encyclopedia

میثاقِ مدینہ

Published on: 05-Nov-2025
میثاقِ مدینہشرکاء:مدینہ کے مختلف قبائل اور برادریاں۔ضرورت:مختلف قبائل اور برادریوں کو ایک مشترکہ نظام کے تحت متحد کرنا۔معاہدے کی نمایاں خصوصیات:تمام برادریوں کو ایک اُمت کے طور پر تسلیم کرنا، مساوات،باہمی دفاع،انصاف، مذہبی آزادیاور نبی کریم ﷺ کو حتمی فیصلہ کن (ثالث) کے طور پر ماننا۔اثرونتائج:اتحاد و اتفاق کو فروغ دیا، پُرامن بقائے باہمی قائم کی،اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔سبق:نظامِ حکومت کے لیے ایک مثالی نمونہ۔اہمیت:باہمی احترام اور عدل و انصاف پر مبنی پہلی اسلامی ریاست کا قیام۔
LanguagesEnglishEspanolPortugueseDutch
میثاق مدینہ

میثاق مدینہ یاالصحیفۃ المدینہ تاریخ انسانی کا پہلا تحریری سیاسی آئین ہے۔ دیگر دستاویزات مثلا منو سمرتی (500 ق م) جس میں راجہ کے فرائض کا ذکر ہے، ارتھ شاستر (300ق م) اور ارسطو کی سیاسیات (322 تا 384ق م ) وغیرہ میثاقِ مدینہ سے قبل زمانہ قدیم میں تحریر ضرور کی گئیں لیکن ان کی حیثیت محض اپنے وقت کے حکمرانوں کےلیے سفارشات کی سی تھی۔ ان میں سے کوئی بھی دستاویز میثاق مدینہ کی طرح کسی ریاست کے باقاعدہ آئین کی حیثیت سے عملا نافذ نہیں رہی تھی۔1یہ وہ معاہدہ تھا جس کے ذریعے حضرت محمد sym-1 نے زمانہ جاہلیت کی تمام رنجشوں اور قبائلی عصبیت کو دور کر دیا، اور زمانہ جاہلیت کی روایات کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔ 2اس معاہدے کی مدد سے آپsym-1 نے یہودِ مدینہ کے ساتھ بھی بہترین تعلقات کا آغاز فرمایا۔3

پس منظر

حضرت محمد مصطفیٰ sym-1 نے اعلان نبوت کے بعد جب اپنی دعوت کا آغاز مکہ میں فرمایا تو آپsym-1 کو قبیلہ قریش اور اہل مکہ کی طرف سے شدید ظلم وستم کا سامنا کر پڑا۔ وقت گزرنے کے ساتھ آپ sym-1 کی مخالفت بھی بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ آپ sym-1 کے صحابہ کرام sym-7کو مکۃ المکرمہ میں شدید قسم کے جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا4جس کے نتیجہ میں آپ sym-1 اور آپsym-1 کے صحابہ کرامsym-7 کے پاس مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کرنے کے ماسوا کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپsym-1 اور صحابہ کرام sym-7نے مکہ میں اپنی جائے سکونت کو ہمیشہ کےلیےترک کر کے یثرب کو مستقل اپنا نیا وطن بنا لیا ۔ جب کچھ صحابہ کرام sym-7نے اسلام کی دعوت وتبلیغ کے نکتہ نظر سے یثرب کی طرف ہجرت کرنا شروع کی تو اہل قریش کو یہ خوف دامن گیر ہوا کہ مسلمان مکہ میں مجتمع ہو کر اہل قریش سے ان کے کئے مظالم کابدلہ لے سکتے ہیں۔ اسی دوران آپ sym-1 نے بھی حضرت ابو بکر صدیق sym-5 کے ساتھ مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔ہجرت کے بعد اہل قریش نے مسلمان مہاجرین کی تمام املاک پر ناجائز قبضہ کرلیا۔5مسلمان جب مہاجرین بن کر یثرب پہنچے تو وہاں کی آبادی چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی جن میں سے آدھے یہودی تھے۔ مدینہ منورہ کی یہ مختصر سی آبادی بھی مکمل طور پر افتراق وانتشار کا شکار تھی ۔ ان میں سے عرب اوس وخزرج کے12 قبائل میں تقسیم تھے جبکہ یہودی آبادی 10 قبائل پر مشتمل تھی۔ ان میں سے کچھ قبائل آپس میں ایک دوسرے کے حلیف تھے جو اپنے مخالف قبائل کے خلاف اتحاد بنا کر گروہوں کی شکل میں جمع ہوگئے تھے۔ 6اوس و خزرج کے مختلف قبائل میں مستقل بنیادوں پر دہائیوں سے جنگیں جاری تھیں جن سے یہ قبائل خود بھی تنگ آچکے تھے۔ تاہم یثرب میں کوئی سیاسی وحدت یا نظام موجود نہیں تھا۔ 7مزید یہ کہ صحابہ کرام sym-7 کی دعوتی کوششوں کے نتیجہ میں اہل یثرب میں سے کچھ لوگ اسلام قبول کرچکے تھے۔ 8چنانچہ مختلف مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور بت پرستی سے تعلق رکھنے والے لوگ اب ایک گھر،ایک شاہراہ اوراس ایک شہر میں ساتھ رہنا شروع ہوگئے تھے۔

آئین ودستور کی ضرورت

اس صورت حال میں حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ ایک ایسا دستور مرتب کیا جائے جس میں لوگوں کو ان کے اپنے اور دوسروں کے حقوق کے حوالہ سے آگاہ کیا جاسکے اور مکہ سے آئے ہوئے مہاجرین کے مدینہ میں قیام کے حوالہ سے معاملات کا تعین کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر مسلمین کے ساتھ ہونے والے معاہدات اور مدینہ منورہ کے سیاسی نظام کے حوالہ سےاصولی ہدایات، ریاست مدینہ کا فوجی وعسکری نظام اور ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے جس میں مہاجرین کے مکہ میں ہونے والے نقصانات کی تلافی کرنا شامل ہو۔ لہذا آپsym-1 کے مدینہ منورہ آنے کے چند ماہ بعد ریاست مدینہ کا دستور - جس میں عوام کے حقوق وفرائض کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کے حقوق وفرائض کو بھی متعین کیا گیا – مرتب فرمایا۔ یہ وہ دستاویز تھا جس میں مدینہ منورہ کو ایک خود مختار ریاست کی حیثیت دینے کا اعلان کیا گیا ۔ 9

دستور مدینہ

دستور مدینہ 52 شقوں پر مشتمل تھا جنہیں ابتدائی طور پر ابن ہشام10ابن کثیر 11ابن سید الناس12اور دوسرے مؤرخین و سیرت نگاروں نے بعد کے زمانوں میں محفوظ کیا ہے۔ اس دستور کے مندرجات درج ذیل ہیں:

تعارف

بسم اللّٰه الرحمن الرحيم، هذا كتاب من محمد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، بين المؤمنين والمسلمين من قريش ويثرب، ومن تبعهم، فلحق بهم، وجاهد معهم.
شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ معاہدہ محمد (sym-1 ) جو (اللہ کے) نبی ہیں، کی طرف سے (دو گروہوں یعنی) قریش مومنین و مسلمین اور اہل یثرب کے اطاعت گزارلوگوں کے درمیان ہےاور جو ان کے تابع ہیں اور ان کے ساتھ شامل ہو کر جنگوں میں حصہ لیتے ہیں۔
1- إنهم أمة واحدة من دون الناس.
دوسرے لوگوں کے مقابلے میں وہ ایک امت (یعنی سیاسی وحدت) ہوں گے۔
2-المهاجرون من قريش على ربعتهم يتعاقلون بينهم، وهم يفدون عانيهم بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
قریش کے مہاجر اپنے قبل از اسلام کے دستور کے مطابق خون بہا ادا کیا کریں گے، اور اپنے قیدیوں کا فدیہ اہل ایمان کے درمیان احسان اور انصاف کومدّنظر رکھ کر ادا کریں گے۔
3-وبنو عوف على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، كل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو عوف کے لوگ اپنے قدیم دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدی کا فدیہ مسلمانوں کے آپس میں نیکی اور انصاف کے برتاؤ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادا کرے گا۔
4-وبنو ساعدة على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، وكل طائفة منهم تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو ساعدہ کے لوگ اپنے قدیم دستور کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدی کا فدیہ اس طور پرادا کرے گیا کہ مسلمانوں کا آپس میں نیکی اور انصاف کا برتاؤ برقرار رہے۔
5- وبنو الحارث على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، وكل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو حارث بھی اپنے اصول کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدی کا فدیہ مسلمانوں کے آپس میں نیکی اور انصاف کے برتاؤ کو مدّ نظر رکھ کر ادا کرے گا۔
6- وبنو جشم على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، وكل طائفة منهم تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو جشم بھی اپنے اصول کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدیوں کا فدیہ اس طور پر ادا کرے گا کہ اہل ایمان کا آپس میں نیکی اور انصاف کا سلوک جاری وساری رہے۔
7-وبنو النجار على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، وكل طائفة منهم تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو نجار بھی اپنے اصول کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدی کا فدیہ مسلمانوں کے درمیان احسان اور انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے ادا کرے گا۔
8- وبنو عمرو بن عوف على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، وكل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو عمرو بھی اپنے اصول کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑائے گا تاکہ اہل ایمان کا آپس میں نیکی اور انصاف کا سلوک ورشتہ مستحکم رہے۔
9- وبنو النبيت على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، وكل طائفة تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو نبیت بھی اپنے اصول کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑائے گا تاکہ اہل ایمان کی آپس میں نیکی اور انصاف متاثر نہ ہو۔
10-وبنو الأوس على ربعتهم يتعاقلون معاقلهم الأولى، وكل طائفة منهم تفدي عانيها بالمعروف والقسط بين المؤمنين.
بنو اوس بھی اپنے اصول کے مطابق خون بہا ادا کریں گے، اور ہر گروہ اپنے قیدیوں کو فدیہ دے کر چھڑائے گا تاکہ اہل ایمان کا آپس میں نیکی اور انصاف پر مبنی سلوک کا تعلق قائم رہے۔
11- وإن المؤمنين لا يتركون مفرحا بينهم أن يعطوه بالمعروف في فداء أو عقل.
اور اہل ایمان کسی مفلس (غریب یا مقروض) شخص کی مدد کے بغیر نہ رہیں گے، یہاں تک کہ اس کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے اس کا فدیہ یا خون بہا بھی ادا کریں گے۔
12- وأن لا يحالف مؤمن مولى مؤمن دونه .
کوئی مومن کسی دوسرے مومن کی اجازت کے بغیر اس کے معاہداتی بھائی سے کسی قسم کا کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔
13- وإن المؤمنين المتقين على من بغى منهم، أو ابتغى دسيعة ظلم، أو إثم، أو عدوان، أو فساد بين المؤمنين، وإن أيديهم عليه جميعا، ولو كان ولد أحدهم.
اور ہرمتقی اور پرہیز گار شخص اس شخص کی مخالفت کے لئے تیار رہے گا جو سرکشی کرے یا ظلم اور زیادتی کا راستہ اختیار کرے یا اہل ایمان میں فساد پھیلانے کا مرتکب ہو۔ تمام لوگ ایسے شخص کے خلاف متحد ہو کر اُٹھیں گے چاہے وہ ان میں سے کسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔
14-ولا يقتل مؤمن مؤمنا في كافر، ولا ينصر كافرا على مؤمن.
کافر کی خاطر دوسرے مومن کو قتل نہ کرے گا، اور نہ کسی مومن کے خلاف کسی کافر کی مدد کرے گا۔
15- وإن ذمة اللّٰه واحدة، يجير عليهم أدناهم، وإن المؤمنين بعضهم موالي بعض دون الناس.
خدا وحدہ لاشریک کا بندوں پر عائد کردہ فریضہ (سب کےلیے) ایک (جیسا برابر ) ہے،ایک ادنی مسلمان کی (کسی دشمن کو دی ہوئی ) پناہ سب پر لازم ہوگی۔ اورتمام مسلمان دوسروں کے مقابلے میں آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
16- وإنه من تبعنا من يهود فإن له النصر والأسوة، غير مظلومين ولا متناصرين عليهم.
یہودیوں میں سے جو ہماری اتباع کرے گا (یعنی ہمارے ساتھ چلے گا ) اس کو مکمل امداد اور برابری حاصل ہوگی۔ اس پر کسی قسم کا ظلم نہ ہو گا اور نہ ہی اس کے خلاف کسی دوسرے کی مدد کی جائےگی۔
17-وإن سلم المؤمنين واحدة، لا يسالم مؤمن دون مؤمن في قتال في سبيل اللّٰه، إلا على سواء وعدل بينهم.
اہل ایمان کی صلح ایک ہی ہو گی ،کوئی مومن کسی دوسرے مومن کو چھوڑ کر کفار کے ساتھ کوئی صلح نہیں کرے گا جب تک کہ یہ صلح سب کے لئے برابر نہ ہو۔
18-وإن كل غازية غزت معنا يعقب بعضها بعضا.
وہ تمام گروہ جو ہمارے ساتھ مل کر جنگ کریں گے وہ ایک (محاذ سے فارغ ہونے) کے بعد دوسرے محاذ پر جائیں گے۔
19- وإن المؤمنين يبيء بعضهم على بعض بما نال دماءهم في سبيل اللّٰه.
اہل ایمان ایک دوسرے کے اس خون کا (دشمن سے )انتقام لیں گے جو خدا کی راہ میں ان میں سے کسی کا بہایا گیا۔
20- وإن المؤمنين المتقين على أحسن هدى وأقومه.
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ متقی اہل ایمان سب سے بہتر اورسیدھے راستے پر ہیں۔
21- وإنه لا يجير مشرك مالا لقريش ولا نفسا، ولا يحول دونه على مؤمن.
اور کوئی مشرک قریش کے جان و مال کی نہ حفاظت کرے گا اور نہ کسی مومن کے لئے اس معاملے میں رکاوٹ بنے گا ۔
22- وإنه من اعتبط مؤمنا قتلا عن بينة فإنه قود به إلا أن يرضى ولي المقتول، وإن المؤمنين عليه كافة، ولا يحل لهم إلا قيام عليه.
جو شخص کسی مومن کا ناحق قتل کرے گا اور گواہ پیش ہو جائے تو اس سے قصاص لیا جائے گا، سوائے اس صورت کے کہ مقتول کا ولی خون بہا لینے پر راضی ہو جائے، اور تمام مسلمانوں پر یہ امرلاگو ہوگا، اس کے علاوہ کوئی دوسری صورت قابل قبول نہ ہوگی۔
23- وإنه لا يحل لمؤمن أقر بما في هذه الصحيفة، وآمن باللّٰه واليوم الآخر، أن ينصر محدثا ولا يؤويه، وأنه من نصره أو آواه، فإن عليه لعنة اللّٰه وغضبه يوم القيامة، ولا يؤخذ منه صرف ولا عدل.
اور کوئی مومن جو اس تحریر کے مندرجات کو تسلیم کر چکا ہے اور خدا اور یوم آخرت پر ایمان لا چکا ہے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی فتنہ پرداز کو اپنے ہاں پناہ دے یا اس کی مدد کر ے، اور جو اس کو پناہ یامدد دے گا وہ قیامت کے دن خدا کی طرف سے لعنت اورغضب کا مستحق ہوگا۔ نا اس سے کوئی فدیہ لیا جائے گا اور نہ معاوضہ۔
24- وإنكم مهما اختلفتم فيه من شيء، فإن مرده إلى اللّٰه عز وجل، وإلى محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.
جب تم میں آپس میں کسی بات پر اختلاف پیدا ہو تو اللہ اور اس کے رسول sym-1 کی جانب رجوع کرو گے۔
25- وإن اليهود ينفقون مع المؤمنين ما داموا محاربين.
یہود جب تک اہل ایمان کے ہمراہ جنگ کریں گے اس وقت تک وہ (جنگی) اخراجات بھی برداشت کرتے رہیں گے۔
26- وإن يهود بني عوف أمة مع المؤمنين، لليهود دينهم، وللمسلمين دينهم، مواليهم وأنفسهم، إلا من ظلم وأثم، فإنه لا يوتغ إلا نفسه، وأهل بيته.
بنی عوف کے یہودی مسلمانوں کےسا تھ مل کر ایک سیاسی وحدت تصور کئے جائیں گے، یہودی اپنے دین پر رہیں گے اور مسلمان اپنے دین پر، خواہ وہ موالی ہوں یابذات خود (یعنی غلام ہو یا آزاد ) ۔ہاں ان میں سے جو ظلم اورجرم کا ارتکاب کرے گا وہ صرف اپنی ذات اور اپنے خاندان کو ہلاکت میں ڈالے گا۔
27- وإن ليهود بني النجار مثل ما ليهود بني عوف.
بنو نجار کے یہودیوں کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنی عوف کے یہودیوں کو حاصل ہو نگے۔
28- وإن ليهود بني الحارث مثل ما ليهود بني عوف.
اور بنو حارث کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
29- وإن ليهود بني ساعدة مثل ما ليهود بني عوف.
اور بنو ساعدہ کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
30-وإن ليهود بني جشم مثل ما ليهود بني عوف.
اور بنو جشم کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
31- وإن ليهود بني الأوس مثل ما ليهود بني عوف.
اور بنو اوس کے یہودیوں کو بھی بنی عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
32-وإن ليهود بني ثعلبة مثل ما ليهود بني عوف، إلا من ظلم وأثم، فإنه لا يوتغ إلا نفسه وأهل بيته.
اور بنو ثعلبہ کے یہودیوں کو بھی بنو عوف کے یہودیوں کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ مگر ان میں سے جو ظلم اورجرم کا ارتکاب کرے گا وہ اپنی ذات اور اپنے خاندان کو ہلاکت میں ڈالے گا۔
33- وإن جفنة بطن من ثعلبة كأنفسهم.
اور قبیلہ جفنہ جو بنو ثعلبہ کی شاخ ہے انہیں بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو کہ ان کے اصل قبیلہ یعنی بنو ثعلبہ کو حاصل ہیں ۔
34- وإن لبني الشطيبة مثل ما ليهود بني عوف، وإن البر دون الإثم.
بنو شطیبہ کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو بنو عوف کے یہودیوں کو حاصل ہیں، اور یہ کہ ان کی طرف سے (اس تحریر کی) وفا شعاری ہو نہ کہ عہد شکنی۔
35- وإن موالي ثعلبة كأنفسهم.
ثعلبہ کے غلاموں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو کہ خود ثعلبہ کے اصل افراد کو حاصل ہوں گے۔
36- وإن بطانة يهود كأنفسهم.
یہودیوں کے قبائل کی شاخوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو ان کے اصل افراد کو حاصل ہوں گے۔
37- وإنه لا يخرج منهم أحد إلا بإذن محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.
اور ان میں سے کوئی شخص بھی محمدsym-1 کی اجازت کے بغیر جنگ کے لئے نہیں نکلے گا۔
38-وإنه لا ينحجز على ثأر جرح، وإنه من فتك فبنفسه فتك، وأهل بيته، إلا من ظلم، وإن اللّٰه على أبر هذا.
زخم کا بدلہ لینے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی،جو شخص خونریزی کرے گا اس کی ذمہ داری اس پر اور اس کے گھرانے پر ہو گی، سوائے اس شخص کے جس پر ظلم ہوا ہو، اور خدا اس مظلوم کے ساتھ ہے۔
39- وإن على اليهود نفقتهم وعلى المسلمين نفقتهم.
یہود اپنے خرچہ کےذمہ دار ہوں گے اور مسلمان اپنے اخراجات کے۔
40- وإن بينهم النصر على من حارب أهل هذه الصحيفة، وإن بينهم النصح والنصيحة، والبر دون الإثم.
اس دستور کو قبول کرنے والوں کے خلاف جو بھی جنگ کرے گا تو یہود اور مسلمان دونوں مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ایک دوسرے کی خیر خواہی چاہیں گے۔ ہر ایک کا طرز عمل وفا شعاری کا ہوگا نہ کہ عہد شکنی کا۔
41-وإنه لم يأثم امرؤ بحليفه، وإن النصر للمظلوم.
کسی شخص کو اس کے حلیف کی عہد شکنی کا ذمہ دارنہیں ٹھہرایا جائے گا اور مظلوم کی ہر حال میں مدد کی جائے گی۔
42- وإن اليهود ينفقون مع المؤمنين ما داموا محاربين.
یہود جب تک اہل ایمان کے ہمراہ جنگ کریں گے اس وقت تک وہ (جنگی) اخراجات بھی برداشت کرتے رہیں گے۔
43-وإن يثرب حرام جوفها لأهل هذه الصحيفة.
شہر یثرب کی سرزمین اس تحریر کو تسلیم کرنے والوں کے لئے محترم و مقدس ہو گی۔
44- وإن الجار كالنفس غير مضار ولا آثم.
پناہ حاصل کرنے والے سے ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا کہ پناہ دینے والے سے کیا جاتا ہے، نا اسے کوئی نقصان پہنچایا جائے گا اور نہ ہی وہ خود کسی جرم کے ارتکاب کی کوشش کرے گا۔
45-وإنه لا تجار حرمة إلا بإذن أهلها.
اور بے شک یہ مقدس امانت (معاہدہ) اپنے حق داروں کی اجازت کے بغیر کبھی پامال نہیں کی جائے گی۔
46-وإنه ما كان بين أهل هذه الصحيفة من حدث أو اشتجار يخاف فساده، فإن مرده إلى اللّٰه عز وجل، وإلى محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، وإن اللّٰه على أتقى ما في هذه الصحيفة وأبره.
اس دستور کو تسلیم کرنے والوں کے درمیان اگر کوئی مسئلہ یا جھگڑا رونما ہو جس سے فساد کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔ اور اللہ اس شخص کے ساتھ ہے جو اس دستور کے مندرجات پر احتیاط اور وفا شعاری کے ساتھ عملدرآمد کرے۔
47- وإنه لا تجار قريش ولا من نصرها.
قریش اور ان کے کسی معاون و مددگار شخص کو پناہ نہیں دی جائے گی۔
48- وإن بينهم النصر على من دهم يثرب.
اگر کوئی گروہ یثرب پر حملہ آور ہو تو معاہدہ کے فریق (یعنی مسلمان اور یہود) مل کر ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔
49-وإذا دعوا إلى صلح يصالحونه ويلبسونه، فإنهم يصالحونه ويلبسونه، وإنهم إذا دعوا إلى مثل ذلك فإنه لهم على المؤمنين، إلا من حارب في الدين.
اگریہود کو کسی صلح کر نے اور اس میں شریک ہونے کی(مسلمانوں کی طرف سے) دعوت دی جائے گی تو یہود اس کو قبول کریں گے اور شریک ہوں گے۔ اسی طرح اگر یہود مسلمانوں کو دعوت دیں گے تو مسلمانوں کے لئے بھی اس کو قبول کرنا لازم ہوگا،سوائے اس کےکہ کوئی دینی جنگ ہو۔
50-على كل أناس حصتهم من جانبهم الذي قبلهم.
ہرگروہ پر اس جانب کا دفاع کرنا لازم ہوگا جو اس کے بالمقابل ہو۔
51- وإن يهود الأوس، مواليهم وأنفسهم، على مثل ما لأهل هذه الصحيفة. مع البر المحض من أهل هذه الصحيفة.
اوس کے یہودیوں کو بھی خواہ وہ غلام ہو یا آزاد، وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اس دستور کو تسلیم کرنے والوں کو حاصل ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ اس دستور والوں کے ساتھ خالص وفا شعاری کا برتاؤ کریں گے۔
52-وإنه لا يحول هذا الكتاب دون ظالم وآثم، وإنه من خرج آمن، ومن قعد آمن بالمدينة، إلا من ظلم أو أثم وإن اللّٰه جار لمن بر واتقى، ومحمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.13
یہ معاہدہ کسی ظالم اور مجرم کا دفاع نہیں کرے گا، جو شخص جنگ کے لیے نکلے گا وہ بھی امن کا مستحق ہوگا اور جو مدینہ کے اندر گھر بیٹھا رہا وہ بھی امن کا مستحق ہوگا، البتہ جو شخص ظلم اور جرم کا ارتکاب کرے گا وہ اس سے مستثنی ہوگا۔

میثاق مدینہ کے نتائج

اس آئین کی مندرجہ بالا شقوں کے نتائج آپ sym-1 کی نہایت غیرمعمولی بصیرت کے غمازتھے جس کے ذریعہ آپ sym-1 نے جنگ وامن کے باضابطہ اصول وضوابط اور تاسیس ریاست مدینہ کی داغ بیل ڈالی ۔ ا س آئین کے مزید دور رس اثرات کا اگر اجمالی جائزہ لیا جائے تو درج ذیل مثبت اثرات ونتائج باقاعدہ مرتب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں:

(1) قبائل کے درمیان اتحاد

اس معاہدے کی شق نمبر 1، 24، 26 اور 46 نے مدینہ اور اس کے قریب بسنے والے قبائل کے درمیان اتحاد کو نافذ کیا، جو کئی دہائیوں سے آپس میں لڑ رہے تھے۔ معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو نہ صرف امن برقرار رکھنے کا پابند کیا گیا تھا بلکہ یہ بھی حکم دیا گیا تھا کہ کسی اختلاف کی صورت میں وہ آپس میں خود سے جنگ کا آغاز نہ کریں بلکہ اس حوالے سے اللہ اور اس کے رسول sym-1 کی طرف رجوع کریں۔

(2) سماجی تحفظ وانصاف

اس دستایز کی شق نمبر 11تا 16 ، 21 ، 38 ، 44، 47،45، 51 اور 52 ان نکات کو زیر بحث لاتی ہیں جن کا براہ راست تعلق سماجی تحفظ وانصاف سے تھا۔ اس دستاویز پر دستخط کرنے والوں کو حکماً اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے غریب اور ضرورت مند لوگوں کی لازمی مدد اور تحفظ کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ دونوں فریقین اس بات کے پابند تھے کہ وہ ظالم اور فسادی کو لازمی سزا دے کر رہیں گے اور کسی ایسے قریشی کی حمایت اور حفاظت پر کمر بستہ نہیں ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول sym-1 کا دشمن ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودیوں کو بھی اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ بغیر کسی مذہبی ونسلی امتیاز کے ان کے ساتھ عدل وانصاف پر مبنی معاملہ کیا جائے ۔

(3) تمام کےلیے یکساں حقوق

اس دستور کی شق نمبر27 تا37 میں اس بات کی صراحت کی گئی تھی کہ تمام قبائل اور ان کی ذیلی شاخوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں گے قطع نظر اس کے کہ کوئی قبیلہ اصل یا بڑا قبیلہ ہو یا اس کی کوئی ذیلی شاخ ہو۔ اس پر مستزاد ان قبائل کے غلاموں تک کو ان قبائل کے آزاد انسانوں کے برابر حقوق دیے گئے تھے۔

(4) خون بہا اور دیت

اس دستور کی شق نمبر 2 تا 10 میں خون بہا اور دیت کے حوالہ سے ضروری تفصیلا ت ذکر کی گئی تھیں۔ کسی بھی قسم کے اختلاف اور جھگڑے کو ختم کرنے کےلیے ہر قبیلہ کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ خون بہا اور دیت کے حوالہ سے اپنے پرانے قبائلی رسم ورواج اور روایات کی اتباع کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کےلیے یہ بات بھی ضروی قرار دے دی گئی تھی کہ وہ اپنے گرفتا ر شدہ افراد کا فدیہ خود ادا کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس طرح آپ sym-1 نے ان معاملات اور مسائل کا ابتدا سے ہی حل پیش کردیا تھا جو بعد میں کسی جنگ یا خون ریزی کا سبب بن سکتے تھے ۔

(5) قتل کی سزا

اس دستور کی شق نمبر 22 کا تعلق قتل کی سزا سے تھا۔ یہ شق صراحت کے ساتھ اس قانون کو بیان کرتی تھی کہ مقتول کے وارثین کو قانونی طور پر اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ صرف قاتل سے اپنا بدلہ لے کر اسے قتل کردیں یا مقتول کے قتل کے عوض میں خون بہا قبول کرلیں ۔ اس طرح عربوں کے درمیان پھیلے ہوئے قتل کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جو اس وقت ایک عام سی بات تھی ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی کیوں کہ اس سےپہلے عربوں میں یہ ایک عام سی بات تھی کہ ایک مقتول کے بدلہ میں قاتل کے قبیلہ کے کئی کئی لوگوں کو قتل کردیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ دہائیوں بلکہ صدیوں تک جاری رہتا تھا ۔

(6) جنگ کے وقت کی ذمہ داریاں

اس دستور کی شق نمبر 17 تا 21، 25، 37 ،40 ، 42، 48 ،49 اور 50 اس دستور پر دستخط کرنے والے فریقین کے جنگ کی صورت میں ذمہ داریوں کو بیان کرتی تھیں۔اس دستور کے مطابق آپ sym-1 کو مدینہ منورہ کی فوج کا سالارِ اعظم تسلیم کرلیا گیا تھا لہذا اب کسی کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ و ہ آپ sym-1 کی اجازت کے بغیر کسی کے ساتھ جنگ شروع کرسکے۔ اس دستور کی رُو سے مسلمانوں کو اس بات کا پابند کیا گیا تھاکہ وہ امن وجنگ کے درمیان متحد رہیں۔ مسلمانوں کے کسی بھی گروہ یا فرد کو اس بات کی اجازت نہیں تھی کہ وہ علیحدہ سے یا خود اپنے طور پر دشمن کے ساتھ امن کی شرائط پر معاہدہ کرنے کے مجاز ہوں۔ مسلمانوں کے تمام گروہ بھی اس بات کے پابند اور مجازتھے کہ وہ امن وجنگ کے دوران نہایت نظم وضبط اور اجتماعیت کے تحت کام کریں گے۔ مسلمانوں کو اس بات کا بھی حق دیا گیا کہ وہ ہر اس شخص سے جو ان کےساتھ ظلم کا رویہ اختیار کرے اس سے بدلہ لے سکیں۔یثرب کی وادی کو اس معاہدہ کے قبول کرنے والے تمام افراد کےلیے حرم (مقدس علاقہ)قرار دے دیا گیا تھا۔ اس میثاق پر دستخط کرنے والے تمام گروہ اس بات کے پابند تھے کہ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ عملی تعاون کرتے ہوئے شہر مدینہ کے مشترکہ تحفظ کویقینی بنائیں گے۔

اس دستور کی رو سے مسلمان اور یہودی اس بات کے بھی پابند ہوگئے تھے کہ ان میں سے کسی کے خلاف بھی حملہ کی صورت میں دوسرا گروہ دشمن کے خلاف مل کر لڑے گا۔ یہودیوں کو اس بات کا بھی پابند کیا گیا کہ وہ جب بھی کسی جنگ میں شریک ہونگے تو اس جنگ کے تمام اخراجات کی تفصیلات مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کے پابند ہوں گے۔مسلمان اور یہودی اس دستور کے تحت اس بات کے بھی پابند تھے کہ وہ امن معاہدات کی حمایت کریں گے اور امن کےلیے کی جانے والی کسی کوشش کو سبوتاژ نہیں کریں گے۔ ہر فریق کواس بات کابھی پابند بنا یاگیا کہ وہ اپنے اپنے علاقے کی حفاظت کرنے اور دشمن کے حملہ کے وقت اپنے جغرافیائی محل وقوع پر رہتے ہوئے اس کی مدافعت کرنے کے بھی پابند ہوں گے ۔

اس طرح آپ sym-1 کی سیاسی وعسکری قیادت کے ما تحت ایک جامع ترین حکمت عملی مرتب کی گئی جس کے مطابق کسی ریاست میں مقیم افراد اور گروہوں کے فرائض اور ذمہ داریوں پر مشتمل یہ پہلا باقاعدہ دستور قرار پاتا ہے۔


  • 1  ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، مطبوعۃ: نگارشات، لاہور، پاکستان، 2013 ء، ص: 67- 68
  • 2  الشيخ صفی الرحمن المباركفوري، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 207
  • 3  محمد حسين هيكل، حياة محمدﷺ ، مطبوعۃ: دار المعارف، القاھرۃ، مصر، د۔ ت۔ ط، ص: 238
  • 4  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1978م، ص: 190
  • 5  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی حلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص: 480- 484
  • 6  ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، عہد نبوی میں نظام حکمرانی، مطبوعۃ: نگارشات، لاہور، پاکستان، 2013 ء، ص: 69- 70
  • 7  محمد الغزالي السقا، فقہ السیرۃ، مطبوعۃ: دارالقلم، دمشق، السوریۃ، 1427ھ، ص: 155
  • 8  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السیرۃ النبویۃ وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص: 108
  • 9  شیخ صفی الرحمن مبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 207- 209
  • 10  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی حلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص: 501-504
  • 11  ابوالفداءاسماعيل بن عمر ا بن كثير الدمشقی، البدایۃ والنھایۃ، ج-4، مطبوعۃ: دار هجر للطباعة والنشر والتوزيع والإعلان، 1997م، ص: 555- 558
  • 12  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-۱، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 227- 229
  • 13  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-1، مطبوعۃ: مطبعۃ مصطفی البابی حلبی، القاہرۃ، مصر، 1955م، ص: 501-504

Powered by Netsol Online