Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺمفسّرین کی نظر میں

Published on: 21-Mar-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، علامہ سعید اللہ خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سیّد سعد ابراہیم، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:19، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 545-556)

رسول اکرم sym-1کے میلاد کو امتِ مسلمہ میں دور اوّل ہی سے بنظر استحسان دیکھا جاتا رہا ہے کیونکہ اس کی اصل قرآن مجید میں موجود ہونے کےساتھ ساتھ،1نبی مکرم sym-1کی سنتِ متواترہ میں بھی موجود ہے2 نیز مدینہ منورہ آنے کے بعد اپنا عقیقہ ہوجانےکے باوجود3دوبارہ عقیقہ کرنا بھی اس کی اصل ہے۔4 یہی وجہ ہے کہ یوم میلاد النبی sym-1میں صحابہ کرام صدقہ وخیرات کیاکرتے تھے ۔پھر امت میں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس عمل میلاد میں تغیر و تبدل بھی آتا رہا اور ہر کسی نے اپنی ثقافت کے لحاظ سے اس کو شایان شان منایا۔امت مسلمہ کے علمی طبقہ نے اس پر کئی کتب لکھیں اور اس کے جواز و استحسان پر کئی دلائل پیش کیے ۔ان لکھنے والوں میں ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات اکابر ہیں ۔یہاں چند مفسرین کا خصوصی طور سے ذکر کیا جارہا ہے جنہوں نے اس میلاد النبی sym-1کو جائز ومستحسن لکھا ہے۔

میلاد النبی ﷺامام فخر الدین رازی کی نظر میں

ان جلیل القدر علمائے تفسیر میں عظیم مفسر امام فخر الدین رازی sym-4ہیں جنہوں نے"مفاتیح الغیب"کے نام سے ایک عظیم تفسیر لکھی ہے جو آپ کے تبحّرِ علمی کا شاندار مرقّع ہے۔آپsym-4نے بھی میلاد النبیsym-1کے باعثِ برکت ہونےکا بڑی شد ومد سے ذکر کیا ہے اور اس پر صدقہ وخیرات کرنے پر اجر و فضل کا ذکر کیا ہے چنانچہ ابن حجر ہیتی امام فخر الدین رازیsym-4کے حوالہ سے رقمطراز ہیں:

قال وحید عصره وفرید دھره الامام فخر الدین الرازى مامن شخص قرأمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ملح اوبر او شى آخر من المأكولات الا ظھرت فیه البركة وفى كل شى وصل الیه من ذلك المأكول فانه یضطرب ولا یستقر حتى یغفر اللّٰه لآكله وان قرى مولدالنبى صلى اللّٰه عليه وسلم على ماء فمن شرب من ذلك الماء دخل قلبه الف نور ورحمة وخرج منه الف غلة وعلة ولایموت ذلك القلب یوم تموت القلب ومن قرأ مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم على درھم مسكوكة فضة كانت او ذھبا وخلط تلك الدراھم بغیرھا وقعت فیه البركة ولایفتقر صاحبھا ولا تفرغ یدہ ببركة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم . 5
امام فخر الدین رازی sym-4 فرماتے ہیں کہ جس شخص نے نمک، گیہوں یا کھانے کی ایسی ہی کسی اور چیز پر حضور sym-1کا میلاد شریف پڑھوایا تو اُس شئے میں برکت ظاہر ہوگی اور ہر اس چیز میں بھی جس تک یہ کھانے کی اشیاء پہنچیں گی ۔ یہ برکت رکے گی نہیں بلکہ مسلسل رہے گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے کھانے والے کی مغفرت کردے گا۔اگر پانی پر میلاد شریف پڑھوایا جائے تو جو اس پانی کو پئے گاتو اُس کے قلب میں ہزار انوار ورحمت داخل ہوں گے اور اس کے دل سے ہزار کینے اور بیماریاں نکل جائیں گی۔ جس دِن دِل مریں گے اُس دن اس کا دِل نہیں مرے گا۔جس نے چاندی یا سونے میں ڈھلے درہم پر میلاد پڑھوایا اور اس درہم کو دوسرے درہم میں ملایا تو اس میں برکت واقع ہوگی اور یہ شخص محتاج بھی نہیں ہوگا اور نہ اس کا ہاتھ نبی اکرم sym-1کی برکات سے کبھی محروم ہوگا ۔

اس عبارت سے معلو م ہوا کہ امام فخر الدین رازی sym-4 بھی نبی مکرم sym-1کے میلاد کومستحب قرار دیتے تھے اور اس پر خرچ کرنے والے کے لیے عظیم انعامات کا ذکرکرکے اس طرف اشارہ کرتے تھے کہ نبی مکرم sym-1کے میلاد منانے سے نعمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں اوریہ مستحب کام ہے۔

میلاد النبی ﷺشیخ تقی الدین سبکی sym-4کی نظر میں

ساتویں (7)صدی ہجری کے جلیل القدر مفسرجو اپنے دور کے مسلمہ امام، قاضی القضاۃ اورشیخ الاسلام بھی تھے یعنی تقی الدین أبو الحسن علی بن عبد الکافی سبکی شافعیsym-4 بھی ان علمائے عظام sym-4 کی جماعت میں سر فہرست ہیں جو محفل ِ میلاد منعقد کرتے اور اس میں اپنے ہمعصر علمائے کرام و مشائخ عظام کو مدعو کیا کرتے تھے۔آپsym-4 کے بحرالعلوم ہونے پر سب کا اتفاق ہے چنانچہ امام ابن حجر مکیsym-4 لکھتے ہیں:

الإمام المجمع على جلالته واجتھاده.6
امام (سبکیsym-4 وہ ہیں )جن کی جلالتِ علمی و اجتہاد پر اجماع ہے۔

اتنے بڑے عالم نے بھی آپ sym-1کے تذکرۂ مولود کو باعث برکت سمجھا ہے اور آپ sym-1کے ولادت کے تذکرہ کے وقت سب سے پہلے تعظیما ًکھڑے ہونے کا سہرا بھی آپsym-4 کے سر ہے چنانچہ امام برہان الدین الحلبی sym-4 لکھتے ہیں:

ومن الفوائد انه جرت عادةكثیر من الناس بذكر وضعه صلى اللّٰه عليه وسلم أن یقوموا تعظیما له صلى اللّٰه عليه وسلم وھذا القیام بدعة لا أصل لھا أى لكن ھى بدعة حسنة لأنه لیس كل بدعة مذمومة.....قال إمامنا الشافعى قدس اللّٰه سره ما أحدث و خالف كتابا أوسنة أو إجماعا أو أثرھا فھو البدعة الضلالة وما أحدث من الخبر......لم یخالف شیئا من ذلك فھو البدعة المحمودة وقد وجد القیام عند ذكر اسمه صلى اللّٰه عليه وسلم من عالم الأمة ومقتدى الأئمة دینا وورعا الإمام تقى الدین السبكى وتابعه على ذلك مشایخ الإسلام فى عصر وفقد حكى بعضھم أن الإمام السبكى اجتمع عنده جمع كثیر من علماء عصره فانشد منشد قول الصرصرى فى مدحه صلى اللّٰه عليه وسلم :
قلیل لمدح المصطفى الخط بالذھب
علی ورق من خط أحسن من كتب
وأن ینھض الأشراف عند سماعه
قیاما صفوفا أو جثیا على الركب
فعند ذلك قام الإمام السبكى رحمه اللّٰه وجمیع من فى المجلس فحصل أنس كبیر بذلك المجلس ویكفى مثل ذلك فى الاقتداء . 7
اور فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر لوگوں کی یہ عادت جاری ہوگئی ہے کہ جب حضور sym-1کی پیدائش مبارک کا ذکر سنا فوراً حضور sym-1کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوگئے اور یہ قیام بدعت ہے جس کی کوئی اصل نہیں یعنی بدعت حسنہ ہے کیونکہ ہر بدعت مذمومہ نہیں ہوتی۔۔۔ ہمارے امام شافعیsym-4 نے فرمایا جو چیز کتاب، سنت، اجماع یا اقوالِ صحابہ کے خلاف ہو وہ بدعتِ ضلالہ ہے اور جو نیک کام ایجاد کیا جائے اور وہ ان (اصول شرعیہ) کے خلاف نہ ہو بدعتِ محمودہ ہے۔۔۔حضور sym-1کے ذکر مبارک کے وقت (آسمانی مخلوقات اور ملائکہ کا)قیام پایا گیا ہے۔ امت محمدیہ کے جلیل القدر عالم امام تقی الدین سبکیsym-4 جو دین اور تقویٰ میں ائمہ کے مقتداء ہیں ،اس پر ان کے دور کے ہمعصر تمام علماء و مشائخ اسلام نے ان کی اتباع کی چنانچہ منقول ہے کہ امام سبکی sym-4 کے پاس ان کے ہمعصر علماء کرام بکثرت جمع ہوئے۔ ایک مداح رسول نے حضور sym-1کی مدح میں امام صرصریsym-4 کے یہ اشعار پڑھے: اگر چاندی پر سونے کے حروف سے بہترین کاتب حضور sym-1کی مدح لکھے تب بھی کم ہے۔ بیشک عزت و شرف والے لوگ حضور sym-1کا ذکر جمیل سن کر صف بستہ قیام کرتے ہیں یا گھٹنوں پر دوزانو ہوجاتے ہیں۔یہ اشعار سن کرامام سبکی اور تمام اہل مجلس مشائخ وعلماء بھی کھڑے ہوگئے اور اس وقت بڑا انس حاصل ہوا۔ مجلس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس قسم کے واقعات مشائخ علماء کی اقتداء کے بارے میں کافی ہوتے ہیں۔

اس مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں یہ واضح ہواکہ نبی مکرم sym-1کی ولادت کے تذکرہ کے وقت قیام مستحب ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ مولود النبی sym-1کے لیے جمع ہوکر محافل و مجالس کا انعقاد کرنا نہ صرف جائز و مستحسن فعل ہے بلکہ امت کہ مقتدر مشائخ و مایہ ناز مفسرینsym-4 جن میں شیخ تقی الدین سبکی sym-4 جیسے متبحّر مفسر بھی شامل ہیں اس مبارک محفل ومجلس کو منعقد کرتےاور بارگاہِ رسالت sym-1سے اس پر انعامات وصول کرتے آئے ہیں۔

ميلاد النبیﷺامام ابن جماعہ کی نظر میں

ان مفسرین کرام میں ایک بلند پایہ مفسر و عالم مصرو شام کے قاضی القضاۃ اور اپنے ہمعصر فقیہ علماء میں جو بمنزلہ شیخ کےہیں یعنی برہان الدین بن جماعہ sym-4 بھی ان مفسرین میں شامل ہیں جو مولود النبی sym-1کو نہ صرف جائزو بنظر استحسان دیکھتے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر مولود النبی sym-1کے موقع پر باقاعدہ محفلِ میلاد کا اہتمام کرتے تھے اور اس میں حاضر ہونے والوں کو کھانا بھی کھلایا کرتے تھے۔آپ sym-4 کا پورا نام ابو اِسحاق اِبراہیم بن عبد الرحیم بن اِبراہیم بن جماعہ الشافعی ہے اور آپ sym-4 نے دس جلدوں پر مشتمل قرآن حکیم کی تفسیر بھی لکھی ہے جس کے خود مصنف کے ہاتھوں سے لکھے گئے ایک نسخہ کو شیخ ابن حجر sym-4 نے دیکھا ہے اور اس کی افادیت کے بارے میں کہا ہے کہ اس میں کئی قسم کے نکات و رموز اور فوائد ہیں ۔ 8

شیخ ابن جماعہ کے میلاد منانے کے حوالہ سے امام ملا علی قاری sym-4اپنی مایہ ناز کتاب"المورد الروی فی مولد النبی صلي الله عليه وسلم" میں آپ sym-4کے معمولاتِ میلاد شریف کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

فقد اتصل بنا ان الزاھد القدوة المعمر ابا اسحاق ابراھیم بن عبدالرحیم بن ابراھیم جماعة لماكان بالمدینة النبویة، على ساكنھا افضل الصلاوة اكمل التحیة، كان یعمل طعاماً فى المولد النبوى، ویطعم الناس، ویقول: لوتمکنت عملت بطول الشھر كل یوم مولداً.9
ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ زاہد و قدوہ بزرگ ابو اِسحاق بن اِبراہیم بن عبد الرحیم جب مدینۃ النبی sym-1(اس کے ساکن پر افضل ترین درود اور کامل ترین سلام ہو) میں تھے تو میلاد نبوی sym-1کے موقع پر کھانا تیار کرکے لوگوں کو کھلاتے تھے اور فرماتے کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو پورا مہینہ ہر روز محفلِ میلاد کا اہتمام کرتا۔10

ملا علی قاری کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوا کہ شیخ ابن جماعۃ sym-4جو مایہ ناز مفسر ہیں وہ بھی مدینہ منورہ میں مولود النبی sym-1کی محافل کا انعقاد کیا کرتے تھے اور لوگوں کو رسول مکرم sym-1کی ولادت کی خوشی میں کھانا بھی کھلایا کرتے تھے لہذا اس سے معلوم ہوا کہ آپ sym-1کی ولادت کی خوشی کرنا اور اس خوشی کے اظہار کے خاطر کھانا کھلانا جائز ومستحسن ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

میلاد النبیﷺامام سیوطی sym-4کی نظر میں

مفسّرقرآن شیخ امام جلال الدین سیوطی sym-4نے مولد النبی sym-1کے حوالہ سے انتہائی وقیع رسالہ بنام"حُسْنُ الْمَقْصَد فِیْ عَمَلِ الْمَوْلَد" لکھا ہے جس میں میلاد النبی sym-1منانے کی شرعی حیثیت اور اس پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات بیان کیے گئے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام ، مروّجہ طرز کی محافل میلاد کے انعقاد کا آغاز،آغاز کرنے والے بادشاہ، معترضین میلاد کے اعتراضات مع جوابات، میلاد منانے اور اُس پر خوشی کرنے کا ذکر ، سرکار دوعالم sym-1کے پیر کے روز پیدا ہونے کی حکمت کے ساتھ ساتھ میلاد میں غلط رسموں اورناجائز امور پر بھی مفصّل کلام کیا ہے ۔ان کا ایک اقتباس یہاں پیش کیاجارہا ہے جس سے اندازہ ہوجائےگا کہ امام جلال الدین سیوطی sym-4میلاد کے نہ صرف جواز کے قائل ہیں بلکہ آپ sym-4نےاس کے استحسان کے دلائل دینے کے ساتھ ساتھ اس میلاد النبی sym-1کی اصل کی تخریج بھی خود فرمائی ہے چنانچہ آپ sym-4 تحریر فرماتے ہیں:

أن أصل عمل المولد الذى ھو اجتماع الناس وقرآء ة ما تیسر من القرآن وروایة الأخبار الواردة فى مبدأ أمر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وما وقع فى مولده من الآیات ثم یمدّ لھم سماط یأكلونه وینصرفون من غیر زیادة على ذلك ھو من البدع الحسنة التى یثاب علیھا صاحبھا، لما فیه من تعظیم قدر النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وإظھار الفرح والاستبشار بمولده الشریف.11
محفل میلاد در اصل لوگوں کا اکٹھے ہونا، بسہولت تلاوت قرآن کرنا اور ان احادیث کا بیان کرنا اور سننا ہے جو آپ sym-1کی ابتدائی حیاتِ طیّبہ کے بارے میں اور آپ sym-1کی ولادت کے موقع پر پیش آنےوالے واقعات کے حوالہ سے منقول ہیں۔ پھر طعام کے لیے خوانِ طعام بچھایا جاتاہے جس پہ وہ کھانا تناول کرتے ہیں اور بغیر کسی اور زیادتی کیے واپس گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔یہ نئے اچھے اعمال میں سے ہیں جن پر ثواب عطا کیاجائےگا کیونکہ اس میں رسالت مآب sym-1کی قدر و منزلت اور آپ sym-1کی آمد پر اظہارِ خوشی ہے۔

اسی طرح امام سیوطی sym-4نے اس رسالے میں امام ابن الحاج sym-4کے سوال کو نقل کیا ہے اور پھر اس کا جواب تحریر کیا ہے چنانچہ امام سیوطیsym-4 اس اعتراض کو بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:

ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه فى شھر ربيع الأول من مولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة فمن ذلك استعمالهم المغانى ومعهم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا فى ذلك على العوائد الذميمة فى كونھم يشتغلون فى أكثر الأزمنة التى فضلها اللّٰه تعالى وعظمها ببدع ومحرمات ولا شك أن السماع فى غير هذه الليلة فيه ما فيه. فكيف به إذا انضم إلى فضيلة هذا الشهر العظيم الذى فضله اللّٰه تعالى وفضلنا فيه بھذا النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم على ربه عز وجل...فآلة الطرب والسماع أى نسبة بينھا وبين تعظيم هذا الشهر الكريم الذى من اللّٰه تعالى علينا فيه بسيد الأولين والآخرين فكان يجب أن يزاد فيه من العبادات والخير شكرا للمولى سبحانه وتعالى على ما أولانا من هذه النعم العظيمة... وهذه المفاسد مركبة على فعل المولد إذا عمل بالسماع فإن خلا منه وعمل طعاما فقط ونوى به المولد ودعا إليه الإخوان وسلم من كل ما تقدم ذكره فهو بدعة بنفس نيته فقط إذ أن ذلك زيادة فى الدين وليس من عمل السلف الماضين واتباع السلف أولى بل أوجب من أن يزيد نية مخالفة لما كانوا عليه لأنھم أشد الناس اتباعا لسنة رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظيما له ولسنته صلى اللّٰه عليه وسلم ولهم قدم السبق فى المبادرة إلى ذلك ولم ينقل عن أحد منھم أنه نوى المولد ونحن لهم تبع فيسعنا ما وسعهم.12
من جملہ لوگوں کی ایجاد کردہ بدعتوں میں سے ایک ماہ ربیع الاول میں میلاد پاک منانا ہے جسے وہ عظیم عبادت سمجھتے ہیں اور شعائر ِ اسلامی کا اظہار گردانتے ہیں حالانکہ یہ میلاد بہت سے نت نئےحرام اورناجائز افعال پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان حرام اشیاء میں سےآلاتِ طرب ہیں جیسےطار، مصر صر اور شبابہ وغیرہ جنہیں آلات سماع کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برائی میں مشغول ہوتے ہیں۔بالخصوص جن اوقات کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت وبزرگی عطا فرمائی ہے، ان میں بدعتوں اور حرام کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ سماع توبلاشبہ اس رات کے علاوہ بھی جائز نہیں ہےتو اس رات میں کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ جو رات اس مہینہ کی عظمت وفضیلت کو متضمن ہے کہ جس میں باری تعالی نے نبی سرور sym-1کو مبعوث فرمایا۔۔۔ لہذا واضح ہوا کہ آلات طرب وسماع کی اس بزرگ مہینے سے کوئی ادنی سی بھی نسبت نہیں جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اولین و آخرین کے سردار sym-1کو پیدا فرماکر ہم پر احسان فرمایا لہٰذا ضروری ہے کہ اس مہینہ میں عبادات اور نیکیاں بکثرت سرنجام دی جائیں۔ اس عظیم نعمت پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے۔۔۔ یہ مذکورہ برائیاں فعلِ میلاد پر اس وقت مرتب ہوتی ہیں جب اس میں سماع وغیرہ شامل ہو اور اگر سماع سے خالی ہو، میلاد کی نیت سے لوگوں کو بلاکر کھانا کھلایا جائے اور تمام ماقبل مذکورہ خرافات سے یہ فعلِ میلاد محفوظ ہو تو بھی یہ صرف اپنی نیتِ مولد کی وجہ سے بدعت ہے کیونکہ یہ دین میں زیادتی ہے اور یہ گزشتہ سلف صالحین کے عمل سے بھی ثابت نہیں ہے حالانکہ سلف صالحین کی اتباع لازمی ہے۔ ان حضرات ِصالحین میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ انہوں نے اس طرح فعلِ مولد کی نیت کی ہو(اور یہ فعل سرانجام دیاہو) لہٰذا جو انہوں نے کیا ہمیں بھی وہی کرنا چاہیے۔

جس طرح امام فاکہانی نے فعلِ میلاد کو بدعت کہا ہے13 اسی طرح مذکورہ بالا عبارت کے آخر میں امام ابن الحاج نے بھی یہی لکھا ہے اور اس مذکورہ بالا اعتراض کا جواب امام سیوطی sym-4 نے اپنے رسالہ "حُسْنُ الْمَقْصَد فِیْ عَمَلِ الْمَوْلَد" میں دیا ہے چنانچہ اس کا جواب دیتے ہوئے امام سیوطی تحریر فرماتے ہیں:

وحاصل ما ذكره أنه لم يذم المولد بل ذم ما يحتوى عليه من المحرمات والمنكرات، وأول كلامه صريح فى أنه ينبغى أن يخص ھذا الشھر بزيادة فعل البر وكثرة الخيرات والصدقات وغير ذلك من وجوه القربات، وهذا هو عمل المولد الذى استحسناه، فإنه ليس فيه شىء سوى قراءة القرآن وإطعام الطعام، وذلك خير وبر وقربة.14
ابن الحاج کی عبارت جس کو انہوں نے ذکر کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے میلاد شریف کی برائی نہیں کی بلکہ ان حرام اور فحش افعال کی برائی کی جو اس میں شامل ہوگئے ہیں اور ان کا ابتدائی کلام اس بات میں صریح ہے کہ اس ماہ مبارک کو بکثرت نیکیوں اورزیادہ خیرات وصدقات کے ساتھ خاص کیا جائےاورقربِ الہی کے دیگر طریقوں کے ساتھ مخصوص کیا جائے۔ یہی وہ میلاد ہے جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں تلاوت قرآن اور کھانا کھلائے جانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہی افعال بھلے، نیکی اور قربِ الہی کا ذریعہ ہیں۔

یعنی امام ابن الحاج نے عمل مولد میں ہونے والی خرافات کو غلط کہا تھا جس کا جواب سطور بالا میں دیاگیا ہے اور امام فاکہانی کے سوال کے جواب میں امام جلال الدین سیوطی sym-4 نے میلاد النبی sym-1کی اصل کو کئی احادیث سے ثابت کیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جلیل القدر مفسر بھی نبی مکرمsym-1کے میلاد کو مستحسن جانتے تھے اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات بھی آپsym-4 نے اسی وجہ سے دیے تھے ۔

میلاد النبیﷺامام ابن کثیرsym-4 کی نظر میں

امام ابن کثیر جو ایک مفسر کی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے درمیان جانے جاتے ہیں انہوں نے بھی مولد رسول اﷲ sym-1کے نام سے ایک رسالہ لکھا ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی لکھتے ہیں:

ابن کثیر کے اس مختصر رسالے کا ذکر ان کے کسی سوانح نگار نے نہیں کیا ہے۔ اس کا سبب رسالے کا حجم بھی ہوسکتا ہے اور اس کی کامیابی بھی۔ اس قیمتی اور نایاب کتاب کی تلاش کا سہرا ڈاکٹر صلاح الدین المنجد کے سر ہے۔ انہیں اس کا مخطوطہ ریاستہائے متحدہ امریکا کے شرہ برنسٹن کی یونیورسٹی کی لائبریری میں دستیاب ہوا۔ جو مجموعہ یہودا کے ضمن میں قلمی رسائل نمبر چار ہزار اٹھانوے( 4098 )کے مجموعے میں شامل ہے۔ اس مجموعے میں کل سترہ رسائل ہیں اور یہ رسالہ ورق نوّے( 90) سےسو( 100) تک پر مشتمل ہے۔ اس مخطوطے کوسات سو چھیاسی( 786ھ) میں لکھا گیا ہے یعنی ابن کثیر کی وفات کے محض بارہ (12) سال بعد۔ ڈاکٹر منجد نے اسے پہلی بارانیس سو انہتر( 1969ء) میں دار الکتاب الجدید، بیروت سے شائع کروایا۔ لیکن اس میں احادیث کی تخریج بالکل نہیں کی گئی ہے اور صرف البدایہ والنہایہ سے اس کے نصوص کا مقابلہ کیا گیا ہے۔15

ابن کثیر نے اپنی کتاب"البدایۃ والنہایۃ" میں ایک مقام پر شاہ اربل کی تعریف کی ہے اور ان کے نیک کام تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے:

وكانت صدقاته فى جمیع القرب والطاعات على الحرمین وغیرھما.16
ان کے تمام نیک کاموں میں صدقات کا دائرہ حرمین اور دیگر مقامات تک پھیلا ہوا تھا۔

ان میں ایک نیک کام جامع مسجد مظفری کا بنانا بھی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی sym-4تحریر فرماتے ہیں:

وھو الذى عمر الجامع المظفرى بسفح قاسیون.17
اسی بادشاہ نے قاسیون کی وادی میں جامع مظفری کو تعمیر کرایا تھا ۔

ان کی بنائی ہوئی مسجد مظفری کے مؤذن کے حکم پر امام ابن کثیر نے مولد رسول اﷲ sym-1 کے نام سے یہ رسالہ لکھا جو بیروت سے کئی بار شائع ہوچکا ہے۔ غالباً اس مسجد کے مؤذن نے مسجد میں منعقد ہونے والی میلاد کی محفلوں میں پڑھنے کے لیے ابن کثیر سے یہ کتاب لکھوائی ہوگی۔ یہ کتاب اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ابن کثیر ان محفلوں کے انعقاد کو جائز سمجھتے تھے۔ 18

اس"مولد رسول اللہ صلي الله عليه وسلم"نامی نبی مکرم sym-1کے میلاد پر لکھے گئے رسالہ میں ابن کثیر لکھتے ہیں:

حضور sym-1کی ولادت شریفہ کی شب عظمت وشرافت والی اور مومنین کے لیے برکت وسعادت والی شب ہے۔پاک وطاہر شب تھی، جس کے انوار ظاہروعیاں تھے اور جو بڑی بزرگی اور قدر ومنزلت والی شب تھی۔ اس شب میں اﷲ تعالیٰ نے اس محفوظ وپوشیدہ جوہر کو (اس خاکدان گیتی میں) ظاہر فرمایا جس کے انوار ہمیشہ سے نکاح کے ذریعہ نہ کہ بے حیائی کے ذریعے شریف صلب سے طاہر وعفت والے رحم میں منتقل ہوتے رہے اور یہ سلسلہ ابو البشر آدم sym-9سے چلتا ہوا عبداﷲ بن عبد المطلب پر ختم ہوا۔ اور حضرت عبداﷲ سے یہ نور جناب آمنہ بنت وہب کی جانب منتقل ہوا۔ اور اسی شرف وعزت والی رات میں آپ sym-1کی ولادت ہوئی۔ آپ sym-1کی ولادت شریفہ کے جو حسی ومعنوی اور ظاہری وباطنی انوار ظاہر ہوئے ان سے عقلیں حیران، اور نگاہیں خیرہ ہوگئیں۔19

اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسر کی نظر میں میلاد النبی sym-1جائز و مستحسن ہے اور انہوں نے خود بھی اس کے جواز واستحسان پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا ترجمہ پاکستان سے بھی شائع ہوچکا ہے۔

میلاد النبیﷺاسماعیل حقی sym-4 کی نظر میں

انہی مفسرین کرام میں سے ایک مفسرِ جلیل شیخ امام اسماعیل حقیsym-4 بھی ہیں جنہوں نے میلاد النبی sym-1کو نبی مکرم sym-1کی تعظیم میں شامل کیا ہے اور ربیع الاوّل کے ماہ کو ولادت رسول sym-1کی وجہ سے عظیم الشان تحریر کیا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے بیان کرتےہوئے لکھتے ہیں:

إنه قد اتفق أھل العلم على أفضلیة شھر رمضان لأنه أنزل فیه القرآن ثم شھر ربیع الأول لأنه مولد حبیب الرحمن وأما أفضل اللیالى فقیل لیلة القدر لنزول القرآن فیھا وقیل لیلة المولد المحمدى لولاه ما أنزل القرآن ولا تعینت لیلة القدر فعلى الأمة تعظیم شھر المولد ولیلة كى ینالوا منه شفاعته ویصلوا إلى جواره.20
اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ ماہ رمضان تمام مہینوں سے افضل ہے اس کے بعد ربیع الاول شریف کو باقی تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہےکیونکہ اس میں حبیبِ رحمن sym-1پیداہوئے،البتہ فضیلت والی رات شب قدرہےاس لیےکہ اس میں قرآن نازل ہوااورکہاگیا کہ شب ولادت محمدی sym-1افضل رات ہےکیونکہ اگروہ نہ ہوتےتوقرآن بھی نازل نہ ہوتااورنہ ہی شب قدرمتعین ہوتی پس امت پرلازم ہےکہ اس ماہ اورشب ولادت کی تعظیم کریں تاکہ آپ sym-1کی شفاعت وقرب حاصل کرسکیں۔

بعض کے نزدیک تمام راتوں سے لیلۃ القدر افضل ہے لیکن بعض نے لیلۃ القدر سمیت تمام راتوں پر شبِ میلاد کو افضل کہا اس لیے کہ اگر حضور تشریف نہ لاتے تو نہ لیلۃ القدر ہوتی اور نہ کوئی اور شے۔امت پر لازم ہے کہ وہ ماہِ میلاد شریف کے دنوں اور راتوں کی تعظیم وتکریم میں جدوجہد کرے تاکہ حضور نبی پاک sym-1کی شفاعت نصیب ہو اور آپ sym-1کے قرب کریمانہ سے نوازے جائیں۔21

نیزاسی طرح میلاد النبی sym-1کو نبی مکرم sym-1کی تعظیم کے افعال میں شامل قراردیتے ہوئے امام اسماعیل حقیsym-4 ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

ومن تعظیمه عمل المولد إذا لم یكن فیه منكر قال الإمام السیوطى قدس سره یستحب لنا اظھار الشكر لمولده انتھى.22
آپ sym-1کی تعظیم میں ہے آپ sym-1کا میلاد منانا جبکہ اس میں خلاف شرع کوئی امر نہ ہو امام سیوطی نے فرمایا کہ ہمارے لیے میلاد کے ذریعے اظہار تشکر ضروری ہے۔ 23

اسی طرح نبی مکرم sym-1کی ولادت کی محفل میں ساعتِ میلاد کے وقت کھڑے ہوکر درود وسلام کے اثبات پر امام تقی الدین سبکی sym-4 کی عبارت نقل کرنے کے بعد اس کے جواز کے بارے میں اپنی رائےدیتے ہوئے لکھتے ہیں:

ویكفى ذلك فى الاقتداء.24
تو ان کی اقتداء کی دلیل کافی ہے۔

ان مذکورہ بالا عبارات سے بھی واضح ہواکہ شیخ اسماعیل حقی sym-4 جو کہ بلند پایہ مفسر ہیں انہوں نے بھی میلاد النبیsym-1کو مستحسن قراردیا ہے اور اس کو نبی مکرمsym-1کی تعظیم میں شامل کیا ہے۔

ان مذکورہ بالا مفسرین کے اقتباسات سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ نبی مکرم sym-1کا میلاد منانا ایک مستحسن امر ہے اور نبی مکرم sym-1کی تعظیم میں شامل ہے اور اس کےمنانے والے پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا خصوصی فضل واحسان ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو اکہ امت کے اکابر علماء اس میلاد النبی sym-1کو بنظر استحسان دیکھتےہیں ۔


  • 1  القرآن،سورۃ یونس10: 58
  • 2  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:477
  • 3  جلال الدین عبد الرحمن بن ابو بکر سیوطی،الحاوی للفتاوٰی، ج-1، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:188
  • 4  ابو بکر احمد بن حسین البیھقی،السنن الکبری،حدیث: 19273، ج-9، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص:505
  • 5  شھاب الدین احمد بن حجر ہیتمی الشافعی،النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولد آدمﷺ،مطبوعۃ: مکتبۃ الحقییۃ،استنبول ،ترکی،2003م،ص:6
  • 6  ایضا، الفتاویٰ الحدیثیۃ، مطبوعۃ: مطبع جمالیۃ، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 85
  • 7  ابو الفرج على بن ابراهيم الحلبى، انسان العيون فى سيرة النبى الامين المامونﷺ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م،ص:123
  • 8  شیخ خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام، ج-1، مطبوعۃ: دار العم للملایین، بیروت، لبنان، 2002م، ص: 46 - 47
  • 9  نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی مولدالنبیﷺ، مطبوعۃ: منہاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م،ص:81
  • 10  نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی مولدالنبیﷺ(مترجم:عبد القیوم ہزاروی)،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان، 2011ء، ص:84
  • 11  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 189
  • 12  ابو عبد الله محمد بن محمدالمالكی الشھیر بابن الحاج، المدخل،ج-2، مطبوعۃ:دار التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2
  • 13  تاج الدین عمر بن علی الفاکہانی، المورد فی عمل المولد، مطبوعۃ: دار العاصمۃ، الریاض، السعودية،1998م، ص: 8-9
  • 14  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 187
  • 15  ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی ، تحفہ عید میلاد النبیﷺ،مطبوعہ: اویسی بک سٹال، گوجرانوالہ،پاکستان، 2011ء،ص: 84
  • 16  أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر،البدایۃ والنہایۃ، ج-13، مطبوعۃ: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 160
  • 17  جلال الدین عبد الرحمن بن أبی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1988م، ص: 189
  • 18  ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی ، تحفہ عید میلاد النبی ﷺ ،مطبوعہ: اویسی بک سٹال، گوجرانوالہ، پاکستان، 2011ء،ص:84-85
  • 19  ابو الفداء اسماعیل ا بن کثیر الدمشقی، مولد رسول اﷲ ﷺ،مطبوعہ: اویسی بک اسٹال ،گوجرانوالہ،پاکستان، 2011ء، ص:97
  • 20  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 243
  • 21  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن(مترجم: شیخ الحدیث فیض احمد اویسی﷫)،ج-6، مطبوعہ: مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاولپور،پاکستان، 1985ء،ص: 164
  • 22  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:56
  • 23  ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن (مترجم: شیخ الحدیث فیض احمد اویسی)، ج-26، مطبوعہ: مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاولپور،پاکستان، 1985ء،ص: 345
  • 24  ایضا، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 56

Powered by Netsol Online