Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

قدمینِ مصطفٰی ﷺ

Published on: 20-Dec-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 56، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 886-900)

حضور sym-1کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبع فیوضات وبرکات تھے۔ اگر کسی بیمار کو لگ جاتے تو تندرست ہوجاتا، اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے وہ تیز رفتار ہوجاتا۔ پتھروں پر آجاتے تو وہ پتھر آپ sym-1کے پاؤں کے نیچے نرم ہوجاتے۔ جن مقامات نے آپ sym-1کے مبارک قدموں کو مس کیا انہیں وہ درجہ ملا جس کی مثال دنیا و آخرت میں نہیں ملتی۔

پائے اقدسِ حبیب

ایک دفعہ قریش اکٹھے ہوکر ایک کاہنہ کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم میں سے ہر ایک کا پاؤں دیکھ کر بتاؤ کہ ہمارے درمیان کون شخص صاحب نبوت ہوسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ: زمین کو اچھی طرف صاف کرو تاکہ اس پر کوئی نشان نہ رہے اس کے بعد تم سب باری باری میرے سامنے چلو میں تمہارے قدموں کے نشانات دیکھ کر فیصلہ دوں گی۔ تمام قریش چلے اور اس نے ان کے نشانات دیکھے ان میں حضور sym-1بھی تھے۔

فابصرت اثر محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: ھذا اقربكم شبھا به.
کاہنہ نے جب حضور sym-1کے مبارک قدموں کے آثار دیکھے تو کہا: یہ پاؤں اس کےزیادہ مشابہ ہیں۔

حضرت ابن عباسsym-8 بیان کرتے ہیں:

ان قریشا اتوا كاھنة فقالوا لھا: اخبرینا باقربنا شبھا بصاحب ھذا مقام؟ فقالت: ان انتم جررتم كساء على ھذه السھلة، ثم مشیتم علیھا انباتكم، فجروا ثم مشى الناس علیھا فابصرت اثر محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت: ھذا اقربكم شبھا به. فمكثوا بعد ذلك عشرین سنة او قریبا من عشرین سنة او ماشاء اللّٰه ثم بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.1
قریش ایک کاہنہ کے پاس گئے اور اس سے کہا :ہمیں بتاؤ کہ ہمارے اندر کون شخص صاحبِ نبوت ہوسکتا ہے؟ اس نے جواب دیا زمین کو اپنی چادر سے صاف اور بے نشان کرکے اس پر چلو میں نقشِ قدم کو دیکھ کر بتادوں گی۔ انہوں نے زمین کو صاف کیا پھر اس پر چلے تو کاہنہ نے حضورنبی کریمsym-1کے نشانِ قدم کو دیکھ کر کہا: یہ شخص نبوت کا زیادہ مستحق ہے۔ اس کے بعد وہ انتظار کرتے رہے چنانچہ بیس سال یا تقریبا بیس سال یا جتناعرصہ اللہ نےچاہا کےبعدرسول اﷲ sym-1نے اعلان نبوت فرمایا۔

قدم مبارک کا اعجاز

حضور sym-1کے مقدس پاؤں جب پتھروں پر آجاتے تو وہ پتھر آپ کے پاؤں کے نیچے نرم ہوجاتے۔

حضرت ابوہریرہsym-5 بیان کرتے ہیں:

ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه واثرت.2
جب حضور sym-1پتھروں پر چلتے تو آپ sym-1کے پاؤں مبارک اس میں دھنس جاتے اور قدم مبارک کے نشان ان پرظاہر جاتے۔

جس طرح پتھر پر حضرت خلیل الرحمن sym-9کے مبارک قدموں کے نشان ہیں اسی طرح بعض پتھروں پر اﷲ کے حبیب sym-1کے قدمین شریفین کے نشان بھی ہیں ان میں سے بعض آج تک مختلف مقامات پر مخلوق خدا کی زیارت گاہ ہیں۔

امام زرقانیsym-4 فرماتے ہیں:

وقد اشتھر فى المدائح قدیما وحدیثا ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه واثرت.3
حضور sym-1کی مدح کرنے والے متقدمین ومتاخرین میں یہ مشہور ہے کہ آپ sym-1جب کسی پتھر پر قدم رکھتے توپاؤں مبارک اس میں دھنس جاتےاور اس میں قدم مبارک کانشان نظر آتا۔

امام قسطلانی sym-4فرماتے ہیں:

انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان اذا مشى على الصخر غاصت قدماه فیه.
كما ھو مشھور قدیما وحدیثا على الالسنة ونطق به الشعراء فى منظومھم والبلغاء فى منثورھم مع اعتضاده بوجود اثر قدمى الخلیل ابراھیم فى حجر المقام المنوه به فى التنزیل فى قوله تعالى فى "فِیه اٰیتٌۢ بَینٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھیمَ". 974
آپ جب کسی پتھر پر قدم رکھتے تو پاؤں مبارک اس میں دھنس جاتےاور اس میں قدم مبارک کانشان نظر آتا۔جیسا کہ ہر زمانے میں یہ بات زبان زدعام رہی ہے ۔شعراء نے اپنے نعتیہ قصائد میں اور بلغاء نے اپنے نثری شہ پاروں میں اس موضوع پر لب کشائی کی ہے۔ حرم پاک میں قدمین حضرت ابراہیم کے نقوش اس معجزہ کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ قرآن حکیم میں آیا ہے"مقام ابراہیم میں روشن نشانیاں ہیں"۔
وھو البالغ تعیینه وانه اثره مبلغ التواتر.5
یہ معجزہ تو درجہ تواتر تک پہنچا ہوا ہے۔

امام خفاجی sym-4فرماتے ہیں:کہ بیت المقدس اور مصر میں ایسے پتھر موجود ہیں جن پر آپ کے مبارک قدم کا نشان ہے۔

انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان فى بعض الاحیان اذا مشى غاص قدمه فى الحجارة بحیث بقى ذلك الى الان وارتسم فیھا مثاله یعینه والناس تتبرك به وتزوره وتعظمه كما فى القدس ونقل منه فى مصر فى اماكن متعددة حتى قیل: ان السلطان قایتباى اشتراه بعشرین الف دینارا واوصى بجعله عند قبره ھو موجود الى الان.
حضور sym-1جب کبھی ننگے پاؤں پتھروں پر چلتے تو پاؤں مبارک ان میں دھنس جاتےاور ان میں بعینہ نشان قدم مبارک پڑ جاتا۔ چنانچہ ان پتھروں کو تبرکا محفوظ کیا گیا ہے جو کہ اب بھی موجود ہیں۔ بیت المقدس اور مصر میں متعدد جگہ ایسے پتھرپائے جاتے ہیں اور لوگ ان کی زیارت و تعظیم کرتے ہیں یہاں تک کہ سلطان قایتبائی نے بیس ہزار دینار میں ایک پتھر خریدا تھا اور وصیت کی تھی کہ اسے میری قبر کے پاس نصب کیا جائے چنانچہ وہ اب تک وہاں موجود ہے۔

امام یوسف بن اسماعیل نبہانی sym-4 فرماتے ہیں:

وإنه صلى اللّٰه علیه وسلم إذا مشى على الرمل أحیاناَ لا یكون لقدمیه أثراَ.6
اور حضور sym-1اگرکبھی ریت پرچلتے تو ریت پر قدمین شریفین کا کوئی نشان نہ رہتا ۔

یعنی سخت پتھر نرم ہوجاتے اور نرم زمین معتدل ہوجاتی تاکہ حبیب کریم sym-1 کو چلتے ہوئے کوئی تکلیف نہ ہو۔

لوہے کا پگھلنا عجیب تر ہے یا پتھر کا؟

اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَلَقَدْ اٰتَینَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭ یجِبَالُ اَوِّبِى مَعَه وَالطَّیرَ ۚ وَاَلَنَّا لَه الْحَدِیدَ107
اور بیشک ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو اپنی بارگاہ سے بڑا فضل عطا فرمایا، (اور حکم فرمایا:) اے پہاڑو! تم اِن کے ساتھ مل کر خوش اِلحانی سے (تسبیح) پڑھا کرو، اور پرندوں کو بھی (مسخّر کر کے یہی حکم دیا)، اور ہم نے اُن کے لئے لوہا نرم کر دیا۔

حضرت داؤد sym-9کا یہ معجزہ کہ آپ sym-1کے ہاتھوں میں لوہا نرم ہوجاتا تھا اس میں شک نہیں کہ یہ آ پ sym-1کا بہت بڑا معجزہ ہے مگر حضور sym-1کے لیے پتھر کا نرم ہوجانا لوہے کے نرم ہونے سے بدرجہا افضل واقوی تھا۔ کیونکہ لوہا تو پگھلا کر بھی نرم کیا جاسکتا ہے، لیکن پتھر کے نرم ہونے کی کوئی صورت ہی نہیں ہوتی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس کے مقدس جسم میں پتھر کو نرم کردینے کی تاثیر ہو، اس کے لیے لوہے کو نرم کردینا کیا مشکل تھا۔

محدث کبیر امام ابو نعیم اصفہانی sym-4فرماتے ہیں:

فان قیل: فقد لین اللّٰه تعالى لداؤد الحدید حتى سرد منه الدروع السوابغ، قلنا: قد لینت لمحمد صلى اللّٰه علیه وسلم الحجارة وصم الصخور فعادت له غارا استتر بھا من المشركین یوم احد مال صلى اللّٰه علیه وسلم براسه الى الجبل لیخفى شخصه عنھم فلین اللّٰه له الجبل حتى ادخل فیه راسه وھذا اعجب لان الحدید تلینه النار ولم نر النار تلین الحجر. وذلك بعد ظاھر باق یراه الناس وكذلك فى بعض شعاب مكة حجر من جبل اصم استروح فى صلاته الیه فلان له الحجر حتى اثر فیه بذراعیه وساعدیه وذلك مشھور یقصده الحجاج ویزورونه وعادت الصخرة ببیت المقدس لیلة اسرى به كھیئة العجین فربط به دابته البراق یلمسه الناس الى یومنا ھذا باق.8
اگر کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت داؤد sym-9کے لیے لوہا نرم کردیا تھا۔ آپ sym-9اس سے بلاتکلف لمبی ڈھالیں بناتے تھے تو ہم کہیں گے کہ حضرت محمد sym-1کے لیے پتھر اور سخت چٹانیں نرم ہوگئیں اور انہوں نے غار کی شکل بنالی تاکہ نبی کریم sym-1اس میں مشرکین سے بچ کر چھپ سکیں۔ چنانچہ اُحد کے دن آپ sym-1نے پہاڑ کی طرف اپنا سر پھیرا تاکہ وہاں خود کو دشمن کی نگاہوں سے اوجھل کرسکیں تو اﷲ نے پہاڑ کو نرم کردیا اور آپ sym-1نے وہاں سرچھپالیا اور یہ از حد عجیب تر ہے کیونکہ لوہے کو تو آگ اکثر پگھلادیتی ہے مگر پتھر کو نہیں پگھلاسکتی اور میدان اُحد میں وہ جگہ آج تک زیارت گاہِ خلق خدا ہے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ کی گھاٹیوں میں سے ایک سخت مضبوط پہاڑ کی وہ گھاٹی بھی ہے جہاں نبی کریم sym-1نے نماز کے لیے جائے استراحت تلاش کی تھی۔تو وہاں پتھر نرم ہوگیا اور اس پر آپ sym-1کے ہاتھوں اور کلائیوں کے نشان بن گئے۔ اور یہ مشہور جگہ ہے جہاں حجاج کرام جاتے اور زیارت کرتے ہیں۔یونہی شب معراج میں بیت المقدس کا وہ بڑا پتھر گوندھے ہوئے آٹے کی طرح بن گیا (جس میں حضرت جبرائیل نے انگشت ڈال کر سوراخ کیا) اور آپ کا براق اس کے ساتھ باندھ دیا گیا آج کے دن تک لوگ اسے بطور تبرک ہاتھ لگاتے ہیں۔

ریاض الجنّۃ آپ sym-1 کے قدمین کا صدقہ ہے

یہ ساری کائنات آپ sym-1کے مبارک قدموں کی برکت ہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ sym-1کی گرد راہ کی صرف قسم ہی کھاکر اسے ممتاز وافضل نہیں فرمایا بلکہ جن مقامات نے آپ کے مبارک قدموں کو مس کیا انہیں وہ درجہ عظمت ملا جس کی مثال دنیا و آخرت میں نہیں ملتی۔

مسجد نبوی کا ہر مقام افضل ہے مگر اس کا وہ حصہ جسے ریاض الجنّہ کہا جاتا ہے مسجد نبوی کے دیگر مقامات سے افضل ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں آپ sym-1کا آنا جانا کثرت کے ساتھ تھا تو وہ جگہ جہاں حضور نبی کریمsym-1کے مبارک قدم کثرت کے ساتھ لگے وہ جنت کہلایا اس لیے آپ sym-1نے فرمایا:

ما بین بیتى ومنبرى روضة من ریاض الجنة.9
میرے گھر اور منبر کے درمیان جو جگہ ہے یہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

جس ذات پاک پر ایمان لاکر اس کی اتباع اور پھر اس ہستی کے ساتھ محبت اور ادب کا تعلق جنت کی ضمانت ہے کیونکہ رضائے الٰہی ہی رضائے مصطفیٰ ہے اور اتباع و محبت نبی sym-1ہی اتباع و محبت الٰہی ہے، چنانچہ آپ sym-1نے جن راہوں کو اپنی گزرگاہ کے طور پر استعمال فرمایا تھا وہ راہیں بھی متبرّک اور جن راہوں سے آپ sym-1کبھی کبھی گزرے وہ قابل قدر و عظمت ہیں لیکن وہ راستہ جس کو آپ sym-1سے روزانہ کم از کم پانچ مرتبہ اپنی گذرگاہ کے طرز پر اختیار فرمایا ہو اور وہ بھی عبادات کی ادئیگی کے لئے ایسی راہ کی عظمت کے سامنے سونے اور چاندی سے مرصعّ حریر و کمخواب میں ملفوف کسی شاہی رستے کی بھی کیا اوقات ہوسکتی ہے کیونکہ دنیا کا ہر قیمتی صاف شفاف راستہ بہر حال دنیا ہی کی کسی منزل تک پہنچانے والا ہوتا ہے خواہ اس پر امیر کبیر سفر کرے ، سفیر ، وزیر عازم کی جولان گاہ ہو یا بادشاہ اور شہنشاہ اپنے قدمین نازنین کے لئے بطور گذرگاہ کے استعمال کرے، لیکن آقا کریم sym-1کا اعجاز و کمال یہ ہے کہ وہ راہ جس پر محبوبیت کے ساتھ بار بار سفر کیا اس پر قدم رکھنے والا شاہراہ جنّت پر عازم ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اس گذرگاہ کو خود آقا کریم sym-1نے جنت کی کیاری فرما کر اس کی عظمت و شان کو جنّت کا مصداق بنا دیا۔

منبرنبوی اورحوض کوثر

حضور sym-1نے فرمایا:

منبرى على حوضى.10
میرا منبر میرے حوض کوثر پر ہے۔

گویا آپ نے واضح فرمادیا کہ جس جگہ حضرت اسماعیلsym-9 کے مبارک قدم لگے وہاں آبِ زم زم کا چشمہ جاری ہوا اور جس جگہ محبوب خدا sym-1کے مبارک قد م پڑے وہاں سے حوض کوثر کا دریا جاری ہوگا جس سے قیامت کے دن تمام جنتی سیراب ہوں گے۔

یثرب سے دار الشفاء

مدینہ منورہ کی سرزمین کا سابقہ نام یثرب ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بستی بیماریوں کا مرکز ہے یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان اس کی طرف ہجرت کرکے گئے تو کفارِ قریش خوش ہوئے کہ یہ خود بخود وہاں بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوجائیں گے ۔صحابہ کرام sym-7نے یہ معاملہ آپ sym-1کی خدمت میں پیش کیا تو آپ sym-1نے فرمایا :اب یہ یثرب نہیں بلکہ یہ مدینۃ الرسول ہے گویا اب بیماریوں کا مرکز نہیں بلکہ شفاء کا مرکز ہے۔ آخر اس تبدیلی کا سبب کیا تھا؟ تو اس کا جواب فقط یہ ہے کہ اس سرزمین کو آپ sym-1کے قدم چومنے کا شرف مل گیا تھاجس کی وجہ سے یہ سرزمین رشک عرش بن گئی۔

خاکِ مدینہ

آپ sym-1کا ارشاد مبارک ہے:

ترابھا شفاء من كل داء.11
خاک مدینہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1غزوہ تبوک سے واپس لوٹے تو اس وقت گرد وغبار اڑرہی تھی بعض صحابہ کرام sym-7نے اپنے ناک منہ کو کپڑے سے ڈھانپ لیا اس پر حضور نبی کریم sym-1نے ارشاد فرمایا:

والذى نفسى بیده ان فى غبارھا شفاء من كل داء.12
قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مدینہ کا غبار ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔

مدینہ کی عظمت

نبی کریم sym-1کا اﷲ تعالیٰ کے ہاں جو مقام ومرتبہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں اپنے پیارے حبیب sym-1کے زمانے، گفتگو، چہرہ، وزلف اور زندگی کی قسم کھائی ہے وہاں اس نے آپ sym-1کی خاکِ گزر کی بھی قسم کھائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ1 وَاَنْتَ حِـلٌّۢ بِھذَا الْبَلَدِ213
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں، (اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں، یہ ترجمہ "لا زائدہ" کے اعتبار سے ہے۔لا "نفئ صحیح"کے لئے ہو تو ترجمہ یوں ہوگا: میں (اس وقت) اس شہر کی قَسم نہیں کھاؤں گا (اے حبیب!) جب آپ اس شہر سے رخصت ہو جائیں گے۔

امام قرطبی sym-4لکھتے ہیں:

والبلد ھى مكة اجمعوا علیه اى: اقسم بالبلد الحرام الذى انت فیه لكرامتك على وحبی لك. وقال الواسطى: اى: نحلف لك بھذا البلد الذى شرقته بمكانك فیه حیا وبركتك میتا. یعنى المدینة والاول اصح؛ لان السورة نزلت بمكة باتفاق.14
اس پر اجماع ہے کہ اس شہر سے مراد مکہ ہے یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس حرمت والے شہر کی اس لیے قسم کھائی ہے کہ آپ sym-1اس شہر میں ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ sym-1مکرم ہیں اور اﷲ کو آپ sym-1سے بہت محبت ہے۔

علامہ واسطیsym-4 نے کہا گویا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہم اس شہر کی قسم اس لیے کھاتے ہیں کہ آپ کے اس شہر میں رہنے کی وجہ سے جب تک آپ حیات ہوں یہ شہر مکرم ہے اور جب آپ کی وفات ہو تو یہ شہر برکت والا ہے یعنی مدینہ منورہ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ صورت بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی ہے۔

امام فخر الدین رازیsym-4 فرماتے ہیں:

وانت من حل ھذه البلدة المعظمة المكرمة.15
آپ sym-1اس شہر میں مقیم ہیں اور ٹھہرے ہوئے ہیں گویا کہ اﷲ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ کو اس وجہ سے مکرم قرار دیا ہے کہ آپ sym-1 اس میں مقیم ہیں۔

امام خازنsym-4 فرماتے ہیں:

فكانه عظم حرمة مكة من اجل انه صلى اللّٰه علیه وسلم مقیم بھا.16
گویاآپ sym-1کے یہاں مقیم وجلوہ افروز ہونے کی وجہ سے شہر مکہ کو عظمت ورفعت حاصل ہوئی ہے۔

کسی شہر کی قسم کھانے سے خاکِ پاہی مراد ہوتی ہے کیونکہ شہر سے مراد وہی سرزمین ہے جو اس شخصیت کے قدموں سے مس کررہی ہوتی ہے۔

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں سیدنا فاروق اعظم sym-5 سے جو قول منقول ہے وہ نہایت ہی قابل توجہ ہے اور اہل ایمان ومحبت کے دل کی ٹھنڈک ہے، آپ sym-5 اپنے پیارے آقا sym-1کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:

بابى انت وامى یا رسول اللّٰه ! قد بلغت من الفضیلة عنده ان اقسم بتراب قدمیك. فقال: لا اقسم بھذا البلد.
یا رسول اﷲ میرے ماں باپ آپ sym-1پر فدا ہوں اﷲ تعالیٰ کے ہاں آپ sym-1کا کتنا عظیم مرتبہ ہے کہ اس نے آپ sym-1کے قدموں کی خاک کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا ہے۔
لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ11718
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔

امام قسطلانی sym-4کے الفاظ یہ ہیں:

لقد بلغ من فضیلتك عند اللّٰه ان اقسم بحیاتك دون سائر الانبیاء ولقد بلغ من فضیلتك عنده ان اقسم بتراب قدمیك فقال: لا اقسم بھذا البلد. 19
اﷲ تعالیٰ کے ہاں آپ sym-1کا مقام اتنا بلند ہے کہ اس نے آپ sym-1کی زندگی کی قسم کھائی باقی انبیاءsym-7کی حیات کی نہیں اور اس کے ہاں یہ فضیلت کی انتہا ہے کہ اس نے آپ sym-1کے قدموں سے مس ہونے والی مٹی کی قسم کھاتے ہوئے فرمایا :
لَآ اُقْسِمُ بِھذَا الْبَلَدِ120
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلویsym-4پہلے یہ بیان کرکے اس آیت میں آپ کی خاک پاک کی قسم اٹھائی گئی ہے لکھتےہیں کہ بظاہر یہ معاملہ نہایت ہی سخت وعجیب ہے کہ اﷲ ربُّ العزّت آپ کی خاک پاکی قسم اٹھائے لیکن اگر غور وفکر کیا جائے تو معاملہ بڑا واضح ہے۔

وتحقیق ایں سخن آنست كه سوگند خوردن حضرت رب العزت جل جلاله بچیزے كه غیر ذات وصفات بود برائے اظھار شرف وفضیلت و تمیز آں چیز است نزد مردم ونسبت بایشاں تابد انند كه آں امرى عظیم وشریف است نه آنكه اعظم است بوى تعالى.21
اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا اپنی ذات وصفات کے علاوہ کسی بات کا قسم کھانا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ شے اﷲ تعالیٰ سے بڑی ہے بلکہ حکمت یہ ہوتی ہے کہ اس شے کی فضیلت وعظمت کو واضح کیا جائے تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ اس شے کی اﷲ تعالیٰ کے ہاں بڑی قدر ومزلت ہے۔

حضرت ملا علی قاریsym-4 آیت مذکورہ کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

انه سبحانه وتعالى اقسم بالبلد الحرام وقیده بحلول رسوله علیه الصلوٰةوالسلام به اظھارا لمزید فضله واشعارا بان شرف المكان بشرف اھله.22
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم کھائی اور اسے آپsym-1کے وہاں تشریف فرما ہونے کے ساتھ مقید کیا تاکہ شہر مکہ کی عظمت مزید اجاگر ہو اور یہ واضح ہو کہ مکان کی عظمت صاحب مکان کی وجہ سے ہوتی ہے۔

اُحد کا لرزہ

بعض اوقات جب آپ sym-1اپنے غلاموں کے ساتھ کسی پہاڑ پر تشریف فرما ہوتے تو وہ اس خوشی میں جھومنے لگ جاتا کہ آج مجھے آپ sym-1کے مبارک قدموں کا بوسہ نصیب ہوا ہے۔

ایک مرتبہ آپ اُحد پہاڑ پر تشریف فرما تھے آپ sym-1کے ساتھ اس موقعہ پر حضرت صدیق اکبر sym-5حضرت عمر sym-5حضرت عثمانsym-5 بھی تھے۔ اُحد پہاڑنے خوشی ومسرت میں جھومتے ہوئے حرکت کی تو آپ نے اس پر اپنا پاؤں مارا اور فرمایا ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔

حضرت انس بن مالکsym-5 روایت کرتے ہیں :

صعد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم احدا ومعه ابوبكر وعمر وعثمان فرجف بھم فضربه برجله وقال: اثبت احد فما علیك الا نبى او صدیق او شھیدان.23
کہ ایک روز حضور نبی اکرم sym-1کوہ احد پر تشریف لے گئے اس وقت آپ sym-1کے ساتھ حضرت ابوبکر حضرت عمر اور حضرت عثمانsym-7 تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا۔آپ sym-1نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا: اے احد ٹھہرجا! تیرے اوپر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اورکوئی نہیں۔

امام جلال الدین سیوطیsym-4 روایت کرتے ہیں:

واخرج ابویعلى بسند صحیح عن سھل بن سعد ان احدا ارتج وعلیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وابوبكر وعمر وعثمان فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : اثبت احد فما علیك الا نبى او صدیق او شھیدان.24
ابویعلی sym-4نے بسند صحیح سہل بن سعد sym-5 سے روایت کی کہ کوہ احد لرزہ اس پر رسول اﷲ sym-1ابوبکر صدیق، عمر فاروق، اور عثمان ذوالنورین sym-7 تشریف فرما تھے۔ رسول اﷲ sym-1نے فرمایا: احد قائم رہ۔ تجھ پر نبی اور صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔

حضور sym-1کو معلوم تھا کہ حضرت عمر فاروق sym-5 اور حضرت عثمان ذوالنورین sym-5شہید ہوں گے لہٰذا آپ sym-1نے ان کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی۔ 25

جنبشِ قدم مبارک

حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے ایک دفعہ آپ sym-1اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ مقامِ ذی المجاز میں تھے یہ مقام عرفات سے تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ حضرت ابو طالب نے آ پ sym-1سے پانی طلب کرتے ہوئے کہا:

عطشت ولیس عندى ماء فنزل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وضرب بقدمه الارض فخرج الماء فقال: اشرب.
مجھے پیاس لگی ہے اور اس وقت میرے پاس پانی نہیں، پس حضور نبی کریم sym-1اپنی سواری سے اُترے اور اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو زمین سے پانی نکلنے لگا ۔آپ sym-1نے فرمایا : پی لو۔26
فركضھا ثانیة فعادت كما كانت وسافر.27
جب انہوں نے پانی پی لیا تو آپ sym-1نے اسی جگہ قدم رکھا تو پانی بند ہوگیااورآپ sym-1روانہ ہوگئے۔

حضرت علیsym-5 فرماتے ہیں: وہ ایک دفعہ سخت بیمار ہوگئے رسول اﷲ sym-1نے ان کی عیادت فرمائی اور اپنے مبارک پاؤں سے ٹھوکر ماری جس سے وہ مکمل صحت یاب ہوگئے :حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں:

فضربنى برجله وقال : اللّٰھم اشفه اللّٰھم عافه. فما اشتكیت وجعى ذالك بعد.28
پس حضور sym-1نےاپنا مبارک پاؤں مجھے مارا اور دعا فرمائی اے اﷲ! اسے شفا دے اور صحت عطا کر۔ (اس کی برکت سے مجھے اسی وقت شفا ہوگئی اور) اس کے بعد میں کبھی بھی اس بیماری میں مبتلا نہ ہوا۔

قاضی عیاض sym-4لکھتے ہیں:

اشتكى على بن ابى طالب فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: اللّٰھم اشفعه او عافه. ثم ضربه برجله فما اشتكى ذلك الوجع بعد.29
ایک دفعہ حضرت علی بن ابی طالبsym-5 بیمار ہوگئے تو حضور sym-1نے یہ کہہ کر اے اﷲ !اسے شفا دے اور صحت بخش، اپنا پائے اقدس ان کو مارا تو انہیں اسی وقت صحت ہوگئی اور ازاں بعد کبھی بیمار نہ ہوئے۔

ٹھوکر کا اثر یہ ہوا کہ اسی وقت بیماری دور ہوگئی اور اس کے بعدکبھی بیمار نہ ہوئے۔ یہ تھی تاثیر ان کے مبارک قدموں کی۔

دوران سفر کسی مقام پر اگر کوئی سواری لاغروکمزور ہونے یا کسی اور وجہ سے سُست رفتار ہوجاتی تو آپ sym-1اسے پاؤں کی ٹھوکر لگاتے جس کی برکت سے وہ تمام دیگر سواریوں سے آگے گزرجاتی۔ اس پر متعدد واقعات موجود ہیں:

حضرت ابوہریرہ sym-5بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور sym-1کی خدمت میں آکر اپنی اونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو:

فضربھا برجله.والذى نفسى بیده لقد رایتھا تسبق القائد.30
حضور نبی کریم sym-1نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ قسم اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہوگئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔

حضرت جابرsym-5 کے اونٹ کو بھی آپ sym-1نے غزوہ ذات الرقاع کے موقع پر اپنے مبارک قدموں سے ٹھوکر لگائی تھی، جس کی برکت سے وہ تیز رفتار ہوگیا تھا ۔

فضربه برجله ودعا له فسار سیرا لم یسر مثله.31
آپ sym-1نے اپنے پائے مبارک سے اسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دعا فرمائی پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔

جب حضور sym-1نے دوبار ہ ان سے دریافت کیا کہ اب تیرے اونٹ کا کیا حال ہے تو انہوں نے عرض کیا:

بخیر قد اصابته بركتك.32
بالکل ٹھیک ہے اسے آپ sym-1کی برکت حاصل ہوگئی ہے۔

یہ آپ sym-1کی ٹھوکر کا اثر تھا کہ ایسے مردہ اور مریل قسم کے سست جانوروں کو زندہ اور چست و چالاک بنادیا۔ یوں تو ہر جانور مارنے اور اذیت پہنچانے سے تیز رفتار ہوجاتا ہے مگر اسی وقت تک کہ اس میں درد موجود رہے جس کا تعلق صرف جسم سے ہوتا ہے، لیکن حضور sym-1کا یہ فعل اس کے جسم تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی فطرت اور طبیعت پر اثر کرنے والا تھا۔

حضرت عبداﷲ بن ابی طلحہ sym-5فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1:

ركب حمارا قطوفا لسعد بن عبادة فردھا ھملاجا لایسایر.33
حضرت سعد بن عبادہ sym-5کے بہت سست رفتار گدھے پر سوار ہوئے، جب آ پ sym-1نے اس کو واپس کیا تو وہ ایسا تیز رفتارتھاکہ کوئی دوسرا گدھا اس کے ساتھ نہ چل سکتا تھا۔

امام سیوطی sym-4فرماتے ہیں:

قال ابن سبع: من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم ان كل دابة ركبھا بقیت على القدر الذى كانت علیه ولم تھرم ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم.34
ابن سبع sym-4لکھتے ہیں: نبی کریم sym-1کے خصائص میں سے ہے کہ آپ sym-1نے جس جانورپر سواری فرمائی وہ آپ sym-1 کی برکت سے بوڑھا نہ ہوا بلکہ تاحیات اپنی اسی حالت پر برقرار رہا۔

حضور sym-1کے قدمین شریفین کتنے مضبوط طاقتور اور حیات بخش تھے کہ جس جگہ اور جس چیز کو لگ جاتے زندگی کی لہردوڑادیتے۔ حرکت کو سکون اور سکون کو حرکت میں بدل دیتے، بیماری کو شفا اور کمزوری کو قوت میں بدلنے کا منبع تھے ۔ اگرجمادات و حیوانات کو بھی رسول خداsym-1کے قدم مبارک سے مس ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تو وہ بھی آپ sym-1کی چاہت کے موافق اپنے کو ڈھال لیتے تھے۔


  • 1  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 3072، ج -5، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001 ء، ص :196
  • 2  ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب، ج -5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء،ص :482
  • 3  ایضًا
  • 4  القرآن، سورۃ آل عمران3: 97
  • 5  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتب التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :341
  • 6  یوسف بن اسماعیل النبہانی، حجۃ اﷲ علی العالمین فی معجزات سید المرسلین، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1426 ھ،ص :325
  • 7  القرآن،سورۃ سبا34: 10
  • 8  ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، حدیث :539، ج-1،مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص :594-595
  • 9  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 1390، مطبوعۃ:دار السلام لنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:182
  • 10  ایضًا
  • 11  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:289
  • 12  مبارک بن محمد ابن اثیر جزری، جامع الاصول فی احادیث الرسول ، حدیث: 6962، ج -9،مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، بیروت، لبنان، 1972ء، ص:334
  • 13  القرآن،سورۃ البلد90: 1-2
  • 14  محمد بن احمد بن ابی بکر قرطبی ،الجامع لاحکام القرآن، ج -20، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :55
  • 15  ابوعبداﷲ محمد بن عمر فخر الدین رازی ،تفسیر الکبیر، ج- 31، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص :165
  • 16  علاؤ الدین علی بن محمد الخازن، تفسیر الخازن، ج -4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :429
  • 17  شہاب الدین احمد خفاجی، نسیم الریاض فی شرح شفاء، ج -1، مطبوعۃ: دار ابن رجب، القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :196
  • 18  القرآن،سورۃ البلد90: 1
  • 19  احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ، ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :575
  • 20  القرآن،سورۃ البلد90: 1
  • 21  الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ،ج -1،مطبوعہ: منشی نو لکشور، ہند ، (سن اشاعت ندارد)، ص:65
  • 22  نور الدین علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص :85
  • 23  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:3483، ج-3، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1981ء، ص :1348
  • 24  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبری، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1971ء ، ص :206
  • 25  حضرت عمر بن الخطاب آپ کی شہادت23 ہجری میں ہوئی آپ کو مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولؤلؤ فیروز نامی شخص نے شہید کیا تھا۔ حضرت مغیرہ اس سے چکی بنانے کا کام لیتے اس کے عوض چار درہم روزانہ اسے دیتے تھے ایک دن ابولؤلؤ کی ملاقات سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق سے ہوگئی تو اس نے شکایت کی کہ مغیرہ میرے آقا نے مجھ پر زیادہ بوجھ ڈال دیا ہے، آپ ان سے گفتگو کرکے میرے کام اور ڈیوٹی کو ہلکا کرادیجئے۔ سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے اس سے یہ کہا کہ تم اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنے آقا کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرو۔ اس پر ابولؤلؤ غصہ ہوگیا اور اس نے یہ کہا کہ کتنی تعجب کی بات ہے عدل وانصاف آپ نے میرے علاوہ دیگر تمام لوگوں کے ساتھ کیا ہے۔
    بس وہ اسی دن سے سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کے قتل کی خفیہ تدبیر کرنے لگا چنانچہ اس نے ایک دو رخا دو دھاری خنجر بنایا اور سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کی گھات میں لگ گیا۔ ایک دن سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نماز فجر کے لیے تشریف لائے۔ عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں بھی نماز پڑھ رہاتھا۔ میرے اور سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق کے درمیان عبداﷲ بن عباس حائل تھے۔ اتنے میں آپ ؓ نے تکبیر کہی تھوڑی دیر میں کیا سن رہا ہوں کہ جس وقت ان کے خنجر لگا تو کہنے لگے مجھ پر کتے نے حملہ کردیا۔ قتل کرنے کے بعد وہ کافر چھری لے کر بھاگ گیا۔ وہ دو دھارا خنجر جس کسی کے دائیں یا بائیں سے گزرتا تو وہ لوگوں کو زخمی کردیتا۔ یہ خنجر تقریباً 13 صحابہ کے لگا جس میں سات صحابہ شہید ہوئے بعض نے نو شمار کرائے ہیں۔ کسی مسلمان نے جب اسے دیکھ لیا تو اس کے اوپر ایک چادر ڈال دی جس میں وہ الجھ گیا۔ جب اس قاتل نے یہ سمجھ لیا کہ اب میں پکڑ لیا جاؤں گا تو اس نے خود کو خنجر مار لیا۔
    سیدنا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے فرمایا اﷲ سے ہلاک کرے میں نے تو اسے نیک کاموں کا مشورہ دیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا خدا کا شکر ہے کہ میں کسی مسلمان کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا۔( ابولؤلؤ مجوسی غلام تھا۔ بعض لوگوں نے نصرانی کہا ہے۔ )
    امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین نے بلوائیوں کو لڑائی سے روکا۔ اس کے بعد بلوائی مکان کے عقب سے جس جانب عمرو بن الحرام کا مکان تھا سیڑھی لگاکر گھس آئے۔ ان لوگوں کو اس کی اطلاع تک نہ ہوئی جو حفاظت کی غرض سے دروازے پر تھے۔ ایک بلوائی امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین کے پاس جاتا اور خلع خلافت کی بابت گفتگو کرتا اور واپس آتا تھا۔ اس اثناء میں عبداﷲ بن سلام آئے انہوں نے بلوائیوں کو سمجھانا شروع کیا بلوائی لڑنے اور مارنے پر آمادہ ہوگئے۔ اس کے بعد محمد بن ابی بکر امیر المومنین حضرت عثمان ذوالنورین کے پاس گئے اور دیر تک گفتگو کرتے رہے جس کے ذکر کی حاجت نہیں ہے پھر شرما کر چلے آئے۔ بعد ازاں کمینوں کا ایک گروہ پہنچا ان میں سے ایک نے آپ پر تلوار چلائی۔ نائلہ بنت الفراضہ آپ کی بیوی نے ہاتھ سے روکا۔ انگلیاں کٹ گئیں۔ دوسرے نے وار کیا خون کے قطرے مصحف کریم پر گرا اور آپ شہید ہوگئے۔
  • 26  محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1978ء، ص:152-153
  • 27  علی بن ابراھیم حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1427ھ، ص:170
  • 28  ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، سنن الکبریٰ، حدیث :10830، ج -9، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، 2001ء، ص :388
  • 29  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407 ھ، ص:622-621
  • 30  ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق، مستخرج ابی عوانہ، حدیث: 4145، ج -3 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:44-45
  • 31  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد، حدیث: 14195، ج -22، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص :106-107
  • 32  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 2967، ج -4، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1422 ھ، ص:51-52
  • 33  عیاض بن موسیٰ مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء، عمان، 1407ھ، ص:637
  • 34  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ ،ج -2،مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1971ء ص:107

Powered by Netsol Online