encyclopedia

غزوہ احد

Published on: 24-Apr-2024
تاریخ:3 ہجری/625 عیسویمہینہ:شوال/ مارچمسلمان مجاہدین:700 صحابہ کرام رضی اللہ عنہملشکرِ کفار:3000مقام غزوہ:احدشہداء:70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہممقتولینِ کفار:22 یا 23نتیجہ:کوئی نتیجہ نہیں ہوا۔
LanguagesالعربیةEnglishGermanPortuguese

غزوہ احد غزوہ بدر کے ایک سال بعد واقع ہوا جس میں مؤمنین کو سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ 1 یہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی قیادت میں 3 ہجری ، نصف شوال، 2 ہفتہ کے دن 3 مدینہ منورہ کی شمالی جانب 3 کلو میٹر کے فاصلہ پر 4 اُحد پہاڑ کے قریب لڑا گیا۔ اس غزوہ میں دشمنان اسلام کی طرف سے 3000 کےلشکر جرار جبکہ مسلمانوں کی طرف سے 700 صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے شرکت کی۔ اس جنگ میں مسلمانوں میں سے 70 لوگ شہید ہوئے ،جن میں سے چار مہاجرین اور باقی انصار تھے ،جبکہ کفار کے مقتولین کی تعداد 22 یا 23 تھی۔ 5 جنگ کا فیصلہ فریقین میں سے کسی کے بھی حق میں حتمی طور پر نہ ہوا بلکہ دونوں فریقین نے بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کیا اور بغیر کسی حتمی نتيجے كے واپس لوٹے۔

غزوہ احد کے اسباب

قریش مکہ کو غزوہ بدر میں ناقابل تلافی جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے انتقام کی آگ ان کے اندر سلگ رہی تھی۔اسی لیے ابو سفیان جب غزوہ بدر سے واپس لوٹا توا س نے قسم کھائی کے وہ نہ تیل استعمال کرے گا اور نہ عورتوں کے قریب جائے گا جب تک کہ وہ مدینہ والوں سے بدلہ نہ لے لے۔ اسی لیے ذی الحجہ کے مہینے میں ابو سفیان 200 گھڑسواروں کو لے کر مدینہ آیا۔ وہاں یہودیوں سے خفیہ باتیں معلوم کیں اور واپس جاتے ہوئے مدینہ کے قریب "عریض"کے مقام پر کھجوروں کے باغات کو جلا کر 2 لوگوں کو قتل کرتے ہوئے مدینہ واپس ہوا۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب اِس معاملہ کا علم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam لشکر لے کر اس کے تعاقب میں نکلے لیکن اس کو نہ پاکر "قرقرۃ الکدر" کے مقام سے واپس آگئے۔ 6 ثانیا غزوہ بدر کے بعد قریشِ مکہ کے شام کی طرف جانے والےتجارتی راستے بند ہوگئے تھےجس سے ان کی معیشت پر گہرا ثر پڑا تھا۔ اسی تجارت کو بحال کرنے کے لیے قریش کے تجار نے ابو سفیان کی قیادت میں ایک قافلہ تیار کیا جس میں کافی مقدار میں چاندی لے کریہ لوگ معروف راستہ چھوڑ کر عراق کے راستے سے ملک شام کی طرف جانے لگے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کی خبر ہوئی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت زید بن حارثہ Radi Allah Anho کو 100 گھڑ سواروں کے ساتھ اس قافلہ کے تعاقب میں روانہ فرمایا اور نجد کے قریب "قردہ" کے مقام پر مسلمان لشکر نے ان کو پالیا۔ قافلہ والے مال چھوڑ کر اور اپنی جانیں بچا کر بھاگ نکلے جس سے مسلمانوں کو مال غنیمت حاصل ہوا۔7 یہ وہ وجوہات تھیں جنہوں نے کفار مکہ کو پریشان کیا ہوا تھا اور اہل ایمان کا یہ چھوٹا سا گروہ جس کو وہ کمزور اور حقیر جانتے تھے اب ان کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بن چکا تھا اور ناقابل شکست ہوتا جارہا تھا۔

قریش کے باقی ماندہ سردار عبداللہ بن ربیعہ، عکرمہ بن ابو جہل، حارث بن ہشام، حویطب بن عبدالعزی اور صفوان بن امیہ مل کرابو سفیان اور ان لوگوں کے پاس گئے جن کے مال اس تجارتی قافلہ میں شامل تھے اور ان سے کہا کہ محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) نے ہمیں اکیلا کردیا اور ہمارے مَردوں کو قتل کردیا ہےاس لئے اب ہمیں مل کر ان سے یہ بدلا لینا چاہیے۔8 سب سے پہلے ابو سفیان نے اس بات کو تسلیم کیا اور بنو عبد مناف کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد وہ قافلہ جو صحیح سلامت اور نفع بخش حالت میں واپس آیا تھا، اس سے انہوں نے تمام تاجروں کو ان کا اصل سرمایہ دے کر اس کا منافع روک لیا، جو کہ تقریبا 25 سے 50 ہزار دينار تک تھا 9 تاکہ اس کی مدد سے جنگ کی تیاریاں كي جاسکیں۔

قریش کا لوگوں کو جنگ کے لئے ورغلانا

سرداران قریش کی اولاد اور تجار نے جنگ کے لیے حامی بھرلی اور اپنا اپنا حصہ شامل کرکے آس پاس کے قبائل تہامہ اور کنانہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ صفوان بن امیہ ابو عزہ کے پاس گیا جو کہ ایک شاعر تھا اور اس سے کہا کہ وہ اپنے اشعار کے ذریعے قریشی فوج کے جذبہ کو ابھارے۔ یہ وہ شخص تھا جو بدر میں پکڑا گیا تھا اور نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسے اس شرط پر رہا کردیا تھا کہ وہ آئندہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا لیکن جب اس کو كثير مال کا لالچ دیا گیا تو وہ مان گیا اور اپنے اشعار سے لوگوں کو جمع کرنے لگا۔ 10

جبیر بن مطعم کا غلام جس کا نام وحشی تھا نیزہ بازی میں مہارت رکھتا تھا۔ اس سے جبیر بن مطعم نے کہا کہ اگر اس نے حمزہ ( Radi Allah Anho)کو قتل کردیا تو جبیر کے چچا طعیمہ بن عدی کا بدلہ ہوجائے گا اور اس کے عوض وہ وحشی کو آزاد کردے گا۔ 11 ابو سفیان نے اس طرح 3000 کا لشکر تیار کیا جس میں قریش کے علاوہ آس پاس کے لوگ جن کو "احابیش" کہا جاتا تھا وہ بھی ساتھ تھے۔ لشکر کے ساتھ گانے والیاں، باجے والے، ڈھول اور شراب کے ساتھ ساتھ قریش کی 15 عورتیں بھی شامل تھیں جن میں ہندہ، اُمّ حکیم (یہ دونوں بعد میں مسلمان ہوئیں )، سلافہ، اُمّ مصعب نام مشہور ہیں۔ 12

نبی کریم ﷺ تک جنگ کی خبر کا پہنچنا

مکہ میں قریش کی تیاریاں زوروں پر تھیں اور عنقریب وہ نکلنے والے تھے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے چچا حضرت عباس Radi Allah Anhoنے ایک غفاری شخص کے ہاتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ایک خط بھیجا جس میں قریش کےلشکر اور جنگ کے ارادہ کی خبر تهی۔ خط دیتے ہوئے آپ Radi Allah Anho نے اس شخص کو پابند کیا کہ وہ تین دن میں مکہ واپس پہنچے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ وہ غفاری شخص مدینہ پہنچا اور خط آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حوالے کیا۔ حضرت ابی بن کعب Radi Allah Anho نے یہ خط پڑھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو سنایا جس میں قریش کے نکلنے کا ذکر تھا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے اس خط کے راز کو خفیہ رکھنے کا فرمایا اور وہاں سے سیدھا سعد بن ربیع Radi Allah Anho کے گھر تشریف لے گئے اور ان کو سارا معاملہ بتايا اور ان كو بهی اس بات کو خفیہ رکھنے کا حکم دیا۔ 13

لشکرِ قریش کی روانگی

قریش مکہ 5 شوال کو اپنے تمام تر لشکر اور سازو سامان کے ساتھ نکلا 14 جس میں 3000 ہزار لوگ شامل تھے اور سامان جنگ میں 700 زرہیں، 200 گھوڑے، 1000اونٹ اور 15 کجاوے شامل تھے۔ 15 رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے مدینہ کے آس پاس دو اصحاب حضرت انس Radi Allah Anho اور حضرت مونس Radi Allah Anhoکو بھیجا تاکہ قریش کی پیش رفت کے حوالہ سے مخبری کریں۔ ان دونوں نے واپس آکر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam آگاہ کیا کہ قریش کا لشکر "عقیق " کے پاس پہنچ چکا ہے اور اس لشکر نے اپنے اونٹ اور گھوڑے وادی "عریض" میں چرنے کے لیے چھوڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہاں اب سبزہ بالکل نہیں رہا۔ اس کے بعد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حباب ابن منذر Radi Allah Anho کو روانہ فرمایا تاکہ وہ لشکر کی تعداد کا اندازہ لگائیں۔ انہوں نے واپس آکر جب دشمن کے لشکر کے بارے میں اطلاع دی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان سے فرمایا:

لاتذكر من شاءنهم حرفا، حسبنا اللّٰه ونعم الوكيل، الهم بك اجول وبك اصول. 16
ان کی شان میں مبالغہ آرائی مت کرو، ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ (پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا) اے اللہ ! میں تیری مدد سے چلتا پھرتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ حملہ کرتا ہوں۔

جب قریش کے اتنے قریب آنے کی خبر صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو معلوم ہوئی تو اس رات قبیلہ اوس اور خزرج کے نوجوانوں نے مسجد کے باہر مسلح پہرہ دینا شروع کردیا اور مدینہ منورہ میں بھی رات مسلح گشت جاری رکھا تاکہ کفار کسی قسم کی شرارت نہ کر پائیں۔

رسول اللہﷺ کا خواب

جس رات نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حضرت عباس Radi Allah Anhoکا خط موصول ہوا، اسی رات آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک خواب دیکھا اور صبح صحابہ کرام Radi Allah Anhumسے فرمایا:

إني قد رأيت واللّٰه خيرا، رأيت بقرا، ورأيت في ذباب سيفي ثلما، ورأيت أني أدخلت يدي في درع حصينة. 17
خدا کی قسم میں نے (اپنے خواب میں) بھلائی دیکھی ہے۔ میں نے گائے دیکھی ہے، اور میں نے اپنی تلوار کی دھار میں دندانہ دیکھا ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ میں داخل کیا۔

پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے خود ہی اس خواب کی تعبیر بیان فرمائی کہ گائے سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس جنگ میں مارے جائیں گے اور تلوار سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو کوئی مصیبت پہنچے گی اور زرہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔

اہل مدینہ سے مشورہ کرنا

جمعہ کی نماز کے بعد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اہل مدینہ سے مشورہ طلب کیا۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ سے باہر جاکر لڑنے کو ناپسند فرما رہے تھے اور عبداللہ بن ابی جو رئیس المنافقین تھا اس کی رائے بھی یہی تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑا جائے۔ عبد اللہ ابن ابی نے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رائے سے اس لئے اتفاق کیا کیوں کہ وہ جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہتا تھا اور اسے اس رائے کو ماننے میں فائدہ تھا۔ 18 مسلمانوں میں سے وہ نوجوان جن کو غزوۃ بدر میں شریک ہونے کا موقع نہ ملا تھا انہوں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے فرمایا:

يا رسول اللّٰه أخرج بنا إلى أعدائنا لا يرون أنا جبنا عنهم أو ضعفنا. 19
اے اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ! ہمیں دشمنوں کی طرف لے کر چلیں تاکہ وہ دیکھ لیں کہ ہم بزدل نہیں اور نہ ہم کمزور ہیں۔

جب ان نوجوان صحابہ کرام Radi Allah Anhum کا بہت زیادہ اصرار ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی رائے کے مطابق مدینہ طیبہ سے باہر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور نکلنے کی تیاری شروع کردیں۔

حضور ﷺ کی احد کی طرف پیش قدمی

حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لشکر کو جمع کرکے ان سے خطاب فرمایا کہ اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہوگی جب تک وہ صبر کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےان کو تیاری کا حکم دیا اور اپنے دولت کدہ میں تشریف لے گئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق Radi Allah Anho اور حضرت عمر فاروق Radi Allah Anhoبھی تھے۔ ان دونوں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو عمامہ پہنایا اور جنگی لباس پہننے میں مدد کی۔ باہر سب لوگ کھڑے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا انتظار کررہے تھے کہ اسى اثناء میں حضرت سعد Radi Allah Anho اور اسید بن حضیر Radi Allah Anho نے لوگوں سے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو مدینہ سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے جب کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ اس لئے ان لوگوں نے اپنا مشورہ واپس لینے کا سوچا۔ جب رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam جنگی لباس پہنے باہر تشریف لائے تو لوگوں نے کہا کہ ہم اپنے مشورہ سے رجوع کرتے ہیں اور اگر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی رائے مدینہ میں رہ کر لڑنے کی ہے تو ہم اس کی اتباع کریں گے۔ یہ سن کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا:

إنه ليس لنبي إذا لبس لأمته أن يضعها حتى يقاتل. 20
بے شک یہ بات نبی کے شایان شان نہیں کہ ایک بار جب (جنگ کے لئے) زرہ پہن لے پھر بغیر جنگ کئے اس کو اتارے۔

اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تقریباً 1000 صحابہ کرام کا لشکر لے کر روانہ ہوئے اور مدینہ منورہ میں عبداللہ بن ام مکتوم Radi Allah Anho کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لشکر میں عَلم بردار بھی مقرر فرمائے اور تین جھنڈے بنوائے۔ قبیلہ اوس کا عَلم بردار حضرت اسید بن حضیر Radi Allah Anho قبیلہ خزرج کا عَلم بردار حضرت حباب بن منذر Radi Allah Anho کو اور مہاجرین کاعَلم بردار آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت علی بن ابو طالب Radi Allah Anho کو بنایا۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے روانگی کا حکم فرمایا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی سواری کے آگے لگام تھام کر حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho اور حضرت سعد بن عبادہ Radi Allah Anho چل رہے تھے۔ راس الثنیہ کے مقام پر پہنچ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک چھوٹی سی جماعت دیکھی اور اس کے متعلق استفسار فرمایا۔ صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے عرض کی کہ یہ یہود میں سے عبد اللہ بن ابی کے حلیف ہیں۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کے ایمان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو پتہ چلا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :

انا لاننتصر باھل الکفر على اھل الشرک. 21
ہم اہل شرک کے خلاف اہل کفر سے مدد نہیں لیں گے۔

مقام "شیخین" پر پہنچ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لشکر کا جائزہ لیا اور کم عمر صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو واپس بھیج دیا۔ کم عمر صحابہ کرام Radi Allah Anhum میں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صرف حضرت رافع بن خدیج Radi Allah Anho کو اجازت دی کہ وہ جنگ میں حصہ لیں کیوں کہ وہ اچھے تیرانداز تھے۔ جب ان کو غزوہ اُحد میں تیر لگا تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن اس تیر کی گواہی دوں گا۔ 22 ان کو دیکھ کر حضرت سمرہ بن جندب Radi Allah Anho نے اپنے والد سے کہا کہ رافع Radi Allah Anho کو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اجازت دے دی جب کہ میں اس کو کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دونوں کا مقابلہ کروایا۔ حضرت سمرہ Radi Allah Anho نے حضرت رافع Radi Allah Anho کو کشتی میں زیر کردیا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے دونوں کو جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ 23

عبداللہ بن ابی کی واپسی

عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ پر جانے کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ وہ مستقل کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ ان کو کوئی موقع میسر آجائے اور وہ جنگ سے فرار کا راستہ اختیار کر سکیں۔ بالآخر مقام شوط پر جب لشکر اسلام پہنچا تو عبداللہ بن ابی ایک تہائی لشکر لے کر یہ کہتے ہوئے الگ ہوگیا کہ:

اطاع الولدان ومن لا راى له وعصانى، ما ندرى على مانقتل انفسنا ایھا الناس ھاھنا.
انہوں (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) نے بچوں کی بات مان لی اور ان کی بات مان لی جن کی کوئی رائے نہیں، اور میری بات نہیں مانی، اے لوگو ہم یہاں کس مقصد کے لیے اپنے آپ کو قتل کرائیں؟

اس کے ساتھ سارے منافقین واپس لوٹ گئے۔ عبداللہ بن حرام Radi Allah Anhoنے ان کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور اپنی قوم کو یوں نہ چھوڑو جب کہ دشمن سامنے ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ان کو لگتا ہے لڑائی نہیں ہوگی اس لئے وہ جارہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئی جن میں اللہ تعالی نے ان کے نفاق کا ذکر فرمایا :

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعْنَاكُمْ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ 16724
اور ایسے لوگوں کی بھی پہچان کرادے جو منافق ہیں اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا (دشمن کے حملے کا) دفاع کرو، تو کہنے لگے: اگر ہم جانتے کہ (واقعۃً کسی ڈھب کی) لڑائی ہوگی (یا ہم اسے اللہ کی راہ میں جنگ جانتے) تو ضرور تمہاری پیروی کرتے، اس دن وہ (ظاہری) ایمان کی نسبت کھلے کفر سے زیادہ قریب تھے، وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، اور اللہ (ان باتوں) کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں۔

اور اسی طرح یہ آیت بھی منافقین کے بارے میں نازل ہوئی:

مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ 17925
اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لئے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔

جب منافقین کی یہ جماعت واپس ہوئی تو بعض صحابہ کرام Radi Allah Anhumنے کہا کہ دشمن سے پہلے ان سے لڑا جائے کیوں کہ یہ کفار سے ذیادہ خطرناک دشمن تھے جبکہ بعض صحابہ کرام Radi Allah Anhumکا کہنا یہ تھا کہ ان کو فی الحال ان کے حال پر رہنے دیا جائے۔ اسی ضمن میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ آیت نازل فرمائی:

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا أَتُرِيدُونَ أَنْ تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا 8826
پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں تم دو گروہ ہوگئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث ان (کی عقل اور سوچ) کو اوندھا کردیا ہے۔ کیا تم اس شخص کو راہِ راست پر لانا چاہتے ہو جسے اللہ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہے، اور (اے مخاطب!) جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے ہرگز کوئی راہِ (ہدایت) نہیں پاسکتا۔

اسی وجہ سے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارشاد فرمایا تھا :

انھا طیبةوانھا تنفى الخبث كما تنفى النار خبث الفضة. 27
یہ (جہاد) ایک پاکیزہ عمل ہے اور یہ گند کو ایسا پاک کرتا ہے جیسے آگ چاندی کے گند کو پاک کرتی ہے۔

میدان اُحد میں لشکر کی ترتیب

اُحد کی گھاٹی میں پہنچنے کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لشکرکی ترتیب اس طرح فرمائی کہ اُحد پہاڑ کی طرف لشکر کی پیٹھ کی اور رخ مدینہ منورہ کی جانب رکھا جبکہ جبلِ رماۃ کو اپنی دائیں جانب رکھ کر صفوں کو ترتیب دینا شروع فرمایا۔ میمنہ پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عکاشہ بن محصن Radi Allah Anho کو مقرر فرمایا، میسرہ پر ابو سلمہ بن عبدالاسد Radi Allah Anhoکو، مقدمۃالجیش پر حضرت ابو عبیدہ بن جراح Radi Allah Anhoاور حضرت سعد بن ابی وقاص Radi Allah Anhoکو، اور لشکر کے پچھلے حصہ پر حضرت مقداد بن عمرو Radi Allah Anho کو مقرر فرمایا۔ 28 جبل رماۃ جو اُحد پہاڑ کے قریب تھا اور وہاں سے لشکر پر عقب کی طرف سے حملہ کا خطرہ تھا، وہاں پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے عبد اللہ بن جبیر Radi Allah Anho کو 50 لوگوں پر امیر مقرر فرمایا اور آپ Radi Allah Anho کو بمع اصحاب Radi Allah Anhum کے اس پہاڑ پر رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

لاتبرحوا، ان رايتمونا ظهرنا عليهم فلا تبرحوا، وان رايتموهم ظهرواوعلينا فلاتعينونا. 29
اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اگرچہ کہ تم دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آچکے ہیں،اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اگرچہ کہ تم دیکھ لو کہ وہ ہم پر غلبہ پاچکے ہیں۔ پس تم ہماری مدد بھی نہ کرنا۔

قریش کی صف بندی اور عَلم بردار وں کا تعین

کفار نے لشکر کے دائیں حصہ پر خالد بن ولید او ر بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابو جہل کو مقرر کیا۔ تیر اندازوں کی ایک جماعت جو 100 افراد پر مشتمل تھی اس پر عبد اللہ بن ربیعہ کو مقرر کیا۔ اس کے بعد ابو سفیان عَلم برداروں کی طرف متوجہ ہوا اور ان کو جوش دلانے کے لئے کہنے لگا:

يا بني عبد الدار، إنكم قد وليتم لواءنا ببدر فأصابنا ما قد رأيتم، فإنما يؤتى الناس من قبل راياتهم، إذا زالت زالوا، فإمّا أن تكفون لواءنا، وإما أن تخلّوا بيننا وبينه فنكفيكموه، فهمّوا به وتواعدوه وقالوا: أنحن نسلم إليكم لواءنا؟ ستعلم إذا التقينا كيف نصنع. 30
اے عبدالدار! غزوہ بدر میں بھی عَلم تمہارے پاس تھا، تم نے پیٹھ پھیر دی تھی، اور پھر جو نقصان ہمارا ہوا وہ تم نے دیکھا، اس لیے کہ لوگ جھنڈے کو دیکھ کر ہی قائم رہتے ہیں، جب جھنڈا گرتا ہے تو لشکر بھی منتشر ہوجاتا ہے۔ یا تو اس جھنڈے کی پاسداری کرو، یا تم یہ جھنڈا ہمارے حوالہ کردو۔ ہم اس کے لیے کافی ہیں۔ یہ سن کر وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ کیسے ہم اپنا جھنڈا تمہیں دے سکتے ہیں؟ کل پتہ چلے گا ہم کیا کرتے ہیں۔

جنگ کی ابتدا

دونوں طرف کے لشکر کی صف بندی ہونے کے بعد کفار کے لشکر میں سے ابو عامر بن صیفی جو مدینہ میں رہائش پذیر ایک کافر تھا اپنے 50 لوگوں کو لے کر قریش کے لشکرسے جاملا۔ اس نے اپنی قوم قبیلہ اوس کو آواز دی اور ان کو اپنا تعارف کروایا کیوں کہ اس کو لگتا تھا کہ اس کی قوم اس کا نام سن کر اس کے ساتھ ہوجائے گی۔ قبیلہ اوس نے جب اس کی آواز سنی تو اس سے کہنے لگے:

لا انعم اللّٰه بک عینا . 31
اللہ تجھے کچھ اچھا نہ دکھائے۔

جب اس نے اپنی بے عزتی دیکھی تو مسلمانوں سے لڑنے لگا اور پتھر مارنے لگا۔ اس کی اس حرکت سے لڑائی شروع ہوگئی اور کفار کی عورتیں اشعار سنا سنا کر اپنے لشکر کے جذبات کو بھڑکاتی رہی۔

جنگ کا پہلا مرحلہ

جب جنگ شروع ہوئی تو مشرکین میں سے ایک شخص نکلا جس نے مبارزت کا اعلان کیا۔ تین بار پکارنے پر حضرت زبیر بن عوام Radi Allah Anho کھڑے ہوئے اور اس سے دوبدو لڑنے لگے۔ ان کو دیکھ کر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےفرمایا:

الذي يلي حضيض الأرض مقتول. 32
جو پہلے زمین پر گرے گا وہ مارا جائے گا۔

اسی اثنا میں وہ مشرک گرا اور اس کے اوپر حضرت زبیر Radi Allah Anho آئے اور اس کو قتل کردیا۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

ان لکل نبی حواريا وان حواري الزبیر. 33
ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔

اس کے بعد صحابہ کرام Radi Allah Anhum کفار کے عَلم برداروں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان میں سے ایک علم بردار آگے نکلا اورمسلمانوں کو للکارا۔ حضرت علی Radi Allah Anho کھڑے ہوئے اور اس سے جنگ کی یہاں تک کہ اس کو قتل کردیا۔ اس کے بعد مشرکین کا جھنڈا اس کے بھائی عثمان بن ابو طلحہ نے لیا، جس کو حضرت حمزہ Radi Allah Anho نے قتل کیا۔ اس کے بعد ابو سعید بن طلحہ نےمشرکین کا جھنڈا لیا جس کو سعد بن ابی وقاص Radi Allah Anho نےتیر مارا اور ہلاک کیا۔ اس کے بعد مشرکین کے جنگجوؤں میں سے ارطاۃ بن شرحبیل نے مسلمانوں پر حملہ کیا جس کو حضرت علی Radi Allah Anho نے جہنم واصل کیا اور شریح بن قارظ بھی مارا گیا۔ اس کے بعد ابو زید بھی مارا گیا جس کو قزمان نے قتل کیا۔34 جب سارے علَم بردار مارے گئے تو مشرکین مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہوگئے اور مسلمانوں نے ان کی صفوں میں داخل ہوکر ان پر حملہ کردیا۔

حضرت ابو دجانہ Radi Allah Anho کی تلوار

ادھر مسلمان دشمن کی صفوں میں داخل ہو رہے تھے ادھر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ایک تلوار نکالی اور فرمایا :

من یاخذ ھذ السیف بحقه؟ فقام الیه ابو دجانه سماک بن خرشه اخو بنى ساعده. قال انا آخذہ یارسول اللّٰه بحقه ...فاعطاه ایاه.35
کون اس تلوار کا حق ادا کرے گا؟ حضرت ابو دجانہ بن سماک بن خرشہ Radi Allah Anho جو بنو ساعدہ میں سے تھے کھڑے ہوئے اور کہا یارسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میں اس کا حق ادا کروں گا۔ ۔ ۔ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو وہ تلوار مرحمت فرمائی۔

اس کے بعد حضرت ابودجانہ Radi Allah Anho نے ایک لال پٹی نکالی اور اپنے سر پر باندھ لیا اور اکڑ کر چلنے لگے جس کو دیکھ کر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا کہ اس موقع کے علاوہ اللہ تعالی کو یہ چال پسند نہیں۔ 36 حضرت کعب بن مالک Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ ایک مشرک جو جنگی لباس میں ملبوس تھا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ان مسلمانوں کو ایسے تلواروں پر لو جیسے ذبح شدہ بکریوں کو لیا جاتا ہے۔ اتنے میں اس کا ایک مسلمان جنگجو سے سامنا ہوا۔ وہ دونوں ایک دوسرے پر پِل پڑے۔ مسلمان جنگجونے اس کافر کے کندھے پر زور دار وار کیا جو کہ اس کے پورے وجود کو کاٹتا ہوا اس کے کولہے سے باہر نکلا جس سے وہ کافر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ پھر اس مسلمان جنگجو نے اپنا چہرہ کھولا اور حضرت کعب Radi Allah Anho کو مخاطب کرکے کہنے لگا:

كیف ترى یاكعب؟ انا ابو دجانة. 37

حضرت حمزہ Radi Allah Anho کی بہادری وشہادت

حضرت حمزہ Radi Allah Anho نے اکیلے کئی کافروں کو موت کے گھاٹ اتارا 38 جن میں ایک مشہور شہسوار سباع ابن عبد العزی بھی شامل تھا۔ جب حضرت حمزہ Radi Allah Anho کا اس سےسامنا ہوا تو آپ Radi Allah Anho نے ایک ہی وار میں اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ 39 آپ Radi Allah Anho زرہ پہنے ہوئے تھے اور کفار پر تابڑ توڑ حملے کرکے ان کو قتل کررہے تھے۔ اسی اثنا میں وہ ایک کافر کی زرہ اٹھانے کے لیے جھکے تو آپ Radi Allah Anho کے پیٹ کی جگہ سے زرہ ہٹ گئی۔ وحشی جو کہ حضرت حمزہ Radi Allah Anho کی تاک میں تھا اس نے اپنا نیزہ سیدھا کیا اور حضرت حمزہ Radi Allah Anho کے ناف کے قریب مارا جو ان کے پیٹ کو چیرتا ہوا نکل گیا اور آپ Radi Allah Anho شہید ہوگئے۔ 40

لشکر کفار کی ہزیمت

جنگ کے اول مرحلہ میں مسلمانوں کو خوب فتح حاصل ہوئی اور مسلمان کفار پر غالب رہے۔ کفار کے کئی بہادر جنگجو اور عَلم بردار مارے گئے جس کو دیکھ کر کفار نے میدان چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔ بھاگتے ہوئے کفار کسی چیز کو خاطر میں نہیں لارہے تھے اور ان کی عورتیں بھی چیختی چلاتی بھاگ رہی تھیں۔ مسلمان ان کا پیچھا کرکے ان کو مار رہے تھے۔ دشمن کا پیچھا کرتے کرتے مسلمان کفار کے لشکر تک پہنچ گئے اور ان سے ان کا جنگی سامان لینے لگے۔ 41 ادھرجبل رماۃ پر مامور صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے جب لشکر اسلام کو کفار کا پیچھا کرتے دیکھا اور میدان کو خالی پایا تو وہ لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ وہ یہاں کیوں رکے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے دشمن کو شکست دے دی ہے۔ یہ کہہ کر وہ مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے وہاں سے چل پڑے۔ عبد اللہ بن جبیر Radi Allah Anho نے ان صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو منع کیا کہ وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں لیکن سوائے 10 افراد کے باقیوں نے ان کی بات نہ سنی اور وہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ مال غنیمت کے جمع کرنےمیں شریک ہوگئے۔42

جنگ کا دوسرا مرحلہ

میدان جنگ سے کافر فرار ہورہے تھے اور مسلمانوں کے مورچے خالی ہو چکے تھے۔ لشکر کفار تھوڑی دور گیا تو خالد بن ولید جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے اس پہاڑ پر نظر ڈالی جہاں تیر انداز مقرر کئے گئے تھے۔ انہوں نے وہاں فقط چند لوگوں کو پایا تو ایک طویل چکر کاٹ کر آپ اس پہاڑ پر عقب کی جانب سے حملہ آور ہوئے اور وہاں موجود صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو موقع غنیمت پا کر شہید کردیا۔ اس کے بعد وہ اس پہاڑ سے نیچے اترے اور پیچھے کی جانب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ اس طرح دونوں طرف سے مسلمان گھِر گئے۔ مسلمان اس حملہ سے بالکل بے خبر تھے اور اچانک اس افتاد نے لشکر کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ اسی وجہ سے مسلمان اس حملہ سے اپنا بچاؤ نہ کر سکے اور جس کا جس طرف رخ تھا وہ اسی طرف بھاگ پڑا۔ جو مال غنیمت مسلمانوں نے اٹھایا تھا وہ بھی ان کو وہیں چھوڑنا پڑا۔ اس اثناء میں کافی تعداد میں شہادتیں بھی ہوئیں اور مسلمانوں کی صفیں بھی ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں مسلمانوں کی تلواروں سے خود دوسرے مسلمان بھی بری طرح زخمی ہوئے۔43

اس سراسیمگی کی حالت میں مسلمانوں کے 3 گروہ بن گئے۔ ایک گروہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو گھیرے میں لیے ہوئے دشمن سے برسرپیکار تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو اس اچانک حملہ سے حواس باختہ ہوکر میدان سے نکل کر مدینہ منورہ کی طرف نکل گیا تھا جبکہ تیسرا گروہ وہ تھا جس نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارے میں یہ افواہ سنی تھی کہ رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ گروہ سخت صدمہ میں تھا اوربددلی سے لڑرہا تھا یہاں تک کہ اس گروہ کے کئی لوگ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے تھے اور باقی اپنا دفاع کررہے تهے جب كہ ان بقیہ لوگوں کو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بارےمیں معلوم ہوا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بخیر و عافیت کے موجود ہیں تو جلدی از جلد وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے آملے 44 اور پہلے گروہ میں شمولیت اختیار کرلی جو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے دفاع میں مشغول تھا۔

لشکراسلام میں انتشار کی کیفیت

لشکر اسلام میں جب یہ بات پھیلائی گئی کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شہید کرديے گئے ہیں تو لشکر میں انتشار پھیل گیا اور صحابہ کرام Radi Allah Anhum منتشر ہونے لگے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو آوازیں بھی دیں لیکن اس شور وغل اور غیرمتوقع حملے نے ان کے اعصاب پر منفی اثر ڈالا جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف متوجہ نہ ہوسکے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے :

إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 15345
جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

حضرت ثابت بن دحداح Radi Allah Anho نے ان نامساعد حالات میں انصار کو یہ کہہ کر جوش دلایا کہ اگر محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شہید کر بھی دئے گئے تو اللہ تعالی حی اور قیوم ذات ہے جس کو فنا نہیں ہے، اس لئے اٹھو اور دین کی سربلندی کے لیے لڑو، اللہ تعالی کامیابی دے گا اورمدد بھی کرے گا۔ آپ Radi Allah Anho کی اس تقریر سے انصار کی ایک جماعت کھڑی ہوئی اور انہوں نے خالد بن ولید کی جماعت پر حملہ کردیا یہاں تک کہ وہ سب خود بھی شہید ہوگئے۔ 46 افراتفری کے اس عالم میں صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے حضرت حذیفہ Radi Allah Anho کے والد حضرت یمان Radi Allah Anho کو لشکر کفار کا بندہ سمجھ کر شہید کردیا۔ بعد میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی دیت دینی چاہی تو حضرت حذیفہ Radi Allah Anho نے معاف فرمادی۔ اسی طرح حسبل بن جابر Radi Allah Anhoبھی خود مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ 47

رسول اللہ ﷺ کی میدان جنگ میں ثابت قدمی

ان حالات میں جب کہ مسلمانوں کا لشکر پورے طور پر بکھر گیا تھا اور تیر مسلسل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف آرہے تھے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میدان جہاد میں ثابت قدم رہے اور اپنے قرب میں موجود صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو مسلسل ہدایات دیتے رہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ 11 سے 14 صحابہ کرام Radi Allah Anhumتھے جو مسلسل آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دفاع کررہے تھے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پہاڑ کی طرف تشریف لے جانا چاہتے تھے لیکن مشرکین نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا راستہ روک رکھا تھا۔ اس وقت میں حضرت طلحہ Radi Allah Anho اور ایک انصاری صحابی Radi Allah Anho نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے وہاں تک پہنچنے میں مدد کی۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے کئی انصاری آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ 48 حضرت علی Radi Allah Anho فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے سنا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam شہید ہوگئے ہیں تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شہداء میں تلاش کیا اور ان کے درمیان نہیں پایا۔ اس کے بعد آپ Radi Allah Anho اپنی تلوار لے کر اس قدر جذبات سے لڑے کہ آپ Radi Allah Anho کی تلوار کی دستی ٹوٹ گئی۔ لڑتے لڑتے آپ Radi Allah Anho کی نگاہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پر پڑی۔ آپ Radi Allah Anho نے دیکھا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاتھ میں ایک کمان تھی جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دشمن پرتیر برسا رہے تھے۔ اتنے میں اس کمان کی تانت ٹوٹ گئی اور ایک بالشت رہ گئی، حضرت عکاشہ بن محصن Radi Allah Anho نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے کمان لی اورٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن تانت چھوٹی ہوگئی تھی۔ آپSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اب کھینچو۔ جب انہوں دوبارہ تانت کھینچی تو وہ اتنی بڑی ہوگئی کہ کمان پر لپیٹ کر تین گرہیں لگ گئیں۔ اس کمان سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےاتنے تیر چلائے کہ اس سے باقائدہ چنگاریاں نکلیں اور وہ ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پتھر اٹھا اٹھا کر دشمن کو مارتے رہے۔49

حضرت سعد Radi Allah Anho کے بارے میں آتا ہے کہ آپ حضور کا دفاع تیروں کے ذریعہ سے کررہے تھے۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو تیر برساتے دیکھا تو ان سےفرمایا:

ارم فداک ابی وامي . 50
(اے سعد Radi Allah Anho !) میرے والدین تجھ پر فدا، تیر چلاتے رہو۔

اور رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam بذات خود حضرت سعد Radi Allah Anho کو تیر پکڑا رہے تھے اور ان کے لیے دعا فرمارہے تھے کہ یااللہ سعد کی دعائیں قبول فرما اور ان کا تیر نشانے پر لگا۔ بیہقی کی روایت کے مطابق پھر وہ تیر بھی حضرت سعد Radi Allah Anho نے دشمنوں پر چلائے جن کا لوہے کا پھل تک نہیں تھا مگر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی دعا کی برکت سے وہ تیر بھی عام تیر کی مثل بھرپور نشانہ پر لگتا تھا۔ 51

رسول اللہ ﷺ کا زخمی ہونا

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا میدان جنگ میں چہرہ مبارک اور سرمبارک زخمی ہوا۔ عتبہ بن ابی وقاص نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف پتھر پھینکا جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہو گئےاورآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ہونٹ مبارک بھی زخمی ہوگیا۔ حاطب بن ابی بلتعہ Radi Allah Anho نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو زخمی دیکھا اور عتبہ کی یہ بدبختی دیکھی تو فوراً اس کی طرف لپکے اور اس کا سرقلم کردیا اور اس کی تلور اور گھوڑا لے کر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خدمت میں پیش کیا جس پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو خاص بشارت دی کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا۔ 52 ایک اور مشرک ابن قمئہ نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو دیکھا تو تلوار کا وار کرنے لگا جس سے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے گال مبارک پر زخم آئے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam پیچھے ہونے لگے۔ وہاں ابو عامر فاسق نے ایک گڑھا کھودا ہوا تھا جس میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا پاؤں آیا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اس میں گر پڑے جہاں سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حضرت علی Radi Allah Anho اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ Radi Allah Anho نے مل کر نکالا۔ 53

اسی جنگ میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رخسار مبارک بھی زخمی ہوئے اور ان میں لوہے کے خود کی دو کڑیاں گھس گئیں۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح Radi Allah Anho نے وہ کڑیاں منہ سے نکالنے کی کوشش کی جس سے کڑی تو نکل گئی مگر ساتھ ہی ان کا ایک دانت بھی نکل گیا۔ دوسری کڑی نکالنے لگے تو دوسرا دانت بھی نکل گیا۔ حضرت ابو عبیدہ Radi Allah Anho کے دانت نکلنے سے ان کے حسن میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا تھا۔54

صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی بے مثال قربانیاں اور شہادتیں

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کفار کے نرغے میں تھے اور چند صحابہ کرام Radi Allah Anhum آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ارد گرد جانثاری سے لڑرہے تھے۔ اسی دوران آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا :

من رجل يشرى لنا نفسه؟ 55
کون ہمارے لئے اپنی جان کا سودا کرے گا؟

یہ سن کر حضرت زیاد بن سکن Radi Allah Anho پانچ انصاری جوانوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے کفار سے لڑنے لگے یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ حضرت ابو دجانہ Radi Allah Anho کے بارے میں آتا ہے کہ وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اپنی اوٹ میں لیے ہوئے تھے اور ڈھال بن کر اپنی پیٹھ پر تیر کھاتے جارہے تھے۔ حضرت عمرو بن جموح Radi Allah Anho کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی معذور ٹانگ کے ساتھ جنت میں ٹہلنا چاہتےہیں اور پھر وہ اپنے دو جوان بیٹوں سمیت اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ حضرت عبد اللہ بن جحش Radi Allah Anho کے بارے میں آتا ہے کہ آپ Radi Allah Anho نے یہ دعا مانگی کہ ان کا دشمن سے مقابلہ ہو جوان کے ناک اور کان کاٹ دے اور جب قیامت میں اللہ ان سے پوچھے کہ ان کے ناک کان کہاں ہیں تو وہ کہیں یااللہ تیری اور تیرے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خوشنودی میں کٹواديے۔ پھر ان کے ساتھ ویسا ہی ہوا جیسا انہوں نے دعا مانگی تھی۔ 56

رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت سعد بن ربیع Radi Allah Anhoکی تلاش میں صحابہ کرام Radi Allah Anhum کو بھیجا کہ جاکر انہیں ڈھونڈیں اور ان سے پوچھیں کہ ان کا کیا حال ہے۔ جب ان کو تلاش کیا گیا تو وہ جان کنی کے عالم میں تھے اور ان پر 70 سے زائد تلواروں اور نیزوں کے زخموں کے نشان تھے۔ جب وہ ملے تو ان سے کہا گیا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےان کو سلام کہا ہے اور ان کا حال پوچھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو ان کا سلام پیش کریں اور ان سے فرمائیں کہ اللہ آپ کو ہماری طرف سے بہترین جزادے جیسا کہ اس نے کبھی کسی نبی کو اپنی قوم کی طرف سے انعام دیا ہے۔ پھر وہ جام شہادت نوش کرگئے۔ 57 حضرت حنظلہ Radi Allah Anho نے ابو سفیان پر حملہ کیا اور اس کو زمین پر گرادیا۔ وہ اس پر وار کرنے والے تھے کہ اسود بن شداد نے ان پر نیزے سے وار کیا۔ اس کے بعد آپ Radi Allah Anho کو ایک تیر لگا اوراس تکلیف کے عالم میں بھی چلتے رہے کہ ابو سفیان کو پالیں۔ اسی اثناء میں آپ Radi Allah Anho کو ایک اور تیر لگا جس سے آپ Radi Allah Anho کی شہادت ہوگئی۔ بعد میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو دیکھا تو فرمایا کہ حنظلہ (Radi Allah Anho ) کو فرشتوں نے غسل دیا ہے۔58

صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی بہادری

حضرت انس بن نضر Radi Allah Anho جو کہ حضرت انس بن مالک Radi Allah Anho کے چچا تھے۔ 59 آپ Radi Allah Anho نے صحابہ کرام Radi Allah Anhum کی ایک جماعت کو دیکھا جو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی شہادت کی خبر سن کر یشان حال تھی۔ آپ Radi Allah Anho ان سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ اٹھو اور اللہ کے راستے میں شہید ہوجاؤ۔ جب آپ Radi Allah Anho کی حضرت سعد بن معاذ Radi Allah Anho سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ مجھے احد کی جانب سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ 60اس کے بعد آپ Radi Allah Anho میدان میں نکل پڑے اور شہید ہوگئے۔ ان کے جسم پر 70 سے زیادہ تلواروں کے زخم کے نشانات تھے، ان کی بہن نے ان کو انگلی کے پوروں سے پہچانا تها۔

حضرت مصعب بن عمیر Radi Allah Anho کی شہادت

حضرت مصعب بن عمیر Radi Allah Anho کے پاس مسلمانوں کا جھنڈا تھا۔ جب گھمسان کی جنگ شروع ہوئی تو ایک کافر ابن قمئہ نے سمجھا کہ یہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہیں۔ اس نے حضرت مصعب Radi Allah Anho پر حملہ کیا اور آپ Radi Allah Anho کاایک ہاتھ کاٹ ڈالا۔ حضرت مصعب بن عمیر Radi Allah Anho نے جھنڈا دوسرے ہاتھ میں لے لیا۔ جب دوسرے بازو پر اس کافر نے وار کیا تو انہوں نے جھنڈا اپنی تھوڑی اور سینے کے درمیان تھام لیا۔ آپ Radi Allah Anho جب شہید ہوگئے تو وہ کافر زور سے چیخنے لگا کہ (نعوذ باللہ) محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کو میں نے قتل کردیا کیوں کہ جنگی لباس میں حضرت مصعب Radi Allah Anho رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے مشابہ معلوم ہوتے تھے اس لئے وہ اور اس کے دیگر ساتھی دھوکہ کھا گئے تھے۔ 61

ابی بن خلف کا قتل

ابی بن خلف نے بدر سے واپسی پر دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک گھوڑا پالا ہے جس پر بیٹھ کرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو (نعوذ باللہ) شہید کرے گا۔ جب رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو اس کی یہ بات پہنچی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے فرمایا: ان شاءاللہ وہ اسے خود قتل کریں گے۔ غزوہ اُحد کے موقعہ پر وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی طرف جنگی لباس میں ملبوس بڑھا۔ صحابہ کرام Radi Allah Anhum اس کو روکنے کے لیے آگے بڑھے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ان کو منع کیا کہ اس کو آنے دیں۔ جب وہ قریب ہوا تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ابی بن خلف کی طرف نیزہ پھینکا جو اس کی گردن کو چھوتا ہوا گزرا جس سے ایک خراش آئی اور خون نکلنے لگا۔ وہ گھوڑے سے گرا، جانوروں کی طرح آوازیں نکالنے لگا اور کہنے لگا کہ اسے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے قتل کردیا۔ آس پاس کے لوگ اس کو کہنے لگے کہ وہ ایسے ہی گھبرا رہا ہے حالانکہ یہ صرف ایک خراش ہے۔ ابی بن خلف کہنے لگا کہ اگرآج محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) مجھ پر تھوک بھی دیتے تو تب بھی وہ مرجاتا۔ واپسی پر وہ مقام سرف پر مر گیا اور وہیں دفن کردیا گیا۔ 62

جنگ کا تھم جانا

رسول اللہSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور صحابہ کرام Radi Allah Anhum ایک گھاٹی میں اکٹھے ہوگئے اور وہاں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ Radi Allah Anha بھی موجود تھیں۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے ارادہ فرمایا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اوپر ایک پتھر پر تشریف لے جائیں لیکن کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے جسم پر دو زرہیں تھیں اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اوپر نہ چڑھ سکے۔ حضرت طلحہ Radi Allah Anho نے جب یہ ماجرہ دیکھا تو آپ Radi Allah Anhoنیچے بیٹھ گئے اور اپنی پیٹھ آگے کردی۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ان کی پیٹھ پر قدم رکھ کر اوپر چڑھے اور فرمایا کہ طلحہ ( Radi Allah Anho)نے اپنے لیے جنت واجب کردی ہے۔ 63 جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اوپر تشریف لے گئے تو زخموں سے خون نکلنے کی وجہ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے رخسار مبارک خون آلود تھے۔ حضرت فاطمہ Radi Allah Anha نے زخم سے خون صاف کیا لیکن وہ رکا نہیں تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ اس زخم پر رکھی جس سےخون رک گیا۔ حضرت علی Radi Allah Anho پانی لائے اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا چہرہ انور اس سے صاف کیا۔64 پھر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میدان سے پہاڑ پر تشریف لے گئے اور زخموں کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی اور تمام صحابہ کرام Radi Allah Anhum نے بھی بیٹھ کر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ اس دوران کفار اس زعم میں خوشیاں منارہے تھے کہ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور دیگر بڑے صحابہ کرام Radi Allah Anhum شہید ہوچکے ہیں۔ 65

مُثلہ

کفار کی عورتیں جاتے ہوئے مسلمان شہداء کے اجسام کو مُثلہ کرنے لگیں اور ان کےاعضاء کاٹ کر انہیں دھاگوں میں پرونے لگیں۔ ہندہ نے حضرت حمزہ Radi Allah Anho کا پیٹ چاک کیا اور ان کا جگر نکال کر چبانے کی کوشش کی لیکن نہ چبا سکی۔ اس کے بعد ابوسفیان ایک اونچی جگہ کھڑا ہوا اور مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ وہ اپنی میتوں میں کچھ لوگ ایسے پائیں گے جن کا مثلہ کیا گیا ہوگا لیکن اس نے نہ تو اس کا حکم دیا اورنہ اس سے منع کیا۔ نہ وہ اس پر راضی ہے نہ ہی اس پر نادم۔ 66اس کے بعد اس نے زور زور سے نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ، حضرت ابو بکر Radi Allah Anho اور حضرت عمر Radi Allah Anho کو باری باری پکارا لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کو جواب نہیں دیا کیونکہ نبی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےانہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا تھا۔ جواب نہ ملنے پر وہ سمجھا کہ شاید یہ تینوں نفوس ِقدسیہ شہید ہوگئے اس لئے کہنے لگا کہ یہ تینوں تو مارے گئے۔ حضرت عمر Radi Allah Anho یہ سن کر خاموش نہ رہ پائے اور ابو سفیان سے کہنے لگے کہ اللہ کے دشمن تو جھوٹ بولتا ہے،جن کے نام تو نے لیے ہیں وہ سب زندہ ہیں۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہوا ،اور لڑائی تو ایک ڈول ہے یعنی کبھی ایک فریق کے لیے جھکے گی کبھی دوسرے کے لیے۔ پھر اس نے اپنےبتوں کا نعرہ لگایا کہ ہبل زندہ باد جبکہ مسلمانوں نے رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے کہنے پر نعرہ لگایا کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔67 پھر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ مسلمانوں اور کفار کی جنگ برابری کی نہیں ہوئی کیونکہ مسلمانوں کے مقتول جنت میں جائیں گے جب کہ کفار کہ جہنم میں۔ اس کے بعد ابو سفیان واپس جاتے ہوئے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ اگلے سال بدر میں دوبارہ مقابلہ ہوگا۔

لشکرقریش کی واپسی

ابو سفیان اپنے لشکر کے پاس گیا اور واپسی کی تیاریاں کرنے لگا۔ رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت علی Radi Allah Anho کو کفار کے لشکر کی خبر لینے کے لئے بھیجا اور ان کو متنبہ کیا کہ اگر قریش اونٹوں پر سوار ہورہے ہیں اور گھوڑے خالی لے کر جارہے ہیں تو ان کا مکہ کا ارادہ ہے اور اگر گھوڑوں پر سوار ہورہے ہیں اور اونٹ خالی ہیں تو ان کا مدینہ کا ارادہ ہے۔ حضرت علی Radi Allah Anho نے جب دیکھا کہ وہ اونٹوں پر سوار ہورہے ہیں اور گھوڑے خالی ہیں تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کواس بات سے آگاہ فرمایا جس سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam خوش ہوئے اور مسلمانوں میں اطمینان کی فضا پیدا ہوئی۔ اس کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam میدان میں دوبارہ تشریف فرما ہوئے تاکہ شہداء کو دیکھ سکیں اور ان کی تدفین کا بندوبست کر سکیں۔ 68

مسلمان شہداء

غزوہ اُحد میں 70 مسلمان شہید ہوئے۔69 جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam حضرت حمزہ Radi Allah Anho کی میت پر تشریف لے گئے اور آپ Radi Allah Anho کے جسم مبارک کو مثلہ کیا ہوا دیکھا تو بہت غمگین ہوئے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلب مبارک میں انتقام لینے کا ارادہ پیدا ہوا تو اللہ نے قرآن کی ان آیات کا نزول فرمایا:

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ 12670
اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔

اس آیت پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے صبر کیا اور ان کو معاف کیا اور صحابہ کرام Radi Allah Anhumکو مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت حمزہ Radi Allah Anho کی بہن حضرت صفیہ Radi Allah Anha کو ان کے بیٹے نے منع کیا کہ وہ بھائی کی اس حالت کو نہ دیکھیں لیکن انہوں نے صبر کا وعدہ کیا اوربھائی کو دیکھ کر ان کی مغفرت کی دعا کی۔ پھر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے اسی مقام پر شہداء کی تدفین کا حکم دیا۔ 71

شہداء اُحد کی تدفین اور مدینہ واپسی

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے شہدا کا جنازہ ان کے اسی لباس میں پڑھا جس میں وہ شہید ہوئے تھے اور بشارت دی کہ قیامت کے دن وہ اپنے خون اور زخموں کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ حضرت حمزہ Radi Allah Anho کی میت پر تقریبا 70 بار جنازہ پڑھا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام Radi Allah Anhum شہداء کے اجسام کو اٹھا اٹھا کر لاتے اور حضرت حمزہ Radi Allah Anho کے جنازے کے ساتھ رکھتے جاتے جس کی وجہ سے جب اس شہید کا جنازہ پڑھا جاتا تو ساتھ حضرت حمزہ Radi Allah Anho کا جنازہ بھی ادا ہوتا۔ 72تمام شہداء کو نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے حکم کے مطابق ان کی شہادت کی جگہ پر ہی دفن کیا گیا۔ تدفین کے وقت قبروں کو کشادہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ ایک قبر میں دو یا تین لوگوں کو ایک ساتھ دفن کیا جاسکے۔ جوصحابہ کرام Radi Allah Anhum قرآن کریم کا زیادہ حصہ کے حافظ تھے ان کو قبور میں مقدم کیا گیا۔ 73 تدفین کے بعد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مدینہ تشریف لائے اورشہداء کی پسماندگان خواتین کو تسلی دی، رونے والی عورتوں کو منع فرمایا اور حضرت فاطمہ Radi Allah Anha کو تلواریں دھونے کا حکم دیا۔74

منافقین آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی واپسی پر غمگین ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ محمد (Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کوئی نبی نہیں یہ تو بادشاہت کے طالب ہیں، اگر نبی ہوتے تو اتنی تکلیف میں مبتلا نہ ہوتے (نعوذ باللہ)۔ حضرت عمر Radi Allah Anho نے جب یہ سنا تو رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے اجازت چاہی کہ ان کی گردنیں اڑادیں مگر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نےاس سے منع فرمادیا۔

نتیجہ

غزوہ اُحد میں اول مرحلہ میں مسلمانوں کو مکمل فتح حاصل رہی اور مسلمان مجاہدین کے مردانہ وار حملوں نے لشکر کفار کے قدم اکھیڑ ديے یہاں تک کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے لیکن جس جماعت کو تیر اندازی پر مامور کیا گیا تھا وہ دیگر لشکر کے ساتھ مل کر مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئی اور اپنا مورچہ خالی چھوڑ دیا۔ لشکر کفار نے وہاں سے مسلمانوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے مسلمان دونوں جانب سے لشکر کفار کے نرغے میں آگئے اور بھاری جانی نقصان اٹھایا۔ اس کے باوجود صحابہ کرام Radi Allah Anhum نےعشق و وفا کی ايک بے نظیر داستان رقم کی اور رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو حفاظتی حصار میں لیے رکھا اور آہستہ آہستہ ایک طرف جمع ہوئے اور جنگ بندی تک کئی شہادتوں کے بدلے میں رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی حفاظت کرتے رہے۔ غزوہ اُحد میں کسی ایک لشکر کو بھی واضح فتح نہ ہوئی جس کا اعتراف ابوسفیان نے خود کیا کہ یہ جنگ ایک ڈول ہے جس میں کبھی ایک فریق کا پلڑہ بھاری ہوتا ہے اور کبھی دوسرے کا۔


  • 1  ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 130
  • 2  ابو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص:141
  • 3  ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 5
  • 4  ابو زید عمربن شبۃ النمیری البصری، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ، ج-1، مطبوعۃ: طبع علی نفقۃ سید حبیب محمود احمد، جدہ، السعودیہ، لیس التاریخ موجوداً، ص: 79
  • 5  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 346-347
  • 6  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 512
  • 7  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م، ص: 170
  • 8  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص: 182
  • 9  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 295
  • 10  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:242
  • 11  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:183
  • 12  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 522
  • 13  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 184
  • 14  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:183
  • 15  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 184
  • 16  ابو عبداللہ،محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص:208
  • 17  أبو عبداﷲ أحمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 2445، ج-4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:259
  • 18  صفی الرحمن المبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 266-267
  • 19  امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ:دار الفكر، بيروت، لبنان، 1978م، ص:324
  • 20  أبو عبداﷲ أحمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 14787، ج-23، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:100
  • 21  أبو عبد الله محمد بن سعد البصري المعروف بابن سعد، الطبقات الكبرى، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 1990م، ص:29-30
  • 22  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 300
  • 23  ابو عبداللہ،محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 216
  • 24  القرآن، سورۃ آل عمران 3: 167
  • 25  ، القرآن، سورۃ آل عمران 3: 179
  • 26  القرآن، سورۃ النساء 4: 88
  • 27  أبو عبداﷲ أحمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:21599 ، ج-35، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:477
  • 28  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 190
  • 29  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4043 ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:684
  • 30  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:191
  • 31  ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السيرة النبوية وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص:222
  • 32  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:303
  • 33  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:2847 ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:471
  • 34  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص:304
  • 35  أبو بكر أحمد بن عمرو العتكي البزار، مسند البزار، حدیث: 979، ج-3، مطبوعة: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009 م، ص:193
  • 36  ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:6508، ج-7، مطبوعۃ: مكتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1994م، ص: 104
  • 37  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م،ص: 216
  • 38  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م،ص:308-307
  • 39  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4072، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:689
  • 40  ابوالفتح محمد بن محمد الربعی، عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، دار القلم، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 17
  • 41  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-2، المطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 410-411
  • 42  ابوالفتح محمد بن محمد الربعی، عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، دار القلم، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 19
  • 43  أبو العباس أحمد بن علي المقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلميۃ، بيروت، لبنان، 1999 م، ص:145-144
  • 44  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 203
  • 45  القرآن، سورۃ آل عمران3: 153
  • 46  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:309
  • 47  شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 201
  • 48  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن قیم الجوزی، سیرۃ خیرالعباد، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:138
  • 49  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:198-197
  • 50  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة،ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م، ص: 239
  • 51  ایضاً
  • 52  ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 317
  • 53  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص:378
  • 54  یوسف بن البر النمری، الدرر في اختصار المغازي والسير، مطبوعۃ: دار المعارف، القاهرة، مصر، 1403ھ، ص: 149
  • 55  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص: 378
  • 56  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:285-284
  • 57  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص: 385
  • 58  ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن قیم الجوزی، سیرۃ خیرالعباد، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:134
  • 59  ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-1، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 108
  • 60  أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-2، المطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 2012م، ص:417
  • 61  ایضاً، ص:414
  • 62  حسن بن محمد المشاط المالكي، إنارة الدجى في مغازي خير الورى صلى الله عليه وآله وسلم، مطبوعۃ: دارالمنہاج، جدہ السعودیۃ، 1426ھ، ص: 314
  • 63  أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص:380
  • 64  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4075، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:690
  • 65  ابو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص: 127
  • 66  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص: 280
  • 67  أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3039، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 502
  • 68  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1978م، ص:334
  • 69  الحافظ یوسف بن عبدالبر النمری، الدررفي اختصار المغازي والسير، مطبوعۃ: دارالمعارف، القاہرۃ، المصر، 1403ھ، ص:156
  • 70  القرآن، سورۃ النحل 16 : 126
  • 71  ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص: 387
  • 72  أبو العباس أحمد بن علي المقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلميۃ، بيروت، لبنان، 1999 م، ص: 173
  • 73  أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م، ص: 297
  • 74  ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 544-545

Powered by Netsol Online