بنی نوع انسان سے ربِّ کائنات کے ازسر نوتعارف کروانے کے لیے بے شمار انبیاء اور رُسل دنیا میں تشریف لائے ۔ اُن میں سے ہر ا یک پیغمبر اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا شاہکار تھا۔ہرپیغمبر کو عمومی صفات سے نوازاگیااور اُس کے ساتھ ساتھ کچھ منفردخصوصیات سے بھی اُن کی شخصیت کو متصف کیا گیاتھا۔جبکہ انبیاء کرام کی جملہ خصوصیات ِ انبیاء کونبی کی ذاتِ مقدس میں جمع کردیاگیا اور اپنی تخلیق کے اعلیٰ کمال کو اپنے حبیب کی شخصیت میں اپنے تمام بندوں کے لیے واضح کردیا ۔نبی کریم کی بعثت کے بعد انسانوں نے عقل کو حیران کردینے والے کثیر معجزات کا مشاہدہ کیا۔
عمومی طور پردیکھا جائے تو ہر انسانی جسم سے برآمد ہونے والا پسینہ ، تھوک، بلغم اور سانس بدبو دار اور لائقِ نفرت ہوتا ہے اسی طرح انسانی جسم سے خارج ہونے والا خون بھی بدبو دار اور لائق ِنفرت ہوتا ہے۔لیکن قربان جائیں نبی کریم کی ذات اقدس پرکہ ہر کمال آپ کی ذات میں موجود تھا۔ قاری ظہور احمد قاضی حضور اکرم کے خون مبارک کہ بارے میں لکھتے ہیں کہ نبی اکرم کے جسم اقدس سے نکالاہوا خون مبارک بھی آپ کے پسینے،تھوک،بلغم اور سانس کی طرح خوشبوداراور بابرکت تھا۔ 1
صحابہ اکرام نے اُس خونِ نبوی کو نوش فرمایااور ایسی دائمی خوشبوحاصل کی کہ جس کی گواہی بہت سے لوگوں نے دی ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ رسول اللہ سے آخرت میں جہنم کی آگ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزادی کی بشارت بھی لے لی ۔ آپ کے جان نثار صحابہ جن کی زندگی کانصب العین ہی یہی تھاکہ حضور پر کوئی تکلیف آنے سے پہلے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے تھےبلکہ صحابہ کے بارے میں یہاں تک لکھاگیاکہ آپ کے وضوء کاپانی بھی نیچے گرنے نہیں دیتے تھے زمین یہ تمناکرتی تھی کہ شاید کوئی قطرہ رسول اللہ کے جسم سے مس ہوکر مجھ پر گر جائے۔ مختلف مواقع پرحضوراکرم کے جسم اقدس سے خون باہر آیا ۔کبھی آپ نے فصد (پچھنے لگوائے) کروایا صحابہ نے اُ س کوپی لیااورجہاد وغیرہ میں دشمن کی طرف سے شدید حملے کی وجہ سےکبھی کبھار جسم نبوی سے جو خون مبارک جدا ہوا صحابہ کرام نے اسے زمین پر گرنے نہ دیا بلکہ از راہِ محبت وتعظیم نوشِ جان کرلیا۔
نبی اکرم کا خون مبارک انتہائی طیب وطاہر تھا اور اسی وجہ سے بعض صحابہ کرام نے اس کو نوش بھی فرمایا ہے۔چنانچہ حضرت علی سے مروی ہے :
أنه شرب دم النبى، علیه الصلاة والسلام.2
یقیناًانہوں نے رسول اللہ کا خونِ مبارک نوش کیا تھا۔
اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی شافعی اس حوالہ سے لکھتے ہیں:
ویروى عن على انه شرب دم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.3
حضرت علی سے مروی ہے کہ انہوں نے بھی حضور کا خونِ مبارک نوش کیا تھا۔
یعنی حضرت علی المرتضیٰ نے بھی آپ کا خون مبارک نوش فرمایا ہے اور نہ صرف آپ نے بلکہ دیگر صحابہ کرام نے بھی نوش کیا ہے۔ اس سلسلے میں اور بھی متعدد احادیث ہیں چنانچہ حضرت سفینہ بیان کرتى ہیں:
احتجم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، وقال لى: غیب الدم. فذھبت فشربته ثم جئت، فقال لى: ما صنعت؟ فقلت: غیبته. فقال: شربته؟ قلت: نعم.4
حضور اکرمنے پچھنے لگوائے اورمجھے سے فرمایا: اس خون کوباہر جاکرچھپادو۔ میں گیا اور اُسے پی لیاپھر لوٹ آیا تو حضور نے فرمایا:تونے کیا کیا؟ میں نے عرض کی: میں نے اُسے چھپادیا ہے ۔آپ نے فرمایا: کیا تم نے اُسے پی لیا ہے ؟ میں نے عرض کی : جی ہاں۔
اس روایت کو امام بیہقی نے بھی نقل کیا ہے۔5یعنی خونِ مبارک پینے کے اقرار کے بعد نبی اکرم نے اس پر نکیر نہیں فرمائی جس سے اشارہ ملتا ہے کہ خون ِ مبارک پاکیزہ و طاہر ہے۔
چنانچہ حضور نبی کریم کے غلام حضرت سفینہ سے روایت ہے:
احتجم فقال خذ ھذا الدم فادفنه من الدواب والطیر والناس فتغیبت فشربته ثم ذكرت ذلك له فضحك.6
انہوں نے رسول اﷲکو فصد لگائی آپ نے فرمایا یہ خون لے جاؤ اور اس کو چوپایوں پرندوں اور لوگوں سے چھپا کر دفن کرو میں نے اس کو چھپ کر پی لیا پھر میں نے اس کا ذکر کیا تو آپ ہنسے۔
ایک اور روایت میں حضرت سفینہ بیان کرتے ہیں:
احتجم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال لى غیب الدم فذھبت فشربته ثم جئت فقال ما صنعت؟ قلت غیبته قال شربته ؟ قلت نعم فتبسم.
حضور نے پچھنے لگوائے (اور) مجھے فرمایا (اس) خون کو (باہر جاکر) چھپادو۔ میں گیا اور اُسے پی لیا۔ پھر لوٹ آیا تو حضور نے فرمایا تو نے کیا کیا؟ میں نے عرض کی میں نے اُسے چھپادیا ہے آپ نے فرمایا کیا تم نے اُسے پی لیا ہے؟ میں نے عرض کی ہاں تو آپ نے تبسم فرمایا۔
ایساہی ایک اور واقعہ بعض قریشی لڑکوں سے بھی منقول ہے ۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں:
حجم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم غلام لبعض قریش فلما فرغ من حجامته اخذ الدم فذھب به فشربه ثم اقبل فنظر فى وجھه فقال ویحك ما صنعت بالدم؟ قال یا رسول اللّٰه ! نفست على دمك ان اھریقه فى الارض فھو فى بطنى فقال اذھب فقد احرزت نفسك من النار.7
کسی قریشی کے لڑکے نے حضور کو پچھنے لگائے، جب فارغ ہوا تو خون مبارک کو لے کر باہر چلاگیا، پھر اُسے پی لیا۔ پھر حضور کے سامنے آیا تو آپ نے اُس کے چہرے میں غور کرکے فرمایا تجھ پر رحمت ہو تو نے خون کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے عرض کی یا رسول اﷲ! میں نے نامناسب سمجھا کہ آپ کے مقدس خون کو زمین پر گراؤں سو وہ میرے پیٹ میں ہے آپ نے فرمایا جا! تو نے اپنے آپ کو یقینا نارجہنم سے آزاد کرلیا۔
اسی طرح ایک واقعہ ابو طیبہ حجام کا بھی ہے، ان کا نام "دینار" یا نافع ہے۔ چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں:
ان ابا طیبة الحجام شرب دم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولم ینكر علیه.8
حضرت ابوطیبہ حجام نے حضور کا خونِ مقدس پی لیا اور آپ نے اس پر اعتراض نہ فرمایا۔
علامہ جلال الدین سیوطی خصائص الکبری میں اس حدیث کو ذکر فرماتے ہیں:
عن ابن عباس قال: حجم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم غلام لبعض قريش فلما فرغ من حجامته أخذ الدم فذھب به فشربه ثم أقبل فنظر فى وجھه فقال: ویحك! ما صنعت بالدم؟ قال: یا رسول اللّٰه ! نفست على دمك أن أھریقه فى الأرض فھو فى بطنى. فقال: إذھب فقد أحرزت نفسك من النار.9
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ قریش کے کسی لڑکے نے حضور کو پچھنے لگائے۔جب فارغ ہوا تو خون کو لیکر باہر چلا گیا،پھر اُسے پی لیا پھر حضور کے سامنے آیا تو حضور نے اُس کے چہرے میں غور کر کے فرمایا:تجھ پر رحمت ہو تو نے خون کے ساتھ کیا کیا؟اس نے عرض کی: یارسول اللہ! میں نے نامناسب سمجھاکہ آپ کے مقدس خون کو زمین پر گراؤں،سووہ میرے پیٹ میں ہے۔آپ نے فرمایا: تونے اپنے آپ کو یقینا نار جہنم سے آزاد کرا لیا۔
معلوم ہوا کہ نبی کریم کا خون مبارک طیب وطاہر تھا اور صحابہ کرام نے اس کو متعد د بار نوش کیاہے۔
نبی کریم کے اخلاق حمیدہ کو تو ہر شخص شہد سے بھی زیادہ میٹھا سمجھتا ہے، کفار بھی آپ کے اخلاق حسنہ کے قائل ہیں، لیکن اس کو معنوی مٹھاس کہا جاتا ہے اور یہاں حضور کی معنوی نہیں بلکہ حسی اور جسمانی مٹھاس کی بات ہو رہی ہے۔
مشہور مقولہ ہے:
كل اناء ینضح بما فیه.10
ہر برتن وہی نکالتا ہے جو اُس میں ہو۔
اس قاعدہ کو سامنے رکھتے ہوئے درج ذیل احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت جسمانی طور پر بھی شہد سے زیادہ میٹھے تھے اسی وجہ سے آپ کا خون مبارک بھی میٹھا تھا۔ چنانچہ امام شعبیفرماتے ہیں کہ ابن زبیر سے پوچھا گیا کہ آپ نے جو حضور نبی کریم کے جسمِ اطہر سے نکلا ہوا خون پیا، وہ کیسا تھا؟ فرمایا:
اما الطعم فطعم العسل واما الرائحة فرائحة المسك.11
ذائقہ شہد کی طرح میٹھا اور خوشبو مشک کی طرح۔
امام قسطلانی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ بلاشبہ نبی کریم تمام طیبین سے بڑھ کر طیب ہیں اور تمہارے لیے اتنی دلیل کافی ہے کہ آپکا پسینہ بطورِ خوشبو لیا جاتا تھا،پس آپ ہی وہ ہستی ہیں جن سے پھیلنے والی ہوا کو اﷲ تعالیٰ نے موجودات کے لیے طبیب بنایا۔ پس کائنات نے آپ سے خوشبو اخذ کی تو رفعت کو پہنچی اور دلوں نے آپ سے روحانی غذا پائی تو طیب ہوگئے اور روحوں نے آپ سے فیض لیا تو ثمر آور ہوئیں۔12
جنگ احد کے موقع پر نبی اکرم کے چہرہ انور پر زخم لگا جس کی وجہ سے رسول اللہ کے رخ انور پر خون اتر آیا۔چنانچہ حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں :
ان اباه مالك بن سنان لما اصیب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى وجھه یوم احد مص دم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وازد رده، فقیل له: اتشرب الدم؟ فقال: نعم! اشرب دم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. فقال رسول اللّٰه: ا خالط دمى دمه لا تمسه النار.13
جب جنگ احد میں رسول اﷲ کا چہرہ انور زخمی ہوگیا تو ان کے والد حضرت مالک بن سنان نے حضور کا خون مبارک چوس کر نگل لیا، ان سے کہا گیا کہ: تم خون پی رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں! میں حضور کے زخم کا خون مبارک پی رہا ہوں۔ حضور نے فرمایا: اس کے خون کے ساتھ میرا خون مل گیا ہے اب اس کو آگ نہیں چھوئے گی۔
ایک اور روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں۔
لما كان یوم أحد شج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى جبھته، فأتاه مالك بن سنان وھو والد أبى سعید، فمسح الدم عن وجه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، ثم ازدرده، فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : من سره أن ینظر إلى من خالط دمى دمه فلینظر إلى مالك بن سنان.14
جب جنگ اُحد میں آپ کی پیشانی میں زخم آیا توحضرت ابو سعید خدری کے والد مالک بن سنان نےآکرحضور کے چہرے اقدس سے خون مبارک کو صاف کیاپھر نگل لیااس پر نبی کریم نے فرمایا: جس شخص کا ارادہ ہوکہ ایسے شخص کودیکھے جس کے خون میں میرا خون شامل ہوگیا ہو وہ مالک بن سنان کو دیکھے۔ 15
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب میرا خون اس کے خون میں شامل ہوگیا تو وہ عذاب سےمحفوظ ہوگیا۔ چنانچہ یہی بات ایک اور حدیث میں یوں ارشاد فرمائی گئی:
خالط دمى بدمه لا تمسه النار.16
جس شخص کے خون میں میرا خون شامل ہوگیا اُسے آگ نہیں چھوئے گی۔
علامہ جلال الدين السيوطينے بھی خصائص الكبرى میں اس روایت کو نقل کیا ہے17جس سے نتیجہ یہ نکلا کہ نبی اکرم کا خون مبارک پینے والے صحابی جنتی ہیں۔ چنانچہ ایک اور حدیث میں یہ صریح الفاظ بھی آئے ہیں:
من اراد ان ینظر الى رجل من اھل الجنة فلینظر الى ھذا فاستشھد.18
جس کا ارادہ ہو کہ وہ جنتی مردکو دیکھے تو وہ انہیں دیکھے، پس اس کے بعد وہ شہید ہوگئے۔
اسی حوالہ سے امام بیہقی اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں:
لما جرح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یوم احد مص جرحه حتى انقاه ولاح اییض فقیل له مجه فقال لا واللّٰه لا امجه ابدا ثم ادبر یقاتل فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من اراد ان ینظر الى من اھل الجنة فلینظر الى ھذا فاستشھد.19
حضرت ابو سعید خدری کے والد حضرت مالک بن سنان نے رسول اﷲ کے زخم کو چوس لیا تھا جب اُحد میں آپ زخمی ہوگئے تھے حتیٰ کہ اس کو صاف کردیا تھا اور زخم صاف سفید کردیا تھا اس سے جب کہا گیا کہ کلی کرلے تو اس نے کہا نہیں اﷲ کی قسم میں اس سے کلی نہیں کروں گا کبھی بھی۔ اس کے بعد وہ پیچھے ہٹا اور قتال شروع کردیا نبی کریم نے فرمایا کہ جو شخص چاہے کہ وہ اہل جنت کے آدمی کو دیکھے اس کو چاہیے کہ وہ اس کی طرف دیکھے، لہٰذا وہ شہید کردیا گیا۔20
خون مبارک کو پینے کے حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن زبیر بیان کرتے ہیں :
انه اتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھو یحتجم فلما فرغ قال: یا عبداللّٰه! اذھب بھذا الدم فاھرقه حیث لا یراك احد. فلما برزت عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عمدت الى الدم فحسوته فلما رجعت الى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم قال: ما صنعت یا عبداللّٰه؟ قال: جعلته فى مكان ظننت انه خاف على الناس. قال: فلعلك شربته. قلت: نعم. قال: ومن امرك ان تشرب الدم؟ ویل لك من الناس وویل للناس منك. رواه الطبرانى والبزار باختصار ورجال البزار رجال الصحیح غیر ھند بن القاسم وھو ثقة.21
وہ نبی کریم کے پاس گئے درآں حالیکہ آپ فصد لگوارہے تھے جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا:اےعبد اللہ یہ خون لے جاؤ اور اس کو ایسی جگہ ڈال دو جہاں اس کو کوئی نہ دیکھے۔ جب میں رسول اﷲ سے اوجھل ہوا تو میں نے اس خون کو پی لیا جب میں واپس آیا تو نبی کریم نے فرمایا: اے عبداﷲ! تم نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا: میں نے اس کو ایسی جگہ رکھ دیا جہاں میرا گمان ہے اس کو کوئی نہیں دیکھے گا۔ آپ نے فرمایا: شاید تم نے اس کو پی لیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تم سے خون پینے کے لیے کس نے کہا تھا؟ لوگوں کے شرسےتمہاری حفاظت ہواورتمہارےشرسےلوگوں کی۔
جلال الدین سیوطی نے بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔22جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے خون مبارک کی تاثیر خصوصیت کی حامل ہے اور اس سے حضرت ابن زبیر کی قوت وطاقت اور مزاج میں تبدیلی رونما ہوئی۔چنانچہ بعض احادیث میں ہے:
فیرون ان القوة التى كانت فى ابن الزبیر من قوةدم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم .23
حضرت ابن زبیر کے اندر جو قوت تھی صحابہ کرام اسے نبی اکرم کے مبارک خون کی قوت سمجھتے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن زبیر نے خون مقدس کو نیچے نہ گرانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بارگاہ نبوی میں یوں عرض کیا:
كرھت ان اصیب دمك. فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : لا تمسك النار ومسح على راسه.24
میں نے یہ ناپسند کیا کہ آپ کا خون مبارک نیچے گراؤں، اس پر حضور نے فرمایا: تجھے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی اور آپ نے ان کے سر پر دستِ اقدس پھیرا۔25
امام ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن زبیر نے فرمایا:
انى احببت ان یكون من دم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى جوفى.26
میں نے چاہا کہ میرے جسم میں رسول اللہ کا مقدس خون موجود ہو۔
رسول اکرم کے خون مبارک کے پینےکے بعداس کی خوشبو حضرت عبداﷲ بن زبیر کے منہ مبارک میں رچ بس گئی تھی یہی وجہ ہے کہ آپ کی شہادت کے وقت بھی یہ خوشبو مبارک موجود تھی۔چنانچہ اس بارے میں امام قسطلانی لکھتے ہیں:
وفى الكتاب الجوھر المكنون فى ذكر القبائل والبطون انه لما شرب اى عبداللّٰه بن الزبیر دمه تضوع فمه مسكا وبقیت رائحة موجودة فى فمه الى ان صلب .27
کتاب الجواہر المکنون فی ذکر القبائل والبطون میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن زبیر نے جب حضور کا خون مبارک پیا تو ان کے منہ سے مشک کی خوشبو مہکی اور وہ خوشبو ان کے منہ میں انہیں سولی دیئے جانے تک باقی رہی۔
صحابہ کرام کی آپ سے محبت کی یہ حالت تھی کہ جب آپ وضوکرتےتھے تو وضو کے پانی کا ایک قطرہ زمین پر نہ گرنے دیتے تھے۔بلکہ آپ کا تھوک اور سارا وضو کا پانی اپنے ہاتھوں میں لیتے تھے،منہ کو ملتے،آنکھوں سے لگاتے تھے اور ہر شخص اس کی کوشش کرتاتھاکہ سب سے پہلے آپ کے وضو کا پانی اور آپ کا تھوک میرے ہاتھوں میں آئے۔ چنانچہ اس کوشش میں ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے اور ان کی محبت کا یہ حال تھا کہ ایک بار حضور نے پچھنے لگوائے اور اس کا خون ایک صحابی کو دیاکہ اس کو کسی جگہ احتیاط سے دفن کردو۔صحابی کی محبت نے گوارا نہ کیاکہ حضور کا خون زمین میں دفن کیا جائے۔انہوں نے الگ جاکراسے خودپی لیا۔اس پر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ نعوذ باللہ صحابہ بہت ہی بے حس تھے کہ ان کو تھوک ملتے ہوئے اورخون پیتے ہوئے گھن نہیں آتی تھی۔بات یہ ہے کہ ان اُمور کا تعلق عشق ومحبت سے ہے۔حضور کی یہ حالت تھی کہ قدرتی طور پر آپ کا تمام بدن خوشبودار تھا۔آپ کا لعاب دہن نہایت خوشبوداراورشیریں تھااور یہی حال آپ کے خون کا تھا تو ایسی چیز سے کون شخص گھن کر سکتا ہے ۔ 28
نبی کریم کا خون مبارک عظیم برکتوں کا حامل تھا۔جن کی برکتوں کو صحابہ کرام سے زیادہ کون جانتاتھااور ربِ کائنات نےآپ کو ایسے عظیم صحابہ عطاء فرمائے جنہوں نے رسول اللہ سے ہر ممکن تعظیم و محبت کی اور بے شمار فیض حاصل کیا۔یہ وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے ناصرف رسول اللہ سے محبت کی بلکہ رسول اللہ سے تعلق رکھنے والی ایک ایک چیز سے محبت و تعظیم کی۔