حضور پر وحی کے نزول کے حوالہ سے اہلِ ایمان کو کبھی کوئی شک یا وہم پیدا نہیں ہوا ہے البتہ غیر مسلمین اس حوالہ سے اپنا بالکل جداگانہ مؤقف رکھتے ہیں جس کا مطالعہ ایک عام قاری کو اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ انہوں نے کبھی تعصبات سے بالاتر ہوکر حضور کی نبوت و رسالت اور آپ پر نازل ہونے والی وحی کو سنجیدہ طور پر سمجھنے اور جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اسی لیے وہ آپ کے لیے امکانِ وحی رد کرکے آپ پر نازل ہونے والی وحی کو خود آپ کی وضع کی ہوئی باتیں اور کلام سمجھتے ہیں۔ حالانکہ عقل و نقل کی بنیاد پر اگر متوسط ذہن کا فرد بھی حضور پر نازل ہونے والی وحی کی حقیقت کو سمجھنا اور جاننا چاہے تو درج ذیل دلائل سے اس کی تسلی و تشفی بآسانی ہو سکتی ہے۔
(1) حضور کے لیے وحی الٰہی کی صداقت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ وحی کے ذریعے آپ پر نازل شدہ کلام قرآن مجید اپنے زبان و بیان، فصاحت و بلاغت اور معانی و مفاہیم میں ایسا معجزہ ہے کہ جب سے اس کا نزول ہواہے، روئے زمین کے تمام اہل علم و قلم اور ادباء و شعراء کے لیے آج پندرہ سو سال گزر جانے کے باوجود چیلنج کے طور پر یہ کلام موجود ہے کہ وہ اس کی مثل کوئی ادبی شہ پارہ تخلیق کریں لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود آج تک کوئی ایک مثال ایسی نہیں ملتی ہے اور نہ دی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا ہو ہر دور کے اچھے ادباء اور شعراء کے بعد آنے والے ادوار میں ان سے زیادہ اچھے ادباء و شعراء آکر اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ جاتے ہیں۔ لیکن قرآن کریم کے بارے میں کسی ادیب، شاعر یا نثر نگار کو یہ ہمت و جرأت آج تک نہیں ہوپائی ہے کہ وہ اس کے مقابلہ میں کوئی کلام پیش کرسکے۔
(2)حضور کی شخصیت کا ذاتی پہلو بھی آپ پر وحی کے نزول کے ہر ممکن امکان کے لیے دلیل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبل از نبوت و رسالت آپ پورے عرب معاشرے میں صادق اور امین کے طور جانے پہنچانے جاتے تھے، لہذا وہ شخص جو ذاتی، مالی و مادّی، منصبی اور خاندانی مفادات کی خاطر بھی ہر قسم کی کذب بیانی و دروغ گوئی سے مکمل اجتناب کرتا ہو، اس سے اس بات کی معمولی توقع کرنا بھی عبث ہے کہ وہ اللہ کی طرف کسی جھوٹ یا غلط بات کی نسبت کرے۔ جو شخص اپنے سیرت و کردار اور اخلاق و آداب زندگی میں اعلیٰ انسانی اقدار کی جامع ترین مثال ہو اس سے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ اعلیٰ کائناتی حقائق کے بارے میں کسی کو راہِ حق پر گامزن کرنے کے بجائے گمراہ کرے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ حضور کو آخر ایسی کیا ضرورت پڑگئی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھوٹ کی نسبت کرتے۔ اس لئے کوئی شخص اگر حضور کے بارے میں اس طرح کی منفی اور غیر حقیقی سوچ رکھتا ہو تو یہ ایک طرف صریح ظلم و زیادتی والی بات ہے جبکہ دوسری طرف غیر مہذب اور غیر شائستہ رویہ بھی ہے جس کو اختیار کرنے کی کوئی وجہ سرے سے نہیں ہے۔ لہذا حضور کے دعویٰ وحی کے حوالہ سے ایسے شخص کو اپنے ذہنی و فکری رویہ کے بارے میں از سرِنو جائزہ لینے کی شدید ضرورت ہے۔
(3)حضور اپنے مقصد کے حوالے سے اتنے پُرعزم اور مضبوط تھے کہ آپ نے یہ بات برسرِعام فرمائی کہ: اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دو تو بھی میں اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اور یہ صرف آپ کا دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ عملاً آپ نے مادّی لالچ اور مفاد کی ہر کوشش کو اپنے مضبوط عزم و یقین سے ناکام بنادیا تھا۔ آپ کا مقصد سامانِ زندگی، مناصبِ حیات، حصولِ دنیا یا تعیشاتِ زندگی ہرگز نہ تھا، بلکہ آپ نے تو اعلانِ نبوت سے پہلے بھی کبھی مال و زر یا زن اور زمین کے حصول کے لیے کسی ادنیٰ سی خواہش کا اظہار بھی کسی موقع پر نہیں فرمایا۔ اگر ایسا ہوتا تو رؤساء واہلیانِ مکہ جن کے درمیان اعلان نبوت سے قبل آپ نے چالیس برس کا عرصہ گزارا وہ اعلان نبوت کے بعد آپ کو آپ کے سابقہ کسی قول، فعل اور عمل یا کسی چاہت کے اظہار کا طعنہ ضرور دیتے لیکن تمام تر دشمنیوں اور نفرتوں کے باوجود اہل مکہ یا اہل عرب نے آپ کو اس طعنہ دینے کی کبھی جرأت نہیں کی۔ اپنے دعویٰ اور مقصد میں اتنا سچا، مضبوط اورمخلص شخص وہی ہو سکتا ہے جس کی بنیاد کسی بہت بڑی سچائی اور حقیقت پر مبنی ہو۔ حضور کے پاس یہ حقیقت اور سچ خود آپ کی نبوت و رسالت پر فائز ہونے اور اللہ کے کلام یعنی "وحی الٰہی" کے نزول کی صورت میں موجود تھا جس پر ایمان لانے کے لیے آپ نے اپنے دور کے تمام انسانوں سمیت قیامت تک آنے والے انسانوں کو دعوت دی۔
(4)حضور پر نازل ہونے والی وحی کی اس سے بڑی صداقت کی دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ جس وحی کے ذریعہ آپ نے کئی مرتبہ مختلف مواقع پر ایسے اُمور کے بارے میں آگاہی اور مکمل معلومات دیں جن کے بارے میں معلومات اور آگاہی بغیر عملی مشاہدہ اور تجربہ کے ممکن ہی نہ تھی مثلاً سمندروں کے حوالہ سے باریک تفصیلات سے انسانوں کو آگاہ فرمایا ہے حالانکہ نہ تو خود آپ نے کبھی اس کا مشاہدہ و تجربہ فرمایا اور نہ ہی کبھی زندگی میں خود کوئی سفر سمندر کے ذریعے کیا تھا۔ لہذا ان تفاصیل کا حصول اگر آپ کچھ عرب تجربہ کار تاجروں سے سن کرکے اُسے آگے ذکر کرتے تو یقیناً آپ کو اعلان نبوت کے بعد انہی لوگوں کی طرف سے الزام تراشی اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا لیکن آپ کی پوری حیاتِ طیبہ میں ایک بھی شخص ایسا نہیں ملتا جس نے آپ کو جھٹلانے کی خاطر آپ پر اس طرح کا کوئی الزام عائد کیا ہو۔ لہذا سمندروں سے متعلق بعض ایسی تفصیلات جو بیسویں صدی سے قبل تک عام پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ بھی نہیں جانتے تھے ان کے بارے میں آگاہی "وحی الٰہی" کے ماسوا ممکن ہی نہیں تھی جو آپ پر نازل ہونے والی وحی الہی کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
(5)حضور نے بہت ساری ایسی بستیوں کی تاریخ اور حالات بتائے جن کو خود عرب بھی نہیں جانتے تھے اور نہ ہی نبی کریم نے خود کبھی اِن بستیوں کے آثار دیکھے تھے۔ مثلاً وادی اِرم، مدین، قوم ِعاد و ثمود کے مستقر وغیرہ۔ اسی طرح حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسی و عیسی سمیت کئی انبیاء و رسل کی اقوا م کے بارے میں جن تفصیلات سے نبی کریم نے آگاہ فرمایا وہ ماسوا "وحی الٰہی" کے ممکن ہی نہ تھا۔ مثلاً ان اقوام کا ذکر قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ 7 الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ 8 وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ 9وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ 101
(جو اہلِ) اِرم تھے (اور) بڑے بڑے ستونوں (کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے، جن کا مثل (دنیا کے) ملکوں میں (کوئی بھی) پیدا نہیں کیا گیا، اور ثمود (کے ساتھ کیا سلوک ہوا) جنہوں نے وادئ (قری) میں چٹانوں کو کاٹ (کر پتھروں سے سینکڑوں شہروں کو تعمیر کر) ڈالا تھا، اور فرعون (کا کیا حشر ہوا) جو بڑے لشکروں والا (یا لوگوں کو میخوں سے سزا دینے والا) تھا۔
ان اقوام کے حالات اور واقعات کو جس اختصار اور جامعیت کے ساتھ آپ نے آیاتِ طیبات کی صورت میں تذکیر و نصیحت کے لئے بیان کیا وہ اُس وقت تک ممکن ہی نہیں تھا جب تک خود رب کائنات آپ کو آگاہ نہ فرما دیتا۔
انسان جب اپنی تحریر لکھ رہا ہوتا ہے تو اس کا مخاطب براہِ راست اس کی ذات نہیں ہوا کرتی اور اگر کبھی اس طرح کی نوبت آبھی جائے تو اپنی تحریر میں خود اپنی ذات کے لیے حکم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا۔ پوری تاریخِ انسانی کا تحریری اُسلوب اس بات پر گواہ ہے کہ وہ لکھتے ہوئے حکم کے موقع پر صرف دوسروں کو اپنا مخاطب بناتا ہے۔ وحی الٰہی میں کئی مقامات پر لفظ "قل" کا استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے "اے نبی آپ فرما دیجئے"۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ کلام نبی کا اپنا نہیں ہے بلکہ خداوندِعالم آپ سے کوئی خاص بات کہلوانا یا کوئی خاص کام کروانا چاہتا ہے۔ جیسا کہ رب تعالی نے اپنی ذات کی یکتائی حضور کے ذریعہ سے یوں بیان فرمائی:
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ12
(اے نبئ مکرّم !) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:
قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ953
فرما دیں کہ اللہ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اللہ کے ہوگئے تھے۔
(6) کئی مرتبہ آپ پر نازل شدہ وحی میں خود آپ کو اس بات کی تاکید کی گئی کہ آپ اس وحی کی پیروی اور اتباع کریں جو آپ پر نازل کی گئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ1064
آپ اس (قرآن) کی پیروی کیجئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کیا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ وحی کے ذریعہ دیئے گئے احکامات اور پیغامات آپ کی ذات کی طرف سے نہیں تھے بلکہ یہ احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے جس کی پابندی آپ سمیت دوسرے تمام انسانوں کے لیے لازم تھی۔ وحی الٰہی کا یہ اسلوب ایک واضح دلیل ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہے بلکہ رب تعالیٰ کی طرف سے نازل شُدہ پیغام ہدایت ہے۔
(7) آپ پر نازل شدہ وحی الٰہی کے مطابق آپ فرشتہ یا مافوق الفطرت مخلوق نہیں تھے اور نہ ہی آپ خدا کی خدائی میں اس کے ساتھ شریک تھے بلکہ آپ کی حیثیت "عبد" یعنی اللہ کا بندہ اور "انسان کامل" کی ہے۔ آپ کی بشریت کے حوالہ سے ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ...1065
(اے پیکر رعنائی و زیبائی) آپ فرمائیے کہ میں بشر ہی ہوں تمہاری طرح۔ ہاں مجھ پر یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خُدا صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے
اگر وحی کے نام پر آپ خود کلام وضع فرماتے تو اپنی حیثیت اور رتبہ کو بڑھا چڑھا کر پیش فرماتے کیونکہ دوسرے انبیاء کرام کی عظمتوں کو مختلف القابات کے ذریعے بیان کرکے ان کی شان اور رفعت کو بلند کیا گیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ کلام جو وحی الٰہی کی صورت میں آپ کو عطاء ہوا اس میں ایک جملہ بھی آپ کی طرف سے الحاقی نہیں ہے۔
(8) وحی الٰہی از اول تا آخر پڑھتے چلے جائیں تو کہیں پر بھی اللہ تعالیٰ کے اس سچے پیغام میں انسانی فطرت، مزاج، ماحول، ضروریات، مطالبات اور حکمت کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں ملتا اور نہ ہی وحی الٰہی میں مستقل بالذات تضاد اور تناقص نظر آتا ہے حالانکہ انسان مختلف مواقع پر اپنی داخلی کیفیات و حالات کے لحاظ سے مختلف مزاج کا حامل ہوتا ہے۔ کبھی ایک بات اسے بہت بھاتی ہے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہی بات اسے بالکل پسند نہیں آتی، کبھی وہ کسی مسئلہ میں ایک رائے دیتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی رائے سے رُجوع کرلیتا ہے، کبھی وہ ایک فکر پیش کرکے اس کے حق میں دلائل کے انبار لگا دیتا ہے اور پھر کبھی ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اسے اپنی پیش کردہ فکر کے بودے پن پر افسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح قانون سازی کے معاملہ میں جس طرح اِرتقاء ہوتا چلا جاتا ہے، اسی طرح ترمیم و اِضافہ کے نام پر قانون سازی کے پہلے مسودہ کی شکل کچھ عرصہ کے بعد یکسر بدل کر رہ جاتی ہے۔ الغرض ترمیم، اضافہ، تبدیلی، اِرتقاء، تضاد اور تناقص انسانی کلام کے ناگزیر اُوصاف ہیں جن سے وحی الٰہی مبرّا ہے۔ وحی الٰہی میں جہاں نسخ اور تنسیخ کا معاملہ پایا جاتا ہے وہاں اس کی حیثیت کلام کے داخلی تضاد کی نہیں ہے بلکہ انسانی مجبوریوں اور کمزوریوں کے پیش ِنظر، مصلحتاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کے مزاج اور فطرت کی رعایت کو ملحوظِ خاطر رکھ کر تدریجی طور پر یکے بعد دیگرے احکام کو اس طور نازل کرنا تھا کہ اس معاشرہ میں رہنے والے افراد جن بری عادتوں اور غلط رویوں کے خوگر ہو گئے تھے اُن کو ترک کرنا اُن کے لیے ممکن ہوسکے۔ اسی لیے تمام بظاہر سخت احکامات کو تدریج کے اُصول سے گزار کر انسانوں کے لیے ابدی طور پر قابلِ عمل بنادیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وحی الٰہی اب قیامت تک ناقابل تغیر اور ناقابل تنسیخ صورت اختیار کرگئی ہے۔