. The daily life of the average city dweller, however, was a lot different and most often routine. The urban areas of the empire - whether it was Rome, Antioch, or - were magnets to many people who left smaller towns and farms seeking a better way of life.55
روم کے شہر سے باہر قصبوں اور زرعی علاقوں میں لوگ بہت سادہ زندگی گزار تےتھے اور مکمل طور پر اپنی ذاتی محنت پر انحصار کرتے تھے۔ بہرحال، ایک عام باشندےکی روز مرہ کی زندگی بہت مختلف تھی لیکن ہر شخص کا ایک خاص معمول ہوا کرتا تھا۔ اس سلطنت کے شہری علاقے، چاہے روم ہو یا اینٹی ٹوچ ، ان علاقوں میں لوگوں کے لیےزندگی گزارناتناؤ اور کھنچاؤ کا باعث تھا اسی لیے چھوٹے قصبوں اور زرعی علاقوں کی زندگی کو چھوڑ کر یہ لوگ ایک بہتر زندگی کے خواہاں تھے۔
ان کی نسبت امیرطبقہ کےافکارواعمال مختلف تھے۔ رومی امرا ءکو عیش و عشرت کا زیادہ سے زیادہ سامان جمع کرنے کا شوق تھا اسی لیے انہوں نے عمرانیات میں ایک حد تک ترقی کی تھی۔ شہر آباد کیے، منڈیاں بنائیں، بازار آراستہ کیے، سڑکیں تعمیر کرائیں، غلاموں کے بل بوتے پر زراعت میں ترقی کی۔ بڑی بڑی جاگیریں قائم کیں۔ مندر بنوائے اور بیرونی تجارت کی حوصلہ افزائی کی جو دوسری قوموں کے ہاتھ میں تھی۔56
رومی تمدن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف کھانے متعارف ہوتے چلے گئے اور پھر انواع و اقسام کے سامان خوردونوش رومی گھروں اور مجالس میں استعمال ہونا شروع ہوگئے تھے۔ جس کی تفصیلات درج ذیل ہے:
The diet of most people was frugal, based on corn (grain) for bread or porridge, olive oil and wine, and in addition pulses, vegetables and various fruits and nuts were eaten, depending on the geographical location. Cereals, mainly wheat, provided the staple food. Originally husked wheat (far) was prepared as porridge (puls), but later on naked species of wheat were cultivated and made into bread. Bread was sometimes flavored with other foods such as honey or cheese. It was eaten at most meals, accompanied by products such as sausage, domestic fowl, game, eggs, cheese, fish and shellfish. Fish and oysters were particularly popular with those who could afford the cost. Meat, especially pork, was eaten, but did not play an important role in the diet, because it was expensive, as was fish.57
اکثر لوگ بہت سادہ خوراک استعمال کرتے تھے، جو ان کی علاقائی جغرافیہ کے لحاظ سے تھیں۔ جن میں مکئ کی روٹی، دلیہ، زیتون کا تیل ، شراب ، دالیں ، سبزیاں اور مختلف قسم کے پھل اور اخروٹ، مونگ پھلی وغیرہ شامل تھے۔ اناج میں عمومی طور پر کثرت سےکھائے جانے والی چیز گندم تھی۔ اکثر خشک گندم سے دلیہ بنایا جاتا تھا۔ بعد ازاں گندم کو کھیتی باڑی اورروٹیاں بنانے کے لیےاستعمال کیا جانے لگا تھا۔ بعض اوقات روٹی کو مختلف غذاؤں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتاتھا، جیسے شہد اور پنیر کے ساتھ۔ اکثر کھانوں میں ان کا استعمال ہوتا جن میں مزیدمختلف اشیاء شامل ہوتیں، جیسے قیمہ بھری آنت، پالتو پرندے، شکار کا گوشت، انڈے ، پنیر ، مچھلی، اور کھپرے دار مچھلی وغیرہ۔مچھلی اور کستورا مچھلی ان لوگوں میں بہت مقبول تھیں جو ان کی قیمت ادا کرسکتے تھے۔ گوشت، خصوصاًسور کا گوشت بھی ان کی غذا کا حصہ تھا لیکن مچھلیوں کی طرح قیمتًا مہنگا ہونے کےسبب زیادہ نہیں کھایا جاتا تھا۔
دوسرے مشروبات کے ساتھ ساتھ امیر و غریب گھروں میں شراب نوشی کثرت کے ساتھ کی جاتی تھی۔ اور اس میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ جدّتیں پیدا کی جانے لگیں تھیں:
The main drink for poor and rich people alike was wine, which in wealthy homes was chilled with ice. (Donkey trains shipped ice in from the nearest mountains and people stored it in underground pits until they were ready to use it.) Almost all Romans mixed their wine with water in a large bowl called a crater, from which they ladled it into goblets; drinking undiluted wine was seen as undignified or even uncivilized. (Drinking milk was also viewed as uncivilized.) Sweetening wine with honey produced a popular drink called mulsum, and poor people often drank posca, a mixture of water and a low-quality, vinegar like wine. Beer, an alternative to wine, was popular mainly in the Northern provinces. 58
امیر و غریب دونوں مشروبات پسند کرتے تھے ۔ امرامیں شراب برف کے ساتھ پیش کرنے کا رواج تھا ۔ اس کے لیے قریبی پہاڑوں سے برف کو لمبی گدھا گاڑیوں کے ذریعے لایا جاتا اور زیر زمین گڑھوں میں اس وقت تک رکھاجاتا جب تک ان کے استعمال کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ رومی زیادہ تر شراب کو پانی کے ساتھ ملاکر کریٹر نامی ایک بڑے ڈونگے میں رکھتے تھے جس سے شراب کو ایک بڑے چمچے کے ذریعے آبخورے میں منتقل کیاجا تا تھا ۔ رومیو ں میں خالص شراب پینا بے شرمی اور جہالت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ شراب کو شہد کے ساتھ ملاکر پینا بہت مشہور تھا جس کو”ملسم”کہتے تھے ۔غریب رومی “پوسکا” نامی مشروب استعمال کرتے تھے جو پانی اور ہلکے درجے کے سر کے کے ساتھ ملاکر بنایا جاتا تھا جیسے ہلکی شراب جو انگور کی شراب کا متبادل تھی زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں مشہور تھی ۔
انجینئری میں رومیوں نے اعلیٰ معیار قائم کیا تھا۔ انہوں نے ریت ، چونے، سلیکے، پتھراور پانی سے کنکریٹ تیار کی تھی۔ وہ ہنر مند معمار تھے۔ کنکریٹ اور بڑے پتھروں سے سڑکیں اور پل بناتےتھے، جن میں سے بعض اب تک کام دے رہے ہیں۔ رومیوں نے جو سڑکیں بنائیں، ان کی نظیر اس وقت تک شاذہی ملتی ہے۔ جب روڑی اور مسالے سے کام لینے کا طریقہ اٹھارھویں صدی کے اختتام میں فروغ پذیر ہوا تو اس وقت بہترین رومی سڑکوں کا فرش پتھروں کا ہوتا تھا۔ یہ 15سے20فٹ تک چوڑی ہوتی تھیں اور اس کی بنیاد کئی فٹ گہری رکھی جاتی تھی۔ ہر موسم میں یہ کام دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ سڑکوں کا جال پوری سلطنت میں پھیلا ہوا تھا۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ فوجوں کی نقل و حرکت میں آسانی رہے۔ انہیں رسد اور دوسراسامان بہ سہولت پہنچایا جاسکے۔
رومیوں کی عمارتوں کے جو باقیات موجود ہیں مثلاً پل، حمام، مختلف دیوتاؤں کے مندر، امفی تھئیٹر ، فاتح شہنشاہوں کے اعزاز میں بنائی ہوئی عمارتیں وغیرہ ان سب میں محرابیں گول رکھی گئیں تھیں۔ یہیں سے رومیوں نے آہستہ آہستہ محرابوں یا کمانوں کا متصل سلسلہ شروع کردیا تھا، جیسے سرنگوں میں بنائی جاتی ہیں۔ اسی طرح بڑے بڑے مکانوں کی چھتیں تیار کیں۔ رومیوں کو گنبد کے استعمال میں بھی پوری مہارت حاصل تھی۔ پینتھیان (Pantheon)کا مشہور گنبدشہنشاہ ہیڈرین (Hadrian)نے ازسرِ نو تعمیر کرایا تھا، اس کا قطر 142 فٹ ہے اور زمین سے یہ 142 ہی فٹ اونچا ہے۔مالدار رومی عموماً بڑے اور کھلے گھروں میں رہا کرتے تھے جس میں ان کے ساتھ ان کے غلام بھی رہتےتھے۔
اہلِ روم کی طرزِتعمیر سےان کی طبقاتی اونچ نیچ کا پتہ بھی چلتاہے۔امیرغریب الگ الگ طرز کی عمارتوں میں رہتے تھے۔مائیکل برگان اس بارے میں تحریرکرتاہے:
The wealthy owned their own large home. Several generations of a family, along with slaves, often lived together in one house. Most workers and the poor lived in rented rooms or apartments. The apartments were usually located in buildings up to three stories tall. Renters often shared kitchens and bathrooms. Some of the buildings were not well made.59
مالدار لوگ اپنے ذاتی گھروں کے مالک تھے۔خاندان کےکئی نسلوں کے افراداکثر غلاموں کے ہمراہ ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے۔اکثر مزدور پیشہ اور غریب افراد کرائے کے کمروں اور بالا خانوں میں رہا کرتے تھے۔بالا خانے اکثر تین منزلہ عمارتوں پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔کرایہ دار، باورچی خانے اورغسل خانے مشترکہ طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ کچھ عمارتیں اچھے انداز سے تعمیر شدہ نہ تھیں ۔
خوشی اور غمی میں ضیافت کا اہتمام کرنا بھی رومی تہذیب و تمدن کی ایک زندہ اور جاندار روایت رہی ہے۔ اس کے متعلق کیرول مولٹن(Carrol Moulton) لکھتی ہے:
During the time of the Roman Republic, public feasts at the state's expense generally were reserved for high officials and the upper class. Often, however, wealthy individuals gave banquets for anyone who attended or participated in the funeral of a relative who had died. This practice began as a way of honoring the memory of the deceased. In time, the wealthy also used such banquets as a way of gaining favor. Private Roman banquets were often large, lavish affairs. As in ancient Greece, the guests generally reclined on couches while they ate, drank, talked, and enjoyed various entertainments. Banquet meals usually consisted of numerous courses. 60
رومی حکومت کے دور میں عموماً لوگوں کے تہوار حکومتی خرچے پر صرف بڑے افسران اور مالی طور پر مستحکم لوگوں کے لیے ہی مختص تھے۔بہرحال امیر افراد اپنے شامیانوں میں ان لوگوں کو تقریبات کرنے کی اجازت دے دیا کرتے تھے جنہوں نے ان کے کسی قریبی عزیز کی آخری رسومات میں شرکت کی تھی۔یہ روش اپنے فوت شدگان کو یا د کرنے اورانہیں اعزاز بخشنے کے لیے رائج تھی۔اسی طرح بعض امراء ان شامیانوں کو کسی فائدہ کے حصول کے لیےبھی استعمال کرتے تھے۔ وہ شامیانے جو کسی کی ذاتی ملکیت میں ہوا کرتے ،عموماً زیادہ بڑے اور شاہانہ طرز کے ہوا کرتے تھے۔ قدیم یونانیوں کی طرح رومی لوگ بھی پرسکون انداز میں گاؤ تکیہ لگا کر دعوت اڑاتے اور محظوظ ہوتے تھے۔شامیانوں کے کھانے عموماً مختلف نوعیتوں کے پکوان ہوا کرتے تھے۔
اکثر یہ دعوتیں رومی فورم(Roman Forum) کے کھلے میدان میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔61 یونان کے سیمپوزیا(Symposia) کی طرح یہ دعوتیں روم کے امراء کیا کرتے تھے۔ ان دعوتوں میں کھانے، شراب نوشی کے علاوہ عورتوں کے ساتھ کھلے عام زنا کیا جاتا تھا۔ یہ اسراف اور بدکاریاں اتنی زیادہ بڑھ گئی تھیں کہ روم کے حکمرانوں کو اس پر پابندیاں عائد کرنی پڑی تھی۔62
رومی تہذیب و تمدّن میں کھیل اور جسمانی کرتب لازمی حصہ رہے تھے۔ جس کے لیے وہ عموماً گول تماشاگاہ (Amphitheater)جس میں چاروں طرف نشستیں ہوتی تھیں،تعمیر کیا کرتے تھے۔ جبکہ جسمانی مقابلوں کے لیے عموماً بڑے بڑے دنگل اور اکھاڑے بنائے جاتے تھے۔
Over time the Romans built amphitheaters, such as the Colosseum, especially for the games. These arenas featured animal hunts and gladiators in combat. In the amphitheaters, the fans sat high above the fighting area. These arenas also had special underground cells to hold the animals. Sand in the middle of the arena helped soak up the blood shed by both animals and humans.63
اسی دوران رومیوں نے خاص طور پر کھیلوں کے لیےمختلف ایمفی تھیٔٹرز (گول تماشا گاہ جس میں چاروں طرف نشستیں ہوں)بھی تعمیر کیے تھے جیسے کولوسیم۔ان دنگلوں میں جانوروں کا شکار کرنا اور گلیڈئٹرزکے درمیان طاقت کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ایمفی تھیٔٹرز میں تماشائیوں کے لیےکھیل کے میدان سے کافی اونچےمقام پر نشستیں ترتیب دی جاتی تھیں۔ ان اکھاڑوں کےنیچے زیر زمین جانوروں کو رکھنے کیلیے مختلف جیلیں بھی تعمیر کی گئیں تھیں اور ان گول تما ش گاہوں کے درمیان میدان میں جانوروں اور انسانی خون کو جذب کرنے کے لیےریت ڈالی جاتی تھی۔
ان جگہوں میں لڑائی کے علاوہ اور بھی تفریح کا سامان موجود ہوتا تھا۔ جیسے کہ میتھو بنسن(Mathew Bunson) رقم طراز ہے:
One of the great public and private past-times for the Romans; developed during the Republic and very popular during the imperial era. There were several types of performance, including comedy, drama, pantomime and tragedy, although favorite types depended upon the social level of the audiences.64
رومی سلطنت کے تاریخی دور میں عوامی اور انفرادی سطح پر وقت گزاری کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہوا تھا۔ ان میں مختلف نوعیتوں کے فنون پیش کیے جاتے تھے جن میں مزاح، ناٹک، خاموش اداکاری اور المیہ شامل تھے۔ الغرض پسندیدہ سرگرمیاں ناظرین کی سماجی سطح ملحوظ رکھتے ہوئے ترتیب دی جاتی تھیں۔
رومی اس لہو و لعب میں اس قدر مشغول رہتے کہ انہیں تھیٹر میں جاری ہنگامہ کہ ماسوا اطراف میں ہونے والے حادثات کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی ۔ کھیل کود میں اس اشتغال اور انہماک نے بسا اوقات انہیں مکمل ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں ڈال دیا اور وہ خود اپنے آپ کو بھی بچا نہ پائے تھے۔
تاریخی روایت ہے کہ (پہلی صدی عیسوی میں) جب پومپی کا کوہ آتش فشاں پھٹا تھا تو دن کا وقت تھا اور لوگ ایمفی تھیٹر میں جہاں 20,000 انسانوں کی گنجائش تھی، بیٹھے ہوئے درندوں کو زندہ انسانی جسموں کو اپنے پنجوں اور دانتوں سے نوچتے اور چیرتے پھاڑتے دیکھ رہے تھے۔ اس ظالمانہ لہو و لعب کی عین مشغولیت میں زلزلہ آیا اور آگ آسمان سے برسنا شروع ہوئی۔ کچھ لوگ جہاں بیٹھے تھے وہیں جل کر بھسم ہوگئے۔ کچھ باہر نکلے تو زبردست ہجوم اور گھپ اندھیرے میں کچل کر مرگئے، کچھ خوش نصیب تھے جنہوں نے کشتیوں اور جہازوں میں بھاگ کر جان بچائی۔ یہ شہر 1800 سال تک دنیا کے نقشہ سے غائب ہوگیا تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں اس کی کھدائی ہوئی تو شہرکی مٹی کی تہوں کے نیچے سے نشان عبرت بنے یہ انسان نکلے۔ 65
رومیوں میں حمام کا وجود نہ صرف موجود تھا بلکہ ان کی حیثیت اجتماعی میل ملاپ کے مراکز کی تھی ۔ قدیم رومہ کے حماموں میں کئی کئی مرد برہنہ ایک دوسرے کےسامنے غُسل کرتے تھے۔66رومیوں کے حمام صرف نہانے کے لیے ہی مختص نہیں تھے بلکہ ایک کلب ہاؤس(اجتماعی بیٹھک) کی طرح ہوا کرتےتھے ۔ ان میں سے کچھ کی باقاعدہ داخلہ فیس ہوا کرتی تھی لیکن اکثر میں داخلہ مفت تھا۔کچھ کلب ہاؤس جو تعداد میں کم تھے، انکی داخلہ فیس زیادہ ہوا کرتی تھی۔ ان میں دیگر کلب ہاؤسز کی بنسبت زیادہ سہولیات میسر تھیں جن میں مختلف نوعیتوں کی دکانیں ہوا کرتی تھیں، مثال کے طور پر وہاں لائبریریز ، نمائشی ہال، بیٹھنے کے لیے آرام گاہ، اوپرسے ڈھکی ہوئیں گشت گاہیں، کھیلنے کے لیے جگہیں، خوبصورت باغات وغیرہ، الغرض ہر وہ چیز میسر تھی جو دن کو خوبصورت بنانے میں اہم سمجھی جاتی تھی۔67
ابتدا ًیہا ں صرف مرد حضرات ہی آیا کرتے لیکن وقت کے ساتھ یہاں خواتین نے بھی آنا شروع کردیا تھا۔ اس کے متعلق جیروم (Jerome) لکھتاہے:
Many women were attracted by the sports which preceded the bath in the thermae, and rather than renounce this pleasure preferred to compromise their reputation and bathe at the same time as the men.68
اکثر خواتین کا ان جگہوں کی طرف زیادہ رجحان ہوا کرتا تھا جہاں کھیلنے کی جگہوں کے ساتھ ساتھ گرم پانی کے تالاب بھی ہوا کرتے تھے ۔اس قبیح فعل کو روکنے کے بجائے خواتین نے اپنی عزت کا لحاظ کیے بغیر مردوں کے ساتھ گرم چشموں میں نہانا شروع کردیا تھا۔
ان حماموں کے متعلق پلینی (Pliny) کا کہنا تھا کہ یہاں مرد اور عورتیں برہنہ ساتھ نہاتے تھے جب کے دیگر احباب ان کو دیکھا کرتے تھے۔ مارکس فیبئیس کوئین ٹیلینیس (Marcus Fabius Quintilianus) کے مطابق یہ حمام نہانے کے علاوہ زنا کی بھی سہولت فراہم کرتے تھے۔ فحاشی کا یہ عالم تھا کہ سر عام مرد اور عورتیں آپس میں زنا کرتے اور اس فعل میں صرف وہاں کی داشتہ عورتیں ملوث نہیں تھیں بلکہ شادی شدہ ، اونچے خاندان کی عورتیں بھی سر عام زنا کرواتی تھیں۔69 ان حماموں میں زنا اتنا عام ہوگیا کہ یہ چکلہ کہلانے لگے اور باقاعدہ طور پر یہاں پیسوں کے عوض لوگ زنا کروایا کرتے تھے۔ 70بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ وہاں ہم جنس پرستی بھی شروع ہوگئی تھی اور ایک ہی وقت میں کثیر لوگ (عورت اور مرد، مرد اور مرد، عورت اور عورت) زنا کر رہے ہوتے تھے۔ کچھ لوگ تو اپنے غلاموں کو مجبور کرتے کہ ان کی اس ہوس کو سر عام پورا کریں۔71 آ ج کا یورپ اور امریکا جس ہم جنس پرستی (Homosexuality)کا شکار ہے اس حرام کاری میں رومی انکے مرشد اور اما م تھے ،یہ سارے قبیح افعال جہاں ایک طرف انہوں نے یونانیوں سے لیے ہیں وہاں دوسری طرف رومی بھی ان اعمال میں ان کی قیادت کرتےدکھائی دیتے ہیں ،رومیوں کی یہ حرکات وسکنات جس طرح اس دور میں انکے لیے اللہ کے قہر و عذاب کا باعث تھیں بالکل اسی طرح آج کے دور میں یورپ اور امریکا میں بسنے والے وہ لوگ جو ان افعال میں مبتلا ہیں ان میں بھی ایڈز اور اس سے مطابقت رکھنے والی کئی بیماریوں نے جنم لے رکھا ہے جو ان کو اندرون خانہ تباہ کر رہی ہیں اور یہ ثقافتیں اور تہذیبیں خود ماضی میں بھی فنا کے گھٹ اتریں اور اگر ان قبیح اعمال و افعال سے باز نہیں آتیں تو مستقبل میں بھی ان کا حشر ماقبل کی تہذیبوں سے مختلف نہیں ہوگا۔
رومی موسیقی کے بھی انتہائی دلدادہ تھے اگرچہ ان کے ہاں موسیقی کا یہ تصور یونان کی دین تھا لیکن اس کے اثرات اتنی گہرائی کے ساتھ رومی تہذیب پر چھا گئے تھے کہ رومی معاشرے کے تمام طبقات میں موسیقی کے لیے بڑا وقت صرف کیا جانے لگا تھا۔ بالخصوص ان کے ہاں کھیلوں، شادیوں اور مذہبی تقریبات اور یہاں تک کہ تجہیز و تکفین اور تدفین کے موقع پر بھی حسب حال موسیقی سے ماحول کو خوشگوار رکھا جاتا تھا۔ اس کے متعلق ول ڈیورانٹ(Will Durrant) لکھتاہے:
The Romans loved music only less than power, money, women, and blood. Like nearly everything else in Rome’s cultural life, her music came from Greece. By 50 A.D. it had captured all classes and sexes; men as well as women spent whole days in hearing, composing, or singing airs. Lyric poetry was intended to be sung with music, and music was seldom composed except for poetry. Ancient Music was subordinated to the verse, whereas with us, the music tends to overwhelm the words. Choral music was popular and was frequently heard at weddings, games, religious ceremonies and funerals. 72
رومی موسیقی کے بہت دلدادہ تھے ۔طاقت ، پیسہ، عورت،اور خونریزی کے بعد اگرکسی سرگرمی کے بہت شیدائی تھے تو وہ موسیقی تھا۔ جس طرح رومیوں کی ثقافتی زندگی یونانی طور طریقوں کا مظہر تھی اسی طرح موسیقی کو بھی اپنایا گیا تھا۔50 عیسوی تک ہر شخص اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے اشخاص موسیقی کو پسند کرنے لگے تھے۔چاہے مرد ہوں یا عورت، پورا دن موسیقی سننے اور نئی دھنیں تشکیل دینے اور لوگوں کے درمیان گنگنانے میں گزار دیا کرتے تھے۔موسیقی کے ساتھ ہی شاعری کی جاتی تھی، بغیر موسیقی کے شاعری کرنا شاذو نادر ہی ہوا کرتا تھا۔ قدیم رومیوں کی موسیقی تحت اللفظ ہو اکرتی تھی۔ طائفی (گروہ کی صورت میں گائی جانے والی)موسیقی شادی بیاہ کی تقاریب، مذہبی رسومات، کھیل اور جنازوں میں کافی مشہور تھیں۔
اہلِ روم کا لباس ان کے مخصوص طرز کا عکاس تھا۔مائیکل برگان نے ان کے لباس کے متعلق بہت عمدہ تحریرلکھی ہےجس میں ان کےلباس کے انداز، کپڑےکی قسم اورپہننے کے طریقے کوبیان کیا گیا ہے ۔وہ لکھتاہے:
The most common item was the tunic, which was a long shirt with short sleeves. Romans usually tied a belt around the waist of the tunic. In public, male citizens often wore a toga over the tunic. This wool garment was draped over one shoulder and reached to the floor. Certain government officials and senators wore togas with purple stripes. The emperor’s toga was completely purple. Because purple dye was expensive, the color purple was often associated with royalty and wealth. Women also wore tunics. Married women wore a stoa over their tunics for modesty.73
لباس میں اہم ترین پوشاک انگرکھا ہوا کرتی جس کی لمبائی زیادہ اور آستینوں کا طول مختصر ہوتا تھا۔ رومی اس لباس پر عموماً ایک پٹہ اپنی کمر کے گرد باندھ لیا کرتےتھے۔ مرد حضرات عموماً اپنی پوشاک پر چوغہ پہنا کرتےتھے۔ اس اونی چوغے کے ایک حصے کو کاندھے پر اس طرح ڈال لیا جاتا کہ اس کا دوسرا حصہ زمین پر رگڑ کھاتارہتا تھا۔ کچھ حکومتی اراکین اور اراکین پارلیمنٹ جامنی رنگ کے دھاری دار چوغے زیب ِتن کیا کرتے تھے۔ جبکہ بادشاہ کی عمومی پوشاک کا رنگ جامنی ہی ہوا کرتا تھا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو جامنی رنگ قیمتاً مہنگا تھا اور دوسری طرف یہ رنگ شہنشاؤں اورامراء کے ساتھ مخصوص ہوکر رہ گیا تھا ۔ خواتین بھی عموماً طویل لباس پہنا کرتی تھیں جبکہ شادی شدہ خواتین اپنے لباس پر مزید کوئی دوسرا طویل لباس پہن لیا کرتی تھیں۔
قحبہ خانے عام تھے، عصمت فروشی کا دھندا برسرعام کیا جاتا تھا۔ عصمت فروشی نے باقاعدہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرلی تھی جو سڑکوں اور شاہراہوں سے لے کر گھروں کے نہاں خانوں تک ہر جگہ اپنی قہر سامانیوں کے ساتھ وقوع پذیر تھی۔ملیسہ ہوپ(Melissa Hope) تحریر کرتی ہیں:
Roman prostitutes worked on the streets, in graveyards, in brothels (lupanaria, fornices) and in cribs (cellae), as well as at inns, baths, circuses, and social functions in the homes of employers. The most common supply of prostitutes was through slavery, including war captives. It was also possible for families to sell their daughters into prostitution when they fell on hard times. Because a girl’s virginity and sexuality technically belonged to her father (or, in his absence, mother) before her marriage, the pater families did have the authority to sell that sexuality for familial profit.74
رومی طوائفیں سڑکوں ، قبرستانوں، قحبہ خانوں،سرایوں،حماموں،سرکسوں اور مالکوں کی گھریلومحافل میں عصمت فروشی کیا کرتی تھیں۔ طوائفوں کی سب سے عام فراہمی، غلامی اور جنگی قیدیوں کے ذریعے ہوتی تھی۔یہ بھی ممکن تھاکہ بعض خاندان معاشی بدحالی کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو طوائفوں کے طور پر بیچ دیاکرتے تھے۔ کیونکہ شادی سے قبل لڑکی کا کنوارا پن اس کے والد سے (یا اس کی غیر موجودگی میں، ماں) سے تعلق رکھتا تھا۔باپ کو یہ حق حاصل تھا کہ گھریلو مفاد کے لیے پیسوں کے عوض اپنی بیٹیوں سےزنا کر وائے۔
بےراہروی اور زنا کاری میں روم نے یونان کو بھی مات دے دی تھی۔ تمام جگہوں سے رومی فاتح لوگوں کو اسیر کرکے اپنے ہاں لانے لگے توروما کی حالت عصمت فروشی کے بازارجیسی ہوگئی تھی ۔ یونانی اور اسکندریہ کے غلام حسن و جمال میں لاجواب ہوتے تھے۔ زہرہ دیوی کے مندروں میں بدکاری مباح تھی۔ دوسری صدی عیسوی کی بدکار ملکہ فوسٹینا نے اپنے متعدد عا شقوں کو سلطنت کے بڑے بڑے عہدوں پر ترقی دی تھی۔ رومی سینیٹ کی منظوری سے اسے دیوی کا درجہ دیاگیا حتیٰ کہ روم کے مندروں میں جونو، وینس ( زہرہ)، کیرس اوردیگر دیوتاؤں کے ساتھ فوسٹینا کا بت بھی پوجا کے لیے رکھ دیاگیا تھا۔
عوام الناس کی بےراہروی تواپنی جگہ، اس سیلاب کی زد میں شہنشاہ بھی آچکےتھے۔ایڈورڈگبن (Edward Gibbon)ایک رومی بادشاہ ایلاگابالوس کے متعلق تحریرکرتاہے:ایلاگابالوس جواپنی نوجوانی کے باعث بےراہروہوچکاتھا، اس نے اپناملک اورنصیب دونوں عیاشی اورغیر منظم تیزی اورتندی کے حوالےکردیےاورجلد ہی اسےیاس اورتکلیف دہ زندگی سےپالاپڑگیا۔یہ ایسی حالت میں درپیش ہواجبکہ وہ عیش وعشرت اورہیجان انگیز فنون لطیفہ کی مستی میں گم تھا۔اس کے چاروں طرف خواتین کا بےہنگم ہجوم اکھٹا تھا، شراب تھی، رباب تھے، انواع واقسام کےمشروبات اورعرق تھے جواس کی اشتہا میں اضافہ کررہےتھے۔اس فن میں نئی نئی ایجادات ہورہی تھیں اورنئی نئی اصطلاحات مروج ہورہی تھیں۔بادشاہ نہ صرف ان کی سرپرستی کررہا تھابلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہورہا تھا۔اس نے اپنی حکمرانی کے عہد کو اس فن سے مخصوص کرلیا تھا۔ اس کی یہ بری شہرت تاریخ کےصفحات میں محفوظ رہ گئی ہے۔ایک من موجی، غیرمعتدل اور فضول خرچ جوصرف اپنےذائقے اورتراش خراش کی تسکین میں مصروف رہتااورجب تک زندہ رہا قومی خزانہ انہی بے غیرتوں پرلٹاتارہا۔وہ اور اس کا خوشامدی ٹولہ انہی خرافات کی قصیدہ گوئی کرتارہا جواس کےپیشروؤں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں۔ہربدلتےموسم اورآب وہوا کی تبدیلی کے ساتھ وہ اپنی رعایاکےساتھ کھیل کودمیں مشغول ہوجاتا تھا۔ ہر قسم کے فطری قانون کی خلاف ورزی کرتا اورشائستگی کی پرواہ نہ کرتا،اس نے متعددایسی بےہودہ تفریحات ایجاد کررکھی تھیں جو اخلاق واقدار کےخلاف تھیں۔اس کے پاس لاتعدادکنیزیں تھیں اوربیویاں تیزی سےبدلتی رہتی تھیں۔ان میں سےایک کنواری وستائی بھی تھی جسے وہ ایک مقدس خانقاہ سےزبردستی اٹھالایا تھا۔اتنی بڑی تعدادمیں عورتیں بھی اس کی جذباتی تسکین کے لیے ناکافی تھیں۔ رومی سلطنت کا شہنشاہ زنانہ لباس پہننےلگا اورزنانہ انداز کی نقل کرنے لگا تھا۔عصائے شاہی پرسلائی دار ٹوپی کو ترجیح دینےلگااورشاہی وقار کی تذلیل کرنےلگااورایسی اشیاء اپنے متعددچاہنے والوں میں تقسیم کرنےلگاجن کو اس نے شاہانہ اعزاز عطا کررکھےتھے، اوروہ خوداپنےآپ کو ملکہ کے خاوندکے نام سے موسوم کرتا تھا۔75اور تو اور خود بادشاہ کلاڈیس (Claudius)کی ملکہ اس قبیح عمل اور گھناؤنے کھیل میں ملوث تھی۔ ریبییکا لینگلینڈز(Rebecca Laglands)کے مطابق :
Messalina, the wife of the emperor Claudius, prostituting herself in a brothel every night, yet unable to get sexual satisfaction.76
شہنشاہ کلاڈیس کی بیوی "میسالینا" قحبہ خانے میں ہر رات عصمت فروشی کیا کرتی تھی، لیکن پھر بھی جنسی تسکین حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوپائی تھی۔
رومیوں کی بدچلنی اوردرندگی صرف آپس میں ہی مقید نہ تھی بلکہ غلام بھی ان کی ہوس اورسفاکی سےمحفوظ نہ رہ پاتے تھے۔بےچارگی کی حالت میں وہ حرفِ شکایت بھی زباں پرنہ لاسکتے تھے۔بدکاری کے نتیجے میں غلاموں کو ہر قسم کی اشک شوئی سے محروم کردیا گیا تھا۔ Ancient History Encyclopedia کے مطابق:
Prostitutes and waitresses, for example, could not prosecute for rape and the rape of slaves was considered merely as property damage sustained by the owner.77
طوائفیں اور کنیزیں عصمت دری کے خلاف مقدمہ نہیں چلا سکتی تھیں اور غلاموں کی عصمت دری کو محض مالک کی بنائی ہوئی ملکیت کا نقصان گردانا جاتا تھا۔
قدیم روم میں عصمت فروشی کے ساتھ ساتھ ہم جنس پرستی جیسا گھناؤنا فعل بھی سرانجام دیا جاتا تھا اور اسے نہ تو گناہ گردانا جاتا اور نہ ہی معاشرتی طور پر بے راہ روی کے زمرے میں شامل کیا جاتا لہٰذا ہر لذّت پرست اور خواہشات کا طلبگار اس قبیح عمل کا مرتکب ہوتا تھا۔ درج ذیل سطور ان معاملات کی گواہی دیتی ہیں:
To sum up, homosexuality in itself was neither a crime nor a socially reproved form of behavior. Carrying on with a slave (so long as he did not belong to someone else) was accepted as normal behavior, as was paying a male prostitute. The only thing that was not acceptable was to make love to a young free Roman citizen.78
خلاصہ یہ کہ، ہم جنس پرستی بذاتِ خود نہ تو ایک جرم تھااور نہ ہی سماجی طور پر باعثِ ملامت کام تھا۔غلام کے ساتھ بد فعلی (اگر وہ کسی اور کی ملکیت میں نہ ہو) کرنا معاشرے میں معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا اور یہ عمل بلکل ایسا ہی تھا جیسا کہ اغلام باز کے ساتھ پیسے دے کر بد فعلی کرنا۔صرف یہ چیز قابل قبول نہیں تھی کہ کوئی بھی شخص آزاد رومی نوجوان سے بد فعلی کرے۔
رومی معاشرے میں ہم جنس پرستی ایک عام سی اور قابل قبول بات تھی۔79 ان کے نزدیک یہ ہر شخص کا انفرادی فیصلہ تھا کہ مرد کو یا عورت کو کس چیز سے جنسی تسکین حاصل ہوتی ہے،اور اگر ہم جنس پرستی سے ان کے روز مّرہ کے معاملات میں فرق نہ پڑتا تو اس میں کوئی حرج نہ تھا۔80نہ صرف ہم جنس پرستی روم میں عام تھی 81بلکہ کچھ لوگوں نے اس قبیح فعل کو مجبورا ًپیشہ بنایا ہوا تھا اور زندہ رہنے کے لیے وہ دوسروں کی ہم جنس پرستی کی پیاس بجھایا کرتے تھے۔82 جیسا کہ آج کے یورپ اور امریکا میں دیکھاجاسکتا ہے ۔عجیب بات یہ تھی کہ یہ فعل رومیوں کے نزدیک نہایت مہذب تھا اور کم عمر لڑکوں کو یہ تلقین کی جاتی ہے کہ وہ بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ اس فعل قبیح کو انجام دیں۔83
حد تو یہ تھی کہ وہاں کے حکمران بھی ہم جنس پرستی سے محذوز ہوا کرتے تھے۔ سیزر (Caesar) اور نیرو (Nero) کو بہت پسند تھا کہ کوئی شخص ان کے ساتھ اس قبیح اور گھناؤنی حرکت کا مرتکب ہو۔ ان لوگوں نے اس کام کے لیے باقاعدہ غلام رکھے ہوئے تھے تاکہ اس کام کے لیے ان کو باہر نہ جانا پڑے۔84 اس فعل قبیح میں اتنے زیادہ لوگ ملوث تھے کہ سلطنت میں مرد بھی چکلوں پر موجود ہوتے جن کو دوسرے مرد اپنی جنسی پیاس بجھانے کے لیے لے جاتے تھے۔85
شراب نوشی کے بارے میں فیلپس(Phillips)لکھتا ہے۔
The Romans believed that wine was daily necessity made the drink democratic and ubiquitous in various forms. It was available to slaves, peasants, women and aristocrats alike.86
رومیوں کے نزدیک شراب نوشی روز مرہ کی ضرورت تھی۔ اسی وجہ سے شراب بہت ساری صورتوں میں ہر جگہ پائی جاتی تھی۔ یہ غلاموں، عام لوگوں، عورتوں، امراء ،الغرض ہر شخص کے لیےآسانی کے ساتھ دستیاب تھی۔
رومی شراب کو پانی کی طرح پیا کرتے تھے۔اس کثرت سے شراب نوشی نے اہلِ روم کی اخلاقیات کو تباہ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ جیسا کہ "بک آف اینشینٹ روم"(Book of Ancient Rome) میں لکھا ہے:
Public drunkenness was often the root cause of the mobs and rioting that periodically plagued ancient Rome.87
سرعام شراب نوشی ہجوم کے جھگڑے او ر فساد کا باعث تھی ،اس نے قدیم روم کو وقفے وقفے سے مسائل میں مبتلا کیا تھا۔
کہنے کو تو رومی تہذیب کاشمار اپنے دور کی جدید ترین تہذیبوں میں تھا،علم و فنون اور دیگر زندگی کے معاملات میں ان لوگوں نے بے پناہ ترقی کی تھی۔ ان کی افواج کا شمار دنیا کی طاقتور ترین فوجوں میں ہوا کرتا تھا جس کی بنا ء پر سلطنت روما نے دنیا کے ایک وسیع حصے پر حکومت کی تھی۔ لیکن ان تمام تر مہارتوں کے باوجود سلطنت روما بے دینی ، شہوت پرستی، بداخلاقی و بد کرداری اور ظلم و ستم کی وجہ سے زوال کا شکار ہوگئی تھی۔
اہلِ روم کی اخلاقیات سے رومی معاشرہ کےاحوال کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔شراب نوشی،عصمت فروشی، ہم جنس پرستی، اغلام بازی جیسی برائیوں پرمشتمل اخلاقیات کی بدحالی کا تصوّربالکل آسان ہے۔اخلاقی بدحالی نہ صرف اہل ِروم کی بیرونی بلکہ اندرونی معاملات پربھی اثرانداز ہوئی تھی۔اس کے نتیجہ میں خونی رشتوں کی بےحرمتی جیسے گھناؤنے افعال بھی ظاہر ہوئے تھے۔اگر کسی حکمران نے اصلاح کی کوشش بھی کی تواخلاقی فساد کی کثرت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا تھااوریہی وہ بیماریاں ہیں جو آج ان تمام معاشروں میں عام ہیں جو یونان اور روم کو اپنا پیشوا اور مقتدی مانتے ہیں ہمارے وہ ناسمجھ دانشور جو بغیر تحقیق کیے ان اقوام کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں انکے لیے رومیوں کے یہ احوال یقینا قابل غور اور لائق التفات ہونے چاہیے جن کو پڑھنے اور لکھنے کے بعد کوئی بھی سلیم القلب انسان ان کو اپنا پیشوا گرداننا تو دور ان کا ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرے گا ۔