جس طرح انفس (سب سے بڑھ کر نفیس) الطف (سب سے بڑھ کر لطیف) اور انور (سب سے بڑھ کر نورانی) ہونے کے باعث جسم نبوی سے برآمد ہونے والے دیگر فضلات خوشبودار اور متبرک تھے اسی طرح اس جسم اقدس سے برآمد ہونے والا بول (Urine)مبارک بھی خوشبودار اور متبرک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم کا بول مبارک پی لیا اور انہیں احساس تک نہ ہوا۔کیونکہ اس میں عام جسموں کی طرح کدورت و کثافت کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔
بعض خوش نصیب خواتین نے رسول اکرم کے بول مبارک کو نوش فرمایا۔ جس پر انہیں بارگاہ نبوی سےامراض سے شفایابی اور جہنم سے آزادی کے پروانے ملے۔ ان مقدس خواتین کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
چنانچہ اس حوا لہ سے حضرت ام ایمن بیان کرتی ہیں :
قام النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من اللیل الى فخارة من جانب البیت فبال فیھا فقمت من اللیل وانا عطشى فشربت من فى الفخارة وانا لا اشعر فلما اصبح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال یا ام ایمن قومى الى تلك الفخارة فاھریقى ما فیھا قلت قد واللّٰه شربت ما فیھا قال فضحك رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذة ثم قال اما انك لا یفجع بطنك بعده ابدا.1
رسول اﷲ نے گھر کے ایک جانب مٹی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اورآپ رات کو اٹھ کر اس میں بول مبارک کرتے تھے۔ ایک رات میں اٹھی مجھے پیاس لگ رہی تھی میں نے اس برتن سے پی لیا اور مجھے پتا نہیں چلا (کہ یہ بول مبارک ہے) جب صبح ہوئی تو نبی کریم نے فرمایا اے ام ایمن! اس مٹی کے برتن کو اٹھاؤ اور اس میں جو کچھ ہے اس کو پھینک دو میں نے کہا اﷲ کی قسم! اس میں جو کچھ ہے اس کو میں نے پی لیا تو رسول اﷲہنسے حتیٰ کہ آپ کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں پھر آپ نے فرمایا سنو! اس کے بعد کبھی تمہارے پیٹ میں درد نہیں ہوگا۔
اسی طرح امام برہان الدین حلبی فرماتے ہیں:
فضحك النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حتى بدت نواجذه ثم قال لا یجفر بطنك بعده ابدا وفى لفظ لا تلج النار بطنك وفى اخرى لا تشتكى بطنك.2
پس نبی کریم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی نواجذ (آخری داڑھیں) مبارک ظاہر ہوگئیں۔ پھر فرمایا اس کے بعد تجھے پیٹ کی بیماری نہیں ہوگی۔ ایک اور روایت میں ہے تیرے پیٹ میں آگ داخل نہیں ہوگی۔ اور ایک روایت میں ہے تجھے پیٹ کی شکایت نہیں ہوگی۔
علامہ خفاجی "لن تشتکی" الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اى لا یصیب بطنك وجع بعد الیوم لبركة ما دخل فى جوفھا.3
یعنی اُس چیز کی برکت سے جو تمہارے پیٹ میں داخل ہوگئی آج کے بعد تمہارے پیٹ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
امام زرقانی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
انا لا اشعر انه بول لطیب رائحته.4
اس کی پاکیزہ خوشبو کی وجہ سے میں نہ جان سکی کہ وہ بول مبارک ہے۔
اسی طرح کا دوسرا واقعہ برکہ الحبشیہ کا بھی ہے۔چنانچہ امام ابن حجر فرماتے ہیں:
كانت مع ام حبیبة بنت ابى سفیان تخدمھا ھناك ثم قدمت معھا وھى التى شربت بول النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فیما جاء فى حدیث امیمة بنت رقیقة.5
وہ( برکہ الحبشیہ) اُم حبیبہ بنت ابو سفیان کے ساتھ تھیں، وہاں ان کی خدمت کرتی تھیں، انہی کے ساتھ واپس آئیں، یہ وہی ہیں جنہوں نے نبی کریم کا بول مبارک پی لیا تھا جیسا کہ حدیث اُمیمہ بنت رُقیقہ کی حدیث میں آتا ہے۔
جب حضور نبی کریم نے پیالے کو طلب فرمایا تو اس (میں بول مبارک) کو نہ پایا۔ تو آپ سے عرض کیا گیااسے بی بی برکۃ نے پی لیا ہے تو حضور نبی کریم نے فرمایا:
لقد احتظرت من النار بحظار.6
یقینا اس نے ایک مضبوط حصار کے ساتھ دوزخ سے اپنا بچاؤ کرلیا ہے۔
اسی طرح حضرت حکیمہ بنت امیمہ بنت رفیقہ اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں :
كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قدح من عیدان یبول فیه ویضعه تحت سریره فقام فطلب فلم یجده فسال فقال این القدح قالوا شربته برة خادم ام سلمة التى قدمت معھا من ارض الحبشة فقال النبى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لقد احتظرت من النار بحظار بھیسة.7
نبی کریم کے پاس ایک لکڑی کا پیالہ تھا جس میں آپ بول مبارک کرتے تھے اور اس کو اپنے تخت کے نیچے رکھتے تھے۔ آپ نے اس میں بول مبارک کیا پھر آپ آئے تو دیکھا کہ اس پیالہ میں کوئی چیز نہیں تھی ایک خاتون جن کا نام برکہ تھا جو حضرت ام حبیبہ کی خدمت کرتی تھی اور ان کے ساتھ سرزمین حبشہ سے آئی تھی آپنے ان سے پوچھا وہ بول مبارک کہاں ہے جو اس پیالہ میں تھا؟ انہوں نے کہا میں نے اس کو پی لیا آپنے فرمایا تم پر دوزخ کی آگ منع کردی گئی ہے۔
ایک اور روایت میں حضرت حکیمہ بنت امیمہ اپنی ماں سے روایت کرتی ہیں :
ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم كان یبول فى قدح من عبدان ویوضع تحت سریره فبال فیه لیلة فوضع تحت سریره فجاء فاذا القدح لیس فیه شى فقال لامراة یقال لھا بركة رضى اللّٰه تعالى عنھما جاء ت معھا من ارض الحبشة البول الذى كان فى ھذا القدح ما فعل؟ فقالت شربته یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم .8
نبی کریم (شب کے وقت) ایک لکڑی کے پیالے میں بول مبارک فرماتے تھے اور اسے آپ کی چارپائی کے نیچے رکھ دیا جاتا۔ تو ایک شب آپ نے اس میں بول مبارک فرمایا پھر اسے آپ کی چارپائی کے نیچے رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں آپ تشریف لائے تو پیالے میں کوئی چیز نہ تھی۔ تو آپ نے ایک خاتون، جسے "برکۃ" کہا جاتا تھا جو کہ ام حبیبہ کی خادمہ تھیں، جو ان کے ہمراہ سرزمین حبشہ سے آئی ہوئی تھیں،ان سے فرمایا اس پیالے میں جو بول تھا کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! ! میں نے اسے پی لیا ہے۔
قاضی عیاض اس پر روشی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
ولم یامر واحدا منھم بغسل فم ولا نھاه عن عود.9
اور حضور نے ان میں سے کسی کو منہ دھونے کا حکم فرمایا اور نہ آئندہ ایسا کرنے سے روکا۔
اس عدمِ ممانعت سے دوباتیں معلوم ہوئیں:
امام خفاجی لکھتے ہیں:
ولو كان نجسا حرام تناوله ووجب تطھیر محله.10
اگر آپ کا بول (وغیرہ) نجس ہوتا تو اس کا استعمال کرنا حرام ہوتا اور اس جگہ (یعنی منہ) کا دھونا واجب ہوتا۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم کا بول مبارک پاک و صاف تھا اور اس سے بھی دوسری رتوبتوں کی طرح مرضوں سے شفایابی کا حصول ہوا ہے۔
مذکور ہ بالا دو حدیثوں میں مذکورہ دو قصے الگ الگ دو خواتین کے ہیں۔ بعض علماء کرام نے ان دونوں قصوں کو ایک ہی خاتون کا واقعہ سمجھا ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہے ۔دراصل یہ مغالطہ اس لیے پیدا ہوا کہ جن دو خواتین نے بول مبارک پیا ہے، وہ آپس میں نام شریک ہیں دونوں کا نام برکۃ ہے مگر ان میں فرق کرنا مشکل نہیں، اس لیے کہ ان کی کنیت الگ الگ ہے ایک کی کنیت اُم ایمن ہے اور دوسری کی کنیت اُم یوسف، اور اُم یوسف ہی برکۃ حبشیہ ہیں نہ کہ اُم ایمن۔چنانچہ اس حوالہ سےامام ابن حجر فرماتے ہیں:
دو عورتوں نے لکڑی کے پیالہ سے آپ کا بول مبارک پیا ایک کی کنیت ام ایمن تھی اور دوسری کی کنیت ام یوسف تھی جب ام یوسف نے آپ کا بول مبارک پی لیا تو آپ نے فرمایا تم صحت مندر ہوگی سو وہ تاحیات بیمار نہیں ہوئیں۔
قال صحة یا ام یوسف وكانت تكنى ام یوسف فما مرضت قط حتى كان مرضھا الذى ماتت فیه.11
نبی کریم نے فرمایا اےام یوسف تم اب صحت مند رہوگی ۔ان کی کنیت ام یوسف تھی ۔اس بول کے پینے کی برکت کی وجہ سے وہ کبھی بیمار نہیں ہوئیں سوائے اس مرض الموت کے جس میں ان کا انتقال ہوا۔
اسی طرح کاایک اور واقعہ حضور اکرم کے غسل کے مستعمل پانی کے بارے میں بھی حدیث میں آتا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ جب حضرت ابو رافع کی بیوی حضرت سلمیٰ نے نبی کریم کے غسل کے مستعمل پانی سے کچھ پی لیا تو حضور نے فرمایا:
اذھبى فقد حرمك اللّٰه بذلك على النار.12
اﷲ نے تیرے جسم پر آگ کو حرام کردیا ہے۔
ان مذکورہ بالا روایات سے اس بات کی واضح نشاندہی ہوجاتی ہے کہ نبی اکرم کا بول مبارک ہر قسم کی کثافت و گراوٹ سے منزہ تھا۔نہ صرف منزہ تھا بلکہ جنہوں نے اس کو پیا ان کے لیے بھی متبرک ثابت ہوا۔
انسان جن اشیاء کو استعمال کرتا ہے مثلاً گوشت، سبزی، پھل، کھانا، پانی وغیرہ تمام کی تمام پاکیزہ اور خوشبو دارہوتی ہیں مگر جب ان اشیاء کو انسانی جسم کی صحبت میسر آتی ہے تو اس کی کثافت کی وجہ سے ان میں تعفن اور بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور اتنا فرق واقع ہوچکا ہوتا ہے کہ وہی اشیاء جو پہلے پسندیدہ اور مرغوب تھیں اب قابل نفرت وکراہت ہوچکی ہوتی ہیں اور تمام کی تمام انسانی جسم سے ناپاک فضلہ کی صورت میں خارج ہوتی ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کے مبارک جسم کو اتنا مقدس ومطہر، پاکیزہ، خوشبودار اور لطیف بنایا کہ اتنی لطافت ملائکہ کو بھی (جو نورانی مخلوق ہیں) میسر نہیں تھی چنانچہ جب یہی اشیاء آپ کے جسم اطہر کی صحبت میں رہنے کے بعد بصورت فضلہ خارج ہوتیں تو بجائے بدبو پیدا ہونے کے ان میں پہلے سے بھی زیادہ مہک اور خوشبو پیدا ہوچکی ہوتی۔ ایسی مہک جس کا مقابلہ کوئی دوسری خوشبو نہ کرپاتی۔ جس زمین کے ٹکڑے کو آپ اس فضلہ کے لیے منتخب فرماتے وہ اسے نگل لیتا اور وہاں سوائے خوشبو کے اور کچھ محسوس نہ ہوتا۔
چنانچہ اس حوالہ سے کتب سیر میں کئی روایا ت منقول ہیں۔انہی میں سے ایک روایت ام المومنین عائشہ صدیقہ سے بھی مروی ہے۔چنانچہ آپ بیان کرتی ہیں :
دخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لقضاء حاجته فدخلت فلم ار شیئا ووجدت ریح المسك فقلت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انى لم ار شیئا قال ان الارض امرت ان تكیفه منا معاشر الانبیاء.13
رسول اﷲ قضاء حاجت کے لیے (بیت الخلاء میں) گئے پھر میں گئی تو میں نے وہاں جاکر کوئی چیز نہیں دیکھی اور مجھے وہا ں مشک کی خوشبو آرہی تھی۔ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ میں نے وہاں کوئی چیز نہیں دیکھی آپ نے فرمایا: بے شک زمین کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم انبیاء کی جماعت سے جو کچھ نکلے اس کو ڈھانپ لے۔
حضرت لیلیٰ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ سے روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے فرمایا میں نے نبی کریم سے دریافت کیا یا رسول اﷲ!
انك تدخل الخلاء فاذا خرجت دخلت فى اثرك ما ارى شیئا الا انى اجد رائحة المسك قال انا معاشر الانبیاء تنبت اجسادنا على ارواح اھل الجنة فما خرج منھا من شىء ابتلعته الارض.14
آپ بیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں پھر جب باہر آتے ہیں تو آپ کے بعد میں داخل ہوتی ہوں تو میں وہاں کوئی چیز نہیں پاتی بجز مشک کی خوشبوکے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم انبیاء ہیں ہمارے جسم اہل جنت کی روحوں کی مثل ہیں جو کچھ اُن سے نکلتا ہے زمین اُسے نگل جاتی ہے۔
امام بیہقی نے بھی مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے۔15اس حدیث کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں کہ ہمارے اجسام اہل جنت کی روحوں کی مانند ہیں، یعنی ہمارے ابدان ایسے لطیف ہیں جیسے اہل جنت کی ارواح۔ اسی مذکورہ بالاروایت کی طرح ہی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہےمذکور ہے:
ام المومنین عائشہ صدیقہ نے عرض کی یا رسول اﷲ ! آپ بیت الخلاء تشریف لے جاتے ہیں لیکن وہاں آپ کے فضلات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ماسوا ایک پاکیزہ اور عمدہ خوشبو کے تو آپ نے فرمایا:
یا عائشة اما علمت انا معاشر الانبیاء تنبت اجسامنا على اجساد اھل الجنة فما خرج منا من شىء ابتلعته الارض.16
اے عائشہ کیا تم نہیں جانتیں کہ ہم انبیاء کرام کی جماعت ہیں، ہمارے اجسام اہل جنت کے جسموں کی مانند ہیں لہٰذا ہم سے جو کچھ خارج ہوتا ہے زمین اسے نگل جاتی ہے۔
اس روایت کو ابن سعد نے بھی نقل کیا ہے۔17 الفاظ کے لحاظ سے یہ حدیث سابقہ احادیث سے کچھ مختلف ہے کیونکہ اس میں اجسامِ انبیاءکو اہل جنت کے اجسام کی مانند کہا گیا ہے جبکہ سابقہ احادیث میں روح کی مانند کہا گیا ہے تاہم اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجسامِ انبیاء کرامکی دنیا میں وہ شان ہے جو جنت میں اہل جنت کے اجسام کی ہوگی۔ اہل جنت کی جنت میں کیا شان ہوگی؟اہل جنت خوب کھائیں پئیں گے مگر پیشاب وپاخانہ اور بلغم وتھوک وغیرہ ان کے نہ ہوں گے اور ان کا پسینہ مشک کی طرح خوشبودار ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کے جسموں کی جو شان ہوگی انبیاء کرام کے جسموں کو وہ دنیا میں حاصل ہے۔فرق یہ ہے کہ جنتیوں کا بلغم اور تھوک نہیں ہوگا اور حضور کا لعاب اور بلغم مبارک تھے مگر اس لیے کہ اس سے کھاری کنویں شیریں ہوجائیں، ٹوٹے بازو جڑ جائیں، دکھتی آنکھیں شفاء یاب ہوجائیں ، گلے سڑے جسم تندرست ومعطر ہوجائیں اور تبرکاً صحابۂ کرام اپنے چہروں اور جسم پر مل کر ان سے فیضیاب ہو سکیں۔
حافظ ابوبکر احمد بن علی بغدادی نے "رواۃ مالک" میں اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری سے روایت کیا کہ آپ فرماتے ہیں:
رایت من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ثلاثة اشیاء لو لم یات بالقرآن لامنت به تصحرنا فى جبانة تنقطع الطرق دونھا فاخذ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الوضوء وراى نخلتین متفرقتین فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یا جابر! اذھب الیھما فقل لھما اجتمعتا فاجتمعتا حتى كانھما اصل واحد فتوضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فبادرته بالماء وقلت لعل اللّٰه ان یطلعنى على ما خرج من جوفه فاكله فرایت الارض بیضاء فقلت یا رسول اللّٰه ! صلى اللّٰه علیه وسلم اما كنت توضات قال بلى ولكنا معشر النبیین امرت الارض ان توارى ما یخرج منا من الغائط والبول ثم افترقت النخلتان فبینا نسیر اذ اقبلت حیة سوداء ثعبان ذكر فوضعت راسھا فى اذن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ووضع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمه على اذنھا فناجاھا ثم لكانما الارض ابتلعتھا فقلت یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم لقد اشفقنا علیك قال ھذا وفد الجن نسوا سورة فارسلوه الى ففتحت علیھم القرآن ثم انتھینا الى قریة فخرج الینا فئام من الناس مع جاریة كانھا فلقة القمر حین تمحى عنه السحاب حسناء مجنونة فقال اھلھا احتسب فیھا یا رسول اللّٰه !صلى اللّٰه علیه وسلم فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وقال لجنیھا ویحك! انا محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خل عنھا! فتنقبت واستحیت ورجعت صحیحه.18
رسول اﷲ سے میں نے تین چیزیں ایسی دیکھی ہیں کہ اگر آپ قرآن لے کر نہ آتے تو میں پھر بھی حضور پہ ایمان لے آتا۔ ہم ایک بے درخت، بلند وہموار زمین میں جنگل کی طرف اتنی دور تک چلے گئے کہ راستے اس سے پہلے ہی منقطع ہوجاتے ہیں۔ تو رسول اﷲ نے وضو کے لیے پانی لیا، اور دو علیحدہ علیحدہ کھجور کے درخت دیکھے۔ تو نبی کریم نے فرمایا: اے جابر! ان دونوں کے پاس جاؤ! اور ان سے کہو: دونوں اکٹھے ہوجائیں! چنانچہ وہ دونوں اس طرح اکٹھے ہوگئے گویا کہ ایک ہی تنے کی دوشاخیں ہیں۔ تو رسول اﷲ نے وضو فرمانا چاہا، تو میں جلد از جلد آپ کے پاس پانی لے کر حاضر ہوگیا۔ او ر میں نے (دل میں) کہا جو کچھ (فضلہ مبارک) آپ کے پیٹ سے نکلا ہو شاید اﷲ تعالیٰ مجھے اس پر مطلع فرمادے تو میں اسے کھالوں۔ تو میں نے (آپ کی منتخب کردہ) زمین کو صاف پایا۔ تو میں نے عرض کیا یارسول اﷲ ! (آپ نے استراحت نہیں فرمائی اور وضو کرلیا) کیا پہلے حضور نے وضو کیا ہوا نہ تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں! کیوں نہیں؟ (ہم نے استراحت19 کرلی ہے) لیکن ہم گروہِ انبیاء (کے پیٹ) سے جوبول و برازنکلے، زمین کو حکم دیا گیا ہے کہ اسے چھپالیا کرے۔ پھر کھجور کے دونوں درخت علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔تو اس اثناء میں کہ ہم چل رہے تھے ناگہاں ایک سیاہ رنگ کا سانپ جو کہ اژدھا تھا، سامنے آگیا۔ تو اس نے اپنا منہ نبی کریم کے کان مبارک میں رکھ دیا، اور نبی کریم نے اپنا دہن اقدس اس کے کان پہ رکھ دیا۔ پھر حضور نے اس کے ساتھ سرگوشی کی۔ اس کے بعد (سانپ غائب ہوگیا) ایسا معلوم ہوتا تھا گویا زمین نے اسے نگل لیا ہو۔ تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! ہم آپ کے بارے میں خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ جنوں کا نمائندہ تھا وہ ایک سورت کو بھول گئے تو انہوں نے اسے میرے پاس بھیجا۔ چنانچہ میں نے انہیں قرآن سکھایا۔ پھر ہم ایک بستی کے پاس پہنچے، تو لوگوں کی ایک جماعت ایک حسین ومجنون نوجوان لڑکی کے ہمراہ ہمارے پاس آئی۔ وہ لڑکی گویا چاند کا ٹکڑا تھی، جس سے بادل چھٹ گئے ہوں۔ تو اس کے گھر والوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اسے تندرستی دلاکر ثواب حاصل کیجئے تو رسول اﷲ نے دعا فرمائی اور اس کے (اندر اثر انداز ہونے والے) جن سے فرمایا ہلاکت تیرے لیے! میں اﷲ کا رسول محمد ہوں۔ اسے چھوڑدے! تو لڑکی (فورا تندرست ہوگئی اور اس) نے اپنے اوپر نقاب ڈالا، اور حیا کرنے لگی، اور شفایاب ہوکر واپس لوٹ گئی۔
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں:
لم یحدث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى موضع قط الا ابتلعته الارض.20
جہاں بھی نبی کریم نے استراحت فرمائی زمین نے اُسے نگل لیا۔
امام ابن الملقن ایک صحابی کا واقعہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
ایک سفر میں میں نبی کریم کے ساتھ تھا، جب آپ نے استراحت کا ارادہ فرمایا تو میں غور سے دیکھتا رہا، آپ ایک مقام میں تشریف لے گئے اور اپنی ضرورت پوری فرمائی۔چنانچہ روایت میں منقول ہے کہ وہ صحابی بیان کرتے ہیں:
فلم ارله اثر غائط ولا بول ورایت فى ذلك الموضع ثلثة احجار فاخذتھن فى كفى فتعلقت رائحتھن رائحة طیب وعطر.21
تو میں نے وہاں براز و بول کا کوئی اثر نہ دیکھا اور اس مقام میں تین پتھر دیکھے، ان کو میں نے اُٹھالیااور اپنی جیب میں ڈال لیا پس میں نے ان میں عمدہ اور پاکیزہ خوشبو پائی۔
ملا علی قاری اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صحابی نے کہا:
فاخذتھن فاذا بھن یفوح منھن روائح المسك فكنت اذا جئت یوم الجمعة المسجد اخذتھن فى كمى فتغلب رائحتھن روائح من تطیب وتعطر.22
میں نے ان پتھروں کو اٹھایا تو ان سے مشک کی خوشبو مہک رہی تھی۔ پس جب میں جمعہ کے دن مسجد میں آتا تو انہیں اپنی جیب میں رکھ کر آتا، سو ان پتھروں کی خوشبو دیگر تمام عطروں اور خوشبوؤں پر غالب آجاتی۔
امام زرقانی صحابی کے الفاظ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
فالمعنى وجدتھن عطرا اى كالعطر مبالغة كان عینھن انقلبت من الحجریة الى العطریة.23
معنی یہ ہے کہ میں نے ان پتھروں کو ایسا خوشبودار پایا جیسا کہ عطر، مبالغۃً یوں کہا جاسکتا ہے کہ گویا پتھر اپنی ماہیت بدل کر عطر کی ماہیت اختیار کرچکے تھے۔
اسی حوالہ سے قاضی عیاض فرماتے ہیں:
كان اذا اراد ان یتغوط انشقت الارض فابتلعت غائطه وبوله و فاحت لذلك رائحة طیبة صلى اللّٰه علیه وسلم.24
جب حضور استراحت کا ارادہ فرماتے تو زمین پھٹ جاتی اور آپ کے بول وبراز کو نگل جاتی اور وہاں سے پاکیزہ خوشبو مہکتی۔
زمین اکر اماً احتراماً آپ کے برازکو نگل لیتی کہ کسی کی نظر نہ پڑے۔اسی طرح آ پ کے بول و براز کو پی لیا گیالیکن آپ کےبول مبارک میں بو نہیں ہوتی تھی، اسی وجہ سے تو خادمہ نے پانی سمجھ کر پی لیا اور احساس تک نہ ہوا اور پوچھنے پر کہنے لگی بول کہاں تھا وہ تو پانی تھا۔ یہ آپ کی خصوصیات تھی۔ اسی وجہ سے بعض علماء نے آپ کے بول مبارک یا براز کو پاک و طاہر تسلیم کیا ہے ۔25
متذکرہ بالا تمام روایا ت پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے فضلاتِ مبارکہ پاک و صاف و شفاف تھے۔اس سے بڑھ کر وہ امراض کے لیے اکسیر بھی تھے اور جب ان کا جسدِ اقدس سے اخراج ہوتاتو ایک بھینی ومہکی خوشبو فضاء میں بکھرجاتی اور یہ بتا جاتی کہ یہ تمام کا تما م کرشمہ رسول اکرم کی وجہ سے ہے۔