Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

انگشتان مصطفیٰ ﷺ

Published on: 12-Dec-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ سیّد سعد ابراہیم،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 54، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 792-804)

حضور دو عالم نور مجسم sym-1کو اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے نورِ نبوّت کے ساتھ ساتھ نورِ ظاہری بھی بدرجہ اتم عطا فرمایا۔ اللہ ربُّ العزّت نے آپ sym-1کو ظاہری و باطنی طور پر علی اَکمل الوجہ سراپائے حسن و کمال و جمال تخلیق فرمایا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روم روم نہایت حسین و لطیف تھا ۔ چہرۂ انور پر تجلّیات ربّانی ظاہر و عیاں رہتیں تھیں۔ رُخِ انور پرکسی کی نگاہ پڑجاتی تو وہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں سرخی کے ڈورے حُسن و جمال کے عروج پر پہنچے رہتے۔یہی نہیں فرطِ رحمت سے اگر کسی شٔے کو چُھو لیتے تو وہ بابرکت ہوجاتی، کسی بچے کے سَر پر ہاتھ رکھ دیتے تو اس کی مہک کئی روز برقرار رہتی۔ انگشت مبارک جس جانب فرمادیتے معجزات کا ظہور ہوجاتا۔ حضور sym-1کےدستِ اقدس تو کیا محض انگشتان مبارک کے کئی معجزات واقع ہوئے۔

اوصافِ انگشتِ نبی sym-1

آپ sym-1کی انگلیوں کے اوصاف ایسے تھے کہ قدرے لمبی، قوی اور زیباتھی۔ آپ sym-1کی مبارک انگلیوں کے اوصاف مولائےکائنات علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے بیان کرتے ہوئےفرمایا:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شَثْنُ الكفَّین والقدمین سائل الأطراف.1
رسول اکرم sym-1کی باکر امت ہاتھ اور قدم گدازتھےاورانگلیاں مبارک طویل تھیں۔ 2

معجزاتِ انگشتِ طیّبہ

حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اﷲsym-9 کا معجزہ کہ اﷲ کے حکم سے آپ نے پتھر پر اپنا عصا مبارک مارا تو پتھر سے پانی کے چشمے پھوٹ پڑے۔ قرآن حمید میں اللہ تعالیٰ نے اس معجزہ کو یوں ذکر فرمایا ہے:

فَانْفَجَرَتْ مِنْه اثْنَتَا عَشْرَة عَینًا 603
پھر اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔

بلاشبہ یہ حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اﷲ sym-9 کا بہت بڑا معجزہ تھا مگر یہی معجزہ حضور نبی کریم sym-1کے دست مبارک پر اس طرح ظاہر ہوا کہ آپ کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے۔چنانچہ حضرت انس sym-5 بیان کرتے ہیں :

ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم دعا باناء من ماء فاتى بقدح رحراح فیه شىء من ماء فوضع اصابعه فیه قال انس: فجعلت انظر الى الماء ینبع من بین اصابعه. قال انس: فحزرت من توضا ما بین السبعین الى الثمانین.4
بے شک حضور sym-1نے پانی کا برتن منگایا تو ایک کشادہ پیالہ لایا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا حضور sym-1نے اس میں اپنی انگلیاں رکھ دیں حضرت انس sym-5 نے کہا: میں اس پانی کی طرف دیکھ رہا تھا جو حضور sym-1کی انگلیوں سے ابل رہا تھا۔ حضرت انس sym-5 نے کہا: میں نے اندازہ کیا جن لوگوں نے اس پانی سے وضو کیا ان کی تعداد ستر سے اسی تک تھی۔

ایک اورروایت میں حضرت انس sym-5بیان کرتے ہیں:

رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم و حانت صلوة العصر فالتمس الناس الوضوء فلم یجدوه فاوتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بوضوء فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى ذلك الاناء یده وامر الناس ان یتوضووا منه قال: فرایت الماء ینبع من تحت اصابعه حتى توضووا من عند اخرھم.5
میں نے حضور sym-1کو دیکھا اس وقت نماز عصر کا وقت آچکا تھا۔ صحابہ کرا م نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا مگر انہیں نہ ملا۔ حضور sym-1کے سامنے تھوڑا سا پانی پیش کیا گیا تو حضور sym-1نے اپنا دست مبارک اس میں ڈالا اور لوگوں سے ارشاد فرمایا: اب وضو کرتے جاؤ۔ حضرت انس sym-5کا بیان ہے: میں نے حضور sym-1کی انگلیوں سے پانی ابل ابل کر نکلتے دیکھا اور تمام صحابہ کرام sym-7نے اس سے وضو کیا۔

حضور نبی کریم sym-1کی انگشت ہائے مبارک سے کثیر مقامات پر پانی جاری ہونے کے معجزہ کو صحابہ کرامsym-7 کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے جن میں حضرت انس sym-5، حضرت جابرsym-5 ، حضرت ابن مسعودsym-5 ، حضرت ابن عباسsym-8 ، حضرت ابو یعلی sym-5، حضرت ابورافعsym-5 ، خادم رسول sym-1حضرت عبداﷲ بن خطبsym-5 ، حضرت حبان بن بجsym-5 اور زیاد بن حارث صدائی sym-5شامل ہیں۔ایسے مواقع جن میں وضوء کے لیے پانی کم ہوگیا یاپینےکو میسر نہ تھاتو سرکار دو عالم sym-1نےچُلُّوبھرپانی کے برتن میں اپنا ہاتھ مبارک رکھا جس سےآپ sym-1کی انگلیوں مبارک سے چشمے کی طرح پانی اُبلنے لگااورقلیل پانی کثیرہوگیا۔ ایک موقع کےمتعلق حضرت جابرsym-5 بیان کرتے ہیں کہ اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمیں کافی ہوجاتا۔

حضرت جابر بن عبداﷲsym-5 بیان کرتے ہیں:

عطش الناس یوم الحدیبیة والنبى صلى اللّٰه علیه وسلم بین یدیه ركوة فتوضا فجھش الناس نحوه فقال: مالكم؟ قالوا: لیس عندنا ماء نتوضا ولا نشرب الا ما بین یدیك. فوضع یده فى الركوة فجعل الماء یثور بین اصابعه كامثال العیون، فشربنا وتوضانا قلت: كم كنتم؟ قال: لو كنا مائة الف لكفانا كنا خمس عشرة مائة.6
حدیبیہ کے روز لوگوں کو پیاس لگی اور حضور sym-1کے پاس ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی جس سے حضور sym-1نے وضو فرمایا پھر لوگ آپ sym-1کے گرد ہوکر جمع ہوگئے دریافت فرمایا: تمہیں کیا درپیش ہے؟ عرض گزار ہوئے ہمارے پاس وضو کے لیے پانی نہیں ہے، بس یہی ذرا سا پانی ہے جو حضور sym-1کے حضور رکھا ہوا ہے۔ پس آپ sym-1نے اپنا دست مبارک چھاگل میں ڈالا تو آپ sym-1کی انگشت ہائے مبارک سے چشمہ ابل پڑا ۔ پس ہم نے پیا اور وضو کیا میں (سالم راوی) نے دریافت کیا: تم اس وقت کتنے تھے؟ کہا: اگر ہم ایک لاکھ ہوتے تب بھی پانی سب کے لیے کافی ہوتا جبکہ ہم پندرہ سو تھے۔

امام مسلم sym-4 نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔7

حضرت جابر بن عبداﷲ sym-8بیان کرتے ہیں:

قد رایتنى مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وقد حضرت العصر ولیس معنا مآء غیر فضلة فجعل فى انآء فاتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم به فادخل یده فیه وفرج اصابعه ثم قال: حى على اھل الوضوء البركة من اللّٰه. فلقد رایت المآء یتفجر من بین اصابعه، فتوضا الناس وشربوا فجعلت لاآلو ما جعلت فى بطنى منه فعلمت انه بركة، قلت لجابر: كم كنتم یومئذ؟ قال: الفا واربعمائة. تابعه عمرو عن جابر وقال حصین و عمرو ابن مرة عن سالم عن جابر: خمس عشرة مائة. وتابعه سعید بن المسیب عن جابر.8
میں نے حضور sym-1کی معیت(ساتھ) میں دیکھا کہ عصر کی نماز کا وقت ہوگیا لیکن ذرا سے بچے ہوئے پانی کے سوا وضوکےلیےکچھ نہ تھا جو ایک برتن میں جمع کرکے نبی کریم sym-1کی خدمت میں پیش کیا گیا۔حضور sym-1نے اپنا دست مبارک اس میں داخل کیا اور پھر انگشت ہائے مبارک کھول دیں۔ پھر ارشاد فرمایا : وضو کرنے والے آئیں اور اﷲ کی برکت سے فائدہ اٹھائیں۔ پس میں نے دیکھا کہ پانی حضور sym-1کی انگشت ہائے مبارک سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے۔ پس لوگوں نے وضو کیا اور پانی پیا۔ چنانچہ میں نے اپنا پیٹ بھرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کیونکہ میں جان چکا تھاکہ یہ پانی بابرکت ہے۔ میں (سالم بن الجعد) نے حضرت جابر sym-5کی خدمت عرض کی :اس روز آپ کتنے حضرات تھے؟ انہوں نے فرمایا: چودہ سو۔ عمرو بن دینار نے بھی حضرت جابر sym-5سے اس کی روایت کی ہے۔ حصین بن عمرو بن مرہ نے سالم سے اور انہوں نے حضرت جابر sym-5سے پندرہ سو حاضرین کی روایت کی ہے اور اسی طرح سعید بن مسیب نے حضرت جابر sym-5سے روایت کیا ہے۔

حضرت جابر بن عبداﷲsym-8 مزید بیان کرتے ہیں:

كنا ألفا وأربعمائة یعنى: یوم عز الماء، فدعا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بمیضأة من ماء، فجعل فیھا كفه، فجعل الماء یفور من بین أصابعه، فاغتسلوا وتوضؤوا وشربوا.9
جس دن پانی کم تھا اس دن ہماری تعداد ایک ہزار چار سو تھی،حضور sym-1نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا، اس میں اپنی ہاتھ مبارک ڈال دیا، آپ sym-1کی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوگئے، صحابہ کرام sym-7نے دھویا، وضو کیا اور پیا بھی۔

حضرت جابر بن عبداﷲ sym-8کی ایک اورروایت ہے۔فرمایا:

أصابنا عطش فجھشنا فانتھینا إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، فوضع یده فى تور، فجعل یفور كأنه عیون من خلل أصابعه، وقال: اذكروا اسم اللّٰه. فشربنا حتى وسعنا وكفانا.10
حضرت جابر بن عبداﷲsym-8 بیان کرتے ہیں۔ ہمیں پیاس لاحق ہوئی ہم گھبراگئے اور حضور sym-1کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور sym-1نے اپنا دست اقدس ایک برتن میں رکھا تو وہ پانی یوں جوش مارنے لگا جیسے وہ چشمہ ہو جو آپ sym-1کی انگلیوں میں سے نکل رہا تھا۔ حضور sym-1نے ارشاد فرمایا: اﷲ کا نام لے کر اس پانی کو استعمال کرنا شروع کرو۔ہم نے وہ پانی پیا۔ یہاں تک کہ وہ ہم سب کے لیے کافی ہوگیا۔

حضرت علقمہ sym-5 بیان کرتے ہیں:

سمع عبداللّٰه بخسف فقال: كنا اصحاب محمد صلى اللّٰه علیه وسلم نعد الایات بركة وانتم تعدونھا تخویفا انا بینما نحن مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولیس معنا ماء فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: اطلبوا من معه فضل ماء.فاتى بماء فصبه فى الاناء ثم وضع كفه فیه، فجعل الماء یخرج من بین اصابعه، ثم قال: حى على الطھور المبارك و البركة من اللّٰه تعالى. فشربنا. وقال عبداللّٰه: كنا نسمع تسبیح الطعام وھو یؤكل.11
حضرت عبداﷲ بن مسعودsym-8 نے کہیں زمین دھنسنے کے بارے میں سنا تو ارشاد فرمایا: ہم حضور sym-1کے اصحاب ظاہر ہو نے والی نشانیوں کو برکت شمار کرتے تھے جبکہ تم انہیں خوف زدہ کرنے والی چیز سمجھتے ہو۔ ایک مرتبہ ہم حضور sym-1کے ہمراہ تھے۔ ہمارے پاس پانی موجود نہیں تھا۔ حضور sym-1نے ارشادفرمایا: کسی کےپاس اضافی پانی ڈھونڈو۔ وہ پانی لایا گیا، حضور sym-1نے اسے برتن میں انڈیلا پھر آپ sym-1نے اپنا ہاتھ مبارک اس میں رکھا، آپ sym-1کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکلنے لگا۔ حضور sym-1نے ارشاد فرمایا: بابرکت طہارت دینے والے پانی کی طرف آؤ اور برکت اﷲ کی طرف سے ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں: پس ہم نے پانی پیا۔حضرت عبداﷲ sym-5بیان کرتے ہیں: ہم لوگ کھانے کی تسبیح سن لیا کرتے تھے جبکہ اس کھانے کو کھایا جارہا ہوتا تھا۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود sym-8بیان کرتے ہیں:

كنا مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فلم یجدوا ماء فاتى بتور فادخل یده، فلقد رایت الماء یتفجر من بین اصابعه، ویقول: حى على الطھور والبركة من اللّٰه عزوجل. قال الاعمش فحدثنى سالم بن ابى الجعد قال: قلت لجابر: كم كنتم یومئذ؟ قال: الف و خمسمائة.12
ہم نبی کریم sym-1کے ہمراہ تھے لوگوں کو پانی نہ ملا تو آپ sym-1کے پاس پانی کا ایک برتن لایا گیا، آپ sym-1نے اپنا دست اقدس اس میں ڈال دیا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پانی آپ sym-1کی انگلیوں سے پھوٹ کر نکل رہا تھا اور آپ sym-1فرمارہے تھے: آؤ پاکیزگی اور اﷲکی برکت کی طرف۔

اعمش sym-4 بیان کرتے ہیں: انہیں سالم بن ابی الجعد sym-4نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر sym-5سے پوچھا: آپ اس دن کتنی تعداد میں تھے؟ انہوں نے فرمایا: پندرہ سو۔

چُلُّو بھر پانی کثیرہوگیا

حضرت زیاد بن حارثsym-5 صدائی فرماتے ہیں: حضور sym-1ایک سفر میں طلوع فجر سے پہلے رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے جب واپس تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے عرض کیا بہت تھوڑا ہے جو آپ کو کافی نہ ہوگا فرمایا اس کو ایک برتن میں ڈال کر لے آؤ! فرماتے ہیں میں لے آیا:

فوضع كفه فى الماء فرأیت بین إصبعین من أصابعه عینا تفور فقال: ناد فى أصحابى من كان له حاجة فى الماء فنادیت فیھم فأخذ من أراد منھم فقلنا یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إن لنا بئرا إذا كان الشتاء وسعنا مائھا واجتمعنا علیھا وإذا كان الصیف قل ماؤھا فتفرقنا على میاه حولنا وقد أسلمنا وكل من حولنا لنا عدو، فادع اللّٰه لنا فى بئرنا أن یسعنا ماؤھا فنجتمع علیھا ولا نتفرق فدعا بسبع حصیات فعركھن فى یده ودعا فیھن ثم قال: اذھبو بھذه الحصیات فإذا أتیتم البئر فالقوا واحدة واحدة واذكروا اسم اللّٰه. قال الصدائى ففعلنا ما قال لنا فما استطعنا أن ننظر إلى قعرھا یعنى البئر.13
تو آپ sym-1نے اپنا دست مبارک اس میں رکھا میں نے دیکھا کہ آپ sym-1کی دو انگلیوں کے بیچ میں سے چشمہ جوش مارنے لگا تو آپ sym-1نے فرمایا :لوگوں میں پکار دو(اعلان کردو) جس کو پانی کی حاجت ہوآجائے۔ میں نے پکارا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس پانی میں سے لیا یہ دیکھ کر ہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہمارے قبیلہ میں ایک کنواں ہے موسم سرما میں تو اس کا پانی ہم سب کو کافی ہوتا ہے اور جب موسم گرما آتا ہے تو اس کا پانی بہت کم ہوجاتا ہے۔ ہم لوگ متفرق ہوکر جہاں پانی پاتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں اب چونکہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اس وجہ سے اطراف کے قبیلے ہمارے دشمن ہوگئے ہیں۔ آپ sym-1 دعا فرمائیں کہ ہمارے کنوئیں کا پانی ہمیں کافی ہوجائے اور ہم ایک ہی جگہ جمع رہیں،متفرق ہونے کی ضرورت نہ ہو۔ حضور sym-1نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا: یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو۔ فرماتے ہیں: جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اس ضمن میں امام طبرانی sym-4کی روایت میں ہے:

أتیت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فبايعته، فبلغنى أنه یرید أن یرسل جیشا إلى قومى، فقلت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم! رد الجىش، فأنا لك بإسلامھم وطاعتھم، قال: افعل. فكتب إلیھم، فأتى وفد منھم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بإسلامھم وطاعتھم، فقال: یا أخا صداء! إنك لمطاع فى قومك. قلت: بل ھداھم اللّٰه وأحسن إلیھم قال: أفلا أؤمرك علیھم؟ قلت: بلى، فأمرنى علیھم، فكتب لى بذلك كتابا، وسألته من صدقاتھم، ففعل، وكان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یومئذ فى بعض أسفاره، فنزل منزلا فأعرسنا من أول اللیل، فلزمته وجعل أصحابه ینقطعون حتى لم یبق معه رجل منھم غیرى، فلما تحین الصبح أمرنى فأذنت، ثم قال لى: یا أخا صداء! معك ماء؟ قلت: نعم! قلیل لا یكفیك. قال: صبه فى الإناء ثم ائتنى به. فأتیته، فأدخل یده فیه، فرأیت بین كل إصبعین من أصابعه عینا تفور قال: یا أخا صداء! لولا أنى أستحىى من ربى لسقینا واستقینا، ناد فى الناس من كان یرید الوضوء. قال: فاغترف من اغترف، وجاء بلال لیقیم، فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: إن أخا صداء أذن، ومن أذن فھو یقیم…الخ.14
راوی (زیادبن الحارث الصدائی)فرماتے ہیں: میں نبی کریم sym-1کے پاس آیا اور میں نے آپ sym-1سے بیعت کی۔پھر مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ sym-1میری قوم کی طرف ایک لشکر بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول sym-1! لشکر کو واپس فرما دیں میں اپنی قوم کے اسلام اور فرما نبرداری کی آپ sym-1سے ضمانت لیتا ہوں۔ آپ sym-1نے فرمایا: ٹھیک ہے ایسا کرلو۔ آپ sym-1نے قوم کی طرف ایک خط لکھا (کچھ عرصہ بعد ) اس قوم میں سے ایک وفد نبی کریم sym-1کی خدمت میں مسلمان ہوکر فرمانبرداری کے ساتھ حاضر ہوا حضور نبی کریم sym-1نے ارشاد فرمایا: اے صداء 15کے رہنے والے تم اپنی قوم کے پیشوا ہو (کہ ان سب نے تمہاری بات مان لی) تو میں نے عرض کی :نہیں! بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو ہدایت عطا فرمائی ہے اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ فرمایا ہے۔ آپ sym-1نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں ان سب کا امیر نہ بنادوں؟ تو میں نے عرض کی: ٹھیک ہے ۔پھر آپ sym-1نے مجھے ان سب کا امیر بنا دیا اور اس حوالے سے مجھے ایک خط بھی لکھوا کر عنایت فرمایا ۔میں نے ان سب کے صدقات کے بارے میں بھی آپ sym-1سے دریافت کیا تو آپsym-1نے جواب عطا فرما دیا ۔اس دوران نبی کریم sym-1اپنے کسی سفر میں تھے تو آپ sym-1نے ایک مقام پر پڑاؤ فرمایا اور رات کے ابتدائی حصہ میں آپ sym-1نے آرام فرمایا تو میں آپ sym-1کے ساتھ ہی رہا ۔آپ sym-1کے صحابہ جدا ہوتے رہے یہاں تک کہ آپ sym-1کے ساتھ میرے علاوہ کوئی باقی نہیں رہا ۔پس جب صبح کا وقت نمودار ہوا تو مجھے آپ sym-1نے اذان کا حکم دیا تو میں نے اذان دی۔ پھر آپ sym-1نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے صداء کے رہنے والے کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے عرض کی: ہے! لیکن آپ sym-1کے لیے ناکافی ہے۔ آپ sym-1نے فرمایا: اسی تھوڑے پانی کو کسی برتن میں ڈال کر میرے پاس لے آؤ۔ میں نے ایسا کیا اور آپ sym-1 کے پاس آیا تو آپ sym-1نے اس برتن میں اپنا ہاتھ داخل فرمایا۔ میں نے آپ sym-1کی انگلیوں میں سے ہر دو انگلیوں کے درمیان ایک چشمہ پھوٹتا ہوا دیکھا ۔ آپ sym-1نے ارشاد فرمایا: اے صداء کے رہنے والے اگر مجھے اپنے رب سے حیا ء نہ ہوتی تو ہم ضرور سیراب رہتے اور دوسروں کو سیراب کرتے (لیکن میں حکم ربی کا فرمانبردار ہوں) لوگوں میں اعلان کردو کہ جو وضو کرنا چاہے(تو آکر کرلے)۔روای کہتے ہیں: جس جس نے بھی چاہا وضو کرلیا اور پھر حضرت بلال sym-5آگے بڑھے تاکہ اقامت کہیں، نبی کریم sym-1نے ارشاد فرمایا : بے شک صداء کے رہنے والے نے اذان دی ہے وہی اقامت کہےجس نے اذان دی۔۔۔الخ’’

ایک مشکیزہ اور پوری جماعت

حضرت ابن عباس sym-8 بیان کرتے ہیں:

دعا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بلالاً فطلب بلال الماء ثم جآء فقال: لا واللّٰه ما وجدت الماء. فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: فھل من شن؟ فاتاه بشن، فبسط كفه فیه فانبعثت تحت یدیه عین. قال: فكان ابن مسعود یشرب وغیرہ یتوضا.16
حضور sym-1نے حضرت بلال sym-5 کو بلایا۔ حضرت بلال sym-5 پانی ڈھونڈنے گئے۔ پھر آکر عرض کی: اﷲ کی قسم! کہیں پانی نہیں ملا۔ حضور sym-1نے دریافت فرمایا: کیا کوئی مشکیزہ ہے؟ حضرت بلال sym-5 آپ sym-1کے پاس ایک مشکیزہ لے کر آئے۔ حضور sym-1 نے اپناہاتھ اس میں ڈالا تو آپ sym-1کے ہاتھ سے چشمہ جاری ہوگیا۔ راوی بیان کرتے ہیں: حضرت ابن مسعود sym-8 نے اس پانی کو پیا اور دیگر حضرات نے وضو کیا۔ ’’

امام طبرانی sym-4 نے حضرت ابن ابی لیلیٰ انصاری sym-5 سے اسی طرح انگشتان مبارکہ سے پانی جاری ہونے کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے وہ کہتے ہیں :

فرایت الماء ینبع من بین اصابع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى روى القوم وسقوا ركابھم.17
میں نے دیکھا کہ نبی اکرم sym-1کی انگلیوں سے چشمہ جاری ہے یہاں تک کہ پورے لشکر نے سیراب ہوکر پیا اور انہوں نے اپنی سواریوں کو بھی پلایا۔

حضرت ابو رافع sym-5بیان کرتے ہیں:

خرج مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى سفر فعرسوا فقال: یا قوم! كل رجل یلتمس فى اداوته. فلم یجدوا غیر واحد، فصبه فى اناء ثم قال: توضؤوا. فنظرت الى الماء وھو یفور من بین اصابعه حتى توضأ الركب اجمعون، ثم جمع كفه فما خلتھا الا النطفة التى صبت اول مرة.18
ایک سفر میں وہ رسول اﷲ sym-1کے ساتھ چلے ایک مقام پر رات گزاری تو حضور sym-1نے فرمایا: لوگو! اپنے اپنے برتنوں میں پانی دیکھو۔ بجز ایک آدمی کے کسی کے پاس پانی نہ تھا۔ اسی کا پانی لے کر برتن میں ڈالا پھر فرمایا: لوگو! وضو کرو۔ میں نے دیکھا تو پانی نبی اکرم sym-1کی انگشت ہائے مبارکہ سے ابل رہا تھا، حتیٰ کہ پورے قافلے نے اس سے وضو کیا۔ پھر حضور sym-1نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا تو وہ اتنا ہی رہ گیا جتنا پہلی دفعہ حضور sym-1نے برتن میں ڈالا تھا۔ ’’

ایک انگشت مبارکہ کا اعجاز

حضرت ابو عمرو انصاری sym-5نے بیان فرمایا:

كنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى غزوة غزاھا واصابت الناس مخصمة ثم دعا بركوة فوضعت بین یدیه ثم دعا بماء فصبه فیھا ثم مج فیھا وتكلم بماء شاء اللّٰه ان یتكلم ثم ادخل خنصره فیھا. فاقسم باللّٰه! لقد رایت اصابع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تتفجر بینابیع الماء ثم امر الناس فشربوا وسقوا وملاوا قربھم واداویھم، فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذه ثم قال : اشھد ان لا اله الا اللّٰه وان محمداً عبده ورسوله. لا یلقى اللّٰه بھما احد یوم القیامة الا دخل الجنة.19
ہم ایک جنگ میں رسول اﷲ sym-1کے ساتھ شریک تھے۔ لوگوں کو شدید بھوک اور پیاس محسوس ہوئی تو حضور sym-1نے چمڑے کا ایک برتن منگوا کر سامنے رکھا پھر اس میں پانی کی کلی فرمائی اور کچھ پڑھا بعد ازاں حضور sym-1نے اس میں اپنی چھوٹی انگلی ڈالی۔ میں حلفاً کہتا ہوں : میں نے حضور sym-1کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے نکلتے دیکھے۔ حضور sym-1نے لوگوں کو حکم دیا : پانی پی لیں نیز اپنے مشکیزوں میں بھر لیں۔ لوگوں نے حکم کی تعمیل کی۔ حضور sym-1یہ معجزانہ منظر دیکھ کر مسکرا پڑے یہاں تک کہ حضور sym-1کی مبارک داڑھیں نظر آنے لگیں۔ حضور نبی اکرم sym-1نے فرمایا: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ. جو آدمی ان دو شہادتوں کے ساتھ اﷲ سے ملے گا اﷲ قیامت کے دن اسے جنت میں داخل کرے گا۔

حبان بن بحsym-5 بیان کرتے ہیں:

اسلم قومى فاخبرت ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جھز الیھم جیشا فاتیته فقلت له: ان قومى على الاسلام. فقال: كذلك؟ قلت: نعم. قال: فاتبعته لیلتى الى الصباح فاذنت بالصلاة لما اصبحت واعطانى اناء فتوضات فیه فجعل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اصابعه فى الاناء فانفجر عیونا قال: من اراد منكم ان یتوضا فلیتوضا.20
میری قوم نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ مجھے اطلاع ملی کہ حضور sym-1نے میری قوم کی طرف ایک لشکر روانہ فرماناہے تو میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اﷲ sym-1! میری قوم مسلمان ہے۔ حضور sym-1نے فرمایا:ایسا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ پھر میں صبح تک حضور sym-1کے ساتھ رہا۔ صبح ہوئی تو میں نے اذان کہی۔ حضور sym-1نے مجھے ایک برتن عطا فرمایا تاکہ وضو کروں۔ حضور sym-1نے اس برتن میں اپنی انگلیاں ڈالیں جن سے چشمے بہہ پڑے۔ حضور sym-1نے اعلان فرمایا: جو وضو کرنا چاہے وضو کرے۔

انگشتِ مبارکہ سے چاند کا چلنا

حضور sym-1کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلبsym-8 نے فرمایا:

یا رسول اللّٰه دعانى الى الدخول فى دینك امارة لنبوتك رایتك فى المھد تناغى القمر وتشیر الیه باصبعك فحیث اشرت الیه مال.قال: انى كنت احدثه ویحدثنى ویلھینى عن البكاء واسمع وجبته حین یسجد تحت العرش.21
یا رسول اﷲ sym-1! مجھے تو آپ sym-1کی نبوت کی نشانیوں نے آپ sym-1کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی، میں نے دیکھا کہ آپ sym-1گہوارے میں چاند سے باتیں کرتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند جھک جاتا تھا۔ حضورنبی کریم sym-1نے فرمایا: میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آواز کو سنا کرتا تھا۔

حضور sym-1نے فرمایا کہ میں چاند کے زیر عرش سجدہ کرنے کے دھماکے کو سنتا ہوں۔

چاند دوپارہ ہوگیا

حضور sym-1کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ ہے جسے ’’شق القمر‘‘ کہتے ہیں، صحابہ کرام sym-7اور تابعین رحمہم اللّٰه کی ایک جماعت سے صحیح احادیث مبارکہ میں اس معجزہ عظیمہ کا بیان سلف سے خلف تک مشہور ہے۔

کفار مکہ آپ کو (معاذاﷲ) جادو گر کہتے تھے جب انہیں علم ہوا کہ جادو کا اثر اجرام فلکی پر نہیں ہوسکتا تو وہ حضور sym-1کی خدمت میں آگئے اور نبوت پر نشانی طلب کی آپ نے فرمایا تم کیا چاہتے ہو؟ ابو جہل نے کہا اگر تم چاند کے دو ٹکڑے کردو تو ہم آپ کو نبی تسلیم کرلیں گے۔

فاشار النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بسبابته الى القمر فانشق القمر.22
آپ sym-1نے اپنی مبارک انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو چاند دوٹکڑے ہوگیا۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی sym-4لکھتے ہیں:

چاند پھٹنے کا وہ قصہ ہے جو خرپوتی sym-4نے شرح قصیدہ بردہ میں نقل فرمایاکہ ابو جہل نے والی یمن حبیب ابن مالک کو لکھا، کہ تیرا دین مٹایا جارہا ہے جلد آ، حبیب یہ پیغام پاکر فوراً مکہ مکرمہ آیا، ابو جہل نے حضور sym-9 کے متعلق بہت سی غلط باتیں کہیں، ابو جہل کا مقصد یہ تھا کہ حبیب کا اہل مکہ پر اچھا اثر ہے، یہ لوگوں کو سمجھا دے، کہ یہ دین قبول نہ کریں، حبیب نے کہا دونوں فریق کی گفتگو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے، میں چاہتا ہوں، کہ حضورsym-9 کا بھی کلام سن لوں، حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میں یمن سے آیا ہوں اور دیدار کرنا چاہتا ہوں۔

حضور sym-9مع صدیق اکبرsym-5 اس مجلس میں تشریف لے گئے، جب پہنچے، تو تمام مجلس میں ہیبت چھاگئی، اور کسی کو کچھ عرض کرنے کی ہمت نہ ہوئی ، آخر حضورsym-9 نے خود ہی دریافت فرمایا، کہ تم کیا دریافت کرنا چاہتے ہو؟ حبیب نے ہمت کرکے عرض کیا، کہ حضور نے دعویٰ نبوت فرمایا، اور نبوت کے لیے معجزہ ضروری ہے، فرمایا جو تو کہے وہ معجزہ دکھایا جائے، عرض کیا کہ میں تو آسمان کا معجزہ چاہتا ہوں، پھر یہ پوچھنا چاہتا ہوں، کہ میرے قلب میں تمنا کیا ہے؟ فرمایا چل! کوہ صفا پر تشریف لے جاکر پورے چاند کو اشارہ کیا، چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، یہاں تک کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک دوسری طرف۔

پھر فرمایا کہ اے حبیب! دوسری بات بھی سن! تیری ایک لڑکی ہے ہمیشہ بیمار رہتی ہے، ہاتھ پاؤں سے معذور ہے، تو چاہتا ہے کہ اس کو شفا ہوجائے، اس کو بھی شفا ہوئی، یہ سنتے ہی حبیب بے اختیار اٹھے :

لَآ اِلٰه اِلَّااللّٰه مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه.

جب گھر پہنچے، تو رات کا وقت تھا، دروازے پر آواز دی، وہ معذور لڑکی جو زمین سے اٹھ نہ سکتی تھی اٹھ کر آئی اور دروازہ کھولا، باپ کو دیکھ کر پڑھنے لگی:

لَآ اِلٰه اِلَّااللّٰه مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه.23

حبیب نے پوچھا کہ بیٹی! تو نے یہ کلمہ کہاں سے سنا؟ تو کہنے لگی:

میں نے خواب میں ایک چاند سی صورت والے کو دیکھا، جو فرماتے ہیں، کہ بیٹی تیرے باپ تو مکہ میں آکر مسلمان ہوئے، اور تو یہاں کلمہ پڑھ لے، تو تجھ کو ابھی شفا ہوجائے، میں جو صبح کو اٹھی، تو کلمہ زبان پر جاری تھا، اور ہاتھ پاؤں سلامت تھے۔

اس واقعہ کو علامہ عمر بن احمد خرپوتی sym-4نے قصیدہ بردہ کی شرح میں نقل کیا ہے:24

بنی احمس کےسوار

حضرت جریر sym-5 فرماتے ہیں:

قال لى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم: الا تریحنى من ذى الخلصة؟ وكان بیتا فى خثعم یسمى الكعبة الیمانیة فانطلقت فى خمسین ومائة فارس من احمس وكانوا اصحاب خیل وكنت لا اثبت على الخیل فضرب فى صدرى حتى رایت اثر اصابعه فى صدرى وقال: اللّٰھم ثبته واجعله ھادیا مھدیا. فانطلق الیھا فكسرھا وحرقھا ثم بعث الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال رسول جریر: والذى بعثك بالحق ما جئتك حتى تركتھا كانھا جمل اجرب. قال: فبارك فى خیل احمس ورجالھا خمس مرات. 25
حضور نبی کریم sym-1نے فرمایا: کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاتے؟ ذوالخلصہ قبیلہ خثعم میں ایک مکان تھا جو کعبہ یمانیہ سے موسوم تھا۔ حضرت جریر بن عبداﷲ بجلی نے کہا: میں قبیلہ احمس کے ایک سو پچاس سواروں کو لے کر گیا۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور میں گھوڑے پر نہیں ٹھہرسکتا تھا۔ حضور نبی کریم sym-1نے میرے سینہ پر اپنا دست ِاقدس مارا حتیٰ کہ آپ sym-1کے انگلیوں مبارکہ کے نشان میں نے اپنے سینہ میں دیکھے۔اور فرمایا: اے اﷲ! اس کو گھوڑے پر ثابت رکھ اور اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ کر۔ حضرت جریر بن عبداﷲ نے کہا:میں کعبہ یمانیہ کی طرف چل دیا اور اس کو توڑدیا اور جلادیا۔ پھر حضرت جریر نے رسول اﷲ sym-1کی خدمت میں قاصد بھیجا۔ اس نے عرض کیا :اس ذات کی قسم جس نے آپ sym-1کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں آپ sym-1کے پاس اس وقت آیا ہوں گویا کہ میں اس ذوالخلصہ کوخارشی اونٹ کی طرح چھوڑ کر آیا ہوں۔( یعنی جیسے خارشی اونٹ بوجہ خارش سیاہ ہوجاتا کعبہ یمانیہ بھی جل کر اس طرح ہوگیا ہے۔) حضرت جریر نے کہا: آپsym-1نے قبیلہ احمس کے سواروں اور پیادوں کے لیے پانچ مرتبہ برکت کی دعا فرمائی۔

امام احمدsym-4 کی روایت میں ہے:

فضرب فى صدرى حتى رایت اثر اصابعه فى صدرى.26
حضور نبی کریم sym-1نے میرے سینہ پر اپنا دست اقدس مارا حتیٰ کہ آپ sym-1کی انگلیوں مبارکہ کے نشان میں نے اپنے سینہ میں دیکھے۔

حضور اکرم sym-1کی انگشتِ مبارک بھی منبع فیوض و برکات تھیں اسی لیے ان سے آپ sym-1کی پوری زندگی میں معجزات کا ظہور ہوتا رہا۔ آپ نے انگشتانِ مبارک سے پاک و صاف پانی کے ایسے چشمے جاری فرمائے کہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں صحابہ اس سے سیراب ہوئے پتھروں سے پانی نکلنا اگرنقلاً و عقلاً قبول کیا جاسکتا ہے تو سید دو عالم sym-1کی انگشتانِ مبارک سے پانی نکلنا بھی کسی صاحب عقل و خرد کے لیے عجیب بات ہرگز نہیں ہوسکتی حضور sym-1کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقsym-5 کی انگشتانِ مبارک میں پکڑے قلم سے دریائے نیل جیسے عظیم الشان دریا کو جاری ہونے کا باذنِ الٰہی حکم دے سکتے ہیں تو حضور sym-1کے لیے اپنی انگشتانِ مبارک کی حرکت سے پانی کا ظہور اور اجراء کیا مشکل تھا آپ کی انگشتِ مبارک کے اشارے سے چاند کا ٹکڑے ہونا یا بچپن میں چاند کا آپ sym-1انگلشتانِ مبارک کی حرکت کے ساتھ حرکت کرنا آج اکیسویں صدی کے انسان کے لیے سمجھنا بہت آسان ہے (Remote Control Technology) نے ہر چیز کو ہاتھ سے کھولنے اور بند کرنے کے (Manual) تصور کو اذکارِ رفتہ بنا دیا ہے۔ کھلونوں (Toys) سے لیکر T.V/ A.C/Bulb/ پنکھے ، گاڑیاں ، ہوائی جہاز، گھروں ، دفتروں کے دروازے وغیرہ (Remote Control) سے کھلنے اور بند ہونے کا منظر آج تقریباً ہر شخص اپنی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے۔ لیکن اب سائنس نے مزید ترقی کرکے خلا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں میل کے فاصلوں پر بھیجے گئے مصنوعی سیاروں کو زمین کے خلائی مراکز سے کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سیاروں میں واقع ہونے والی تکنیکی خرابیوں کو زمین پر بیٹھے بیٹھے صحیح کردیا جاتا ہے۔ اگرآج کا انسان اپنی بنائی ہوئی اشیاء کو ہزاروں بلکہ لاکھوں میل کے فاصلے سے حرکت دے سکتا ، چلاسکتا، چڑھا سکتا ہے ، اتار سکتا ہے، تو اللہ کے بنائے ہوئے سیاروں کو ربِ حقیقی کے سب سے بڑے نبی و پیغمبر اپنی انگشت ِ مبارک سے کیوں حرکت نہیں دے سکتے۔ اس میں آخر حیرانگی کی کون سی بات ہے ! آج ویسے بھی انگوٹھے (Thumb) کے ذریعے ہر قفل کھلتا ہے اور مردہ مصنوعات میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ آقائے کریم sym-1کی انگشتِ مبارک کی حرکت سے اگر اللہ کی رحمت کے خزانے پانی کی شکل میں جاری ہوگئے یا چشمے پھوٹ پڑے تو کون سی انہونی بات ہوگئی۔ الغرض انگشتان مبارک کا یہ وہ اعجاز تھا جو خود آپ sym-1 کے معجزات میں ایک چھوٹا سا معجزہ تھا۔ جبکہ آپ (صلی اللہ ) کی انگشتِ شہادت نے چاند جیسے دور سیّارے کو دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا۔ حضور sym-1معجزہ شق القمر (چاند کا دو ٹکڑے ہونا) یہ وہ معجزہ ہے جسے آپ sym-1نےچاندنی رات میں کفار مکہ کے اصرار پر کھلی آنکھوں سے لوگوں کو دکھایا اور پھر اس پر شہادت طلب فرمائی ۔ بیرون عرب سے بھی مسافروں اور تاجروں نے اس رات اس واقعے کی تصدیق کی تھی اور تو اور ہندوستان کے مہاراجہ ’’الیباء‘‘ نے بہ چشم خود یہ نظارہ دیکھا اور اپنے روزنامچہ میں لکھوا کراسے دستاویز بنادیا۔ (ہندوستان کی معروف اور مستند تاریخ کی کتاب ‘‘تاریخِ فرشتہ’’ میں اس کا ذکر بتفصیل موجود ہے ۔واضح رہے مذکورہ راجہ اسی بنا پر مسلمان ہوگیا تھا۔


  • 1  أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:53
  • 2  امام عبدالرحمن ابن جوزی، الوفا باحوال مصطفیٰﷺ (مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ: حامد کمپنی، لاہور، باکستان، 2002 ء ،ص:453
  • 3  القرآن، البقرہ2: 60
  • 4  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 200، مطبوعۃ: دار السلام، ص :39
  • 5  ایضاً، ص :340
  • 6  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 3576، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان، 2005ء، ص :875
  • 7  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 1856، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص: 834-835
  • 8  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث : 5639 ،مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان ، 2005ء، ص :1442
  • 9  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:2753، ج -3، مطبوعۃ: مکتبۃ المعارف الریاض، السعودیۃ، 1985ء، ص :353-354
  • 10  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن دارمی المقدمۃ، حدیث:27، ج -1، مطبوعۃ:دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ، ص :27
  • 11  ایضاً، ص:28
  • 12  ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی، سنن النسائی، حدیث: 77، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :16
  • 13  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :69
  • 14  حافظ ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر، حدیث: 5285، ج- 5، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم الموصل، 1983ء، ص :262
  • 15  صُداء( صاد کی پیش کے ساتھ) ملکِ یمن میں ایک محلے کا نام ہے جہاں مذکورہ بالا حدیث کے راوی حضرت زیاد بن الحارث رہتے تھے ۔(ابوالحسن علی بن عزالدین الشھیر بابن الاثیرالجزری،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ج-2، مطبوعہ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:332)
  • 16  عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن دارمی المقدمۃ، حدیث :25، ج- 1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ، ص:26
  • 17  ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر ، حدیث: 6420، ج -7، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم الموصل، 1983ء، ص: 76
  • 18  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ،ص: 70
  • 19  ایضاً، ص :71
  • 20  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :75-76
  • 21  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 41
  • 22  مفتی محمد خان قادری، شاہکارِ ربوبیت ،مطبوعہ: کاروان اسلام پبلی کیشنز ،لاہور، پاکستان، 2005ء، ص :327
  • 23  مفتی احمد یار خان نعیمی، شانِ حبیب الرحمن ،مطبوعہ: مکتبہ اسلامیہ ، لاہور،پاکستان، 1391ھ،ص :243-244
  • 24  عمر بن احمد خرپوتی، عصیدۃ الشھدۃ شرح قصیدۃ البردۃ ،مطبوعہ: نور محمد کتب خانہ ،کراچی،پاکستان،( سن اشاعت ندارد)، ص: 133-134
  • 25  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3020، ج -4، مطبوعۃ: دمشق، سوریا، 1422ھ،ص :62
  • 26  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث :19204، ج-31، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :539

Powered by Netsol Online