Encyclopedia of Muhammad

دستِ مصطفٰیﷺ

آپ کے دستِ اقدس کے کمالات کا احاطہ دشوار ہے کیونکہ آپ نے جہاں اور جس پر دست اقدس رکھا اس کے ثمرات وہاں ضرور مرتب ہوئے، کسی کو ان کی برکت سے حافظہ ملا، کسی کو انشراح صدر۔ بیمار کو بیماری سے شفا مل جاتی تھی۔دست اقدس جہاں پھیرتے وہ جگہ ہمیشہ کے لیے برکتوں کا منبع ہوجاتی،دست کرم کی برکت سے بیماریاں دور ہوتیں، تکلیفیں دفع ہوتیں، جن چہروں اور سروں پر دستِ شفقت رکھا ان کے چہرے ہمیشہ تروتازہ اور سر کے بال کبھی سفید نہ ہوئے۔ اگر کسی کو سینے پر رکھنے کا موقعہ ملا تو وہ سینہ علوم و معارف کا خزینہ قرار پایا۔ اگر دستِ اقدس کسی چھڑی کو لگ گیا تو وہ روشن ہوگئی۔ میدانِ کا رزار میں غلاموں کے پاس تلواریں ٹوٹ جاتیں تو وہ کھجور کی شاخیں لے کر حاضر ہوتے اورآپ کے ہاتھ کی برکت سے وہ تلوار بن جاتیں ۔

حضور کے ہاتھ مبارک ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض وبرکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ نے اپنے دستِ مبارک سے مس کیا اس کی حالت بدل گئی اور وہ اس کی برکت و تاثیر تادمِ آخر تک محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تونہ صرف اُسے علم وشفایابی عطا فرمائی بلکہ اسے خیر و حکمت کے خزانوں سے مالامال کردیا۔

یہی وہ دست ِ اقدس ہے کہ جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت فرمایا ہے اور اسی دست اقدس پر بیعت کرنے والوں کو یوں بشارت دی ہے یداﷲ فوق ایدیھم کہ ان کے ہاتھوں پر اﷲ کا ہاتھ ہے اور یہی وہ دست شفا ہے کہ جس کے محض چھونے سے وہ بیماریاں دور ہوجاتی تھیں جن کے علاج سے اطباّء عاجز ہیں اور یہی وہ دستِ قدرت ہے کہ جس کے اشارے سے چاند دو پارہ ہوگیا تھا اور ڈوبا ہوا سورج واپس لوٹ آیا تھا۔

کونین کی نعمتیں ہاتھوں میں

یہ وہی نور انی ہاتھ تھے کہ کونین کی نعمتیں ان ہی مبارک ہاتھوں میں مستور تھیں اور کائنات کی ساری برکتیں ان ہی بے مثل ہاتھوں میں پوشیدہ تھیں ۔جیساکہ نبی اکرم ارشاد فرماتے ہیں:

  انى وقد اعطیت مفاییح خزائن الارض او مفاتیح الارض.1
  بے شک مجھے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا:

  اوتیت خزائن الارض فوضع فى یدى.2
  مجھے زمین کے تمام خزانے دیے گئے ہیں اور وہ میرے ہاتھ میں رکھ دئیے گئے ہیں۔

ایک اور روایت میں حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا:

  اتیت بمقالید الدنیا على فرس ابلق علیه قطیفة من سندس.3
  (1)مجھے ساری دنیا کی کنجیاں عطا فرمائی گئی ہیں اور انھیں ابلق گھوڑے پر رکھ کر میرے پاس لایا گیا ہے اور ان کنجیوں پر ریشمی چادر پڑی ہوئی ہے۔

یہ کنجیاں حضرت جبریل لیکر آئے تھےجیسا کہ امام سیوطی کی روایت میں ہے:

  اتیت بمقالید الدنیا على فرس ابلق جاء نى بھا جبریل علیه قطیفة من سندس.4
  مجھے ساری دنیا کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ حضرت جبریل ان کو ابلق گھوڑے پر رکھ کر میرے پاس لائے اور ان کنجیوں پر ریشمی چادر پڑی ہوئی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم کے دستِ اقدس میں تمام خزانوں کی چابیاں عطا فرمائی گئی ہیں اور اس کا مقصد ہے کہ آپ ان میں تصرف فرما سکتے ہیں۔

حضرت آمنہ کی روایت

حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ حضور کی ولادت کے بعد ایک کہنے والا کہہ رہا تھا:

  محمد على مفاتیح النصرة ومفاتیح الریح ومفاتیح النبوة…بخ بخ قبض محمد صلى اللّٰه علیه وسلم على الدنیا كلھا لم یسبق خلق من اھلھا الا دخل فى قبضته.5
  محمد () نے نصرت کی کنجیوں اور نفع کی کنجیوں اور نبوت کی کنجیوں پر قبضہ فرمالیا ہے۔ ۔ ۔واہ واہ محمد نے ساری دنیا پر قبضہ کرلیا۔ کوئی مخلوق ایسی نہ رہی جو آپ کے قبضہ میں نہ آئی ہو۔

اسی طرح حضور نے فرمایا :

  اعطیت الكنزین الاحمر والابیض.6
  مجھ کو دو خزانے سرخ اور سفید (یعنی سونا اور چاندی )عطا فرمائے گئے۔

ایک اور روایت میں حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:

  اوتیت مفاتیح كل شىء.7
  مجھے ہر چیز کی کنجیاں دے دی گئی ہیں۔

اسی طرح اخروی حیثیت میں بھی آپ کو یہ خزانیں دیے گئے ہیں چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا:

  اذایسوا الكرامة والمفاتیح یومئذ بیدى.8
  قیامت کے دن جب لوگ ناامید ہوں گے، عزت وکرامت اور کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی۔

نہ صرف دنیاوی لحاظ سے تمام خزانیں آپ کے پاس ہیں بلکہ اخروی لحاظ سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ عظمت و شرف نبی اکرم کو عنایت فرمایا ہے۔

شرحِ صدر کی دولت

سیدنا علی بیان کرتے ہیں کہ مجھے آقا نے یمن میں گورنر بناکر بھیجنا چاہا تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! مجھے تو تجربہ نہیں میں پیش آنے والے مقدمات ومعاملات کو کس طرح نپٹاؤں گا۔آپ نے میری گزارش سنی توآپ نے میرے سینے پر ہاتھ مبارک رکھ کر یہ دعا کی اے اﷲ اس کے دل کی رہنمائی فرما اور اس کی زبان کو سلامت رکھ۔اس کے بعد سیدنا علی فرماتے ہیں:

  فما شككت فى قضاء بین الاثنین حین جلست فى مجلسى.9
  پس تب سے اب تک جب بھی میں مسندِ قضا پر بیٹھا تو دو (شخصوں یا فریقین) کے درمیان فیصلہ کرتے ہوئے شک میں مبتلا نہیں ہوا۔

حضور نے حضرت علی کو 10ہجری میں یمن بھیجا تھا اور اس وقت حضرت علی کی عمر مبارک 30سال تھی ۔ چونکہ منصبِ قضا انتہائی دشوار معاملہ ہے اس لیے آپ نے اپنی اس عمر کو اس منصب کے لیے کم سمجھا اور نبی کریم کے نزدیک بھی یہ عمر قاضی کے لیے کم ہی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپنے حضرت علی کے عذر کو مسترد نہیں فرمایا بلکہ حضرت علی کے سینہ پر اپنا دست اقدس پھیر کر اس کمی کو پورا فرمادیا۔ توفیق ایزدی، تربیت نبوی اور دعا ءِنبوی شامل نہ ہو تو عقل بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ قاضی کے لیے اتنی عمر کافی نہیں ہے کیونکہ اس منصب کے لیے فقط علم کی نہیں بلکہ تجربہ کی بھی ضرورت ہے اور تجربہ کے لیے اتنی عمر کم ہوتی ہے۔

حضور کے دستِ مبارک کا یہ اثر ہوا کہ حضرت علی سے بہتر فیصلہ کرنے والا صحابہ کرام میں کوئی نہ تھا۔دست اقدس پھیرنے کے بعد آپ صرف قاضی نہیں بلکہ اقضی الامۃ (Chief Justice) یعنی امت کے سب سے بڑے قاضی بن گئےتھے۔چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں حضور نبی کریم نے فرمایا:

  اقضى امتى على.10
  میری امت کا سب سے بڑا قاضی علی ہے۔

اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں:

  كنا نتحدث ان اقضى اھل المدینة على بن ابى طالب.11
  ہم کہا کرتے تھے کہ اہل مدینہ کے سب سے بڑے قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔

اس بات کو حضرت فاروق اعظم نے بھی بیان کیا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

  اقضانا على.12
  ہمارے سب سے بڑے قاضی علی ہیں۔

یعنی نبی اکرم کےدستِ مبارک کی برکت سے حضرت مولی علی المرتضیٰ اس امت کے رئیس القضاءۃ بنے اور آپ کی زندگی کے فیصلوں سے اس کی واضح نشانیاں ملتی ہیں جن ميں سب سے مشہور و معروف خطبۂ منبریہ ہے۔

قوتِ حافظہ کا حصول

ابوہریرہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم کے ارشاداتِ عالیہ کو حفظ کیا کرتا تھا مگر حافظہ ساتھ نہ دیتا جویاد کرتا بھول جاتا اس پر یشانی کا ذکر میں نے حضور نبی کریم کی خدمت میں کیا تو آپ نے مجھے چادر اتارکر زمین پر بچھانے کا حکم دیا۔ میں نے آپ کے حکم کے مطابق چادر زمین پر بچھادی۔

  فغرف بیدہ فیه ثم قال ضمه فضممته فما نسیت شیئا بعد.13
  آپ نے دونوں ہاتھوں سے چلو بھرکر اس چادر میں رکھا اور فرمایا اسے اپنے سینے کے ساتھ لگالے ، میں نے ایسے ہی کیا اس کے بعد مجھے کبھی کوئی شے نہیں بھولی۔

اس حدیث میں نسیان کا لفظ ہے اس کا معنی ہے بھولنا اور علم کے بعد جہل۔ سہو اور نسیان میں یہ فرق ہے کہ نسیان میں علم کی صورت، قوت حافظہ اور مُدرِکہ دونوں سے نکل جاتی ہے اور سہو میں علم کی صورت صرف مدرکہ سے نکل جاتی ہے اور حافظہ میں موجود ہوتی ہے اور سہو اور خطاء میں یہ فرق ہے کہ سہو میں معمولی تنبیہ سے انسان سمجھ جاتا ہے اور خطا میں معمولی تنبیہ کافی نہیں ہوتی۔ نسیان وہ حالت ہوتی ہے جو انسان پر غیر اختیاری طور پر طاری ہوجاتی ہے اور اس کا سبب حفظ کے اسباب سے غفلت برتنا ہے۔

حضرت ابوہریرہ نے حضور سے نسیان کی شکایت کی تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ نسیان کے ازالہ کے لیے کسی طبیب یا معالج کے پاس جاؤ، میرا منصب تو صرف احکام شرعیہ بتانا ہے، معلوم ہوا کہ رسول اﷲ صرف احکامِ شرعیہ بتانے کے لیے مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ آپ ہر درد کے درماں تھے اور آپ کے پاس ہر مشکل کا حل تھا اور آپ نے حضرت ابوہریرہ کا حافظہ قوی کرکے اس کو ثابت کردیا تھا۔حضور کا خالی ہاتھ سے کپڑے میں کوئی چیز ڈالنا بظاہر اس قسم کا تھا کہ دیکھنے والوں کی عقل اس کے ادراک میں متحیر ہوگئی ہوگی کہ خالی ہاتھ سے کپڑے میں کوئی چیز ڈال دینا کیسی بات ہے مگر جب حضرت ابوہریرہ کی شکایت رفع ہوگئی اور اس قدر ان کا حافظہ قوی ہوگیا کہ اس کے بعد ان کو کبھی کوئی چیز نہ بھولی تو دیکھنے والوں کو یقین ہوگیا کہ حضور کے ہاتھ خالی نہ تھے بلکہ ان میں قوت حافظہ بھری ہوئی تھی جو حضرت ابوہریرہ کی جھولی میں ڈال رہے تھے۔

اب رہی یہ بات کہ قوت حافظہ کوئی ایسی چیر نہیں کہ جو کسی کے ہاتھ میں آئے اور اس سے منتقل ہوکر دوسرے کے دماغ میں پہنچ جائے، اگرچہ یہ بات عقل سے خارج ہے مگر جب اس کا مشاہدہ صحابہ کرام کو ہوگیا کہ ادھر تو حضور نے اپنے ہاتھوں کوکپڑوں میں ڈالا، اور ادھر ان کی قوت حافظہ بڑھ گئی تو اب اس کے یقین کرنے میں ان کو ذرا بھی شک نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ مشاہدہ سے بڑھ کر یقین دلانے والی کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ البتہ سننے والوں کو اس میں ضرور حیرانی ہوتی ہے کیونکہ ان کو اس امر کا مشاہدہ نہیں ہوا۔مثلااگر ایک شخص کی عمر سو برس کی ہے اور اس کا حافظہ اس قدر قوی ہے کہ جو کچھ وہ سنتا ہے، یاد رکھتا ہے اور ہر قسم کے علوم اور مضامین اس کے حافظے میں جمع ہیں وہ بھی اس طرح کہ جب اس نے پہلی مرتبہ کسی چیز کو سنایا دیکھا تو وہ اس کے دماغ میں نقش ہوکر محفوظ ہوگئی۔ اس کے بعد جب دوسری بات دماغ میں پہنچی تو وہ بھی اسی طرح پہلی بات کے ساتھ نقش ہوگئی۔ اسی طرح وقتاً فوقتاً جو چیزیں اس کے دماغ میں پہنچیں، وہ سب کی سب نقش ہوتی گئیں اور دماغ میں معلومات کا ایک ذخیرہ جمع ہوگیا وہ بھی ایسے کی اگر تمام معلومات تحریر میں لائی جائیں تو صدہا جلدوں کی کتاب بن جائے،کیونکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی ادراک ہوتا ہی رہتا ہے۔

کیا یہ بات عقلاً درست ہے کہ ایک چھوٹا سا دماغ اتنا بڑا کتب خانہ بن جائے اور پھر ان محفوظات ِدماغ سے اگر کوئی کتاب لکھی جائے تو اس میں تقدیم و تاخیرِ مضامین کی ضرورت بھی نہ ہو، پہلے صفحے کا مضمون دوسرے صفحے میں نہ ہو اور اگر کوئی بات اس میں دیکھنا منظور ہو تو صدہا بلکہ ہزارہا ورق الٹنے کی ضرورت بھی نہ ہو؟ ہرگز نہیں۔بلکہ دماغ میں جو جو چیزیں محفوظ ہیں، ان کی یہ حالت ہے کہ جس وقت جو مضمون نکالنا چاہیں،چاہے وہ کتنی ہی مدت کا واقعہ کیوں نہ ہو ، فوراً پیشِ نظر ہوجاتا ہے حالانکہ دماغ میں جس قدر مضامین ومعلومات یکجا ہوتے ہیں وہ یکے بعد دیگرے جمع ہوتے ہیں ۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس طرح کتاب کی ورق گردانی کرکے مضمون نکالا جاتا ہے یہاں بھی اس طرح تفحص کیا جاتا، مگر ایسا نہیں۔

اس میں شک نہیں کہ عادت نہ ہونے کی وجہ سے ایسے امور کی طرف خیال نہیں کیا جاتا، مگر تدبر اور تفکر سے کام لیا جائے تو اس میں عقل کو کوئی حیرانی نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے ہوئے کہہ دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قوت حافظہ کی تخلیق ہی اس طرح کی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے،جس کو جس طرح چاہے،پیدا کرے،اس طرح خدا کی قدرت پر ایمان کامل ہوجاتا ہے۔

اس حدیث کے مضمون کو بھی اگر خدا تعالیٰ کے حوالے کردیا جائے اور کہا جائے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے قوت حافظہ کو عجیب الخلقت بناکر دماغ میں رکھا ہے اسی طرح حضور کے دست مبارک میں بھی بے شمار کمالات و برکات موجود تھیں جب چاہتے، جو چاہتے، دست مبارک سے اس کا ظہور ہوجاتا۔ چنانچہ قوت حافظہ جو قدرت نے آپ کے دست قدرت میں رکھی تھی، آپ نے حضرت ابوہریر ہ کے دماغ میں رکھ دی جس کو ہر شخص نہیں جان سکتا۔

قوتِ حافظہ مل گئی

اسی حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص بیان کرتے ہیں:

  شكوت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سوء حفظى للقرآن قال ذلك شیطان یقال له خنزب ادن منى یا عثمان ثم تفل فى فمى فوضع یده على صدرى فوجدت بردھا بین كتفى فقال یا شیطان اخرج من صدر عثمان قال فما سمعت شیئا بعد ذلك الا حفظته.14
  میں نے نبی کریم سے اس بات کی شکایت کی کہ قرآن حکیم میرے سینے سے نکل جاتا ہے (یعنی یاد نہیں رہتا) تو آپ نے فرمایا: یہ شیطان ہے جسے خنزب کہتے ہیں ، اے عثمان! تم میرے قریب آؤ ۔ پھر آپ نے میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور میرے سینے پر دست مبارک رکھ دیا، میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: اے شیطان عثمان کے سینے سے نکل جا ۔ آپ کہتے ہیں پھر میں جو چیز بھی سنتا مجھے یاد رہتی۔

امام بیہقی حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت کرتے ہیں:

  استعملنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وانا اصغر الستة الذین وفدوا علیه من ثقیف وذلك انى كنت قرات سورة البقرة فقلت یا رسول اللّٰه ان القرآن ینفلت منى فوضع یده على صدرى وقال یا شیطان اخرج من صدر عثمان فما نسیت شیئا بعده ارید حفظه.15
  مجھے رسول اﷲ نے عامل مقرر کیا تھا اور میں ان چھ افراد میں سے چھوٹا تھا جو وفد کی صورت میں حضور کے پاس بنوثقیف میں سے آئے تھے۔ یہ اس لیے ہوا کہ میں سورہ بقرہ پڑھتا رہتا تھا۔

میں نے عرض کی یا رسول اﷲ بے شک قرآن مجھ سے چلا جاتا ہے حضور نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور فرمایا کہ :اے شیطان تونکل جا عثمان کے سینے سے۔ کہتے ہیں کہ اسکے بعد سے میں کوئی بھی چیز نہیں بھولا ہوں جس کو میں یاد کرنا چاہتا ہوں۔ اسی طرح امام ابن ماجہ حضرت عثمان بن ابی العاص سے روایت کرتے ہیں:

  لما استعملنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على الطائف جعل یعرض لى شىء فى صلاتى حتى ما ادرى ما اصلى فلما رایت ذلك رحلت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال ابن ابى العاص قلت نعم یا رسول اللّٰه قال ماجاء بك قلت یا رسول اللّٰه عرض لى شىء فى صلواتى حتى ما ادرى ما اصلى قال ذاك الشیطان ادنه فدنوت منه فجلست على صدور قدمى قال فضرب صدرى بیده وتفل فى فمى وقال اخرج عدوا اللّٰه ففعل ذلك ثلاث مرات ثم قال الحق بعملك قال فقال عثمان فلعمرى ما احسبه خالطنى بعد.16
  رسول اﷲ نے جب مجھے طائف کا گورنر بنایا تو میرے دل میں اس قسم کے خیالات آنے لگے کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی نمازیں پڑھنی ہیں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو سفر کرکے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آپ نے مجھے دیکھ کر کہا: (تم) ابو العاص کے بیٹے ہو، میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا :کیوں آئے ہو؟ میں نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی۔ آپ نے سن کر فرمایا: آگے آؤ۔ میں ادب سے دو زانو سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک رکھا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور تین بار ارشاد فرمایا :اے اﷲ کے دشمن نکل جا۔ اس کے بعد فرمایا: اے عثمان اپنے کام پر جاؤ۔ حضرت عثمان کہتے ہیں اﷲ کی قسم اس روز سے اس قسم کے شیطانی وسوسے میرے دل میں کبھی پیدا نہ ہوئے۔

یہاں بھی کسی کو حیرانی ہوسکتی ہے کیونکہ نسیان کی عمامی وجوہات کچھ اور ہیں مگر اس حدیث سے ثابت ہے کہ شیطان بھی بھلادیا کرتا ہےجسکی تائید قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے:

  فَاَنْسٰیه الشَّیطٰنُ42 17
  شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا۔

یہ حیرانی اس وقت تک دور نہیں ہوسکتی جب تک خدا تعالیٰ کی قدرت پر پوری طرح ایمان نہ لایا جائے۔

دل کی دنیا بدل گئی

آپ کے دستِ اقدس کی برکت کےحوالہ سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے امام سہیلی فرماتے ہیں:

  ابو محذورة الجمحى واسمه سلمة بن معیر وقیل سمرة فانه لما سمع الاذان وھو مع فتیة من قریش خارج مكة اقبلوا یستھزؤون ویحكون صوت المؤذن غیظا فكان ابو محذورة من احسنھم صوتا فرفع صوته مستھزئا بالاذان فسمعه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فامر به فمثل بین یدیه وھو یظن انه مقتول فمسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ناصیته وصدره بیده قال فامتلا قلبى واللّٰه ایمانا ویقینا وعلمت انه رسول اللّٰه فالقى علیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الاذان وعلمه ایاه وامره ان یوذن لاھل مكة وھو ابن ست عشرة سنةفكان مؤذنھم حتى مات ثم عقبه بعد یتوارثون الاذان كابرا عن كابر وفى ابى محذورة یقول الشاعر:
اما ورب الكعبة المستورة وما تلا محمد من سورة
والنغمات من ابى محذورةلافعلن فعلة مذكورة.18
  حضرت محذورہ کا نام سلمہ بن معیر تھا، ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا نام سمرہ تھا جب انہوں نے اذان کو سنا جبکہ ان کے ساتھ قریش کے چند نوجوان تھے اور یہ مکہ مکرمہ سے باہر تھے، وہ اذان کا مذاق اڑانے لگے اور غصہ سے مؤذن کی آواز کا ٹھٹھا کرتے۔ ابو محذورہ کی آواز سب سے اچھی تھی انہوں نے اذان کا مذاق اڑاتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کیا۔ نبی کریم نے ان کی آواز کو سن لیا، حضور نبی کریم نے اسے حکم دیا (دوبارا اذان دہرانے کا) ابو محذورہ نے آپ کے سامنے اس کی نقل کی، وہ گمان یہ کررہے تھے کہ اسے قتل کردیا جائے گا۔ حضور نے اپنا ہاتھ مبارک ان کی پیشانی اور سینے پر پھیرا تو ابومحذورہ نے کہا: اﷲ کی قسم میرا دل ایمان ویقین سے بھر گیا اور مجھے علم ہوگیا کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ حضور نے اذان کے کلمات ان پر دہرائے، انہیں اذان کی تعلیم دی اور حکم دیا کہ اہل مکہ کے لیے تم اذان دیا کرو جبکہ ان کی عمر سولہ سال تھی۔ یہ اپنی موت تک اہل مکہ کے مؤذن رہے پھر ان کی اولاد یکے بعد دیگرے اس ذمہ داری کو ادا کرتی رہیں ۔ابو محذورہ کے بارے میں شاعر کہتا ہے:خبر دار اس کعبہ کے رب کی قسم جس پر پردہ ڈالا گیا ہے اور اس تورات کی قسم جو حضرت محمد نے تلاوت کی اور ابومحذورہ کے نغمات کی قسم میں مذکورہ فعل ضرور کروں گا۔

اسی حوالہ سے امام شافعی بیان کرتے ہیں:

  ثم وضع یده على ناصیة ابى محذورة ثم امرھا على وجھه ثم مربین ثدییه ثم على كبده ثم بلغت یده سرة ابى محذورةثم قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بارك اللّٰه فیك وبارك علیك فقلت یا رسول اللّٰه مرنى بالتاذین بمكة فقال قد امرتك به وذھب كل شىء كان لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من كراھیة وعاد ذلك كله محبة لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقدمت على عتاب بن اسید عامل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذنت بالصلاة عن امر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .19
  پھر حضور نبی کریم نے اپنا دست مبارک حضرت محذورہ کی پیشانی پر رکھا اور پھر ان کے چہرے پر پھیرا۔ پھر ان کے سینے پر پھیرا پھر ان کے جگر پر پھیرا یہاں تک کہ نبی کریم کا دست مبارک حضرت محذورہ کی ناف تک پہنچ گیا۔ پھر نبی کریم نے دعا کی: اﷲ تعالیٰ! تمہارے اندر اور تمہارے اوپر برکتیں نازل کرے۔(حضرت محذورہ بیان کرتے ہیں) میں نے عرض کی یا رسول اﷲ()! آپ مجھے مکہ میں اذان دینے کی اجازت دیں۔ نبی کریم نے فرمایا :تمہیں اجازت ہے۔ (حضرت محذورہ کہتے ہیں) اس وقت نبی کریم کے بارے میں جو ناپسندیدگی تھی وہ ساری ختم ہوگئی اور نبی کریم کی مکمل محبت (میرے دل میں گھر کرگئی) پھر میں حضرت عتاب بن اسید کے پاس آیا جو نبی کریم کے مقرر کردہ امیر تھے تو نبی کریم کی ہدایت کے تحت میں نے اذان دی۔

یعنی جس دل میں بغض و کینہ اور نفرت تھی وہ یکدم رسول اکرم کے دستِ مبارک کی برکت سے محبت سے بھر گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو محذورہ ایمان و یقین کی دولت سے نواز دیے گئے۔

اسی طرح حضرت شیبہ بن عثمان کے بارے میں بھی منقول ہے کہ حضور کے دست اقدس کےپھرنے کی دیر تھی کہ انکےبھی دل کی دنیا بدل گئی۔حضرت شیبہ بن عثمان اپنے اسلام لانے کی داستان (مندرجہ ذیل الفاظ میں) بیان کرتے تھے:

  لما كان عام الفتح ودخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مكة عنوة قلت اسیر مع قریش الى ھوازن بحنین فعسی ان اختلطوا ان اصیب من محمد غرة فاكون انا الذى قمت بثار قریش كلھا واقول لو لم یبق من العرب والعجم احد الا اتبع محمدا ما اتبعته ابدا فكنت مترصدا لما خرجت له لا یزداد الامر فى نفسى الا قوة فلما اختلط الناس اقتحم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن بغلته واصلت السیف ودنوت ارید ما ارید منه ورفعت سیفى حتى كدت اسوره فرفع لى شواظ من نار كالبرق كاد یمحشنى فوضعت یدى على بصرى خوفاً علیه والتفت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنادانى یا شیبة ادن منى فدنوت فمسح صدرى ثم قال اللّٰھم اعذه من الشیطان قال فواللّٰه لھو كان ساعتئذ احب الى من سمعى وبصرى ونفسى واذھب اللّٰه ما كان بى ثم قال ادن فقاتل فتقدمت امامه اضرب بسیفى اللّٰه یعلم انى احب ان اقیه بنفسی كل شى ولو لقیت تلك الساعة ابى لو كان حیاً لاوقعت به السیف حتى رجع الى معسكره فدخل خباء ہ فدخلت علیه فقال یا شیب الذى اراد اللّٰه بك خیر مما اردت بنفسك ثم حدثنى بكل ما اضمرت فى نفسى مما لم اذكره لاحد قط فقلت انى اشھد ان لا اله الا اللّٰه وانك رسول اللّٰه ثم قلت استغفر لى یارسول اللّٰه قال غفراللّٰه لك.20
  جب فتح مکہ کا سال آیا اور نبی اکرم نے مکہ پر قبضہ کرلیا، تو میں نے کہا کہ میں بنو قریش کے ہمراہ بنو ہوازن کے پاس حنین میں چلاجاتا ہوں، ہوسکتا ہے، کہ جلدہی یہ دونوں گروہ محمد کا باہم ملکر مقابلہ کریں اور میں موقع پاکر تمام قریش کی ہزیمت کا بدلہ لے لوں۔ میں کہا کرتا تھا کہ اگر عرب و عجم میں کوئی شخص بھی باقی نہ رہے، سب محمد() کی اطاعت اختیا ر کر لیں، تب بھی میں آپ کی اتباع نہ کروں گا، چنانچہ میں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے منتظر تھا۔ آتشِ انتقام سینے میں بھڑک رہی تھی پھر جب دونوںگروہوں کا آمنا سامنا ہوا، نبی کریم اپنے خچر سے نیچے آئے، میں تلوار سونت کر اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے ان کے قریب ہوا۔ میں نے تلوار ابھی لہرائی ہی تھی کہ بجلی کی طرح آگ کے شعلے بلند ہوئے جنہوں نے مجھے ہِلا کر رکھ دیا۔ میں نے بینائی چھن جانے کے خوف سے اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے۔ اسی اثناء میں نبی اکرم نے میری جانب التفات فرمایا اور صدا دی: اے شیبہ! میرے قریب آؤ۔ میں آپ کے قریب گیا، تو آپ نے اپنا دست اقدس میرے سینہ پر پھیرا اور فرمایا: اے اﷲ! اسے شیطان کے شر سے محفوظ فرما۔ شیبہ بیان کرتے ہیں بخدا! وہ گھڑی مجھے اپنی آنکھ، کان اور جان سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے۔ میرے سینہ کا بغض و کینہ جاتا رہا۔ نبی اکرم ﷺنے پھر فرمایا: میرے قریب آجاؤ اور قتال کرو، چنانچہ میں نے آگے بڑھ کر تیغ زنی شروع کی۔ خدا جانتا ہے، کہ اس وقت مجھے سب سے زیادہ یہ عزیز تھا کہ میں اپنی جان کے ساتھ نبی اکرم کا دفاع کروں۔اس گھڑی میری یہ حالت تھی کہ میرا والد بھی میرے سامنے آتا، تو اس کو بھی تہ تیغ کردیتا۔ اس کے بعد حضور اپنے لشکر گاہ کی طرف لوٹے اور خیمہ میں تشریف لائے۔ میں بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے فرمایا: اے شیبہ! اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ جس چیز کا ارادہ فرمایا ہے وہ اس سے کہیں بہتر ہے جو تمہارے دل میں آئی تھی۔ اس کے بعد حضور نے مجھے میرے تمام دلی ارادوں سے مطلع فرمایا: حالانکہ میں نے ان ارادوں سے کسی کو قطعاً آگاہ نہیں کیا تھا۔ میں نے عرض کیا:میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ (محمد) اﷲ کے رسول ہیں۔ پھر میں نے عرض کیا یارسول اﷲمیرے لیے دعائے مغفرت فرمائیے۔ حضورنے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے تمہاری مغفرت فرمادی ہے۔

اسی طرح امام اسحاق الفاکہی لکھتے ہیں:

  فقال مالك یا شیبة ادن فدنوت فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یده على صدرى قال فستخرج اللّٰه عزوجل الشیطان من قلبى فرفعت الیه بصرى وھو واللّٰه احب الى من سمعى ومن بصرى ومن ابى وامى.21
  پس رسول اللہ نے میرے سینہ کو تھپکا اور فرمایا:اے اللہ !شیبہ کو ہدایت عطا فرما ۔پھر دوسری بار تھپکا اور فرمایا!اے اللہ شیبہ کو ہدایت عطا فرما۔ آپ نے تیسری بار تھپک کر ابھی ہاتھ نہ اٹھایا تھا کہ میرے نزدیک وہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے زیادہ عزیز ہوگئےتھے۔

اس عزیز تر کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جس کواسماعیل اصبہانی نے دلائل میں نقل کیا ہے۔چنانچہ وہ نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وقال یا شیبة ادنه فدنوت فوضع یدیه على صدرى یفستخرج اللّٰه الشیطان من قلبى فرفعت الیه بصرى فلھو احب الى من سمعى وبصرى.22
  نبی اکرم نے میری جانب التفات فرمایا اور صدا دی! اے شیبہ! میرے قریب آؤ۔ میں آپ کے قریب گیا، تو آپ نے اپنا دست اقدس میرے سینہ پر پھیرا اور فرمایا: اے اﷲ! اسے شیطان کے شر سے محفوظ فرما۔ شیبہ بیان کرتے ہیں بخدا! وہ گھڑی مجھے اپنی آنکھ، کان اور جان سے زیادہ عزیز اور پیاری ہے۔ میرے سینہ کا بغض و کینہ جاتا رہا۔
اس دستِ اقدس کی برکت کے بدولت شیبہ کا دل محبت رسول اکرم کی محبت سے بھرگیا اور یوں وہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوگئے۔چنانچہ امام ابوالحسن الماوردی لکھتے ہیں:
  فقال لى الذى اراد اللّٰه بك خیر مما اردته لنفسك وحدثنى بجمیع ما زورته فى نفسى فقلت ما اطلع على ھذا احد الا اللّٰه فاسلمت.23
  پس آپ نے مجھ سے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے جس کا ارادہ تمہارے لیے کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تم نے خود اپنے لیے سوچا ہے۔ پھر مجھے وہ سب بتا دیا جو میں نے اپنے آپ میں سوچا تھا۔ میں نے خود سے کہا ان سب باتوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان کو کیسے معلوم ہوا؟ پس میں نے اسلام قبول کرلیا۔

امام اسماعیل بن محمد الاصبہانی لکھتے ہیں:

حضور نے شیبہ کے سینہ پر تین مرتبہ جو دست مبارک سے ضرب لگائی، اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ پہلی ضرب سے ان کے دل سے کفر نکال دیا، دوسری ضرب سے ایمان داخل کردیا، تیسری ضرب سے محبت بھردی۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور کی محبت کافر کے دل میں کبھی جاگزیں نہیں ہوسکتی اس کے لیے ایسا برگزیدہ سینہ ودل درکار ہے جو کہ نور ایمان سے منور ہو۔

دستِ اقدس پھیرنے سے دل کا وسوسہ ختم ہوگیا

حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں تھا، ایک شخص آکر نماز پڑھنے لگا اور نماز میں قرآن پاک کی ایسی قرأت کی جو میرے لیے اجنبی (غیرمانوس) تھی۔ پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے ایک اور طرح سے قرآن پاک پڑھنا شروع کردیا۔ جب ہم لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو سب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے عرض کیا کہ اس شخص نے اس طرح قرآن پڑھا جو میرے لیے غیر مانوس تھا اور دوسرا شخص آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قرأت کی۔ حضور نے ان دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا۔ انہوں نے پڑھ کر سنایا اور حضور نے دونوں کو درست قرار دیا ۔۔۔روایت میں مزیدمنقول ہے۔

  …فسقط فى نفسى من التكذیب ولا اذ كنت فى الجاھلیة. فلما راى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ما قد غشینى ضرب فى صدرى ففضت عرقاً و كانما انظر الى اللّٰه عزوجل فرقاً.24
  بس جب حضور نے میرے اس حال کو دیکھا تو میرے سینے پر ہاتھ مبارک مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا (اور میری یہ حالت ہوگئی) گویا میں اﷲ تعالیٰ عزوجل کو دیکھ رہا ہوں۔

اسی طرح امام اسماعیل بن محمد بن الفضل الاصبہانی لکھتے ہیں:

  فلما راى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ما قد غشینى ضرب فى صدرى ففضت عرقاً و كانما انظر الى اللّٰه عزوجل فرقاً.25
  بس جب حضور نے میرے اس حال کو دیکھا تو میرے سینے پر ہاتھ مبارک مارا جس سے میں پسینہ پسینہ ہوگیا (اور میری یہ حالت ہوگئی) گویا میں اﷲ تعالیٰ عزوجل کو دیکھ رہا ہوں۔

اس حدیثِ مبارکہ کے الفاظ فلما رای رسول اﷲ ما قد غشینی جہاں ایک طرف حضور کی دلوں کی حالت و کیفیت پر آگاہی کا اعلان کررہے ہیں وہاں حضرت ابی بن کعب کے پاکیزہ عقیدے کی عکاسی بھی کررہے ہیں۔ اِدھر ان کے دل میں تکذیب کا وسوسہ پیدا ہوا ادھر حضور نے دل کی حالت دیکھ لی بلکہ سینے پر ہاتھ مبارک مار کر اپنے صحابی کو برے وسوسے سے محفوظ کرکے اپنے تصرف کا بھی اظہار فرمادیا۔

دست اقدس پھیرنے سے نفرت محبت میں بدل گئی

فتح مکہ کے دن حضور خانہ کعبہ کا طواف فرمارہے تھے۔ فضالہ بن عمیر بھی آپ کے قتل کے ارادے سے شریک طواف ہوگیا۔ جب وہ آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے فرمایا: کیا تو فضالہ ہے؟اس نے جواب دیاکہ جی ہاں (میں فضالہ ہوں)۔ آپ نے فرمایا:تواپنے دل میں کیا خیال کررہاتھا؟اس نے کہا: کچھ نہیں میں تو اللہ کو یاد کرہا تھا تو نبی کریم مسکرائے پھر اس نے کہا: میں اﷲ سے (تمہارے لیے) مغفرت طلب کرتا ہوں۔

  ثم وضع یده على صدرى فسكن قلبه فكان فضالة یقول واللّٰه ما رفع یده عن صدرى حتى ما من خلق اللّٰه شى احب الى منه.26
  پس آپ نے اپنا دستِ شفقت میرے سینہ پے رکھا،اﷲ کی قسم آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینے سے ہٹایا نہیں تھا کہ مجھے آپ کی ذات کائنات کی ہر شے سے زیادہ محبوب ہوگئی۔

حافظ ابن عبدالبرمالکی لکھتے ہیں:

  فقال له ما تحدث به نفسك قال لا شى كنت اذكر اللّٰه عزوجل فضحك النبى وقال استغفراللّٰه لك ووضع یده على صدر فضالة فكان فضالة یقول واللّٰه ما رفع یده عن صدرى حتى ما اجد على ظھر الارض احب الى منه.27
  حضور نے ان سے دریافت فرمایا تمہارے دل میں کیا خیال آیا؟ انہوں نے کہا کچھ نہیں میں ذکر اللہ کررہاتھا اس پر حضور ہنس دیے اور فرمایا: میں تمہارے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اپنا ہاتھ فضالہ کے سینہ پر رکھ دیا۔ فضالہ کہا کرتے تھے: خدا کی قسم حضور نے ابھی اپنا ہاتھ میرے سینے سے نہ اٹھایا کہ وہ مجھ روئے زمین پر موجود پر شے سے زیادہ عزیز ہوگئے۔

امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی لکھتے ہیں:

  واللّٰه ما رفع یده عن صدرى حتى ما خلق شى احب الى منه.28
  اﷲ کی قسم آپ نے اپنا دست مبارک میرے سینے سے ہٹایا نہیں تھا کہ مجھے آپ کی ذات کائنات کی ہر شے سے زیادہ محبوب ہوگئی۔

حضرت فضالہ نے کس قدر چالاکی سے کام لیتے ہوئے کہہ دیاتھا کہ ذکر الٰہی میں مشغول ہوں مگر بارگاہ نبوت میں ایسی چالاکیاں کب چل سکتی تھیں جہاں کائنات کا ذرہ ذرہ مثلِ کفِ دست پیشِ نظر تھا۔ وہاں دلوں کی کیفیتیں بھلا پوشیدہ کس طرح رہ سکتی تھیں۔اس موقعہ پرہنس کر استغفار کرنے کے لیے فرمانے کا جو اثر فضالہ کے دل پر ہوا ہوگا اس کو انہی کا دل جانتا ہوگا اور دست مبارک کے رکھنے کی تاثیر یہ ہوئی کہ شقاوت دور ہوگئی اور محبت پیدا ہوگئی اور وہ بھی اتنی کہ آپسے زیادہ وہ کسی کو اپنا محبوب نہیں سمجھتے تھے۔ ان لوگوں کے ساتھ جو قتل کی تاک میں رہتے تھے حضور کی شفقت کا یہ حال ہے تو خیال کیا جائے کہ محبان صادق پر کیسی عنایتیں ہوں گی۔

مقتولین کا دست اقدس کی نشاندہی کی جگہ پر مرنا

بدر کےمقتولین کے مقاتل کو نبی اکرم نے جنگ سے قبل والی رات میں بیان فرما دیا تھا کہ فلاں کافر فلاں مقام پر قتل ہوگا اور فلاں کافر فلاں مقام پر اور صبح یہی ہوا۔چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں :

  رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھذا مصرع فلان غدا ووضع یده على الارض وھذا مصرع فلان غدا ووضع یده على الارض وھذا مصرع فلان غدا ووضع یده على الارض فقال والذى نفسى بیده ما جاوز احد منھم عن موضع ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم م فاخذ بارجلھم فسحبوا فالقوا فى قلیب بدر.29
  (جنگ بدر کے دن) رسول اﷲ نے فرمایا کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور آپ نے زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا اور کل یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے اور زمین پر ہاتھ رکھا تھا ۔کوئی شخص اس سے بالکل متجاوز نہیں ہوا (اسی جگہ گر کر مرا) پھر رسو ل اﷲ کے حکم سے ان کو گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔

اسی طرح امام ابن عبدالبرمالکی لکھتے ہیں:

  یقول ھذا مصرع فلان وھذا مصرع فلان فما عدا واحد منھم مصرعه ذلك الذى حده رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.30
  نبی کریم نے فرمایا :یہ فلاں کی قتل گاہ ہے اور یہ فلاں کی قتل گاہ ہے ۔پس کوئی بھی اپنی قتل گاہ سے الگ نہیں ہوا جس کی حد بندی رسول اللہ نے فرمائی تھی۔

اسی روایت کوامام مسلم یوں نقل کیا ہے:

  قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھذا مصرع فلان قال یضع یده على الارض ھاھنا ھاھنا قال فما ماط احدھم عن موضع ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.31
  حضور نے فرمایا یہ فلاں شخص کے گرنے کی جگہ ہے اور اپنے دست مبارک کو ادھر ادھر زمین پر رکھتے گئے۔ راوی نے فرمایا کہ کوئی بھی مقتولین میں سے حضور کے ہاتھ کی جگہ سے ذرا بھی نہ ہٹا۔

اس کی شرح کرتے ہوئے امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں حضور کے معجزےکا ذکر ہے جوکہ آپکی نبوت کی نشانی ہے۔ آپ نے ان کے جابر سرداروں کی قتل گاہوں کی خبر دی کہ کسی نے اپنی قتل گاہ سے تجاوز نہ کیا۔ 32

دستِ اقدس پھیرنے حضرت جریر کا گھوڑے سے نہ گرنا

اسی طرح نبی اکرم کے دستِ مبارک کی برکت کا ذکر کرتے ہوئےحضرت جریر فرماتے ہیں:

  قال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الا تریحنى من ذى الخلصة فقلت بلى فانطلقت فى خمسین ومائة فارس من احمس وكانوا اصحاب خیل وكنت لا اثبت على الخیل فذكرت ذلك للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم فضرب یده على صدرى حتى رایت اثر یده فى صدرى وقال اللّٰھم ثبته واجعله ھادیا مھدیا قال فما وقعت عن فرس بعد قال وكان ذوالخلصة بیتا بالیمن لخثعم وبجیلة فیه نصب یعبد یقال له الكعبة قال فاتاھا فحرقھا بالنار وكسرھا قال ولما قدم جریر الیمن كان بھا رجل یستقسم بالازلام فقیل له ان رسول رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھاھنا فلت قدر علیك ضرب عنقك قال فبینما ھو یضرب بھا اذ وقف علیه جریر فقال لتكسرنھا ولتشھدن ان لا اله الا اللّٰه او لا ضربن عنقك قال فكسرھا وشھد ثم بعث جریر رجلا من احمس یكنى ابا ارطاة الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یبشره بذلك فلما اتى النبی صلى اللّٰه علیه وسلم قال یا رسول اللّٰه والذى بعثك بالحق ما جئت حتى تركتھا كانھا جمل اجرب قال فبرك النبى صلى اللّٰه علیه وسلم على خیل احمس ورجالھا خمس مرات.33
  مجھ سے نبی کریم نے فرمایا کیا تم مجھے ذی الخلصہ سے راحت نہیں دوگے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں! پس میں احمس کے ایک سو پچاس گھڑ سواروں کے ساتھ روانہ ہوا اور وہ سب گھڑ سوار تھے اور میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتا تھا میں نے اس بات کا نبی کریم سے ذکر کیا تو آپ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سینے پر مارا حتیٰ کہ میں نے آپ کے ہاتھ کا نشان اپنے سینے پر دیکھا اور آپ نے دعا کی: اے اﷲ! اس کو ثابت قدم رکھ اور اس کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا،حضرت جریر نے بتایا کہ اس کے بعد میں گھوڑے سے نہیں گرا،اور حضرت جریر نے کہا ذوالخلصہ یمن میں خثعم کا اور بجیلہ کا بت خانہ تھا جس میں نصب کیے ہوئے بتوں کی عبادت کی جاتی تھی اور اس کو کعبہ کہا جاتا تھا،حضرت جریر نے کہا پس وہ وہاں گئے اور اس کو آگ سے جلادیا اور توڑدیا۔راوی نے بتایا کہ جب حضرت جریر یمن گئے تو وہاں ایک مرد تھا جو تیروں سے فال نکالتا تھا، اس سے کہا گیا بے شک رسول اﷲ کا قاصد یہاں ہے (یعنی حضرت جریر ) اگر وہ تم پر قادر ہوئے تو وہ تمہاری گردن اُڑا دیں گے تو جس وقت وہ تیر سے فال نکال رہا تھا تو وہاں حضرت جریر آگئے تو انہوں نے کہا تم ضرور ان تیروں کو توڑوگے اور تم ضرور یہ شہادت دوگے کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ورنہ میں تمہاری گردن ماردوں گا۔راوی نے بتایا اس نے ان تیروں کو توڑدیا او رکلمہ شہادت پڑھا، پھر حضرت جریر نے احمس کے ایک مرد کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی نبی کریم کی طرف یہ بشارت دینے کے لیے بھیجا، جب وہ نبی کریم کے پاس آیا تو اس نے کہا اے اﷲ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں آپ کے پاس اُس وقت تک نہیں آیا حتیٰ کہ میں نے اس بت خانہ کو اس طرح چھوڑ دیا گویا کہ وہ خارش زدہ اونٹ ہو، انہوں نے بتایا پھر نبی کریم نے احمس کے گھڑ سواروں اور مردوں کے لیے پانچ مرتبہ دعا کی۔

امام ابن ابی شیبہ کے الفاظ اس طرح ہیں:

  فمسح فى صدرى وقال اللّٰھم اجعله ھادیا مھدیا حتى وجدت بردھا.34
  آپ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرا جس کی ٹھندک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی۔

اس دستِ اقدس کی برکت کو بیان کرتے ہوئے حضرت جریر فرماتے ہیں:

  فما سقطت عن فرس بعد.35
  اس کے بعد میں آج تک کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔

سلاطین کے برعکس اپنے سپاہی کو سزا دینے کے بجائے نبی کریم نے نہ صرف اس کی اصلاح فرمائی بلکہ اس کی کمزوری کو بھی اپنے دست اقدس سے دور کردیا۔ یہ نبی کریم کا خاصّہ تھا کہ جو شخص اپنی کسی بھی نوعیت کی شکایت لے کر آپ کے پاس آتا تو آپ اس کی شکایت و تکلیف کو دور فرمادیتے۔ یہی وجہ ہے حضرت جریر نے بھی اپنی اس کمزوری کو حضور کے دربار میں پیش کیا اور آپ کے دست اقدس نے اس کمزوری کو رفع کردیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے پیشانی سفید ومنور ہوگئی

10 ہجری کو حجۃ الوداع ادا کیا۔ اس موقع پر ایک"وفد محارب " جو 10 لوگوں پر مشتمل تھا مکّہ میں داخل ہوا۔ یہ 10 لوگ اپنے قوم کی نیابت کر رہے تھے اور اسلام لے آئے تھے۔ جیسا کہ سلیمان بن موسیٰ لکھتے ہیں:

  منھم عشرة نائبین عن من وراء ھم من قومھم فاسلموا.36
  ان کی قوم میں سےدس افراد جوپیچھے نیابت کرنےوالےتھےاسلام لےآئے۔

ان میں سواء بن الحارث اور ان کے بیٹے خزیمہ بن سواء بھی تھے ۔ ان لوگوں نے رحملہ بنت الحارث کے مکان میں سکونت اختیار کی اور حضرت بلال ان کے پاس کھانا لایا کرتے تھے۔ چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

  وكان بلال یاتیھم بغداءٍ و عشاء.37
  حضرت بلال صبح و شام کا کھانا ان لوگوں کے پاس لایا کرتے تھے۔

ان لوگوں نے عرض کی کہ ہم لوگ اپنے پسماندہ لوگوں کے قائم مقام ہیں اس زمانے میں ان لوگوں سے زیادہ رسول اﷲ پر کوئی درشت اورسخت نہ تھا ۔اس وفد کے ایک شخص کو رسول اﷲ نے پہچان لیا تو اس نے عرض کی کہ تمام تعریفیں اسی اﷲ کے لیے ہیں جس نے مجھے زندہ رکھا کہ میں نے آپ کی تصدیق کی۔ محمد بن سعد روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا:

  ان ھذه القلوب بید اللّٰه ومسح وجه خزیمة بن سواء فصارت له غرة بیضاء.38
  کہ یہ قلوب اﷲ کے ہاتھ میں ہیں۔آپ نے خزیمہ بن سواء کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو ان کی پیشانی سفید ومنور ہوگئی۔

امام جلال الدین سیوطی نے بھی اس واقعہ کو روایت کیا ہے۔39 نبی کریم رحمت اللعالمین تھے اسی لئے آپ کی دست اقدس کی برکتیں صرف روؤساء تک محدود نہ تھی بلکہ پسماندہ لوگوں پر بھی وہی انعامات و اکرامات کی بارش ہوتی جو امراء کے لئے ہوتی۔ جب پسماندہ علاقہ کے نائب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضور نے ان کو اپنے سے دور نہ کیا بلکہ اپنے دست مبارک کو ان کے چہرہ پر پھیر کر چاند کی طرح روشن کردیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے پر برکت کا مشاہدہ کرنا

جب لوگ وفود کی شکل میں نبی کریم کے پاس ایمان لانے کی غرض سے آنا شروع ہوئے تو ان وفود میں ایک وفد "ہلال بن عامر" کا تھا ۔اس کے سردار حضرت زیاد بن عبداﷲ بن مالک بنی عامر تھے اور یہ اُم المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث کے بھانجے تھے ۔یہ جب مدینہ میں داخل ہوئے تو حضرت میمونہ کے گھر تشریف لائے۔ اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے محمد بن سعد لکھتے ہیں:

  ثم خرج حتى اتى المسجد ومعه زیاد فصلى الظھر ثم ادنى زیادا فدعا له ووضع یده على راسه ثم حدرھا على طرف انفه فكانت بنو ھلال تقول:ما زلنا نتعرف البركة فى وجه زیاد. وقال الشاعر لعلى بن زیاد:یا ابن الذى مسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم براسه ودعا له بالخیر عند المسجد اعنى زیادا لا ارید سواء ه من عائر او متھم او منجد ما زال ذاك النور فى عرنینه حتى تبوا بیته فى الملحد.40
  آپ مسجد میں تشریف لے گئے آپ کے ساتھ زیاد بھی تھے نماز ظہر پڑھی، حضرت زیاد کو نزدیک کیا اور ان کے لیے دعا فرمائی اپنا ہاتھ مبارک ان کے سر پر رکھا پھر ان کے ناک کی ایک جانب تک پھیر دیا۔بنی ہلال کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ برابر زیاد کے چہرے پر برکت کا مشاہدہ کیا کرتے تھے:ایک شاعر نے علی بن زیاد کے لیے کہا ہے کہ:اس شخص کے بیٹے جس کے سر پر نبی کریم نے ہاتھ پھیرا اور مسجد میں اس کے لیے دعا ئے خیر فرمائی۔ یہ نور ان کی ناک پر چمکتا رہا یہاں تک کے خانہ نشین ہوکے قبر میں چلے گئے۔

اما م ابن حجر نے بھی ان اشعار کو نقل کیا ہے۔ 41 ابن کثیر لکھتے ہیں:

  ما زلنا نتعرف البركة فى وجه زیاد.42
  بنی ہلال کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ برابر زیاد کے چہرے پر برکت کا مشاہدہ کیا کرتے تھے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرہ نور کی جلوہ گاہ بن گیا

9ہجری میں تین آدمیوں کا ایک وفد رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوا جن میں معاویہ بن ثور بن عبادہ بن ابکاء تھے جو اس زمانے میں سو برس کے تھے ان کے ساتھ ان کے ایک بیٹے بھی تھے جن کا نام بشر تھا اور فجیع بن عبداﷲ بن جندح بن ابکاء تھے ان لوگوں کے ساتھ عبدعمرو ابکائی بھی تھے جو بہرے تھے۔نبی اکرم نےصحابہ کرام کوان کی مہمان نوازی کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ امام محمد بن سعد لکھتے ہیں:

  فامرلھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بمنزل وضیافة واجازھم ورجعوا لى قومھم.43
  رسول اﷲ نے ان لوگوں کو ٹھہرانے اور مہمان رکھنے کا حکم دیا ان کو انعامات عطا فرمائے اور یہ لوگ اپنی قوم میں واپس آگئے۔

حضرت معاویہ نے نبی کریم سے عرض کیا کہ میں آپ کے مس (چھونے) سے برکت حاصل کرنا چاہتا ہوں، میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرا یہ لڑکا میرے ساتھ نیکی کرتا ہے لہٰذا اس کے چہرے پر اپنا دست مبارک سے مسح فرمادیجئے چنانچہ رسول اﷲ نے بشر بن معاویہ کے چہرے پر دستِ مبارک پھیردیا۔چنانچہ امام سیوطی فرماتے ہیں:

  قال معاویة یارسول اللّٰه انى اتبرك بمسك فامسح وجه نبى بشر فمسح وجھه واعطاه اعنزا عفرا وبرك علیھن.44
  حضرت معاویہ نے عرض کیا یارسول اﷲ میں آپ کے لمس کی برکت چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے بشر کے چہرے پر دست مبارک پھیر دیجئے تو رسول اﷲ نے بشر کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اور انہیں خاکستری بھیڑیں عطا فرمائیں اور ان پر دعائے برکت فرمائی۔

اس دستِ اقدس کی برکت کو بیان کرتے ہوئےمحمد بن بشر بن معاویہ کہتے ہیں:

  وابى الذى مسح الرسول براسه ودعا له بالخیر والبركات اعطاه احمد اذا اتاه اغذا عفوا نواجل لیس باللجبات یملاء ن وفد الحه كل خشیة ویعود ذاك الملاء وبالغدوات بوركن من مسخ وبورك مانحا وعلیه منى ماحییت صلاتى.45
  میرا باپ وہ ہے جن کے سر پر رسول اﷲ نے دست مبارک پھیرا ہے اور ان کے لیے خیروبرکت کی دعا فرمائی ہے۔میرے والد کو جب وہ نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپنے چند سفید اچھی نسل والی بھیڑیں عطا فرمائیں جو کم دودھ والی نہ تھی۔ جو ہر شب کو قبیلے کے وفد کو دودھ سے بھر دیتی تھیں اور یہ دودھ بھرنا پھر صبح کو دوبارہ بھی ہوتا تھا۔ جو عطا کی وجہ سے بابرکت تھیں اور عطا کرنے والے بھی بابرکت تھے اور جب تک میں زندہ رہوں میری طرف سے آپ پر میرا درود پہنچتا رہے۔

اسی دستِ مبارک کی مزید برکت کو بیان کرتے ہوئے حضرت بشر بن معاویہ فرماتے ہیں:

  انه قدم مع ابیه معاویه بن ثور على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح راسه ودعا له فكانت فى وجھه مسحة النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كالغرة وكان لا یمسح شیئا الا برا.46
  کہ وہ اپنے والد حضرت معاویہ بن ثور کے ساتھ رسول اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نبی کریم نے ان کے سر پر دست مبارک پھیرا اور ان کے لیے دعا کی تو ان کا چہرہ حضور کے دست مبارک پھیرنے کی وجہ سے غرہ (چاند) کی مانند چمکنے لگا اور وہ جس بیمار پر ہاتھ پھیرتے تھے، وہ تندرست ہوجاتا تھا۔

ابن کثیر بھی لکھتے ہیں:

  فمسح راسى ودعا لى بالبركة قال فكان مسحة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كانھا غرة وكان لا یمسح شیئا الا برا.47
  حضور نبی کریم نے میرے سر پر دست مبارک پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی تو ان کا چہرہ حضورکے دست مبارک پھیرنے کی وجہ سے غرہ (چاند) کی مانند چمکنے لگا اور وہ جس بیمار پر ہاتھ پھیرتے تھے تووہ تندرست ہوجاتا تھا۔

یہ حضور کے دست اقدس کی برکت تھی کہ جو چیز بھی اس سے لمس ہوجاتی وہ مہکتی رہتی اور چمکتی رہتی یہاں تک کہ آگ سے بھی محفوظ ہوجاتی۔ نبی کریم کا دست اقدس نہ صرف دست برکت تھا بلکہ دست شفاء بھی تھا ۔ اسی لئے جب بھی آپ اپنا ہاتھ مبارک کسی بیمارپر بھی پھیرتے تو وہ شفاء یا ب ہوجاتا ۔ یہ حضرت بشر کی خوش بختی تھی کہ ان کے چہرہ پر نبی کریم نے اپنا دست اقدس پھیرا اور وہ چاند کی طرح چمکتا رہا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے کی روشنی سے تاریک گھر جگمگا اٹھتا

حضرت اسید بن ابی ایاس کا چہرہ اتنا روشن تھا کہ جہاں بھی وہ جاتے، پوری جگہ روشن ہوجاتی۔ ان کے چہرے کو یہ اعزاز نبی کریم کے دست اقدس کے لمس سے نصیب ہوا۔ چنانچہ امام مدائنی فرماتے ہیں:

  ان اسید بن ابى ایاس مسح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وجھه والقى یده على صدرہ فكان اسید یدخل البیت المظلم فیضىء.48
  حضرت اسید بن ابی ایاس کے چہرے پر رسول اﷲ نے دست مبارک پھیرا اور سینے پر بھی رکھا جس کی برکت یہ ہوئی کہ وہ اندھیرے گھر میں داخل ہوتے، تو اس گھر میں روشنی ہوجاتی۔

اس روایت کو امام ابن عساکر49اور امام حسام الدین ھندی 50 نے بھی تحریر کیا ہے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے کا آئینہ کی مانند ہونا

جس صحابی کے چہرے پر آپ نے دستِ اقدس پھیرا اس کا چہرہ دیگر لوگوں سے خوبصورت اور تروتازہ ہوجاتا۔اسی طرح حضرت قتادہ بن ملحان کے چہرہ پر رسول اکرم نے اپنا دستِ اقدس پھیرا تو ان کا چہرہ بھی مثل آئینہ ہوگیاچنانچہ حضرت حیان بن عمرو بیان کرتے ہیں:

  قال مسح النبی صلى اللّٰه علیه وسلم وجه قتادة بن ملحان ثم كبر فبلى منه كل شىء غیر وجھه قال فحضرته عند الوفاة فمرت امراة فرایتھا فى وجھه كما اراھا فى المرآة.51
  حضرت قتادہ بن ملحان کے چہرہ پر آپ نے ہاتھ پھیرا تو اس کے چہرہ پر چمک تھی حتیٰ کہ اس کے چہرہ میں لوگ اپنا چہرہ ایسا دیکھتے تھے جیسا کہ آئینہ میں دیکھتے ہیں۔

اسی طرح امام قاضی عیاض فرماتے ہیں:

  ومسح وجه قتادة بن ملحان فكان لوجھه بریق حتی كان ینظر فى وجھه كما ینظر فى المرآة.52
  حضرت قتادہ بن ملحان کے چہرہ پر آپ نے ہاتھ پھیرا تو اس کے چہرہ پر چمک تھی حتیٰ کہ اس کے چہرہ میں لوگ اپنا چہرہ ایسا دیکھتے تھے جیسا کہ آئینہ میں دیکھتے ہیں۔

امام عامری نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔ 53 اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو العلاء بن عمیر نے بھی بیان کیا ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

  كنت عند قتادة بن ملحان حین حضر فمر رجل فى اقصى دار قال فابصرته فى وجه قتادة قال وكنت اذا رایته كان على وجھه الدھان قال وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مسح على وجھه.54
  میں اس وقت حضرت قتادہ بن ملحان کے پاس موجود تھا جب ان کے انتقال کا وقت قریب آیا، اس لمحے گھر کے آخری کونے سے ایک آدمی گزرا، میں نے اسے حضرت قتادہکے چہرے میں دیکھا (جیسے شیشے میں نظر آتا ہے)میں حضرت قتادہ کو جب بھی دیکھتا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے چہرے پر روغن ملا ہوا ہو دراصل نبی کریم نے ان کے چہرے پر اپنا دست مبارک پھیرا تھا۔

اسی طرح امام بیہقی نے بھی مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے ۔55یعنی کہ نبی اکرم کے دستِ اقدس میں غیر معمولی اثرات موجود تھے جو وقتًا فوقتًا ظاہر ہوجایا کرتے تھے اور صحابہ کرام اس سے مستفید ہوتے تھے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرہ تروتازہ رہنا

جب انسان جوان ہوتا ہے تو اس کے حسن کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ جوانی میں انسان کا چہرہ تروتازہ ہوتا ہے اور جب بوڑھا ہونے لگتا ہے تو اس کی کھال لٹکنا شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں اس کا سارا حسن ختم ہوجاتا ہے۔لیکن حضرت خزیمہ بن عاصم کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ آپ فرماتے ہیں کہ وہ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر مشرف باسلام ہوئےتونبی کریم نے ان کے چہرہ پر اپنا دستِ اقدس پھیرا۔چنانچہ مروی ہے:

  فمسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وجھه فما زال وجھه جدیدا حتى مات.56
  تو حضور نبی کریم نے ان کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اس کا اثر یہ ہوا کہ مرتے دم تک ان کا چہرہ تروتازہ رہا۔

اس روایت کو امام ابن حجر عسقلانی یوں لکھتے ہیں:

  فمسح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وجھه فما زال جدیدا حتى مات.57
  تو حضور نبی کریم نے ان کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اس کا اثر یہ ہوا کہ مرتے دم تک ان کا چہرہ تروتازہ رہا۔

حضور نے حضرت ابو زید انصاری کے سر اور داڑھی پر اپنا دست اقدس پھیرا تو اس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود ان کے بال سیاہ رہے اور چہرہ تروتازہ رہا۔اسی طرح امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں:

  قال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ادن منى قال فمسح بیده على راسه ولحیته قال ثم قال اللّٰھم جمله وادم جماله...ولقد كان منبسط الوجه ولم ینقبض وجھه حتى مات.58
  رسول اﷲ نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہوجاؤ ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست اقدس پھیرا اور دعا کی الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کردے۔ ۔۔ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔

یہ دائمی چہرے کی تازگی حضرت عائذ بن سعید جری کو بھی نصیب ہوئی۔چنانچہ ابن حجر عسقلانی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائذ بن سعید جری نے فرمایا:

  امسح وجھى وادع لى بالبركة قال ففعل فكان وجھه یزھو.59
  آپ میرے چہرے پر اپنا دستِ مبارک پھیر دیجئے اور دعائے برکت فرمائیے حضور نے ایسا ہی کردیا اس دن سے حضرت عائد کا چہرہ ہر وقت تروتازہ اور نورانی رہا کرتا تھا۔

اسی طرح اس روایت کو امام طبرانی یوں بیان کرتے ہیں:

  امسح وجھى وادع لى بالبركة فمسح وجھى ودعا لى بالبركة قالت ام البنین وھى امراته ما رایته منتبھا من نوم قط الا كان وجھه مدھن وان كان لیجتزى بالتمرات.60
  میں نے عرض کیا حضور میرے چہرے پر دستِ مبارک پھیر دیں اور میرے لیے دعائے برکت فرما دیں۔ پس حضور نے میرے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا اور میرے لیے دعائے برکت فرمائی۔ان کی بیوی (ام البنین) نے بیان کیا کہ میں نے ان کے نیند سے بیدار ہونے پر جب بھی دیکھا تو ان کا چہرہ روشن ہوتا اگرچہ وہ صرف کھجوریں ہی کھاتے۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ جس مقام پر دستِ مبارک پہنچا وہ روشن ہوگیا حالانکہ روشنی کا کوئی مادہ دستِ مبارک میں نہ تھا جو منتقل ہوا، اور نہ کوئی دوا لگائی گئی، پھر ہمیشہ کی روشنی کہاں سے آگئی۔گویا یہ دائمی چہرے کی تازگی و جوانی نبی کریم کے دستِ مبارک کی برکت ہی کا نتیجہ تھی ۔

ہاتھ کے پانی پھینکے سے چہرہ ہمیشہ شاداب رہا

حضرت زینب بنت ام سلمہ جو نبی اکرم کی لے پالک ہیں بچپن میں ان کے چہرے پر حضور نے دست اقدس کا پانی پھینکا۔ اس پانی کی برکت سے ان کے چہرے پرہمیشہ شادابی رہی حالانکہ ان کی عمر مبارک ایک سو سال کے قریب تھی۔چنانچہ امام سہیلی لکھتے ہیں:

  وذكر انھا ولدت بارض الحبشة زینب بنت ابى سلمة وكان اسم زینب برة فسماھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم زینب كانت زینب ھذه عند عبداللّٰه بن زمعة وكانت قد دخلت على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وھو یغتسل وھى اذ ذاك طفلة فنضح فى وجھھا من الماء فلم یزل ماء الشباب فى وجھھا حتى عجزت وقاربت المائة وكانت من افقه اھل زمانھا وادركت وقعة الحرة بالمدینة وقتل لھا فى ذلك الیوم ولدان.61
  حضرت ام المؤمنین ام سلمہ کے ہاں سرزمین حبشہ میں زینب بنت ابی سلمہ پیدا ہوئیں حضرت زینب کا نام برہ تھا۔ حضور نبی کریم نے ان کا نام زینب رکھا انہیں حضرت عبداﷲ بن زمعہ کی زوجہ بننے کا شرف ملا۔یہ بچپن میں ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں اس وقت حاضر ہوئیں جب نبی کریم غسل فرمارہے تھے۔ غسل کے بعدحضور نے ان کے چہرے پر پانی پھینکا جس کی برکت سے ان کے چہرے پر ہمیشہ شادابی رہی حالانکہ ان کی عمر مبارک ایک سو سال کے قریب تھی یہ اپنے عہد کی سب سے زیادہ فقیہہ خاتون تھیں۔

امام ابو نعیم نے اس کو نقل کیا ہے۔62یہ اپنے زمانہ کی فقیہہ بھی تھیں چنانچہ ا مام ابن ابی عاصم فرماتے ہیں:

  وكانت احدى من تعد من الفقھاء.63
  اور وہ فقہاء میں سے شمار کی جاتی تھیں۔

صاحبِ معجم الاوسط نے ،64 صاحبِ معجم الکبیر 65 اور صاحب استیعاب ان تینوں ائمہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔66اسی طرح امام قاضی عیاض اس دستِ مبارک کی برکت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  نفح فى وجه زینب بنت ام سلمة نضحة من ماء فما یعرف كان فى وجه امراة من الجمال ما بھا.67
  زینب بنت ام سلمہ کے چہرہ پر آپ نے پانی کا چھینٹا مارا پس کسی عورت پر ایسا حسن نہ معلوم ہوتا تھا جیسا کہ اس کا حسن وجمال تھا۔

اسی حوالہ سے امام عامری بھی لکھتے ہیں:

  الماء فى وجه ربیبته زینب بنت ام سلمة فاكسبھا ذلك جمالا عظیما.68
  پانی جو آپ نے اپنی ربیبہ(لے پالک) زینب بنت ام سلمۃ پر چھڑکا جس سے ان کا حسن بڑھ گیا۔

حضور نبی کریم نے حضرت زینب بنت ام سلمہ کے منہ پر پانی کا چھینٹا دیا اس کی وجہ سے حضرت زینب کے چہرے پر جتنا حسن و جمال آگیا تھا وہ کسی اور عورت کے چہرے پر معلوم نہ ہوتا تھا۔

سید فاطمہ کی بھوک ختم ہوگئی

حضرت فاطمہ سیدۃ النساء ہونے کے باوجود اپنے والدِ محترم رسول اکرم کے اسوہ کے مطابق فقرِ اختیاری کو اپنائے ہوئے تھیں ۔ چنانچہ جو کچھ بھی گھر میں ہوتا ، اللہ کی راہ میں دےدیتی۔ ایک دن حالت یہاں تک آپہنچی کے کئی دن تک آپ کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا اور اس فاقہ کی وجہ سے نقاہت کے آثار چہرے پر بھی نمایا ہورہے تھے، لہٰذا آپ نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں ۔چنانچہ حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں:

  كنت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا اقبلت فاطمة وقفت بین یدیه فنظر الیھا وقد ذھب الدم من وجھھا وغلبت الصفرة على وجھھا من شدة الجوع فنظر الیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال ادنى یا فاطمة ثم ادنى یا فاطمة فدنت حتى قامت بین یدیه فرفع یده فوضعھا على صدرھا فى موضع القلادة وفرج بین اصابعه ثم قال اللّٰھم مشبع الجاعة ورافع الوضیعة ارفع فاطمة بنت محمد.قال عمران فنظرت الیھا وقد ذھبت الصفرة من وجھھا وغلب الدم كما كانت الصفرة غلبت على الدم.69
  میں رسول اﷲ کے ساتھ تھا کہ اچانک سیدہ فاطمہ آئیں اور حضور نبی کریم کے سامنے آکر رُک گئیں حضور نبی کریم نے ان کی طرف دیکھا تو حالت یہ تھی کہ سیدہ کے چہرے سے خون ختم ہوچکا تھا اور شدت بھوک کی وجہ سے ان کے چہرے پر پیلا بن غالب آچکا تھا ۔نبی کریم نے ان کی طرف دیکھا (تو سمجھ گئے) فرمایا کہ میرے قریب آؤاے فاطمہ ! وہ قریب ہوئی تو فرمایا اور قریب آؤ فاطمہ! وہ اور قریب آکر حضور نبی کریم کے آگے کھڑی ہوئیں ۔حضور نبی کریم نے ہاتھ اُٹھایا اور سیدہ کے سینے پر ہارکی جگہ رکھا اور پھر انگلیوں کو پھیلادیا پھر دعا کی اے اﷲ بھوکے کو سیر کرنے والے۔ اور پست کو بالا کرے والے۔ فاطمہ بنت محمد( )کوبلند کردے۔حضرت عمران فرماتے ہیں:کہ میں نے حضرت فاطمہ کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے سے صفرت (پیلاہٹ) ختم ہوچکی تھی اور خون چہرے پر غالب آچکا تھا جیسے صفرت غالب آچکی تھی خون پر۔

اس واقعہ کے بعد آپ کے دست اقدس کی برکت سے سیدہ فاطمہ کو پھر کبھی بھوک نہ لگی۔ چنانچہ امام سیوطی لکھتے ہیں کہ حضرت فاطمہ نے فرمایا:

  ما جعت بعد.70
  میں اس کے بعد بھوکی نہیں ہوئی۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کے دست اقدس کو ایک خاص قوت عطا کی تھی جس کی وجہ سے نبی کریم ہر شخص کی ہر نوعیت کی شکایت کو دائمی طور پر اس سے دور فرمادیتے۔جب سیدۃ النساء آپ کے پاس اپنی حاجت کے ساتھ حاضر ہوئی تو اس حاجت کو نبی کریم اس طرح بھی دور فرماسکتے تھے کہ کچھ کھانے کو عطاء فرمادیتےلیکن چونکہ یہ حاجت کا عارضی حل تھا نہ کہ دائمی تو آپ نے ایسا نہ فرمایا بلکہ اپنے دست اقد س کی برکت سے آپ کی بھوک کی شکایت کو دائمی طور پر ختم کردیا۔

ہلب بن یزید کے بال اُگ آئے

حضرت ہلب بن بن یزید طائی کوفی ، یہ کوفہ کے رہائشی تھے۔ 71 ان کے سر پر بال نہیں اُگتے تھے اور یہ سر سے گنجے تھے۔ جب حضور نے ان کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا تو ان کے سر پر بال اُگ آئے۔چنانچہ امام محمد بن سعد بصریلکھتے ہیں:

  فوفد الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھو اقرع فمسح راسه فنبت شعره فسمى الھلب.72
  حضرت ہلب بن یزید بن عذی نبی کریم کے دربار میں قاصد بن کر آئے وہ گنجے تھے رسول کریم نے ان کے سر پر مبارک ہاتھ پھیراتو ان کے بال اُگ آئے اسی وجہ سے ان کا نام ہلب پڑگیا۔

اسی طرح امام ابن جوزی اور 73امام ابن عبد البر مالکی نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔74 ابن کلبی کا قول ہے ان کے بارے میں شاعر کہتے ہیں:

  كان  وما  فى  راسه  شعرة        فاصبح  الاقرع  وافى  الشكیر.75
  پہلے تو اس کے سر پر ایک بال بھی نہ تھا، پھر وہ گنجا زلفوں والا ہوگیا۔

اسی طرح کی ایک اور روایت امام قاضی عیاض نقل فرماتے ہیں:

  مسح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على راس صبى به عاھة فبرا واستوى شعره.76
  کہ حضور نے ایک گنجے بچے کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا تو اس کا گنجاپن جاتا رہا اور سارے بال برابر ہوگئے۔

یعنی نبی کریم کے دستِ مبارک کی برکت سے کچھ لوگ یوں بھی مستفید ہوئے کہ گنج پن ختم ہوگیا اور ان کی جگہ ان کے سروں پر زلف آ گئیں جس سے بد صورتی خوبصورتی میں تبدیل ہوگئی۔

عبداﷲ بن بسر پر دستِ اقدس کی برکت

آپ کے دستِ اقدس کی برکت سے حضرت عبداﷲ بن بسر ایک قرن ِکامل زندہ رہے۔چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وضع یده على راسه وقال یعیش ھذا الغلام قرنا فعاش مائة سنة وكان فى وجھه ثولول فقال لایموت ھذا حتى یذھب الثولول من وجھه فلم یمت حتى ذھب.77
  نبی کریم نے اپنا دست اقدس ان کے سر پر رکھا اور فرمایا یہ بچہ ایک قرن تک زندہ رہے گا تو وہ 100 سال تک زندہ رہے اور ان کے چہرے پر مہاسہ تھا حضور نے فرمایا یہ بچہ اس وقت تک نہ مرے گا جب تک یہ مہاسہ اس کے چہرے سے دور نہ ہوجائے تو وہ فوت نہ ہوئے جب تک وہ مہاسہ دور نہ ہوا۔

امام محمد بن عبد الواحد المقدسی روایت کرتے ہیں:

  فلم یمت حتى ذھب الثالول من وجھه.78
  پس ان کی موت سے پہلے ان کے چہرے کے مسّےختم ہوگئے۔

اسی طرح امام احمد بزار روایت کرتے ہیں:

  فبلغنا انه اتت علیه مائة سنة.79
  پس ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی عمر سو برس کو پہنچی۔

یعنی کہ رسول اکرم کی دستِ مبارک سے ہر طرح کی برکات کا ظہور ہوتا تھا جو در حقیقت منجانب اللہ آپ کی نبوت کی نشانی اور آپکے لیےتقویت و تائید تھی۔

چھڑی مبارک میں دست اقدس کی قوت و تاثیر

جب مکہ معظمہ فتح ہوا تو حضور نبی کریم بیت اﷲ شریف میں تشریف لے گئے وہاں کافروں نے تین سو ساٹھ 360 پتھر کے بت اس طرح مضبوط نصب کیے ہوئے تھے کہ کلہاڑیوں اور کدالوں سے ان کا اکھڑنا مشکل تھا۔ حضور کے ہاتھ مبارک میں ایک چھڑی تھی وہ چھڑی مبارک جس بت سے لگادیتے اور فرماتے جاء الحق وزھق الباطل تو وہ بت اوندھے منہ زمین پر آجاتا تھا اوراس سے سب لوگ تعجب کرتے۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں:

  دخل رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم الفتح و على الكعبة ثلاثمائة صنم وستون صنما قد شد لھم ابلیس اقدامھم بالرصاص فجاء ومعہ قضیبه فجعل یھوى به الى كل صنم منھا فیخر لوجھه ویقول:وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَھقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَھوْقًا.80حتى امر به علیھا كلھا.81
  کہ حضور نبی کریم فتح والے دن کعبہ میں داخل ہوئے اور (اس وقت) اس میں تین سو ساٹھ 360بت پڑے ہوئے تھے، شیطان نے جن کے پاؤں آہنی زنجیروں سے جکڑ رکھے تھے، پس حضور ادھر تشریف لائے اور آپ کے دست مبارک میں اپنا عصا مبارک بھی تھا۔ آپ اس عصا مبارک کے ساتھ ان بتوں میں سے ہر بت کی طرف آئے تو ہر بت اوندھے منہ گرتاجا تا اور حضور اس وقت یہ آیت کریمہ پڑھ رہے تھے"حق آگیا اور باطل بھاگ گیا بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہوجانا ہے"یہاں تک کہ آپ نے اپنے اس عصا مبارک کے ذریعے سارے بت گرادیے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ نے بھی اس کو بیان کیا ہے۔82 مقام غور ہے کہ صرف لکڑی کی چھڑی لگادینے سے ان بتوں کا گرجانا جو نہایت مضبوط طریقہ سے زمین میں جمائے ہوئے تھے کس قدر حیرت انگیز ہے لیکن جب یہ دیکھا جائے کہ وہ چھڑی کس کے ہاتھ میں تھی تو کوئی حیرت نہ رہتی کیونکہ حضور کا دست مبارک عجیب و غریب تاثیرات کا حامل تھا اوراس چھڑی مبارک میں بھی حضور کے دست ِمبارک کی برکت پہنچ گئی تھی جس کے صرف لگنے سے زمین اور دیوار میں گڑے ہوئے مستحکم بت اوندھے منہ گرجاتے تھے۔

دستِ اقدس کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی

آپ کے دستِ اقدس کی برکات کی تاثیر نہ صرف انسان و حیوان پر تھی بلکہ غیر ذی روح پر بھی اس کا اثر پہنچتا تھا۔چنانچہ امام ابن اسحاق فرماتے ہیں:

  وعكاشة بن محصن وھو الذى قاتل بسیفه یوم بدر حتى انقطع فى یده فاتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاعطاہ جذلا من حطب وقال قاتل بھا یا عكاشة. فلما اخذہ من ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھزه فعاد سیفا فى یده طویل القامة شدید المتن ابیض الحدیدة فقاتل بھا حتى فتح اللّٰه تعالى على رسوله ثم لم یزل عنده یشھد به المشاھد مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى قتل یعنى فى قتال الردة وھو عنده وكان ذلك السیف یسمى القوى.83
  حضرت عکاشہ بن محصن وہ تھے جنہوں نے بدر کے دن اپنی تلوار سے قتا ل کیا تھا یہاں تک کہ وہ ان کے ہاتھ میں ٹوٹ گئی تھی۔ حضور آئے اور آپ نے اس کو لکڑی کا ٹکڑا دیا اور فرمایا کہ اس کے ساتھ قتال کراے عکاشہ۔ اس نے جب اس لکڑی کو رسول اﷲکے ہاتھ سے لیا اور اس کو حرکت دی تو وہ تلوار بن گئی تھی اس کے ہاتھ میں جو طویل القامت ،سخت اور مضبوط پٹھہ اور سفید لوہے والی تھی۔ اس نے اس سے قتال کی حتیٰ کہ اﷲ نے اس کو فتح عطا فرمائی، پھر وہ ہمیشہ اسی کے پاس رہی۔ وہ ان کے ساتھ رسول اﷲ کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتا تھا حتیٰ کہ شہید ہوگیا یعنی مرتدوں کے قتل کرتے ہوئے، اس وقت بھی وہ اسی کے پاس تھی۔ اس تلوار کا نام القوی رکھا گیا تھا۔

سیرت ابن ہشام میں اس تلوار کا نام العونآتا ہے امام عبد الملک بن ہشام لکھتے ہیں:

  فعاد سیفا فى یده طویل القامة شدید المتن ابیض الحدید فقاتل به حتى فتح اللّٰه تعالى على المسلمین وكان ذلك السیف یسمى العون.84
  جب وہ لکڑی ان کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی تو انہوں نے اسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی۔

جنگ اُحد میں حضرت عبداﷲ بن حجش کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی کریم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔چنانچہ مروی ہے:

  فرجع فى عبداللّٰه سیفا.85
  جب وہ حضرت عبداﷲ بن حجش کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی۔

امام عبد الراق بن ہمام صنعانی روایت کرتے ہیں:

  ان عبداللّٰه بن حجش جاء الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یوم احد وقد ذھب سیفه فاعطاه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم عسیبا من نخل فرجع فى یده سیفا.86
  غزوہ اُحد کے روز حضرت عبداﷲ بن حجش بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے۔ ان کی تلوار ٹوٹ گئی تھی۔ آپ نے انہیں کھجور کی شاخ عطا کی جو حضرت عبداﷲ کے ہاتھوں میں جاکر تلوار بن گئی۔

امام سیوطی نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔87 امام زبیر بن بکار الموفقیات میں لکھتے ہیں:

  ان قائمة منه وكان یسمى العرجون ولم یزل یتناقل حتى بیع من بغاء التركى بمائتى دینار.88
  یہ تلوار ان کے ہاتھ میں رہی اسے عرجون کہا جاتا ہے یہ نسل درنسل منتقل ہوتی رہی حتیٰ کہ بغاء الترکی نے اسے دو سو دیناروں میں خرید لی۔

امام زرقانی فرماتے ہیں:

  بیع من بغا التركى من امراء المعتصم باللّٰه فى بغداد بمائتى دینار.89
  بعد میں معتصم باﷲ کے امرا میں سے بغا ترکی نے بغداد میں دوسو دینار دے اسے خرید لیا۔

حضرت سلمہ بن اسلم بن حریش ، آپ جنگ بدر ، اُحد، خندق اور تمام غزوات میں حضور کے ساتھ شریک ہوئے۔آپ فاروق اعظم کی خلافت میں 14ہجری کو عراق میں جسر کے مقام پر شہید ہوئے۔امام محمد بن سعد بصری آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:

  وشھد سلمة بن اسلم بدرا واحد والخندق والمشاھد كلھا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وقتل بالعراق یوم جسر ابى عبید الثقفى سنة اربع عشرة فى اول خلافة عمر بن الخطاب وھو ابن ثلاث وستین سنة.90
  یوم بدر حضرت سلمہ بن اسلم بن حریش کی تلوار بھی ٹوٹی تھی اور جب وہ خالی ہاتھ ہوگئے تو حضور نے انہیں اپنے ہاتھ مبارک کی چھڑی عطا کردی تو وہ بہترین تلوار بن گئی۔

اسی حوالہ سے امام واقدی روایت کرتے ہیں:

  انكسر سیف سلمة بن اسلم بن حریش یوم بدر فبقى اعزل لا سلاح معه فاعطاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قضیبا كان فى یده من عراجین بن طاب فقال اضرب به فاذا ھو سیف جید فلم یزل عنده حتى قتل یوم جسر ابى عبید.91
  حضرت سلمہ بن اسلم بن حریش کی تلوار ٹوٹ گئی تھی بدر والے دن۔ پس باقی رہا خالی ہاتھ تو اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا رسول اﷲ نے اس کو ایک ڈنڈی دے دی جو حضور کے ہاتھ میں تھی کھجور کے خوشے کی جو ٹیڑھا ہوجاتا تھا، تاحال تازہ تھی۔ حضور نے فرمایا کہ اسی کے ساتھ مارو۔ اچانک وہ خالص تلوار بن گئی اور وہ ہمیشہ اسی کے پاس رہی، حتیٰ کہ وہ یوم جسر ابوعبیدہ میں شہید ہوئے تھے۔

ممکن ہے کہ حضور کے دست مبارک سے جو مختلف آثار ظاہر ہوتے ہیں وہ بحسب استعداد ہوں جیسے آگ تر چیز کو نہیں جلاتی اور خشک کو جلادیتی ہے اور بعض چیزوں کو پگھلادیتی ہے اور کبھی پتلی چیز کو گاڑھا کردیتی ہے جیسے انڈے کی زردی وسفیدی وغیرہ کو اور کسی میں اس کا اثر کچھ نہیں ہوتا جیسے ابرک کو بالکل نہیں جلاتی اور کسی کو جلاکر سیاہ کر دیتی ہے جیسے گھاس لکڑی وغیرہ کو۔ یہ سب آثار ہر چند آگ کے ہیں مگر قابلیت مادہ کے لحاظ سے مختلف طور پر ان کا ظہور ہوتا ہے لیکن ادنیٰ تامل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ یہاں استعداد کو بھی کوئی دخل نہیں کیونکہ دست مبارک کی تاثیر سے چھڑی تلوار ہوگئی اور اس قسم کے مختلف آثار ظاہر ہوئے حالانکہ چھڑی میں نہ لوہا بننے کی صلاحیت ہے نہ استعداد، بلکہ اس صورت میں یہی کہنا پڑے گا کہ دست مبارک کا اثر حضور نبی کریم کے ارادے کے تابع تھا اس میں مادہ کی ذاتی صلاحیت اور عدم صلاحیت کو کوئی دخل نہیں۔

دستِ اقدس کے لمس سے کھجور کی شاخ روشن ہوگئی

حضور کے دستِ اقدس کے لگنے کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابوسعید خدری فرماتے ہیں کہ حضرت قتادہ بن نعمان ایک اندھیری رات میں طوفان وبادِباراں کے دوران دیر تک حضور کی خدمت میں بیٹھے رہےپھر جب جانے لگے تونبی اکرم نے انہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا:

  انطلق به فانه سیضىء لك من بین یدیك عشرا ومن خلفك عشرا، فاذا خلت بیتك فسترى سوادا فاضربه حتى یخرج فانه الشیطان.92
  اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لیے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔

حضرت سلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتےہیں :

  فلما توفى ابوھریرة قلت واللّٰه لو جئت ابا سعید الخدرى فاتیته فذكر حدیثا طویلا فى قصة العراجین قال ثم ھاجت السماء من تلك اللیلة فلما خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لصلاة العشاء برقت برقة فراى قتادة بن النعمان فقال ما السرى یا قتادة؟ فقال علمت یا رسول اللّٰه ان شاھد الصلاة اللیلة قلیل فاحببت ان اشھدھا قال فاذا صلیت فاثبت حتى امر بك فلما انصرف اعطاه العرجون فقال خذ ھذا فسیضىء لك امامك عشرا وخلفك عشرا فاذا دخلت بیتك فرایت سوادا فى زاویة البیت فاضربه قبل ان تكلم فانه الشیطان قال ففعل فنحن نحب ھذه العراجین لذلك.93
  جب حضرت ابوہریرہ کا انتقال ہوا تو میں نے کہا کاش کہ میں حضرت ابو سعید خدری کے پاس آجاتا تو میں ان کے پاس آیا۔ پھرانہوں نے عراجین کا پورا قصہ بیان کرتے ہوئے کہا اس رات آسمان پر (بادلوں سے) ہجوم ہوگیا۔ پھر جب رسول اﷲ رات کو عشاء کی نماز کے لیے تشریف لائے اوربجلی چمکی تو آپ نے حضرت قتادہ بن نعمان کو دیکھا اور فرمایا: اے قتادہ! کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا یا رسول اﷲ! مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ آج نماز میں حاضری کم ہے تو میں نے یہ پسند کیا کہ ان کو دیکھوں، فرمایا کہ جب نماز پڑھ لو تو رک جانا حتیٰ کہ میں تمہیں (واپسی کا)حکم دوں ۔پس جب میں لوٹا تو آپ نے مجھے کھجور کی ٹہنی (یاچھڑی) دی اور فرمایا یہ لے لے ،تجھے روشنی دے گی تیرے آگے دس (گز) اور پیچھے دس (گز) ۔پس جب تو گھر میں داخل ہوجائے اور گھر کے کونے میں تاریکی دیکھے تو بولنے سے پہلے اسے مار کیونکہ وہ شیطان ہے۔قتادۃ نے کہا کہ پس میں نے ایسے ہی کیا پس ہم اسی لیے اس چھڑی (یا ٹہنی) کو محبوب جانتے ہیں۔

دستِ مبارک کی برکت سے شاخ کا روشن ہوجانا اور اس کے مارنے سے شیطان کا گھر سے نکل جانا بظاہر تعجب خیز ہے مگر جب دستِ مبارک کی برکتوں اور تاثیروں کو دیکھا جائے تو کوئی تعجب نہیں ہوتا کیونکہ حضور کا دستِ مبارک بے مثل ہے اور اس دستِ مبارک میں معجزانہ طور پر ہر قسم کی قدرت عطا کی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضو ر اکرم جس ارادہ سے دستِ مبارک کو عمل میں لاتے دستِ مبارک سے فوراً اس کا ظہور ہوجاتا۔یہاں یہ بھی معلو م ہوا کہ حضور اپنے غلاموں کے کس قدر خیر خواہ ہیں کیونکہ حضرت قتادہ نے کوئی شکایت نہیں کی کہ میرے گھر میں شیطان یا آسیب ہے۔ حضور نے خود ہی ارشاد فرماکر اس کے دفع کرنے کی تدبیر بھی بتادی۔نہ صرف اتنا بلکہ ایسی چیز ان کو عطا فرمائی جس کے استعمال سے شیطان خود ہی بھاگ جائے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت قتادہ کا مکان حضور کے دولت خانہ سے فاصلے پر تھا اور جس وقت آپ نے ان کو شیطان کی خبردی سخت اندھیری رات تھی، خصوصاً ان کے گھر کے اندر تو روشنی کا گزر ہی نہ تھا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ تمہیں سیاہ رنگ کی چیز نظر آئے گی وہ شیطان ہے۔گویا ظلمت بعضھا فوق بعض کا مضمون صادق آتا ہے مگر پھر بھی حضور نے اتنی تاریکیوں میں اتنی دیواروں کی آڑ میں شیطان کو دیکھ لیا جو بصیرت ایسی ہو جو چند دیواروں اور تاریکیوں کے حائل ہونے پر بھی دیکھ سکے تو اس کے لیے ہزاروں دیواریں اور ہزاروں تاریکیاں بھی حائل نہیں ہوسکتیں کیونکہ دیکھنے کے لیے جو شرطیں تھیں کہ خارجی روشنی ہو، کوئی کثیف چیز حائل نہ ہو وغیرہ وہ یہاں نہیں پائی گئیں۔ باوجود اس کے حضور نے اس شیطان کو دیکھ لیا تو معلوم ہوا کہ حضور کا دیکھنا دوسرے لوگوں کے دیکھنے جیسا نہ تھا کیونکہ حضور کے لیےقرب و بعد روشنی اور اندھیرا یکساں تھا۔

حضرت حنظلہ پر دستِ اقدس کا اثر

حضرت ذیال بن عبید نے حضور نبی کریم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لیے عرض کیاتو آپ نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ آپ کے قریب آگئے، حضور نبی کریم نے اپنا دست اقدس ان کے سر پر رکھا اور فرمایا اﷲ تجھے برکت عطا فرمائے۔رسول اکرم کےاس دستِ اقدس اور دعاء ِمبارک کے اثرات کے بارے میں حضرت ذیال فرماتے ہیں:

  فرایت حنظلة یوتى بالرجل الوارم وجھه وبالشاة الوارم ضرعھا فیتفل فى كفه ثم یضعھا على صلعته ثم یقول بسم اللّٰه على اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ثم یمسح الورم فیذھب.94
  میں نے دیکھا کہ جب کسی کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہوجاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر لعاب دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے:اﷲ کے نام کے ساتھ اور رسول اﷲ کے ہاتھ مبارک کے اثر کے ساتھ پھیرتا ہوں ۔اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اتر جاتا۔

اسی حوالہ سےامام بیہقی روایت کرتے ہیں:

  فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یا غلام فاخذ بیده فمسح راسه وقال له بورك فیك او قال بارك اللّٰه فیك ورایت حنظلة یوتى بالشاة الورم فیتفل فى یده ویمسح بصلعته ویقول بسم اللّٰه على اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فیمسحه فیذھب عنه.95
  حضور نبی کریم نے فرمایا اے لڑکے اور حضور نبی کریم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور اس کے بارے میں کہا تھا کہ اس میں برکت دی گئی ہے یا یوں فرمایا تھا اﷲ تمہارے اندر برکت دے ۔تو میں نے حنظلہ کو دیکھا تھا کہ ان کے پاس ایسی بکری لائی جاتی جس کی کھوپری پر ورم ہوتا وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعاب دہن ڈالتے اور لعاب دہن لگا کر متورم جگہ پر پھیرتے اور یوں کہتے تھے:اﷲ کے نام کے ساتھ اور رسول اﷲ کے ہاتھ مبارک کے اثر کے ساتھ پھیرتا ہوں پس ہاتھ پھیردیتے تھے لہٰذا اس کا ورم دور ہوجاتا تھا۔

اسی طرح اما م بغوی فرماتے ہیں:

  ویقول بسم اللّٰه على اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فیمسحه فیذھب عنه.96
  اور یوں کہتے تھے:اﷲ کے نام کے ساتھ اور رسول اﷲ کے ہاتھ مبارک کے اثر کے ساتھ پھیرتا ہوں پس ہاتھ پھیردیتے تھے لہٰذا اس کا ورم دور ہوجاتا تھا۔

یہاں یہ بات بہت ہی قابل غور ہے کہ حضور نے حضرت حنظلہ کے بچپن میں ان کے سر پر ہاتھ رکھا جس کا اثر ان میں عمر بھر رہا اور وہ بھی ایسا کہ فقط وہی اس سے مستفید نہ تھے بلکہ دوسرے انسان و حیوان بھی اس سے فائدہ اور شفا حاصل کرتے۔ دستِ مبارک کی برکت ان کے سر کے پوست پر قائم ہوئی اور جب وہ اپنا ہاتھ اس پر لگاتے تو ان کے ہاتھ میں آجاتی اور پھر وہ برکت بیمار تک پہنچتی اور وہاں جاکر یہ اثر کرتی کہ اس کو صحت ہوجاتی۔

کنویں کودستِ اقدس کااثر پہنچنا

حضرت زیاد بن حارث صدائی فرماتے ہیں کہ حضور ایک سفر میں طلوع ِفجر سے پہلےاستراحت کے لیے تشریف لے گئے۔ جب واپس تشریف لائے تو مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نے عرض کیا بہت تھوڑا ہے جو آپکو کافی نہ ہوگا فرمایا اس کو ایک برتن میں ڈال کر لے آؤ! صحابی فرماتے ہیں میں لے آیاتو رسول اللہ نے اس میں اپنا دستِ اقدس ڈالا۔چنانچہ مروی ہے:

  فوضع كفه فى الماء فرایت بین اصبعین من اصابعه عینا تفور فقال ناد فى اصحابى من كان له حاجة فى الماء فنادیت فیھم فاخذ من اراد منھم فقلنا یا رسول اللّٰه ان لنا بیرا اذا كان الشتاء وسعنا ماء ھا واجتمعنا علیھا واذا كان الصیف قل ماء ھا فتفرقنا على میاه حولنا وقد اسلمنا وكل من حولنا لنا عدو فادع اللّٰه لنا فى بیرنا ان یسعنا ماء ھا فنجتمع علیھا ولا تتفرق فدعا بسبع حصیات فعركھن فى یدہ دعا فیھن ثم قال اذھبوا بھذه الحصیات فاذا اتیتم البیر فالقوا واحدة واحدة واذكروا اسم اللّٰه قال الصدائى ففعلنا ما قال لنا فما استطعنا ان ننظر الى قعرھا یعنى البیر.97
  تو آپ نے اپنا دستِ مبارک اس میں رکھا، میں نے دیکھا کہ آپ کی دو انگلیوں کے بیچ میں سے چشمہ جوش مارنے لگا تو آپ نے فرمایا لوگوں میں پکار دو کہ جس کو پانی کی حاجت ہوآجائے۔ میں نے پکارا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس پانی میں سے لیا یہ دیکھ کر ہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! ہمارے قبیلہ میں ایک کنواں ہے ،موسم سرما میں تو اس کا پانی ہم سب کو کافی ہوتا ہے تو ہم اکٹھے رہتے ہیں اور جب موسم گرما آتا ہے تو اس کا پانی بہت کم ہوجاتا ہے تو ہم لوگ متفرق ہوکر جہاں پانی پاتے ہیں وہاں چلے جاتے ہیں۔ اب چونکہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں اس وجہ سے اطراف کے قبیلے ہمارے دشمن ہوگئے ہیں تو آپ دعا فرمائیں کہ ہمارے کنوئیں کا پانی ہمیں کافی ہوجائے اور ہم ایک ہی جگہ جمع رہیں اورمتفرق ہونے کی ضرورت نہ ہو ۔حضور اکرم نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا کہ یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو! فرماتے ہیں جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اسی حوالہ سے امام بیہقی کی روایت میں بھی یوں منقول ہے:

  فدعا بسبع حصیات فعركھن فى یده دعا فیھن ثم قال اذھبوا بھذه الحصیات فاذا اتیتم البیر فالقوا واحدة واحدة واذكروا اسم اللّٰه قال الصدائی ففعلنا ما قال لنا فما استطعنا ان ننظر الى قعرھا یعنى البیر.98
  تو حضور نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا کہ یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو! راوی صدائی فرماتے ہیں جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

اس حدیث میں جو مذکور ہے کہ حضور نے کنکریوں کو ہاتھ میں مل کر کنوئیں میں ڈالنے کا حکم فرمایا اور اس سے بے حد پانی بڑھ گیا اس سے ظاہر ہے کہ دستِ مبارک کا اثر کنوئیں میں پہنچانا منظور تھا جس کی تدبیر یہ کی گئی کہ کنکریوں کو دستِ مبارک سے متاثر فرمایا اور وہ اثر کنوئیں میں پہنچا اور پانی فورًابڑھ گیا۔ ظاہرًا دستِ مبارک کا اثر کنکریوں میں نہ تھا مگر معنوی طور پر اس قدر تھا کہ اس کنوئیں کے پانی کو حد سے بڑھادیا ۔ان لوگوں نے جب دستِ مبارک کا اثر دیکھا کہ اس سے پانی جاری ہوتا ہے تو اپنے کنوئیں کا پانی زیادہ کرنے کی درخواست کی اس وقت حضور کا بنفس نفیس خود تشریف لے جانا متعذر تھا اور ان کی درخواست کو رد کرنا بھی مناسب نہ سمجھا اس لیے کنکریوں کے ذریعے سے دستِ مبارک کی برکت کو وہاں پہنچادیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے اونٹنی کی سرکشی ختم ہوگئی

حضرت حماد بن سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں بنی قیس کے ایک بزرگ کو اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا:

  جاء نا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم و عندنا بكرة صعبة لا نقدر علیھا قال فدنا منھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح ضرعھا فحفل فاحتلب.99
  کہ حضور نبی کریم ہمارے ہاں تشریف لائے ہمارے پاس ایک سرکش اونٹنی تھی جو قابو میں نہ آتی تھی۔حضور اس اونٹنی کے پاس گئے،اس کے تھنوں پر دست اقدس پھیرا تو وہ دودھ سے بھر گئے پھر حضور نے انہیں دوہا۔

آپ کے دستِ مبارک کی برکات سے نہ صرف انسان بلکہ حیوان بھی مستفید ہوتے تھے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے کمزور بکریاں توانا ہوگئیں

اسی طرح رسول اکرم کے دستِ مبارک کے اثر سےکمزوربکریوں میں برکت ہوجاتی اوروہ توانا ہوجاتیں چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعو د بیان کرتے ہیں :

  كنت غلاما یافعا راعى غنما لعقبة بن ابى معیط فجاء النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وابوبكر وقد فرا من المشركین فقالا یا غلام ھل عندك من لبن تسقینا قلت انى موتمن ولست ساقیكما فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ھل عندك من جذعة لم ینز علیھا الفحل قلت نعم فاتیتھما بھا فاعتقلھا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومسح الضرع ودعا فحفل الضرع ثم اتاه ابوبكر رضى اللّٰه عنه بصخرة منقعرة فاحتلب فیھا فشرب وشرب ابوبكر ثم شربت ثم قال للضرع اقلص فقلص فاتیته بعد ذلك فقلت علمنى من ھذا القول قال انك غلام معلم قال فاخذت من فیه سبعین سورة لاینازعنى فیھا احد.100
  میں ایک نو عمر لڑکا تھا اور عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چراتا تھا ۔ حضور نبی کریم اور سیدنا صدیق اکبر ادھر تشریف لائے اور آپ دونوں مشرکین سے رائے فرار اختیار کرکے آئے تھے ۔انہوں نے فرمایا اے لڑکے! کیا تمہارے پاس ہمیں پلانے کے لیے دودھ ہے؟ میں نے کہا میں (کسی کی بکریوں پر) امین ہوں لہٰذا میں آپ کو دودھ نہیں پلاسکتا۔ پھر حضور نے فرمایا کیا تمہارے پاس ایک سالہ بکری ہے جس سے بکرے نے جفتی نہ کی ہو؟ میں نے عرض کیا ہاں (ہے) میں ان دونوں کو اس بکری کے پاس لے کر آیا تو اسے حضور نبی کریم نے پکڑا اور اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی وہ تھن دودھ سے بھر آیا توحضو رنبی کریم نے اسے دوہا۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق پیندے والا پتھر آپ کے پاس لے کر حاضر ہوئے۔ حضور نے اس میں دودھ دوہا پھر آپ اور حضرت ابوبکر صدیق نے وہ دودھ نوش فرمایا اور پھر میں نے وہ دودھ پیا۔ حضور نے تھن کو حکم دیا کہ وہ سکڑ جائے تو وہ سکڑگیا (جس طرح وہ دودھ دوہنے سے پہلے تھا) پھر میں حضور نبی کریم کے پاس آیا اور عرض کی (یارسول اﷲ!) جو کلمات آپ نے پڑھے وہ) مجھے بھی سکھائیے آپ نے فرمایا بے شک تو سیکھنے والا لڑکا ہے ۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور سے ستر سورتیں سیکھیں او ر اس چیز میں میرا کوئی مدمقابل نہیں ہے۔

اگرچہ یہ دودھ عقبہ کی بکری کا تھا مگر اس کی ملکیت نہ تھا ورنہ حضورنبی کریم کبھی اس میں تصرف نہ فرماتے کیونکہ اس کی تخلیق بطور عادت نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا سبب حضور کا دستِ مبارک تھا چونکہ تخلیق خاص قسم کی ہوئی اس لیے احکام ملک بدل گئے اور وہ دودھ حضور کی ملک ہوگیا کیونکہ اس کا واسطہ دستِ مبارک ہوا۔

اسی طرح کا واقعہ حضرت قیس بن نعمان کے بارے میں بھی منقول ہے۔چنانچہ امام حاکم روایت کرتے ہیں:

  عن قیس بن النعمان قال لما انطلق النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وابوبكر مستخفیین مرا بعبد یرعى غنما فاستیقیاه من اللبن فقال ما عندى شاة تحلت غیر ان ھاھنا عناقا حملت اول الشتاء وقد اخدجت وما بقى لھا لبن فقال ادع بھا فاعتقلھا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومسح ضرعھا ودعا حتى انزلت قال وجاء ابوبكر بمجن فحلب فسقى ابابكر ثم حلب فسقى الراعى ثم حلب فشرب فقال الراعى باللّٰه من انت؟ فواللّٰه ما رایت مثلك قط قال او تراك تكتم على حتى اخبرك قال نعم قال فانى محمد رسول اللّٰه ، فقال انت الذى تزعم قریش انه صاب ء قال انھم لیقولون ذلك قال فاشھد انك نبى واشھد ان ما جئت به حق وانه لا یفعل ما فعلت الا نبى وانا متبعك قال انك لا تستطیع ذلك یومك فاذا بلغك انى قد ظھرت فاتنا.101
  حضرت قیس بن نعمان فرماتے ہیں جب نبی کریم اور حضرت ابوبکر صدیق مستخف ہوکر (مکہ سے) نکلے۔ (مستخف اس آدمی کو کہتے ہیں جس کو اس کی قوم نے حقیر جانا ہو) تو ان کا گزر ایک چرواہے کے پاس سے ہوا، وہ بکریاں چرارہا تھا۔ انہوں نے اس سے دودھ مانگا تو اس نے کہا اس وقت میرے پاس دودھ دینے والی صرف ایک یہی بکری ہے اور یہ بھی سردیوں کے شروع میں حاملہ ہوگئی تھی لیکن اس نے بچہ گرادیا تھا اور اب یہ دودھ نہیں دیتی۔حضور نبی کریم نے فرمایا اس کو میرے پاس لاؤ ، چنانچہ وہ اس کو حضور کے پاس لے آیا۔ نبی کریم نے اس کی ٹانگ کو اپنی ٹانگ اور ران کے درمیان دبالیا اور اس کے تھنوں پر ہاتھ لگایا اور دعا مانگی (آ پ کے ہاتھوں اور دعا کی برکت سے) اس بکری کا دودھ اتر آیا۔(راوی) کہتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق ڈھال لے آئے (آپ نے اس میں) اس کو دوہا پھر حضرت ابوبکر صدیق کو اپنے پاس بلایا اور اس کو دوہا ،پھر چرواہے کو بلایا اور دوہا توسب نے سیر ہوکر دودھ پیا ۔چرواہا بولا کہ آپ کو خدا کی قسم ہے کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کون ہیں؟ خدا کی قسم میں نے آپ() جیسا انسان کبھی نہیں دیکھا۔ حضور نے فرمایا اگر تم میری راز داری رکھو تو میں تمہیں بتاؤں گا (کہ میں کون ہوں) ۔اس نے رازداری کی حامی بھری توآپ نے فرمایا بے شک میں محمد رسول اﷲ ہوں۔ اس نے کہا اچھا آپ()ہی ہو وہ شخص ہیں جس کے بارے میں قریش کا گمان ہے کہ آپ ()نیا دین لے کر آئے ہیں۔آپ نے فرمایا بے شک وہ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں اس نے کہا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ نبی ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ جو کچھ لائے ہیں سب حق ہے اور جو کمال آپ نے کرکے دکھایا ہے یہ نبی کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا اور بے شک میں آپ کے ہمراہ چلوں گا۔ آپ نے فرمایا آج تو تمہارا ہمارے ساتھ جانا مناسب نہیں ہے البتہ جب تمہیں میرے غلبہ کی خبر مل جائے تب ہمارے پاس چلے آنا۔

یہ حدیث امام طبرانی کی روایت میں بھی ہے102جس سے معلوم ہواکہ نبی اکرم کے دستِ مبارک سے برکت پانے والی اشیاء میں برکت عارضی طور پر نہیں بلکہ دائمی طور پر موجود رہتی اور دوسری اشیاء بھی اس سے مستفید ہوتی رہتی۔

ابو قرصافہ کی بکریاں توانا ہوگئیں

حضرت ابو قرصافہ کا نام جندرہ بن خیشنہ ہے اوریہ مالک بن نضر میں نبی کریم کے ساتھ نسب میں مل جاتے ہیں۔ نبی کریم کے وصال کے بعد یہ شام چلے گئے اور وہیں وصال فرمایا۔چنانچہ حضرت ابوقرصافہ دستِ اقدس کی برکت کے حوالہ سےبیان کرتے ہیں :

  كان بدء اسلامى انى كنت یتیما بین امى وخالتى وكان اكثر میلى الى خالتى وكنت ارعى شویھات لى فكانت خالتى كثیرا ما یقول لى یا بنى لا تمر بھذا الرجل تعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فیغویك ویضلك فكنت اخرج حتى اتى المرعى واترك شویھاتى ثم اتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فلا ازل عنده اسمع منه واروح یغنمى ضمرا یابسات الضروع فقالت لى خالتى ما لغنمك یابسات الضروع؟ قلت ما ادرى ثم عدت الیه الیوم الثانى ففعل كما فعل الیوم الاول غیر انى سمعته یقول ایھا الناس ھاجروا وتمسكوا بالاسلام فان الھجرة لاتنقطع ما دام الجھاد ثم انى رجعت بغنمى كما رحت الیوم الاول ثم عدت الیه الیوم الثالث فلم ازل عند النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اسمع منه حتى اسلمت وبایعته وصافحته بیدى وشكوت الیه امر خالتى وامر غنمى فقال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جئنى بالشیاه فجئته بھن فمسح ظھورھن وضروعھن ودعا فیھن بالبركة فامتلان شحما ولبنا.103
  میرے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ میں یتیم لڑکا تھا والدہ اور خالہ کی زیر کفالت تھا تاہم میرا زیادہ میلان خالہ کی طرف تھا۔ میں اپنی چھوٹی چھوٹی بکریاں چرایا کرتا تھا اورمیری خالہ اکثر مجھے کہتی تھی پیارے بیٹے؟ اس آدمی یعنی نبی کریم کے قریب نہ بھٹکنا وہ تمہیں راہ سے ہٹادے گا اور گمراہ بنادے گا۔ تو میں گھر سے نکلتا چراگاہ میں جاتا بکریاں وہیں چھوڑتا اور نبی کریم کے پاس آجاتا ،آپ کے پاس بیٹھتا،آپ کی باتیں سنتا رہتا اور رات کو کمزور اور خشک تھنوں والی بکریاں لیے گھر واپس ہوجاتا۔ ایک بار میری خالہ نے مجھ سے کہا کیا بات ہے تیری بکریاں خشک ہوچکی ہیں؟ میں نے کہا میں نہیں جاتنا۔ پھر اگلے دن میں نبی کریم کے ہاں جاپہنچا، آپ کے معمولات پہلے ہی دن جیسے تھے۔ البتہ آپ یہ فرمارہے تھے اے لوگو ہجرت کرو اور اسلام کو مضبوطی سے تھام لو کیونکہ جب تک جہاد ہوتا رہے گا ہجرت ختم نہ ہوگی۔ پھر میں بکریاں لے کر گھر آگیا اور تیسرے دن پھر آپ کے پاس جاپہنچا وہاں بیٹھا رہا اور تب اٹھا جب اسلام لاچکا اور بیعت کے لیے آپ کے دستِ مبارک میں ہاتھ دے چکا تھا۔ پھر میں نے آپ سے اپنی خالہ کے معاملے اور بکریوں کے متعلق عرض کیا ۔ آپ نے مجھے فرمایا بکریاں میرے پاس لاؤتو میں لے آیا، آپ نے ان کی پشتوں اور تھنوں پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ چربی اور دودھ سے بھر گئیں۔

ابو قرصافہ کو اپنی بکریاں چھوڑکر حضو ر کے پاس جانے کا شوق پیدا ہونا حالانکہ ان ہی بکریوں پر ان کی روزی کا دارومدار تھا اور پھر زمانہ نو عمری اور یتیمی کا ،اس زمانے کے حالات او ر تقاضے اہل نظر سے مخفی نہیں ہیں چونکہ توفیق ازلی مددگار تھی لہٰذا ایسے آثار ظاہر ہوئے اور اس وجہ سے دستِ مبارک کی برکات کا بھی ظہور ہوا۔

ام معبد کی خشک بکری دودھ دینے لگ گئی

رسول اﷲ جس وقت مکے سے نکالے گئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی تو قبیلہ بنو خزانہ کی ایک بوڑھی خاتون اُم معبد خزاعیہ کے خیموں کے پاس سے گزرے ۔ قبائلی دستور کے مطابق گوشت یا کھجور مانگے تاکہ اس بوڑھی اماں سےیہ چیزیں خرید لیں مگر ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔

اُم معبد نے کہا کہ اﷲ کی قسم اگر ہمارے پاس کوئی چیز ہوتی تو ہم تمہیں اس کو ذبح کرنے سے بھی نہ روکتے۔ رسول اﷲ کی نظر اتنے میں خیمے کے ایک کونے میں ایک بکری پر پڑی توآپ نے پوچھا کہ یہ بکری کیسی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ایسی کمزور بکری ہے جو بکریوں کے ساتھ چراگاہ تک چل کر نہیں جاسکتی اس لیے یہ خیمے میں باندھ رکھی ہے تو یہ دودھ دینے سے بھی معذور ہے ۔حضور نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے اس کا دودھ دوہنے کی اجازت دیں گی؟ وہ بولی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان، اگر آپ کو اس کے پاس دودھ نظر آئے تو ضرور دودھ لیں۔104 چنانچہ امام حاکم نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

  فدعا بھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح بیده ضرعھا وسمى اللّٰه تعالى و دعا لھا فى شاتھا فتفاجت علیه ودرت فاجترت فدعا باناء یربض الرھط فحلب فیه ثجا حتى علاہ البھاء ثم سقاھا حتى رویت وسقى اصحابه حتى رووا وشرب اخرھم حتى اراضوا ثم حلب فیه الثانیة على ھدة حتى ملا الاناء ثم غادرةعندھا ثم بایعھا وارتحلوا عنھا.105
  آپ نے اس بکری کو منگوا کر بسم اﷲ کہہ کر اس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لیے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے حضور کے لیے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلادیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہوگئی۔ آپ نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کردے اور اس میں دودھ دوھ کر بھردیا،یہاں تک کہ اس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُم معبد کو پینے کو دیا تو وہ سیر ہوگئیں،پھراپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہوگئے۔ سب کے بعد آپ نے نوش فرمایا۔پھر دوسری بار دودھ دوہایہاں تک کہ وہی برتن پھر بھر دیا اور اسے بطور نشان اُم معبد کے پاس چھوڑا اور اسے اسلام میں بیعت کیا پھر سب وہاں سے چل دئیے۔

نبی اکرم کے دستِ اقدس کی برکت سے کمزور اور ناتوا ں بکری بھی توانا ہوکر دودھ دینے کے قابل ہوگئی۔نہ صرف اتنا کہ اس وقت دودھ دیا بلکہ نبی اکرم کے تشریف لے جانے کے بعد بھی وہ دودھ دیتی رہی اور جب حضرت عمر کے دورِ خلافت میں قحط پڑا تو اس وقت کسی کی بھی بکری دودھ نہیں دیتی تھی سوائے امِّ معبد کی بکری کہ جس پر نبی اکرم کے دستِ اقدس لگے تھے۔چنانچہ امام صالحی شامی لکھتے ہیں:

  وروى ابن سعد وابو نعیم عن ام معبد قالت بقیت الشاة التی لمس رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضرعھا عندنا حتیك كان زمان الرمادة وھى سنة ثمانى عشرة من الھجرة زمان عمر بن الخطاب وكنا نحلبھا صبوحا وغبوقا وما فى الارض قلیل ولا كثیر. وقال ھشام بن حبیش انا رایت الشاة وانھا لتادم ام معبد وجمیع صرمتھا اى اھل ذلك الماء.106
  ابن سعد اور ابو نعیم رحمہما اﷲ نے حضرت اُم معبد سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا:جس بکری کے تھنوں کو حضور نے مس کیا تھا وہ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں 18ہجری تک ہمارے پاس رہی اور اسی سال قحط آیا تھا۔ ہم صبح وشام اس کا دودھ نکالتے تھے حالانکہ زمین پر کچھ بھی نہ تھا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے سست رفتار اونٹ تیز رفتار ہوگیا

آپ کے دست اطہر کی برکت ہی کو بیان کرتے ہوئے حضرت جعیل بن زیاد فرماتے ہیں:

  غزوت مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى بعض غزواته وانا على فرس لى جعفاء ضعیفة قال فكنت فى اخریات الناس فلحقنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال سریا صاحب الفرس فقلت یا رسول اللّٰه جعفاء ضعیفة قال فرفع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مخفقة معه فضربھا بھا وقال اللّٰھم بارك له فیھا قال فلقد رایتنى ما امسك راسه ان تقدم الناس قال فلقد بعت من بطنھا باثنى عشر الفا.107
  میں نے ایک غزوہ میں حضور نبی کریم کے ہمراہ جہاد کیا میں اپنی نڈھال ولاغر گھوڑی پر سوار تھا میں لوگوں کے آخری گروہ میں تھا۔ حضور میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے گھوڑ سوار، آگے بڑھو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! یہ نڈھال ولاغر گھوڑی ہے۔حضورنبی کریم نے اپنا چابک ہوا میں لہرا کر گھوڑی کو مارا اور یہ دعا فرمائی اے اﷲ جعیل کی اس گھوڑی میں برکت عطا فرما۔ جعیل کہتے ہیں میں اس گھوڑی کو پھر قابو نہ کرسکا یہاں تک کہ میں لوگوں سے آگے نکل گیا نیز میں نے اس کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے بارہ ہزار میں فروخت کیے۔

دبلی اور ضعیف گھوڑی کا بغیر خوراک اور مسالا وغیرہ کھلانے کے صرف چھڑی مارنے سے چست اور چالاک ہوجانا کس قدر حیرت انگیز ہے مگر حضور کی توجہ اور چھڑی مارنے سے اس کی فطرت ہی بدل گئی اور ایک نئی روح اور نئی طاقت اس کے اندر پیدا ہوگئی ۔

دست اقدس میں کنکریوں کا کلمہ پڑھنا

حضرت عبداﷲ بن عباس ما فرماتے ہیں کہ حضر موت کے باشندے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے جن میں اشعث بن قیس بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایک بات ہم نے اپنے دل میں چھپائی ہے بتائیے وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا سبحان اﷲ! یہ تو کاہن کا کام ہے اور کاہن و کہانت کا مقام دوزخ ہے۔چنانچہ انہوں نے عرض کی:

  قالوا كیف نعلم انك رسول اللّٰه فاخذ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كفا من حصى فقال ھذا یشھد انى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فسبح الحصى فى یده فقالوا نشھد انك رسول اللّٰه .108
  تو انہوں نے کہا کہ پھر ہم کس طرح جانیں کہ آپ( ) اﷲ کے رسول ہیں؟ تو آپ( ) نے ایک مٹھی کنکر زمین سے اٹھا کر فرمایا دیکھو یہ گواہی دیتے ہیں کہ میں اﷲ کا رسول ہوں چنانچہ حضور کے دست مبارک میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی۔ یہ سنتے ہی انہوں نے کہا کہ ہم بھی گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اﷲ کے رسول ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ حضور قلوب کی کیفیتوں پر مطلع تھے جس کا ثبوت متعدد احادیث میں ملتا ہے مگر اس موقعہ پر جو فرمایا کہ یہ کاہن کا کام ہے، اس میں ایک بہت بڑی مصلحت تھی اور وہ یہ تھی کہ اگر حضور ان کی سوچی ہوئی بات بتادیتے تو لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ یہ کام تو کاہن بھی کیا کرتے تھے اور ممکن تھا کہ ان کو اس قسم کا کوئی واقعہ شبے میں ڈال دیتا، چونکہ انہوں نے نبوت ورسالت کے پرکھنے کا معیار، دل کی بات جان لینے کو قرار دیا جو اتنی بڑی بات نہ تھی۔اس لیے فرمایا کہ یہ کام تو کاہن بھی کرلیتے ہیں، ہم تمہیں وہ معجزہ دکھاتے ہیں کہ کسی اور سے ممکن ہی نہ ہو، چنانچہ کنکریوں سے کلمہ پڑھ کر آپ کی رسالت کی گواہی دی۔

دشمنوں پر دستِ اقدس کی کنکریوں کا اثر

آپ کے دستِ مبارک کے اثرات کو بیان کرتے ہوئےحضرت ابن عباس فرماتے ہیں:

  شھدت مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم حنین فلزمت انا وابو سفیان بن الحارث بن عبد المطلب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم نفارقة ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على بغلة له بیضاء اھداھا له فروة بن نفاثة الجذامى فلما التقى المسلمون والكفار ولى المسلمون مدبرین فطفق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یركض بغلته قیل الكفار… اخذ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حصیات فرمى بھن وجوه الكفار ثم قال انھزموا ورب محمدقال فذھبت انظر فاذا القتال على ھیئته فیما ارى قال فوا اللّٰه ما ھو الا ان رماھم بحصیاته فما زلت ارى حدھم كلیلا وامرھم مدبرا.109
  غزوہ حنین میں، میں حضور کے ساتھ تھا میں اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب حضور کے ساتھ ساتھ رہے اور آپسے بالکل الگ نہیں ہوئے۔ حضور اس سفید رنگ کی خچر پر سوار تھے جو آپ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔ جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے پھر حضور نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کفار کی چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا رب محمد کی قسم! یہ ہار گئے ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا لڑائی اسی تیزی کے ساتھ جاری تھی، میں اسی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ نے کنکریاں پھینکیں بخدا میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔

رسول اکرم کے دستِ اقدس کی برکا ت سے ہر طرح کی برکات کا اظہار موقع محل کے مناسب ہوتا تھا اور اسی وجہ سے کئی لوگوں نے اس کا مشاہدہ کرکے ایمان کی دولت کو پایا۔

کوتاہ قد کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا تو وہ سب سے اونچے نظر آتے

حضرت عبد الرحمن بن زید بن الخطاب کوتاہ قد پیدا ہوئے تو حضور نبی کریم نے ان کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور دعا فرمائی بعد ازاں حضرت عبدالرحمن جس قوم میں ہوتے سب سے اونچے نظر آتے تھے۔چنانچہ قاضی عیاض لکھتے ہیں:

  ومسح راس عبد الرحمن بن زید بن الخطاب وھو صغیر وكان دمیما و دعا له بالبركة فضرع الرجال طولا وتماما.110
  اور عبدالرحمن بن زید بن خطاب کے سر پر ہاتھ مبارک کا پھیرنا جبکہ وہ بچپن میں چھوٹے جسم والے تھے۔ حضور نے ان کے لیے برکت کی دعا فرمائی کے پس وہ قد اور وضع قطع میں مردوں کی مانند ہوگئے۔

دستِ اقدس پھیرنے کے بعد حذیفہ کو سردی نہ لگی

اسی طرح سیدنا عبد الرحمن جامی فرماتے ہیں:

جب لیلۃ الاحزاب میں حضرت حذیفہ بن یمان کو لشکر احزاب کی جانب روانہ کیا گیا تو جانے سے پہلے حضور نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے سینے اور کندھوں پر پھیرے اور یہ دعا کی:

  اللّٰھم احفظ من بین یدیه ومن خلفه و عن یمینه و عن شماله.111
  اے اللہ! آگے پیچھے اور دائیں بائیں سے ان کی حفاظت فرما۔

اس دعا کی برکت سے یہ اثر ہوا کہ اس شب شدت کی سردی تھی لیکن حضرت حذیفہ نے کہا کہ جب میں روانہ ہوا تو میں نے یوں محسوس کیا جیسے میں گرم حمام میں ہوں۔

دست اقدس پھیرنے سے زنا سے تائب ہوگیا

اسی دستِ مصطفی کی برکت کو بیان کرتے ہوئے سیدنا عبد الرحمن جامی فرماتے ہیں:

ایک نوجوان نے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اﷲ مجھے اجازت دے دیجئے کہ میں زنا کرتا رہوں۔صحابہ کرام نے جب اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو سخت غضبناک ہوئے مگر حضور نے اس نوجوان کو پاس بٹھا کر دریافت کیا:کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ لوگ تیری ماں سے زنا کریں؟نوجوان نے کہانہیں یا رسول اﷲ !فرمایا دوسرے لوگ بھی اسی طرح پسند نہیں کرتے۔ ۔۔ اس کے بعد حضور نے اپنا داہناں ہاتھ اس نوجوان کے سینہ پر پھیر کر فرمایا:

  اللّٰھم اغفر ذنبه طھر قلبه حصن فرجه.112
  اے اللہ ا س کے گناہوں کو معاف فرما ،اس کے دل کو پاک فرما ،اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔

پھر اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ نہیں کی۔اسی طرح احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں:

  قال فلم یكن بعد ذلك الفتى یلتفت الى شىء.113
  فرمایا وہ برا کام درکنار وہ کسی عورت کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔

یعنی کہ نبی اکرم کے دست ِ مبارک کی برکت سے دلوں کی تطہیر بھی میسر ہوجاتی تھی اور پھر انسان باری تعالیٰ کا تابع ِ فرمان ہوجایا کرتا تھا۔

دستِ اطہر سےسر کے بالوں کا کالا رھنا

جب انسا ن جوانی سے نکل کر بزرگی کی طرف بڑھتا ہے تو قدرتی طور پر اس کے بال سفید ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ لیکن حضرت عمرو بن ثعلبہ کے بال ان کے وصال تک سیاہ رہے حا لانکہ وصال کے وقت ان کی عمر 100 سال تھی۔ چنانچہ امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن ثعلبہ نے فرمایا:

  لقیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالسیالة فاسلمت ومسح على وجھى فمات عمرو بن ثعلبة وقد اتت علیه مائة سنة ومات شابت منه شعرةمستھا ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من وجھه وراسه.114
  میری ملاقات سیالہ میں رسول اﷲ سے ہوئی میں مسلمان ہوگیا انہوں نے میرے چہرے پر ہاتھ پھیرا تھا۔چنانچہ حضرت عمرو بن ثعلبہ جب فوت ہوئے تو وہ پورے سو برس کے ہوچکے تھے مگروہ بال جن کو رسول اﷲ کا ہاتھ لگا تھا چہرے پر اورسر پر تو وہ کالے رہے۔

اس روایت کو امام ابن حجر عسقلانی 115 اورامام طبرانی دونو ں نے اپنی کتابوںمیں نقل کیاہے۔ 116

اسی طرح کی برکت حضرت سعد بن عثمان الزرقی کو بھی نصیب ہوئی جن کا شمار بدری صحابہ میں ہوتا ہے۔ان کے بارے میں امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

  ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اتى بئر اھاب بالحرة وھى یومئذ لسعد بن عثمان قد ترك علیھا ابنه عبادة یسقى فلم یعرفه عبادة ثم جاء سعد فوصفه له فقال ذلك رسول اللّٰه الحق به فلحقه فمسح راسه ودعا له یقال مات وھو ابن ثمانین سنة وما شاب.117
  نبی کریم مقامِ حرہ کے اہاب نامی کنویں پر تشریف لائے جو ان دِنوں سعد بن عثمان کی ملکیت تھا جہاں وہ اپنے بیٹے عبادہ کو چھوڑ گئے تھے تاکہ لوگوں کو پانی پلائیں ۔حضرت عبادہ نبی کریم کو نہ پہنچان پائے، بعد میں حضرت سعد آئے انہوں نے آنے والی شخصیت کا حلیہ بیان کیا ،حضرت سعد بولے بیٹا! یہی تو رسول اﷲ ہیں جن کے پاس حق ہے۔ چنانچہ یہ بھاگتے ہوئے آپ سے جا ملے اور آپ نےان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔بقول بعض وہ اَسّی سال کے باوجود جوانی میں فوت ہوئے۔

امام سیوطی نے بھی اس کو نقل کیا ہے۔118یہ دست اقدس نبی کریم نے حضرت بشیر بن عقربہ کے سر پر بھی پھیرا اور وہ بھی اس کی برکات سے مشرف ہوئے۔چنانچہ امام ابن عساکر تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بشیر بن عقربہ نے فرمایا:

  لما قتل ابى یوم احد اتیت رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وانا ابكى فقال یا حبیب ما یبكیك اما ترضى ان اكون انا ابوك وعائشة امك فمسح على راسى فكان اثر یده من راسى اسود وسائره ابیض.119
  جب میرا باپ جنگ اُحد میں شہید ہوگیا، تو میں روتا ہوا نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا تم کیوں رو رہے ہو کیا تمہیں پسند نہیں کہ میں تمہارا باپ بنوں اور عائشہ تمہاری ماں بنیں۔ اس کے بعد رسول اﷲ نے میرے سر پر اپنا دست مبارک پھیرا جس کا اثر یہ ہوا کہ میرے سر کے وہ بال سیاہ رہے جہاں نبی کریم نے دستِ مبارک رکھا تھا اور باقی بال سفید ہوگئے۔

آپ کے دست مبارک کی برکت کو بیان کرتے ہوئے حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں :

  ذھبت بى خالتى الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت یا رسول اللّٰه ان ابن اختى وجع فمسح راسى ودعا لى بالبركة ثم توضا فشربت من وضوئه ثم قمت خلف ظھره فنظرت الى خاتم النبوة بین كتفیه مثل زر الحجلة.120
  مجھے میری خالہ نبی کریم کے پاس لے گئیں اور عرض کیا یارسول اﷲ! بے شک میرے بھانجے کے سر میں درد ہے آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی پھر آپ نے وضوء کیا پھر میں نے آپ کے وضوء کا پانی پیا پھر میں آپ کی پشت کے پیچھے کھڑا ہوگیا پھر میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا جو کبوتر (یا اس کی مثل کسی پرندے) کے انڈے جیسی تھی۔

اسی طرح عطاء مولیٰ السائب فرماتے ہیں:

  كان راس السائب اسود من ھذا المكان ووصف بیده انه كان اسود الھامة الى مقدم راسه وكان سائره موخرہ ولحیته وعارضاه ابیض فقلت یا مولاى ما رایت احدا اعجب شعرا منك قال وما تدرى یا بنى لم ذلك؟ ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مر بى وانا مع الصبیان فقال من انت؟ قلت السائب بن یزید اخو النمر فمسح یده على راسى وقال بارك اللّٰه فیك فھو لا یشیب ابدا.121
  کہ سائب بن یزید کا سر اس جگہ سے سیاہ تھا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے بیان کیا کہ ان کی کھوپڑی سے سر کے سامنے تک بال سیاہ تھے اور پچھلا حصہ اور داڑھی اور رخسار کے بال سفید تھے میں نے کہا اے میرے آقا میں نے آپ سے زیادہ عجیب بالوں والا کسی کو نہیں دیکھا ۔انہوں نے کہا بیٹے تم کیا سمجھتے ہو کہ ایسا کیوں ہے؟ بے شک نبی کریم میرے ہاں تشریف لائے تھے اور میں بچہ تھا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا انہوں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا یہ کہ سائب بن یزید نمر کا بھائی ہےانہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا تھا اور فرمایا تھا اﷲ تیرے اندر برکت دے لہٰذا یہ حصہ (جس پر آپ نے ہاتھ پھیرا تھا) کبھی بھی سفید نہیں ہوتا۔

اسی طرح جعید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں:

  مات السائب بن یزید وھو ابن اربع وتسعین سنة وكان جلدا معتدلا وقال لقد علمت ما قد میعت بسمعى وبصرى الا بدعاء النبی صلى اللّٰه علیه وسلم ذھبت بى خالتى الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت ان ابن اختى شاك فادع اللّٰه له قال فدعا لى.122
  کہ حضرت سائب بن یزید فوت ہوگئے تھے ان کی عمر چرانوے (94) برس تھی جب کہ تاحال وہ معتدل اور مضبوط آدمی تھے انہوں نے کہا کہ تحقیق میں جانتا ہوں جوکچھ یہ کانوں اور آنکھوں کی سلامتی ہے وہ نبی کریم کی دعا کی برکت سے ہے جو انہوں نے میرے لیے فرمائی تھی میری خالہ مجھے حضور کی خدمت میں لے کر گئی تھی اور کہا تھا میرا بھانجا بیمار ہے آپ اﷲ سے دعا فرمائیں اس کے لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے میرے لیے دعا فرمائی تھی۔

نبی اکرم کے دستِ اقدس کی برکت سے ابو سفیان فزاری کے بال آخر عمر تک کالے رہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام بیہقی لکھتے ہیں:

  ویذكر عن ابى سفیان واسمه مدلول انه ذھب الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاسلم ودعا له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ومسح راسه بیده ودعا له بالبركة فكان مقدم راس ابى سفیان اسود ما مسته ید النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وسائره ابیض.123
  اور ذکر کیا جاتا ہے ابو سفیان سے اور اس کا نام مدلول ہے کہ وہ نبی کریم کے پاس گیا اور مسلمان ہوگیا تھا اور حضور نبی کریم نے اس کے سر پر ہاتھ مبارک پھیرا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی لہٰذا ابو سفیان کے سر کا اگلہ حصہ کالے بالوں والا تھا جس قدر حضور نبی کریمنے ہاتھ پھیرا تھا باقی سارا سر سفید تھا۔

اسی طرح امام ابن سعد لکھتے ہیں:

  ذھبت مع موالى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاسلمت معھم فدعانى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح راسى بیده ودعا فى بالبركة قالتا فكان مقدم راس ابى سفیان اسود ما مسته ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وسائر ذلك ابیض. 124
  میں اپنے آزاد کردہ غلام کے ساتھ حضور کے پاس گیا اور مسلمان ہوگیا پھر نبی کریم نے میرے لیے برکت کی دعا فرمائی اور اپنے دستِ مبارک کو میرے سر پر پھیرا ۔قطبہ اور آمنہ بنت ابی الشعشاء ما بیان کرتی ہیں کہ ہم نے ابو سفیان فزاری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابو سفیان کامکمل سر سفید تھا سوائے اس اگلے حصہ کہ جسکو رسول اکرم نے مس فرمایا تھا کہ وہ حصہ کالا تھا۔

امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں 125 اورامام ابو نعیم معرفۃ الصحابۃمیں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔126 اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کے دستِ اطہر سے کئی طرح کے اثرات و برکات کا ظہور ہوتا رہا ہے۔

اسی طرح حضرت یونس بن محمد بن انس کے بارے میں بھی یہی منقول ہے کہ ان کے بال بھی دستِ رسولِ اکرم کی برکت سے کالے رہے۔چنانچہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:

  قدم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم المدینة وانا ابن اسبوعین فاتى بى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح راسى وحج بى حجة الوداع وانا ابن عشر سنین ودعا لى بالبركة وقال سموه اسمى ولاتكنوه بكنیتى.
  کہ حضور نبی کریم مدینہ میں تشریف لائے تو میں اس وقت دو ہفتے کا تھا مجھے ان کی خدمت میں لایا گیا انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے حج کروایا جب میں دس سال کا تھا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی اور فرمایا کہ اس کا نام میرے نام پر رکھو مگر اس کی کنیت میری کنیت نہ رکھو۔

حضرت یونس کہتے ہیں:

  فلقد عمر ابى حتى شاب كل شىء من ابى وما شاب موضع ید النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من راسه ولا من لحیته.127
  کہ میرے والد بڑی عمر کے ہوگئے تھے حتیٰ کہ میرے والد کی ہر چیز بوڑھی ہوگئی تھی مگر ان کے سر اور داڑھی پر جہاں جہاں حضور نبی کریم کے ہاتھ مبارک پہنچے تھے (وہ جوان رہے)۔

اسی طرح حضرت مالک بن عمیر کے بارے میں بھی یہی ملتا ہے کہ آپ کے دستِ منور کی برکت سے ان کے بال بھی اپنے اصلی حال میں رہے۔چنانچہ امام طبرانی ان سے روایت کرتے ہیں:

  انه شھد مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یوم الفتح وخیبر والطائف.128
  نبی کریم کے ساتھ میں فتح مکہ، حنین اور طائف میں شریک ہوا۔

اسی طرح حضرت مالک بن عمیر شاعر سے روایت ہے:

  قلت یا رسول اللّٰه انى امرؤ شاعر فافتنى فى الشعر فقال لان یمتلى ما بین لبتك الى عاتقك قیحا خیر لك من ان تمتلى شعرا.129
  میں نے کہا یا رسول اﷲ! میں شاعر ہوں مجھے شعر کے بارے میں فتویٰ دیجئے آپ نے فرمایا تمہارے حلق سے کندھوں تک پیپ سے بھر جائے یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ شعر سے بھرے۔

میں نے کہا یا رسول اﷲ! میری خطا معاف کیجئے۔ فرماتے ہیں رسول اﷲ نے اپنا ہاتھ مبارک میرے سر پر پھیرا ،پھر اسے میرے سینے تک لے گئے پھر میرے پیٹ پر یہاں تک کہ میں رسول اﷲ کے ہاتھ کو محسوس کررہا تھا۔فرماتے ہیں مالک بوڑھے ہوگئے اور ان کا سر اور داڑھی سفید ہوگئے لیکن ان کے سر اور داڑھی میں سے جس جگہ رسول اﷲ کا ہاتھ تھا وہ سفید نہ ہوئے۔

اس روایت کوامام بیہقی 130،امام طبرانی 131اورامام بغوی ان تینوں ائمہ نے اپنی اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔132 اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے دستِ مبارک سے صحابہ کرام نے اکثر طور پر برکات کو سمیٹا ہے۔ نبی کریم بذات خود بھی حسین تھے اور جس شئی کو چھوتے وہ بھی حسین رہتی ۔ چنانچہ جب آپ نے عمرو بن ثعلبہ ، حضرت بشیر بن عقربہ اور حضرت عبادہ بن سعد کے بالوں پر اپنا دست مبارک پھیرا تو وہ اس کے بعد سیاہ ہی رہے ۔بالوں کا سیاہ ہونا ایک حسن کی علامت ہے اور یہ حسن ماقبل مذکور صحابہ کرام کو حضور کے دست اقدس کی برکت سے ہی نصیب ہوئی۔

دستِ اقدس کا شفائے امراض اور ازالہ آفات ہونا

دستِ اقدس کا شفائے امراض اور ازالہ آفات سے متعلق باب بہت وسیع ہے جس کا حصر ممکن نہیں نبی کریم سے مختلف مقامات ومواقع پر کثرت کے ساتھ روایات آئی ہیں کہ آپ نے دستِ مبارک کے چھونے، لعاب دہن لگانے دعا کرنے اور دیگر طریقوں کے ساتھ گوناں گوں قسم کے امراض سے شفا عطا فرمائی ہے جن کے استیعاب اور احاطے کی طرف کوئی راستہ نہیں۔ شفائے امراض کے یہ واقعات ان معجزات سے الگ ہیں جو نبی کریم سے ادویہ کے خواص میں ظاہر ہوئے اور وہ علم طب کے موافق نکلے۔ ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے اور علمائے اسلام نے ان کے بارے میں جداگانہ مخصوص کتابیں تصنیف فرمائی ہیں اور انہیں طب نبوی کا نام دیا ہے مثلاً ابن قیم، حافظ ذہبی اور حافظ سیوطی وغیرہ ائمہ کی تصنیفات ہیں۔ یہ بھی نبی کریم کے دلائل نبوت اور آیات رسالت میں سے ہے کہ آپ امی نبی تھے ،آپ نے نہ پڑھا ،نہ لکھا، نہ کسی سے علم طب یا کسی اور علم وفن کا کچھ حصہ سیکھا۔ مزید برآں آپ ایک ایسی امت میں پروان چڑھے جو بالکل ناخواندہ اور ان پڑھ تھی لہٰذا آپ نے اس سلسلہ میں جو کچھ ظاہر فرمایا وہ آپ کے معجزات میں سے ہے ۔ان سے بڑھ کر نبوت محمدیہ کی دلیل اُن طرح طرح کے امراض وعلل کا علاج ہے جو آپ کے دست اقدس پر آیاتِ قرآنیہ اور اذکار واَدَعیہ کے ذریعے ظاہر ہوا۔

ان سب سے عجیب تر نبی کریم کا معجزہ وطب روحانی ہے جس پر طب جسمانی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اس روحانی علاج سے حاصل ہونے والی شفاء جسمانی شفاء سے کہیں زیادہ کامل وافضل اور انفع وارفع ہے۔ مراد نبی کریم کی وہ شفا بخشی ہے جو ایمان لانے والوں کو دوائے اسلام کے ذریعے مرض کفر سے نصیب ہوئی ہے اور یہ صحت کی بہترین قسم ہے جیسا کہ مرض کفر بدترین بیماری ہے۔ آپ پر ایمان لانے کی برکت سے ظلمات جہالت میں ڈوبے ہوئے بدوؤں کی حالت بدل جاتی ہے۔ ان کے دل نور علم سے منور ہوجاتے ہیں ان کی زبانوں پر حکمت کے چشمے رواں ہوجاتے ہیں، پھر وہ ترقی کرکے علمی میدان میں عظیم مقام حاصل کرلیتے ہیں ان کا ذکر صفحہ دہر پر نقش ہوکر لازوال ہوجاتا ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ ایسے مواقع پر حضور جو دعا فرمایا کرتے تھے وہ ضرور قبول ہوتی تھی اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ان امور کا اظہار بھی ہوجاتا تھا، مگر ایسے موقعوں پر دستِ مبارک جو رکھا جاتا تھا اس کا رکھنا بھی بے سبب نہ ہوتا تھا۔ چونکہ شرح صدر بغیر حکم الٰہی نہیں ہوسکتا تھا اس لیے دعا بھی فرمائی اور عالم اسباب میں ظاہری سبب کی بھی ضرورت ہے اس لیے اپنا دستِ مبارک بھی رکھا تاکہ اس کی بھی تاثیر ہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جس طرح دوائیں وغیرہ عالم اسباب میں تاثیر کیا کرتی ہیں اس طر ح دستِ مبارک میں بھی تاثیر رکھی گئی تھی جس کا ظہور بے مقامات پر ہوا۔

دست ِ اقدس پھیرنے سے ٹوٹے ہاتھ کا درست ہوجانا

سیدنا عبد الرحمن جامی فرماتے ہیں:

ایک صحابی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ہم حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہمارے پاس ایک بچہ بھی تھا۔ ایک دن اس کا پہلے ہاتھ ٹوٹ گیا تھا اس وجہ سے اس نے ہاتھ پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ آپ نے اسے پاس بلاکر اس کے ہاتھ سے پٹی کھول دی اور اپنا ہاتھ مبارک اس کے ہاتھ پر مل دیا وہ ہاتھ فوراً درست ہوگیا۔133

دست اقدس پھیرنے سے ٹوٹی پنڈلی ٹھیک ہوگئی

ابورافع کا شمار ان بد بخت لوگوں میں سے تھا جو نبی کریم کی شان میں گستاخیاں کرتے اور آپ کے دشمنوں کی حمایت کرتے۔ ایک دن حضور نےاس کی سرکوبی کے لئے 5 بندوں کا ایک گروہ تشکیل دیا اور حضرت عبداللہ بن عتیک کو ان کا امیر مقرر کیا۔ چنانہ امام ا بن ہشام لکھتے ہیں:

  فخرج الیه من الخزرج من بنى سلمة خمسة نفر عبداللّٰه بن عتیك ومسعود بن سنان و عبداللّٰه بن انیس ابوقتادة الحارث بن ربعى وخزاعى ابن اسود حلیف لھم من اسلم فخرجوا وامر علیھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عبداللّٰه بن عتیك.134
  چنانچہ قبیلہ خزرج کی شاخ بنی سلمہ کے پانچ آدمی یعنی حضرت عبداﷲ بن عتیک، حضرت مسعود بن سنان، حضرت عبداﷲ بن انیس، حضرت ابو قتادہ حارث بن ربیع اور بنی اسلم سے ان کے حلیف حضرت خزاعی بن اسود م اس مہم پر روانہ ہوئے حضور نے حضرت عبداﷲ بن عتیک کو ان کا امیر مقرر فرمایا۔

پھر یہ گروہ اس لعین شخص کو اس کے منتقی انجام پر پہنچانے کے لئے نکلا۔ اس واقعہ کو امام بخاری روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب نے فرمایا:

  بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى ابى رافع الیھودى رجالاً من الانصار فامر علیھم عبداللّٰه بن عتیك وكان ابو رافع یوذى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم و یعین علیه وكان فى حصن له بارض الحجاز فلما دنوا منه وقد غربت الشمس وراح الناس بسرحھم فقل عبد اللّٰه لاصحابه اجلسوا مكانكم فانى منطلق ومتلطف للبواب لعلى ان ادخل فاقبل حتى دنا من الباب ثم تقنع بثوبه كانه یقضى حاجة وقد دخل الناس فھتف به البواب یا عبداللّٰه ان كنت ترید ان تدخل فادخل فانى ارید ان اغلق الباب فدخلت فكمنت فلما دخل الناس اغلق الباب ثم علق الاغالیق على وتد قال فقمت الى الاقالید فاخذتھا ففتحت الباب وكان ابو رافع یسمر عنده وكان فى علا لى له فلما ذھب عنه اھل سمره صعدت الیه فجعلت كلما فتحت بابا اغلقت على من داخل قلت ان القوم نذروا بى لم یخلصوا الى حتى اقتله فانتھیت الیه فاذا ھو فى بیت مظلم وسط عیاله لا ادرى این ھو من البیت فقلت یا ابا رافع قال من ھذا فاھویت نحو الصوت فاضربه ضربة بالسیف وانا دھش فما اغنیت شیئا وصاح فخرجت من البیت فامكت غیر بعید ثم دخلت الیه فقلت ما ھذا الصوت یا ابا رافع فقال لامك الویل ان رجلا فى البیت ضربنى قبل بالسیف قال فاضربه ضربة اثخنته ولم اقتله ثم وضعت ضیب السیف فى بطنه حتى اخذ فى ظھره فعرفت انى قتلته فجعلت افتح الابواب بابا بابا حتی انتھیت الى درجة له فوضعت رجلى وانا ارى انى قد انتھیت الى الارض فوقعت فى لیلة مقمرة فانكسرت ساقى فعصبتھا بعمامة ثم انطلقت حتى جلست على الباب فقلت لا اخرج اللیلة حتى اعلم اقتلته فلما صاح الدیك قام الناعی على السور فقال انعى ابا رافع تاجر اھل الحجاز فانطلقت الى اصحابى فقلت النجاء فقد قتل اللّٰه ابا رافع فانتھیت الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فحدثته فقال ابسط رجلك فبسطت رجلى فمسحھا فكانھا لم اشتكھا قط.135
  رسول اﷲ نے ابو رافع یہودی کی طرف انصار کے چند مردوں کو بھیجا اور حضرت عبداﷲ بن عتیک کو ان کا امیر بنایا ۔ ابو رافع رسول اﷲ کو ایذاء دیا کرتا تھا اور آپ کے خلاف (آپ کے دشمنوں کی) مدد کرتا تھا وہ سرزمین حجاز کے ایک قلعہ میں رہتا تھا۔ جب انصاری اس کے قریب پہنچے تو سورج غروب ہوچکا تھا اور لوگ اپنے مویشیوں کو لے کر جاچکے تھے سو حضرت عبداﷲ نے اپنے اصحاب سے کہا تم لوگ اپنی جگہوں پر بیٹھو، میں (اس کے قلعہ میں) جارہا ہوں اور دربانوں سے کوئی حیلہ کرتا ہوں شاید میں (قلعہ میں) داخل ہوجاؤں ۔پس وہ آگے بڑھے حتیٰ کہ دروازہ تک پہنچ گئے انہوں نے اپنے آپ کو اپنے کپڑے سے اس طرح ڈھانپ لیا گویا وہ قضاء حاجت کررہے ہیں۔ قلعہ کے تمام لوگ اندر داخل ہوچکے تھے سودربان نے پکار کر کہا اے اﷲ کے بندے! اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آجا کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں ۔(انہوں نے بتایا) سو میں اندر داخل ہوگیا پس میں چھپ کر دیکھنے لگا، جب سب لوگ اندر چلے گئے تو اس نے دروازہ بند کردیا اور چابیوں کا گچھا ایک کھونٹی پر لٹکادیا ۔ انہوں نے بتایا کہ میں چابیوں کی طرف بڑھا اور ان کو اٹھالیا سو میں نے دروازہ کھولا ابو رافع کے پاس رات کو کہانیاں سنائی جارہی تھیں اور وہ اپنے بالاخانے میں تھا جب کہانیاں سنانے والے اس کے پاس سے چلے گئے تو میں (اس کے بالاخانے کی طرف) چڑھا ،اس دوران جتنے دروازےمیں اس تک جانے کے لیے کھولتا تھا ان کو اندر سے بند کرتا جاتا تھا،کیونکہ میں نے سوچا کہ اگر ان لوگوں کو میری خبر ہو بھی گئی تو یہ اس وقت تک میرے قریب نہ آسکیں حتیٰ کہ میں اس کو قتل کرلوں،سو میں جب اس کے پاس پہنچا تو وہ اپنے گھر والوں کے درمیان اندھیرے کمرے میں تھا ۔مجھے نہیں پتا چل رہا تھا کہ وہ گھر میں کس جگہ پر ہے۔پس میں نے کہا اے ابو رافع! اس نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو میں اس آواز کی طرف بڑھا اور میں نے اس پر تلوار ماری، اس وقت اپنی کاروائی کی وجہ سے میرا دل دھڑک رہا تھا،اس نے چیخ ماری تو میں کمرے سے باہر نکل گیا میں تھوڑی دیر ٹھہر کر پھر اس کے پاس آگیا ۔میں نے کہا اے ابو رافع! یہ کیسی چیخ تھی؟ اس نے کہا تیری ماں مرجائے کوئی مرد گھر میں ہے اوراس نے ابھی مجھ پر تلوار سے وار کیا ہے انہوں نے بتایا کہ میں نے پھر اس پر تلوار مار کر اس کا خون بہادیا اور ابھی میں نے اس کو قتل نہیں کیا تھا۔ پھر میں نے تلوار کی نوک اس کے پیٹ میں گھونپی حتیٰ کہ وہ اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی پھر میں نے سمجھ لیا کہ اب میں اس کو قتل کرچکا ہوں ۔پھر میں ہر دروازہ کو کھولتا گیا حتیٰ کہ سیڑھی تک پہنچ گیا سو میں نے اپنا پیر رکھا اور میرا گمان تھا کہ میں زمین تک پہنچ چکا ہوں پس میں چاندنی رات میں گرگیا اور میری ٹانگ ٹوٹ گئی ۔ میں نے اپنے عمامہ کو اس پر باندھ لیا پھر میں چل پڑا حتیٰ کہ دروازہ پر بیٹھ گیا پس میں نے (دل میں) کہا میں پوری رات باہر نہیں نکلوں گا حتیٰ کہ میں جان لوں کہ میں نے اس کو قتل کردیا ہے پھر جب مرغ نے اذان دی تو اس وقت قلعہ کی فصیل پر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا کہ میں اہل حجاز کے تاجر ابو رافع کی موت کی خبر دے رہا ہوں ۔میں اپنے اصحاب کی طرف گیا اوران سے کہا جلدی چلو اﷲ تعالیٰ نے ابو رافع کو قتل کردیا پس میں نبی پاکتک پہنچا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا آپ نے مجھ سے فرمایا اپنی ٹانگ پھیلاؤ میں نے اپنی ٹانگ پھیلائی آپ نے اس پراپنا مبارک ہاتھ پھیرا پس گویا اس میں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔

جب حضرت عبداﷲ بن عتیک سیڑھی سے گرے تو ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن تب بھی وہاں سے نہ نکلے جب تک کہ ابو رافع کی موت کی خبر نہ سنی۔ جب ابو رافع کی موت کی خبر سنی تو جلد اپنے ساتھیوں سے مل کر چلتے ہوئے مدینہ پہنچے اور اس خوشی میں ان کو درد کا احساس نہیں ہوا۔ جب وہ نبی پاک کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کی ٹانگ پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ آپ کے ہاتھ مبارک کی برکت سے ان کا سارا درد جاتا رہا۔چنانچہ امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عتیک سے رسول اللہ فرمایا:

  فقال ابسط رجلك فبسطت رجلى فمسحھا فكانھا لم اشتكھا قط.136
  آپ نے مجھ سے فرمایا اپنی ٹانگ پھیلاؤ میں نے اپنی ٹانگ پھیلائی آپ نے اس پراپنا مبارک ہاتھ پھیرا پس گویا اس میں کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔

اسی حوالہ سے امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

  لما اتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مسح علیه فزال عنه جمیع الالم ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم.137
  جب وہ نبی کے پاس آئے تو آپ نے اس پر ہاتھ مبارک پھیرا تو حضور کے ہاتھ کی برکت سے سارا درد جاتا رہا۔

اس روایت کو امام ابن عبد البر مالکی نے بھی نقل کیا ہے۔ 138 بہترین سے بہترین ہڈی جوڑ بھی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کو ایک ہی مجلس میں مکمل طور پر صحیح کرنے پر قادر نہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن عتیک کی ٹانگ نبی کریم کے دست اقدس کےفقط پھیرنے سے ہی فورا ٹھیک ہوگئی۔ یہ ان معجزات میں سے ایک معجزہ ہے جوکہ حضور کو خاص طور پر عطا کئے گئے اور ان سے صحابہ کرام خوب مستفید ہوئے۔

دستِ اقدس پھیرنے سے آسیب زدہ ٹھیک ہوگیا

نبی کریم کے دست شفاء سے نہ صرف جسمانی بیمار اور ظاہری جرح والے لوگ شفایاب ہوتے بلکہ آسیب زدہ لوگ بھی صحتیاب ہوجاتے۔چنانچہ امام احمد روایت کرتے ہیں کہ حضرت وازع بن عامر عبدی نے فرمایا:

  فقال الوازع یا رسول اللّٰه ان معى خالا لى مصابا فادع اللّٰه له فقال این ھو آتینى به قال فصنعت مثل ما صنع الاشج البسته ثوبىه فاتیته فاخذ من ورائه یرفعھما حتى راینا بیاض ابطه ثم ضرب بظھره فقال اخرج عدو اللّٰه فولى وجھه وھو ینظر بنظر رجل صحیح.139
  پھر حضرت وازع نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے ساتھ میرے ماموں بھی آئے ہیں لیکن وہ بیمار رہتے ہیں، آپ ان کے لیے اﷲ سے دعاء کردیجئے، نبی کریم نے فرمایا وہ کہاں ہیں؟ انہیں میرے پاس لاؤ چنانچہ میں نے اسی طرح کیا جیسے حضرت اشج نے کیا تھا کہ انہیں صاف ستھرے کپڑے پہنائے اور نبی کریم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا، حضور نے انہیں پیچھے سے پکڑ کر ان کے ہاتھ اتنے بلند کیے کہ ہم ان کی بغل کی سفیدی دیکھنے لگے، پھر نبی کریم نے ان کی پشت پر ایک ضرب لگاکر فرمایا اے دشمن خدا نکل جاء اس نے جب چہرہ پھیر کر دیکھا تو وہ بالکل صحیح اور تندرست آدمی کی طرح دیکھ رہا تھا۔

اس روایت کو امام سیوطی نے بھی نقل کیاہے۔140اسی طرح کی ایک اور روایت امام احمد نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباسنے فرمایا:

  ان امراة جائت بولدھا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقالت یا رسول اللّٰه ان به لمما وانه یاخذه عند طعامنا فیفسد علینا طعامنا قال فمسح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم صدره ودعا له فثع ثعه فخرج من فیه مثل الجرو الاسود فسعى.141
  کہ حضور نبی کریم کی خدمت میں ایک عورت اپنا بچہ لے کر حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اﷲ! اسے کوئی تکلیف ہے، کھانے کے دوران جب اسے وہ تکلیف ہوتی ہے تو یہ ہمارا سارا کھانا خراب کردیتا ہے، نبی کریم نے اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور اس کے لیے دعاء فرمائی اچانک اس بچے کو قے ہوئی اور اس کے منہ سے ایک کالے بلے جیسی کوئی چیز نکلی اور بھاگ گئی۔(یعنی وہ بچہ شفایاب ہوگیا)

ایک اور موقع پر حضرت ابی بن کعب بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک دیہاتی نے آکر عرض کی:

  یا نبى اللّٰه ان لى اخا وبه وجع قال وماجعه قال به لمم قال فاتنى به فاتاه به فوضعه بین یدیه فعوذه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بفاتحة الكتاب واربع آیات من اول سورةالبقرة وھاتین الایتین: وَإِلَ ھكمْ إِلَه وَاحِدٌ لاَّ إِلَه إِلاَّ ھوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیمُ. وآیة الكرسى وآیة من آل عمران : شَھدَ اللّٰه أَنَّه لاَ إِلَه إِلاَّ ھوَ. وآیة من الاعراف: إِنَّ رَبَّكمُ اللّٰه الَّذِى خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ. وآخر سورة المومنین: فَتَعَالَى اللّٰه الْمَلِك الْحَقُّ وآیة من سورة الجن: وَأَنَّه تَعَالَى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَة وَلَا وَلَداً. وعشر آیات من اول الصافات وثلاث آیات من آخر سورةالحشر وقل ھو اللّٰه احد والمعوذتین فقام الرجل كانه لم یشك شیئا قط.
  یارسول اﷲ! میرا بھائی شدید درد میں مبتلا ہے دریافت کیا اسے کیا تکلیف ہے؟ اس نے جواب دیا وہ آسیب زدہ ہے فرمایا اسے میرے پاس لے آؤ پس اسے آپ کے پاس لایا گیا، تو آپ نے اس کے سامنے دستِ مبارک رکھ کر مندرجہ ذیل آیات سے دم فرمایا۔سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ کی پہلی چار چار آیات : وَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ 142آیۃ الکرسی سورہ بقرہ کی آخری تین آیات آل عمران کی ایک آیت: شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ 143سورہ اعراف کی ایک آیت: اِنَّ رَبَّكُمُ اللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِـتَّۃِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ 144سورہ مومنون کی آخری آیات: فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ 145سورہ جن کی ایک آیت:وَّاَنَّہٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّلَا وَلَدً146 سورۃ صافات کی پہلی دس آیات، سورۃ حشر کی آخری تین آیات، سورۃ اخلاص اور معوذتین تو وہ شخص اٹھ کھڑا ہوا،گویا اسے کبھی یہ شکایت ہی نہ ہوئی تھی۔147

آسیب کا اگر کسی انسان پر قبضہ ہوجائے تو ان سے عافیت کے ساتھ جان چھڑانا بہت ہی مشکل ہوتا ہے لیکن نبی کریم کے دست اقدس کی ایک ہی ضرب سے آسیب سے چھٹکارا نصیب ہوگیا کیونکہ یہ جنات و آسیب کتنے بھی طاقتور کیوں نہ ہوں، آپ کی ضرب شفاء کی تاب نہ لاسکے۔

دست اقدس پھیرنے سے چہرہ کا زخم ٹھیک ہوگیا

جنگ حنین کے موقع پر حضرت عائذ بن عمر و کا چہرہ تیر لگنے سے زخمی ہوگیاجو نبی اکرم کے دست اقدس کی برکت سے صحتیاب ہوگیا۔چنانچہ اما م حاکم اس کو روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت عائذ بن عمرو نے فرمایا:

  اصابتنى رمیة فى وجھى وانا اقاتل بین یدى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم حنین فلما سالت الدماء على وجھى ولحیتى وصدرى تناول النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فسلت الدم عن وجھى وصدرى الى ثندوتى ثم دعا لى. قال حشرج فكان یخبرنا بذلك عائذ فى حیاته فلما ھلك وغسلناه نظرنا الى ما كان یصف لنا من اثر ید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى منتھى ما كان یقول لنا من صدره واذا غرة سائلة كغرة الفرس.148
  جنگ حنین کے موقع پر میں رسول اﷲ کے سامنے جنگ میں مصروف تھا، ایک تیر آکر میرے چہرے پر لگا۔ جب خون بہتا ہوا میرے چہرے داڑھی اور سینے کو رنگین کرگیا تو نبی کریم نے خود اپنے دستِ مبارک سے میرا خون صاف کیا اور میرے لیے دعا فرمائی۔ اس حدیث کے راوی حشرج فرماتے ہیں حضرت عائذ اپنی زندگی میں یہ واقعہ بیان کیا کرتے تھے، جب ان کا انتقال ہوا ہم نے ان کو غسل دیا تو ان کے بتائے ہوئے واقعہ کے مطابق ہم نے ان کے چہرے، داڑھی اور سینے پر رسول اﷲ کے ہاتھوں کا اثر دیکھا، گھوڑے کی پیشانی پر سفیدی کی طرح ان کے اعضاء پر دست رسول کی برکت سے ایک عجیب سی چمک دکھائی دیتی تھی۔

اس روایت کو امام سیوطی ،149 امام رویانی 150اور امام طبرانی نےبھی نقل کیا ہے۔151

دست اقدس پھیرنے ہاتھ کا پھوڑا ٹھیک ہوگیا

پھوڑا ان امراض میں سے ہے جس کی جڑیں جسم کے اندر تک سرایت کی ہوئی ہوتی ہیں اور اس کے علاج میں کافی وقت لگتا ہے۔ یہی بیماری ابو بسرہ یزید بن مالک کو لاحق تھی۔امام محمد بن سعد روایت کرتے ہیں:

  وفد ابو سبرة وھو یزید بن مالك الجعفى على النبى ومعه ابناه سبرة وعزیزوقال له ابو سبرة یا رسول اللّٰه ان بظھر كفى سلعة قد منعتنى من خطام راحلتى فدعا له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح فجعل یضرب به على السلعة ویمسحھا فذھبت.152
  ضرت ابو بسرہ یزید بن مالک جعفی نبی کریم کے پاس وفد لیکر گیا، اس کے دو بیٹے بسرہ اور عزیز اس کے ساتھ تھے۔ ابو بسرہ نے کہا یا رسول اﷲ! میرے ہاتھ پر پھوڑا ہے جس کی وجہ سے میں اپنی سواری کی نکیل تک نہیں پکڑ سکتا۔ پس آپ نے ایک پیالہ منگوایا اور پھر اس کے ساتھ پھوڑے کو مارنے لگے اور اس پر پھیرنے لگے تاآنکہ وہ پھوڑا ختم ہوگیا۔

اس روایت کو امام بیہقی نےیوں بیان کیا ہے :

  یا رسول اللّٰه! ان لى بظھركفى سلعة قد منعتنى من خطام راحلتى فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بقدح فجعل یضرب به على السلعة ویمسحھا فذھبت.153
  یارسول اﷲ! میری ہتھیلی میں پھوڑا ہے جس سے میں اپنی سواری کی نکیل تک نہیں پکڑسکتا ۔پس آپ نے ایک پیالہ منگوایا اور پھر اس کے ساتھ پھوڑے کو مارنے لگے اور اس پر پھیرنے لگے تاآنکہ وہ پھوڑا ختم ہوگیا۔

پیالہ نہ تو پھوڑے کی دوا ہے اور نہ ہی علاج، لیکن جب دست اقدس سے اس پیالے کی ضربیں پھوڑے پر لگی تو یہ معمولی سا پیالہ بھی شفاء کا آلہ بن گیا اور ابو بسرہ کو اس موزی مرض سے فورا نجات نصیب ہوئی۔

دستِ اقدس پھیرنے سے دھدر زخم ٹھیک ہوگیا

دھدر ایک ایسی بیماری ہے جس سے جلد پر شدید الجھن بھی ہوتی ہے اور اگر یہ انسان کے چہرے پر نکل آئے تو اس کے حسن کو ختم کردیتی ہے۔ اس بیماری سے حضرت ابیض بن جمال مرادی بھی متاثر ہوئے۔ امام بیہقیروایت کرتے ہیں کہ حضرت ابیض بن جمال مرادی نے فرمایا:

  انه كان بوجھه جدرة یعنى القوباء وقد التمعت وجھه فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح وجھه فلم یمس ذلك الیوم ومنھا اثر.154
  کہ ان کے چہرے پر داد کا داغ تھاجس نے اس کے پورے چہرے کو گھیر لیا (اور بدنما کردیا تھا) حضور نبی کریم نے اس کے لیے دعا فرمائی اور اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا بس آپ کا چھونا ہی تھا اس کا نشان بھی نہ رہا۔

امام طبرانی کی روایت میں بھی ہے:

  انه كان بوجھه حزازة یعنى القوباء فنقمت انفه فدعاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح على وجھه فلم یمس ذلك الیوم وفیه اثر.155
  کہ ان کے چہرے پر داد کا داغ تھا جو ناک کو نگل رہا تھا حضور نبی کریم نے انہیں بلا کر ان کے چہرے پر دستِ مبارک پھیرا جس سے اس کا نشان بھی باقی نہ رہا۔

کتنا بڑا طبیب حاذق اور ماہر سرجن کیوں نہ ہو، اگر وہ ایسے داد کا علاج کرے تو اس کو ایک زمانہ درکارہے۔ پھر داد (دھدر) اگر زائل بھی ہوجائے تو جس حصے کو دھدر نے متاثر کیا تھا،اس کا اصلی ہیت پر آجانا دشوار ہوتا ہے۔ ایسی سخت بیماری کو نبی کریم نے صرف دستِ مبارک پھیر کر دور فرمادیا۔

دستِ اقدس پھیرنے سے چہرے کا ورم ٹھیک ہوگیا

ایک موقع پر حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق کے چہرے پر ورم آگیا تو اس ورم کو دور کرنے کےلئے آپ نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی ۔ امام سیوطی روایت کرتے ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر صدیق نے فرمایا:

  انھا اصابھا ورم فى راسھا ووجھھا فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یده على راسھا ووجھھا من فوق الثیاب فقال بسم اللّٰه اذھب عنھا سوءہ وفحشه بدعوة نبیك الطیب المبارك المكین عند كفعل ذلك ثلاث مرات فذھب الورم.156
  ان کے سر اور چہرے پر ورم آگیا، تو رسول اﷲ نے کپڑے کے اوپر سے ان کے سر اور چہرے پر دستِ مبارک رکھا اور تین بار دعا مانگی: اللہ اپنے نام سے اپنے پاک مبارک نبی جو تیرے قریب ہے ان کے صدقے ان کو اس کی اذیت اور شدت سے نجات عطا فرما۔

دستِ اقدس پھیرنے سے داڑھ کا درد ٹھیک ہوگیا

جب حضرت یزید بن نوح بن ذکوان جب موتہ کی طرف جارہے تھے تو ان کے داڑھ میں تکلیف اٹھی تو شفاء کے لئے نبی کریم سے استغاثہ کیا۔چنانچہ امام بیہقی روایت کرتے ہیں حضرت یزید بن نوح بن ذکوان نے فرمایا:

  ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لما بعث عبداللّٰه بن رواحة مع زید وجعفر الى موتة فقال یا رسول اللّٰه انى اشتكى ضرسى آذانى واشتد على فقال ادن منى والذى بعثنى بالحق لادعون لك بدعوة لا یدعو بھا مؤمن مكروب الا كشف اللّٰه عنه كربه فوضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یده على الخد الذى فیه الوجع وقال:اللّٰھم اذھب عنه سوء ما یجد وفحشه بدعوة نییك المبارك المكین عندك. سبع مرات قال فشفاه اللّٰه عزوجل قبل ان یبرح. اللّٰھم اذھب عنه سوء ما یجد وفحشه بدعوة نبیك المبارك المكین عندك .157
  نبی کریم نے حضرت عبداﷲ بن رواحہ کو حضرت زید اور حضرت جعفر طیار کے ساتھ بھیجا تھا موتہ کی طرف تو اس نے کہا تھا یار سول اﷲ! مجھے داڑھ میں درد ہے وہ مجھے تکلیف دے رہی ہے اور درد شدید ہوگیا آپ نے فرمایا کہ میرے قریب ہوجائیے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے بھیجا ہے حق کے ساتھ میں ضرور ایسی دعا کروں گا کہ جو بھی مؤمن تکلیف زدہ اس کے ساتھ دعا کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کردے گا حضور نبی کریم نے اپنا ہاتھ مبارک ان کے رخسار پر رکھا جس طرف داڑھ میں درد تھا اور دعا پڑھی۔ کہتے ہیں کہ اﷲ نے شام ہونے سے پہلے وہاں سے روانگی سے قبل شفاء دے دی۔

دستِ اقدس پھیرنے سے پیٹ کا درد ٹھیک ہوگیا

حضرت رافع بن خدیج فرماتے ہیں:

  دخلت یوما على النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وعنده قدر تفور لحما فاعجبتنى شحمة فاخذتھا فازدردتھا فاشتكیت منھا سنة ثم ذكرته لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال انه كان فیھا نفس سبعة اناسى ثم مسح بطنى فالقیتھا خضراء فو الذى بعثه بالحق ما اشتكیت بطنى حتى الساعة.158
  ایک دن میں نبی کریم کے پاس گیا آپ کے گھر ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا مجھے اس میں سے چربی بڑی پسند آئی جو میں نے نکال کر بڑی جلدی سے منہ میں ڈال لی مگراس کے بعد میں ایک سال تک (معدے میں) اس کی تکلیف میں مبتلا رہا آخر میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم سے کیا آپ نے فرمایا اس میں سات آدمیوں کا حصہ تھا پھر آپ نے میرے پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو وہ چربی تازہ حالت میں قے کے ذریعے باہر آگئی تو اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تب سے آج تک مجھے پیٹ کا کوئی بھی مرض لاحق نہیں ہوا۔

ابن کثیر بھی لکھتے ہیں:

  ثم مسح بطنى فالقیتھا خضراء فو الذى بعثه بالحق ما اشتكیت بطنى حتى الساعة.159
  پھر آپ نے میرے پیٹ پر ہاتھ پھیرا تو وہ چربی تازہ حالت میں قے کے ذریعے باہر آگئی تو اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تب سے آج تک مجھے پیٹ کا کوئی بھی مرض لاحق نہیں ہوا۔

دست اقدس پھیرنے درد سر کافور ہوگیا

حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں:

  ان رجلا من بنى لیث یقال له فراس بن عمرو اصابه صداع شدید فذھب به ابوه الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فشكا الیه الصداع الذى به فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فراسا فجلسه بین یدیه فاخذ بجلدةما بین عینیه فجذبھا حتى تنقضت فنبتت فى موضع اصابع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من جبینه شعرةفذھب عنه الصداع فلم یصدع.
قال ابو الطفیل فرایتھا كانھا شعرةقنفذ فقال فھم بالخروج على مع اھل جروزاء قال فاخذہ ابوه فاوثقه وحبسه فسقطت تلك الشعرة فما رآھا شق علیه ذلك فقیل له ھذا ما ھممت به فاحدث توبة فاحدث وتاب.
ال ابو الطفیل فرایتھا قد سقطت فرایتھا بعد ما نبتت.160
  کہ ایک آدمی تھا بنولیث میں سے اس کو فراس بن عمرو کہتے تھے اس کو سر میں درد شروع ہوگیا تھا اس کو اس کا والد رسول اﷲ کے پاس لے گیا تھا اس نے ان کے سامنے اس کے درد سر کی شکایت کی لہٰذا رسول اﷲ نے فراس کو بلایا اور اس کو اپنے آگے بٹھایا اور حضور نے اس کی کھال کو پکڑا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان اور اس کو کھینچا اس قدر کہ نشان پڑگیا بعد میں رسول اﷲ کی انگلیاں لگنے کے مقام پر بال اُگ آئے تھے اس کے ماتھے پر۔ لہٰذا اس کا درد سرجاتا رہا اور اسے کبھی درد سر نہیں ہوا۔

حضرت طفیل سے مروی دوسری روایت میں ہے:

  ان رجلا ولد له غلام على عھد النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاتى به النبی صلى اللّٰه علیه وسلم فدعا له بالبركة واخذ بجبھته فنبتت شعرة فى جبھته كانھا ھلبة فرس فشب .161
  کہ ایک آدمی کا لڑکا پیدا ہوا تھا عہد رسول اﷲ میں وہ اس کو نبی کریم کے پاس لے کر آیا تھا حضور نبی کریم نے اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی تھی اور اس کی پیشانی سے پکڑا تھا لہٰذا اس کی پیشانی پر بال اُگ آئے تھے جیسے گھوڑے کی گردن یا دم کے سخت بال ہوتے ہیں۔

بڑے سے بڑا طبیب بھی آج تک ایسی دوا نہیں ایجاد کرسکا جس سے فورا بال بھی اُگ آئیں، سر کا درد بھی ختم ہو جائے اور کوئی برے اثرات بھی نہ ہوں (side effect) جبکہ نبی کریم نے صرف اس جگہ کو اپنی دست اقدس کا شرف بخشا تو ساری تکلیف بھی دور ہوگئی اور اس جگہ بال بھی اُگ آئے حالانکہ آپ کے دست مبارک پر کسی قسم کی دوا نہیں لگی تھی۔

دست اقدس سے عصا جسم پر پھیرنے سے برص کی بیماری ختم

امام قسطلانی فرماتے ہیں:

  ان امراة معاذ بن عفراء وكانت برصاء فشكت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح علیھا بعصا فاذھب اللّٰه البرص منھا.162
  سیدنا معاذ بن عفراء کی بیوی کو برص کی بیماری تھی وہ دربار رسالت میں حاضر ہوئی تو حضور نے اپنے دستِ مبارک سے اپنا عصا مبارک اس کے جسم پر پھیردیا تو وہ اسی وقت تندرست ہوگئی۔

امام عبد الملک نیشاپوری لکھتے ہیں:

  ان معاذ بن عفراء تزوج امراة فقیل لھا ان بجنبه برصا فكرھت المراة ان تزف الیه فجاء معاذ الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وشكا الیه ذلك فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اكشف لى عن جنبك فكشف له عن جنبه فمسحه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بعود فذھب البرص عنه.163
  معاذبن عفراء نے ایک خاتون سے نکاح کیا تو اسے کہا گیا کہ ان کے پہلو میں برص کی بیماری ہے تو ان کی بیوی کو ان کا زفاف کرناناگوار گزرا۔ اس پر حضرت معاذ حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اس بات کا شکوہ کیا۔ نبی نے فرمایا اپنا پہلو کھولو، انہوں نے اپنا پہلو کھول دیا تو رسول اللہ نے ایک تنکے سے اس پر مس کیا پس برص (کا مرض) ختم ہوگیا۔

یعنی حضوراكرمکےدستِ مبارک سےبیماروں کو ایسے امراض سے شفاحاصل ہوجاتی تھی جو بظاہر لا علاج سمجھے جاتے تھے۔

دستِ مبارک سےچشمہ پھوٹنا

اسی دستِ حضوراکرم کےکمالات واثرات کےبارے میں حضرت معاذ بن جبل نےفرمایا:

  وقد سبق إليها رجلان والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء فسألهما رسول الله صلي الله عليه وسلم هل مسستما من مائها۔ قالا: نعم۔ فسبهما وقال لهما: ما شاء الله أن يقول۔ ثم غرفوا من العين بأيديهم قليلا قليلا حتى اجتمع في شيء، ثم غسل رسول الله صلي الله عليه وسلم فيه وجهه ويديه ثم أعاده فيها، فجرت العين بماء كثير، فاستسقى الناس ثم قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: يوشك بك يا معاذ! إن طالت بك حياة أن ترى ما ها هنا قد ملىء جنانا۔ 164
  اس چشمہ پر ہم میں سے دو آدمی پہلے پہنچے ، چشمہ میں پانی زیادہ سے زیادہ جوتی کے تسمہ جتنا تھا اور وہ بھی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ راوی کہتے ہیں کہ: رسول اﷲ نے ان دونوں شخصوں سے پوچھا: کیا تم نے اس کے پانی کو چھوا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! نبی کریم ان پر ناراض ہوئے اور جو اﷲ تعالیٰ نے چاہا وہ ان کو فرماتے رہے۔ پس لوگوں نے تھوڑا تھوڑا کرکے چلوؤں سے چشمہ کا پانی لیا اور اس کو کسی چیز میں جمع کرلیا پھر رسول اﷲ نے اس برتن میں اپنے دست مبارک اور چہرہ انور دھویا اور وہ پانی اس چشمہ میں واپس ڈال دیا۔ وہ چشمہ جوش مار کر بہنے لگا حتیٰ کہ لوگوں نے اس سے پانی پیا۔ رسول اﷲ نے فرمایا : اے معاذ ! اگر تمہاری زندگی دراز ہوئی تو تم عنقریب دیکھو گے کہ یہ جگہ باغات سے بھرجائیگی۔

حضورکے دستِ مبارک کی یہ برکت تھی کہ آنے والےزمانہ میں یہ جگہ لہلہاتے باغوں کا مرقع بن گئی۔

مقامِ حدیبیہ کا گڑھا

حضورکے دستِ کرم کےفیوض وبرکات کےبارےمیں حضرت مسور بن مخرمہ ﷫ بیان کرتے ہیں :

  خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم زمن الحديبية حتى إذا كانوا ببعض الطريق، قال النبي صلي الله عليه وسلم : إن خالد بن الوليد بالغميم في خيل لقريش طليعة، فخذوا ذات اليمين۔ فوالله ما شعر بهم خالد حتى إذا هم بقترة الجيش، فانطلق يركض نذيرا لقريش، وسار النبي صلي الله عليه وسلم حتى إذا كان بالثنية التي يهبط عليهم منها بركت به راحلته، فقال الناس: حل حل۔ فألحت، فقالوا: خلأت القصواء، خلأت القصواء، فقال النبي صلي الله عليه وسلم: ما خلأت القصواء، وما ذاك لها بخلق، ولكن حبسها حابس الفيل۔ ثم قال: والذي نفسي بيده، لا يسألوني خطة يعظمون فيها حرمات الله إلا أعطيتهم إياها۔ ثم زجرها فوثبت، قال: فعدل عنهم حتى نزل بأقصى الحديبية على ثمد قليل الماء، يتبرضه الناس تبرضا، فلم يلبثه الناس حتى نزحوه وشكي إلى رسول الله صلي الله عليه وسلم العطش، فانتزع سهما من كنانته، ثم أمرهم أن يجعلوه فيه، فوالله ما زال يجيش لهم بالري حتى صدروا عنه.....الخ۔ 165
  رسول اﷲ (صلح) حدیبیہ کے زمانہ میں (مدینہ منورہ سے) نکلے حتیٰ کہ جب راستہ میں ایک مقام پر پہنچے تو نبی پاک نے فرمایا خالد بن ولید (ہماری نقل و حرکت کی جاسوسی کے لیے) مقام غمیم میں قریش کے سواروں کے ساتھ بہ طور مقدمۃ الجیش ہے لہٰذا تم لوگ دائیں طرف کے راستہ سے چلو پس اﷲ کی قسم! خالد بن ولید کو مسلمانوں کے لشکر کا بالکل پتا نہیں چلا حتیٰ کہ جب انہوں نے مسلمانوں کے لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے قریش کو خبر دار کرنے کے لیے روانہ ہوئے اور حضور چلتے رہے حتیٰ کہ جب آپ وادی ثنیۃ پر پہنچے جہاں سے مکہ میں داخل ہونے کے لیے اترتے ہیں تو آپ کی سواری بیٹھ گئی صحابہ اس کو اٹھانے کے لیے "حل، حل" (اٹھو! اٹھو!) کہنے لگے لیکن وہ اسی طرح اَڑی رہی۔ صحابہ نے کہا قصواء اَڑگئی ہے قصواء اَڑگئی ہے تب حضور نے فرمایا: قصواء اڑی نہیں ہے اور نہ یہ اس کی عادت ہے اس کو اس ذات نے چلنے سے روک لیا ہے جس نے ہاتھیوں کو روک لیا تھا ۔پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے! قریش مجھ سے جب بھی کسی ایسے امر کاسوال کریں گے جس میں وہ اﷲ کی حرمات کی تعظیم کریں گے تو میں ان کو وہ عطاء کروں گا۔ پھر آپ نے قصواء کو ڈانٹا تو وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی ۔پھر نبی پاک صحابہ سے آگے نکل گئے حتیٰ کہ حدیبیہ کے آخری کنارے "مقام ثمد" پر قیام فرمایا۔ اس جگہ کم پانی تھا جس کو صحابہ تھوڑا تھوڑا استعمال کررہے تھے پھر انہوں نے اس گڑھے کا سارا پانی نکال لیا اور رسول اﷲ سے پیاس کی شکایت کی گئی حضور نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا پھر حضور نے ان کو حکم دیا کہ اس تیر کو اس گڑھے میں گاڑدیں پس اﷲ کی قسم! اس گڑھے میں جوش سے پانی ابلنے لگا اور لوگ اس پانی سے سیراب ہوگئےاوروہاں سے روانہ ہوئے۔۔۔الخ۔

یعنی نبی اکرم کے دستِ اطہر کی برکت سے صحابہ کرام کی پیاس کی شکایت دور ہوگئی اور وہ سیراب ہوگئے۔

سات کنکریوں سے کنواں بھرگیا

امام بیہقی حضوراکرم کےہاتھ مبارک کی برکات کےضمن میں روایت نقل کرتےہیں:

  فدعا بسبع حصيات فعركهن في يده، ودعا فيهن، ثم قال: اذهبوا بهذه الحصيات، فإذا أتيتم البئر فألقوها واحدة واحدة، واذكروا اسم الله قال الصدائي: ففعلنا ما قال لنا، فما استطعنا أن ننظر إلى قعرها ۔ 166
  پس حضور نے سات کنکریاں منگوائیں اور ان کو اپنے ہاتھ میں لے کر دعا فرمائی پھر فرمایا: یہ کنکریاں لے جاؤ اور جب اس کنوئیں پر پہنچو تو اﷲ کا نام لے کر ایک ایک اس میں ڈال دو۔فرماتے ہیں: جب وہ کنکریاں اس میں ڈال دی گئیں تو اس کنویں میں اتنا پانی آیا کہ ہم اس کی تہہ تک دیکھ نہیں سکتے تھے۔

رحمۃ اللعالمین کےہاتھ مبارک سےکنکریوں کووہ برکت ملی کہ جیسےہی کنویں میں ڈالی گئیں کنواں بابرکت ہوگیا اورپانی کی کثر ت کی وجہ سے کنویں کی تہہ کانظر آنا بند ہوگیا۔

دستِ طیّبہ کامس کرنا

حضرت عمران بن حصین حضوردوعالم کے دست اقدس کی برکت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  انهم كانوا مع النبي صلي الله عليه وسلم في مسير فادلجوا ليلتهم حتى إذا كان وجه الصبح عرسوا، ‏‏‏‏‏‏فغلبتهم اعينهم حتى ارتفعت الشمس فكان اول من استيقظ من منامه ابو بكر، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يوقظ رسول الله صلي الله عليه وسلم من منامه حتى يستيقظ فاستيقظ عمر فقعد ابو بكر عند راسه فجعل يكبر، ‏‏‏‏‏‏ويرفع صوته حتى استيقظ النبي صلى الله عليه وسلم فنزل وصلى بنا الغداة فاعتزل رجل من القوم لم يصل معنا فلما انصرف، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ يا فلان ما يمنعك ان تصلي معنا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ اصابتني جنابة فامره ان يتيمم بالصعيد، ‏‏‏‏‏‏ثم صلى وجعلني رسول الله صلي الله عليه وسلم في ركوب بين يديه وقد عطشنا عطشا شديدا، ‏‏‏‏‏‏فبينما نحن نسير إذا نحن بامراة سادلة رجليها بين مزادتين، ‏‏‏‏‏‏فقلنا لها:‏‏‏‏ اين الماء، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ إنه لا ماء، ‏‏‏‏‏‏فقلنا:‏‏‏‏ كم بين اهلك وبين الماء، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ يوم وليلة، ‏‏‏‏‏‏فقلنا:‏‏‏‏ انطلقي إلى رسول الله صلي الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ وما رسول الله فلم نملكها من امرها حتى استقبلنا بها النبي صلي الله عليه وسلم فحدثته بمثل الذي حدثتنا غير انها حدثته، ‏‏‏‏‏‏انها مؤتمة فامر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا اربعين رجلا حتى روينا فملانا كل قربة معنا وإداوة غير، ‏‏‏‏‏‏انه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء ثم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى اتت اهلها، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ لقيت اسحر الناس او هو نبي كما زعموا فهدى الله ذاك الصرم بتلك المراة فاسلمت واسلموا. 167
  عمران بن حصین نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، رات بھر سب لوگ چلتے رہے جب صبح کا وقت قریب ہوا تو پڑاؤ کیا (چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے) اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سو گئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔ سب سے پہلے ابوبکر صدیق جاگے لیکن آپکو، جب آپ سوتے ہوتے تو جگاتے نہیں تھے تاآنکہ آپ خود ہی جاگتے، پھر عمر بھی جاگ گئے۔ آخر ابوبکر آپ کے سر مبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے۔ اس سے آپ بھی جاگ گئے اور وہاں سے کوچ کا حکم دے دیا۔ (پھر کچھ فاصلے پر تشریف لائے) اور یہاں آپ اترے اور آپ نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔ ایک شخص ہم سے دور کونے میں بیٹھا رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اس سے فرمایا: اے فلاں! ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی ہے۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ پاک مٹی سے تیمم کر لو (پھر اس نے بھی تیمم کے بعد) نماز پڑھی۔ عمران کہتے ہیں کہ پھر آپ نے مجھے چند سواروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔ (تاکہ پانی تلاش کریں کیونکہ) ہمیں سخت پیاس لگی ہوئی تھی، اب ہم اسی حالت میں چل رہے تھے کہ ہمیں ایک عورت ملی جو دو مشکیزوں کے درمیان (سواری پر) اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے جا رہی تھی۔ ہم نے اس سے کہا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہاں پانی نہیں ہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تمہارے گھر سے پانی کتنے فاصلے پر ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک دن ایک رات کا فاصلہ ہے، ہم نے اس سے کہا کہ اچھا تم رسول اللہ کی خدمت میں چلو، وہ بولی رسول اللہ کے کیا معنی ہیں؟ عمران کہتے ہیں، آخر ہم اسے نبی کریم کی خدمت میں لائے، اس نے آپ سے بھی وہی کہا جو ہم سے کہہ چکی تھی۔ ہاں اتنا اور کہا کہ وہ یتیم بچوں کی ماں ہے (اس لیے واجب الرحم ہے)آپ کے حکم سے اس کے دونوں مشکیزوں کو اتارا گیا اور آپ نے ان کے دہانوں پر دست مبارک پھیرا۔ ہم چالیس پیاسے آدمیوں نے اس میں سے خوب سیراب ہو کر پیا اور اپنے تمام مشکیزے اور بالٹیاں بھی بھر لیں صرف ہم نے اونٹوں کو پانی نہیں پلایا، اس کے باوجود اس کی مشکیں پانی سے اتنی بھری ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا ابھی بہہ پڑیں گی۔ اس کے بعد آپنے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے (کھانے کی چیزوں میں سے) میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ اس عورت کے لیے روٹی کے ٹکڑے اور کھجوریں لا کر جمع کر دیں گئیں۔ پھر جب وہ اپنے قبیلے میں آئی تو اپنے آدمیوں سے اس نے کہا کہ آج میں سب سے بڑے جادوگر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جیسا کہ (اس کے ماننے والے) لوگ کہتے ہیں، وہ واقعی نبی ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے اس کے قبیلے کو اسی عورت کی وجہ سے ہدایت دی، وہ خود بھی اسلام لائی اور تمام قبیلے والوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔

توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیره

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آپ کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کُل اکیس نکلیں۔ حضور نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :

  أدع عشرة، فدعوت عشرةً فأکلوا حتٰی شبعوا ثم کذالک حتٰی أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق. 168
  دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں ۔آپ نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں حضور کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔

یہ سب کچھ حضور نبی کریم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔حضورپُرنورکا وجودِ مسعودرحمتوں برکتوں اورنعمتوں کا باعث تھا۔جس کا مشاہدہ آپ کے اصحاب نےاپنی آنکھوں سے کیا اوراس سے استفادہ بھی کیا۔

ولید بن عقبہ دستِ اقدس پھیرنے سے محروم رہا

ماقبل میں دستِ اقدس کے لمس مبارک کے اثرات و برکات کا ذکر کیا گیا تھا۔یہاں پر ایک واقعہ ایسا نقل کیا جا رہا ہےکہ جس میں نبی اکرم کے دست ِ مبارک کےلمس سے محروم ہونے والے شخص کا ذکر ہے۔چنانچہ ولید بن عقبہ بیان کرتے ہیں :

  لما فتح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مكة جعل اھل مكة یاتون بصبیانھم فیمسح على رؤوسھم ویدعو لھم فخرجت بى امى الیه وانى مطیب بالخلوق فلم یمسح على رأسى ولم یمسنى.169
  رسول اﷲ نے جب مکہ مکرمہ کو فتح فرمایا تو اہل مکہ اپنے بچوں کو حضور کی خدمت میں لائے اور حضور ان کے سروں پر دست اقدس پھیر کر ان کے لیے دعا فرماتے۔ چنانچہ میری والدہ مجھے لے کر آپ کے پاس آئی اس وقت میرے جسم پر خلوق ملا ہواتھا تو حضور نے میرے سر پر ہاتھ نہ پھیرا اور نہ مجھے چھوا۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام بیہقی نے کہا:

  ھذا لسابق علم اللّٰه فى الولید فمنع بركة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم واخبار الولید حین استعمله عثمان معروفة من شربه الخمر وتاخیره الصلاة وھو من جملة الاسباب التى نقموھا على عثمان حتى قتلوه.170
  حضور کا دست اقدس نہ پھیرنا اس علم غیب کی وجہ سے تھا جو اﷲ تعالیٰ نے ولید کے بارے میں دیا تھا اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ کو برکت عطا فرمانے سے روک دیا ولید کے حالات کے بارے میں جب کہ وہ حضرت عثمان کی طرف سے کوفہ کا گورنر تھا خبریں معروف و مشہور ہیں کہ اس نے شراب پی اور اپنی نماز میں تاخیر کی اور یہ ولید ان اسباب اذیت کا ایک سبب بھی بنا جو حضرت عثمان کو اذیتیں برداشت کرنی پڑیں اور جس کے نتیجہ میں بلوائیوں نے ان کو شہید کردیا۔

یعنی اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے دستِ اقدس کے لمس کو پانے والے خیر و سعادت کو پالیتےہیں اور کسی وجہ سے محروم رہنے والے خیر و سعادت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

نبی اکرم سر تا پا اللہ تبارک وتعالی کی خالقیت و واحدیت کی اعظم نشانی تھے اور آپ کی رسالت عمومی طور پر تاقیامت نوعِ انس وجن کےلیے ہے تو اسی بنا پر آپ کی ذاتِ مقدسہ سے جو برکات و اثرات و ثمرات اس دنیا فانی میں ظہور پذیر ہوئے تو وہ فنائیت کے برخلاف بقائیت کے مینارہ ثابت ہوئے۔نہ صرف آپ کا مجموعی طور پر جسمِ اقدس بلکہ آپ کا ہر عضو ِ مبارک انفرادی طور پر برکات وثمرات کا مظہر اتم ہے جن میں خصوصی طور پر آپ کے دستِ اطہر و متبرّک کی انوکھی اور نرالی حیثیت ہے۔جس طرح آپ کی نبوت دائمی ہے اسی طرح آپ کے جسمِ اطہر کی برکات و ثمرات بھی دائمی طور پر ظاہر ہوئے ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سطور میں اس بات کا ذکر کئی مرتبہ آیا ہے کہ نبی اکرم کے دستِ اقدس کی برکات وثمرات سے مستفید ہونے والے صحابہ کرام عارضی طور پر نہیں بلکہ دائمی طور پر مستفید ہوئے اور اس دستِ رسول ِ اکرم کی برکات کا ظہور ان کے تادمِ واپسی پوری زندگی میں محیط رہا۔ایک اور پہلو بھی قابلِ توجہ ہے کہ دستِ رسولِ اکرم کی برکات صرف ایک شخص تک محدود نہ رہتی تھیں بلکہ جس شخص پر ان برکات و ثمرات کا ظہور ہوتاتھا اس کے ذریعہ سے آگے متعدی بھی ہوجایا کرتی تھیں اور یہ صرف اور صرف رسول اکرم ہی کی بدولت ہوا کرتا تھا کہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کُل عالمین کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا تھا۔

 


  • 1 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم،حدیث: 2296، ج -4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 1795
  • 2 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری،حدیث: 7037، ج -9، مطبوعۃ:دار ابن قیم، دمشق، 1422ھ، ص:42
  • 3 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث: 14513، ج -22،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:390
  • 4 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی ، خصائص الکبریٰ ج-2 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:333
  • 5 ایضًٰا، ج-1، ص:82
  • 6 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ،حدیث: 2889، ج -4، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:2215
  • 7 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ، حدیث 5579، ج -9 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:412
  • 8 محمد بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:49، ج-1،مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ، 2000ء، ص:196
  • 9 ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی، السنن الکبریٰ، حدیث: 8365، ج-7 ،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:421
  • 10 محی الدین حسین بن مسعود بغوی، مصابیح السنۃ، حدیث: 4787 ، ج -4،مطبوعۃ:دار المعرفۃ ، بیروت، لبنان، 1407 ھ، ص:180
  • 11 حافظ محب الدین طبری، الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ ، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان، 1418ھ، ص:143
  • 12 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،حدیث:4481، ج-6، مطبوعۃ: دار ابن قیم،دمشق، 1422ھ، ص:19
  • 13 ایضا،حدیث : 119، ج-1، ص:35
  • 14 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:466
  • 15 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -5 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:308
  • 16 ابو عبداﷲ محمد بن یزید ابن ماجۃ قزوینی، سنن ابن ماجۃ،حدیث: 3548 ، ج -2، مطبوعۃ: دار احیاء الکتب العربیۃ ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:1174
  • 17 القرآن، سورۃ یوسف12 : 42
  • 18 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف ، ج-7، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 239-240
  • 19 محمد بن ادریس الشافعی، مسند الشافعی، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1400ھ، ص:30
  • 20 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری ، ج -1، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:448
  • 21 محمد بن اسحاق بن العباس الفاکھی، اخبار مکۃ فی قدیم الدھر وحدیثہ ،حدیث: 2897 ، ج-5 ، مطبوعۃ: دار خضر ، بیروت، لبنان، ص:92
  • 22 اسماعیل بن محمدالاصبھانی، دلائل النبوۃ،حدیث: 236 ، مطبوعۃ: دار طیبۃ، الریاض،السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 182-183
  • 23 ابوالحسن علی بن محمد بن حبیب الماوردی،اعلام النبوۃ، مطبوعۃ: دارالکتاب العربی ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:163
  • 24 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ،حدیث:820، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:561
  • 25 اسماعیل بن محمد الاصبھانی، دلائل النبوۃ، حدیث: 73، مطبوعۃ: دار طیبۃ، الریاض،السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:83
  • 26 عبد الملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج -5 ، مطبوعۃ: دارالجیل،بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:80
  • 27 ابوعمر ابن عبدالبرمالکی، الدرر فی اختصار المغازی والسیر ، مطبوعۃ: دارالمعار ف القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:222
  • 28 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-5 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:235
  • 29 ابو داؤد سلیمان بن اشعث، سنن ابی داؤد ،حدیث:2681، ج -3 ، مطبوعۃ: دارالفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:58
  • 30 ابوعمر ابن عبدالبرمالکی،الدرر فی اختصار المغازی والسیر، مطبوعۃ: دارالمعار ف، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:105
  • 31 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم ،حدیث: 1779، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :1403-1404
  • 32 ابوزکریا یحییٰ بن شرف الدین نووی، صحیح مسلم مع نووی ،ج-2 ،مطبوعہ: قدیمی کتب خانہ کراچی، پاکستان ، (سن اشاعت ندارد)، ص: 102
  • 33 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،حدیث: 4357، ج -5، مطبوعۃ:دار ابن قیم، دمشق، ص:165
  • 34 ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبۃ، مصنَّف ابن ابی شیبۃ،حدیث: 32342، ج -6، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ،1409ھ، ص:397
  • 35 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:454
  • 36 سلیمان بن موسیٰ حمیری، الاکتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اﷲ ﷺ والثلاثۃ الخلفاء، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص :610
  • 37 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی،، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1976ء، ص:172
  • 38 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:228
  • 39 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:48
  • 40 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:235
  • 41 احمد بن علی ابن حجر، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ،حدیث: 4285 ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:430
  • 42 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1976ء، ص:178
  • 43 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:231
  • 44 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:46
  • 45 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:231
  • 46 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:46-47
  • 47 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، جامع المسانید والسنن،حدیث: 1086، ج -1 ، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع ، بیروت، لبنان، 1988ء، ص :530-531
  • 48 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:142
  • 49 علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تاریخ دمشق الکبیر، ج -20، مطبوعۃ: دار الفکر بیروت، لبنان، 1995ء، ص:21
  • 50 علاؤالدین علی بن حسام الدین ہندی، کنز العمال،حدیث:36823 ، ج -13، مطبوعۃ: موسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1981ء، ص: 281-282
  • 51 احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث :7089، ج-5، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:317
  • 52 قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء ،عمان، 1407ھ، ص:646
  • 53 یحییٰ بن ابی بکر العامری، بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل ،ج-2، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:231
  • 54 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث :20317، ج -33، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:428
  • 55 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:217
  • 56 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:141
  • 57 احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث:2265، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:243
  • 58 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث:20733، ج -34، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:333
  • 59 علی بن احمد ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حدیث:4462، ج-3 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415ھ، ص:493
  • 60 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر،حدیث:35، ج -18، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص:21
  • 61 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ السہیلی، الروض الانف، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:143
  • 62 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم،ج -6، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 1998ء، ص:3337
  • 63 ابوبکر بن ابی عاصم،الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم، ج -6، مطبوعۃ: دار الرایۃ، الریاض، السعودیۃ،1991ء، ص:22
  • 64 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط،حدیث :9096 ، ج-9 ، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:46
  • 65 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث :715، ج-24، مطبوعۃ: مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:282
  • 66 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، حدیث: 3361، ج -4 ،مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1855
  • 67 قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:647
  • 68 یحییٰ بن ابی بکر العامری، بھجۃ المحافل وبغیۃ الاماثل ،ج-2، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:232
  • 69 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:108
  • 70 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:462
  • 71 یوسف بن عبد الرحمن مزی، تہذیب الکمال،حدیث:6594 ، ج -30، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان، 1980ء، ص:296
  • 72 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:107
  • 73 جمال الدین عبد الرحمن ابن الجوزی، تلقیح فھوم اھل الاثر فی عیون التاریخ والسیر ،مطبوعۃ: شرکۃ دار الارقم بن ابی الارقم، بیروت، لبنان، 1997ء، ص:191
  • 74 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حدیث:2710، ج -4 ، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992ء، ص:1549
  • 75 احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: :9012، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:432
  • 76 قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:647
  • 77 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج -2،مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :242-243
  • 78 ابو عبداﷲ محمد بن عبدالواحد حنبلی المقدسی، الاحادیث المختارۃ،حدیث: 72، ج-9،مطبوعۃ: مکتبۃ النھضۃ الحدیثۃ، القاھرۃ،مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:90
  • 79 ابوبکر احمد بن عمرو البزار،مسند البزار،حدیث:3502، ج -8 ، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، المدینۃ المنورۃ، السعودیۃ،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:430
  • 80 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر،حدیث: 10656، ج -10، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء، ص:279
  • 81 القرآن،سورۃ الاسرائ81:17
  • 82 ابوبکر عبداﷲ بن ابی شیبۃ، مصنَّف ابن ابی شیبۃ،حدیث: 36905، ج -7، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد، الریاض،السعودیۃ، 1409ھ، ص:403
  • 83 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص :98-99
  • 84 عبد الملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ ، ج -1، مطبوعۃ: مصطفی البابی مصر، 1955ء، ص:637
  • 85 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:250
  • 86 عبد الرزاق بن ہمام صنعانی، مصنف عبد الرزاق ،حدیث: 20539، ج -11، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ،ص:279
  • 87 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:359
  • 88 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:240
  • 89 ابو عبداﷲ محمد بن عبد الباقی زرقانی، شرح زرقانی علی المواہب، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:434
  • 90 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:340
  • 91 محمد بن عمر الواقدی، کتاب المغازی ، ج-1، مطبوعۃ: دار العلمی ، بیروت، لبنان، 1989ء، ص:94
  • 92 قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ،ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:642
  • 93 ابوبکر محمد بن اسحاق خزیمۃ، صحیح ابن خزیمۃ،حدیث:1660، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:81
  • 94 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990ء، ص:51
  • 95 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1415ھ، ص:214
  • 96 ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی، معجم الصحابۃ، ج -2، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:187
  • 97 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، الخصائص الکبریٰ، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:69
  • 98 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:127
  • 99 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد،حدیث: : 20698، ج-34، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:306
  • 100 ایضًا، 4412، ج-7، ص:416-417
  • 101 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین ،حدیث:4273 ، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1990ء، ص:9
  • 102 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر،حدیث:874، ج -18، مطبوعۃ: مکتبۃ العلوم والحکم ،الموصل، عراق، 1983ء، ص:343
  • 103 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ،ج -1،مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص :453-454
  • 104 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:276-279
  • 105 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین،حدیث: 4274، ج -3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:10
  • 106 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد ،ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:245
  • 107 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،1405ھ، ص:153
  • 108 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ،حدیث: 190، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت، لبنان، 1986ء، ص:237-238
  • 109 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم،حدیث: 1775، ج -3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، ص:1398
  • 110 قاضی موسیٰ بن عیاض مالکی ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ ، ج-1، مطبوعۃ: دار القیحاء عمان، 1407ھ، ص:649
  • 111 عبد الرحمن جامی، شواہد النبوت (مترجم:بشیر حسین ناظم)، مطبوعہ: شمع بک ایجنسی ،، لاہور،پاکستان، 1999ء،ص :180-181
  • 112 ایضًا،ص :273-274
  • 113 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ،حدیث:22211، ج -36، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:545
  • 114 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:216
  • 115 احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: 5803، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:502
  • 116 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 84، ج -17، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:40
  • 117 احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: 3184، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:58
  • 118 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:139
  • 119 علی بن حسن ابن عساکر دمشقی، تاریخ دمشق الکبیر ، ج -10، مطبوعۃ: دار الفکر بیروت، لبنان،1995ء، ص:300
  • 120 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ،حدیث: 190، مطبوعۃ: دارالفکر بیروت ،لبنان، 2005ء، ص:65
  • 121 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:209
  • 122 ایضًا،ص:208
  • 123 ایضًا، ص:215
  • 124 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1990ء، ص:303
  • 125 محمد بن اسماعیل بخاری، التاریخ الکبیر ،حدیث :2127، ج-8، مطبوعۃ: دائرۃمعارف الاسلامیۃ، ہند،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:55
  • 126 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، معرفۃ الصحابۃ ، ج -5، مطبوعۃ: دار الوطن للنشر والتوزیع الریاض،السعودیۃ، 1998ء، ص:2645
  • 127 ابوبکر احمد بن حسین الیہقی، دلائل النبوۃ،ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:213-214
  • 128 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 655، ج -19، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:294
  • 129 احمد بن علی ابن حجر العسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،حدیث: 7686، ج-5 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:549
  • 130 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:216
  • 131 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 655، ج -19، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:294
  • 132 ابو القاسم عبداﷲ بن محمد بغوی، معجم الصحابۃ للبغوی ،حدیث:2069، ج -5 ، مطبوعۃ: مکتبۃ دار البیان، الکویت، 2000ء، ص:216
  • 133 عبد الرحمن جامی، شواہد النبوت (مترجم: بشیر حسین ناظم)، مطبوعہ: شمع بک ایجنسی ، لاہور،پاکستان، 1999ء،ص:272
  • 134 عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ ، ج -3، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:219
  • 135 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری،حدیث : 4039، ج -5 ، مطبوعۃ: دار ابن کثیر، بیروت، لبنان، ص:91
  • 136 ایضًا
  • 137 احمد بن علی ابن حجر عسقلانی، فتح الباری ، ج -7، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:345
  • 138 ابو عمر یوسف بن عبداﷲ ابن عبد البر مالکی ،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،حدیث:1605، ج -3، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت،لبنان،1992ء، ص:946
  • 139 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ، ج- 39 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص: 490-491
  • 140 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:27
  • 141 احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ،حدیث: 2133، ج -4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:37
  • 142 القرآن، سورۃ البقرۃ02 : 163
  • 143 القرآن، سورۃ آٓل عمران03 : 18
  • 144 القرآن، سورۃ الاعراف 07: 54
  • 145 القرآن، سورۃ المومنون:23:116
  • 146 القرآن، الجن72 : 03
  • 147 ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ حاکم، المستدرک علی الصحیحین،حدیث: 8269 ، ج -4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص:458
  • 148 ایضاً، ص:677
  • 149 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج-1، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:449-450
  • 150 ابوبکر محمد بن ہارون الرویانی، مسند الرویانی،حدیث: 774، ج -2 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، مصر، 1416ھ، ص:33
  • 151 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 32 ، ج -18، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:20
  • 152 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:246
  • 153 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ،ج -6، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1405ھ، ص:176
  • 154 ایضًا، ص:177
  • 155 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ،حدیث: 812 ، ج -1، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:279
  • 156 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج -2، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:116
  • 157 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ،ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1405ھ، ص:183
  • 158 ابو نعیم احمد بن عبداﷲ اصفہانی، دلائل النبوۃ ، ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس ، بیروت، لبنان،1986ء، ص:615
  • 159 ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی، جامع المسانید والسنن،حدیث: 2946، ج-2، مطبوعۃ: دار خضر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1998ء، ص:698
  • 160 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-6 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:230-231
  • 161 ایضًا
  • 162 احمد بن محمد قسطلانی، المواھب اللدنیۃ ،ج-2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:310-311
  • 163 عبد الملک بن محمد بن ابراھیم نیشابوری، شرف المصطفیٰ ﷺ ،حدیث: 1538، ج-4، مطبوعۃ: دار البشائر الاسلامیۃ، مکۃ المکرمۃ،السعودیۃ، 1424ھ، ص:318
  • 164 امیر علاء الدین علی بن بلبان فارسی، صحیح ابن حبان، حدیث: 1595، ج -4، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص : 469-470
  • 165 ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 2731، مطبوعۃ: دار السلام للنشرو التوزیع، الریاض، السعودیۃ،1419ھ، ص:447
  • 166 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، ج-4 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص :127
  • 167 أبو عبد اللہمحمد بن اسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3571 ،مطبوعۃ: دارالسلام للنشروالتوزیع ، الریاض، السعودیۃ، 1419ﻫ ،ص:599
  • 168 عبد الرحمن بن أبي بكر جلال الدين السيوطي، الخصائص الكبرى، ج-2، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:85
  • 169 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج -2، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:246
  • 170 عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبری، ج-2 ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیہ ، بیروت، لبنان، ص:246