Encyclopedia of Muhammad

آپﷺکے آنسو مبارک

رونا آنسو بہانا اﷲ کی طرف سے ایک نعمت ہے، رونے سے غم دل ہلکا اور طبیعت کی گرانی کم ہوجاتی ہے انسانی زندگی عموماً دو سروں کے حالات سے وابستہ رہتی ہے، کبھی انسان بہت خوش ہوتا ہے تو ہنستا اور مسکراتا ہے جبکہ بعض اوقات غم کے بادل انسانی زندگی پریوں برستے ہیں کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برکھاروکے نہیں رکتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء کرام سب سے زیادہ ہمت والے، سب سے زیادہ صبر والے اور سب سے زیادہ غیور ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے رونے کے واقعات کتب تاریخ میں مذکور ہیں ایسا کیوں ہے؟درحقیقت انبیاءکرامامت کے لیے رہنما بن کر آئے ہیں اور انہوں نے امت کو زندگی گزارنے کے حقیقی اصول بتائے ہیں۔امت کو ان کے غمی اور خوشی کے لمحات گزارنے کا طریقہ بھی تو انبیاءکرام ہی نے بتانا تھاکہ جن مواقع پر انسان اپنی بے بسی میں روتا ہے تو ان لمحات میں رونے کے آداب کیا ہیں۔

رونا انسانی فطرت میں ودیعت ہے جس سے کسی طور انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو شکم مادر سے عالم دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام جو کرتا ہے وہ رونا اور اشکباری ہی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو نبی کریم نے بیان فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :

  سمعت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول: ما من بنى ادم مولود الا یمسه الشیطان حین یولد فیستھل صارخا من مس الشیطان غیر مریم وابنھا. ثم یقول ابو ھریرة: (وَاِنِّى اُعِیذُھا بِك وَذُرِّیتَھا مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ).12
  میں نے رسول اﷲ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: بنی آدم میں جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کے انگلی چبھوتا ہے تو وہ شیطان کے انگلی چبھونے سےچیخ مارکر روتا ہے سوائے مریم اور ان کے بیٹے کے۔ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ آیت پڑھی: (اور بیشک میں اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے تیری پناہ میں دیتی ہوں)۔

آپ حیات ظاہری میں ہنستے کم تھے اور محبت وخشیت الٰہی میں اکثر آنکھیں برسات کی طرح برستی تھیں امت کی یاد اور اس کی بخشش ونجات کے لیے آپ کا رونا کسی ذی شعور سے مخفی نہیں۔حضور کا اشکبار ہونا، اُمت کو یہ تعلیم دینا بھی تھاکہ اللہ پاک کو رونا بہت پسند ہے اسے یہ بہت محبوب ہے کہ بندہ اس کی طرف آہ و زاری کرے۔اسی لیے حکم ہے کہ رویا کرواور اگر رونا نہیں آئے توچہر ہ بنالو کے رونے سے خدا کی توجہ اور عنایت متوجہ ہوتی ہے۔آپ ہمیشہ قیامت کے احوال اور آخرت کی فکر سے مغموم رہا کرتے تھےیاد ین کی فکر کی وجہ سے آپ متفکر رہا کرتے تھے3آپ روتے وقت چلاتے نہیں تھے لیکن آنکھوں میں آنسو بھر آتے اور کبھی کبھی سینہ مبارک سے ہنڈیا کے جوش مارنے کی طرح دل سوز آواز بھی نکلتی تھی۔

رونے والی آنکھوں کی دعا

حضرت عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ آپ اکثر یہ دعاکرتے تھے:

  اللّٰھم ارزقنى عینین ھطالتین تشفیان الْقلب بذروف الدُّمُوع من خشیتك قبل أَن تكون الدُّمُوع دَمًا والأضراس جمرا.4
  اے اللہ مجھے ایسی زاروقطارررونے والی آنکھیں عطافرماکہ جس کے آنسووؤں سے تیرے خوف سے گرنے کی وجہ سے قلب کو شفاء حاصل ہو۔قبل اس کے آنسوخون ہوجائے اورداڑھیں ٹھیکرے کی طرح خشک ہوجائے ۔5

سینہ اقدس سے رونے کی آواز

بلاشبہ انبیاء کی دعائیں مقبول ہوتی ہیں ،اسی لیے حضور کی دعا بھی بارگاہِ ربوبیت میں شرفِ قبولیت پاچکی تھی۔ جس کےنتیجہ میں آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ روتے تو سینے سے ہنڈیا کے ابلنے جیسے آواز آتی تھی چنانچہ حضرت عبداﷲ بن الشخیر بیان کرتے ہیں :میں ایک مرتبہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نماز ادا فرمارہے تھے۔(فرمایا):

  ولجوفه ازیزكازیز المرجل من البكاء.6
  آپ کے سینہ اقدس سے رونے کی آواز اس طرح آرہی تھی جس طرح ہنڈیا کے کھولنے کی آواز آتی ہے۔

آپ کبھی تو کسی فوت شدہ پر رحمت کے آنسو بہاتے، کبھی امت پر خوف اور شفقت کے آنسو بہاتے اور کبھی آپ کے آنسو خشیت الٰہی سے لبریز ہوتے، کبھی قرآن پاک کی تلاوت کے وقت آنکھیں ساون بھادوں کی طرح برسنے لگتیں۔یہ شوق محبت، جلالت قرآن اور رب کائنات سے خوف و خشیت کے آنسو ہوتے تھے۔

بکا اوربُکاء میں فرق

رونے اور آنسو بہانے کے معنوں میں عموماً "بکا" کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس کی مختلف صورتیں ہیں:

  1. اس کے آخر میں ہمزہ آتا ہے۔ یعنی "بکا" ۔ اس کا مطلب ہے بغیر آواز کے رونا۔
  2. اس کے آخر میں ہمزہ نہیں آتا۔ یعنی "بکا"اس سے مراد ایسا رونا ہے جس میں رونے والے کی آواز بھی نکلتی ہو۔حضور نبی کریم پر جب کبھی رونے اور آنسو بہانے کی کیفیت طاری ہوئی اسے بیان کرنے کے لیے صحابہ کرام نے لفظ "بکا"(ہمزہ کے ساتھ) کا ذکر کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم کا رونا جہاں بشری تقاضے کو ظاہر کرتا ہے وہاں حسنِ تہذیب کا بھی ایک بہترین نمونہ نظر آتا ہےتاکہ امت بھی اپنے نبی کے شایانِ شان اسی طرح خشیت ِالہی سے روئے۔اسی لیے تو حضرت حسان بن ثابت کہتے ہیں:
  بكت    عینى    وحق    لھا  بكاھا
وما  یغنى  البكاء  ولا  العویل.7

  میری آنکھ روتی ہے اور اس کا حق بنتا ہے کہ وہ اس دلفگار غم پر روئے، اگرچہ چیخ چلاکر رونا کام نہیں آتا۔

رسول اکرم کی اس کیفیت بکاء کو بیان کرتے ہوئے حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں :

  اجتمعنا فى بیت امنا عائشة فنظر الینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فدمعت عیناه فتشدد فنعى الینا نفسه الخ.8
  ہم اپنی ماں حضرت عائشہ صدیقہ کے گھر جمع ہوئے۔ ہماری جانب رسول اﷲ نے دیکھا تو ان کے آنسو بہنے لگے آپ نے اپنی جدائی کی اطلاع دی ۔۔۔الخ۔

آنسوؤں کی برسات

حضرت عبداﷲ بن مسعود سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم نے مجھے مخاطب کرکےفرمایا: عبداﷲ!اﷲ کا کلام سناؤ:میں نے عرض کیاآقا میں آپ کو سناؤں؟جبکہ آپ پر قرآن نازل ہوا؟آپ نے فرمایا:

  إنى أحب أن أسمعه من غیرى، فقرأت سورة النساء، حتى بلغت (وجئنا بك على ھؤلاء شھیدا) قال: فرأیت عینى رسول اللّٰه تھملان .9
  میں چاہتا ہوں اپنے علاوہ کسی سے سنوں۔میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی جب میں اس آیت پر پہنچا:فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا10 (پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے) تو میں نے دیکھا کہ حضور نبی کریم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

اسی طرح کا واقعہ حضرت محمد بن فضالہ سے بھی مروی ہے کہ حضور نبی کریم اپنے صحابی حضرت عبداﷲ بن مسعود کو ساتھ لے کر ہمارے قبیلہ بنی ظفر میں تشریف لائے آپ نے انہیں تلاوت قرآن کا حکم دیا۔جب وہ مذکورہ آیت پر پہنچےتو آپ کی کیفیت یہ تھی:

  فبکى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتی اضطرب لحیاہ.11
  آپ روپڑے یہاں تک کہ آپ کی مبارک داڑھی تر ہوگئی۔

گریہ دربارگاہِ ربوبیت

رسول اکرم کی رونے کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے امام اعظم اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عمر سےروایت کرتے ہیں:

  عن ابن عمر قال انكسفت الشمس یوم مات ابراھیم بن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال الناس: انكسفت الشمس لموت ابراھیم. فقام النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قیاما طویلا حتى ظنوا انه لا یركع ثم ركع فكان ركوعه قدر قیامه ثم رفع راسه فكان قیامه قدر ركوعه ثم سجد قدر قیامه ثم جلس فكان جلوسه بین السجدتین قدر سجوده ثم سجد قدر جلوسه ثم صلى الركعة الثانیة ففعل مثل ذلك حتى اذا كانت السجدة منھا بكى فاشتد بكاوه فسمعناہ وھو یقول: الم تعدنى ان لا تعذبھم وانا فیھم؟ ثم جلس فتشھد ثم انصرف واقبل علیھم بوجھه ثم قال: ان الشمس والقمر آیتان من ایات اللّٰه یخوف اللّٰه بھما عباده لا یكسفان لموت احد ولا لحیاته فاذا كان كذلك فعلیكم بالصلوة ولقد رایتنى ادنیت من الجنة حتى لو شئت ان اتناول غصنا من اغصان شجرھا فعلت ولقد رایتنى ادنیت من النار حتى جعلت اتقى.12
  ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم کے انتقال کے دن سورج کو گرہن ہوگیا۔ لوگوں نے کہا کہ :حضرت ابراہیم کے انتقال کی وجہ سے سورج کو گرہن ہوا ہے۔ حضور نبی کریم نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور اس قدر طویل قیام فرمایا کہ لوگوں نے خیال کیا کہ آپ رکوع نہیں کریں گے۔پھر آپنے رکوع قیام کے برابر کیا۔ پھر رکوع سے سر اٹھا یا توآپ کا قیام رکوع کے برابر تھا۔ پھر سجدہ کیا قیام کے برابر پھر بیٹھے تو دو سجدوں کے درمیان پھر جب دوسری رکعت کے سجدہ میں گئے تو بہت زیادہ روئے۔ ہم نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا :کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں فرمایا کہ تو ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک میں ان میں ہوں؟ پھر آپ بیٹھے اور تشہد پڑھا۔ پھر نماز سے فارغ ہوئے۔ اور ہماری طرف رخ فرماکر ارشاد فرمایا کہ: سورج اور چاند گرہن اﷲ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ناکہ کسی کی پیدائش سے ایسا ہوتا ہے لہٰذا نماز کی پابندی کرو اور بے شک میں نے خود کو دیکھا کہ مجھ کو جنت کے نزدیک کیا گیا حتیٰ کہ اگر میں چاہتا تو اس کے درختوں کی کسی شاخ کو چھو کر لے سکتا تھا۔ اور مجھ کو دوزخ کے بھی نزدیک کیا گیا یہاں تک کہ میں نے اس کی سوزش سے بچنا چاہا ۔

امام بخاری نے بھی اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا ہے۔13 اس حدیث مبارکہ سے جہاں یہ معلوم ہو اکہ سور ج اور چاند گرہن اللہ تبارک وتعالی کی نشانیوں میں سے ہیں وہیں یہ بھی واضح ہوا کہ رب العزت کے محبوب مکرمخشیتِ الہی کے اعلی و ارفع مقام پر فائز ہیں اور آپ کا ہر ہر انداز اُمت کے لیے باعث رہنمائی ہے۔

خاندان کے افراد کے لیے آنسو

اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ جس میں آپ کے رونے کا تذکرہ ہے ۔ اس کو حضرت علقمۃ روایت کرتےہوئے فرماتے ہیں:

  عن علقمة بن یزید عن سلیمان ابن بریدة عن أبیه قال: انتھى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم إلى رسم قبر فجلس وجلس الناس حوله، فجعل یحرك رأسه كالمخاطب ثم بكى فاستقبله عمر فقال: ما یبكیك یا رسول اللّٰه ؟ قال: ھذا قبر آمنة بنت وھب استأذنت ربى فى أن أزور قبرھا فأذن لى، واستأذنته فى الاستغفار لھا فأبى على، وأدركتنى رقتھا فبكیت. قال: فما رئیت ساعة أكثر باكیا من تلك الساعة.14
  حضرت علقمہ بن یزید سلیمان بن بریدہ سےوہ اپنے والد سےروایت کرتےہیں:نبی اکرم ایک قبر کےنشان پررکےاوروہیں بیٹھ گئےتودیگر لوگ بھی آپ کے گردبیٹھ گئے۔پس حضور نے ایسےسرمبارک ہلایا جیسے کسی سےمخاطب ہوں پھررودیے۔حضرت عمر آپ کے سامنے آئےاورعرض کی: یارسول اللہ! آپ کو کس بات نے رلایا؟ فرمایا: یہ آمنہ بنت وہب(میری والدہ)کی قبر ہے، میں اپنے رب سے زیارت قبر کی اجازت طلب کی تومجھے دےدی گئی، میں نے ان کے لیےدعائےمغفرت کی اجازت طلب کی تو نہیں ملی۔ پس مجھے ان کی ممتاکی یادآگئی تومیں رودیا۔راوی کہتےہیں: اس گھڑی سےزیادہ کبھی کوئی گھڑی رونےوالی نہیں دیکھی گئی۔

اس حدیث مبارکہ کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔15نو ہجری کو پیدا ہونےوالے حضرت ابراہیم سےآپ کا گھر خوشیوں کا مزیدگہوارہ بن گیا لیکن طیب و طاہر (قاسم و عبداﷲ ) کی طرح حضرت ابراہیم بھی چند ماہ بعد ا س جہان فانی سے کوچ کر گئے۔چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں:

  دخلنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على أبى سیف القین وكان ظئرا لإبراھیم فأخذ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إبراھیم فقبله وشمه ثم دخلنا علیه بعد ذلك وإبراھیم یجود بنفسه فجعلت عینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تذرفان. فقال له عبد الرحمن بن عوف: وأنت یا رسول اللّٰه؟ فقال: "یا ابن عوف إنھا رحمة ثم أتبعھا بأخرى. فقال: إن العین تدمع والقلب یحزن ولا نقول إلا ما یرضى ربنا وإنا بفراقك یا إبراھیم لمحزونون".16
  (ایک دن) ہم رسول کریم کے ہمراہ ابوسیف لوہار کے گھر گئے جو (آنحضرت کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم کی دایہ کے شوہر تھے۔ آنحضرت نے حضرت ابراہیم کو (گود میں) لے کر بوسہ لیا اور سونگھا (یعنی اپنا منہ اور ناک ان کے منہ پر اس طرح رکھی جیسے کوئی خوشبو سونگھتا ہے) اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد ہم پھر ابوسیف کے یہاں گئے جب کہ حضرت ابراہیم حالت نزع میں تھے چنانچہ (ان کی حالت دیکھ کر) آنحضرت کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔حضرت عبدالرحمن بن عوف نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟آپ نے فرمایا: اے ابن عوف! (آنسو کا بہنا ) رحمت ہے۔ اس کے بعد پھر آپ کی مبارک آنکھیں آنسو بہانے لگیں آپ نے فرمایا: آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اور دل غمگین ہے مگر اس کے باوجود ہماری زبانوں پر وہی الفاظ ہیں جن سے ہمارا پروردگار راضی رہے اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے بے شک غمگین ہیں۔

ابوسیف کا نام براء تھا اور ان کی بیوی کا نام خولہ منذر تھا جو انصاریہ اور آنحضرت کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی دایہ تھیں ان کا گھرانہ پیشہ کے لحاظ سے لوہار تھا۔ حضرت ابراہیم صرف سولہ سترہ مہینے کے تھے کہ انتقال کر گئے آنحضرت ان کی دایہ کے گھر گئے اور انہیں گود میں لے کر پیار کیا اور جب ان کا آخری وقت دیکھا تو رونے لگے۔ اسی وجہ سے حضرت عبدالرحمن نے عرض کیا کہ اس قسم کے رقت انگیز مواقع پر لوگ تو روتے ہی ہیں مگر آپ کی عظمت شان اور کمال معرفت سے یہ بعید ہے کہ آپ روئیں۔ اس کا جواب آنحضرت نے یہ دیا کہ یہ رحمت ہے۔ یعنی میری آنکھیں بے صبری کی وجہ سے آنسو نہیں بہا رہی ہیں جیسا کہ تم سمجھ رہے ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بچہ کو اس حالت میں دیکھ کر جذبہ رحم امنڈ رہا ہے جو آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے بہہ رہا ہے ۔

آپ کے اس فرمان کہ دل غمگین ہے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص ایسے موقع پر بھی غمگین نہ ہو اور اس کا دل غم کی کسک محسوس نہ کرے تو اس کے سینہ میں دھڑکتا ہوا دل نہیں ہے بلکہ پتھر کا ایک ٹکڑا ہے ۔جب نظروں کے سامنے لخت جگر دم توڑ رہا ہو ایسے نازک موقع پر بھی آنکھیں آنسو نہ بہائیں تو یہ صبر و ضبط نہیں ہے بلکہ اس احساس محبت و مروت اور جذبہ ترحم کا فقدان ہے۔ لہٰذا یہ حال یعنی غمگین ہونا اہل کمال کے نزدیک کامل تر ہے بہ بنسبت اس چیز کے کہ بچہ کی موت ہو جائے اور چہرہ پر بشاشت و اطمینان کی لہریں دوڑ رہی ہوں۔

اُم کلثوم کا وصال اور حضور کے آنسو

سیدہ رقیہ کی وفات کے بعد نبی کریم نے اُم کلثوم کا نکاح حضرت عثمان بن عفان سے کردیا اور یوں انہیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ نبی کریم کی دوبیٹیاں یکے بعد دیگرے ان کے عقد میں آئیں اور انہیں ذوالنورین کا لقب ملا۔

حضورنے فرمایا:

  فلو كن عشراً لزوجتھن عثمان.17
  اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کردیتا۔

حضرت عثمان اور اُم کلثوم کی رفاقت 3 ہجری سے 9 ہجری تک محیط ہے۔9 ہجری میں حضرت اُم کلثوم بھی حضرت عثمان کو داغ مفارقت دے گئیں ۔انہیں جب دفن کردیا گیا تو حضور کی آنکھوں سے شدت غم کے سبب آنسو جاری ہوگئے۔چنانچہ اس کیفیت کو بیان کرتےہوئے حضرت انس بیان کرتے ہیں:

  شھدنا بنت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تدفن ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جالس على القبر فرأیت عینیه تدمعان فقال : هل فیكم من أحد لم یقارف اللیلة ؟ فقال أبو طلحة : أنا قال : فانزل فى قبرھا فنزل فى قبرھا.18
  میں اس وقت موجود تھا جب کہ رسول کریم کی صاحبزادی (یعنی حضرت عثمان غنی کی زوجہ محترمہ حضرت ام کلثوم) سپرد خاک کی جا رہی تھیں اور آنحضرت قبر کے پاس تشریف فرما تھے۔ میں نے یہ دیکھا کہ آنحضرت کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں، بہرحال اس وقت آنحضرت نے صحابہ سے فرمایا : کیا تم میں ایسا بھی کوئی شخص موجود ہے جو آج کی رات اپنی عورت سے ہم بستر نہ ہوا ہو؟ حضرت ابوطلحہ نے کہا : ہاں! میں ہوں۔ آنحضرت نے فرمایا (میت کو قبر میں رکھنے کے لیے) تم ہی قبر میں اترو۔ چنانچہ وہ قبر میں اترے۔

پیارے نواسے کے لیے آنسو

دین کے دشمنوں نے جس بے دردی سے حضور کے پیارے نواسے حضرت امام حسین کو شہید 19کیا مسلمان ان سے واقف ہیں۔جب حضرت جبریل نے اس شہادت کی خبر حضور کو دی تو آپ کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے:چنانچہ امام سیوطی فرماتے ہیں:

  عن ام الفضل بنت الحارث قالت: دخلت على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوما بالحسین فوضعته فى حجره ثم حانت منى إلتفاته فاذا عینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم تھریقان من الدموع فقال: اتانى جبریل فاخبرنى ان امتى ستقتل ابنى ھذا واتانى بتربة من تربته حمراء.20
  اُم فضل بن الحارث سےروایت ہےانہوں نے کہا :ایک دن میں امام حسین کو لے کر رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور میں نے انہیں آپ کی آغو ش میں دے دیا۔ کچھ دیر بعد میں حضور نبی کریم کی طرف متوجہ ہوئی تو دیکھا آپ کی چشمان مبارک آنسوؤں سے ڈبڈبا رہی تھیں پھر آپ نے مجھ سے فرمایا : میرے پاس جبریل آئے اور انہوں نے مجھے خبردی کہ میری امت میرے اس فرزند کو شہید کردے گی اور میرے پاس ان کے مقتل کی سرخ مٹی لائے۔

نواسے کی وفات پر رسول اﷲ کااشک بارہونا

حضور نبی کریم اور خدیجۃ الکبریٰ کا نکاح جب ہوا تو اس وقت آپ کی عمر مبارک پچیس سال تھی شادی سے ٹھیک پانچ سال بعد سیدہ زینب اس دنیا میں تشریف لائیں یہ آپ کی پہلی اولاد تھیں جسے آپ بہت پیار فرماتے تھے۔ حضرت زینب کے شوہر حضرت ابو العاص جب مسلمان ہوگئے تو آپ نے سابق نکاح پر ہی دونوں کو گھر بسانے کی اجازت دے دی اس جوڑے کو اﷲ تعالیٰ نے ایک بیٹا عطا کیا جس کا نام علی رکھا گیا اور پھر ایک بیٹی عطا کی گئی جس کا نام اُمامہ رکھا گیا .حضرت علی کو ابو العاص نے رضاعت کے لیے ایک قبیلہ میں چھوڑدیا۔حضرت امامہ آپ کی وہ پیاری نواسی تھیں جنہیں آپ نے اپنی گود میں لے کر نماز پڑھی تھی ۔ سیدہ فاطمہ جب اس دنیا سے رخصت ہونے لگیں تو انہوں نے حضرت علی کو وصیت کی تھی کہ حضرت امامہ کو اپنے نکاح میں لے لیں اس وصیت پر عمل کیا گیا۔ چنانچہ حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں:

  أرسلت ابنة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم إلیه : أن ابنا لى قبض فأتنا. فأرسل یقرى السلام ویقول : " إن للّٰه ما أخذ وله ما أعطى وكل عنده بأجل مسمى فلتصبر ولتحتسب "فأرسلت إلیه تقسم علیه لیأتینھا فقام ومعه سعد بن عبادة ومعاذ بن جبل وأبى بن كعب وزید ابن ثابت ورجال فرفع إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الصبى ونفسه تتقعقع ففاضت عیناه فقال سعد: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ! ما ھذا ؟ فقال : "ھذه رحمة جعلھا اللّٰه فى قلوب عباده فإنما یرحم اللّٰه من عباده الرحماء.21
  نبی کریم کی صاحبزادی (حضرت زینب ) نے آپ کے پاس کسی کے ذریعہ سے یہ پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا دم توڑ رہا ہے اس لیے (فورا) آپ میرے پاس تشریف لے آئیے۔ آنحضرت نے (اس کے جواب میں) سلام کے بعد کہلا بھیجا کہ جو چیز (یعنی اولاد وغیرہ) اللہ نے لے لی وہ بھی اسی کی تھی اور جو چیز اس نے دے رکھی ہے وہ بھی اسی کی ہے (لہٰذا ان کے اٹھ جانے پر جزع و فزع نہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ اس کی امانت تھی جسے اس نے واپس لے لیا) اور اس (خدا) کے نزدیک ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے (یعنی تمہارے بیٹے کی زندگی اتنے ہی دنوں کے لیے لکھی گئی تھی جتنے دن وہ زندہ رہا۔) بس تمہیں صبر کرنا اور اللہ سے ثواب کا طلب گار رہنا چاہے۔ حضرت زینب نے دوبارہ آدمی بھیجا اور (اس مرتبہ) انہوں نے آنحضرت کو قسم دی کہ آپ ضرور تشریف لائیے چنانچہ آپ اٹھ کھڑے ہوئے۔ حضرت سعد بن عبادہ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب ،حضرت زید بن ثابت اور صحابہ میں سے دوسرے لوگ آپ کے ساتھ ہو لیے ۔جب آپ صاحبزادی کے ہاں پہنچے تو بچہ آپ کی گود میں دے دیا گیا جو جان کنی کی حالت میں تھا ۔اسے دیکھ کر آنحضرت کی آنکھیں آنسو بہانے لگیں حضرت سعد نے کہا : یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ رحمت ہے جسے اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا فرمایا ہے۔ اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے صرف انہیں لوگوں پر رحمت یعنی مہربانی کرتا ہے جو جذبہ ترحم رکھنے والے ہیں۔

فاطمہ بنت اسد کی وفات پر مبارک آنسو

خوش نصیب خاتون جلیل القدر صحابیہ حضرت فاطمہ بنت اسد حضرت علی اور ان کے بہن بھائیوں کی والدہ ہیں یہ پہلی ہاشمی خاتون ہے جنہوں نے خلیفہ کو جنم دیا۔ صحیح قول کے مطابق انہوں نے ہجرت کی اور مدینہ طیبہ میں وفات پائی۔ یہ بڑی نیک خاتون تھیں نبی کریم ان سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے تھے اور دوپہر کو ان کے گھر آرام فرماتے تھے۔

ان کی اور کیا فضیلت بیان کی جائے کہ سرکار دو عالم نے خود ان کو اپنی ماں کہا اور ان کے لیے دعائیں مانگی ،خود ان کی قبر کو کھودا، اپنے مبارک ہاتھوں سے مٹی کو نکالا ، اس میں لیٹے اور اپنی قمیص ان کو پہنائی۔چنانچہ امام حاکم نیشاپوری روایت کرتے ہیں:

  عن الزبیر بن سعید القرشى، قال: كنا جلوسا عند سعید بن المسیب فمر بنا على بن الحسین... فقام إلیه سعید بن المسیب وقمنا معه، فسلمنا علیه فرد علینا، فقال له سعید: یا أبا محمد، أخبرنا عن فاطمة بنت أسد بن ھاشم أم على بن أبى طالب رضى اللّٰه عنھما، قال: نعم، حدثنى أبى، قال: سمعت أمیر المؤمنین على بن أبى طالب یقول: لما ماتت فاطمة بنت أسد بن ھاشم كفنھا رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم فى قمیصه وصلى علیھا، وكبر علیھا سبعین تكبیرة، ونزل فى قبرھا فجعل یومى فى نواحى القبر، كأنه یوسعه ویسوى علیھا وخرج من قبرھا وعیناه تذرفان، وحثى فى قبرھا فلما ذھب، قال له عمر بن الخطاب رضى اللّٰه عنه: یا رسول اللّٰه، رأیتك فعلت على ھذه المرأة شیئا لم تفعله على أحد، فقال: «یا عمر، إن ھذه المرأة كانت أمى التى ولدتنى، إن أبا طالب كان یصنع الصنیع، وتكون له المأدبة، وكان یجمعنا على طعامه، فكانت ھذه المرأة تفضل منه كله نصیبا فأعود فیه، وإن جبریل علیه السلام أخبرنى عن ربى عز وجل أنھا من أھل الجنة، وأخبرنى جبریل عليه السلام أن اللّٰه تعالى أمر سبعین ألفا من الملائكة یصلون علیھا.22
  زبیر بن سعید القرشی بیان کرتےہیں : ہم سعید بن المسیب کے پاس بیٹھےتھےکہ ہمارےپاس سے علی بن الحسین گزرے۔۔۔پس سعید بن المسیب ان کےپاس کھڑےہوگئے تو ہم بھی ان کےساتھ کھڑےہوگئے۔ہم نےانہیں سلام کیا انہوں نےجواب دیا۔سعید نے ان سےعرض کی: اےابو محمد!حضرت علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کےمتعلق بتائیں۔ انہوں نے کہا: جی! میرےوالدنے مجھ سےبیان فرمایاکہ میں نےامیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب کو کہتے سنا: جب فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کی وفات ہوئی تو حضور نبی کریم نے انہیں اپنی قمیص مبارک میں کفن دیا ،ان پر نماز جنازہ پڑھائی اور ستر تکبیریں کہیں۔ پھر آپ قبر میں اترے اور ہاتھ سے یوں اشارے کیے جیسے آپقبر میں توسیع کررہے ہوں۔ پھر قبر سے باہر نکل آئے جبکہ آپکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھےپھر آپ نے مٹھی بھر مٹی قبر میں ڈالی۔ جب آپچل پڑے توحضرت عمر نے آپ سے پوچھا یا رسول اﷲ! میں نے آپ کو اس عورت کے ساتھ وہ کچھ کرتے دیکھا ہے جو آپنے کسی عورت کے ساتھ نہیں؟ کیا آپ نے فرمایا: عمر! یہ عورت میری حقیقی ماں کے بعد ماں کا درجہ رکھتی ہے ۔ابوطالب کا میرے ساتھ بہت اچھا رویہ رہا ہے ان کا دستر خوان بچھتا تھا جس پرہمیں جمع کیا جاتا اوریہ عورت ابوطالب کے ہاں فضیلت والی عورت تھی۔ جبرئیلنے مجھے اپنے رب تعالیٰ کی طرف سے خبردی ہے کہ یہ اہل جنت میں سے ہے اورمجھے جبریل نے یہ خبر بھی دی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو اس پر نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔

اس واقعہ کو حضرت انس بن مالک سے روایت کرتے ہوئے امام طبرانی نقل کرتے ہیں:

  عن انس بن مالك قال لما ماتت فاطمة بنت اسد بن ھاشم ام على بن ابى طالب دخل علیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فجلس عند راسھا فقال: رحمك اللّٰه یاامى! كنت امى بعد امى تجوعین وتشبعینى وتعرین وتكسوننى وتمنعین نفسك طیب الطعام وتطعمینى تریدین بذلك وجه اللّٰه والدار الاخرة. ثم امر ان تغسل ثلاثا و ثلاثا فلما بلغ الماء الذى فیه الكافور سكبه علیھا رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم بیده ثم خلع رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قمیصه فالبسھا ایاه وكفنت فوقه ثم دعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم اسامة بن زید وابا ایوب الانصارى وعمر بن الخطاب وغلاماً اسود یحفروا فحفروا قبرھا فلما بلغوا اللحد حفره رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بیده واخرج ترابه بیده.فلما فرغ دخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاضطجع فیه وقال: اللّٰه الذى یحیى ویمیت وھو حى لا یموت اغفر لامى فاطمة بنت اسد ولقنھا حجتھا ووسع علیھا مدخلھا بحق نبیك والانبیاء الذین من قبلى فانك ارحم الراحمین. ثم كبر علیھا اربعا ثم ادخلوھا القبر ھو والعباس وابوبكر الصدیق.23
  حضرت انس بیان کرتے ہیں جب فاطمہ بنت اسد حضرت علی بن ابی طالب کی والدہ فوت ہوئیں تو حضور نبی کریم تشریف لائے اور ان کے سرہانے بیٹھ گئے اور کہا: اے میری ماں! تجھ پر اﷲ رحم فرمائے تو میری ماں کے بعد میری ماں تھی۔تو بھو کی رہتی اور مجھے سیر کرتی اور تو خود نہ پہن کر بھی مجھے پہناتی اور اپنی زینت کو ترک کرکے بھی مجھے کھانا کھلاتی۔ اس کے ساتھ تو اﷲ کی رضا اور دار آخرت کو چاہتی تھی۔ پھر حکم فرمایا کہ انہیں تین مرتبہ غسل دیا جائے۔ جب وہ پانی پہنچا جس میں کافور تھا تو حضور نے خود اپنے ہاتھ سے پانی بہایا۔ پھر رسول اﷲ نے اپنی قمیص مبارک کو اتارا اور وہ ان کو پہنادی اور اپنی چادر کا انہیں کفن پہنایا۔ پھر رسول اﷲ نے اسامہ بن زید، ابوایوب انصاری ،عمر بن خطاب اور ایک غلام اسود کو بلایا کہ وہ قبر کھودیں۔ انہوں نے ان کی قبر کھودی جب لحد تک پہنچے تو اس کو رسول اﷲ نے اپنے ہاتھ سے کھودا اور اس کی مٹی اپنے ہاتھ سے نکالی اورجب فارغ ہوئے تو رسول اﷲ داخل ہوئے اور اس میں لیٹے۔پھر کہا: وہ اﷲ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور وہ ایسا زندہ ہے جس کو موت نہیں۔ (اے اﷲ) تو میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور ان پر ان کی قبر کو کشادہ فرما ۔اپنے نبی اور مجھ سے قبل تمام انبیاء کے حق کے سبب بے شک تو بہت بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اور ان پر چار تکبیریں پڑھیں اور ان کو لحد میں حضور نبی کریم ، عباس اور ابوبکر صدیق نے داخل کیا۔

شیرِ خُدا حضرت حمزہ کی وفات کا غم

  عن ابن مسعود «ما رأینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم باكیا أشد من بكائه على حمزة رضى اللّٰه عنه، وضعه فى القبلة ثم وقف على جنازته وانتحب حتى نشق» أى شھق «حتى بلغ به الغشى یقول: یا عم رسول اللّٰه، وأسد اللّٰه ، وأسد رسول اللّٰه، یا حمزة یا فاعل الخیرات، یا حمزة یا كاشف الكربات، یا حمزة یا ذابّ» أى بالذال المعجمة «یا مانع عن وجه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم » أى قال ذلك لا مع البكاء. فلا یقال ھذا من الندب المحرم وھو تعدید محاسن المیت...إلخ.قالت: لا أرجع حتى أرى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فلما رأته قالت: یا رسول اللّٰه أین ابن أمى حمزة؟ قال صلى اللّٰه عليه وسلم: ھو فى الناس. قالت: لا أرجع حتى أنظر إلیه، فجعل الزبیر رضى اللّٰه عنه یحبسھا، فقال صلى اللّٰه عليه وسلم : دعھا فلما رأته بكت وصارت كلما بكت بكى صلى اللّٰه عليه وسلم، ثم أمر به فسجى ببرده.24
  حضرت ابن مسعودسے روایت ہے کہ ہم نے آنحضرت کو اتنا روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا آپ حضرت حمزہ پر روئے ۔ آپ نے لاش کو قبلہ رو کر کے دیکھا پھر آپ جنازے کے پاس کھڑے ہو گئے اور اس قدر زارو قطار روئے کہ آپ پر غشی سی طاری ہو نے لگی ۔ اس وقت آپ لاش کو مخاطب کر کے کہتے جاتے تھے ۔ اے رسول خدا کے چچا ، اے اللہ کے شیر ، اے رسول خدا کے شیر، اے حمزہ ! اے نیکیوں کے کرنے والے ، اے حمزہ! اے برائیوں کو کھونے والے ،اے رسول خدا کے محافظ!ْیعنی اآپ نے یہ کلمے اس وقت نہیں فرمائے جبکہ آپ رو رہے تھے لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ نوحہ وشیون ہے جو حرام ہے ۔ بلک یہ میت کی خوبیوں کو گنانا تھا ۔میں اس وقت تک نہیں جاؤ ں گی جب تک رسول اللہ سے نہ مل لوں۔پھر جب وہ آنحضرت سے ملیں تو کہنے لگیں ۔ یارسول للہ ! میرا ماں جایا حمزہ کہاں ہے ۔آپ نے فرمایا وہ لوگوں کے درمیان میں ہیں ۔ یہ سن کر وہ غم واندوہ کی ماری کہنے لگیں کہ جب تک میں ان کو ایک نظر نہ دیکھ لوں گی ہر گز یہاں سے واپس نہیں جاؤں گی ۔ اس پر حضرت علی اور حضرت زبیر نے ان کو پکڑلیا اور وہاں جانے سے روکنے لگے ۔ آخر آنحضرت نے ان دونوں کو حکم دیا کہ انہیں جا کر دیکھ آنے دو ، چنانچہ وہ سیدھی لاش کے پاس گئیں اور اسے دیکھ کر بے اختیار رو پڑیں ۔آنحضرت ان کو روتے سسکتے دیکھتے تو خود بھی رونے لگتے ۔ آخر آپ نے اپنی چادر سے لاش کو ڈھکوادیا۔25

پیارے صحابہ کے لیے آنسو

انہیں اشک ِرسول اللہ کے بارے میں حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں :

  رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یقبل عثمان بن مظعون وھو میت حتى رایت الدموع تسیل.26
  میں نے رسول اﷲ کو دیکھا کہ آپ نے حضرت عثمان بن مظعون کو بوسہ دیا جبکہ وہ فوت ہوگئے تھے ۔میں نے دیکھا کہ آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔

اسی طرح حضرت انس سے روایت ہے:

  ان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم نعى زیداً او جعفراً وابن رواحة للناس قبل ان یاتیھم خبرھم فقال: اخذ الرایة زید فاصیب ثم اخذ جعفر فاصیب ثم اخذ ابن رواحة فاصیب وعیناه تذرفان حتى اخذ الرایة سیف من سیوف اللّٰه یعنى حتى فتح اللّٰه علیھم.27
  حضرت انس فرماتے ہیں : نبی کریم نے حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت ابن رواحہ کی خبر آنے سے پہلے ان کے شہید ہوجانے کے متعلق لوگوں کو بتادیا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا : اب جھنڈا زید نے سنبھالا ہوا ہے لیکن وہ شہید ہوگئے۔ پھر جعفر نے جھنڈا سنبھال لیا تو وہ بھی شہید ہوگئے۔ پھر ابن رواحہ نے جھنڈا سنبھالا ہے اور وہ بھی جام شہادت نوش کرگئے۔ یہ فرماتے ہوئے آپ کے چشمان مبارک اشک بار تھیں یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار (یعنی خالد بن ولید ) نے جھنڈا سنبھال لیا ہے اور اس کے ہاتھوں اﷲ تعالیٰ نے کافروں پر فتح مرحمت فرمادی۔

اسی غیب کی خبر کے متعلق ابن کثیر لکھتے ہیں:

  كما أخبر بذلك كله رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم أصحابه الذین بالمدینة یومئذ وھو قائم على المنبر، فنعى إلیھم الأمراء، واحداً واحداً وعیناه تذرفان صلى اللّٰه عليه وسلم.28
  آپ نے مدینہ کے تمام صحابہ کرام کو منبر پر کھڑے ہو کر خبر دی اور ایک ایک امیر کی شہادت کی خبر دی اور آپ کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

اسی طرح حضرت قتادہ بن نعمان فرماتے ہیں کہ میں احد کے روز نبی کریم کے سامنے کھڑے ہوکر آپ کا تیروں سے دفاع کررہا تھا کہ ایک تیر میری آنکھ میں لگا جس سے میری آنکھ کا حلقہ باہر آپڑا۔ میں اسے ہاتھ میں لیکر نبی کریم کی طرف بھاگا۔ مزید امام طبرانی روایت کرتے ہیں:

  فلما راه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى كفى دمعت عیناه فقال: اللّٰھم ان قتادة قد اوجه نییك بوجھه فاجعلھا احسن عینیه واحدھما نظرا فكانت احسن عینیه واحدھما نظرا.29
  جب آپ نے اسے میری ہتھیلی پردیکھا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپ نے دعا مانگی، اے اﷲ! قتادہ کو بچا جس طرح اس نے تیرے نبی کے چہرے کا دفاع کیا اس کی آنکھ کو زیادہ خوبصورت اور تیز فرما، چنانچہ آپ کی دعا کا یہ اثر ہوا ہےکہ وہ آنکھ دوسری آنکھ سے زیادہ خوبصورت اور تیز ہوگئی۔

امت کے غم میں آنسو

یہی آنسو مبارک آپ نے اپنی امت کے غم میں بھی بہائے ہیں۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمرو سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نے ان آیات کی تلاوت کی جن میں حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ نے رب کریم کی بارگاہ میں عرض کیا تھا ۔حضرت ابراہیم کی دعا ہے:

  فَمَنْ تَبِعَنِى فَاِنَّه مِنِّى وَمَنْ عَصَانِى فَاِنَّك غَفُوْرٌ رَّحِیمٌ3630
  پس جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی تو بیشک تُو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔

حضرت عیسیٰ ابن مریم کی دعا ہے:

  اِنْ تُعَذِّبْھمْ فَاِنَّھمْ عِبَادُك وَاِنْ تَغْفِرْ لَھمْ فَاِنَّك اَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَكیمُ118 31
  اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے ۔

ان دو دعاؤں کے بعد رحمت عالم کی یہ کیفیت تھی کہ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھادیے اور عرض کرنے لگے: اے اﷲ! میری امت، میری امت اور روپڑے۔اس پر رحمت باری جوش میں آگئی اور جبریل سے فرمایا:میرے محبوب کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو کہ وہ کیوں رورہے ہیں؟اس اثناء میں حضرت جبریل آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ ! آپ کیوں پریشان ہیں؟ آپنے فرمایا: مجھے امت کے بارے میں غم ہے اس پر ربِّ کریم نے جبریل سے فرمایا:

  فقل انا سنرضیك فى امتك ولا نسوء ك.32
  تم یہ خوش خبری سناؤ: اے محبوب، ہم امت کے بارے میں آپ کو خوش کریں گے اورپریشان نہیں کریں گے۔

آخرت کی یاد میں آنسو

آپ کے آنسو مبارک آخرت کےبارے میں بھی بہا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں کہ نبی کریم نے خطبہ ارشاد فرمایا اور آپ کے آنسو مبارک بہنے لگے۔چنانچہ روایت میں منقول ہے:

  لا تنسوا العظیمتین الجنة والنار ثم تبكى حتى جرى او بل دموعه جانبى لحیته ثم قال؛ والذى نفس محمد بیده لو تعلمون ما اعلم من امر الاخرة لمشیتم الى الصعید ولحثیتم على رؤوسكم التراب.33
  دو بڑی چیزوں سے غفلت کا شکار نہ ہونا ایک جنت اور دوسری دوزخ۔ یہ کہہ کر آپ رودیے حتیٰ کہ آنسو آپ کی داڑھی مبارک کی دونوں جانب بہنے لگے اور آپ کی داڑھی تر ہوگئی اور آپ نے فرمایا:اگر تم آخرت کے حالات کو اس طرح جان لو جس طرح میں جانتا ہوں تو تم میدان میں چلے جاؤ (آبادی میں تمہارا جی نہ لگے گا)اور تم (اس قدربے قرار ہوجاؤ کہ) اپنے سروں پر مٹی ڈالنے لگو۔

حضور کی حیات طیبہ میں بارہا ثابت ہے کہ آپ کی آنکھوں سے مذکورہ یا ان جیسے واقعات وحادثات پر آنسو بہہ نکلے لیکن اس بات کو ذہن نشین رکھیے کہ آنسو نکلنا اور جزع و فزع کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک بے صبری کا عمل ہے اور دوسرا فطری عمل ہے ،ایک سے منع کیا گیا ہےاور دوسرے کی آزادی دی گئی ہےتاکہ غم ہلکان ہوسکے ۔ آنسو نکلنا نرم دل انسان کی نشانی ہے جبکہ حقیقی غم پر بھی آنسوؤں کا آنکھوں سے نہ بہنا کثافتِ قلبی یا نفسیاتی عارضہ کے سوا کیا ہو سکتا ہے ؟ زندہ انسان جہاں خوشی کا موقع ہو وہاں سرورو کیف کے جذبات سے سرشار ہوتا ہے اور جہاں مغموم حالت و کیفیت ہو تو وہ اپنے غم کا بھی اظہار کرتا ہے۔ حضور اکرم نے یہی سنت اہل ایمان کے لیے اپنے طرز عمل سے جاری فرمائی کہ دکھ اور الم میں آنسو روکنا ایمان کی نشانی نہیں بلکہ انہیں بہانا اللہ تعالیٰ کے رسول کی سنت مبارکہ ہے اور یہ کہ رسول اللہ نے اپنے طرز عمل سے غم میں غمزدگی اور آنسو بہانے کو بھی عبادت بنا دیا جبکہ اس کے ساتھ رب تعالیٰ سے گلہ ، شکوہ و شکایت اور نافرمانی کا عنصر شامل نہ ہو۔

آپ اللہ کی کمال رحمت بن کر تشریف لائے اور اپنی حیات طیبہ میں اُمت کی مغفرت کے لیے دعاکرتے رہے،اُمت کے لیے روتے اور یوں دعاکرتےکہ اےاللہ میری اُمت کو بخش دینا۔ حتیٰ کہ آنسو آپ کی داڑھی مبارک کی دونوں جانب بہتے اور آپ کی داڑھی مبارک تر ہوجاتی تھی۔یہ مبارک آنسو اکثر اُمت کی مغفرت کے واسطے نکلتےتھے۔یہ خاص کرم ہے رب ِکائنات کا انسانیت پرکہ اُمت محمدیہ کے لیے ایسا عظیم الشان اور محبوب نبی کریم عطا فرمایا۔

 


  • 1 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3431، دار السلام للنشر والتوزيع، الرياض، السعودية،1419هـ، ص: 577- 578
  • 2 القرآن، سورۃ آل عمران3 :36
  • 3 مولانا مفتی مظفر حسین ،شمائل کُبریٰ ، ج-5، مطبوعۃ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص:107
  • 4 زين العابدين الحدادى، التيسير بشرح الجامع الصغير، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة الإمام الشافعى، الرياض، السعودیہ، 1988ء، ص:221
  • 5 مولانا مفتی مظفر حسین، شمائل کبری، ج-5،مطبوعۃ: دار الاشاعت،کراچی، پاکستان، 2003ء، ص:109
  • 6 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 316، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:151
  • 7 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، المزھر فی علوم اللغۃ وانواعھا، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص: 208
  • 8 ابونعیم احمد اصفہانی، حلية الاولیاء و طبقات الاصفیاء ﷫، ج-4، مطبوعۃ: دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان،)لیس التاریخ موجوداً(، ص: 168
  • 9 محمد بن عیسیٰ ترمذی،الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 317، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:151- 152
  • 10 القرآن، سورۃ النساء5 :38
  • 11 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 546، ج-19، مطبوعۃ : مکتبۃ ابن تیمیۃ القاھرۃ ،مصر،)لیس التاریخ موجودًا)،ص: 243
  • 12 عبداﷲ بن محمد بن یعقوب ابن الحارث حارثی، مسند ابی حنیفہ، حدیث: 340، مطبوعہ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008ء، ص: 133 -134
  • 13 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث :1024، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1419ھ،ص:167
  • 14 ابو الفداء إسماعيل بن عمر الدمشقى، البداية والنهاية، ج-2، مطبوعة: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1407هـ، ص:279
  • 15 أبو الحسن مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح مسلم، حدیث: 2258ـ 2259، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1421ھ، ص:392
  • 16 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:1303، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ھ، ص:208ـ209
  • 17 سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:1063، ج -22 ، مطبوعہ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل،العراق، )لیس التاریخ موجودًا)، ص :436
  • 18 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری،حدیث:1342، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1419ھ، ص:214
  • 19 اس حوالہ سے امام قرطبی فرماتے ہیں کہ امام ابن عبد البر نے"الاستیعاب"میں کہا کہ آپ کو اتوار کے دن محرم الحرام کی 10تاریخ کو کوفہ کے ایک مقام جس کا نام"کربلا" ہے وہاں پر شہید کیا گیا تھا۔ کربلاہی کو"طف"بھی کہتے ہیں۔ (ابو عبداﷲ محمد بن احمد مالکی قرطبی، التذکرۃ فی احوال الموتی وامور الآخرۃ، ج-2، مطبوعۃ: سعیدیہ کتب خانہ صدف پلازہ محلہ جنگی ،پشاور، باکستان، )لیس التاریخ موجودًا) ، ص: 473-474)
  • 20 عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبری، ج-2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،)لیس التاریخ موجودًا)، ص:212
  • 21 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 1284، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ء، ھ، ص:205
  • 22 محمد بن عبداﷲ حاکم، المستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4572، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص: 116
  • 23 سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 871، ج -24، مطبوعہ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، العراق، 1983م، ص :351
  • 24 أبو الفرج على بن إبراهيم الحلبى، السيرة الحلبية(إنسان العيون فى سيرة الأمين المأمون)، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،1427هـ، ص:335-336
  • 25 علامہ علی ابن برہان الدین حلبی ، مترجم :محمد اسلم قاسمی ، سیرۃحلبیہ ،ج- 4،مطبوعہ:دارالاشاعت کراچی ، پاکستان ،2009ء ،ص:206-207
  • 26 أبو داود سلیمان بن الأشعث السجستانی، سنن أبی داود، حدیث: 3163، مطبوعۃ: دا رالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1430ھ، ص:645
  • 27 أبو عبد اللہ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3757، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ھ، ص:632
  • 28 أبو الفداء اسماعیل بن عمرالدمشقی، الفصول فی اختصار سیرۃ الرسولﷺ، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان،) لیس التاریخ موجودًا) ، ص :173
  • 29 سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 12، ج -19، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ،القاھرۃ، مصر، ) لیس التاریخ موجودًا)، ص: 8
  • 30 القرآن، سورۃ ابراہیم14: 36
  • 31 القرآن، سورۃالمائدہ5: 118
  • 32 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 346، ج- 1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، )لیس التاریخ موجودًا)، ص: 191
  • 33 عبد العظیم بن عبد القوی منذری، الترغیب والترہیب، حدیث: 5537،ج -4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1417ﻫ، ص:247-248