آپ کا قلبِ انور اﷲ تعالیٰ کی خصوصی تجلیات وانوار اور علوم و معارف کا مرکز ہے۔ سب سے اعلیٰ وحی کے نزول کامحل ومرکز یہی قلب ِانور بنا۔ تمام کائنات کے دلوں سے بہتر، پاکیزہ، نرم ورقیق، وسیع وقوی اور تقویٰ و نظافت کا سرچشمہ آپ ہی کا قلب اطہر ہے۔ یہ دل صرف حالت بیداری میں نہیں بلکہ حالت نیند میں بھی بیدار رہتا اور تمام کائنات اسی کے انوار و کمالات سے فیضیاب ہورہی ہے۔ آپ کے قلبِ مطہر کی شان کون بیان کرسکتا ہے جب اس کو چاک کیا گیا تو خود حضور نبی کریم نے فرمایا:
ففلقھا فیما ارى بلا دم ولا وجع.1
میری آنکھوں کے سامنے میرا سینہ اس طرح چاک کردیا کہ خون نکلا اور نہ ہی مجھے تکلیف ہوئی ۔
فرشتے بھی اس قلب مطہر کے بارے میں کہتے ہیں:
قلبك سلیم ولسانك صادق ونفسك مطمئنة وخلقك قیم.2
آپ کا قلب سلیم ہے آپ کی زبان سچی ہے آپ کا نفس مطمئنہ ہے اورآپ کے اخلاق عمدہ ہیں۔
کسی سعادت مند روح پر جب آفتاب حقیقت پر توفگن ہوتا ہے تو اس کی شعائیں شبنم کے قطروں کی طرح اس روح کو اپنے جلوہ گاہ انوارمیں جذب کرلیتی ہیں۔ پھر عقل کا دوسرا رخ جو جانب فوق سے متصل ہے یعنی سر وہ ابھرتا ہے اور اب وہ اس مجرد صرف سے حکایت کرنے لگ جاتا ہے جو ولا عین راء ت ولا اذن سمعت کا مصداق ہے جو زبان ومکان کی حد بندیوں سے بلند و بالاتر ہے۔ قلب اور عقل یہ دونوں جس طرح انبیاءمیں ہوتے ہیں اورانسانوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ انبیاء میں قلب اور عقل کو وہ رخ جو روح اور سر کہلاتا ہے اس درجہ بلند اور قوی ہوتا ہے کہ کسی اور انسان میں یہ بات نہیں ہوتی ۔اس بناء پر ان کو عالم فوق سے اتصال ہوتا ہے اور انہیں ایسے ایسے مقامات اور احوال اور مزایا پیش آتے ہیں جو دوسروں کے گمان میں بھی نہیں آسکتے۔
ازروئے قرآن و حدیث اﷲ تعالیٰ کا نبی باوجود بشر ہونے کے بشری صفات میں دوسروں سے ممتاز ہوتا ہے اور اس کو مافوق البشر صفات منجانب اﷲ عطا ہوتی ہیں۔اس لیےاس امر پر ایمان لانا ضروری ہے کہ سیددو عالم اور دیگر انبیاء اگرچہ حسب ارشاد قرآنی بشر ہیں مگر ان کی استعداد اور ادراک باقی تمام انسانوں سے ممتاز اور بلند ترین ہونے کی وجہ سے ان کے حواس ظاہر یہ میں بھی ممتاز حیثیت موجود ہے۔
یہی وہ عام فطرت انسانی سے مافوق الفطرت باطنی استعداد ہوتی ہے جس کی وجہ سے انبیاء کے حواس عام انسانی حواس سے بہت زیادہ تیز اور ان کا شعور اور ادراک دوسرے لوگوں کے شعور وادراک سے کہیں زیادہ بلند اور اعلیٰ ہوتا ہے۔ اب وہ خدا سے ہمکلام ہوتا ہے، اسطوانہ حنانہ کے گریہ کی آواز سن سکتا ہے، کنکریوں کی تسبیح سے اس کے کان آشنا ہوتے ہیں اور وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکتا ہے جو دوسرے لوگ تہ بہ تہ حجابات نظر وسمع کی وجہ سے دیکھ اور سن نہیں سکتے۔
تمام انبیاء کی یہ خصوصیت منجانب اﷲ ہے کہ ان کی نیند بھی وحی ہے۔ یعنی جو وہ خواب میں دیکھتے ہیں اس کا وہی حکم لیا جاتا ہے جو بیداری میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہو ۔جیسا کہ سیدنا ابراہیم نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کو ذبح کررہے ہیں تو جب اس کا ذکر اپنے اسی بیٹے حضرت اسماعیل سے کیا تو انہوں نے جواب میں یہ عرض کیا :
یاَبَتِ افْعَلْ مَا تُــؤْمَرُ ۡسَتَجِدُنِى اِنْ شَاۗءَ اللّٰه مِنَ الصّٰبِرِینَ1023
(اسماعیل علیہ السلام نے) کہا: ابّاجان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ سب انبیاء کی نیند وحی ہےبالخصوص حضور کی نیند۔آپ کا دل ہمیشہ بیدار رہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن عزیز کا نزول آپ کے قلبِ منور پر ہوا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نَزَّلَه عَلٰى قَلْبِك بِـاِذْنِ اللّٰه 974
اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔
اس لیےنیند کی حالت میں بھی آپ کو باہر کی باتوں کا ادراک رہتا تھا ۔جیسا کہ آپ کی خدمت میں فرشتوں کی آمد اور آپ کی رسالت کی مثال دینے میں ان کی آپس کی جو بات چیت ہوئی وہ سب آپ کو معلوم رہی۔چنانچہ صحیح حدیث میں مذکور ہےکہ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں:
جائت ملائكة الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھو نائم فقال بعضھم: انه نائم وقال بعضھم: ان العین نائمة والقلب یقظان فقالوا: ان لصاحبكم ھذا مثلا فاضربوا له مثلا... فقالوا: مثله كمثل رجل بنى دارا وجعل فیھا مادبة وبعث داعیا فمن اجاب الداعى دخل الدار واكل من المادبة ومن لم یجب الداعى دخل الدار ولم یاكل من المادبة فقالوا: اولوھا له یفقھھا... فقالوا: فالدار الجنة والداعى محمد صلى اللّٰه علیه وسلم فمن اطاع محمداً صلى اللّٰه علیه وسلم فقد اطاع اللّٰه ومن عصى محمدا صلى اللّٰه علیه وسلم فقد عصى اللّٰه ومحمد صلى اللّٰه علیه وسلم فرق بین الناس.5
فرشتے نبی کریم کے پاس آئے اور آپ اس وقت سوئے ہوئے تھے۔ پس بعض فرشتوں نے کہا: یہ سوئے ہوئے ہیں اور بعض فرشتوں نے کہا کہ آنکھ سوئی ہوئی ہےپر دل بیدار ہے۔ پھر انہوں نے کہا: تمہارے اس صاحب کی ایک مثال ہے سو اس کی وہ مثال بیان کرو۔۔۔تو انہوں نے کہا : ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اس میں ایک دستر خوان رکھا اور کسی دعوت دینے والے کو بھیجا گیا۔ پس جس نے دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کیا وہ گھر میں داخل ہوگیا اور اس نے دستر خوان سے کھانا کھایا۔ جس نے دعوت دینے والے کی دعوت کو قبو ل نہیں کیا تو وہ گھر میں داخل نہیں ہوا اور نہ اس نے دستر خوان سے کھایا۔پھر فرشتوں نے کہا اس مثال کی تاویل بیان کرو تاکہ یہ اس کو سمجھیں۔۔۔توانہوں نے کہا: گھر سے مراد جنت ہے اور دعوت دینے والے محمد ہیں۔پس جس نے محمد کی اطاعت کی گویااس نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرلی اور جس نے محمد کی نافرمانی کی تو اس نے اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔
اسی طرح اس حوالہ سے حضرت ربیعہ جرشی بیان کرتے ہیں:
اتى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقیل له :لتنم عینك ولتسمع اذنك ولیعقل قلبك قال: فنامت عیناى وسمعت اذناى وعقل قلبى قال: فقیل لى: سید بنى دارا فصنع مادبة وارسل داعیا فمن اجاب الداعى دخل الدار واكل من المادبة ورضى عنه السید ومن لم یجب الداعى لم یدخل الدار ولم یطعم من المادبة وسخط علیه السید قال: فاللّٰه السید ومحمد الداعى والدار الاسلام والمادبة الجنة.6
حضور نبی کریم کی خدمت میں کوئی فرشتہ آیا اور آپ سے یہ کہا گیا: آپ کی آنکھ تو سوتی رہے گی لیکن آپ کے کان سنتے رہیں گے اور آپ کا دل سمجھتا رہے گا ۔تو نبی کریم نے فرمایا :میری آنکھیں سوجاتی ہیں لیکن میرے کان سنتے رہتے ہیں اور دل سمجھ لیتا ہے۔نبی کریم ارشاد فرماتے ہیں: پھر مجھ سے کہا گیاکہ ایک سردار نے گھر بنایا پھر اس میں اس نے دسترخوان سجایا اور ایک دعوت دینے والے کو بھیجا ۔جو شخص اس دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرلے گا وہ اس گھر میں آئے گا اور اس دستر خوان سے کھائے گا اوروہ سردار اس سے راضی ہوگا ۔ جو شخص اس دعوت دینے والے کی بات نہیں مانے گا تووہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا اور اس دستر خوان سے نہیں کھائے گا اور سردار اس سے ناراض ہوگا۔نبی کریم ارشاد فرماتے ہیں: اﷲ تعالیٰ وہ سردار ہے اور دعوت دینے والا شخص محمد ( )ہے۔ وہ گھر اسلام ہے اور وہ دستر خوان جنت ہے۔
جس طرح نیند کے وقت سید دو عالم کی صرف آنکھ سوتی تھی قوت سماع اور دل بیدار رہتا تھا تو اس سے واضح ہوجاتا ہےکہ نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔
حضرات انبیاء کی بیداری کا عالم یہ ہوتا ہے حالت نیند میں بھی وہ اس بات سے آگاہ رہتے ہیں کہ ان کا وضو قائم ہے یا نہیں؟ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات رسالت مآب نیند سے بیدار ہوکر نماز ادا فرماتے تو تجدید وضو نہ کرتے۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن مسعود اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان ینام مستلقیا حتى ینفخ ثم یقوم فیصلى ولا یتوضا.7
حضور نبی کریم چت لیٹ کر سویا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگتے، پھر آپ بیدار ہوکر تازہ وضو کیے بغیر ہی نماز پڑھا دیتے۔
اسی طرح اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ینام حتى ینفخ ثم یقوم فیصلى ولا یتوضا.8
آپ سوتے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگتے، پھر آپ بیدار ہوکر تازہ وضو کیے بغیر ہی نماز پڑھا دیتے۔
اسی حوالہ سے بیان کرتے ہوئےامام ابراہیم نخعی تابعی فرماتے ہیں:
ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم نام فى المسجد حتى نفخ ثم قام فصلى ولم یتوضا كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم تنام عیناہ ولا ینام قلبه.9
نبی کریم مسجد میں سوئے ہوئے تھے یہاں تک کے آپ نے خراٹے لیے پھر آپ بیدار ہوکر کھڑے ہوئے پھر نماز پڑھی اور وضوء نہیں فرمایا۔ نبی کریم کی دونوں آنکھیں مبارک سوئی تھیں آپ کا دل نہیں سوتا تھا۔
اسی طرح حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں :
لما صلى ركعتى الفجر اضطجع حتى نفخ فكنا نقول لعمر:و ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: تنام عیناى ولا ینام قلبى.10
جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگتے، راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم عمر سے کہتے تھے کہ حضور کا ارشاد ہے کہ میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
اسی حوالہ سے ایک حدیث ِ مبارکہ بیان کرتے ہوئے امام ابن عبدالبر قرطبی مالکی فرماتے ہیں:
عن ابى قلابة قال : قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: قیل لى: لتنم عینك ولیعقل قلبك ولتسمع اذنك فنامت عینى وعقل قلبى وسمعت اذنى.11
حضرت ابوقلابہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : مجھ سے کہا گیا :آپ کی دونوں آنکھیں محو استراحت رہیں گی اور آپ کا دل بیدار رہے گا اور آپ کے کان سماعت کرتے رہیں گے۔ تو میری دونوں (اسی دوران) آنکھیں سوتی ہیں اور دل بیدار رہتا ہے اور میرے دونوں کان (اسی دوران) باتوں کو سنتے ہیں۔
اسی طرح امام محمد بن حسن شیبانی نقل فرماتے ہیں:
اخبرنا ابو حنیفة عن حماد عن ابراھیم قال توضا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخرج الى المسجد فوجد المؤذن قد اذن فوضع جنبه فنام حتى عرف منه النوم وكانت له نومة تعرف كان ینفخ اذا نام ثم قام فصلى بغیر وضوء. قال ابراھیم ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم لیس كغیرہ.قال محمد: وبقول ابراھیم ناخذ بلغنا ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال :ان عینى تنامان ولا ینام قلبى فالنبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى ھذا لیس كغیره فاما من سواه فمن وضع جنبه فنام فقد وجب علیه الوضوء وھو قول ابى حنیفة.
ہمیں امام ابو حنیفہ نے خبردی وہ حضرت حماد سے اور وہ حضرت ابراہیم نخعی سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں :نبی کریم نے وضو فرمایا اور مسجد کی طرف تشریف لے گئے۔ آپ نے دیکھا کہ مؤذن اذان کہہ رہا ہے تو آپ پہلو کے بل لیٹ کر آرام فرما ہوگئے حتیٰ کہ آپ سے نیند معلوم ہوتی ۔ آپ کی نیند کا پتہ چل جاتا تھا کیونکہ جب سوجاتے تو خراٹے لیتے تھے۔ (آپ کے خراٹے ایسے نہ تھے جس سے عموماً لوگوں کو کوفت ہوتی ہے بلکہ بہت آہستہ آہستہ ہوتے) آپ پھر اُٹھے اوروضو کئے بغیر نماز پڑھی۔ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ نبی کریم کا معاملہ دوسروں کی طرح نہیں تھا۔حضرت اما م محمد فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نخعیفرماتے ہیں: ہم اسی بات کو اختیار کرتے ہیں ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:"میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا"۔ پس اس مسئلہ میں آپ دوسروں کی طرح نہیں جب کہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ جو آدمی پہلو کے بل سوجائے اس پر وضو فرض ہوجاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔12
اسی طرح امام حمیدی روایت کرتے ہیں :
فقال سفیان ھذا للنبى خاصة لان النبى تنام عینه ولا ینام قبله.13
امام سفیان نے فرمایا کہ: یہ بات نبی کریم کا خاصہ ہے کیونکہ نبی کریم کی آنکھیں سوتی ہیں آپ کا دل مبارک نہیں سوتا۔
حضرت ابو ہریرہ14 اور حسن بصری سے مرسلا اسی طرح مروی ہے۔15اس پر مزید بات کرتے ہوئے امام ابن بطال مالکی لکھتے ہیں:
وفیه دلیل على ان من نام من سائر البشر حتى نفخ لا یصلى حتى یتوضا والنوم انما یجب منه الوضوء اذا خامر القلب و غلب علیه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم لا ینام قلبه فلذلك لم یتوضا.16
اور اس میں اس بات پر دلیل ہے کہ نوع انسانی میں سے کوئی بھی انسان سوئے یہاں تک کہ وہ خراٹے لینے لگے تو بغیر وضوء کئے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ صرف نیند سے اس وقت وضوء کرنا واجب ہوتا ہے جب وہ دل کو ڈھانپ لے اور اس پر غالب آجائے۔ جبکہ رسول اللہ کا دل نہیں سوتا تھا اسی لیےآپ نیند سے بیدار ہونے کے بعد وضوء نہیں فرماتے تھے۔
نیند سے وضوء کا نہ ٹوٹنا صرف نبی کریم کے ساتھ مخصوص ہے۔چنانچہ امام ابن عبدالبر قرطبی مالکی فرماتے ہیں:
وكان صلى اللّٰه علیه وسلم مخصوصا دون سائر امته بان تنام عینه ولا ینام قلبه. صلوات اللّٰه علیه وسلامه.17
اور یہ معاملہ صرف نبی کریم کے ساتھ خاص ہے آپ کی تمام امت کےبرعکس آپ کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی ہو آپ پر ۔
اسی طرح محدث کبیر امام بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں:
وقال النووى: من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم انه لا ینتقض وضوء ہ بالنوم مضطجعاً للاحادیث الصحیحة ثم صلى ولم یتوضا وقال: ان عینی تنام ولا ینام قلبى.18
امام نووی نے فرمایا :آپ کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ لیٹے ہوئے سونے کے باوجود بھی آپ کا وضوء نہیں ٹوٹتا تھا صحیح حدیث کی بنا ء پر کہ آپ (بیدار ہونے کے بعد)نماز پڑھتے لیکن وضو نہ فرماتے اور آپ نے فرمایا :میری آنکھیں سوتی ہیں پر میرا دل نہیں سوتا۔
امام عبد الرؤف مناوی اور دیگر محدثین نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
لان من خصائصه ان وضؤه لا ینقض بالنوم مطلقا لبقاء یقظة قلبه فلو خرج منه حدث لا حس به.19
آپ کے خصائص میں سے ہے کہ نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا کیونکہ آپ کا قلب انور ہر وقت بیدار رہتا اگر حدث لاحق ہوتا تو آپ اسے ضرور محسوس کرلیتے۔
ان سب روایات کو دیکھنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ حضور کی بشری خصوصیات میں یہ عظیم خصوصیت بھی ہے کہ آپ کی نیند ناقض وضو نہیں ۔نیند سے نہ ہی آپ کی قوت سماع اور قوت عقل وفہم سلب ہوتی ہے اور نہ کمزور ہوتی ہے۔ جبکہ دوسرے تمام انسانوں کے لیےنیند موت کا بھائی کہلائی جاتی ہے اوراسی سے روضہ اطہر میں بھی آپ کی حیات مبارکہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔
نیند میں قلب مبارک کی بیداری میں یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سید دو عالم سے نیند میں بھی کوئی غیر اولیٰ کام نہیں ہونے دیا جیسا کہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہے کہ حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں :
ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال :ارانى اتسوك بسواك فجاء نى رجلان احدھما اكبر من الاخر فناولت السواك الاصغر منھما. فقیل لى: كبر فدفعته الى الاكبر منھما.20
حضور نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک مسواک کے ساتھ مسواک کررہا ہوں کہ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی عمر کا تھا تو میں نے مسواک چھوٹے کو دے دی تو مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دیں ۔پس میں نے وہ مسواک ان میں بڑکو دے دی۔
اسی طرح ام المؤمنین عائشہ صدیقہ اس روایت کو نقل کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
قالت: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یستن وعنده رجلان احدھما اكبر من الاخر فا وحى الیه فى فضل السواك ان اكبر اعط السواك اكبرھما.21
رسول اﷲ مسواک کررہے تھے اور آپ کی خدمت میں دو آدمی موجود تھے جن میں ایک آدمی دوسرے سے بڑا تھا۔ پس آپ پر مسواک کی فضیلت میں وحی فرمائی گئی اور بڑے آدمی کو مسواک عطا فرمانے کا حکم ہوا۔
امام سیوطی نے بھی ایک حدیث حضرت عبداﷲ بن کعب سے روایت کی ہے:
كان اذا استن اعطى السواك الاكبر واذا شرب اعطى الذى عن یمینه.22
جب مسواک فرماتے تو بڑے آدمی کو دیتے تھے اور جب پیتے تو اپنے دائیں جانب والے کو دیتے تھے۔
اسی حوالہ سے روایت کرتے ہوئےحضرت عبداﷲ بن مسعود سے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
قال: صلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم العشاء ثم انصرف فأخذ بید عبد اللّٰه بن مسعود حتى خرج به إلى بطحاء مكة فأجلسه ثم خط علیه خطا ثم قال: لا تبرحن خطك فإنه سینتھى إلیك رجال فلا تكلمھم فإنھم لا یكلمونك. قال: ثم مضى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حیث أراد، فبینا أنا جالس فى خطى إذ أتانى رجال كأنھم الزط أشعارھم وأجسامھم لا أرى عورة ولا أرى قشرا وینتھون إلى، لا یجاوزون الخط ثم یصدرون إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ، حتى إذا كان من آخر اللیل، لكن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قد جاءنى وأنا جالس، فقال: لقد أرانى منذ اللیلة. ثم دخل على فى خطى فتوسد فخذى فرقد وكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم إذا رقد نفخ، فبینا أنا قاعد ورسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم متوسد فخذى إذا أنا برجال علیھم ثیاب بیض اللّٰه أعلم ما بھم من الجمال فانتھوا إلى، فجلس طائفة منھم عند رأس رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وطائفة منھم عند رجلیه ثم قالوا بینھم: ما رأینا عبدا قط أوتى مثل ما أوتى ھذا النبى، إن عینیه تنامان وقلبه یقظان، اضربوا له مثلا مثل سید بنى قصرا ثم جعل مأدبة فدعا الناس إلى طعامه وشرابه، فمن أجابه أكل من طعامه وشرب من شرابه ومن لم یجبه عاقبه أو قال: عذبه ثم ارتفعوا، واستیقظ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عند ذلك فقال: سمعت ما قال ھؤلاء؟ وھل تدرى من ھؤلاء؟ قلت: اللّٰه ورسوله أعلم. قال: ھم الملائكة، فتدرى ما المثل الذى ضربوا؟ قلت: اللّٰه ورسوله أعلم. قال: المثل الذى ضربوا الرحمن تبارك وتعالى بنى الجنة ودعا إلیھا عباده، فمن أجابه دخل الجنه ومن لم یجبه عاقبه أو عذبه.23
حضور نبی کریم عشاء کی نماز پڑھ کرعبداللہ بن مسعودکا ہاتھ پکڑے مسجد سے نکل کر بطحاء مکہ تک تشریف لے گئے اور انہیں بٹھایا ،ان کے اردگرد ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: اس لکیر سے باہر نہ نکلنا کیونکہ تمہارے پاس کچھ لوگ آئیں گے تم ان سے بات نہ کرنا وہ بھی تم سے گفتگو نہیں کریں گے۔ پھر حضور نبی کریم نے جہاں چاہا تشریف لے گئے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں:میں اپنے دائرے کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ آئے گویا کہ وہ جاٹ (Nomads خانہ بدوش) ہیں ان کے بال اور بدن بھی ایسے ہی تھے۔ نہ وہ برہنہ معلوم ہوتے اور نہ کپڑے پہنے ہوئے وہ میرے قریب آئے لیکن لکیر سے متجاوز نہ ہوئے۔ پھر وہ رسول اﷲ کی طرف گئے رات آخر ہوگئی تو وہ لوگ نہ آئے بلکہ حضور تشریف لائے تو میں بیٹھا ہوا تھا، آپ نے فرمایا :میں رات سے نہیں سویا ہوں پھر آپ اس دائرے میں میرے پاس تشریف لائے اور میرے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرما ہوگئے اور آپ سوتے میں خراٹے لیا کرتے تھے۔ اسی دوران کہ آپ آرام فرما رہے تھے اور میں بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ آئے انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ اﷲ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس قدر خوبصورت تھے وہ میری طرف بڑھے ۔ان میں سے ایک گروہ رسول اﷲ کے سرمبارک کے پاس بیٹھ گیا اور ایک قدموں میں بیٹھا پھر آپس میں کہنے لگے: ہم نے قطعا کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جس کو اس نبی کی مثل دیا گیا ہو۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور دل جاگتا ہے۔ ان کی مثال بیان کرو ان کی مثال ایک سردار جیسی ہے جس نے محل بنایا پھر دسترخوان چنا اور لوگوں کو کھانے اور پینے کی طرف بلایا جس نے دعوت قبول کی اس نے اس کے دسترخوان سے کھایا اور پیا اور جس نے دعوت کو قبول نہ کیا اسے اس نے عذاب دیا یہ کہہ کر وہ لوگ چلے گئے اور حضور نبی کریم بیدار ہوگئے آپ نے فرمایا: تم نے ان کی گفتگو سنی اور تم جانتے ہو کہ وہ کون تھے؟ میں نے عرض کیا :اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ رسول کریم نے فرمایا:وہ فرشتے ہیں کیا جانتے ہو انہوں نے کیا مثال دی؟ میں نے عرض کیا :اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہوں نے یہ مثال دی کہ رحمن نے جنت بناکر بندوں کو اس کی طرف بلایا جس نے دعوت قبول کی جنت میں داخل ہوگا اور جس نے قبول نہ کی اسے عذاب دے گا۔
اس لیےصحابہ کرام حضور نبی کریم کو نیند سے نہیں جگایا کرتے تھے کہ کہیں آپ پر وحی نہ آرہی ہو ۔چنانچہ حضرت عمران بن حصین فرماتے ہیں:
وكان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اذا نام لم یوقظ حتى یكون ھو یستیقظ لانا لا ندرى ما یحدث له فى نومه.24
نبی کریم جب سوئے ہوتے تھے تو ہم آپ کو بیدار نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ آپ خود بیدار ہوں کیونکہ ہم نہیں جانتے تھے کہ نیند میں آپ پر کیا کیفیات طاری ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب کے قلب انور کو اسی طرح بیداری عطا فرمائی ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں باری تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے ۔نہ تو اس پر نیند کا غلبہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس پر غفلت طاری ہوسکتی ہے اسی وجہ سے آپ کا خواب بھی سراپا وحی ہے اور نیند آپ کے وضو میں خلل واقع نہیں کرتی۔چنانچہ امام بخاری اور دیگر کئی محدثین روایت کرتے ہیں:
عائشة كیف صلوة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ا فى رمضان ؟قالت: ما كان یزید فى رمضان ولا غیره على احدى عشرة ركعة یصلى اربع ركعات فلا تسال عن حسنھن وطولھن ثم یصلى ثلاثاً. فقلت: یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ا تنام قبل ان توتر؟ قال تنام عینى ولا ینام قلبى.25
اُم المومنین عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا گیا کہ رسول اﷲ رمضان المبارک میں کتنی نماز پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا : آپ رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ جب چار رکعتیں پڑھتے تو ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں کچھ نہ پوچھیے۔ پھر چار کعتیں پڑھتے اور ان کی درستی و درازی کی کیا ہی بات ہے (تہجد کی آٹھ رکعت) اس کے بعد تین رکعت (وتر) پڑھتے میں عرض گزار ہوئی: یا رسول اﷲ ! وتر پڑھنے سے پہلے تو آپ سوگئے تھے؟ فرمایا : میری آنکھ سوتی ہے لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
امام مسلم26 اورامام احمد بن حنبل نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔27 ایک اور روایت نقل کرتے ہوئےامام بخاری روایت کرتے ہیں:
انس بن مالك یحدثنا عن لیلة اسرى بالنبى صلى اللّٰه علیه وسلم من مسجد الكعبة جآء ثلاثة نفر قبل ان یوحى الیه وھو نآئم فى مسجد الحرام فقال اولھم: ایھم ھو؟ فقال او سطھم: ھو خیرھم. وقال اخرھم: خذوا خیر ھم. فكانت تلك فلم یرھم حتى جآؤا لیلة اخرى فیما یرى قلبه دو النبى صلى اللّٰه علیه وسلم نآئمة عیناه ولا ینام قلبه. وكذلك الانبیاء تنام اعینھم ولا تنام قلوبھم فتوه جبریل ثم عرج به الى السمآء.28
حضرت انس حضور کی معراج کا ذکر فرمارہے تھے جو مسجد حرام سے شروع ہوئی تھی۔ حضرت جبریل کے آنے سے پہلے تین افراد (فرشتے) آئے اور آپ مسجد حرام کے اندر محو خواب تھے۔ ان میں سے ایک کہنے لگا وہ کون ہیں؟ دوسرے شخص نے کہاکہ وہ ان میں سب سے بہتر ہیں۔تیسرا بولا: ان میں بہتر کو لے لو۔ پھر وہ غائب ہوگئے اور انہیں دیکھا نہیں گیا یہاں تک کہ پھر کسی رات میں پہلے کی طرح نظر آئے ۔حضور کی آنکھیں سورہی تھیں لیکن حضور کا قلب مبارک نہیں سوتا تھا اور جملہ انبیاء کرام کی آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا پھر حضرت جبریل آپ کو لے کر آسمان کی طرف چڑھ گئے۔
ان متذکرہ بالا روایات سے واضح ہوتا ہےکہ نبی اکرم کا قلب مبارک بحالت نیندبھی بیدار رہتا اور اس کی حکمت یہ تھی کہ کسی بھی وقت نزول وحی ربانی ہوسکتاتھی اور یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام کامعمول یہ تھا کہ نبی اکرم کو بحالتِ نینداس وجہ سے نہیں جگاتے تھے کہ ممکن ہے کہ وحی ربانی کانزول ہورہا ہو۔یہاں تک کہ نیند میں نظر آنے والے خواب بھی وحی الہیہ کی ہی ایک قسم ہے۔
ماقبل میں حضرت ام المؤمنین عائشۃ الصدیقۃ کی ایک روایت گزری ہے جس میں ذکر تھا کہ نبی اکرم آٹھ رکعات تہجد اور پھر رات کے آخری پہر میں تین وتر ادا فرماتے تھے۔29 اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت ملا علی قاری اور امام عبد الرؤف مناوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
انما فعلت ذلك لانى لا اخشى فوت الوتر وھذا من خصائص الانبیاء علیھم السلام لحیاة قلوبھم واستغراق شھود جمال الحق المطلق.30
میں یہ عمل اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے وتروں کی قضا کا اندیشہ نہیں ۔(کیونکہ میرا دل بیدار رہتا ہے) یہ انبیاء کا خاصہ ہے کہ ان کے مبارک دل ہر وقت ہر حال میں بیدار اور جمال حق اﷲ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مستغرق رہتے ہیں۔
آپ کا قلب انور اسرار الٰہیہ کا خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ علوم ومعارف کا ایک بحربے کنار بھی ہے جس میں اولین و آخرین کے علوم آپ کے سامنے ایک قطرہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ آپ کو عطا شدہ علوم کو سوائے اﷲ کے کوئی نہیں جانتا۔چنانچہ حافظ ابوبکر بن عائذ حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم کی ولادت مبارکہ ہوئی تو جنت کے خازن رضوان نے حاضر ہوکر آپ کے کان میں یہ کلمات کہے:
ابشر یا محمد فما بقى لنبى علم الاوقد اعطیته فانت اكثرھم علما و اشجعھم قلبا.31
اے اﷲ کے حبیب آپ کو مبارک ہو جو علوم اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو عطا نہیں کیے وہ تمام آپ کو عطا فرمائے ہیں۔ پس آپ علوم کے لحاظ سے تمام انبیاء میں زیادہ اور قلب کے لحاظ سے سب سے زیادہ بہادر ہیں۔
لہٰذا اُمتیوں کا اس بابت بحث و مباحثہ کرنا کہ رسول اللہ کو کتنا اور کونسا علم دیا گیا تھا اور کیا نہیں دیا گیاتھا انتہائی بے سود اور باعثِ ضیاعِ انوارِ نبوت ہے۔وسعتِ علم نبوی کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس نقل کرتے ہیں :
ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال: اتانى ربى عزوجل اللیلة فى احسن صورة احسبه یعنى فى النوم. فقال: یا محمد !ھل تدرى فیم یختصم الملأ الاعلى؟ قال: قلت: لا. قال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: فوضع یدیه بین كتفى حتى وجدت بردھا بین ثدیى او قال: نحرى فعلمت ما فى السموات والارض.32
نبی کریم نے فرمایا :آج رات کو نیند میں میرا رب عزوجل حسین صورت میں میرے پاس آیا اور فرمایا: اے محمد ! کیا تم جانتے ہو کہ ملا ءِاعلی کس چیز میں بحث کررہے ہیں؟ حضرت ابن عباس کہتے ہیں :آپ نے فرمایا :نہیں پھر مزید فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دوکندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن عائش 33اورامام عبدالرحمن بن الجوزی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ 34 اسی طرح امام عبدبن حمید روایت کرتے ہیں:
فوضع یدیه بین كتفى حتى وجدت بردھا بین ثدیى او قال: نحرى. فعلمت ما فى السموات والارض.35
پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ میرے دوکندھوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں۔
امام ترمذی کی روایت میں بھی اسی طرح درج ہے۔36 البتہ محمد بن عیسیٰ ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ بھی منقول ہوئے ہیں:
فتجلى لى كل شى وعرفت.37
ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اورمیں نے پہچان لی۔
اسی روایت کو مزید تفصیل کے ساتھ امام جلال الدین سیوطی ا س طرح لکھتے ہیں:
عن رجل من اصحاب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال: خرج علینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ذات غداة وھو طیب النفس مسفر الوجه فسالناه قال: وما یمنعنى واتانى ربى اللیلة فى احسن صورة. فقال: یا محمد! قلت: لبیك ربى وسعدیك.قال: فیم یختصم الملأ الأعلى؟ قلت: لا ادرى. فوضع یده بین كتفى حتى وجدت بردھا بین ثدیى حتى تجلى لى ما فى السموات وما فى الارض.قال: ثم قرأ ”وكذلك نرى ابراھیم ملكوت السموات والارض ولیكون من الموقنین.“ له طرق وھو مطول.38
نبی کریم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ: رسول اﷲ ایک دن صبح کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ نہایت مسرور تھے اور خوشی سے چہرہ چمک رہا تھا۔ ہم نے حضور سے استفسار کیاتو حضور نے فرمایا: مجھے بیان کرنے میں کوئی بات مانع نہیں ہےکہ آج رات میرا رب نہایت حسین صورت میں میرے پاس تشریف لایا اوراس نے پکارا یا محمد( )! میں نے عرض کیا: لبیک و سعدیک اے میرے رب۔فرمایا: ملاء اعلیٰ کس بات میں جھگڑرہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا۔ توحق تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک اپنے سینہ کے اندر محسوس کی۔ پھرجوکچھ آسمانوں کے درمیان ہے اورجوکچھ زمین میں ہے سب مجھ پر روشن ہوگیا۔ راوی نے کہا : اس کے بعد حضورنبی کریم نے آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔(اور اسی طرح ہم نے ابراہیم ( ) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لیےکہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے)اس حدیث کی بکثرت سندیں ہیں اور یہ حدیث طویل ہے۔
جلال الدین سیوطی نے ایک اور روایت طبرانی کے حوالہ سے بھی نقل کی ہے جس میں کچھ الفاظ کی زیادتی ہے ا ور اس کےبعد بزار کی روایت بھی کی ہے۔چنانچہ وہ نقل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
فوضع یدہ بین ثدیى فعلمت فى مقامى ذلك ما سالنى عنه عن امر الدنیا و الآخرة.وأخرجه البزار من حدیث ثوبان وفیه فخیل لى مابین السماء والأرض ومن حدیث ابن عمر ولفظه إن صلیت فى مصلاى فضرب على أذنى فجاءنى ربى تبارك وتعالى فى أحسن صورة الحدیث.39
تواللہ تعالی نے اپنا دست قدرت میری چھاتی کے درمیان رکھا تودنیا وآخرت کی ہروہ بات جس کے بارے میں مجھ سے اس نے پوچھی میں نے ان سب کو اپنی جگہ جان لیا۔ بزار نے ثوبان کی حدیث سے روایت کی۔ اس میں ہے کہ آسمان وزمین کے درمیان ہرچیز مجھ پر ظاہر ہوگئی اور حضرت ابن عمر کی حدیث میں اس طرح ہے کہ میں اپنے مصلے پر نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرے کان میں سنسناہٹ ہوئی (اورمیں سوگیا) خواب میں میرا رب تبارک وتعالیٰ احسن صورت میں میرے پاس آیا اورمجھ سے فرمایا اورجو آخر حدیث تک مذکور ہے۔
اس روایت کو مزید تفصیل کے ساتھ نقل کرتے ہوئے حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے :
احتبس عنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ذات غداة عن صلاة الصبح حتى كدنا نتراء ى عین الشمس فخرج سریعاً فثوب بالصلاة فصلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وتجوز فى صلاته فلما سلم دعا بصوته قال لنا: على مصافكم كما انتم. ثم انفتل الینا ثم قال: اما انى ساحدثكم ما حبسنى عنكم الغداة:انی قمت من اللیل فتوضات وصلیت ما قدرلى فنعست فى صلاتى حتى استثقلت فاذا انا بربى تبارك وتعالى فى احسن صورة فقال: یا محمد! قلت: لبیك رب. قال: فیم یختصم الملاء الا على؟ قلت: لا ادرى. قالھا ثلاثاً قال: فرأیته وضع كفه بین كتفى حتى وجدت برد انا مله بین ثدیى فتجلى لى كل شى وعرفت.40
ایک مرتبہ صبح کی نماز کے وقت حضور کودیر ہوگئی اورہم لوگوں نے آپ کا انتظار اس حد تک کیا کہ قریب تھاکہ آفتاب کے آثار نظر آنے لگے۔ اتنے میں حضور تیزی سے تشریف لائے چنانچہ تکبیر کہی گئی اور آپ نے اختصار سے نماز پڑھائی۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ نے باآواز بلند فرمایا :جس طرح تم بیٹھے ہو اسی طرح صف بندی کیے ہوئے بیٹھے رہو۔ پھر فرمایا :میں اپنی تاخیر کا واقعہ تم کو سناتاہوں پھرواقعہ سنایا (اورواقعہ یہ ہے)کہ رات کے وقت وضو کرکے جس قدر نماز میرے لیے مقدور تھی میں نے پڑھی پھر مجھے نیند آگئی اورمیں نمازمیں ہی سوگیا۔ یکا یک کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنے رب کے حضور میں ہوں اور میں نے اپنے رب کو (اس کی شان کے لائق) نہایت اچھی شکل میں دیکھا (اورمجھ سے) ارشاد ہوا: اے محمد ! میں نے عرض کی: لبیک اے میرے پروردگار میں حاضر ہوں۔ فرمایا: آسمان والے کس چیز میں جھگڑرہے ہیں؟ میں نے عرض کی: مجھے معلوم نہیں۔ تین مرتبہ یہی ارشاد ہوا حضور فرماتے ہیں: پھرمیں نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی پس ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اورمیں نے ہرچیزکوجان لیا۔
اسی طرح ابن کثیر کی روایت میں ہے:
فوضع كفه بین كتفى حتى وجدت برد انامله بین صدرى فتجلى لى كل شى وعرفت.41
پھرمیں نے دیکھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنا دست قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا حتیٰ کہ میں نے اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی پس ہرچیز مجھ پر روشن ہوگئی اورمیں نے جان لی۔
اس طرح امام جلال الدین سیوطی نے اس کو نقل کیا ہے ۔42علی بن سلطان محمد القاری اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
فعلمت بسبب وصول ذلك الفیض ما فى السموت والارض یعنى اعلمه اللّٰه ما فیھا من الملائكة والاشجار و غیرھا وھو عبارة عن سعة علمه الذى فتح االلّٰه و قال ابن حجر: اى جمیع الكائنات التى فى السموت بل وما فوقھا كما یستفاد من قصة المعراج والارض ھى بمعنى الجنس و جمیع ما فى الارضین السبع بل وما تحتھا كما افاده اخبار عن الثور والحوت الذى علیھما والارضون.43
اس فیض ربانی کی بدولت میں نے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے جان لیا ۔یعنی اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ان کے اندر پائے جانے والے فرشتوں درختوں اور دیگر چیزوں کا علم عطا فرمادیا۔ یہ حدیث آپ کی اس وسعت علم سے عبارت ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔ امام ابن حجر نے فرمایا کہ: حضور نے آسمانوں کی بلکہ ان سے بھی اوپر کی تمام مخلوقات کو جان لیا جیسا کہ حدیث معراج سے ثابت ہے۔زمین جنس کے معنی میں ہے یعنی آپ نے سات زمینوں کی بلکہ ان سے بھی نیچے کی تمام چیزوں کو جان لیا جیسا کہ احادیث نے بیل اور مچھلی کی خبردی جن پر زمینیں قائم ہیں۔
اس کی شرح میں شیخ عبد الحق محدّث دہلوی لکھتے ہیں:
دانستم ھرچه در آسمانھا و ھر چه در زمینھا بود عبارت ست از حصول تمامه علوم جزئى وكلى واحاطه آں.44
میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں تھا اس حدیث میں تمام علوم جزی وکلی کے حاصل ہونے اور ان کے احاطہ کرنے کا بیان ہے۔
اس وسعتِ علمِ نبوی کو ہی بیان کرتے ہوئے امام محمودآلوسی لکھتے ہیں:
فلم یقبض النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حتى علم كل شى یمكن العلم به.45
رسول اﷲ کا اس وقت تک وصال نہیں ہوا جب تک کہ آپ نے ہر اس چیز کو نہیں جان لیاجس کا علم ممکن تھا۔
یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم نے ابتدائے خلق سے لے کر انتہائے خلق تک صحابہ کے سامنے بیان فرمایا۔چنانچہ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں:
قام فینا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم مقاماً فاخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل اھل الجنة منازلھم و اھل النار منازلھم حفظ ذلك من حفظه ونسیه من نسیه.46
ایک بار سید عالم نے ہم میں کھڑے ہوکر ابتدائے آفرینش سے لے کر جنتیوں کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ جانے تک کاحال ہم سے بیان فرمادیا۔جس نے یاد رکھا سو یادرکھا جس نے بھلادیا سو بھلادیا ۔
اسی طرح حضرت ابوزید بیان کرتے ہیں :
صلّٰى بنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الفجر وصعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظھر فنزل فصلى ثم صعد المنبر فخطبنا حتى غربت الشمس فاخبرنا بما كان وما ھو كائن فاعلمنا احفظنا.47
رسول اﷲ نے ہمیں صبح کی نما ز پڑھائی اور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ ظہر کا وقت آگیا۔ پھر آپ منبر سے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر منبر پر رونق افروز ہوئے اور ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ عصر کاوقت آگیا ۔پھر آپ منبر سے اترے اور عصر کی نماز پڑھائی پھر آپ نے ہمیں خطبہ دیا حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ پھر آپ نے ہمیں جوکچھ ہوچکا اورجوہوگاکی خبریں دیں سو جو ہم میں زیادہ حافظہ والا تھا اس کو ان کا زیادہ علم تھا۔
اس کو کچھ تغیرات کے ساتھ امام جلال الدین سیوطی اس طرح روایت کرتے ہیں:
واخرج الشیخان من وجه آخر عنه قال: قام فینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مقاماً ما ترك فیه شیئا الى قیام الساعة الا ذكره حفظه من حفظه ونسیه من نسیه ، وانه لیكون منه الشى قد كنت نسیته فاراہ فاذكره كما یدخل الرجل وجه الرجل اذا غاب عنه ثم اذا رآه عرفه.48
شیخین نے دوسری سند کے ساتھ حضرت حذیفہ سے روایت کی کہ ا نہوں نے کہا : رسول اﷲ ہمارے درمیان ایک جگہ کھڑے ہوئے اور آپ نے قیامت تک ہونے والی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ اسے آپ نے بیان کیا۔ جس نے اسے یاد رکھا اس نے اسے یادرکھا اور جو اسے بھول گیا وہ اسے بھول گیا۔ یقیناً جب کوئی بات ایسی ہوتی ہے جسے میں بھول چکا ہوتا ہوں تو فوراً وہ بات یاد آجاتی ہے جیسے کہ کوئی شخص کسی کے چہرے کو یاد کرلیتا ہے۔ جب وہ اس سے غائب ہوتا ہے پھر جب اس کے سامنے آتا ہے تو وہ اسے پہچان لیتا ہے۔
اس کی تشریح کرتے ہوئےحافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
و دل ذلك على انه اخبر فى المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات منذ ابتدئت الى ان تفنى الى ان تبعث فشمل ذلك الاخبار عن المبدأ و المعاش والمعاد.49
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضور نے ایک ہی مجلس میں تمام مخلوقات کے از ابتداء تا انتہاء دوبارہ اٹھائے جانے تک کے تمام احوال کی خبر عطا فرمادی پس حضور کا یہ خبر دینا مبداء (پیدائش) معاش (دنیوی زندگی) اور معاد (اخروی زندگی) کوشامل تھا۔
نیز حافظ شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی اسی حوالہ سے مزید لکھتے ہیں:
وفى تیسیر ایراد ذلك فى مجلس واحد من خوارق العادة امر عظیم و یقرب ذلك مع كون معجزاته لامریة فى كثرتھا انه صلى اللّٰه علیه وسلم اعطى جوامع الكلم و مثل ھذا من جھة اخرى ما رواه الترمذى من حدیث عبداللّٰه بن عمرو ابن العاص خرج علینا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم و فى یده كتابان فقال: الذى فى یده الیمنى ھذا الكتاب من رب العالیین فیه اسماء اھل الجنة واسماء آبائھم وقبائلھم ثم اجمل على آخرھم فلا یزاد فیھم ولا ینقص منھم ابدا اثم قال للذى فى شماله مثله فى اھل النار.50
حضور کاایک ہی مجلس میں روز قیامت تک کے احوال و واقعات کابیان فرمانا آپ کا عظیم معجزہ ہے اور آپ کی شانِ جوامع الکلم (طویل کلام کو چند جملوں میں بیان کرنا) کا آئینہ دار ہے۔ اوراس کی مثال ایک دوسری جہت سے عبداﷲ بن عمرو بن عاص کی حدیث میں ہے جسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے کہ حضور ہمارے پاس تشریف لائے درآنحالکہ آپ کے ہاتھ میں دو کتابیں تھیں۔ دائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں فرمایا :یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے ہے اس میں اہل جنت اور ان کے آباء اور ان کے قبیلوں کے نام ہیں اور ان پر کبھی بھی نہ کوئی نام زیادہ ہوسکتا ہے اور نہ کوئی نام کم ہوسکتا ہے۔ پھر آپ نے بائیں ہاتھ والی کتاب کے بارے میں اہل دوزخ کی نسبت اسی کی مثل بیان فرمایا۔
امام بدرالدین عینی حنفی اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
وفیه دلالة على انه اخبر فى المجلس الواحد بجمیع احوال المخلوقات من ابتدائھا الى انتھائھا.51
اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضور نے ایک ہی نشست میں تمام مخلوقات کے ابتداء سے انتہاء تک تمام احوال کی خبر دے دی۔
اسی کی توضیح کرتے ہوئےامام طیبی فرماتے ہیں:
اى اخبرنا مبتدئاً من بدء الخلق حتى انتھی الى دخول اھل الجنة الجنة ووضع الماضى موضع المضارع للتحقق المستفاد من قول الصادق الامین ودل ذلك على انه اخبر بجمیع احوال المخلوقات منذ ابتدئت الى ان تفنى الى ان تبعث.52
یعنی آپ نے ہمیں مخلوق کی پیدائش سے لے کر لوگوں کے جنت میں داخل ہونے تک کے بارے میں خبر دے دی اور یہاں ماضی مضارع کی جگہ آیا ہے ۔صادق اور امین نبی کے فرمان گرامی سے حاصل ہونے والے تحقق کی وجہ سے یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور نے تمام مخلوقات کے تمام احوال از ابتدا تا انتہا اوردوبارہ اٹھائے جانے تک کے بارے میں خبر دے دی۔
ان مذکورہ بالا تمام روایات سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم کے علم کی وسعت بے انتہاء ہے ۔صرف اس کا موازنہ مخلوقات یا معلومات سےکرنا عقلِ انسانی اور بساطِ بشری سے واراء الوراء ہے۔صحابہ کرام اور ائمہ کے اقوال سے اتنی بات تو واضح الثبوت ہے کہ تخلیقا ابتداء تا انتہاء کا علم رسول مکرم ومحتشم کو دیدیا گیا ہے اور جس کا اظہار احادیث مبارکہ میں ہووا ہے اور رسول اکرم کی موجود پیشن گوئیاں بھی اس کا واضح اور منہ بولتا ثبوت ہے۔
شرح صدر کے لفظی معنی ہیں کھول دینا اوریہ ہدایت کا آخری مرتبہ ہےکہ اس مرتبے میں تمام حقائقِ ملک وملکوت، لاہوت وجبروت منکشف ہوجاتے ہیں اورزبان اسرارِ غیب کی کنجی اور دل خزانہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس کے متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَك صَدْرَك153
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیا۔
حضرت ابراہیم بن طہمان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید سےاﷲ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں " اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ " پوچھاتو انہوں نے فرمایا کہ مجھے حدیث بیان کی گئی قتادہ سے کہ انہوں نے حضرت انس سے روایت کیا :
انه قد شق بطنه یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم من عند صدره الى اسفل بطنه فاستخرج منه قلبه فغسل فى طست من ذھب ثم ملى ایمانا وحكمة ثم اعید مكانه.54
حضور نبی کریم کا سینے سے پیٹ کے نیچے تک چاک کیاگیا۔اس میں سے آپ کا دل نکالا گیا پھر سونے کے تھال میں دھوکر اس میں ایمان اور حکمت بھردی گئی اس کے بعد اسے دوبارہ اپنی جگہ پر لگادیا گیا۔
حضرت عتبہ بن عبد بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اﷲ سے سوال کیا تھا کہ یا رسول اﷲ ! آپ کے ابتدائی حالات کیا تھے؟تو حضور اکرم نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:
كانت حاضنتى من بنى سعد بن بكر فانطلقت انا وابن لھا فى بھم لنا ولم ناخذ معنا زادا فقلت: یا اخى! اذھب فاتنا بزاد من عند امنا فانطلق اخى ومكثت عند البھم فاقبل الى طیران ابیضان كانھما نسران قال احدھما لصاحبه: اھو ھو؟ قال: نعم. فاقبلا یبتدرانى فاخذانى فبطحانى للقفا فشقا بطنى ثم استخرجا قلبى فشقاه فاخرجا منه علقتین سوداوین. فقال احدھما لصاحبه: ائتنى بماء ثلج فغسلا به جوفى. ثم قال: ائتنى بماء برد فغسلا به قلبى. ثم قال: ائتنی بالسكینة فذراھا فى قلبى. ثم قال احدھما لصاحبه: حصه فحاصه وختم علیه بخاتم النبوه.
مجھے بنو سعد بن بکر کی ایک خاتون دودھ پلاتی تھی کہ ایک دن میں اور اس کا بیٹا بکری اور بچوں میں باہر کھیل رہے تھے۔ ہم اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز ساتھ لے کر نہیں گئے تھے تومیں نے کہا: اے میرے بھائی جان! آپ امی کے پاس جاؤ اور ان سے کوئی چیز لے کر آؤ۔ میرا بھائی چلاگیا اور میں وہیں بکری کے بچوں کے ساتھ ٹھہرگیا اور میں نے دیکھا کہ میری طرف دو سفید پرندے آئے جیسے کہ وہ چیلیں ہیں۔ دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : کیا یہ وہی ہے؟ دوسرے نے بتایا : ہاں! یہی ہے۔ دونوں جلدی جلدی آگے آئے اور انہوں نے مجھے پکڑ کر سیدھا چت لٹایا اورانہوں نے میرا پیٹ چاک کردیا۔پھر میرا دل نکالا اور اس کو چیر کر اس میں سے انہوں نے دو سیاہ خون کے بستہ(جمےہوئے) ٹکڑے نکالے اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا :مجھے برف کا پانی دو۔ انہوں نے اس کے ساتھ میرے پیٹ کو دھویا پھر کہا: ٹھنڈا پانی دوپھر ا س سے انہوں نے میرے دل کو دھویا۔ اس کے بعد اس نے کہا : سکینہ لے آؤ لہٰذا انہوں نے اسے میرے دل میں چھڑک دیا۔ اس کے بعد ایک نے دوسرے سے کہا: اب اس کو سی دو، بند کردوپس اس نے بند کردیااوراس پر نبوت کی مہر لگادی۔
ابو الفضل نے بھی اسی طرح روایت کیاہے۔55 شرح صدر کی دولت اتنی بڑی ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اﷲ جیسے اولو العزم پیغمبر اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔چنانچہ انکی دعا کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں یوں بیان فریا ہے:
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِى25 56
(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیےمیرا سینہ کشادہ فرما دے۔
یعنی انشراح صدر کی دعاخود حضرت موسی نے مانگی ۔لیکن قربان سیدنا محمد رسول اللہ کے کہ جنہیں رب کریم نے یہ دولت بن مانگے عطا فرمائی۔شیخ ابو علی دقاق "حبیب" اور "کلیم" کے شرح صدر پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:
كان موسى مریداً وكان نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم مرادا.57
حضرت موسیٰ مرید تھے(کہ انہوں نے عرض کی "رب اشرح لی صدری" )ہمارے نبی کریم مراد تھے(کہ آپ سے فرمایا گیاکہ اے محبوب کیا ہم نے آ پ کے سینہ کو آپ کے لیے نہیں کھول دیا)۔
کتب ِ سیر واحادیث میں شق صدر کی تعدادچار مرتبہ مذکور ہوئی ہےجو بالترتیب درجِ ذیل ہے:
پہلی بار اس وقت جب رسول مکرم زمانہ طفولیت میں تھے۔58دوسری بار اس وقت جب نبی مکرم دس سال کی عمر مبارک میں پہنچے۔ 59تیسری بار شقِ صدر زمانہ بعثت کے وقت ہوا60اور چوتھی بار معراج کے سفر سے پہلےوقوع پذیر ہوا۔61
زمانہ طفولیت میں جب آپ حضرت حلیمہ کی پرورش میں تھے اس وقت آپ کی عمر مبارک چار سال تھی (عمر کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں)۔اس کا مختصراً قصہ یہ ہے کہ آپ اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے جنگل گئے تھے کہ اچانک آپ کا رضاعی بھائی عبداﷲ دوڑتا ہوا حضرت حلیمہ کے پاس آیا اور کہا کہ میرے قریشی بھائی کو دو سفید پوش آدمیوں نے لٹاکر ان کا شکم مبارک چاک کردیا ہے اور میں ان کو اسی حال میں چھوڑ کر آیا ہوں ۔یہ سنتے ہی حضرت حلیمہ اور ان کے شوہر جنگل کو دوڑے اور دیکھا کہ آپ بیٹھے ہیں اور رنگ مبارک متغیر ہے۔ آپ سے دریافت کیا کہ کیا واقعہ ہوا؟ آپ نے بتلادیا، حضرت حلیمہ سعدیہ آپ کو لے کر گھر واپس آگئیں۔ان فرشتوں نے شق صدر کے وقت یہ عمل کئے تھے:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اتاہ جبریل وھو یلعب مع الغلمان فاخذه فصرعه فشق عن قلبه فاستخرج القلب فاستخرج منه علقة قال: ھذا حظ الشیطان منك ثم غسله فى طست من ذھب بماء زم زم ثم لامه ثم اعاده فى مكانه وجاء الغلمان یسعون الى امه یعنى ظئره فقالوا: ان محمداً قد قتل فاستقبلوه وھو منتقع اللون قال انس وقد كنت ارى اثر ذلك المخیط فى صدره.62
حضور نبی کریم کے پاس حضرت جبریل آئے اورآپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔ انہوں نے آپ کو پکڑکر زمین پر لٹایا ،قلب انور شق کیا ،دل باہر نکال کراسے شق کیا اوراس سے لوتھڑا باہر نکال کر کہا: یہ آپ کے جسم اطہر میں سے شیطان کا حصہ تھا۔ پھر قلبِ انور کو سونے کے طشت میں آبِ زم زم سے دھویا پھر اسے سی دیا اور اسے اپنی جگہ لوٹا دیا ۔بچے دوڑ کر آپ کی رضاعی امی کے پاس گئے انہوں نے کہا: محمد عربی کو شہید کردیا گیا ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آئے تو آپ کا رنگ متغیر تھا۔حضرت انس فرماتے ہیں: میں سیئےہوئے کے اثرات آپ کے سینہ اقدس پر دیکھتاتھا۔
اس حوالہ سے حضرت اُبی بن کعب فرماتے ہیں:
ان اباھریرة كان جریا على ان یسال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عن اشیاء لا یساله عنھا غیره فقال: یا رسول اللّٰه! ما اول مارایت فى امر النبوة؟ فاستوى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جالسا وقال: لقد سالت ابا ھریرة انى لفى صحراء ابن عشر سنین واشھر واذا بكلام فوق راسى واذا رجل یقول لرجل: اھو ھو؟ قال: نعم. فاستقبلانى بوجوہ لم ارھا لخلق قط وارواح لم اجدھا من خلق قط وثیاب لم ارھا على احد قط فاقبلا الى یمشیان حتى اخذ كل واحد منھما بعضدى لا اجد لاحدھما مساً. فقال احدھما لصاحبه: اضجعه. فاضجعانى بلا قصر ولا ھصر وقال احدھما لصاحبه: افلق صدره. فھوى احدھما الى صدرى ففلقھا فیما ارى بلا دم ولا وجع فقال له: اخرج الغل والحسد. فاخرج شیئا كھیئة العلقة ثم نبذھا فطرحھا فقال له: ادخل الرافة والرحمة. فاذا مثل الذى اخرج یشبه الفضة ثم ھز ابھام رجلى الیمنى فقال: اغد واسلم. فرجعت بھا اغدو رقة على الصغیر ورحمة للكبیر.63
حضرت ابوہریرہ اس حوالے سے بڑے جری تھے کہ نبی کریم سے ایسے ایسے سوالات پوچھ لیتے تھے جو دوسرے لوگ نہیں پوچھ سکتے تھے ۔چنانچہ ایک مرتبہ انہو ں نے یہ سوال پوچھا : یا رسول اﷲ ! امر نبوت کے حوالے سے آپ نے سب سے پہلے کیا دیکھا تھا؟ نبی کریم یہ سوال سن کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا: ابوہریرہ ! تم نے اچھا سوال پوچھا۔ میں دس سال چند ماہ کا تھا کہ ایک صحرا میں پھر رہا تھا کہ اچانک مجھے اپنے سر کے اوپر سے کسی کی باتوں کی آواز آئی ۔میں نے اوپر دیکھا تو ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ یہ وہی ہے؟ اس نے جواب دیا ہاں۔ چنانچہ وہ دونوں ایسے چہروں کے ساتھ میرے سامنے آئے جو میں نے اب تک کسی مخلوق کے نہیں دیکھے تھے۔ ان میں سے ایسی مہک آرہی تھی جو میں نے اب تک کسی مخلوق سے نہیں سونگھی تھی اور انہوں نے ایسے کپڑے پہن رکھے تھے جو کبھی کسی کے جسم پر نہ دیکھے تھے۔وہ دونوں چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور ان میں سے ہر ایک نے مجھے ایک ایک بازو سے پکڑ لیا لیکن مجھے اس سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : اسے لٹادو۔ چنانچہ ان دونوں نے مجھے بغیر کسی کھینچا تانی اور تکلیف کے لٹادیا۔پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : ان کا سینہ چاک کردو۔چنانچہ اس نے میری آنکھوں کے سامنے میرا سینہ اس طرح چاک کردیا کہ خون نکلا اور نہ ہی مجھے تکلیف ہوئی پھر پہلے نے دوسرے سے کہا : اس میں سے کینہ اور حسد نکال دو چنانچہ اس نے خون کے جمے ہوئے ٹکڑے کی طرح کوئی چیز نکال کر پھینک دی۔پھر اس نے دوسرے سے کہا : اس میں نرمی اور مہربانی ڈال دو۔ چنانچہ چاندی جیسی کوئی چیز لائی گئی (اور میرے سینے میں انڈیل دی گئی) ۔پھر اس نے میرے دائیں پاؤں کے انگوٹھے کو ہلاکر کہا جاؤ اور سلامت رہوچنانچہ میں اس کیفیت کے ساتھ واپس آیا کہ چھوٹوں کے لیےنرم دل اور بڑوں کے لیےرحم دل تھا۔
اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے ایک مہینہ اعتکاف بیٹھنے کی نذر مانی۔ اتفاق سے وہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا تو ایک دن آپ باہر نکلے اورآپ نے حضرت جبریل کو دیکھا کہ ان کا ایک پر مشرق کی طرف اور دوسرا مغرب کی سمت تھا۔آپ نے فرمایا:انہوں نے مجھ سے کلام کیا حتیٰ کہ میں ان سے مانوس ہوگیا پھر انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا۔میں وعدہ کے مطابق آیا مگر وہ کچھ دیر سے آئے تو میں واپس آناہی چاہتا تھا کہ میں نے انہیں اور حضرت میکائیل کو دیکھ لیا کہ انہوں نے افق کو گھیر رکھا تھا ۔حضرت جبریل نیچے اترے اور حضر ت میکائیل آسمان اور زمین کے مابین تھے ۔ آگے روایت میں مذکور ہے:
فاخذنى جبریل فالقانى لحلاوة القفا ثم شق عن قلبى فاستخرجه ثم استخرج منه ما شاء اللّٰه ان یستخرج ثم غسله فى طست من ماء زمزم ثم أعاده مكانه ختم فى ظھرى حتى وجدت مس الخاتم فى قلبى.64
حضرت جبریل نے مجھے پکڑا اورمجھے گُدّی کے بل زمین پر لٹایا۔ میرا دل انور شق کیا پھر اس سے وہ کچھ نکالا جو کچھ رب تعالیٰ نے چاہا۔ پھر اسے سونے کے طشت میں آبِِ زم زم سے دھویا پھر اسی جگہ لوٹادیا۔پھر میری کمر پر مہر نبوت لگائی حتیٰ کہ میں نے مہر نبوت کو اپنے دل میں محسوس کیا۔
اس حوالہ سےحضرت انس حضرت ابوذر غفار ی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
فرج عن سقف بیتى وانا بمكة فنزل جبریل ففرج صدرى ثم غسله بماء زمزم ثم جاء بطست من ذھب ممتلى ء حكمة وایمانا فافرغه فى صدرى ثم اطبقه ثم اخذ بیدى فعرج بى الى السماء الدنیا.65
میرے گھر کی چھت میں شگاف کیا گیا اور میں اس وقت مکہ میں تھا۔ پھر حضرت جبریل نازل ہوئے اور میرے سینہ کو شق کیا پھر انہوں نے اس کو زم زم کے پاس سے دھویا۔ پھر وہ سونے کا طشت لے کر آئےجو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا پھر اس کو میرے سینہ میں انڈیل دیا اور سینہ کو بند کردیا ۔پھر میراہاتھ پکڑکرمجھے آسمان دنیا کی طرف چڑھایا۔
شق صدر کے بارے میں جتنی روایات ہیں جن میں قلب مطہر کے نکالنے کا تذکرہ ہے انہیں کسی تعرض کے بغیر ہی تسلیم کرنا ضروری ہے ۔انہیں حقیقت سے پھیرنا درست نہیں کیونکہ رب تعالیٰ میں یہ قدرت ہے اس میں سے کچھ بھی محال نہیں ۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام آپ کے سینہ اقدس میں سوئی کے نشانات دیکھا کرتے تھے۔علامہ ابن منیر نے کہا ہے کہ آپ کا شق صدر ہوا اور آپ نے اس پر صبر کیا ۔یہ عمل اس عمل کی جنس سے ہے جس میں حضرت اسماعیل کو آزمایا گیا بلکہ اس سے جلیل تر اور مشکل تر ہے ۔کیونکہ وہ معاریض تھیں یہ حقیقت ہے۔ شق صدر بھی بار بار ہوااور آپ یتیم تھے، معصوم بچپن میں تھے اوراپنے اہل خانہ سے دور تھے۔66
امام سبکی سے سوال کیا گیا کہ وہ سیاہ لوتھڑا کیا تھا جو آپ کے قلب مطہر سے شق صدر کے وقت نکالا گیا۔ نیز فرشتے کے اس قول کا مفہوم کیا ہے یہ آپ میں سے شیطان کا حصہ تھا ؟توانہوں نے جواب دیا کہ یہ لوتھڑا بشر کے قلوب میں رب تعالیٰ پیدا فرماتا ہے۔ اسی میں ہی ابلیس وسوسہ سازی کرتا ہے اسے آپ سے ختم کردیا گیا۔ اب آپ میں ایسی جگہ نہ تھی جس میں شیطان کچھ وسوسہ کرسکتا ۔حدیث پاک کا یہی مفہوم ہے ورنہ آپ کے جسم اطہر میں شیطان کا کوئی حصہ نہ تھا فرشتے نے جو کچھ پھینکا تھا وہ ایسا امر تھا جو بشری جبلات میں شامل تھا۔
امام سبکی سے پوچھا گیا رب تعالیٰ نے آپ کی مبارک ذات میں یہ لوتھڑا پیدا کیوں کیا تھا؟ کیا ممکن نہ تھا کہ رب تعالیٰ آپ کو اس کے بغیر ہی تخلیق فرمادیتا؟ انہوں نے فرمایا یہ انسانی اجزاء میں سے تھا۔اس کی تخلیق انسانی تخلیق کی تکمیل کے لیے تھی اوراس کی تخلیق ضروری تھی لیکن کرامت ربانیہ کی وجہ سے اسے اتار کر پھینک دیا گیا ۔بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر رب تعالیٰ آپ کو اس کے بغیر تخلیق فرماتا تو لوگوں کو اس کی حقیقیت سے آگاہی نہ ہوسکتی۔رب تعالیٰ نے حضرت جبریل کے ہاتھوں اسے عیاں کیا تاکہ آپ کے باطن کا کمال متحقق ہوسکے جیسے کہ آپ کے ظاہر کا کمال عیاں تھا۔67
مذکورہ بالا روایت سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نبی اکرم کا شق صدر کسی شیطانی حصہ کو ختم کرنے کے لیے یا علیحدہ کرنےکےلیے کیا گیا تھا۔کیونکہ نبی اکرم سید الانبیاء ہیں اور انبیاء کرام کی حالت تو یہ ہے کہ انہیں بیداری کے وقت تو بہت دور کی بات نیند کے دوران بھی شیطان کچھ نہیں کرسکتاکہ ہر نبی احتلام سے محفوظ ہوتا ہی اسی وجہ سے ہے کہ شیطان کا ان پر کوئی بس نہیں ہوتا۔اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن عباس فرماتے ہیں:
ما احتلم نبى قط انما الاحتلام من الشیطان.68
"کسی نبی کو احتلام نہیں ہوا کیونکہ احتلام شیطان کی طرف سے ہے۔"
تو جب جماعتِ انبیاء کرامکا یہ عالم ہے تو سید المرسلین اور خاتم الانبیاء کا عالم اس سے کئی گنا بلند و بالا ہے۔البتہ شق صدر تعظیم وتوقیر کے لیے ہو اتھا۔چنانچہ شیخ ابی حمزۃ فرماتے ہیں کہ شق صدر اور آپ کا دل مطہر کو دھونا یہ آپ کے تعظیم کے لیے تھا۔اسی حوالہ سےرب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ یعَظِّمْ شَعَاۗیرَ اللّٰه فَاِنَّھا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ3269
اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقوٰی میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقوٰی نصیب ہوگیا ہو)۔
اس پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام یوسف صالحی تحریر فرماتے ہیں:
فكان الغسل له صلى اللّٰه علیه وسلم من ھذا القبیل واشارة لامته بالفعل بتعظیم الشعائر كما نص علیه القول.70
آپ کے سینہ اقدس کا دھونا اسی قبیل سے تھا۔ آپ کی امت کے لیے یہ بالفعل اشارۃ تھا کہ وہ شعائر اﷲ کی تعظیم کرے جس طرح کہ انہیں بالقول حکم دیا گیا تھا۔
اسی حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے امام دارمی روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے آپ کے پیٹ مبارک کو چیر دیا پھر حضرت جبریل نے فرمایا:
قلب وكیع فیه اذنان سمیعتان وعینان بصیرتان محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم المقفى الحاشر خلقك قیم ولسانك صادق ونفسك مطمئنة. قال ابو محمد: وكیع یعنى شدید.71
یہ بہت شدید( عمدہ) دل ہے ۔اس میں دو کان ہیں جو سن لیتے ہیں اوردو آنکھیں ہیں جو دیکھ لیتی ہیں۔ حضرت محمد رسول اﷲ اﷲ کے رسول ہیں۔ یہ سب سے آخر میں تشریف لائے ہیں اور یہی حشر کرنے والے ہیں (اے محمد ) آپ کے اخلاق عالی ہیں۔آپ کی زبان سچی ہے اور آپ کا نفس مطمئن ہے۔
نبی اکرم کا شرح صدر گویا وسعت علمی کے لیے اور ہدایت کے اعلی ترین مقام و مرتبہ پر فائز کرنےکےلیے چار بار معرضِ وجود میں آیا۔جس میں رسول اللہ کے قلبِ اطہر کو بھی چیرا گیا اور اسے مزید مزکی و مصفی کیا گیا۔
انسان جو نوع مخلوقات میں سب سے مکرم و محتشم مخلوق مانی جاتی ہے تو اس کی وجہ فقط اس کی عقل ہے۔جس میں جتنی زیادہ عقل ہوتی ہے وہ معاشرہ میں اتنا ہی اونچا مقام کا حامل ہوتا ہے۔لیکن عقلِ انسانی کی بھی کچھ حدود ہیں جن سے باہر نکل کر وہ بھی کلی طور پر ناقابل التفات ہو کر رہ جاتی ہے۔اس مقام کی جن گتھیوں اور مشکلات کے آگے عقلِ انسانی ہار مان کر بے بس وبےکس ہوجاتی ہے تو ان گتھیوں کے سلجھانےکے لیے وحیِ ربانی کا در ہوتا ہے اور یہ وحی ربانی انسانی رہنمائی کے لیے اور مشکل سے مشکل ترین گتھیوں کے لیے ایک حل نہیں بلکہ ہزارہا حل پیش کرتی ہے۔جن اشخاص پر یہ وحی ربانی اتاری جاتی ہے وہ باقی افرادِ انسانی میں سے بے حدو بے حساب ممتاز و مشرف ہوتے ہیں کہ جن کے خَلق سے لیکر خُلق تک ،دنیا میں آنے سے لیکر واپس جانے تک،خلوت سے جلوت تک،زندگی گزارنے سے زندگیاں گزروانے تک کے ہر ہر معاملہ میں نوعِ انسانی کے لیے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے خزانوں کےانبار موجود ہوتے ہیں۔جب اس جماعت اولوالعزم کا یہ کمال ہے تواس جماعت ِ حاملینِ وحیِ ربانی کے سالار ،ان واصلین ِ احکامِ ربانی کے سرداراوران نجات دہندگانِ عالم کے امام حضور اشرفِ کائنات احمدمختار سیدنا محمد رسو ل اللہ کے خَلق اور خُلق کا اندازہ انسانی عقل و خردو دانش سے بعید از بعید تر ہے۔اسی طرح صاحبِ لولاک کے قلبِ مبارک و مصفی ومزکی کی وسعتِ علمی،بیداریِ قلبی اور شرحِ صدری بھی اعلی و ارفع وامجد و اعظم ہے۔ مذکورہ بالا صفحات میں صرف چند چیزوں کی طرف اس حوالہ سے توجہ دلائی گئ ہے ورنہ اس کابیان کرنا اورتحریر کرنا تو بہت دور کی بات ہے صرف سمجھنا ہی وراءِ عقلِ انسانی ہے۔