جس طرح آپ کے فضلات مبارکہ معطر و مبارک اور خاص صفات کے حامل تھےاسی طرح آپ کے فضلات مبارکہ پاک و مطہر بھی تھے۔ جس طرح آپ کی خلقت بے مثل و بے مثال تھی اسی طرح آپ کے جسم طاہر سے خارج ہونے والی چیزیں مثلاً خون، بول و براز بھی منفرد اور ممتاز تھے۔جس کی تفصیل ماقبل سطور میں گذر چکی ہے۔ جمہور علماء کرام نے ان فضلات مبارکہ کو پاک مانا ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں محققین علماء کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ قیاس کے بجائے دلائل و شواہد کی روشنی میں یہ مسئلہ واضح ہوجائے کہ یہ قول کوئی شاذ وغیرمحقق نہیں بلکہ ائمہ اربعہ اور دیگر جلیل القدر ائمہ کے اقوال اور بعض کی رائے میں یہ مجمع علیہ قول ہے۔
اس حوالہ سے امام نووی شافعی فرماتے ہیں:
جن علماء نے فضلات نبوی کو طاہر قرار دیا ہے اُنہوں نے دو معروف حدیثوں سے دلیل حاصل کی ہے۔ ان میں ایک حدیث ابو طیبہ ہے، کیونکہ ابوطیبہ نےآپکا دم مبارک پی لیا تھا اور آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی تھی، اور ایک خاتون نے آپکا بول مبارک نوش کیا تھا تو آپ نے اس پر بھی نکیر نہیں فرمائی۔ حدیثِ ابو طیبہ ضعیف ہے اور خاتون نے جو بول مبارک پیا تھا وہ حدیث صحیح ہے۔ امام دارقطنی نے اس کو بیان کرکے صحیح کہا ہے اور ازروئے قیاس یہی ایک حدیث تمام فضلات کی طہارت کی دلیل کے لیے کافی ہے۔اگلے الفاظ کی عبارت ملاحظہ ہو:
وموضع الدلالة انه صلى اللّٰه علیه وسلم لم ینكر علیھا ولم یامر بغسل فمھا ولانھاھا عن العود الى مثله.1
اور مقام دلیل یہ ہے کہ نبی کریم نے نہ تو اُس خاتون پر نکیر فرمائی، نہ اُسے منہ دھونے کا حکم دیا اور نہ ہی اُسے آئندہ ایسا کرنے سے منع کیا۔
امام نووی نے اپنی ایک اور کتاب میں لکھا ہے کہ نبی کریم کے بول اور خون سے برکت حاصل کی جاتی تھی۔2
امام تاج الدین سبکی شافعی اپنے والد امام تقی الدین علی بن عبد الکافی سبکی شافعی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
وان فضلات النبى صلى اللّٰه علیه وسلم طاھرة وھو راى ابى جعفر الترمذى.3
اور بے شک نبی کریم کے فضلات شریفہ طاہر ہیں اور یہ امام ابو جعفر ترمذی کی رائے ہے۔
امام تقی الدین سبکی حدیث بالمعنی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وھذا یؤید قول ابى جعفر الترمذى من اصحابنا بطھارة فضلاته صلى اللّٰه علیه وسلم وورد حدیث مرفوع ان الارض تبلع ما یخرج من الانبیاء فلا یرى منه شىء وانا اختیار فى ھذه المسالة قول ابى جعفر الترمذى بالطھارة وان كان المشھور عند اصحابنا خلافه لحدیث التى شربت بوله وھو صحیح.4
فضلاتِ نبوی کی طہارت کے قول میں یہ حدیث ہمارے مشائخ میں سے امام (محمد بن احمد بن نصر) الترمذی کی تائید کرتی ہے، اور اس سلسلے میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے کہ انبیاء کرامکے اجسام مبارکہ سے جو کچھ نکلتا ہے زمین اسے نگل جاتی ہے، اور میں اس مسئلہ میں امام ابو جعفر ترمذی کے قول کو اختیار کرتا ہوں، اس حدیث کے پیش نظر کہ ایک خاتون نے آپ کا بول مبارک پی لیا تھا، اور وہ صحیح حدیث ہے، اگرچہ ہمارے اصحاب (شافعیہ) کے نزدیک مشہور قول اس کے خلاف ہے۔
علامہ ابن حجر مکی ہیتمی فرماتے ہیں:
ایک غریب حدیث میں ہے نبی اکرم کے جسمِ اطہر سے جو کچھ خارج ہوتا تھا زمین اسے نگل جاتی تھی اور اس بات کی حافظ عبد الغنی مقدسی نے تائید فرمائی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی صحابی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ اس نے آپ کا براز دیکھا ہوبخلاف بول کے:
فانھم یستثفون به كدمه صلى اللّٰه علیه وسلم ومن ثم اختار جماعة ائمتنا رضى اللّٰه عنھم طھارةجمیع فضلاته صلى اللّٰه علیه وسلم.5
صحابۂ کرام آپ کے بول مبارک سے اسی طرح شفا حاصل کرتے تھے جس طرح آپ کے خون سے، اور ہمارے متاخرین ائمہ شافعیہ نے حضور کے جمیع فضلات شریفہ کی طہارت کا مذہب اختیار کیا ہے۔
یہی امام ابن حجر مکی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
واختار جمع متقدمون ومتاخرون طھارة فضلاته صلى اللّٰه علیه وسلم واطالوا فیه.6
تمام متقدمین اور متاخرین نے حضور کے فضلات شریفہ کی طہارت کے مذہب کو اختیار کیا ہے اور اس میں انہوں نے تفصیلی دلائل دیے ہیں۔
نیز اپنی تیسری کتاب میں لکھتے ہیں:
وبھذا استدل جمع من ائمتنا المتقدمین وغیرھم على طھارة فضلاته صلى اللّٰه علیه وسلم وھو المختار وفاقا لجمع من المتاخرین فقد تكاثرت الادلة علیه وعدہ الائمة من خصائصه.7
ان احادیث سے ہمارے متقدمین کی جماعت اور دوسرے علماء نے فضلاتِ نبوی کی طہارت کی دلیل لی ہے، یہی پسندیدہ مذہب ہے اور اس پر متاخرین کا اتفاق ہے، سوبلاشبہ اس پر بکثرت دلائل موجود ہیں اور ائمہ نے اس بات کو خصائص نبویہ میں شمار کیا ہے۔
امام سیوطی "انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب" میں لکھتے ہیں:
طھارة دمه وبوله غائطه وسائر فضلاته تشرب ویستشفى بھا.8
آپ کا خون،بول،براز اور تمام فضلات پاک تھے، انہیں پیا جاتا تھا اور ان سے شفا حاصل کی جاتی تھی۔
نیز امام سیوطی نے اپنی کتاب "کفایۃ الطالب اللبیب فی خصائص الحبیب" المعروف "الخصائص الکبریٰ" میں وہ تمام احادیث جمع کی ہیں جو حضور کے خون، بول، براز اور تمام فضلات شریفہ کی طہارت پر دلالت کرتی ہیں اور ان پر یہ ابواب قائم فرماتے ہیں:
باب الایة فى دمه صلى اللّٰه علیه وسلم. 9
آپ کے خون مبارک میں معجزہ کا باب۔
باب الاستشفاء ببوله صلى اللّٰه علیه وسلم.10
حضور کے بول مبارک سے شفا حاصل کرنے کا باب۔
امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں:
سیدہ عائشہ صدیقہ نے حضور سے سوال کیا یا رسول اﷲ! آپ بیت الخلاء جاتے ہیں تو ہم آپ کی اس جگہ سے مشک کی خوشبو سونگھتے ہیں اور وہاں کوئی اثر نہیں پاتے۔آپ نے فرمایا ہم جماعتِ انبیاء ہیں ہمارے جسم اہلِ جنت کی روحوں کی مثل ہیں اور زمین کو حکم دیا گیا ہے کہ ہمارے اجسام سے جو کچھ نکلے وہ اسے نگل جائے۔ہمارے شیخ نے فرمایا یہ حدیث ان علماء کی تائید کرتی ہے جو فضلات شریفہ کی طہارت کے قائل ہیں، اور حضور کا اس عمل کو مقرر رکھنا اور اُم ایمن کو بول پینے پر نہ ٹوکنا ان علماء کی تائید کرتا ہے۔11
ایک اور مقام پر امام شعرانی فرماتے ہیں:
وخص بطھارة دمه وسائر فضلاته بل شرب بوله شفاء.12
خون،بول اور تمام فضلات کا پاک ہونا حضور کی خصوصیت ہے، بلکہ آپ کا بول پینا شفا ہے۔
شیخ الاسلام ابو یحییٰ زکریا انصاری شافعی لکھتے ہیں:
وكان یتبرك ویستشفى ببوله ودمه.13
اور حضور کے بول اور خون مبارک سے برکت اور شفاء حاصل کی جاتی تھی۔
امام خیضری امام نووی کے حوالہ سے تحریرفرماتے ہیں:
وموضع الدلالة انه صلى اللّٰه علیه وسلم لم ینكر علیھا ولا امرھا بغسل الفم ولانھاھا عن العود الى مثله، ثم قال ان القاضى الحسین قال الاصح القطع بطھارة الجمیع انتھى قلت واختاره جماعة من متاخرى اصحابنا وانا قائل به ومن حمل الاحادیث فى ذلك على التداوى به قلنا له قد اخبر صلى اللّٰه علیه وسلم ان اللّٰه لم یجعل شفاء امتى فیما حرم علیھا فلا یصح حمل الاحادیث على ذلك بل ھى ظاھرة فى الطھارة.14
مقام استدلال یہ ہے کہ نبی کریم نے خاتون پر نکیر نہیں فرمائی اور نہ اسے منہ دھونے کا حکم فرمایا اور نہ آئندہ ایسا کرنے کی ممانعت فرمائی۔ پھر امام نووی نے فرمایا قاضی حسین نے فرمایا ہے کہ صحیح ترین مذہب تمام فضلات کی قطعی طہارت ہے، امام نووی کی عبارت ختم ہوئی۔میں (خیضری ) کہتا ہوں اور اسی کو ہمارے متاخرین کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں اور جس شخص نے احادیث کو علاج پر محمول کیا ہے ہم اسے کہتے ہیں کہ نبی کریم نے اطلاع دی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے میری امت کی شفا اس چیز میں نہیں رکھی جو اس پر حرام کردی ہے۔ لہٰذا ان احادیث کو علاج پر محمول کرنا درست نہیں بلکہ یہ احادیث فضلات کی طہارت میں واضح ہیں۔
شیخ محمد شربینی شافعیلکھتے ہیں:
وھذه الفضلات من النبى صلى اللّٰه علیه وسلم طاھرة كما جزم به البغوى وغیره وصححه القاضى وغیره وافتى به شیخى خلافا لما فى الشرح الصغیر والتحقیق من النجاسة لان بركة الحبشیة شربت بوله صلى اللّٰه علیه وسلم فقال لن تلج النار بطنك صححه دارقطنى وقال ابو جعفر الترمذى دم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم طاھر لان ابا طیبة شربه وفعل مثل ذلك ابن الزبیر وھو غلام حین اعطاه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم دم حجامته لیدفنه فشربه فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من خالط دمه دمى لم تمسسه النار.15
اور نبی کریم کی ذات اقدس سے خارج ہونے والے فضلات طاہر تھے جیسا کہ امام بغوی اور دوسرے علماء نے قطعیت کے ساتھ کہا ہے اور قاضی حسین اور دوسرے فقہاء نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے، اور میرے شیخ نے اسی پر فتویٰ دیا ہے۔بخلاف اس کے جو شرح "صغیر" اور " تحقیق" میں نجاست کا قول ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ برکہ حبشیہ نے حضور کا بول مبارک نوش کیا تو آپ نے فرمایا تیرا پیٹ آگ میں داخل نہ ہوگا۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے صحیح کہا ہے اور ابو جعفر ترمذی فرماتے ہیں نبی کریم کا خون پاک تھا کیونکہ ابو طیبہ نے اس کو نوش کیا اور اسی طرح حضرت عبداﷲ بن زبیر نے بھی کیا تھا، جب وہ لڑکے تھے، حضور نے پچھنے لگوا کر وہ خون اُنہیں دفن کرنے کے لیے دیا تھا تو انہوں نے پی لیا تھا اس پر نبی کریم نے انہیں فرمایا تھا جس کے خون میں میرا خون شامل ہوگیا اُسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی کے استاد شیخ ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن الحسین عراقی کی سیرۃ النبی میں ایک منظوم تالیف ہے، اس میں وہ فرماتے ہیں:
وبوله ودمه اذ اتیا
تبركا من شارب مانھیا.16
اور آپکے بول اور خون کو جب لایا گیا تو وہ پینے والے کے حق میں تبرک ہوگئے، کیونکہ اُن سے روکا نہیں گیا۔
اس شعر کی تشریح میں امام زین الدین مناوی شافعی فرماتے ہیں:
حضور کا بول اور خون تبرک ہیں، ان کو پینے والے حضرات کو منع نہیں کیا گیا اسی لیے فقہاء شافعیہ رحمہم اﷲ کے جم غفیر کے نزدیک آپکے تمام فضلات شریفہ طاہر ہیں۔17
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی فرماتے ہیں:
وكان یستشفى ویتبرك ببوله ودمه.18
حضور نبی کریم کے بول اور خون مبارک سے شفا اور برکت حاصل کی جاتی تھی۔
اپنی دوسری کتاب میں امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
والحق ان حكمه جمیع المكلفین فى الاحكام التكلیفیة الا فیما خص بدلیل وقد تكاثرت الادلة على طھارة فضلاته وعد الائمة ذلك فى خصائصه فلا یلتفت الى ما وقع فى كتب كثیر من الشافعیة مما یخالف ذلك فقد استقر الامر بین ائمتھم على القول بالطھارة.19
اور حق یہ ہے کہ احکام تکلیفیہ میں نبی کریم کا حکم تمام مکلفین کی طرح ہے مگر یہ کہ جو خصوصیت دلیل سے ثابت ہو، اور واقعی آپ کے فضلات کی طہارت پر بکثرت دلائل موجود ہیں، اور ائمہ عظام نے فضلات شریفہ کی طہارت کو آپ کے خصائص میں شمار کیا ہے۔ لہٰذا جو شافعیہ کی بہت سی کتب میں اس کے خلاف لکھا ہوا ہے وہ لائق التفات نہیں کیونکہ ان کے ائمہ کے درمیان معاملہ فضلات شریفہ کی طہارت کے قول پر آٹھہرا ہے۔
مالکی فقہاء کرام رحمہم اﷲ کا مذہب بھی یہی ہے کہ نبی کریم کے فضلات شریفہ طاہر تھے۔
امام قاضی عیاض مالکی لکھتے ہیں:
بان منیه وسائر فضوله صلى اللّٰه علیه وسلم عندھم طاھرة على احد القولین.20
نبی کریم کی منی اور آپ کے تمام فضلات شریفہ فقہاء مالکیہ کے ایک قول کے مطابق طاہر ہیں۔
شیخ محمد علیش مالکی انسانی فضلات کی نجاست کی تفصیل میں لکھتے ہیں:
الا الانبیاء علیھم الصلوٰة والسلام ففضلتھم طاھرة ولو قبل بعثتھم لاصطفائھم واستنجاء ھم كان للتنظیف والتشریع.21
ماسوا انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے پس اُن کے فضلات طاہر ہیں، اگرچہ ان کی بعثت سے قبل ہی ہوں، ان کی برگزیدگی کے باعث، اور ان کا استنجاکرنا نظافت اور تشریع کے لیے ہے۔
عارف باﷲ شیخ احمد صاوی لکھتے ہیں:
ان فضلات الانبیاء طاھرة واستنجاء ھم تنزیه وتشریع ولو قبل النبوة لاصطفائھم من اصل الخلقة وان المنى الذى خلقت منه الانبیاء طاھر بلاخلاف بل جمیع ما تكون من اصول المصطفى صلى اللّٰه علیه وسلم طاھر ایضا.22
یقینا انبیاء کرام کے فضلات شریفہ طاہر ہیں اور ان کا استنجاء تنزیہ اور تشریع کے لیے ہے۔ اگرچہ قبل از اعلان نبوت ہو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو چن لیا ہے اور بے شک وہ مادہ جس سے انبیاء کرامکی تخلیق ہوئی بلا اختلاف طاہر ہے بلکہ مصطفی کے جمیع آباؤ واجداد کا مادہ(یعنی وہ خاص مادہ جو منتقل فی الارحام ہوتا رہا)وہ طاہر ہے۔
حنبلی فقہاء کرام رحمہم اﷲ کا مذہب بھی یہی ہے کہ نبی کریم کے فضلات شریفہ طاہر تھے۔
امام حافظ عبد الغنی تقی الدین حنبلی المقدسی سے دریافت کیا گیا:
ھل روى انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان ما یخرج منه تبتلعه الارض؟ فقال قد روى ذلك من وجه غریب والظاھر یؤیده فانه لم یذكر عن احد من الصحابة انه راه ولاذكره واما البول فقد شاھده غیر واحد وشربته ام ایمن.23
کیا ایسی کوئی روایت ہے کہ نبی کریم کے جسمِ اطہر سے جو کچھ نکلتا تھا اُسے زمین نگل جاتی تھی؟ اُنہوں نے فرمایا ہاں ایک ضعیف حدیث ہے اور ظاہربھی اُس کی تائید کرتا ہے، کیونکہ کسی صحابی سے یہ ثابت نہیں کہ اُس نے براز نبوی کو دیکھا ہو اور نہ کسی صحابی نے اُسے دیکھنے کا ذکر کیا ہے لیکن بول مبارک متعدد صحابۂ کرام نے دیکھا ہے اور حضرت اُم ایمن نے اُسے پیا ہے۔
علامہ مرداوی حنبلی نے انسان کے مرنے کے بعد اس کے جسم کے اجزاء کے پاک ہونے یا نجس ہونے پر طویل بحث کی ہے اور اس کے آخر میں لکھا ہے:
تنبیه محل الخلاف فى غیر النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فانه لا خلاف فیه قلت و على قیاسه سائر الانبیاء علیھم الصلوٰة والسلام وھذا مما لاشك فیه .24
خبردار! یہ اختلاف غیر نبی انسان میں ہے، نبی کریم اس اختلاف سے مستثنیٰ ہیں۔ میں کہتا ہوں اور اسی طرح تمام انبیاء کرام اس اختلاف سے مستثنیٰ ہیں اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔
حنفی فقہاء کرام رحمہم اﷲ کا مذہب بھی یہی ہے کہ نبی کریم کے فضلات شریفہ طاہر تھے۔
امام ابن عابدین شامی انسانی فضلات کی نجاست کی توضیح میں لکھتے ہیں:
تنبیه :صحیح بعض ائمة الشافعیة طھارة بوله صلى اللّٰه علیه وسلم وسائر فضلاته وبه قال ابو حنیفة كما نقله فى (المواھب اللدنیة ) عن (شرح البخارى) للعینى.25
تنبیہ: بعض ائمہ شافعیہ رحمہم اﷲ نے نبی کریم کے بول اور تمام فضلات شریفہ کی طہارت کی صحت بیان فرمائی ہے اور یہی امام اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے، جیسا کہ "المواھب اللدنیۃ" میں امام عینیکی شرح بخاری سے منقول ہے۔
محدث احناف امام عینی نے یہ قول عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں نقل کیا ہے لکھتے ہیں:
بعض لوگوں نے کہا کہ وہ احادیث (جن میں ذکر ہے کہ صحابۂ کرام حضور کے وضو کے مستعمل پانی کو تبرک کے طور پر استعمال کرتے تھے، امام ابو حنیفہ کے رد میں ہیں) کیونکہ امام ابو حنیفہ مستعمل پانی کو نجس کہتے ہیں اور نجس چیز تبرک نہیں ہوا کرتی۔
علامہ عینی فرماتے ہیں معاند نے یہ غلط کہا ہے، کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ نے ہرگز ایسی بات نہیں کہی:
وكیف یقول ذلك وھو یقول بطھارة بوله وسائر فضلاته ؟.26
اور وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جبکہ وہ حضور کے بول اور تمام فضلات شریفہ کو طاہر فرماتے ہیں؟
محدثِ احناف امام بدر الدین عینی حنفی فرماتے ہیں:
اور بعض علماء نے کہا ہے کہ احکامِ تکلیفیہ میں نبی کریم کا حکم تمام مکلفین کی طرح ہے مگر یہ کہ جو خصوصیت دلیل سے ثابت ہو۔ اس سے آگے امام عینی فرماتے ہیں:
قلت یلزم من ھذا ان یكون الناس مساویین للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم ولا یقول بذلك الا جاھل غبى واین مرتبته من مراتب الناس؟ ولا یلزم ان یكون دلیل الخصوص بالنقل دائما والعقل له مدخل فى تمییز النبى علیه الصلوٰة والسلام من غیره فى مثل ھذه الاشیاء وانا اعتقد انه لا یقاس علیه غیره وان قالوا غیر ذلك فاذنى عنه صماء.27
میں کہتا ہوں اس سے یہ بات لازم آئے گی کہ لوگ نبی کریم کے برابر ہوجائیں اور یہ بات کوئی جاہل غبی ہی کہہ سکتا ہے۔ بھلا کہاں آپکا مرتبہ اور کہاں لوگوں کے مراتب اور یہ لازمی نہیں کہ خصوصیت کی دلیل ہمیشہ نقل سے ثابت ہو بلکہ نبی کریم کو ممتاز کرنے کے لیے ایسے اُمور میں عقل کو بھی دخل ہے اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم پر دوسروں کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اور اگر وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کہیں تو میرے کان اس سے بہرے ہیں۔
علامہ عینی کا یہ کلام محبتِ مصطفی سے لبریز ہے، لفظ لفظ سے محبت جھلکتی نظر آتی ہے یہ جملہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے :
وان قالوا غیر ذلك فاذنى عنه صماء.28
اور اگر وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کہیں تو میرے کان اس سے بہرے ہیں۔
یہ وہ محبت ہے جس کے متعلق حدیث پاک میں آیا ہے:
حبك الشىء یعمى ویصم.29
کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔
محب کو محبوب کی برائی نظر آتی ہے اور نہ ہی وہ اسے سن سکتا ہے، یہی کیفیت امام بدر الدین عینی کی تھی۔
بعض اوقات نبی کریم کے کپڑوں پر لگی ہوئی منی کو دھویا نہیں جاتا تھا بلکہ کھرچ دیا جاتا تھا، اس کی توجیہ میں علامہ حلبی حنفی لکھتے ہیں:
وھى محتملة لكون المنى قلیلا ولكونه مخصوصا علیه الصلوة والسلام على ما قیل ان فضلاته علیه الصلوة والسلام طاھرة.30
احتمال ہے کہ وہ منی قلیل ہوگی اور اس لیے بھی کہ یہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خصوصیت ہے، اس قول کے مطابق کہ آپ کے تمام فضلات شریفہ طاہر ہیں۔
اس سے ذرا آگے لکھتے ہیں:
اختصاصه بطھارة الفضلات حتى الدم والبول على ما صححه القاضى حسین وغیره.31
خون اور بول سمیت تمام فضلات کی طہارت حضور کی خصوصیت ہے، جیسا کہ قاضی حسین اور دوسرے فقہاء کرام رحمہم اﷲ نے اس کی صحت بیان فرمائی ہے۔
مذکورہ بالا تمام حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کے فضلات مبارکہ پاک و صاف اور شفاف ہیں۔جن کی ہیئت وکیفیت عالمین میں جداگانہ ہے۔
جنت کی طہارت کا یہ مقام ہے کہ کسی شخص کو اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا جب تک کہ اس کے ظاہر و باطن کو پاک ومزکی نہ کیا جائے گا چنانچہ اکثر مفسرین کرام نے سورۃ الزمر کی آیت نمبر (73) کے تحت یہ حدیث لکھی ہے:
جب جنتیوں کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا تو وہ جنت کے قریب دروازہ جنت کے باہر ایک درخت پائیں گے،جس کے نیچے سے دوچشمے جاری ہوں گے ایک چشمہ سے وہ پئیں گے تو ان کے باطن سے ہر قذورت اور دناست ونجاست صاف ہوجائے گی اور دوسرے سے غسل کریں گے تو ان کا ظاہر مکمل طور پر صاف ہوجائے گا۔ 32
لیکن حضور اکرم کا معاملہ سب سے جدا ہے اس لیے کوئی پانی خواہ جنت کا ہی کیوں نہ ہوحضور کی مزید طہارت کا سبب نہیں ہوسکتا بلکہ جو پانی حضور کے استعمال میں آجائے اس کی پاکیزگی اور شان دوبالا ہوجاتی ہے اور پھر اس کے حصول میں صحابۂ کرام اس قدر جلدی کرتےتھے کہ وہ قریب بہ جنگ ہوجاتے تھے۔ معلوم ہوا کہ ہر چیز مزید طہارت ونفاست کے لیے پانی کی محتاج ہے لیکن حضور اکرم کی عظمت اس سے وراء ہے۔ اسی لیے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ جو پانی آپ کے جسمِ اطہر سے نکلا وہ دوسرے تمام پانیوں سے افضل ہے ۔چنانچہ امام ابن حجر مکی ایک بحث میں فرماتے ہیں کہ ماء کوثر سے آبِ زم زم افضل ہے اور پھر اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لانه به غسل صدر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولا یكون یغسل الا بافضل المیاه لكن تقدم ان افضل المیاه من بین اصابعه صلى اللّٰه علیه وسلم.33
اس لیے کہ اس سے رسول اﷲ کا سینہ اقدس دھویا گیا اور آپ کا صدر اقدس نہیں دھویا گیا مگر افضل پانی سے ہی لیکن تمام پانیوں سے افضل پانی وہ ہے جو خود نبی کریم کی مقدس انگلیوں کے درمیان سے جاری ہوا۔
اسی طرح امام فاسی لکھتے ہیں:
قال البلقینى ان ماء زمزم افضل من ماء الكوثر لغسل قلبه صلى اللّٰه علیه وسلم به فكیف بما خرج من ذاته صلى اللّٰه علیه وسلم.34
امام بلقینی نے فرمایا کہ آبِ زم زم آبِ کوثر سے افضل ہے اس لیے کہ اس سے صاحب معراج کا قلب اقدس دھویا گیا پھر اس پانی کا کیا مرتبہ ہوگا جو خود آپ کی ذاتِ اقدس سے خارج ہوا ؟۔
متذکرہ بالا تمام احادیث مبارکہ ،تمام اقوال اور صحابۂ کرام کے عمل سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم کے فضلات مبارکہ کسی بھی قسم کی آلائش و گندگی اور کثافت و گراوٹ سے منزہ و مبرا تھے۔نہ صرف یہ بلکہ آپ جو سر تاپا اللہ رب العزت کی تخلیق کا شاہکار اعظم ہیں اور ایسا شاہکار کے جس کی مثل نہ تھی اور نہ ہوسکتی ہے۔ ایسی ذات کے فضلات مبارکہ انتہائی اعلی درجہ کے لطیف و معطر تھے۔جن کی ہیئت ، کیفیت و بناوٹ، رنگ و بو الغرض ہر ہر صفت ایک علیحدہ ومنفردحیثیت کی حامل تھی، جو عالمین میں سے کسی کے لیے بھی روا نہ ہوسکتی تھی۔یہ فضلات مبارکہ وہی ہیں جن سے صحابۂ کرام نے کئی طرح کے فوائد وثمرات حاصل کیے ہیں جس کا تفصیلی ذکر ماقبل میں گزرچکاہے۔آخر میں تاکیدًا پھر اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ اجسادِ انبیاء کرام عام انسانوں سے ان معنوں میں یکسر مختلف تھے کہ ان کے احکامات ومعاملات عام انسانوں سے جدا تھےباوجود اس کے کہ وہ بظاہرعام انسانوں جیسے ہی تھے۔نبی کریم کے فضلاتِ مبارکہ کے حوالہ سے صحابۂ کرام نے شرعی حوالہ سے تو بہت دور کی بات کبھی طبعی کراہیت بھی محسوس نہ فرمائی تھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ اگر آج کا کوئی انسان بھی بحالتِ ایمان ا س دور میں ہوتا تو اس کی بھی یہی کیفیت ہوتی۔اگر آج کسی بھی اعتبار سے کوئی بھی ان فضلات کے حوالہ سے طبعی کراہت محسوس کرتا ہے تو اس کی وجہ بعد ِ زمانہ اور آپ کے فضلاتِ مبارکہ کا عدمِ مشاہدہ ہے ورنہ تقاضۂ ایمانی آج بھی ان کی طہارت وپاکیزگی کا متحمّل اور خوگر ہے۔واللہ اعلم۔