نبی اکرم سر تاپا اللہ تبارک وتعالی کی وحدانیت کی دلیل ہیں کہ جنہیں دیکھ کر یقین ہوجاتا تھا کہ ان کا پیغام صدق وصفا پر مبنی ہے۔ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو حسن وجمال کا عظیم الشان پیکر رعنا بنایا تھا۔اسی طرح اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضور کے کندھوں کو بھی باکمال شان عطا فرمائی تھی۔ آپ کے کندھے مبارک جسم اطہر کی مناسبت کے لحاظ سے انتہائی موزوں مضبوط اور پُر گوشت تھے۔امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو جہل حضور کو پتھر مارنے کے ارادہ سے آیا تو :
راى على كتفیه ثعبانین فانصرف مرعوبا.1
اس نے دوش اقدس پر دو بڑے بڑے اژدھے دیکھے تو ڈر کر بھاگ گیا۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس وقت واقعتاً وہ دونوں اژدھے مجسم صورت میں آپ کے کندھوں پر موجود تھے بلکہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کی حفاظت کا خدائی انتظام تھا کہ قتل کے ارادہ سے آنے والا یہ ہیبت ناک منظر دیکھ کر ڈر کر بھاگ گیا۔
حضرت علی فرماتے ہیں رسول اﷲ مجھے اپنے ہمراہ لے کر چل دئیے اور کعبۃ اﷲ میں لے گئے پھرآپ ﷺنے مجھ سے فرمایا:
اجلس فجلست الى جنب الكعبة فصعد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بمنكبى ثم قال لى انھض كھضت فلما راى ضعفى تحته قال لى اجلس فنزلت وجلست ثم قال لى یا على اصعد على منكبى فصعدت على منكبیه ثم نھض بى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما نھض بى خیل الى لو شئت نلت افق السماء فصعدت فوق الكعبة وتنحى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال لى الق صنمھم الاكبر صنم قریش وكان من نحاس موتدا باوتاد من حدید الى الارض فقال لى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عالجه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یقول لى ایه ایه جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل كان زھوقا فلم ازل اعالجه حتى استمكنت منه فقال اقذفه فقذفته فتكسر وتردیت من فوق الكعبة فانطلقت انا والنبی صلى اللّٰه علیه وسلم نسعى وخشینا ان یرانا احد من قریش وغیرھم قال على فما صعد به حتى الساعة.ھذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه.2
بیٹھ جاؤ، میں کعبہ کے پہلو میں بیٹھ گیا رسول اﷲ میرے کندھوں پر سوار ہوگئے اور مجھے فرمایا اٹھو! میں اٹھا۔لیکن جب آپ نے میری کمزوری اور ضعف کو دیکھا تو مجھے فرمایا بیٹھ جاؤ میں بیٹھ گیا، پھر آپ نے مجھ سے کہا اے علی ! تم میرے کندھوں پر چڑھو، میں آپ کے کندھوں پر چڑھ گیا، پھر رسول اﷲ نے مجھے اوپر اٹھایا ۔جب آپ نے مجھے اوپر اٹھالیا (تو اس قدر بلند ہوچکا تھا کہ ) مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ اگر میں چاہوں تو آسمان کے کناروں کو ہاتھ لگا سکتا ہوں۔ پھر میں کعبہ کے اوپر چڑھ گیا اور رسول اﷲنیچے سے ہٹ گئے۔ پھر آپنے مجھے فرمایا ان کے بڑے بت کو گراؤ۔ وہ قریش کا بت تھا جو تانبے کا بنا ہوا تھا اور لوہے کی کیلوں کے ساتھ زمین کے ساتھ ٹھونکا ہوا تھا۔ مجھے رسول اﷲ نے فرمایا اس کا علاج کردو اور رسول اﷲ مجھے کہہ رہے تھے اور کرو اور کرو: حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل کو مٹنا ہی تھا‘‘میں اس کو مسلسل توڑتا رہا حتیٰ کہ اس کو زمین سے اکھیڑ ڈالا، آپ نے فرمایا اس کو پھینک دو، میں نے اس کو پھینک دیا تو وہ ٹوٹ گیا اور میں نے کعبہ کے اوپر سے نیچے چھلانگ لگادی پھر میں اور نبی کریم تیز تیز چلتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کیونکہ ہمیں خدشہ تھا کہ قریش یا دوسرے قبیلے کا کوئی آدمی ہمیں نہ دیکھ لے۔حضرت علی فرماتے ہیں:آج تک رسول اﷲ نے اور کسی کو (اپنے کندھوں پر) نہیں چڑھایا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اس نقل نہیں کیا۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے بت کو توڑنے کے لیے مجھ کو کندھوں پر چڑھایا تو ان کندھوں کی قوت کا یہ عالم تھا کہ :
انى لو شئت نلت افق السماء.3
اگر میں چاہتا تو میں آسمان کے کنارے تک پہنچ جاتا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:
زمین پر اترتے ہی حضرت علی نے مسکرانا شروع کردیا۔حضور نبی کریم نے فرمایا اے علی کس بات پر ہنس رہے ہو؟عرض کیا: یا رسول اﷲ میں نے اتنی بلند جگہ سے چھلانگ لگائی مگر مجھے چوٹ نہیں آئی۔ اس پر حضور نبی کریم نے فرمایا:
چگونه الم بتور سید وحال آنكه بردارنده تو محمد باشد وفرود آرندہ تو جبریل.4
تجھے چوٹ کیسے لگتی حالانکہ تجھے اوپر لے جانے والا میں تھا اور نیچے لانے والا جبریل امین۔
ابن سبع اور رزین آپ کے خصائص کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
انه كان اذا جلس یكون كتفه اعلى من جمیع الجالسین.5
کہ جب آپ لوگوں میں بیٹھے ہوتے تو آپ کا کندھا مبارک سب سے اونچا ہوتا۔
مذکورہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم کے کاندھے مبارک انتہائی مضبوط اور توانا تھے اور آپان مضبوط کاندھوں کے ساتھ نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔
انسانی جسم میں سر کے بعد دھڑ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر اعضائے رئیسہ انسانی وجود میں دھڑ کے حصہ میں ہوتے ہیں اور یہ حصہ کاندھوں سے شروع ہوتا ہے ۔ آپ کے کاندھے مبارک مضبوط اور خوبصورتی کے ساتھ بھرے ہوئے تھے، کمزور اور پتلے ہرگز نہ تھے۔ کیونکہ کمزور کاندھے عموماً کمان کے دونوں کناروں کی مانند اٹھ جایا کرتے ہیں اور جسمانی رعب و دبدبہ اور بدنی خوبصورتی وجاہت ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ جبکہ آقا کریم کے کاندھے مبارک پر ازگوشت تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہایت مضبوط بھی تھے۔ اس سے زیادہ کیا مضبوطی کا تصور ہوسکتا ہے کہ حضرت علی جیسے مضبوط جسم کی شخصیت آپ کے کاندھے مبارک پر سوار ہو اور آپ کے لیے ان کو اٹھانا قطعاً دشوار محسوس نہ ہو۔ یہی وہ کاندھے تھے جن پر معنوی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے بارِ نبوت و کارِ رسالت کا نہایت مہتم باالشان بوجھ رکھ کر ان مبارک کاندھوں کی قوت کو پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط کردیا تھا ۔ سلام ہو آپ کی عظمت و شان اور مبارک کا ندھوں پر۔