حضرت محمد پر وحی کی ابتدا ایک اہم واقعہ ہے جس نے انسانی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔یہ واقعہ نہ صرف حضرت محمد کی نبوت کی تصدیق کرتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لیے رہنمائی کا جامع پیغام بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ وحی مسلمانوں کے لیے دین کی بنیاد اور قرآن مجید کی صورت میں رہنمائی کا ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتی ہے جو قیامت تک پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔
جب آپ کی عمر مبارک تقریبا 33 برس ہوئی تو آپ کا خلوت و تنہائی کی طرف میلان ہونے لگا۔ آپ اس زمانے میں پھیلے ہوئے اخلاقی زوال اور بت پرستی سے بھی مضطرب رہا کرتے تھے۔ لہذا آپ نے تحنث فرمانا شروع کردیا۔ تحنث سے مراد تنہائی و خلوت میں اللہ کو یاد کرنے کے ہیں۔ تقریبا سات سال تک آپ خلوت میں عبادت و ریاضت کے سلسلہ میں غار حراء کا رخ فرمایا کرتے تھے۔ یہ غار مکہ سے میل کے فاصلہ پر جبل النور پر واقع ہے اور اس کی لمبائی تقریباً 4 گز اور چوڑائی 1.75 گز ہے۔جب تحنث فرماتے ہوئے آپ کو تقریبا ساڑھے چھ سال ہوگئے تو آپ پرسچے خوابوں کی صورت میں وحی الٰہی کا نزول شروع ہوا۔ اس حوالہ سے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وہ چیز جس سے نبی کریم پر وحی کی ابتداء ہوئی وہ رویائے صالحہ تھے ۔اس سے مراد سچے خواب ہیں یعنی آپ جو بھی خواب میں دیکھتے وہ سپیدہ سحر کی طرح سامنے آجایاکرتاتھا۔ 1
رویائے صالحہ کے بعد بھی نبی اکرم نے تحنث فرمانا جاری رکھا۔ اس دوران کئی کئی راتوں تک آپ مصروف عبادت رہتے تھے اور وہاں قیام کے لئے خوردونوش کا سامان بھی ساتھ لے جاتے تھے۔اس کے بعد آپ واپس اپنے گھرحضرت خدیجہ کے پاس تشریف لے جاتے اور مزید سامانِ اکل و شرب لے کر غار حراء جاکر تحنث فرماتے۔آپ رمضان المبارک کی ایک شب غار حراء میں مصروفِ عبادت تھے کہ حضرت جبرائیل وحی الٰہی لے کر حاضر ہوئے۔ یہ شب قدر کی رات تھی۔ حضرت جبرائیل اس وقت انسانی صورت میں بارگاہِ نبوی میں تشریف لائے اورفرمایا: ''اقرأ''،حضور نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ فرشتے نے آپ کو پکڑکر اتنے زور سے بھینچا کہ آپ کو تکلیف محسوس ہوئی۔ پھر اس نے آپ کو چھوڑ دیا اور کہا: ''اقرأ''،آپ نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ اس نے پھر تیسری بار آپ کو پکڑا اور اتنی زور سے بھینچا کہ آپ کو بہت تکلیف ہوئی، پھر اس نے آپ کو چھوڑ دیا 2 اور کہا :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ1 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ2 اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ3 الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ4 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ53
پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
جب اس بار حضرت جبرائیل نے آپ کوچھوڑا اور پڑھنے کے لیے عرض کی تو حضور نے فرمایا کہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ الفاظ میرے دل پر لکھے گئے ہیں اور میں ان الفاظ کو پڑھ سکتا ہوں۔پھر جب حضور نے اس کی تلاوت فرمائی تو حضرت جبرائیل وہاں سے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حضور بھی غارِ حرا سے باہر تشریف لے آئے اور تیز تیز قدم لیتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگے۔ جب آپ پہاڑ کے درمیانی حصّے پر پہنچے تو آپ کو بلندی سے آواز آئی جس میں کہا جارہا تھا: ”اے محمد()! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں“۔ حضور نے اپنا چہرۂ مبارک آسمان کی جانب بلند کیا اور جبرائیل کو دیکھا جنہوں نے پورے آسمان کو گھیرا ہوا تھا۔حضرت جبرائیل نے دوبارہ وہی الفاظ دہرائے: ”اے محمد()! آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل ہوں“۔ حضور کچھ دیر انہیں ملاحظہ فرماتے رہے پھر اس کے بعد آپ ایک جانب ہوئے لیکن جہاں کہیں بھی آپ اپنی نظرِ مبارک پھیرتے وہیں جبرائیل کو موجود پاتے۔ پھر حضرت جبرائیل تشریف لے گئے اور حضور پہاڑ سے نیچے گھر کی جانب قدم بڑھانے لگےاور اس حال میں گھر پہنچے کہ آپ کا قلب مبارک تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ گھر پہنچ کر آپ حضرت خدیجہ کے پاس گئے اورفرمایا زملوني زملوني یعنی مجھے چادر اڑھاؤ، مجھے چادر اڑھاؤ۔ جب حضور پر نزول وحی کے واقعہ کا اثر کچھ کم ہوا تو آپ نے حضرت خدیجہ کو تمام صورتحال سے آگاہ فرمایا۔
جب حضور کی عمر مبارک چالیس سال ہوگئی تو رمضان المبارک کے آخری عشرے میں آپ پر پہلی وحی کا نزول ہوا۔ جبریل قرآن مجید کی "سورۃالعلق" کی ابتدائی پانچ آیات لے کر آپ کے پاس غار حراء میں تشریف لائے۔ اس کے بعدبتدریج ۲۳ سال یعنی آپ کی آخری عمر تک وحی الٰہی کے نزول کا سلسلہ جاری رہاجس کی مجموعی مدت تقریباً بائیس سال پانچ ماہ اور چودہ دن (٢٢سال ٥ماہ اور١٤دن )بنتی ہے۔
تقریبا 23 سال کے عرصہ میں قرآن مجید کے نزول کی کیفیت یہ رہی کہ کبھی ایک چھوٹی آیت یا کبھی آیت کا ایک جز و نازل ہوتا اور کبھی کئی کئی آیات اور پوری پوری سورۃ بیک وقت نازل ہوجاتیں ۔ سب سے چھوٹا حصہ قرآن مجید میں جو نازل ہوا وہ غیر اولی الضرر ہے(یعنی بغیر کسی عذر/تکلیف کے)۔ یہ ایک طویل آیت کا جزء ہےجبکہ دوسری طرف "سورۃالانعام" مکمل ایک ہی وقت میں نازل ہوئی جو165آیات پر مشتمل ہے۔
امام بخاری نے اُم المومنین حضرت عائشہ سے نزول وحی کےحوالہ سے روایت بیان کی ہے کہ سب سے پہلے وہ مفصل سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت و جہنم کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگوں کے قلوب میں اسلام نے گھر کر لیا تو حلال و حرام کے مسائل و احکام نازل ہوئے ورنہ اگر ابتداء ہی میں یہ حکم نازل کر دیا جاتا کہ شراب پینے سے رک جاؤ تو لوگ کہتے کہ ہم تو کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر حکم ہوتا کہ زنا کرنے سے باز آجاؤ تو لوگ کہہ دیتے کہ ہم زنا ترک نہیں کرسکتے۔ 4
سب سے پہلی وحی سورۃ علق کی ابتدائی آیات تھی اور سب سے آخری وحی سورۃ بقرۃ کی درج ذیل آیت تھی:
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ 281 5
اور ڈرو اس دن سے جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے پھر ہر نفس کو پورا پورا دیا جائے گا جو اس نے کمائی کی اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے۔
اس کے بعد آپ اکیاسی (81) دن حیات رہے اور پھر آپ کا وصال ہوگیا۔
پہلی وحی نازل ہونے کے بعد دوسری وحی نازل ہونے کے درمیان کچھ وقفہ آیا جس کو علمِ حدیث کی اصطلاح میں "فترۃ الوحی" کہا جاتا ہے۔ اس وقفہ سے متعلق مؤرخین و محدّثین نے مختلف اقوال اور وجوہات بیان کی ہیں۔ امام عبد الرحمٰن ابن عبداللہ سہیلی نے ڈھائی سال کا وقفہ بیان کیا ہے۔امام صالحی الشامی نے ابن عباس، ابن سعد اور امام البیھقی کو نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پہلی اور دوسری وحی کے درمیان چالیس (40) روز کا وقفہ تھا جبکہ ابن جوزی، امام فرّا اور امام زجاج نے کہاہے کہ یہ وقفہ پندرہ (15) دنوں کا تھا جو زیادہ قرین قیاس ہے۔
وہ مؤرخین جنہوں نے نزول وحی کا درمیانی وقفہ دو سے تین سال لکھا ہے وہ اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حضور کے صبر و استقلال کا امتحان تھا ۔ جن کے نزدیک وقفہ دس سے پندرہ ایام پر مشتمل تھا ان کاکہنا یہ ہے کہ یہ وقفہ اس لیے دیا گیا تاکہ حضور ظاہری طور پر دوسری وحی کے نزول کے لیے تیار ہوجائیں۔ مزید یہ کہ وقفہ سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حضرت جبرائیل حضور کے پاس تشریف نہیں لاتے تھےبلکہ اس سے مرادیہ ہے کہ اس وقفہ میں قرآن نازل نہیں ہوتا تھا اور ایک قول کے مطابق اس دوران میں حضرتِ اسرافیل آپ کے پاس باکثرت تشریف لاتے اور مختلف امور میں آپ کی مدد اور رہنمائی فرمایا کرتے تھے ۔
دوسری وحی کے متعلق کئی اقوال بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں دوسری وحی "سورۃ الضحٰی" تھی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ "سورۃ القلم" تھی لیکن اہل ِعلم کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ دوسری وحی "سورۃ المدثر" کی ان آیات پر مشتمل تھی:
يَاأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ 1 قُمْ فَأَنْذِرْ 2 وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ 3 وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ 4 وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ 5 6
اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!) اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں اور اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں اور (حسبِ سابق گناہوں اور) بتوں سے الگ رہیں ۔
حضور پر وحی کا نزول بنیادی طور پر تین شہروں کے مختلف مقامات پر ہوا۔وہ علاقے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام /فلسطین ہیں۔ یہاں شام سے مراد "بیت المقدس "ہے جبکہ علامہ ابن کثیر کے مطابق شام سے مراد "تبوک" ہے اور یہ زیادہ بہتر ہے۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ تبوک عہد نبوی میں شام کی حدود میں داخل تھا۔اسی طرح مکہ مکرمہ سے مراد داخل شہر مکہ کے ساتھ ساتھ اس کے قرب و جوار یعنی منیٰ ،عرفات،حدیبیہ وغیرہ کے علاقے ہیں۔جبکہ مدینہ منورہ سے مراد بدر ،اُحد ،جبل سلع اور اس کے دائیں بائیں کے علاقےہیں۔ 7
مکہ مکرمہ کے جن مقامات پرحضرت جبرائیل وحی لےکر تشریف فرما ہوئے اُن میں غار حرا ء،حضرت خدیجہ کا گھر، کوہِ صفا، بطحاء مکہ، مسجد الحرام کا صحن،قریش کی مجلس، کعبۃ اللہ کا جوار، طائف، قرنِ منازل، مسجد الجن، مسجدالشجرہ، حضرت ِ اُم ہانی کا گھر، بیت اللہ کے سامنے، کعبہ اور رکن عراقی کے درمیان، مقام معجن میں، حجرا سودکے پاس، منیٰ کی گھاٹی میں، ہجرت کی رات، ہجرت کےدوران، جحفہ کے قریب اورکعبہ کے سائے والی جگہیں شامل ہیں۔
مدینہ منورۃ کے مقامات سے مراد مدینہ پاک اور اس کے آس پاس کے علاقہ ہیں۔ یہاں نبی کریم پر قبا میں حضرت ابوایوب انصاری کےگھرمیں، مسجدنبوی کی تعمیر کے وقت حجرات مبارکہ میں، حضرت عائشہ کےگھر حتی کےدروازے پر، حضرت اُم سلمہ کے گھر میں، مسجد قبلتین میں نماز کے دوران، مسجد نبوی کے دروازے پر، جنتُ البقیع میں، مدینہ منورہ کےباغوں میں، حرۃ المدینہ(مدینہ کا پتھریلا علاقہ)میں، مسجد سجدہ میں، مسجد الاجابہ میں، استوانہ السریر میں، منبر رسول پر، منبر رسول کی سیڑیوں پر ، مقام ِذفران میں، بدر کے مقام پر،صفہ کے چبوترہ پر، بسر کے گھر میں، اُم سلیم کے گھر میں، قبا کے راستے میں، اضاءۃ بنی غفار میں، مقام اُحد میں، مقام شیخین میں، حمرا ءالاسد میں، قبیلہ بنو نضیر میں، غزوہ بنو مصطلق میں، مقام بیداء میں، حضرت صدیق اکبر کے گھر میں، مقام خند ق میں، کہف بنی حرام میں، مقام عسفان میں، کراع الغمیم میں، مقام حنین پر، جعرانہ کے مقام پرمشربہ 8 میں، وادی عقیق میں، عرفات کے مقام پر اور مسجد نبوی میں مختلف اوقات میں وحی نازل ہوئی۔
نبی اکرم پر وحی کے نزول کا سلسلہ تقریباً 23 سال تک جاری رہا جس میں نوع انسانی کی دنیوی و اخروی فلاح کا سارا سامان قیامت تک کے لئے مہیا کردیا گیا۔ اس وحی الہی نے انسان کو شرک، لادینیت، الحاد کے اندھیروں سے نکال کر توحید کی روشنی میں لاکر کھڑا کیا اور انسان کو نفس پرستی، خود غرضی کے سبب جانور بننے سے بچایا اور اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کیا۔