encyclopedia

آپ ﷺ کی ریزش مبارک

Published on: 23-Dec-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 59، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 928-930)

کوئی کتنا ہی بزرگ اور کیسا ہی محبوب کیوں نہ ہو لیکن طبعی اور فطری طور پر اس کے فضلات بول وبراز، پسینہ، رینٹھ، تھوک وغیرہ موجبِ نفرت ہی ہوتے ہیں۔ عقیدت اور چیز ہے لیکن کثیف اور غلیظ چیزوں سے طبعی طور پر نفرت کا ہونا امرِ طبعی ہے ۔ صحابۂ کرام Alaihmas Salamحضورنبی کریم Alaihmas Salamکے فضلات شریفہ، بول وبراز وپسینہ کورغبت اور چاہت کے ساتھ حاصل کرتے تھے، حضور Alaihmas Salamکے لعاب مبارک اور بینی مبارک کی ریزش کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے تھے۔ صحیح البخاری شریف "کتاب الشروط" کے باب "الشروط فی الجہاد والمصالحۃ مع اھل الحرب وکتابۃ الشروط" میں ایک طویل حدیث میں واقعہ حدیبیہ کا بیان ہے اس حدیث میں حضرت عروہ بن مسعود کو کفار مکہ کا حضور نبی کریم Alaihmas Salamکی طرف گفتگو کے لیے بھیجنے اور عروہ کا واپس آکر وہاں کے حالات کا بیان ہے۔ اس کا کچھ حصہ ملاحظہ فرمائیں:

وجعل یكلم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فكلما تكلم اخذ بلحیته والمغیرة بن شعبة قائم على راس النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومعه السیف و علیه المغفر فكلما اھوى عروة بیده الى لحیة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ضرب یده بنعل السیف وقال له آخر یدك عن لحیة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم…الخ. فرجع عروة الى اصحابه فقال اى قوم واللّٰه لقد وفدت على الملوك ووفدت على قیصر وكسرى والنجاشى واللّٰه ان رایت ملكا قط یعظمه اصحابه ما یعظم اصحاب محمد محمداً صلى اللّٰه علیه وسلم ان تنخم نخامة الا وقعت فى كف رجل منھم فذلك بھا وجھه وجلدہ واذا امرھم ابتدروا امره واذا توضا كادوا یقتتلون على وضوئه واذا تكلم خفضوا اصواتھم عنده وما یحدون الیه النظر تعظیماً له … الخ.1
(اس حدیث مبارکہ کو روایت کرنے والے حضرت مسور بن مخرمہAlaihmas Salam فرماتے ہیں) پھر وہ (عروہ بن مسعود) نبی پاک Alaihmas Salamسے بات کرررہا تھا وہ جب بھی بات کرتا تو آپ Alaihmas Salamکی مبارک ڈاڑھی کو پکڑتا اور حضرت مغیرہ بن شعبہAlaihmas Salam حضور نبی کریم Alaihmas Salamکے سر کے پاس کھڑے ہوئے تھے ان کے پاس تلوار تھی اور ان کے سر پر خود تھا پس جب بھی عروہ اپنا ہاتھ نبی پاک Alaihmas Salamکی مبارک ڈاڑھی کی طرف لے جاتا وہ اپنی تلوار کے پچھلے حصہ کو اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے کہ رسول اﷲ Alaihmas Salamکی مبارک ڈاڑھی سے اپنا ہاتھ پیچھے کرو… الخ۔پھر عروہ اپنی قوم کی طرف واپس گئے اور کہا: اے لوگو! اﷲ کی قسم! میں بادشاہوں کے پاس گیا ہوں اور میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس گیا ہوں اور اﷲ کی قسم! میں نے ہرگز نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کی اس کے لوگ اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم (سیدنا) محمد ( Alaihmas Salam) کے اصحاب (سیدنا) محمد ( Alaihmas Salam) کی کرتے ہیں وہ جب بھی بلغم تھوکتے ہیں تو وہ ان میں سے کسی نہ کسی مرد کے ہاتھ میں آجاتا ہے وہ اس بلغم کو اپنے چہرے اور اپنے بدن پر ملتا ہے اور جب وہ ان کو کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو وہ سب اس کی تعمیل میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ وضو ء کرتے ہیں تو وہ ان کے وضوء کا بچا ہوا پانی لینے کے لیے اس طرح جھپٹتے ہیں گویا ایک دوسرے کو قتل کردیں گے اور جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے سامنے وہ سب اپنی آوازوں کو پست کردیتے ہیں اور وہ ان کی تعظیم کے لیے ان کو نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔

صحابۂ کرام Alaihmas Salamکیسی رغبت اور شوق کے ساتھ حضور Alaihmas Salam ریزش بینی کو اپنے بدن اور چہروں پر ملتے تھے۔ امام بیہقی Alaihmas Salamکی روایت میں یہی بات یوں مذکور ہے:

فواللّٰه ما تنخم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم نخامة الا وقعت فى كف رجل منھم فدلك بھا وجھه وجلده.2
خدا کی قسم حضور Alaihmas Salamنے بینی مبارک کی کوئی ریزش نہیں پھینکی لیکن وہ کسی صحابی کی ہتھیلی پر پڑی جس کو اس نے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔

امام بدر الدین عینی حنفی Alaihmas Salamاس کی پاکی کےحکم کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فیه طھارة النخامة والشعر منفصل.3
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناک کی ریزش اور جو بال جسم سے جدا ہوں وہ پاک ہیں۔

اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی شافعیAlaihmas Salam فرماتے ہیں:

وفیه طھارة النخامة والشعر والمنفصل والتبرك بفضلات الصالحین الطاھرة.4
اس حدیث میں ریزش اور جدابال کی طہارت کا ثبوت ہے اور صالحین کے فضلات طاہرہ سے تبرک حاصل کرنے کا ثبوت ہے۔(مگر فرقِ مراتب کے لحاظ کے ساتھ)

ان روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اقدس Alaihmas Salamکی بینی مبارک کی ریزش بھی پاک و صاف تھی اور صحابۂ کرام Alaihmas Salamاس کو تبرک کے طور پر اپنے ہاتھوں اور جسموں پر ملا کرتے تھے۔


  • 1  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث :2731، ج -3، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:193
  • 2  ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 1405 ھ، ص:104
  • 3  محمود بدالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج -14، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:19
  • 4  احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج-5 ،مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:341

Powered by Netsol Online