encyclopedia

آپ ﷺکی رانیں مبارک

Published on: 08-Nov-2023

(حوالہ: علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 40، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 539-541)

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک رانیں بھی جسم کے دوسرے حصوں کی طرح سفید، چمکدار اور متناسب تھیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا حسنِ جسمانی ایساتھاکہ اس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی سوائےاس کے کہ کہاجائے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکاجسم اطہر نورانی تھاجس سے نورکی شعاعیں ظاہر ہوتی تھیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا جسم مبارک معطرتھاجس سےخوشبوؤں کے لپیٹےنکلتےتھے۔ایسابابرکت تھاجس سےکوئی شےمس ہوجاتی وہ بابرکت ہوجاتی۔

ران مبارک کی رنگت

حضرت انس Radi Allah Anhoسے روایت ہے: حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamغزوہ خیبر کے لیے گئے تو ہم نے صبح کی نماز، خیبر کے نزدیک اندھیرے میں ادا کی۔ پھر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسوار ہوئے، حضرت طلحہ Radi Allah Anhoآپ کے پیچھے بیٹھے اور میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamخیبر کی گلیوں میں جارہے تھے اور میرا گھٹنا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ران مبارک سے لگتا تھا:

ثم حسر الازار عن فخذہ حتى انى انظر الى بیاض فخذ نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.1
پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہاتھ لگنے سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تہبند رانِ مبارک سے سرکی تو میری نظر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رانِ مبارک اور اس کی سفیدی پر پڑی۔

امام بیہقیRehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

وكان عبل ماتحت الازار من الفخذین والساق.2
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم اطہر کا وہ حصہ جو تہبند کے نیچے آتا تھا مثلا ران مبارک اور پنڈلیاں مبارک وہ سفید تھیں۔

محدثین کرام رحمۃ اﷲ علیھم نے بیان کیا ہے کہ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمحفل میں جلوہ افروز ہوتے تو بعض کے اقوال کے مطابق رانیں شکم اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں لیکن بعض محدثین کا کہنا ہے کہ کبھی حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamگھٹنوں پر زوردے کر بھی تشریف فرما ہوتے۔

اندازِ مجلس

حضرت ابوامامہ حارثیRadi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یجلس القرفصاء.3
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجب کسی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو رانین شکم اطہر کے ساتھ لگی ہوتیں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویRehmatullah Alaih"قرفصاء" کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یه نیند تكیه زده بردو زانو وچسپاند وانھارا بشكم وردرآید كفھاى ھر دو دست دربغل دست راست دربغل چب ودست چب دربغل راست.4
اس طرح بیٹھنا کہ بوجھ دونوں زانوؤں پر ہو اور ران کے شکم کے ساتھ متصل دونوں ہاتھ اس طرح بغل میں ہوں کہ دایاں بائیں بغل اور بایاں دائیں بغل میں ہو۔

حضرت قبلہ بنت مخرمہ Radi Allah Anhaبیان کرتی ہیں کہ:

رات رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو قاعد القرفصاء.5
رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو دیکھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamقرفصاء (یعنی رانین شکم اطہر کے ساتھ لگی ہوئی) کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےجسم مبارک کی تابانی،تروتازگی،لچک، چمک اورہیبت وجلال کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ حضورِدوعالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجس انداز میں بھی تشریف فرما ہوتے باوقاروباکمال نظرآتے تھے۔ واضح رہے کہ آقائے کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکمال درجہ کے حیا دار تھے۔ اسی لیے آپ اپنے لباس اور جسم مبارک کا خصوصی خیال فرماتے تھے کہ جسم اقدس کا کوئی بھی حصہ جو (سترِ عورت) میں آتا ہو وہ ظاہر نہ ہونے پائے اسی لیے کم لباسی اور عریانی کو آپ شدید ناپسند فرمایا کرتے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں حیا کو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا ، الحیاء شعبۃ من الایجان ، حیا ایمان کا حصہ ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اگر تجھ سے حیاء رخصت ہوجائے تو پھر تو جو چاہے کرے۔ اس تناظر میں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ران مبارک کا اس طرح ظاہر ہونا کہ کوئی دوسرا شخص اس کو دیکھے، بظاہر قابل قبول بات نہیں لگتی لیکن آپ کا کشف ساق ارادی و اختیاری ہرگز نہ تھا بلکہ غیر ارادی اور فطری تھا کیونکہ دوران سفر وہ بھی کسی جانور کی پشت پر بیٹھ کر سفر کی صورت میں لباس کا دائیں سے بائیں طرف سرک جانا، اٹھ جانا، اڑجانا، ڈھیلا ہوجانا، ایک طرف لپٹ جانا وغیرہ ایسے معاملات ہیں کہ اس کو آج کے ہوائی جہاز، ٹرین، بس اور کاروغیرہ کے سفر پر ہرگز قیاس نہیں کیا جاسکتا جہاں مسافر ہوا کے بے رحم تھپیڑوں سے بالکل محفوظ و مامون بیٹھا رہتا ہے اور ساتھ ہی موسم کی شدت و تمازت سے بھی بچا ہوا ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کے کپڑے بھی اس کے غیر ارادی اعمال کی وجہ سے دائیں بائیں الٹے نا پلٹنے، گرنے سے بچے رہتے ہیں ۔ لہٰذا حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا لباس مبارک جسم اقدس کے کسی حصہ سے سرک جانا غیر ارادی تھا۔

دوسری بات یہ تھی کہ رب تعالیٰ نے اپنے محبوب کریم کے سراپا کو قیامت تک محفوظ کرنا تھا۔ اس لیے بامر خداوندی آپ کا لباس مبارک اس طور پر آپ کی ران مبارک سے سرکا کہ صحابی کی نظر بھی اس پر بے اختیار پڑی اور پھر صحابی نے اس کو آگے بھی جوں کا توں بیان فرما دیا۔ لہٰذا آپ کی رانِ مبارک کے کشف کا معاملہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسم مبارک کے اعضاء کی کیفیت کو خدائی انتظام کے طور پرہی دیکھنا چاہیے۔


  • 1  محمد بن اسماعیل بخاری ،صحیح البخاری، حدیث: 371، مطبوعۃ: دارالاسلام للنشر والتوزیع الریاض، السعودیۃ، 1419ﻫ،ص:66
  • 2  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:305
  • 3  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:794، ج-1، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1984ء، ص:273
  • 4  لشیخ عبد الحق محدث دہلوی، اشعۃ اللمعات ،ج- 4، مطبوعۃ: لکھنؤ، انڈیا، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 32
  • 5  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی ، السنن الکبریٰ، حدیث:5915، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:333-334

Powered by Netsol Online