encyclopedia

ابتداءِ وحی – نزول وحی کی ابتداء اور واقعہ غاز حرا

Published on: 18-Nov-2024
image
LanguagesEnglish

حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کی ابتدا ایک اہم واقعہ ہے جس نے انسانی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔یہ واقعہ نہ صرف حضرت محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی نبوت کی تصدیق کرتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے رہنمائی کا جامع پیغام بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ وحی مسلمانوں کے لیے دین کی بنیاد اور قرآن مجید کی صورت میں رہنمائی کا ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتی ہے جو قیامت تک پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔

رؤیائے صالحہ

جب آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک تقریبا 33 برس ہوئی تو آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا خلوت و تنہائی کی طرف میلان ہونے لگا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس زمانے میں پھیلے ہوئے اخلاقی زوال اور بت پرستی سے بھی مضطرب رہا کرتے تھے۔ لہذا آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تحنث فرمانا شروع کردیا۔ تحنث سے مراد تنہائی و خلوت میں اللہ کو یاد کرنے کے ہیں۔ تقریبا سات سال تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خلوت میں عبادت و ریاضت کے سلسلہ میں غار حراء کا رخ فرمایا کرتے تھے۔ یہ غار مکہ سے میل کے فاصلہ پر جبل النور پر واقع ہے اور اس کی لمبائی تقریباً 4 گز اور چوڑائی 1.75 گز ہے۔جب تحنث فرماتے ہوئے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تقریبا ساڑھے چھ سال ہوگئے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پرسچے خوابوں کی صورت میں وحی الٰہی کا نزول شروع ہوا۔ اس حوالہ سے حضرت عائشہ Radi Allah Anha فرماتی ہیں کہ وہ چیز جس سے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کی ابتداء ہوئی وہ رویائے صالحہ تھے ۔اس سے مراد سچے خواب ہیں یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جو بھی خواب میں دیکھتے وہ سپیدہ سحر کی طرح سامنے آجایاکرتاتھا۔ 1

وحی متلو کا نزول

رویائے صالحہ کے بعد بھی نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے تحنث فرمانا جاری رکھا۔ اس دوران کئی کئی راتوں تک آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مصروف عبادت رہتے تھے اور وہاں قیام کے لئے خوردونوش کا سامان بھی ساتھ لے جاتے تھے۔اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam واپس اپنے گھرحضرت خدیجہRadi Allah Anha کے پاس تشریف لے جاتے اور مزید سامانِ اکل و شرب لے کر غار حراء جاکر تحنث فرماتے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam رمضان المبارک کی ایک شب غار حراء میں مصروفِ عبادت تھے کہ حضرت جبرائیل Alaihis Salam وحی الٰہی لے کر حاضر ہوئے۔ یہ شب قدر کی رات تھی۔ حضرت جبرائیل Alaihis Salam اس وقت انسانی صورت میں بارگاہِ نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں تشریف لائے اورفرمایا: ''اقرأ''،حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پکڑکر اتنے زور سے بھینچا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو تکلیف محسوس ہوئی۔ پھر اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو چھوڑ دیا اور کہا: ''اقرأ''،آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ اس نے پھر تیسری بار آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پکڑا اور اتنی زور سے بھینچا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بہت تکلیف ہوئی، پھر اس نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو چھوڑ دیا 2 اور کہا :

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ1 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ2 اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ3 الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ4 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ53
پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

جب اس بار حضرت جبرائیل Alaihis Salam نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کوچھوڑا اور پڑھنے کے لیے عرض کی تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ الفاظ میرے دل پر لکھے گئے ہیں اور میں ان الفاظ کو پڑھ سکتا ہوں۔پھر جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس کی تلاوت فرمائی تو حضرت جبرائیل Alaihis Salam وہاں سے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بھی غارِ حرا سے باہر تشریف لے آئے اور تیز تیز قدم لیتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگے۔ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہاڑ کے درمیانی حصّے پر پہنچے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو بلندی سے آواز آئی جس میں کہا جارہا تھا: ”اے محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل Alaihis Salam ہوں“۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اپنا چہرۂ مبارک آسمان کی جانب بلند کیا اور جبرائیل Alaihis Salam کو دیکھا جنہوں نے پورے آسمان کو گھیرا ہوا تھا۔حضرت جبرائیل Alaihis Salam نے دوبارہ وہی الفاظ دہرائے: ”اے محمد(Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل Alaihis Salam ہوں“۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کچھ دیر انہیں ملاحظہ فرماتے رہے پھر اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ایک جانب ہوئے لیکن جہاں کہیں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اپنی نظرِ مبارک پھیرتے وہیں جبرائیل Alaihis Salam کو موجود پاتے۔ پھر حضرت جبرائیل Alaihis Salam تشریف لے گئے اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہاڑ سے نیچے گھر کی جانب قدم بڑھانے لگےاور اس حال میں گھر پہنچے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا قلب مبارک تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ گھر پہنچ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کے پاس گئے اورفرمایا زملوني زملوني یعنی مجھے چادر اڑھاؤ، مجھے چادر اڑھاؤ۔ جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر نزول وحی کے واقعہ کا اثر کچھ کم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کو تمام صورتحال سے آگاہ فرمایا۔

نزول وحی کا عرصہ

جب حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی عمر مبارک چالیس سال ہوگئی تو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر پہلی وحی کا نزول ہوا۔ جبریل Alaihis Salam قرآن مجید کی "سورۃالعلق" کی ابتدائی پانچ آیات لے کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس غار حراء میں تشریف لائے۔ اس کے بعدبتدریج ۲۳ سال یعنی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آخری عمر تک وحی الٰہی کے نزول کا سلسلہ جاری رہاجس کی مجموعی مدت تقریباً بائیس سال پانچ ماہ اور چودہ دن (٢٢سال ٥ماہ اور١٤دن )بنتی ہے۔

وحی کا متن

تقریبا 23 سال کے عرصہ میں قرآن مجید کے نزول کی کیفیت یہ رہی کہ کبھی ایک چھوٹی آیت یا کبھی آیت کا ایک جز و نازل ہوتا اور کبھی کئی کئی آیات اور پوری پوری سورۃ بیک وقت نازل ہوجاتیں ۔ سب سے چھوٹا حصہ قرآن مجید میں جو نازل ہوا وہ غیر اولی الضرر ہے(یعنی بغیر کسی عذر/تکلیف کے)۔ یہ ایک طویل آیت کا جزء ہےجبکہ دوسری طرف "سورۃالانعام" مکمل ایک ہی وقت میں نازل ہوئی جو165آیات پر مشتمل ہے۔

امام بخاری Rehmatullah Alaih نے اُم المومنین حضرت عائشہ Radi Allah Anha سے نزول وحی کےحوالہ سے روایت بیان کی ہے کہ سب سے پہلے وہ مفصل سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت و جہنم کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگوں کے قلوب میں اسلام نے گھر کر لیا تو حلال و حرام کے مسائل و احکام نازل ہوئے ورنہ اگر ابتداء ہی میں یہ حکم نازل کر دیا جاتا کہ شراب پینے سے رک جاؤ تو لوگ کہتے کہ ہم تو کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر حکم ہوتا کہ زنا کرنے سے باز آجاؤ تو لوگ کہہ دیتے کہ ہم زنا ترک نہیں کرسکتے۔ 4

سب سے پہلی وحی سورۃ علق کی ابتدائی آیات تھی اور سب سے آخری وحی سورۃ بقرۃ کی درج ذیل آیت تھی:

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ 2815
اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر نفس کو پورا پورا دیا جائے گا جو اس نے کمائی کی اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے۔

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اکیاسی (81) دن حیات رہے اور پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا وصال ہوگیا۔

فترۃالوحی کا زمانہ

پہلی وحی نازل ہونے کے بعد دوسری وحی نازل ہونے کے درمیان کچھ وقفہ آیا جس کو علمِ حدیث کی اصطلاح میں "فترۃ الوحی" کہا جاتا ہے۔ اس وقفہ سے متعلق مؤرخین و محدّثین نے مختلف اقوال اور وجوہات بیان کی ہیں۔ امام عبد الرحمٰن ابن عبداللہ سہیلی Rehmatullah Alaih نے ڈھائی سال کا وقفہ بیان کیا ہے۔امام صالحی الشامی نے ابن عباس، ابن سعد اور امام البیھقی کو نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پہلی اور دوسری وحی کے درمیان چالیس (40) روز کا وقفہ تھا جبکہ ابن جوزی، امام فرّا اور امام زجاج نے کہاہے کہ یہ وقفہ پندرہ (15) دنوں کا تھا جو زیادہ قرین قیاس ہے۔

وہ مؤرخین جنہوں نے نزول وحی کا درمیانی وقفہ دو سے تین سال لکھا ہے وہ اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے صبر و استقلال کا امتحان تھا ۔ جن کے نزدیک وقفہ دس سے پندرہ ایام پر مشتمل تھا ان کاکہنا یہ ہے کہ یہ وقفہ اس لیے دیا گیا تاکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ظاہری طور پر دوسری وحی کے نزول کے لیے تیار ہوجائیں۔ مزید یہ کہ وقفہ سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حضرت جبرائیل Alaihis Salam حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس تشریف نہیں لاتے تھےبلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ اس وقفہ میں قرآن نازل نہیں ہوتا تھا اور ایک قول کے مطابق اس دوران میں حضرتِ اسرافیل Alaihis Salam آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس باکثرت تشریف لاتے اور مختلف امور میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی مدد اور رہنمائی فرمایا کرتے تھے ۔

دوسری وحی

دوسری وحی کے متعلق کئی اقوال بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں دوسری وحی "سورۃ الضحٰی" تھی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ "سورۃ القلم" تھی لیکن اہل ِعلم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ دوسری وحی "سورۃ المدثر" کی ان آیات پر مشتمل تھی:

يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ 1 قُمْ فَأَنْذِرْ 2 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ 3 وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ 4 وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ 56
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!) اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں اور اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں اور (حسبِ سابق گناہوں اور) بتوں سے الگ رہیں ۔

مقامات نزول ِوحی

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کا نزول بنیادی طور پر تین شہروں کے مختلف مقامات پر ہوا۔وہ علاقے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام /فلسطین ہیں۔ یہاں شام سے مراد "بیت المقدس "ہے جبکہ علامہ ابن کثیر کے مطابق شام سے مراد "تبوک" ہے اور یہ زیادہ بہتر ہے۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ تبوک عہد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں شام کی حدود میں داخل تھا۔اسی طرح مکہ مکرمہ سے مراد داخل شہر مکہ کے ساتھ ساتھ اس کے قرب و جوار یعنی منیٰ ،عرفات،حدیبیہ وغیرہ کے علاقے ہیں۔جبکہ مدینہ منورہ سے مراد بدر ،اُحد ،جبل سلع اور اس کے دائیں بائیں کے علاقےہیں۔ 7

مکہ مکرمہ میں نزول وحی کے مقامات

مکہ مکرمہ کے جن مقامات پرحضرت جبرائیل Alaihis Salam وحی لےکر تشریف فرما ہوئے اُن میں غار حرا ء،حضرت خدیجہ Radi Allah Anha کا گھر، کوہِ صفا، بطحاء مکہ، مسجد الحرام کا صحن،قریش کی مجلس، کعبۃ اللہ کا جوار، طائف، قرنِ منازل، مسجد الجن، مسجدالشجرہ، حضرت ِ اُم ہانی Radi Allah Anha کا گھر، بیت اللہ کے سامنے، کعبہ اور رکن عراقی کے درمیان، مقام معجن میں، حجرا سودکے پاس، منیٰ کی گھاٹی میں، ہجرت کی رات، ہجرت کےدوران، جحفہ کے قریب اورکعبہ کے سائے والی جگہیں شامل ہیں۔

مدینہ میں مقاماتِ نزول وحی

مدینہ منورۃ کے مقامات سے مراد مدینہ پاک اور اس کے آس پاس کے علاقہ ہیں۔ یہاں نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر قبا میں حضرت ابوایوب انصاری Radi Allah Anho کےگھرمیں، مسجدنبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعمیر کے وقت حجرات مبارکہ میں، حضرت عائشہ Radi Allah Anha کےگھر حتی کےدروازے پر، حضرت اُم سلمہRadi Allah Anha کے گھر میں، مسجد قبلتین میں نماز کے دوران، مسجد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دروازے پر، جنتُ البقیع میں، مدینہ منورہ کےباغوں میں، حرۃ المدینہ(مدینہ کا پتھریلا علاقہ)میں، مسجد سجدہ میں، مسجد الاجابہ میں، استوانہ السریر میں، منبر رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر، منبر رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سیڑیوں پر ، مقام ِذفران میں، بدر کے مقام پر،صفہ کے چبوترہ پر، بسر کے گھر میں، اُم سلیم کے گھر میں، قبا کے راستے میں، اضاءۃ بنی غفار میں، مقام اُحد میں، مقام شیخین میں، حمرا ءالاسد میں، قبیلہ بنو نضیر میں، غزوہ بنو مصطلق میں، مقام بیداء میں، حضرت صدیق اکبر Radi Allah Anho کے گھر میں، مقام خند ق میں، کہف بنی حرام میں، مقام عسفان میں، کراع الغمیم میں، مقام حنین پر، جعرانہ کے مقام پرمشربہ 8 میں، وادی عقیق میں، عرفات کے مقام پر اور مسجد نبوی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں مختلف اوقات میں وحی نازل ہوئی۔

نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر وحی کے نزول کا سلسلہ تقریباً 23 سال تک جاری رہا جس میں نوع انسانی کی دنیوی و اخروی فلاح کا سارا سامان قیامت تک کے لئے مہیا کردیا گیا۔ اس وحی الہی نے انسان کو شرک، لادینیت، الحاد کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی میں لاکر کھڑا کیا اور انسان کو نفس پرستی، خود غرضی کے سبب جانور بننے سے بچایا اور اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کیا۔


  • 1  مناع بن خليل القطان، مباحث في علوم القرآن، مطبوعة: مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، بیروت، لبنان، 2000م، ص: 34
  • 2  أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، صحيح البخاري، حديث: 3، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية،1999م، ص: 1
  • 3  القرآن، سورۃ العلق 96 : 1-5
  • 4  أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري، صحيح البخاري، حديث: 4993، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية،1999م، ص:896
  • 5  القرآن سورۃالبقرة 281:02
  • 6  القرآن، سورۃ المدثر 74: 1-5
  • 7  جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، ج-1، مطبوعہ: الهيئة المصرية العامة للكتاب، مصر، 1974م، ص: 38
  • 8  حضورﷺنے ایک ماہ تک اپنے اہل خانہ سے علیحدہ ہو کر جس بالا خانہ میں رہائش اختیار فرمائی تھی وہ مشربہ کہلاتا تھا۔

Powered by Netsol Online