اللہ تبارک وتعالی نے اس کائنات رنگ وبو میں کئی چیزیں پیدا فرمائیں پھر ان تمام اشیاء میں مختلف صفات کو ودیعت فرمایا جو اپنے نقطہ کمال پر پہنچنے کے بعد لوگوں کو دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔ آہستہ آہستہ کسی چیز کی تربیت کرکے اس کو کمال کی حد تک پہنچانا یہ سنت اللہ ہے اور یہ سنت الہیہ انسان کو اس کائنات کے ذرہ ذرہ میں نظر آتی ہے۔بالکل اسی طرح نبی اکرم کی بھی اللہ رب العزت نے اسی قانون کے تحت تربیت فرمائی۔چنانچہ آپ کی ولادت سے قبل آپ کے والد محترم کا ا س دنیا فانی سے رخصت ہوجانا ،ولادت کے بعد چھ برس کی صغرِ سنی میں والدہ محترمہ کا وصال پر ملال،پھر دو سال بعد دادا محترم کا اور مزید کچھ عرصہ کے بعد آپ کے چچا حضرت زبیر کا اس دنیا فانی سے رخصت ہوجانااسی تربیت الہیہ کا حصہ تھا کہ ان سب حالات وحادثات کے باوجود آپکا کردار مثل ماہتاب ہونا اور پھر پوری قوم اور گرد و نواح میں تمام لوگوں کا مونس و غمخوار ہونا بھی اسی رب العزت کی ربوبیت کی زندہ و جاوید مثال ہے۔بالکل اسی طرح آپ کی نشو نما،جسمانی خدو خال،ظاہری وضع و قطع ،باطنی نظافت و لطافت،با جمال حسن و کردار یہ سب اور بالخصوص قبیلہ بنی سعد میں آپ کی پرورش اور اس کے آپکی زبان مبارک اور لہجہ مبارک پر مرتب ہونے والے اثرات سب مل کر ایک ہی چیز کی نشانی و علامت ہیں کہ اللہ واحد الملک ہی ہے جو مخلوقات کی تربیت فرماکر انہیں حد کمال تک پہنچاتا ہے۔
قبیلہ بنو سعد میں آپ کی پرورش نے آپ کے زبان ولہجہ مبارک پر بہت زبردست قسم کے اثرات مرتب کیے ہیں اور آپ نے خود اس بات کو بیان بھی فرمایا ہے۔چنانچہ اس بارے میں روایت میں منقول ہے:
قال رسول اللّٰه: أنا أعربكم أنا من قریش ولسانى لسان بنى سعد بن بكر.1
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:میں تم سب سے عربی میں بلیغ ہوں کہ میں (نسبا)قریش سے ہوں اور (مزید)میری زبان(کا لب ولہجہ) بنو سعد بن ابی بکر کی زبان ہی (کے لب وہ لہجہ)کی طرح ہے۔
اسی طرح حضرت جابر سے مروی روایت میں منقول ہے:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: أنا النبى لا كذب، أنا ابن عبد المطلب، أنا أعرب العرب، ولدتنى قریش، ونشأت فى بنى سعد بن بكر، فأنى یأتینى اللحن؟.2
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:میں بلا شبہ نبی اللہ ہوں،میں عبد المطلب کا پوتا ہوں،میں سب سے بلیغ عربی ہوں کہ میری ولادت قریش میں ہوئی ہے اور میری نشو نما بنو سعد بن بکر میں ہوئی ہے (جو عرب کا سب سے بڑھ کر بلیغ قبیلہ ہے)تو میرے بولنے میں کسی قسم کی کوئی غلطی کیسے ہوسکتی ہے؟
تو واضح ہوتا ہے کہ آپ نے خود اس بات کا اظہار کیا ہے کہ آپ سب سے افصح العرب تھے۔نبی کریم کی مبارک زبان نہایت پاکیزہ، علم وادب، فصاحت وبلاغت، حق وصداقت اور لطف ومحبت کا منبع ومظہر تھی۔ آپ کا کلام شیریں،حق و باطل میں فرق کرنے والا، واضح البیان اور ہر قسم کے عیوب یعنی افراط و تفریط، جھوٹ، غیبت، بدگوئی اور فحش کلامی وغیرہ سے منزہ اور پاک تھا۔
اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم کی زبان مبارک کو تضاد بیانی، تحریف کلام اور درازگوئی سے محفوظ رکھا کیونکہ بات کا بڑھا کر بیان کرنا جھوٹ کی طرف منسوب اور صداقت سے دور ہوتا ہے جبکہ نبی کریم بچپن اور جوانی میں ہمیشہ صدق اور راست گوئی کے ساتھ مشہور تھے یہاں تک کہ اعلانِ نبوت کے بعد دشمنوں کی جانب سے صادق اور امین کے القابات سے پکارے جاتے تھے۔
دعوتِ اسلام سے قبل قریش کو آپ کی صداقت پر کامل یقین تھا لیکن جب آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو اعلانیہ آپ کی تکذیب کرنے لگے جس کی وجوہات مختلف تھیں۔ کسی نے ازراہ حسد جھٹلایا، کسی نے عناد کے باعث تکذیب کی اور کسی نے اس بات کو بعید سمجھا کہ آپ نبوت ورسالت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔اگر ان کے حاشیہ خیال میں اظہار نبوت سے پہلے کا آپ سے منسوب ادنیٰ سا جھوٹ بھی ہوتا تو وہ اس جھوٹ کو اعلان نبوت کے بعد ضرور تکذیب رسالت کی دلیل بناتے ۔جو شخص اوائل عمر میں اس قدر راست گو ہو تو لامحالہ وہ پختہ عمر میں اس سے کہیں زیادہ سچا ہوگا اور جو اپنی ذات کے بارے میں ہر شائبہ کذب سے معصوم اور پاک ہو وہ حقوق اﷲ کے بارے میں ضرور سچا اور راست باز ہوگا۔
نبی کریم خاص ضرورت اور حاجت کے وقت گفتگو فرماتے اور اس میں بھی قدر کفایت پر اقتصار فرماتے۔نہ فضول گوئی سے کام لیتے اور نہ بالکل خاموش رہتے۔ ان دوحالتوں یعنی حاجت اور کفایت کے علاوہ آپ سب لوگوں سے زیادہ کم گو،خوش گفتار اور خوش تدبیر تھے۔ اسی وجہ سے آپ کا کلام ہر عیب و اختلال سے محفوظ رہا اور دلکشی اور رونق اس پر غالب رہی۔ زبانیں اس کی حلاوت اور مٹھاس سے لذت اندوز ہوتی رہیں یہاں تک کہ وہ دلوں میں نقش ہوگیا اور کتابوں کی زینت بنتا چلاگیا۔حالانکہ یہ بات مسلم ومحقق ہے کہ کثرت کلامی لغزش سے خالی نہیں ہوتی اور یہ بھی مسلمات میں سے ہے کہ فضول گوئی سے اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے ۔چنانچہ واقعہ میں منقول ہے کہ اثنائے کلام ایک اعرابی مسلسل بولتے ہی جارہا تھا تو حضور اکرم نے فرمایا:
یا اعرابى كم دون لسانك من حجاب ؟قال: شفتاى واسنانى. فقال صلى اللّٰه علیه وسلم: ان اللّٰه یكره الانبعاق فى الكلام فنضر اللّٰه وجه امرى ء قصر من لسانه واقتصر على حاجته.3
اے اعرابی! تمہاری زبان کے سامنے کتنے پردے ہیں؟ اس نے جواب دیا ہونٹ اور دانت۔ آپ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ کلام کی تیزی اور زیادتی کو ناپسند فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ اور شاداب رکھتا ہے جو اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہے اور بقدر حاجت گفتگو کرتا ہے۔
جب آپ گفتگو فرماتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے نور کے موتیوں کی جھڑی لگ گئی ہے اور یاقوت کی طرح موتی برس رہے ہیں۔چنانچہ حضرت اُم معبد بیان فرماتی ہیں:
كان منطقه خزرات نظم ینحدرن.4
آپ ﷺکی گفتگو کے وقت یوں محسوس ہوتا جیسے موتیوں کا ایک ہار ہے جو نیچے ڈھلک رہا ہے۔
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم افلج الثنیتین اذا تكلم روى كالنور یخرج من بین ثنایاه.5
حضور نبی کریم کے سامنے کے دانتوں کے درمیان موزوں فاصلہ تھا اور جب گفتگو فرماتے تو ان ریخوں سے نور کی شعاعین پھوٹتی دکھائی دیتیں۔
گفتگو کے وقت آپ کے دہن مبارک سے جو نور کی جھڑیاں لگتی تھیں ان کے بارے میں حضرت ابوقرصافہ سے یوں مروی ہے:
بایعنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انا وامى وخالتى فلما رجعنا قالت امى وخالتى: یا بنى ما راینا مثل ھذا الرجل احسن وجھا ولا انقى ثوبا ولا الین كلاما وراینا كالنور یخرج من فیه.6
جب میں میری والدہ اور خالہ حضور نبی کریم کے دست اقدس پر بیعت کے بعد گھر لوٹے تو میری خالہ اور والدہ مجھے مخاطب ہوکر کہنے لگیں: اے بیٹا! ہم نے آج تک چہرہ کے لحاظ سے حسین، نظافت لباس اور نرمی کلام کے اعتبار سے اس ہستی جیسا کوئی شخص نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کرتے وقت آپ کے مبارک منہ سے نور کی جھڑی لگ جاتی۔
یعنی آپ کی گفتگو کا لہجہ اور طرز ایسا ہوتا تھا کہ آپ سے پہلی مرتبہ ملنے والا آپ کے کلام کی تعریف کیے بغیر رہ نہیں پاتا۔
نبی کریم تمام انسانوں سے زیادہ فصیح اللسان اور انتہائی صاف بیان تھے اورآپ کے کلام میں کمال اختصار وجامعیت، الفاظ میں فصاحت ووضاحت اور مفہوم ومعانی میں صحت پائی جاتی تھی۔ آپ کی گفتگو تکلف اور بناوٹ کی قباحت سے پاک تھی اورآپ کبھی لگی لپٹی اور اُلجھی ہوئی بات نہیں کہتے تھے۔آپ کا سارا کلام شروطِ بلاغت کو جامع اور ہر طریقِ فصاحت کو نمایاں کرنے والا تھا۔ اگر یہ کلام کسی اور کلام کے ساتھ ملایا جائے تو اپنے مخصوص اسلوب کی وجہ سے ممتاز ہوگا اور اس میں آثار ِتنافر ظاہر ہوجائیں گے اوریوں حق وباطل میں کوئی التباس نہیں رہے گا۔اس طرح کلامِ رسول کی صداقت باطل سے جدا نظر آئے گی حالانکہ آپ نے بلاغت کے حصول میں کوئی کوشش نہیں کی اور نہ اصحابِ بلاغت مثلاً خطباء، شعراء یا فصحاء کے ساتھ کبھی میل جول یا اختلاط رکھا بلکہ اس کمال کا منشاء آپ کی طبعی فطرت اور فیضان جبلت تھا اور اس بے مثال فصاحت وبلاغت کی ایک غرض و غایت تھی اور وہ ایک بہت بڑے واقعہ (نبوت) کی تکمیل وحفاظت تھی۔
حضور نبی کریم کو اﷲ تعالیٰ نے اس قدر افصح اللسان بنایا تھا کہ آپ عربی کے ہر ایک لہجہ (dialect)میں بامحاورہ کلام فرماتے تھے ۔جب آپ دوسرے لہجوں میں گفتگو فرماتے تو اس لہجہ کے قواعدِ فصاحت وبلاغت کے مطابق فرماتے کہ زبان داں بھی حیران رہ جاتے تھے۔
محدثین کرام نے تصریح فرمائی کہ جب کوئی آدمی خواہ وہ کسی قوم کا ہوتا اورآپ کے حضور حاضر ہوکر اپنے خاص علاقائی عربی لہجے میں بولتا تو آپ اسی بولی میں اس سے باتیں کرتے۔ یہ آپ کی زبان میں خداد قدرت وقوت تھی۔ چونکہ آپ تمام مخلوق کی طرف بھیجے گئے تھے لہٰذا ضروری تھا کہ آپ کو تمام مخلوق کا علم دیا جاتا اور آپ تمام مخلوق کی زبانوں کے عالم ہوتے جیسا کہ روایات میں منقول ہے۔
اسی حوالہ سے علامہ شہاب الدین خفاجی فرماتے ہیں:
ایک مرتبہ ایک وفد کی صورت میں چند لوگ کسی ملک سے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ اس وقت مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔جب وہ لوگ مسجد میں آئے تو آپ کو پہچان نہ سکے کیونکہ آپ بادشاہوں کی طرح امتیازی شان سے نہیں بلکہ صحابہ کرام میں مل جل کر بیٹھا کرتے تھےتو ان میں سے ایک شخص نے اپنی بولی میں کہا کہمن ابون اسیران(یعنی تم میں سے رسول اﷲ کون ہیں؟) حاضرین میں سے کوئی نہ سمجھا۔ توحضور نبی کریم نے انہیں جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: "اشکد اور" (یعنی "آگے آؤ") یہ سن کر وہ آگے آئے اور اپنی بولی میں جو جو پوچھتے رہے آپ اس کا جواب ان کی بولی ہی میں دیتے رہے جس کو سوائے ان کے صحابہ کرام میں سے کوئی نہ سمجھا۔ آخر انہوں نے آپ کو اﷲ کا رسول برحق تسلیم کرلیا اور بعد از قبول اسلام اپنے ملک کو واپس چلے گئے۔7
اسی طرح جب بارگاہ رسالت نبوی میں حضرت سلمان فارسی زیارت کے شوق سے آئے اور اپنی زبان یعنی فارسی میں آپ سے ہمکلام ہوئے توامام حلبی اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
جب حضرت سلمان فارسی حضور کی خدمت اقدس میں پہنچے اور اپنا کلام سنانا شروع کیا تو حضور نبی کریم نے ایک یہودی کو بطور ترجمان طلب کیا (جو عربی اور فارسی زبان کا عالم تھا) اس نے حضرت سلمان کا کلام سنا کہ حضرت سلمان نے اپنے کلام میں حضور کی تعریف اور ان لوگوں کی برائی کی تھی جو لوگوں کو حضور کے پاس جانے سے روکتے تھے مگر یہودی ترجمان نے یہ سمجھ کر کہ حضور تو فارسی جانتے نہیں کہا: اے (سیدنا)محمد( )! یہ سلمان تو آپ کو برا کہہ رہا ہے ۔آپ نے (نور الٰہی کی روشنی میں فرمایا)یہ تو ہماری تعریف اور ان کافروں کی برائی کررہا ہے جو لوگوں کو ہمارے پاس آنے سے روکتے ہیں ۔یہ سن کراس یہودی نے کہا :اے (سیدنا)محمد( )! بے شک اس سے پہلے تو میں آپ کو برا جانتا تھا مگر اب میرے نزدیک ثابت ہوگیا ہے کہ بلاشبہ آپ اﷲ کے سچے رسول ہیں ۔پس میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک آپ اﷲ کے رسول ہیں۔اس کے بعد حضور نے حضرت جبریل سے فرمایا کہ حضرت سلمان کو عربی سکھادو۔چنانچہ روایت میں مزید منقول ہے:
فقال: قل له لیغمض عینیه ویفتح فاه. ففعل سلمان، فتفل جبریل فى فیه. فشرع سلمان یتكلم بالعربى الفصیح.8
تو جبریل نے فرمایا: آپ ﷺسلمان سے کہیے کہ وہ آنکھیں بند کرلیں اور منہ کھول دیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا تو حضرت جبریل نے ان کے منہ میں لعاب دہن ڈالا، پس حضرت سلمان نے فصیح عربی بولنی شروع کردی۔(گو کہ بعض محدّثین نے اس روایت پرکلام کیا ہے لیکن کیونکہ یہ فضائل کے باب میں ہے اس لئے لائق استشہاد ہے۔)
اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو جمیع امت کی رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تھا تو آپ کوبھی انتہائی شفیق بنایا تھا۔ اور آپ کی زبان میں مٹھاس بھی اعلی درجہ کی ودیعت فرمائی ہے۔چنانچہ امام ابو سلیمان احمد خطابیفرماتے ہیں:
لما وضع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم موضع البلاغ من وحیه ونصبه منصب البیان لدینه اختار له من اللغات اعذبھا ومن الالسن افصحھا وابینھا ثم امده بجوامع الكلام التى جعلھا ردء ا لنبوته وعلما لرسالته لینتظم فى القلیل منھا علیم كثیر یسھل على السامعین حفظه ولا یؤودھم حمله ومن تتبع الجوامع من كلامه صلى اللّٰه علیه وسلم لم یعدم بیانھا.9
جب اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم کو وحی کے ابلاغ کا منصب رفیع عطا فرمایا اوراپنے دین کے امور بیان کرنے کا رتبہ عطا کیا تو آپ کے لیے وہ زبان منتخب کی جو ساری زبانوں سے شیریں تھی اور ساری زبانوں سے فصیح اور واضح تھی۔ پھر آپ کی مدد ان جوامع الکلم سے کی جنہیں آپ کی نبوت کے لیے معاون اور رسالت کی نشانی بنایا تاکہ آپ کے قلیل الفاظ سے کثیر علم نکلے جسے سامعین کے لیے یاد کرنا آسان ہو اور اسے یادکرنا انہیں بوجھل نہ بنادے ۔جس نے آپ کے کلام میں سے جوامع کی جستجو کی ہے اس پر یہ امر مخفی نہیں رہتا۔
اسی حوالہ سے امام ابن الاثیر النہایۃ کی ابتداء میں لکھتے ہیں:
وقد عرفت ایدك اللّٰه وایانا بلطفه وتوفیقه ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان افصح العرب لسانا واوضحھم بیانا واعذبھم نطقا واسدھم لفظا وابینھم لھجة واقومھم حجة. واعرفھم بمواقع الخطاب واھداھم الى طرق الصواب تاییدا الھیا ولطفا سماویا وعنایة ربانیة ورعایة روحانیة حتى لقد قال له على بن ابى طالب كرم اللّٰه وجھه وسمعه یخاطب وفد بنى نھد: یا رسول اللّٰه! نحن بنو اب واحد ونراك تكلم وفود العرب بما لا نفھم اكثره. فقال: ادبنى ربى فاحسن تادیبى وربیت فى بنى سعد. فكان صلى اللّٰه علیه وسلم یخاطب العرب على الاختلاف شعوبھم وقبائلھم وتباین بطونھم وافخاذھم وفصائلھم كلًّا منھم بما یفھمون ویحادثھم بما یعملون.ولھذا قال، صدق اللّٰه قوله: امرت ان اخاطب الناس على قدر عقولھم. فكان اللّٰه عزوجل قد اعلمه ما لم یكن یعلمه غیره من بنى ابیه وجمع فیه من المعارف ما تفرق ولم یوجد فى قاصی العرب ودانیه وكان اصحابه ومن یفد علیه من العرب یعرفون اكثر ما یقوله وما جھلوہ سالوہ عنه فیوضحه لھم.10
رب تعالیٰ اپنی توفیق سے ہماری اور تمہاری مدد کرے تم جانتے ہو کہ حضور نبی کریم زبان کے اعتبار سے سارے اہل عرب سے فصیح تھے، بیان کے اعتبار سے واضح تھے، گفتگو کے اعتبار سے شیریں تھے، الفاظ کے اعتبار سے سب سے مناسب ،لہجہ کے اعتبار سے واضح، حجت کے اعتبار سے سب سے درست تھے، آپ خطاب کے مواقع کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے ،لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف ہدایت دینے والے تھے یہ سب کچھ تائید الٰہی، عنایت ربانی اور رعایت روحانی کی وجہ سے تھا حتیٰ کہ جب آپ بنو نہد سے گفتگو کررہے تھے ۔وہ گفتگو حضرت علی سن رہے تھے انہوں نے عرض کی: یا رسول اﷲ ! ہم ایک ہی باپ کی اولاد ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ اہل عرب کے وفود کے ساتھ ایسی گفتگو کرتے ہیں جس کا اکثر حصہ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ آپ نے فرمایا: رب تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا اور ادب سکھانے میں کمال کردیا اور میں نے بنو سعد میں پرورش پائی۔اہل عرب کے خاندان، قبائل ا ورشعوب کے اختلاف کے باوجود انہیں ایسے کلام سے مخاطب فرماتے تھے جسے وہ سمجھ اور جان جاتے تھے اسی لیے آپ ﷺنے فرمایا:مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کو ان کی عقول کے مطابق مخاطب کروں۔ گویا کہ رب تعالیٰ نے آپ کو وہ علوم عطا فرمائے جو آپ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا۔ متفرق امور آپ میں جمع فرمادیے صحابہ کرام اور اہل عرب کے وفود جو آپ کے پاس آتے تھے وہ آپ کی گفتگوکا اکثر سمجھ لیتے اورجونہ سمجھ سکتے پوچھ لیاکرتے تھے اورآپ ان کے لیے اس کی وضاحت کردیتے تھے۔
یعنی رسول اکرم کو اللہ تبارک وتعالی نے عرب کے تمام لہجوں میں مہارتِ تام عطا فرمائی تھی اور اسی وجہ سے آپ تمام آنے والے وفود سے انہی کی زبان میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔اسی پر مزید روشنی ڈالتے ہوئےقاضی عیاض فرماتے ہیں:
واما فصاحة اللسان وبلاغة القول فقد كان صلى اللّٰه علیه وسلم من ذلك بالمحل الافضل والموضع الذى لا یجھل سلاسة طبع وبراعة منزع وایجاز مقطع ونصاعة لفظ وجزالة قول وصحة معان وقلة تكلف. اوتى جوامع الكلم وخص ببدائع الحكم وعلم السنة العرب فكان یخاطب كل امة منھا بلسانھا ویحاورھا بلغتھا ویباریھا فى منزع بلاغتھا حتى كان كثیر من اصحابه یسالونه فى غیر موطن عن شرح كلامه وتفسیر قوله من تامل حدیثه وسیره علم ذلك وتحققه.11
جہاں تک زبان کی فصاحت اور گفتگو کی بلاغت کا تعلق ہے تو اس میں آپ بلند رتبہ اور اعلیٰ منصب پر فائز تھے جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔ آپ جبلت کی سہولت ،طبعی انقیاد، قلیل الفاظ اور کثیر معانی کے ساتھ غریب الفاظ کے عدم اختلاط کے ساتھ ایسی گفتگو فرماتے جو ضعف تالیف سے پاک تھی۔ آپ اپنی گفتگو میں صحیح معانی کے ساتھ اور تکلف کی قلت کے ساتھ معروف تھے۔ آپ کو جوامع الکلم عطا کیا گیا تھا۔ آپ کو حکمت آموز باتوں اور عرب کی زبانوں کے علم کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ ہر قوم کو اس کی زبان میں مخاطب کرتے تھے اس کی زبان میں گفتگو فرماتے تھے۔ ان کی بلاغت کے طریقے سے انہیں جوابات دیتے تھے حتیٰ کہ صحابہ کرام اکثر آپ کی گفتگو کی تشریح کے طالب ہوتے تھے۔جس نے آپ کی احادیث طیبہ میں غور کیا اور سیرت پاک کو سمجھا اس کے لیے یہ بات ثابت ہوگئی۔
آپ کے فصیح اللسان ہونے کے متعلق امام محمد بن یوسف صالحی شامی فرماتے ہیں:
ففصاحة لسانه صلى اللّٰه علیه وسلم غایة لا یدرك مداھا ومنزلة لا یدانى منتھاھا وكیف لا یكون ذلك؟ وقد جعل اللّٰه تعالى لسانه سیفا من سیوفه یبین عنه مراده ویدعو الیه عباده، فھو ینطق بحكمة عن امره ویبین عن مراده بحقیقة ذكره. افصح خلق اللّٰه اذا لفظ وانصحھم اذا وعظ لا یقول ھجرا ولا ینطق ھذرا كلامه كله یثمر علما ویمتثل شرعا وحكما لا یتفوه بشر بكلام احكم منه فى یمقالته ولا اجزل منه فى عذوبته وخلیق بمن عبر عن مراد اللّٰه بلسانه واقام الحجة على عباده ببیانه وبین مواضع فروضه واو امره ونواھیه وزواجره ان یكون احكم الخلق تبیانا وافصحھم لسانا واوضحھم بیانا وبالجملة فلا یحتاج العلم بفصاحته الى شاھد ولا ینكرھا موافق ولا معاند.12
آپ کی زبان کی فصاحت کی وہ انتہاء تھی جسے پایا نہیں جاسکتا اور ایسا مقام ہے جس کی انتہا نہیں ہے۔ایسا کیوں نہ ہو؟جبکہ رب تعالیٰ نے آپ کی زبان اقدس کو اپنی تلواروں میں سے ایک تلوار بنایا ہے۔ جس سے آپ رب تعالیٰ کی مراد کو بیان کرتے تھے اور اس کے بندوں کو اس کی طرف دعوت دیتے تھے۔ رب تبارک و تعالیٰ کے حکم کے بارے میں آپ حکمت سے گفتگو کرتے تھے ، اس کے ذکر کی حقیقت سے اس کی مراد کو واضح کرتے تھے۔ جب آپ بولتے تھے تو ساری مخلوق سے فصیح ہوتے تھے۔ جب وعظ فرماتے تو ساری مخلوق سے زیادہ مخلص ہوتے تھے۔ آپ نہ تو بے ہودہ گوئی کرتے تھے نہ ہی ہرزہ سرائی کرتے تھے۔ آپ کا سارا کلام علم کے اعتبار سے ثمرآور ، شرع اور حکم کے مطابق ہوتا تھا ۔کوئی بشر ایسا کلام نہیں کرسکتا جو آپ کی گفتگو سے زیادہ محکم ہو،جو آپ کے کلام سے زیادہ شیریں ہو۔ آپ اس امر کےلائق تھے کہ اپنی زبان اقدس سے رب تعالیٰ کی مراد عیاں کرتے۔ رب تعالیٰ کے بندوں پر اس کی حجت قائم کرتے، اس کے فرائض اور امر ونواہی اور زواجر کو عیاں کرتے۔ آپ بیان کے اعتبار سے ساری مخلوق سے محکم تھے، زبان کے اعتبار سے فصیح تھے اور بیان کے اعتبار سے واضح تھے۔ مختصر یہ کہ آپ کی فصاحت کسی شاہد کی محتاج نہیں نہ ہی کوئی دوست یا دشمن اس کا انکار کرسکتا ہے۔
رسول اللہ کی فصاحت وبلاغت کسی عام فصیح و بلیغ کی طرح قطعا نہیں تھی چونکہ آپ اللہ تبارک وتعالی کے نبی تھے اسی وجہ سے یہ فصاحت وبلاغت انسانی طاقت سے واراء الوراء تھی۔یہی وجہ ہے اس مو ضوع کے حوالہ سے کئی لوگوں نے علیحدہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔چنانچہ اس حوالہ سے قاضی عیاض فرماتے ہیں:
واما كلامه المعتاد وفصاحته المعلومة وجوامع كلمه وحكمه الماثورة فقد الف الناس فیھا الدواوین وجمعت فى الفاظھا ومعانیھا الكتب ومنھا ما لایوازى فصاحة ولایبارى بلاغة.13
آپ کے معمول کے کلام مبارک، معروف فصاحت اور جوامع الکلم کے بارے میں لوگوں نے کئی دیوان لکھے ہیں۔ ان کے الفاظ اور معانی میں کتب تالیف کیں ہیں ۔ان میں بعض ایسے ہیں کہ فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے ان کا مقابلہ بھی نہیں ہوسکتا۔
جس وقت آپ مبعوث ہوئے تو اس وقت فصاحت و بلاغت کادور دورہ تھا اسی وجہ سے آپ کی احادیث ایسی فصاحت وبلاغت کی حامل ہیں کہ فصحاء وبلغاء اس سے عاری ہیں۔ذیل میں ایسی چند مثالیں پیش خدمت ہیں جن سے واضح ہوجائے گا کہ آپ کے فرمان منقولہ فصاحت کے سرخیل ہیں۔انہی میں سےایک فرمان مبارک میں آپ کا ارشاد ہے:
المسلمون تتكافا دماؤھم ویسعى بذمتھم ادناھم وھم ید على من سواھم.14
تمام مسلمانوں کا خون برابر ہے۔ اگر کوئی کم درجہ والا مسلمان کسی قوم کو امان دے گا یا عہد کرے گا تو سب مسلمانوں پر اس کی پابندی لازمی ہوگی۔ تمام مسلمان دشمن کے مقابلہ میں یکجا ہوں گے۔
اسی طرح حضور کا فرمان عالیشان ہے:
المسلمون كاسنان المشط. 15
مسلمان کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔
اسی طرح فصاحت سے بھرپور کلام میں حضور نے فرمایا:
لا خیر فى صحبة من لا یرى لك مثل ما ترى له.16
اس شخص کی رفاقت میں کوئی فائدہ نہیں جو اس طرح تمہارے لیے تمنا نہ کرے جس طرح تم اس کے لیے تمنا کرتے ہو۔
اسی طرح صاحب جوامع الکلم نے فرمایا:
ماھلك امرؤ عرف قدر نفسه.17
وہ شخص ہلاکت کے گڑھے میں نہیں گرتا جو اپنی قدر پہچان لیتا ہے۔
صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بشارت دیتے ہوئے ایک جملہ میں ساری کی ساری خوشیاں عطا فرماتے ہوئے حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
المرء مع من احب.18
انسان کو اس کی معیت(رفاقت) حاصل ہوگی جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
اسی طرح نئے مسلمان حضرات کوحضور نے ایک جملہ مبار ک میں دین کی اہمیت بتاتے ہوئے ارشادفرمایا:
الناس معادن كمعادن الذھب والفضة خیارھم فى الجاھلیة خیارھم فى الاسلام اذا فقھوا.19
لوگوں کے مزاج اس طرح مختلف ہوتے ہیں جس طرح سونے اور چاندی کی معدنیات ہوتی ہیں۔ ان میں سے جاہلیت میں بہترین اسلام میں بہترین ہیں جب کہ وہ سمجھ رکھیں۔
اسی طرح خیر و شر کی مدح و ذم اور ان کے نتائج کو ایک جملہ میں بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:
رحم اللّٰه عبدا قال خیرا فغنم او سكت عن شر فسلم.20
رب تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے بھلائی کی اورنفع حاصل کیا یا شر سے خاموش رہا اور محفوظ ہوگیا۔
اہل ایمان کو سب سے اعلی و ارفع درجہ پانے کےلیے تر غیب دیتے ہوئے ایک فرمان مقدس میں حضور اکرم نے یوں ارشاد فرمایا:
إن أحبكم إلى وأقربكم منى مجلساً یوم القیامة أحسنكم أخلاقاً الموطأون أكنافا الذین یألفون ویؤلفون .21
تم میں سے میرے سب سے قریب ازروئے محبت اور روزِ حشر ازروئےمقام وہ ہوگا جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں گے جن کے پہلو نرم ہوتے ہیں وہ محبت کرتے ہیں ان سے محبت کی جاتی ہے۔
اسی طرح ایک بادشاہ کو ایک ہی جملہ میں فلاح دارین کی طرف رہنمائی کرتےہوئے آپ نے یوں فرمان مبارک ارشاد فرمایا:
اسلم تسلم یوتك اللّٰه اجرك مرتین.22
اسلام لے آ سلامتی پاجائے گا رب تعالیٰ تجھے دوگنا اجر عطا کرے گا۔
عام طور پر لوگ عیش و عشرت کی زندگی نہ ہونے کوتاریکی سمجھتے ہیں اور اس تاریکی کو دور کرنے کے لیے وہ لوگ سب کچھ کرتے ہیں لیکن اصل تاریکی سے بے نیاز رہتے ہیں اور بالآخر اس میں گِھر کر تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں یعنی کفر وشرک اور معصیت کی تباہی۔اسی وجہ صاحب جوامع الکلم نے اس اندھیرے کو ایک جملہ میں بیان کرتے ہوئے اصل روشنی اور کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
الظلم ظلمات یوم القیامة.23
ظلم روز محشر کی تاریکیوں میں سے ہے۔
مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے ایک ایک فرمان عالیشان میں کئی کئی معانی ومفاہیم کا انبار مخفی ہوتا تھا جو مختلف مواقع پر مختلف حیثیات سے مختلف الحال لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔اسی طرح صحابہ کرام آپ کی لا جواب و بے مثال فصاحت کے بارے میں کہتے تھے:
ما راینا الذى ھو افصح منك .24
ہم نے کسی کو نہیں دیکھا جو آپ سے زیادہ فصیح ہو۔
اس حوالہ سے خود حضور اکرم نے فرمایا:
ومایمنعنى وانما انزل القرآن بلسانى لسان عربى مبین وانى من قریش ونشات فى بنى سعد بن بكر.25
مجھے اس سے کوئی چیزنہیں روکتی، قرآن میری زبان عربی مبین میں نازل ہوا۔ میں قریش میں سے ہوں میں نے بنو سعد میں پرورش پائی ہے۔
اس طرح دیہات کے لوگوں کی قادر الکلامی مع فصاحت اور شہریوں کے الفاظ کی فصاحت مع ان کے کلام کی رونق آپ میں جمع ہوگئی۔چنانچہ حضرت عمر فاروق نے عرض کی کہ کیا وجہ ہے کہ آپ ہم سے زیادہ فصیح ہیں؟ حالانکہ آپ ہمارے سامنے کہیں تشریف بھی نہیں لے گئے تو آپ نے فرمایا:
كانت لغة اسماعیل قد درست فجاء بھا جبرئیل فحفظنیھا.26
لغتِ اسماعیل مٹ چکی تھی حضرت جبرائیل اسے لے کر آئے میں نے اسے یاد کرلیا۔
حضرت برہّ بنت عامر ثقفیہ جو اپنی قوم کی عورتوں کی سردار تھی اس نے اپنے بھائیوں سے کہا، اے بنو عامر! کیا تم میں سے کسی نے محمد عربی کی زیارت کی ہے؟ انہوں نے کہا:
كلنا قد رایناه ایام الموسم فقالت: افیكم من سمعته یتكلم؟ قالوا: نعم. فقالت: كیف ھو فى فصاحته؟ قالوا: یا اختاه! ان اقبح مثالب العرب الكذب اما فصاحته فما ولدت العرب فیما مضى ولا تلد فیما بقى افصح منه ولا اذرب منه اذا تكلم یعجز اللبیب كلامه ویخرس الخطیب خطابه.27
ہم سب نے موسم(حج) کے ایام میں ان کی زیارت کی ہے تو اس نے پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے انہیں گفتگو کرتے دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: ان کی فصاحت کیسی ہے؟ انہوں نے کہا: ہماری بہن! جھوٹ عرب کے قبیح ترین عیوب میں سے ہے۔ لیکن آپ کی فصاحت کا یہ عالم ہے کہ نہ تو ماضی میں کوئی پیدا ہوا ہے، نہ ہی مستقبل میں کوئی ایسا شخص پیدا ہوگا جو آپ سے زیادہ فصیح ہو۔ آپ محو گفتگو ہوتے ہیں تو آپ سے خوش گفتار کوئی نہیں ہوتا۔ آپ کا کلام دانا کو عاجز اورخطیب کو خاموش کرادیتا ہے۔
حضرت محمد بن عبد الرحمن زہری نے اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ! "ایدالک الرجل امراتہ" ؟(کہ کیا مرد اپنی بیوی کو قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتا ہے؟)توحضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: "نعم اذا کان ملفجا" (کہ ہاں! جب غریب یعنی پیسے سے ہاتھ تنگ ہو)۔اس پرحضرت صدیق اکبر نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! اس شخص نے آپ سے کیا کہا؟ اور آپ نے کیا جواب دیا؟ ہم نہیں سمجھ سکے تو حضور نبی کریم نے فرمایااس نے دریافت کیا:ایما طل الرجل اھلہ؟(کہ شوہر اپنی بیوی کا کسی وقت قرض دار ہوتا ہے؟) تو میں نے جواب دیا: "نعم اذا کان مفلسا" (کہ ہاں! جب وہ نادار ہو جس کی بنا پر ان کے حقوق ادا کرنے میں تاخیر کرے )۔اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کی یارسول اﷲ میں عرب میں گھوما ہوں میں نے ان کی فصاحت سنی ہے لیکن میں نے آپ سے فصیح کسی کو نہیں سنا تو آپ نے فرمایا:
ادبنى ربى ونشات فى بنى سعد ابن بكر.28
میرے رب تعالیٰ نے مجھے ادب سکھایا ہے اور میں بنو سعد میں پروان چڑھا ہوں۔
اس وجہ سے میری فصاحت کا یہ عالم و مقام ہے۔ حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم افصح الناس وكان یتكلم بالکلام لایدرون ماھو حتى یخبرھم.29
حضور سارے لوگوں سے زیادہ فصیح تھے۔ آپ ایسے کلام میں گفتگو کرتے تھے جسے صحابہ کرام نہ جانتے تھے حتیٰ کہ آپ انہیں خود آگاہ فرمادیتے۔
آپ نہ صرف قریش، انصار اور اہل حجاز سے ہی محو گفتگو ہوتے تھے بلکہ عرب کے دیگر لوگوں کے ساتھ آپ کلام فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ کی وہ مقدس دعا جو آپ نے بنوفہد کے لیے فرمائی تھی اس پر شاہد ہے۔چنانچہ منقول ہے کہ بنوفہد وفد کی صورت میں آپکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت طہفہ بن رھم کھڑے ہوگئے اور انہوں نے قحط سالی کی شکایت کرتے ہوئے عرض کی:
یارسول اﷲ ہم تہامہ کی نشیبی زمین میں کجاؤوں میں حاضر ہوئے ہیں ۔۔۔تیل کی شیشی خشک ہوچکی ہے،نباتات سوکھ چکی ہیں ،املوج گرپڑا ہے، شاخیں خشک ہوگئی ہیں، قربانی کے جانور ہلاک ہوگئے ہیں اور کھجوریں خشک ہوگئیں ہیں۔ یا رسول اﷲ ! شرک اور ظلم سے توبہ کرکے ہم آپ کی بارگاہ میں پہنچے ہیں اور ہم نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا ہے ،شریعت اسلام کو مانا ہے جب تک کہ سمندر کی موجیں بلند ہوتی رہیں گی اور پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے۔۔۔ حضور نبی کریم نے دعا فرمائی:
اللّٰھم بارک كلھم فى محضھا ومخضھا ومذقھا وابعث رعاتھا فى الدثر بیانع الثمر وافجر لھم الثمد وبارك لھم فى المال والولد من اقام الصلاة كان مسلما ومن آتى الزكاة كان محسنا ومن شھد ان لا اله الا اللّٰه كان مخلصا لكم یا بنى نھد ودائع الشرك ووضائع الملك لا تلطط فى الزكاة ولا تلحد فى الحیاة ولا تثاقل عن الصلاة.30
مولا! ان کے خالص دودھ اور مکھن میں برکت فرما ، اس دودھ میں برکت فرما جس میں پانی ملایا گیا ہو۔ مولا! ان کے چرواہوں کو گھاس اور نباتات میں بھیج دے جہاں پھل پک چکا ہو ان کو کثیر پانی عطا فرما۔ ان کے اموال اور اولاد میں برکت فرما۔ جس نے نماز پڑھی وہ مسلمان ہے، جس نے زکوۃ دی وہ محسن ہے، جس نے لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه کی گواہی دی وہ مخلص ہے۔ اے بنوفہد! تمہارے ساتھ مشرکین کے عہد میں بادشاہ کے وظائف ہیں۔ تم زکوۃ ادا کرنے سے نہیں رکوگے، زندگی میں حق سے نہیں پھروگے اورنماز میں سستی نہیں کروگے۔
پھر آپ نے بنو فہد کے لیے ایک مکتوب گرامی ان کے ہمراہ بھیجا جو یہ تھا:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ رسول محمد()کی جانب سے بنی فہد بن زید کی طرف!
اس شخص پر سلامتی ہو جو رب تعالیٰ اور اس کے رسولِ محترم پر ایمان لایا اے بنوفہد! زکوۃ میں عمدہ مال تمہارے لیے ہے۔ ہم درمیانہ مال لیں گے ایسے گھوڑوں پر جنہیں بطور سواری استعمال کیا جائے ۔ جس پر سواری کرنا مشکل ہو ان میں زکوۃ نہیں۔ تمہاری چراگاہوں میں کوئی داخل نہ ہوگا ،نہ تمہارے طلح (درختوں)کو کاٹا جائے گا، نہ تمہارے شیر (دودھ)آور جانوروں کو روکا جائے گا ۔۔۔ تم عہد شکنی نہ کرو ۔جس نے اس امر سے انحراف نہ کیا جو اس مکتوب گرامی میں ہے اس کے لیے رب تعالیٰ کے دربار سے جزاء اور ثواب ہے اور جس نے انکار کیا اس کے لیے سزا ہے۔31
مذکورہ روایت کی تشریح کرتے ہوئے قاضی عیاض فرماتے ہیں:
وأین ھذه الألفاظ من كتابه صلى اللّٰه علیه وسلم فى الصدقة لأنس المشھور، فإنه بمحل من جزالة ألفاظ مألوفة وسلاسة تراكیب مأنوسة، وذلك بمحل من غلاقة ألفاظ غریبة وقلالة أسالیب فى النطق عسرة، لأنه لما كان كلام ھؤلاء على ھذا الحد أى غریبا غیر مألوف وكانت بلاغتھم على ھذا النمط وحشیا غیر مأنوس، وكان أكثر استعمالھم ھذه الألفاظ التى لیست بمألوفة ولا مأنوسة، استعملھا معھم لیبین للناس ما نزل إلیھم ولیحدث الناس بما یعلمون لیفھموه.وقد كان من خصائصه صلى اللّٰه علیه وسلم إن یكلم كل ذى لغة بلغته على اختلاف لغة العرب وتركیب ألفاظھا وأسالیب كلمھا، وكان أحدھم لا یجاوز لغته وإن سمع لغة غیره فكالعجمیة یسمعھا العربى وما ذلك منه صلى اللّٰه علیه وسلم إلا بقوة إلھیة وموھبة ربانیة، لأنه صلى اللّٰه علیه وسلم بعث إلى الكافة طرّا وإلى الخلیقة سودا وحمرا، ولا یوجد متكلم بغیر لغته إلا قاصرا فى تلك الترجمة نازلا عن صاحب الأصالةفى تلك، إلا ھو صلى اللّٰه علیه وسلم فإنه كان إذا تكلم فى كل لغة من لغة العرب كان أفصح وأنصع بلغاتھا منا بلغة نفسھا وجدیر به ذلك، فإنه صلى اللّٰه علیه وسلم قد أوتى جمیع القوى البشریة المحمودة ومزیة على الناس بأشیاء كثیرة.32
صدقہ کے بارے میں یہ الفاظ اس روایت میں کہا ں ہیں جو حضرت انس سے مشہور ہے ان میں مالوف فصیح الفاظ ہیں اورسلاست کی مانوس ترکیب ہے۔یہ غریب الفاظ کی بندش اور گفتگو میں مشکل اسالیب کو استعمال میں لانا ہے کیونکہ ان لوگوں کا کلام اجنبی اور غیرمانوس تھا۔ ان کی بلاغت اسی طریقہ پر تھی جو اجنبی اور غیر مانوس ہو۔ آپ نے بھی ان الفاظ کا استعمال زیادہ کیا جو مالوف اور مانوس نہ تھے تاکہ ان کے لیے وہ پیغام واضح ہوسکے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے۔ آپ لوگوں سے ان زبان میں گفتگو فرماتے جنہیں وہ جانتے ہوں تاکہ وہ آپ کی بات سمجھ سکیں۔ آپ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اہل عرب کےلہجوں کے اختلاف کے باوجود ہر شخص کے ساتھ اس کے لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ اس کی تراکیب اور کلمات کا اسلوب اختیار کرتے تھے ۔جبکہ اور کوئی شخص اپنی زبان سے متجاوز نہیں ہوسکتا تھا۔ دوسری زبان اس کے لیے اس طرح ہوتی تھی جس طرح عربی عجمی کو سن لے۔ یہ صرف اور صرف آپ پر قوت الہٰیہ اور عنایات ربانیہ کی وجہ سے تھا کیونکہ آپ کو ساری مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا تھا۔ آپ ہر سیاہ و سرخ کے نبی ہیں۔ آپ کے علاوہ ہر شخص اس شخص کی زبان سمجھنے سے قاصر ہوتا جو اس کی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں گفتگو کررہا ہوتا کیونکہ آپ عرب کی زبانوں میں سے ہر ہر زبان میں گفتگو کرلیتے تھے۔ آپ ان ساری زبانوں میں فصیح اور بلیغ ہوتے تھے۔ آپ اس فضیلت کے مستحق بھی تھے کیونکہ آپ کو ساری بشری صفات بدرجہ اتم عطا کی گئی تھیں۔ آپ کو کثیر امور میں لوگوں پر فضیلت دی گئی تھی۔
اسی صفت کے متعلق حضرت عطیہ سعدی نے فرمایا:
قدمت على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى اناس من بنى سعد بن بكر وكنت اصغر القوم فخلفونى فى رحالھم ثم اتوا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقضوا حوائجھم، فقال: ھل بقی منكم احد؟ قالوا: نعم یا رسول اللّٰه! غلاما منا خلفناه فى رحالنا. فامرھم ان یدعونى، فقالوا: اجب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاتیته فلما دنوت منه، قال: ما اغناك اللّٰه فلا تسال الناس شیئا، فان الید العلیا ھى المنطیة وان الید السفلى المنطاة وان مال اللّٰه مسؤول ومنطى.فکلمنى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بلغتنا.33
میں بنی سعد بن بکر کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اﷲ کی خدمت میں آیا جب میں ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ انہوں نے مجھے پیچھے کجاووں کے پاس چھوڑدیا پھر وہ رسول کریم کی خدمت میں آئے اور اپنی ضروریات پوری کیں تو آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی باقی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اﷲ ! ہمار ا ایک لڑکا پیچھے سواریوں کے کجاووں کے پاس ہے۔ حضور نے ان کو مجھے بلانے کا حکم دیا۔ انہوں نے آکر مجھے چلنے کا کہا۔میں جب آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے فرمایا: جب اﷲ تجھے غنی کردے تو لوگوں سے ہرگز سوال نہ کر۔ بے شک اوپر والا ہاتھ دینے والے کا ہے اور نیچے والا ہاتھ لینے والے کا ہے اور اﷲ کے مال (بیت المال) کے بارے میں سوال ہوگا اور وہ دینے کے لیے ہے۔چنانچہ رسول اﷲ نے ہماری زبان میں بات چیت فرمائی۔
اسی طرح ایک عربی لغت کے مطابق حضور نبی کریم نے حضرت کعب بن عاصم الاشعری سے فرمایا:
لیس من ام بر ام صیام فى ام السفر.34
یعنی سفر میں روزہ رکھنا نیکی میں سے نہیں۔
یہ صحیح زبان ہےاور اشعری اور یمن کے اکثر لوگ اسے استعمال کرتے تھے۔ آپ نے بیان میں رغبت کرتے ہوئے حسن تعلیم اور انہیں ان کی ہی زبان میں سمجھاتے ہوئے یہ الفاظ استعمال کیے۔اسی طرح جب ایک عامری شخص نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
سل عنك.
مجھ سے جو چاہو سوال کرلو۔
وكان یقول للسائلین قبل ذلک: سل عما بدا لك. فقال یومئذ للعامرى: سل عنك. فانھا لغة بنى عامر فكلمه بما یعرف.35
اس سے پہلے تک سائل کو "سل ما بدا لک" کہا جاتا ہے اس دن عامری کو "سل عنک" فرمایا کیونکہ یہ بنی عامر کی لغت ہے ان سے ان کی معروف زبان میں بات کی۔
ان مذکورہ بالا تمام روایات سے اظھر من الشمس ہوجاتا ہے کہ نبی اکرم تمام لغتوں کے مطابق ان کی زبانوں میں مروج فصاحت و بلاغت کے ساتھ کلام فرمایا کرتے تھے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ نبی اکرم جوامع الکلم صفت اقدس کے حامل ہیں اور کئی معانی ومفاہیم پر مشتمل کلام کو ایک جملہ اور ایک فرمان مین بیان فرمادیتے ہیں تاکہ سننے والا اس بات کو آسانی کے ساتھ یاد کرلے اور بوقتِ ضرورت اس رہنمائی سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی بتائے تاکہ وہ بھی کامیابیوں اور کامرانیوں سے ہمکنار ہوسکیں۔
بندگانِ خدا جب قربِ الٰہی سے فائز المرام ہوتے ہیں تو اﷲ کی تجلیات سے ان کی زبانیں کن کی کنجی کا درجہ رکھتی ہیں۔ ظاہر میں تو کلمہ بندے کی زبان پر ظاہر ہورہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہاں قدرتِ ایزدی کا ظہور ہوتا ہے ۔چنانچہ اس کی وضاحت درج ذیل روایت سے ہوتی ہے جس کوحضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ان اللّٰه قال: من عادلى ولیا فقد آذنته بالحرب وما تقرب الى عبدى بشىء احب الى مما افترضت علیه وما یزال عبدى یتقرب الى بالنوافل حتى احبه فاذا احببته كنت سمعه الذى یسمع به وبصره الذى یبصر به ویده التى یبطشن بھا ورجله التى یمشى بھا وان سالنى لاعطینه ولئن استعاذنى لاعیذنه وما ترددت عن شىء انا فاعله ترددى عن نفس المومن یكره الموت وانا اكره مساء ته.36
حضور نبی کریم نے فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں ۔ میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جو مجھے فرائض سے زیادہ محبوب ہو ۔میرا بندہ برابر نفلی عبادات کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ مانگتا ہے تو میں ضرور اسے پناہ دیتا ہوں۔میں نے جو کام کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی اس طرح متردد نہیں ہوتا جیسے بندۂ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہوں اسے موت پسند نہیں اور مجھے اس کی تکلیف پسند نہیں۔
اس روایت کی مزید تشریح کرتے ہوئے امام فخرالدین رازی لکھتے ہیں:
لاشك ان المتولى للافعال ھو الروح لاالبدن ولھذا نرى ان كل من كان اكثر علماً باحوال عالم الغیب كان اقوى قلباً ولھذا قال على كرم اللّٰه تعالى وجھه: واللّٰه ماقلعت باب خیبر بقوة جسد انیة ولٰكن بقوة ربانیة. وكذلك العبد اذاواظب على الطاعات بلغ الى المقام الذى یقول اللّٰه تعالى: كنت له سمعاً وبصراً فاذا صار نور جلال اللّٰه تعالى سمعاً له سمع القریب و البعید واذا صار ذلك النور بصراً له راى القریب والبعید واذا صار ذلك النوریدا له قدر على التصرف فى الصعب و السھل والبعید والقریب.37
بلاشبہ افعال کی متولی روح ہے نہ کہ بدن۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جسے احوال عالم غیب کا علم زیادہ ہے اس کا دل زیادہ زبردست ہوتا ہے ۔لہٰذا مولیٰ علی کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا :خدا کی قسم! میں نے خیبر کادروازہ جسم کی قوت سے نہ اکھیڑا بلکہ ربانی طاقت سے۔ اسی طرح بندہ جب ہمیشہ طاعت میں لگارہتا ہے تواس مقام تک پہنچتا ہے جس کی نسبت رب عزوجل فرماتاہے کہ وہاں میں خود اس کے کان آنکھ ہوجاتاہوں۔ توجب جلال الٰہی کانور اس کا کان ہوجاتا ہے تو بندہ نزدیک و دورسب سنتا ہے اور جب وہ نور اس کی آنکھ ہوجاتا ہے بندہ نزدیک ودور سب دیکھتا ہے اور جب وہ نور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہے بندہ سہل و دشوار ونزدیک ودور میں تصرفات کرتا ہے۔
لہٰذا ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ قربِ الہی پاجانے والا بندہ اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے جہاں سے وہ جسمانی حدود و قیودات کے حصار سے آزاد ہوجاتا ہے۔ مخلوقات میں آپ سے بڑھ کر کوئی دوسر اشخص نہیں ہے جو آپ سے زیادہ مقرب الہی ہو یہی وجہ ہے کہ آپ پر انعامات ربانی بے حد و بے حساب ہیں جس کا اظہار کئی مقامات پر یوں ہوا کہ جو بھی آپ کی زبانِ اقدس سے نکل جاتا وہ بعینہ اسی طرح ہوجاتا جس طرح آپ فرماتے ۔
اس حوالہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک سفید ہیت والا شخص ریگستان سے آرہا تھاتو اسے حضور اکرم نے دیکھ کر ارشاد فرمایا:
كن ابا خیثمة فإذا ھو أبو خیثمة الأنصارى.38
تو ابو خیثمہ ہوجاتو وہ ابو خیثمہ انصاری ہوگیا۔
اس مذکورہ بالا روایت کی تشریح کرتے ہوئے قاضی عیاض فرماتے ہیں:
حق کے مشابہ یہ ہے کہ "کن" یہاں پر تحقیق اور وجود کے لیے ہے یعنی تو تحقیقی طور پر ابو خیثمہ ہوجا۔39
امام نووی نے اس حدیث مبارکہ کی تشریح کرتے ہوئے اس کا معنی یوں بیان کیا ہے کہ تو جو کوئی بھی ہے حقیقتاً ابو خیثمہ ہوجا۔40
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن مسعود سے مروی حدیث میں ہے کہ غزوہ تبوک میں نبی کریم نے ایک شخص کے متعلق فرمایا:
كن اباذر فلما تأمله القوم، قالوا: یا رسول اللّٰه، ھو واللّٰه أبو ذر.41
تو ابوذر ہوجا جب قوم نے غورکیا تو کہنےلگے: یا رسو ل اللہ بخدایہ ابو ذر ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ حضور نے جس کام کے لئے صاف لفظوں میں کن فرمادیا تو فوراً اس کا وجود ہوگیا۔
رسول اکرم کی زبان مبارک سے جو کچھ بھی صادر ہوجاتا تو وہ اسی طرح ظہور پذیر ہوجات تھا۔چنانچہ اسی حوالہ سے حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر صدیق فرماتے ہیں:
كان فلان یجلس الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا تكلم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بشىء اختلج وجھه. فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: كن كذلك فلم یزل یختلج حتى مات.42
ایک آدمی حضور کے پاس بیٹھا کرتا تھا اور آپ جب کوئی گفتگو فرماتے تو منہ چڑایا کرتا تھا۔ نبی کریم نے (ایک دن) کہہ دیا تو ایسے ہی ہوجا تو ساری زندگی اس کا چہرہ اسی طرح رہا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔
واضح رہے کہ یہ شخص حکم بن العاص تھا جو رسول اﷲ کی نقل اتارتا تھا۔چنانچہ امام طبرانی کی روایت میں ہے:
كان الحكم بن ابى العاص یجلس عند النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا تكلم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اختلج اولا فبصر به النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: انت كذاك. فما زال یختلج حتى مات.43
حکم بن ابی العاص حضور کی مجلس میں بیٹھاکرتاتھا۔ جب نبی کریم کلام فرماتے تو وہ منہ چڑایاکرتا تھا۔ایک بارحضور نے اسےدیکھ لیا تو فرمایا: توایساہی ہے۔پس وہ ایساہی رہا یہاں تک کہ موت نےاسےآن لیا۔
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عمر بیان کرتے ہیں :
ان النبی صلى اللّٰه علیه وسلم خطب یوما ورجل خلفه یحاكیه ویلمصه فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: كذلك فكن فرفع الى اھله فلبط به شھرین ثم افاق حین افاق وھو كما حكى رسول اللّٰه.44
ایک دفعہ نبی کریم نے خطبہ دیا، اس وقت ایک شخص پیچھے سے آپ کی نقلیں اتاررہا تھا تو آپ نے فرمایا اﷲ کرے تو ایسا ہی ہوجائے۔ اس کے بعد وہ اٹھ کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا تو اس پر دو مہینے تک جنون کی سی کیفیت طاری رہی جب اسے افاقہ ہوا تو دو ماہ کے بعد بھی وہ نقلیں اتار رہا تھا۔
اسی طرح ایک دوسری روایت میں منقول ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عمر بیان کرتے ہیں :
ہم نبی کریم کے دروازہ پر کھڑے ہوئے تھےتوآپ باہر نکلے ،ہم آپ کے ساتھ چلنے لگےتو آپ نے فرمایا اے لوگو! تم میں سے کوئی شخص بازار میں تلقین نہ کرے اور مہاجر ودیہاتی سے بیع نہ کرے ۔ ۔۔ایک شخص نبی کریم کے ساتھ چل رہا تھا اور آپ کی نقل اتار رہا تھا تونبی کریم نے فرمایا:
كذلك فكن.45
تو اسی طرح ہوجا۔
وہ شخص بے ہوش ہوکر گرگیا اس شخص کو اس کے گھر اٹھاکر لے جایا گیا وہ دو ماہ بے ہوش رہا اس کو جب بھی ہوش آتا تو اس کا منہ اسی طرح بگڑا ہوا ہوتا جس طرح نقل کے وقت تھا حتیٰ کہ وہ مرگیا۔
اسی حوالہ سے ایک اور ر وایت میں حضرت انس بیان کرتے ہیں :
كان رجل نصرانیا فاسلم وقرأالبقرة وال عمران فكان یكتب للنبى صلى اللّٰه علیه وسلم فعاد نصرانیا فكان یقول: ما یدرى محمد الا ما كتبت له. فاماته اللّٰه فدفنوه فاصبح وقد لفظته الارض. فقالوا: ھذا فعل محمد اصحابه لما ھرب منھم نبشوا عن صاحبنا فالقوه. فحفروا له فاعمقوا فاصبح وقد لفظته الارض. فقالوا: ھذا فعل محمد واصحابه نبشوا عن صاحبنا لما ھرب منھم. فالقوہ خارج القبر فحفروا له واعمقوا له فى الارض ما استطاعوا. فاصبح قد لفظته الارض فعلموا انه لیس من الناس فالقوه.46
زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا۔ عیسائیوں نے کہا: یہ (سیدنا) محمد () اور ان کے اصحاب کا فعل ہےجنہوں نے ہمارے ساتھی کو (قبر سے) باہر نکال کرپھینک دیا ہے کیونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ گیا تھا۔ انہوں نے دوبارہ اس کے لیے خوب گہری قبر کھودی، صبح ہوئی تو پھر زمین اس کو قبر سے باہراُگل چکی تھی، عیسائیوں نے کہا: یہ (سیدنا) محمد () اور ان کے ساتھیوں کا فعل ہے جنہوں نے ہمارے ساتھی کو (قبر سے) باہر نکال کر پھینک دیا ہے کیونکہ وہ ان کے دین سے بھاگ گیا تھا۔ انہوں نے پھر اس کے لیے خوب گہری قبر کھودی جتنی وہ کھودسکتے تھے ،صبح ہوئی تو پھر زمین اسے باہراُگل چکی تھی تب انہیں یقین آیا کہ یہ لوگوں کا کام نہیں ہے پھر انہوں نے اس کو زمین پر پھینک دیا۔
زمین اس مرتد کو اس لیے باہر پھینک دیتی تھی کہ حضور کی زبان مبارک سے نکل چکا تھا کہ:
ان الارض لا تقبله.47
بے شک اس کو زمین قبول نہیں کرے گی۔(یعنی اپنے اندر نہیں رکھے گی)
اسی کی تشریح کرتے ہوئے امام تقی الدین سبکی شافعی لکھتے ہیں:
عنایة اللّٰه تعالى باظھار كذب من افترى على نبیه و عدم قبول الارض له حتى یظھر للناس امره والا فكثیر من المرتدین ماتوا ولم تلفظھم الارض ولكن للّٰه اراد ان یفضح ھذا الملعون ویبین ؛ذبه للناس.48
اﷲ تعالیٰ کی اپنے نبی پر کس قدر عنایات ہیں جو آپ پر افتراء کرے اس کے جھوٹ کوافشاں فرمادیتا ہے، زمین اسے قبول نہیں کرتی حتیٰ کہ لوگوں پر اس کا جھوٹ آشکار ہوگیا ۔ورنہ بہت سے مرتد مرے مگر ان میں سے کسی کو بھی زمین نے باہر نہیں پھینکا لیکن اﷲ تعالیٰ نے اس ملعون کو رسوا اور اس کے جھوٹ کو لوگوں پر آشکار فرمادیا۔
ہجرت کے نویں سال حضور نے بنی کلاب کی طرف ایک مہم روانہ فرمائی اور ساتھ ہی ایک مکتوب گرامی بھی ارسال فرمادیا تاکہ وہ لوگ اسلام کے مطیع ہوجائیں۔ ان لوگوں نے مکتوب گرامی کی عبارت کو دھو ڈالا اور جس چمڑے پر خط لکھا گیا تھا اسے ایک چرخی ڈول کے ساتھ سی لیا۔ حضور کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا:
مالھم؟ اذھب اللّٰه عقولھم؟.49
ان کو کیا ہوا؟ کیا اللہ نے ان کی عقل سلب کرلی ؟
اس کے بعد اس قبیلہ کی عقل سلب ہوگئی اور اس قدر مختلط الکلام ہوگئے کہ ان کی باتوں کے مفہوم کی بھی سمجھ نہ آتی تھی۔اسی طرح حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں :
أن رجلا أكل عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بشماله فقال: كل بیمینك قال: لاأستطیع. قال: لا استطعت. ما منعه إلا الكبر قال: فما رفعھا إلى فیه.50
ایک شخص نے حضور کےہاں الٹےہاتھ سےکھاناکھایاتوآپ نے اس کو فرمایا: دائیں سے ہاتھ سے کھا۔ اس نے کہا : دائیں ہاتھ سے نہیں کھاسکتا۔ آپ نے فرمایا: تواس کی استطاعت ہی نہیں رکھےگا۔ اس نے یہ جھوٹا عذر صرف تکبر سے کیا تھا چنانچہ راوی کہتےہیں: اس دن سے وہ ہاتھ ایسا بیکار ہوا کہ پھر کبھی منہ تک نہ آسکا۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور حضرت ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہوئے اور وہ گھوڑا بہت سست رفتار تھا ۔جب حضور واپس تشریف لائے توآپنے فرمایا:
وجدنا فرسك ھذا بحرا فكان بعد ذلك لا یجارى.51
ہم نے تمہارے گھوڑے کو دریا پایا یعنی خوب تیز پایا اس کے بعد وہ ایسا تیز رفتار ہوگیا کہ کوئی گھوڑا اس کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔
ایک روایت میں یوں منقول ہے:
فما سبق بعد ذلك الیوم.52
اس دن کے بعد کوئی گھوڑا اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔
جب حضور نے مکّہ معظّمہ سے ہجرت فرمائی تو سراقہ نے آپ کا تعاقب کیا توقریب پہنچ کر کہنے لگا کہ اب آپ کو کون بچائے گا؟حضور نے فرمایا خدائےوحدہ لاشریک جبار وقہار میری حفاظت فرمائے گا اتنے میں حضرت جبریل حاضر ہوئے عرض کی کہ اﷲ عزوجل فرماتاہے: ہم نے زمین کو آپ کا مطیع کردیا ہے آپ جو چاہیں زمین کو حکم دیں۔حضور نے فرمایا: اے زمین اس کو پکڑ لے۔ زمین نے سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں پکڑ لئے اور وہ گھٹنوں تک دھنس گیا۔جب سراقہ زمین میں دھنس گیا توسراقہ نے ایڑی لگائی مگر گھوڑے نے حرکت نہ کی آخر مجبور ہوکر عرض کرنے لگا کہ حضور آپ رحمت عالم ہیں مجھے امن دیجئے اور اس مصیبت سے چھڑائیے۔ میں واپس چلا جاؤں گا اور کسی کو آپ کے بارے میں خبر بھی نہ دوں گا ۔حضور نبی کریم نے فرمایا:
یا ارض اطلقیه فاطلقت جواده.53
اے زمین اسے چھوڑدے زمین نے سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں چھوڑدئیے۔
رسول اکرم ایک کھارے کنویں کے پاس سے گزرے تو کسی ے آپ کو اس کنویں کا نام بتایا جس کا مطلب نمکین تھا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ تو نعمان ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام زبیر بن بکار روایت کرتے ہیں:
مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى غزوة ذى قرد على ماء یقال له بیسان فسال عنه فقیل: اسمه یا رسول اللّٰه! بیسان وھو مالح. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: لا بل ھو نعمان وھو طیب. قال: فغیررسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اسمه فغیره اللّٰه تبارك و تعالى ببركته صلى اللّٰه علیه وسلم فاشتراه طلحة بن عبیداللّٰه ثم تصدق به.54
نبی کریم غزوہ ذی قرد میں ایک پانی (کے چشمے) پر سے گزرےجس کا نام بیسان تھا۔ آپ نے اس کے بارے میں پوچھاتو آپ کو بتایا گیا کہ اس کا نام بیسان ہے اور یہ نمکین ہے۔ آپ نے فرمایا :نہیں یہ نعمان ہے اور اس کا پانی شیریں وعمدہ ہے۔ پس آپ نے اس کا نام بدل دیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس پانی کا ذائقہ تبدیل کردیا۔ بعد ازاں حضرت طلحہ نے اسے خرید کر راہ خدا میں صدقہ کردیا۔
اس روایت کو امام سلیمان بن موسیٰ حمیری نے بھی نقل کیا ہے۔ 55
اسی چشمے کو صدقہ کرنے سے حضرت طلحہ کو حضور کی بارگاہ سے"فیاض" کا لقب ملا۔چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
فغیر اسمه فاشتراه طلحة ثم تصدق به. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : ما انت یا طلحة الا فیاض فبذلك قیل له طلحة الفیاض.56
آپ نے اس کا نام تبدیل کردیا حضرت طلحہ نے اسے خرید کر وقف کردیا جس پر رسول اﷲ نے فرمایا: طلحہ تم تو بڑے فیاض ہو۔چنانچہ اسی وجہ سے انہیں "طلحہ فیاض" کہا جانے لگا۔
دشمنوں کو بھی معلوم تھا کہ حضور کی زبان مبارک سے جو نکل جاتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے۔چنانچہ ابو نوفل بن ابی عقرب اپنے والد کا بیان نقل کرتے ہیں :
كان لھب بن ابى لھب یسب النبى صلى اللّٰه علیه وسلم، فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: اللھم سلط علیه كلبك. قال: فخرج یرید الشام فى قافلة مع اصحابه. قال: فنزل منزلا. قال: فقال: واللّٰه انى لاخاف دعوة محمد صلى اللّٰه علیه وسلم قال: قالوا له: كلا. قال: فحوطوا المتاع حوله وقعدوا یحرسونه. قال: فجاء السبع فانتزعه فذھب به.57
لہب ابن ابی لہب نبی کریم کو گالیاں بکا کرتا تھاتو حضور نبی کریم نے دعا مانگی: اے اﷲ! اس پر اپنا کتا مسلط فرمادے۔ وہ ایک قافلے کے ہمراہ شام کی جانب نکلا اور قافلے نے شام پر پڑاؤ کیا تو اس نے کہا: مجھے(سیدنا) محمد ( ) کی دعا سے خوف آتا ہے۔ لوگوں نے اس کو تسلی دی اور اس کے ارد گرد اپنا سامان اتارا اور اس کی حفاظت کرنے بیٹھ گئے۔ ایک شیر آیا اس نے ان سے (لہب کو) جھپٹ کر چھینا اور لے کر بھاگ گیا۔
اسی طرح کی ایک اور روایت منقول ہے جس کوامام ابو نعیم اصفہانی روایت کرتے ہیں:
عن ھبار بن الأسود قال: كان أبو لھب وابنه عتیبة قد تجھزا إلى الشام وتجھزت معھما، فقال ابنه عتیبة: واللّٰه لأنطلقن إلیه فلأوذینه فى ربه، فانطلق حتى أتى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: یا محمد! ھو یكفر بالذى دنا فتدلى فكان قاب قوسین أو أدنى فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : اللّٰھم ابعث علیه كلبا من كلابك ثم انصرف عنه فرجع إلیه فقال: أى بنى ، ما قلت له؟ قال: كفرت بإلھه الذى یعبد قال: فماذا قال لك؟ قال: قال اللّٰھم ابعث علیه كلبا من كلابك فقال: أى بنى، واللّٰه ما آمن علیك دعوة محمد قال: فسرنا حتى نزلنا الشراة وھى مأسدة فنزلنا إلى صومعة راھب فقال: یا معشر العرب ما أنزلكم ھذہ البلاد وإنھا مسرح الضیغم؟ فقال لنا أبو لھب: إنكم قد عرفتم حقى؟ قلنا: أجل یا أبا لھب فقال: إن محمدا قد دعا على ابنى دعوة واللّٰه ما آمنھا علیه، فاجمعوا متاعكم إلى ھذه الصومعة، ثم افرشوا لابنى عتيبة ثم افرشوا حوله قال: ففعلنا جمعنا المتاع حتى ارتفع ثم فرشنا له علیه، وفرشنا حوله فبینا نحن حوله وأبو لھب معنا أسفل وبات ھو فوق المتاع، فجاء الأسد فشم وجوھنا، فلما لم یجد ما یرید تقبض ثم وثب فإذا ھو فوق المتاع فجاء الأسد فشم وجھه ثم ھزمه هزمة ففضخ رأسه فقال: سیفى یا كلب، لم یقدر على غیر ذلك، ووثبنا فانطلق الأسد وقد فضخ رأسه فقال له أبو لھب: قد عرفت واللّٰه ما كان لینقلب من دعوة محمد .58
ہبار بن اسود بیان کرتے ہیں کہ ابو لہب اور اس کا بیٹا عتیبہ ملک شام کے سفر پر چلے ،میں بھی ان کے ساتھ تیار ہوا ۔عتیبہ نے کہا بخدا میں اس کے پاس (حضور نبی کریم ) جاتا ہوں اور اس کے رب کے بارےمیں اسکی دل آزاری کرتا ہوں۔ وہ نبی پاک کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے(سیدنا) محمد!( ) میں وہ ہوں جو اس خدا کا منکر ہے جو دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی کی صفت والا ہے۔ حضور نبی کریم نے فرمایا:اے اﷲ! اس پر اپنے درندوں میں سے کوئی درندہ مسلط کردے۔ (عتیبہ وہاں سے اٹھا ابو لہب کے پاس پہنچا اس نے کہا: اے بیٹے! تم نے اسے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا: میں نے اس خدا کا انکار کیا ہے جس کی وہ عبادت کرتا ہے ۔ابو لہب نے پوچھا : اس نے تجھے کیا کہا؟ عتیبہ نے بتلایا کہ: اس نے کہا تھا: اے اﷲ! اس پر اپنے درندوں میں سے کوئی درندہ مسلط کردے) ابو لہب نے کہا: اے بیٹا! خدا کی قسم! اب میں تمہارے متعلق دعاءِ محمد ( ) کی اثرپذیری سے بے خوف نہیں رہ سکتا۔راوی کہتا ہے: ہم سفر پر روانہ ہوئے اور مقام شراۃ پر جاکر پڑاؤ کیا وہ شیروں کی آماجگاہ تھی۔ ہم ایک راہب کے عبادت خانہ کے قریب اترے تھے تواس راہب نے کہا: اے عرب کے مسافرو! یہاں تم کیوں اتر پڑے! یہ تو شیروں کی چراگاہ ہے۔ ابو لہب نے ہم سے کہا: تم میرا حق تو پہچانتے ہو؟ ہم نے کہا: ابو لہب! کیوں نہیں؟ اس نے کہا: محمد ( ) نے میرے بیٹے پر دعا کی ہوئی ہے، اب خدا کی قسم! میں اس کے متعلق بہت پر خطر ہوں۔ تم اس عبادت خانے میں اپنا سامان رکھو پھر میرے بیٹے عتیبہ کا بستر بچھاؤ پھر اس کے آس پاس اپنے بستر بچھادو۔ ہم نے ایسا ہی کیا ہم نے اپنا سامان جمع کیا تو وہ ایک اونچا ساچبوترہ سابن گیا اس پر ہم نے اس کا بستر بچھایا اور آس پاس (زمین پر) اپنے بچھونے جمادئیے۔ چنانچہ ہم اور ابو لہب اس کے گرد نیچے سوئے تھے اور وہ سامان کے اوپر سورہا تھا۔رات کو ایک شیر آگیا اور ہمارے چہرے سونگھنے لگا مگر اسے اپنا مطلوب نہ ملا وہ کچھ دیر کھڑا رہا پھر اس نے چھلانگ لگائی اور وہ سامان کے اوپر چڑھا ہوا تھا ۔اب اس نے عتیبہ کا منہ سونگھا پھر اس کے سر پر اتنے زور سے اپنے پنجے مارے کہ کھوپڑی پھٹ گئی اس کے منہ سے صرف اتنے لفظ نکلے۔ میری تلوار او درندے! اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا ہم کود کر اٹھے مگر شیر جاچکا تھا اور عتیبہ کا سر پھٹا پڑا تھا۔ ابولہب نے کہا: میں جانتا ہوں خدا کی قسم یہ دعاء ِمحمد( ) کے اثر سے کبھی بچ نہ سکتا تھا۔
ان روایات سے واضح ہوا کہ نبی اکرم کی زبان مبارک سے جو بھی نکل جاتا تو اللہ تبارک وتعالیٰ بالکل اسی طرح فرمادیا کرتا تھا۔ وہ کیسا ہی معاملہ کیوں نہ ہوتا خواہ کسی چیز کی بہتری کی بات ہوتی یا کسی کے لیے جلالتِ رسالت سے نکلے الفاظ الغرض جو کچھ آپ فرمادیتے تو وہ وقوع پذیر ہوجاتا۔
حضور خدا داد صلاحیت سے مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانوں،چرندوں، پرندوں اور جمادات ونباتات کی زبانوں پر بھی پوری پوری دسترس رکھتے تھے ۔حضرت سلیمان کے متعلق اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَوَرِثَ سُلَیمٰنُ دَاوٗدَ وَقَالَ یاَیھا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیرِ وَاُوْتِینَا مِنْ كلِّ شَىءٍ اِنَّ ھذَا لَھوَالْفَضْلُ الْمُبِینُ.59
اور سلیمان (علیہ السلام)، داؤد (علیہ السلام) کے جانشین ہوئے اور انہوں نے کہا: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی (بھی) سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ بیشک یہ (اللہ کا) واضح فضل ہے ۔
اس آیت ِ مبارکہ کی تفسیر میں امام جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:
وعلم سلیمان منطق الطیر واعطى نبینا صلى اللّٰه علیه وسلم فھم كلام جمیع الحیوانات وزیادة كلام الشجر والحجر والعصا.60
اور حضرت سلیمان پرندوں کی بولیوں کو جانتے تھے اور ہمارے نبی کریم کو تمام حیوانات کی بولیوں کا فہم عطافرمایا گیا۔ مزید برآں یہ کہ درخت،پتھر اور عصا (لاٹھی)کی بات آپ نے سمجھی۔
رسول اکرم اونٹ کی بولی بھی جانتے تھے۔چنانچہ حضرت یعلی بن مرہ ثقفی اس حوالہ سے بیان کرتے ہیں:
ثلاثة اشیاء رایتھن من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بینا نحن نسیر معه اذ مررنا ببعیر یسنى علیه فلما راه البعیر جرجر ووضع جرانه، فوقف علیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: این صاحب ھذا البعیر؟ فجاء فقال: بعنیه؟ فقال: لا! بل اھبه لك. فقال: لا! بعنیه. قال: لا! اھبه لك وانه لاھل بیت ما لھم معیشة غیره. قال: اما اذ ذكرت ھذا من امره، فانه شكا كثرة العمل وقلة العلف، فاحسنوا الیه. قال: ثم سرنا فنزلنا منزلا فنام النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فجاء ت شجرة تشق الارض حتى غشیته ثم رجعت الى مكانھا فلما استیقظ ذكرت له، فقال: ھى شجرة استاذنت ربھا عزوجل ان تسلم على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذن لھا. قال: ثم سرنا فمررنا بماء فاتته امراة بابن لھا به جنة، فاخذ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بمنخره، فقال: اخرج! انى محمد رسول اللّٰه. قال: ثم سرنا فلما رجعنا من سفرنا مررنا بذلك الماء، فاتته المراة بجزر ولبن فامرھا ان ترد الجزر وامر اصحابه فشربوا من اللبن، فسالھا عن الصبى فقالت: والذى بعثك بالحق ما راینا منه ریبا بعدك.61
جب ہم (ایک سفر میں) حضور نبی اکرم کے ساتھ چل رہے تھے تو میں نے حضور نبی اکرم سے تین اُمور (معجزات) دیکھے۔ ہمارا گزر ایک اونٹ کے پاس سے ہوا جس پر پانی رکھا جا رہا تھا۔ اس اونٹ نے جب حضور نبی اکرم کو دیکھا تو وہ بلبلانے لگا اور اپنی گردن (از راہِ تعظیم) آپ کے سامنے جھکا دی۔ حضور نبی اکرم اس کے پاس کھڑے ہو گئے اور فرمایا: اس اونٹ کا مالک کہاں ہے؟ اس کا مالک حاضر ہوا تو آپ نے اس سے پوچھا: یہ اونٹ مجھے بیچتے ہو؟ اس نے عرض کیا: نہیں حضور بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ اسے مجھے بیچ دو۔ اس نے دوبارہ عرض کیا: نہیں بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے اور بے شک یہ ایسے گھرانے کی ملکیت ہے کہ جن کا ذریعہ معاش اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا: اب تمہارے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ اس اونٹ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ اس نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو۔ اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ حضرت یعلی بن مروہ بیان کرتے ہیں: پھر ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم وہاں محوِ استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ بیدار ہوئے تو میں نے آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے پس رب تبارک وتعالی نے اسے اجازت دے دی۔ پھر ہم وہاں سے آگے چلے اور ہمارا گزر پانی پر سے ہوا۔ وہاں ایک عورت تھی اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا جسے جن چمٹے ہوئے تھے۔ وہ اسے لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی۔ آپ نے اس لڑکے کی ناک کا نتھنا پکڑ کر فرمایا: نکل جاؤ میں محمد( ) اللہ کا رسول ہوں۔ حضرت یعلی بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ پھر ہم آگے بڑھے۔ جب ہم اپنے سفر سے واپس لوٹے تو ہم دوبارہ اسی پانی کے پاس سے گزرے۔ پس وہی عورت آپ کے پاس بھنا ہوا گوشت اور دودھ لے کر حاضرِ خدمت ہوئی۔ آپ نے بھنا ہوا گوشت واپس کردیا اور اپنے صحابہ کرام کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے دودھ میں سے کچھ پی لیا۔ پھر آپ نے اس سے بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! اس کے بعد ہم نے اس میں کبھی اس بیماری کا شائبہ تک نہیں پایا۔
یعنی رسول اکرم نے اونٹ کی شکایت سن کر اس کے مالک سے درج بالا ارشاد فرمایا اوردرخت کی بارگاہ خداوندی میں عرض کو آپ نےسنا اوراس کو دی گئی اجازت سے صحابی کو آگاہ فرمایا:اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن جعفر بیان کرتے ہیں :
فدخل حائطا لرجل من الانصار فاذا جمل فلما راى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم حن وذرفت عیناه فاتاه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمسح ذفراہ فسكت، فقال: من رب ھذا الجمل؟ لمن ھذا الجمل؟ فجاء فتى من الانصار، فقال: لى یا رسول اللّٰه. فقال: افلا تتقى اللّٰه فى ھذه البھیمة التى ملکك اللّٰه ایاھا؟ فانه شكا الى انك تجیعه وتدئبه.62
حضور نبی اکرم ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ نے فرمایا: اس اُونٹ کا مالک کون ہے اور یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ میرا ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔
اس روایت میں بھی واضح ہے کہ اونٹ نے اپنی بولی میں آپ کو شکایت کی اور آپ نے اس کی شکایت کا سد باب فرمایا۔اسی حوالہ سےحضرت یعلی بن سیابہ بیان کرتے ہیں :
كنت مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى مسیر له فاراد ان یقضى حاجة فامر ودیتین فانضمت احداھما الى الاخرى ثم امرھما فرجعتا الى منابتھما وجاء بعیر فضرب بجرانه الى الارض ثم جر جر حتى ابتل ما حوله فقال النبی صلى اللّٰه علیه وسلم؟ اتدرون ما یقول البعیر؟ انه یزعم ان صاحبه یرید نحره، فبعث الیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: اواھبه انت لى؟ فقال: یارسول اللّٰه! ما لى مال احب الى منه. قال: استوص به معروفا. فقال: لا جرم لا اكرم مالا لى كرامته یا رسول اللّٰه. واتى على قبر یعذب صاحبه فقال: انه یعذب فى غیر كبیر فامر بجریدة فوضعت على قبرہ فقال: عسى ان یخفف عنه ما دامت رطبة.63
میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم کے ہمراہ تھا۔ آپ نے ایک جگہ استراحت کا ارادہ فرمایا تو آپ نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ نے ان کے پیچھے فعل استراحت64 فرمایا) پھر آپ نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر ایک اونٹ آپ کی خدمت میں اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ حضور نبی اکرم نے اس کے مالک کی طرف آدمی بھیجا (کہ اسے بلا لائے۔ جب وہ آ گیا تو) آپ نے اس سے فرمایا: کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ نے فرمایا: میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔
اسی طرح کی ایک اور روایت حضرت تمیم داری سے منقول ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں :
كنا جلوسا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذ اقبل بعیر یعدو حتى وقف على ھامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: ایھا البعیر اسكن فان تك صادقا فلك صدقك وان تك كاذبا فعلیك كذبك مع ان اللّٰه تعالى قد امن عائذنا ولیس بخائب لائذنا. فقلنا: یا رسول اللّٰه! ما یقول ھذا البعیر؟ فقال: ھذا بعیر قد ھم اھله بنحره واكل لحمه یتعادون، فلما نظر الیھم البعیر عاد الى ھامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلا ذبھا، فقالوا: یا رسول اللّٰه ! ھذا بعیرنا ھرب منذ ثلاثة ایام فلم نلقه الا بین یدیك. فقال صلى اللّٰه علیه وسلم : اما انه یشكو الى، فبئست الشكایة. فقالوا: یا رسول اللّٰه! ما یقول؟ قال: یقول: انه ربى فى امنكم احوالا وكنتم تحملون علیه فى الصیف الى موضع الكلاء فاذا كان الشتاء رحلتم الى موضع الدفاء، فلما كبر استفحلتموه فرزقكم اللّٰه منه ابلا سائمة فلما ادركته ھذه السنة الخصبة ھممتم بنحره واكل لحمه. فقالوا: قد واللّٰه كان ذلك یا رسول اللّٰه. فقال علیه الصلوة السلام: ما ھذا جزاء المملوك الصالح من موالیه؟ فقالوا: یا رسول اللّٰه! فانا لا نبیعه ولا ننحره. فقال علیه الصلوة والسلام: كذبتم! قد استغاث بكم فلم تغیثوه وانا اولى بالرحمة منكم، فان اللّٰه نزع الرحمة من قلوب المنافقین واسكنھا فى قلوب المومنین. فاشتراہ علیه الصلاة والسلام منھم بماءةدرھم وقال: یا ایھا البعیر! انطلق فانت حر لوجه اللّٰه تعالى فرغى على ھامة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال علیه الصلاة والسلام: آمین. ثم دعا فقال: آمین ثم دعا فقال: آمین. ثم دعا الرابعة فبكى علیه الصلاة والسلام. فقلنا: یا رسول اللّٰه! ما یقول ھذا البعیر؟ قال: قال: جزاك اللّٰه ایھا النبى عن الاسلام والقرآن خیرا. فقلت: آمین. ثم قال: سکن اللّٰه رعب امتك من اعداءھا كما حقنت دمى. فقلت: آمین. ثم قال: لا جعل اللّٰه باسھا بینھا. فبكیت فان ھذه الخصال سالت ربى فاعطانیھا ومنعنى ھذہ واخبرنى جبریل عن اللّٰه تعالى ان فناء امتى بالسیف جرى القلم بما ھو كائن.65
ہم حضور نبی اکرم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ ایک اُونٹ بھاگتا ہوا آیا اور حضور نبی اکرم کے سرِ انور کے پاس آکر کھڑا ہوگیا (جیسے کان میں کوئی بات کہہ رہا ہو)۔ آپ نے فرمایا: اے اُونٹ! پرسکون ہوجا۔ اگر تو سچا ہے تو تیرا سچ تجھے فائدہ دے گا اور اگر تو جھوٹا ہے تو تجھے اس جھوٹ کی سزا ملے گی۔ بے شک جو ہماری پناہ میں آجاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے امان دے دیتا ہے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا۔ ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہتا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس اونٹ کے مالکوں نے اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ سو یہ ان کے پاس سے بھاگ آیا ہے اور اس نے تمہارے نبی کی بارگاہ میں استغاثہ کیا ہے۔ ہم ابھی باہم اسی گفتگو میں مشغول تھے کہ اس اونٹ کے مالک بھاگتے ہوئے آئے۔ جب اونٹ نے ان کو آتے دیکھا تو وہ دوبارہ حضور نبی اکرم کے سر مبارک کے قریب ہوگیااور آپ کے پیچھے چھپنے لگا۔ ان مالکوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہمارا یہ اونٹ تین دن سے ہمارے پاس سے بھاگا ہوا ہے اور آج یہ ہمیں آپ کی خدمت میں ملا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: یہ میرے سامنے شکایت کر رہا ہے اور یہ شکایت بہت ہی بری ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہتا ہے کہ یہ تمہارے پاس کئی سال تک پلا بڑھا۔ جب موسم گرما آتا تو تم گھاس اور چارے والے علاقوں کی طرف اس پر سوار ہوکر جاتے اور جب موسم سرما آتا تو اسی پر سوار ہوکر گرم علاقوں کی جانب کوچ کرتے۔ پھر جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو تم نے اسے اپنی اونٹنیوں میں افزائش نسل کے لئے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے کئی صحت مند اونٹ عطا کیے۔ اب جبکہ یہ اس خستہ حالی کی عمر کو پہنچ گیا ہے تو تم نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت کھالینے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا: خدا کی قسم یا رسول اللہ ! یہ بات من وعن اسی طرح ہے جیسے آپ نے بیان فرمائی۔ اس پر حضور نبی اکرم نے فرمایا: ایک اچھے خدمت گزار کی اس کے مالکوں کی طرف سے کیا یہی جزا ہوتی ہے؟! وہ عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ! اب ہم نہ اسے بیچیں گے اور نہ ہی اسے ذبح کریں گے۔ آپ نے فرمایا: تم جھوٹ کہتے ہو۔ اس نے پہلے تم سے فریاد کی تھی مگر تم نے اس کی داد رسی نہیں کی اور میں تم سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہوں۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے دلوں سے رحمت نکال لی ہے اور اسے مومنین کے دلوں میں رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس اونٹ کو ان سے ایک سو درہم میں خرید لیا اور پھر فرمایا: اے اونٹ! جاتو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر آزاد ہے۔ اس اونٹ نے حضور نبی اکرم کے سر مبارک کے پاس اپنا منہ لے جاکرکچھ آواز نکالی تو آپ نے فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے پھر دعا کی۔ آپ نے پھر فرمایا: آمین۔ اس نے جب چوتھی مرتبہ دعا کی تو آپ آبدیدہ ہوگئے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس نے پہلی دفعہ کہا: اے نبی مکرم! اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور قرآن کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ قیامت کے روز آپ کی امت سے اسی طرح خوف کو دور فرمائے جس طرح آپ نے مجھ سے خوف کو دور فرمایا ہے۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر اس نے دعا کی: اللہ تعالیٰ دشمنوں سے آپ کی اُمت کے خون کو اسی طرح محفوظ رکھے جس طرح آپ نے میرا خون محفوظ فرمایا ہے۔ اس پر بھی میں نے آمین کہا۔ پھر اس نے کہا: اللہ تعالیٰ ان کے درمیان جنگ وجدال پیدا نہ ہونے دے یہ سن کر مجھے رونا آگیا کیونکہ یہی دعائیں میں نے بھی اپنے رب سے مانگی تھیں تو اس نے پہلی تین تو قبول فرما لیں لیکن اس آخری دعا سے منع فرما دیا۔ جبرئیل نے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی ہے کہ میری یہ امت آپس میں تلوار زنی سے فنا ہوگی۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ چکا ہے۔
رسول اکرم نہ صرف اونٹوں سے بلکہ دیگر جانورو ں سے بھی ہمکلام ہوا کرتےتھے۔چنانچہ حضرت وضین بن عطاء ایک اسی طرح کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان جزارا فتح باب على شاة لیذبحھا فانفلتت منه حتى اتت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم واتبعھا فاخذھا یسحبھا برجلھا فقال لھا: النبى صلى اللّٰه علیه وسلم اصبرى لامر اللّٰه! وانت یا جزار فسقھا الى الموت سوقا رفیقا.66
ایک قصاب نے بکری ذبح کرنے کے لیے دروازہ کھولا تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل بھاگی اور حضور نبی اکرم ﷺکی بارگاہ میں آ گئی۔ وہ قصاب بھی اس کے پیچھے آ گیا اور اس بکری کو پکڑ کر ٹانگ سے کھینچنے لگا۔ حضور نبی اکرم نے بکری سے فرمایا: اللہ کے حکم پر صبر کر اور اے قصاب! تو اسے نرمی کے ساتھ موت کی طرف لے جا۔
آپ نے ہرنی سے بھی گفتگو فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں:
مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على قوم قد صادوا ظبیة فشدوھا الى عمود الفسطاط فقالت: یا رسول اللّٰه! انى وضعت ولى خشفان، فاستاذن لى ان ارضعھما ثم اعوذ الیھم. فقال: این صاحب ھذه؟ فقال القوم: نحن یا رسول اللّٰه. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: خلوا عنھا حتى تاتى خشفیھا ترضعھما وتاتى الیكم. قالوا: ومن لنا بذلك یا رسول اللّٰه؟ قال: انا. فاطلقوھا فذھبت فارضعت ثم رجعت الیھم فاوثقوھا فمر بھم النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: این اصحاب ھذه؟ قالوا: ھو ذا نحن یا رسول اللّٰه. قال: تبیعونھا؟ قالوا: یا رسول اللّٰه! ھى لك. فخلوا عنھا فاطلقوھا فذھبت.67
ایک دفعہ حضورنبی اکرم ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ انہوں نے ایک ہرنی کو شکار کرکے ایک بانس کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔ اس ہرنی نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میرے دو چھوٹے بچے ہیں جنہیں میں نے حال ہی میں جنا ہے۔ پس آپ مجھے ان سے اجازت دلوا دیں کہ میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس آجاؤں۔ آپ نے فرمایا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے کہا: یارسول اﷲ ! ہم اس کے مالک ہیں۔ حضورنبی اکرم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ یہ اپنے بچوں کو دودھ پلا کر تمہارے پاس واپس آجائے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! اس کی واپسی کی ہمیں کون ضمانت دے گا؟ آپ نے فرمایا: میں۔ انہوں نے ہرنی کو چھوڑ دیا پس وہ گئی اور اپنے بچوں کو دودھ پلا کر واپس لوٹ آئی۔ انہوں نے اسے پھر باندھ دیا۔ جب حضورنبی اکرم دوبارہ ان لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: اس کا مالک کہاں ہے؟ اس گروہ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ! وہ ہم ہی ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اس ہرنی کو مجھے فروخت کروگے؟ انہوں نے عرض کیا: یارسول اﷲ ! یہ آپ ہی کی ہے۔ پس انہوں نے اسے کھول کر آزاد کردیا اور وہ چلی گئی۔
اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى الصحراء فاذا مناد ینادیه یا رسول اللّٰه! فالتفت فلم یر احدا ثم التفت فاذا ظبیة موثقة، فقالت: ادن منى یا رسول اللّٰه. فدنا منھا فقال: حاجتك؟ قالت: ان لى خشفین فى ذلك الجبل فخلنى حتى اذھب فارضعھما ثم ارجع الیك. قال: وتفعلین؟ قالت: عذبنى اللّٰه عذاب العشار ان لم افعل. فاطلقھا فذھبت فارضعت خشفیھا ثم رجعت فاوثقھا. وانتبه الاعرابى، فقال: لك حاجة یا رسول اللّٰه؟ قال: نعم. تطلق ھذه فاطلقھا فخرجت تعدو وھى تقول اشھد ان لا اله الا اللّٰه وانك رسول اللّٰه.68
ایک دفعہ حضورنبی اکرم ایک صحراء میں سے گزر رہے تھے۔ کسی ندا دینے والے نے آپ کویارسول اﷲ کہہ کر پکارا۔ آپ آواز کی طرف متوجہ ہوئے لیکن آپ کو سامنے کوئی نظر نہ آیا۔ آپ نے دوبارہ غور سے دیکھا تو وہاں ایک ہرنی بند ھی ہوئی تھی۔ اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ ! میرے نزدیک تشریف لائیے۔ پس آپ اس کے قریب ہوئے اور اس سے پوچھا: تمہاری کیا حاجت ہے؟ اس نے عرض کیا: اس پہاڑ میں میرے دو چھوٹے چھوٹے نومولود بچے ہیں۔ پس آپ مجھے آزاد کردیجئے کہ میں جا کر انہیں دودھ پلا سکو ں پھرمیں واپس لوٹ آؤں گی۔ آپ نے پوچھا: کیا تم ایسا ہی کرو گی؟ اس نے عرض کیا: اگر میں ایسا نہ کروں تو اﷲتعالیٰ مجھے سخت عذاب دے۔ پس آپ نے اسے آزاد کردیا۔ وہ گئی اس نے اپنے بچوں کو دودھ پلایا اور پھر واپس لوٹ آئی۔ آپ نے اسے دوبارہ باندھ دیا۔ پھر اچانک وہ اعرابی (جس نے اس ہرنی کو باندھ رکھا تھا) متوجہ ہوا اور اس نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میں آپ کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں اس ہرنی کو آزاد کردو۔ پس اس اعرابی نے اسے فوراً آزاد کردیا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی نکلی اور وہ یہ کہتی جارہی تھی: میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اﷲتعالیٰ کے رسول ہیں۔
کتب سیر میں اس طرح کے واقعات کثرت سے منقول ہیں کہ جن میں جانوروں نے آپ سے دادرسی کی درخواست فرمائی اور آپ نے ان کی دادرسی بھی فرمائی۔اسی طرح کا واقعہ حضرت ابو منظور یوں بیان کرتے ہیں:
لما فتح رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یعنى خیبر...اصاب فیھا حمارا اسود مكبلا قال: فكلم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الحمار فكلمه الحمار. فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : ما اسمك؟ قال: یزید بن شھاب، اخرج اللّٰه تعالى من نسل جدى ستین حمارا كلھم لا یركبھم الا نبى، قد كنت اتوقعك ان تركبنى لم یبق من نسل جدى غیرى ولا من الانبیاء غیرك، قد كنت قبلك لرجل یھودى وكنت اتعثر به عمدا وكان یجیع بطنى ویضرب ظھرى. قال: فقال له النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : فانت یعفور یا یعفور. قال لبیك... قال: فكان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یركبه فى حاجته واذا نزل عنه بعث به الى باب الرجل فیاتى الباب فیقرعه براسه فاذا خرج الیه صاحب الدار او ما الیه ان اجب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما قبض النبى صلى اللّٰه علیه وسلم جاء الى بئر كانت لابى الھیثم بن التیھان فتردى فیھا جزعا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فصارت قبره.69
جب حضور نبی اکرم نے خیبر کو فتح کیا۔۔۔ تو آپ نے مالِ غنیمت میں ایک سیاہ گدھا پایااور وہ پابہ زنجیر تھا۔ حضور نبی اکرم نے اس سے کلام فرمایا: تو اس نے بھی آپ سے کلام کیا۔ حضور نبی اکرم نے اسے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے عرض کیا: میرا نام یزید بن شہاب ہے، اﷲ تعالیٰ نے میرے دادا کی نسل سے ساٹھ گدھے پیدا کیے، ان میں سے ہر ایک پر سوائے نبی کے کوئی سوار نہیں ہوا۔ میں توقع کرتا تھا کہ آپ مجھ پر سوار ہوں، کیونکہ میرے دادا کی نسل میں سوائے میرے کوئی باقی نہیں رہا اور انبیاء کرام میں سوائے آپ کے کوئی باقی نہیں رہا۔ میں آپ سے پہلے ایک یہودی کے پاس تھا، میں اسے جان بوجھ کر گرا دیتا تھا۔ وہ مجھے بھوکا رکھتا اور مجھے مارتا پیٹتا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نے اسے فرمایا: آج سے تیرا نام یعفور ہے۔ اے یعفور! اس نے لبیک کہا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم اس پر سواری فرمایا کرتے تھے اور جب اس سے نیچے تشریف لاتے تو اسے کسی شخص کی طرف بھیج دیتے۔ وہ دروازے پر آتا اسے اپنے سر سے کھٹکھٹاتا اور جب گھر والا باہر آتا تو وہ اسے اشارہ کرتا کہ وہ آقا کی بات سنے۔ پس جب حضور نبی اکرم اس دنیا سے ظاہری پردہ فرما گئے تو وہ ابو ہیثم بن تیہان کے کنویں پر آیا اور حضور نبی اکرم کے غم فراق میں اس میں کود پڑا۔ وہ کنواں اس کی قبر بن گیا۔
اس حوالہ حضرت عبداﷲ بن مسعو د بیان کرتے ہیں:
كنا مع النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فى سفر فمررنا بشجرة فیھا فرخا حمرة فاخذناھما، قال: فجاءت الحمرة الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وھى تعرض، فقال: من فجع ھذه بفرخیھا؟ قال: قلنا: نحن. قال: ردوھما. قال: فرددناھما الى مواضعھما.70
ہم ایک سفر میں حضورنبی اکرم کے ساتھ تھے توہم ایک درخت کے پاس سے گزرے جس میں چَنڈول(ایک خوش آواز چڑیا) کے دو بچے تھےہم نے وہ دوبچے اُٹھا لیے۔ راوی نےکہا: وہ چَنڈول آپ کی خدمتِ اقدس میں شکایت کرتے ہوئے حاضر ہوئی۔ پس آپ نے فرمایا: کس نے اس چَنڈول کو اس کے بچوں کی وجہ سے تکلیف دی ہے؟ راوی نےکہا: ہم نے عرض کیاکہ ہم نے دی تو آپ نے فرمایا: اس کے بچے اسے لوٹا دو۔ راوی کہتے ہیں: پس ہم نے وہ دو بچے جہاں سے لیے تھے وہیں رکھ دیے۔
اسی طرح آپ نے بھیڑیے سے بھی گفتگو فرمائی ہے۔چنانچہ حضرت شمر بن عطیہ مزینہ یا جہینہ کے ایک آدمی سے روایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
صلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الفجر فاذا ھو بقریب من مئة ذئب قد اقعین وفود الذئاب فقال لھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم : ترضخوا لھم شیئا من طعامكم وتامنون على ما سوى ذلك؟ فشكوا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الحاجة. قال: فآذنوھن فخرجن ولھن عواء.71
حضور نبی اکرم نے نمازِ فجر ادا فرمائی۔ اچانک تقریباً ایک سو بھیڑئیے پچھلی ٹانگوں کو زمین پر پھیلا کر اور اگلی ٹانگوں کو اٹھائے ہوئے اپنی سرینوں پر بیٹھے ہوئے (باقی) بھیڑیوں کے قاصد بن کر حضور نبی اکرم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تھے۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: (اے گروہ صحابہ!) تم ایسا کرسکتے ہو کہ اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں سے تھوڑا بہت ان کا حصہ بھی نکالا کرو اور باقی ماندہ کھانے کو (ان بھیڑیوں سے) محفوظ کر لیا کرو؟ پھر انہوں (بھیڑیوں) نے حضور نبی اکرم سے اپنی کسی حاجت کی شکایت کی۔ آپ ﷺنے فرمایا: انہیں بتاؤ کہ تمہیں ان سے کیا پریشانی ہے ۔ پس صحابہ نے انہیں بتایا تو وہ اپنی مخصوص آوازیں نکالتے ہوئے چل دئے۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :
جاء الذئب فاقعى بین یدى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ثم بصبص بذنبه، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ھذا الذئب وھو وافد الذئاب! فھل ترون ان تجعلوا له من اموالكم شیئا؟ قال: فقالوا باجمعھم: لا! واللّٰه ما نجعل له شیئا.قال: واخذ رجل من القوم حجرا فرماہ فادبر الذئب وله عواء. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: الذئب وما الذئب.72
ایک بھیڑیا آیا تو حضور نبی اکرم کے سامنے بیٹھ گیا اور اپنی دم ہلانے لگا۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: یہ بھیڑیا دیگر بھیڑیوں کا نمائندہ بن کر تمہارے پاس آیا ہے۔ کیا تم ان کے لیے اپنے مال سے کچھ حصہ مقرر کرتے ہو؟ صحابہ کرام نے بیک زبان کہا: خدا کی قسم! ہم ایسا نہیں کریں گے۔ ایک شخص نے پتھر اٹھایا اور اس بھیڑئیے کو دے مارا۔ بھیڑیا مڑا اور غراتا ہوا بھاگ گیا۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: واہ کیا بھیڑیا تھا، واہ کیا بھیڑیا تھا۔
ایسا ہی ایک واقعہ حضرت مطلب بن عبداﷲ بن حنطب بیان کرتے ہیں:
بینما رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم جالس بالمدینة فى اصحابه اذ اقبل ذئب فوقف بین یدى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فعوى بین یدیه، فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ھذا وافد السباع الیكم، فان احببتم ان تفرضوا له شیئا لا یعدوه الى غیره وان احببتم تركتموه وتحرزتم منه فما اخذ فھو رزقه. فقالوا یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ما تطیب انفسنا له بشىء. فاوما الیه النبى صلى اللّٰه علیه وسلم باصابعه. اى: خالسھم فولى وله عسلان.73
حضور نبی اکرم مدینہ منورہ میں اپنے اصحاب کے درمیان جلوہ افروز تھے کہ اچانک ایک بھیڑیا ادھر آیا اور حضور نبی اکرم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اپنی مخصوص آواز میں کچھ کہنے لگا۔ پس حضور نبی اکرم نے فرمایا: یہ تمہاری طرف درندوں کا نمائندہ بن کر آیا ہے۔ اگر تم پسند کرو تو (اپنے مویشیوں میں سے) ان کے لیے کوئی حصہ مقرر کر دو تاکہ یہ اس (مقرر کردہ) حصے کے علاوہ کسی اور(مویشی) کی طرف نہ بڑھیں اور اگر تم چاہو تو تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو اور اس سے کنارہ کشی کر لو۔ پھر یہ جو جانور پکڑ لیں گے وہ ان کا رزق ہو گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس (بھیڑیے کو) کچھ دینے پر ہمارے دل رضامند نہیں ہوتے۔ حضور نبی اکرم نے اپنی مبارک انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ غصہ سے پیچ و تاب کھاتا ہوا واپس چلا گیا۔
اسی حوالہ سےحضرت حمزہ بن ابی اسید بیان کرتے ہیں:
خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى جنازة رجل من الانصار بالبقیع فاذا الذئب مفترشا ذراعیه على الطریق فقال: رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ھذا اویس یستقرض فاقرضوا له. قالوا: نرى رایك یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: من كل سائمة شاة فى كل عام.قالوا: كثیر. قال: فاشار الى الذئب ان خالسھم فانطلق الذئب.74
حضور نبی اکرم انصار میں سے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے جنت البقیع کی طرف تشریف لے گئے۔ پس آپ نے اچانک دیکھا کہ ایک بھیڑیا اپنے بازو پھیلائے راستے میں بیٹھا ہوا ہے۔ (اسے دیکھ کر) حضور نبی اکرم نے فرمایا: یہ بھیڑیا (تم سے اپنا) حصہ مانگ رہا ہے پس اسے اس کا حصہ دو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (اس کے حصہ کے بارے میں) ہم آپ کی رائے جاننا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہر سال ہر چرنے والے جانور کے بدلہ میں ایک بھیڑ۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ زیادہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم نے بھیڑئیے کی طرف اشارہ فرمایا: وہ ان سے اپنا حصہ چھین لیا کرے۔ پس (یہ سننے کے بعد) بھیڑیا چل دیا۔
آپ کو اللہ تبارک ورتعالی نےکئی مخصو ص صفات سے متصف فرمایا ہے جن میں سے ایک دیگر حیوانی مخلوقات سے آپ کا باہم گفتگو فرمانا بھی شامل ہے۔اسی طرح ایک موقع پر آپ نے گوہ سے بھی کلام فرمایا ہے۔چنانچہ حضرت عمر اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان فى محفل من اصحابه اذ جاء رجل اعرابى من بنى سلیم قد صاد ضبا وجعله فى كمه فذھب به الى رحله فراى جماعة، فقال: على من ھذه الجماعة؟ فقالوا: على ھذا الذى یزعم انه نبى فشق الناس، ثم اقبل على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: یا محمد! ما اشتملت النساء على ذى لھجة اكذب منك ولا ابغض، ولو لا ان یسمینى قومى عجولا لعجلت علیك فقتلتك فسررت بقتلك الناس جمیعا. فقال عمر : دعنى اقتله. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: اما علمت ان الحلیم كاد ان یكون نبیا؟ ثم اقبل الاعرابى على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: واللات والعزى! لا آمنت بك. وقد قال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: یا اعرابى! ما حملك على ان قلت ما قلت وقلت غیر الحق ولم تكرم مجلسى؟ فقال: وتكلمنى ایضا؟ استخفافا برسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. واللات والعزى! لا آمنت بك او یومن بك ھذا الضب فاخرج ضبا من كمه وطرحه بین یدى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم. فقال: ان آمن بك ھذا الضب آمنت بك. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: یاضب! فتكلم الضب بكلام عربى مبین فھمه القوم جمیعا، لبیك وسعدیك یا رسول رب العالمین. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: من تعبد؟ قال: الذى فى السماء عرشه وفى الارض سلطانه وفى البحر سبیله وفى الجنة رحمته وفى النار عذابه. قال: فمن انا یا ضب؟ قال: انت رسول رب العالمین وخاتم النبیین قد افلح من صدقك وقد خاب من كذبك. فقال الاعرابى: اشھد ان لا اله الا اللّٰه وانك رسول اللّٰه حقا، لقد اتیتك وما على وجه الارض احد ھو ابغض الى منك واللّٰه لانت الساعة احب الى من نفسى ومن والدى وقد آمنت بك شعرى وبشرى وداخلى وخارجى وسرى وعلانینی. فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: الحمد للّٰه الذى ھداك الى ھذا الدین الذى یعلو ولا یعلى، لا یقبله اللّٰه الا بصلاة ولا یقبل الصلاة الا بقرا ءة. فعلمه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الحمد وقل ھو اللّٰه احد. فقال: یا رسول اللّٰه! ما سمعت فى البسیط ولا فى الرجز احسن من ھذا. فقال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ان ھذا كلام رب العالمین ولیس بشعر، اذا قرات قل ھو اللّٰه احد مرة فكانما قرات ثلث القرآن واذا قرات قل ھو اللّٰه احد مرتین فكانما قرات ثلثى القرآن واذا قرات قل ھو اللّٰه احد ثلاث مرات فكانما قرات القرآن كله. فقال الاعرابى: ونعم الاله الھنا یقبل الیسیر ویعطى الجزیل. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: اعطوا الاعرابى فاعطوه حتى ابطروه. فقام عبد الرحمن بن عوف فقال یا رسول اللّٰه ! انى ارید ان اعطیه ناقة اتقرب بھا الى اللّٰه دون البختى وفوق الاعرابى وھى عشراء.فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: قد وصفت ما تعطى فاصف لك ما یعطیك اللّٰه جزاء؟ قال: نعم. قال: لك ناقة من درةجوفاء قوائمھا من زبرجد اخضر وعنقھا من زبرجد اصفر علیھا، ھودج وعلى الھودج السندس والاستبراق تمر بك على الصراط كالبرق الخاطف. فخرج الاعرابى من عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلقیه الف اعرابى على الف دابة بالف رمح والف سیف، فقال لھم: این تریدون؟ فقالوا: نقاتل ھذا الذى یكذب ویزعم انه نبى. فقال الاعرابى: اشھد ان لا اله الا اللّٰه وان محمدا رسول اللّٰه . فقالوا له: صبوت؟ قال: ما صبوت. وحدثھم الحدیث، فقالوا باجمعھم: لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه. فبلغ ذلك النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فتلقاھم بلا رداء فنزلوا عن ركابھم یقبلون ما ولوا منه وھم یقولون: لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه. فقالوا: مرنا بامر تحبه یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: تكونون تحت رایة خالد بن الولید. قال: فلیس احد من العرب آمن منھم الف رجل جمیعا غیربنى سلیم.75
ایک دفعہ حضور نبی اکرم اپنے صحابہ کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ بنو سلیم کا ایک اعرابی آیا۔ اس نے ایک گوہ کا شکار کیا تھا اور اسے اپنی آستین میں چھپا کر اپنی قیام گاہ کی طرف لے جارہا تھا۔ اس نے جب صحابہ کرام کی جماعت کو دیکھا تو اس نے کہا: یہ لوگ کس کے گرد جمع ہیں؟ لوگوں نے کہا: اس کے گرد جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا حضور نبی اکرم کے سامنے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا: اے محمد ( )! کسی عورت کا بیٹا تم سے بڑھ کر جھوٹا اور مجھے ناپسند نہیں ہوگا۔ اگر مجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ میری قوم مجھے جلد باز کہے گی تو تمہیں قتل کرنے میں جلدی کرتا اور تمہارے قتل سے تمام لوگوں کو خوش کرتا۔ حضرت عمر نے حضور سے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس (گستاخ) کو قتل کر دوں۔ آپ نے فرمایا: اے عمر! کیا تم جانتے نہیں کہ حلیم و بردبار آدمی ہی نبوت کے لائق ہوتا ہے۔ وہ اعرابی حضور نبی اکرم کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں تم پر ایمان نہیں رکھتا۔ حضور نبی اکرم نے اس سے پوچھا: اے اعرابی! کس چیز نے تمہیں اس بات پر ابھارا ہے کہ تم میری مجلس کی تکریم کو بالائے طاق رکھ کر ناحق گفتگو کرو؟ اس نے بے ادبی سے رسول اﷲ سے کہا: کیا آپ( ) بھی میرے ساتھ ایسے ہی گفتگو کریں گے؟ اور کہا: مجھے لات و عزیٰ کی قسم! میں آپ ( )پر اس وقت تک ایمان نہیں لاؤں گا جب تک یہ گوہ آپ ( )پر ایمان نہیں لاتی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی آستین سے گوہ نکال کر حضور نبی اکرم کے سامنے پھینک دی اور کہا: اگر یہ گوہ آپ ( )پر ایمان لے آئے تو میں بھی ایمان لے آؤں گا۔ پس حضور نبی اکرم نے فرمایا: اے گوہ(کلام کر)! - پس گوہ نے ایسی واضح اورفصیح عربی میں کلام کیا کہ جسے تمام لوگوں نے سمجھا- اس گوہ نے عرض کیا: اے دوجہانوں کے رب کے رسول ! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ حضور نبی اکرم نے اس سے پوچھا: تم کس کی عبادت کرتی ہو؟ اس نے عرض کیا: میں اس کی عبادت کرتی ہوں جس کا عرش آسمانوں میں ہے، زمین پر جس کی حکمرانی ہے اور سمندر پر جس کا قبضہ ہے، جنت میں جس کی رحمت ہے اور دوزخ میں جس کا عذاب ہے۔ آپ نے پھر پوچھا: اے گوہ! میں کون ہوں؟ اس نے عرض کیا: آپ دو جہانوں کے رب کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ جس نے آپ کی تصدیق کی وہ فلاح پاگیا اور جس نے آپ کی تکذیب کی وہ ذلیل و خوار ہوگیا۔ اعرابی یہ دیکھ کر بول اٹھا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ جب میں آپ کے پاس آیا تھا تو روئے زمین پر آپ سے بڑھ کر کوئی شخص مجھے ناپسند نہ تھا اور بخدا اس وقت آپ مجھے اپنی جان اور اولاد سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ میرے جسم کا ہر بال اور ہر رونگٹا، میرا عیاں و نہاں اور میرا ظاہر و باطن آپ پر ایمان لا چکا ہے۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: اس اللہ جل مجدہ کے لیے ہی ہر تعریف ہے جس نے تجھے اس دین کی طرف ہدایت دی جو ہمیشہ غالب رہے گا اور کبھی مغلوب نہیں ہوگا۔ اس دین کو اللہ تعالیٰ صرف نماز کے ساتھ قبول کرتا ہے اور نماز قرآن پڑھنے سے ہی قبول ہوتی ہے۔ پھر حضور نبی اکرم نے اسے سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص سکھائیں۔ وہ عرض گزار ہوا: اے اللہ کے رسول ! میں نے بسیط اور رجز (عربی شاعری کے سولہ اوزان میں سے دو وزن) میں اس سے حسین کلام کبھی نہیں سنا۔ حضور نبی اکرم نے اس سے فرمایا: یہ رب دوجہاں کا کلام ہےکوئی شاعری نہیں۔ جب تم نے سورہ اخلاص کو ایک مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے ایک تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا اور اگر اسے دو مرتبہ پڑھا تو سمجھو کہ تم نے دو تہائی قرآن پڑھنے کا ثواب پالیا۔ اگرتم نے اسے تین مرتبہ پڑھ لیا تو گویا تم نے پورے قرآن کا ثواب پالیا۔ اعرابی نے کہا: ہمارا معبود تمام معبودوں سے بہتر ہے جو تھوڑے عمل کو قبول فرماتا ہے اور بے حد و حساب عطا فرماتا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم نے صحابہ کرام سے فرمایا: اس اعرابی کی کچھ مدد کرو۔ صحابہ کرام نے اسے اتنا دیا کہ اسے (کثرتِ مال کی وجہ سے) بے نیاز کر دیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں انہیں ایک اونٹنی دے کر قربِ الٰہی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ فارسی النسل اونٹنی سے چھوٹی اور عربی النسل اونٹوں سے تھوڑی بڑی ہے اور یہ دس ماہ کی حاملہ ہے۔ حضور نبی اکرم نے فرمایا: تم جو اونٹنی اسے دوگے اس کی تم نے صفات بیان کردی ہیں۔ میں تمہارے لیے اس اونٹنی کی صفات بیان کروں جو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی جزاء میں عطا فرمائے گا؟ انہوں نے عرض کیا: ہاں (ضرور بیان فرمائیے)۔ آپ نے فرمایا: تمہیں سوراخ دار موتیوں کی اونٹنی ملے گی جس کے پاؤں سبز زمرد کے ہوں گے اور جس کی گردن زرد زبرجد کی ہوگی اور اس پر کجاوہ ہوگا جو کہ کریب اور ریشم کا بنا ہوگا۔ وہ پل صراط سے تمہیں بجلی کے کوندنے کی طرح گزار دے گی۔ پھر وہ اعرابی حضور نبی اکرم کی بارگاہ سے رخصت ہوا۔ راستے میں اسے ایک ہزار اعرابی ملے جو ہزار سواریوں پر سوار تھے اور ہزار نیزوں اور ہزار تلواروں سے مسلح تھے۔ اس نے ان سے پوچھا: تم کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اس سے لڑنے جا رہے ہیں جو کذب بیانی سے کام لیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ وہ نبی ہے ۔ اس اعرابی نے ان سے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا: تم نے بھی نیا دین اختیار کرلیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے نیا دین اختیار نہیں کیا (بلکہ دین حق اختیار کیا ہے) پھر اس نے انہیں (گوہ سے متعلق) تمام بات سنائی۔ یہ سن کر ہر کوئی کہنے لگا: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ حضور نبی اکرم تک جب یہ خبر پہنچی تو آپ انہیں ملنے کے لیے (تیزی سے) بغیر چادر کے باہر تشریف لائے۔ وہ آپ کو دیکھ کر اپنی سواریوں سے کود پڑے اور حضور نبی اکرم کے جسم مبارک کے جس حصہ تک ان کی رسائی ہوئی اسے چومنے لگے اور ساتھ ساتھ کہنے لگے: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں اس چیز کا حکم دیں جو آپ کو پسند ہے۔ آپ نے فرمایا: تم خالد بن ولید کے جھنڈے تلے ہوگے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ سارے عرب میں صرف بنو سلیم کے ہی ایک ہزار لوگ بیک وقت ایمان لائے۔
آپ نے نہ صرف انسانو ں اورحیوانوں سے گفتگو فرمائی بلکہ آپ نے نباتات سے بھی گفتگو فرمائی ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں:
جاء اعرابى الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال: بما اعرف انك نبى؟ قال: ان دعوت ھذا العذق من ھذه النخلة اتشھد انى رسول اللّٰه؟ فدعاہ رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فجعل ینزل من النخلة حتى سقط الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ثم قال: ارجع. فعاد فاسلم الاعرابى.76
ایک اعرابی حضور نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہوگا کہ آپ( ) نبی ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ نے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے یہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں:
جاء رجل من بنى عامر الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كانه یداوى ویعالج فقال: یا محمد! انك تقول اشیاء ھل لك ان اداویك؟ قال: فدعاه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى اللّٰه، ثم قال: ھل لك ان اریك آیة؟ وعنده نخل وشجر فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم عذقا منھا، فاقبل الیه وھو یسجد ویرفع راسه ویسجد ویرفع راسه حتى انتھى الیه صلى اللّٰه علیه وسلم، فقام بین یدیه. ثم قال له رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ارجع الى مكانك. فقال العامرى: واللّٰه! لا اكذبك بشىء تقوله ابداء.ثم قال: یا آل عامر بن صعصعة! واللّٰه لا اكذبه بشىء.77
قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم کے پاس آیا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اس نے کہا: اے محمد( )! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراہ تمسخر کہا:) کیا آپ( ) کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ( )کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں : آپ نے اسے اللہ کے دین کی دعوت دی۔ پھر فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ اس کے پاس کھجور اور کچھ اور درخت تھے۔ آپ نے کھجور کےایک گچھے کواپنی طرف بلایا۔ وہ گچھا (کھجور سے جدا ہو کر) آپ کی طرف سجدہ کرتے اور سر اٹھاتے پھرسجدہ کرتے اور سر اٹھاتے ہوئے بڑھا یہاں تک کہ آپ کے قریب پہنچ گیا، پھر آپ کے سامنے کھڑاہوگیا۔ تب حضور نبی اکرم نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلا جائے۔ (یہ واقع دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اس شخص نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اس نے برملا اعلان کرکے کہا: اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں انہیں (یعنی حضور نبی اکرم کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔
اسی طرح کا واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت جابر فرماتے ہیں:
سرنا مع رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حتى نزلنا وادیا افیح فذھب رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قضى حاجته فاتبعته باداوة من ماء فنظر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم یر شیئا یستتربه فاذا شجرتان بشاطىء الوادى فانطلق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى احداھما فاخذ بغصن من اغصانھا فقال: انقادى على باذن اللّٰه. فانقادت معه كالبعیر المخشوش الذى یصانع قائده حتى اتى الشجرة الاخرى فاخذ بغصن من اغصانھا فقال: انقادى على باذن اللّٰه. فانقادت معه كذلك حتى اذا كان بالمنصف مما بینھما قال: التئما على باذن اللّٰه. فالتامتا فجلست احدث نفسى فحانت منى لفته فاذا انا برسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مقبلا واذا الشجرتان قد افترقتا فقامت كل واحدة منھما على ساق. فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: یا جابر! ھل رایت مقامى؟ قلت: نعم یا رسول اللّٰه. قال: فانطلق الى الشجرتین فاقطع من كل واحدة منھما غصنا فاقبل بھما حتى اذا قمت مقامى فارسل غصنا عن یمینك و عن یسارك. قال جابر: فقمت فاخذت حجرا فكسرته وحسرته فانذلق لى فاتیت الشجرتین فقطعت من كل واحدة منھما غصنا ثم اقبلت اجرھما حتى قمت مقام رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ارسلت غصنا عن یمینى وغصنا عن یسارى. ثم لحقته فقلت: قد فعلت یا رسول اللّٰه! فعم ذاك؟ قال: انى مررت بقبرین یعذبان فاحببت بشفاعتى ان یرفه عنھما ما دام الغصنان رطبین ...الخ.78
ہم حضور نبی اکرم کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم استراحت کے لیے تشریف لے گئے۔ میں پانی لے کر آپ کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ کو پردہ کے لیے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے پھر آپ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ کے حکم سے جڑ جاؤ سو وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ سیدنا جابر نے کہا: میں نکلا دوڑتا ہوا اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہ مجھ کو نزدیک دیکھیں اور زیادہ دور تشریف لے جائیں۔ میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔ آپ نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: جی! یا رسول اﷲ! فرمایا: ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر کہتے ہیں : میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا۔ پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک شاخ توڑی اورپھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا۔پھر اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی۔ پھر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا تومیں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں ان کے عذاب میں کمی رہے۔
حضور اکرم خاتم الانبیاء ہیں جس کی وجہ سے آپ کو کئی متحیر العقول اشیاء سے نوازا گیا ہے۔انہی اشیاء میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ آپ عدم نطق والی اشیاء سے باہم کلام فرمایا کرتے تھے اور وہ اشیاء آپ کا کلام سنتی بھی تھیں اور جواب بھی دیا کرتی تھیں۔چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر ایک ایسا ہی واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یخطب الى جذع فلما اتخذ المنبر تحول الیه فحن الجذع فاتاه فمسح یده علیه.79
حضور نبی اکرم ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون (آپ کے ہجروفراق میں) گریہ و زاری کرنے لگا۔ آپ اس کے پاس تشریف لائے اوراس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا۔ (تو وہ پرسکون ہوگیا)۔
اسی طرح حضرت انس بیان کرتے ہیں:
أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خطب إلى لزق جذع واتخذوا له منبرا، فخطب علیه فحن الجذع حنین الناقة، فنزل النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فمسه فسكت.80
حضور نبی اکرم کھجور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے پھر صحابہ کرام نے آپ کے لیے منبر بنوا دیا۔ آپ جب اس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دینے لگے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اُونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضورنبی اکرم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا۔
سنن ابن ماجہ میں بھی اس روایت کو نقل کیا گیا ہے۔81 اسی طرح اس روایت کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت مبارک بن فضالہ کہتے ہیں کہ ہم سے امام حسن نے بیان فرمایا:
عن انس بن مالك قال: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یخطب یوم الجمعة الى جنب خشبة یسند ظھره الیھا فلما كثر الناس قال: ابنوا لى منبرا. فبنوا له منبرا له عتبتان فلما قام على المنبر لیخطب حنت الخشبة الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال انس: وانا فى المسجد فسمعت الخشبة حنت حنین الولد. فما زالت تحن حتى نزل الیھا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاحتضنھا فسكنت.قال: وكان الحسن اذا حدث بھذا الحدیث بكى ثم قال: یا عباداللّٰه! الخشبة تحن الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم شوقا الیه لمكانه من اللّٰه فانتم احق ان تشتاقوا الى لقائه.82
حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم جمعہ کے دن ایک لکڑی کے ساتھ کمر کی ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر جب لوگ کثرت سے آنے لگے تو آپ نے فرمایا: میرے لیے منبر تیار کرو۔ پس لوگوں نے آپ کے لیے منبر تیار کیا جس کی دو سیڑھیاں تھیں۔ جب آپ خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ لکڑی حضور نبی اکرم کے فراق میں رونے لگی۔ حضرت انس بیان کرتے ہیں: میں اس وقت مسجد میں موجود تھا۔ میں نے اس لکڑی کو بچے کی طرح روتے ہوئے سنا۔ وہ لکڑی مسلسل روتی رہی یہاں تک کہ حضور نبی اکرم اس کے لیے منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا تو وہ پرسکون ہوگئی۔راوی بیان کرتے ہیں: حضرت حسن بصری جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! لکڑی حضور نبی اکرم سے ملنے کے شوق میں اور اللہ کے حضور آپ کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے روتی ہے۔ پس تم اس بات کے زیادہ حقدار ہو کہ تم ان سے ملاقات کا اشتیاق رکھو۔
اسی حوالہ سے مزید بیان کرتے ہوئےحضرت انس فرماتے ہیں:
ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم كان یقوم یوم الجمعة فیسند ظھره الى جذع منصوب فى المسجد فیخطب الناس فجاء ہ رومى فقال: الا اصنع لك شیئا تقعد علیه وكانك قائم؟ فصنع له منبرا له درجتان ویقعد على الثالثة فلما قعد نبى اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم على ذلك المنبر خار الجذع كخوار الثور حتى ارتج المسجد حزنا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فنزل الیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم من المنبر فالتزمه وھو یخور فلما التزمه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم سكن ثم قال: اما والذى نفس محمد بیده لو لم التزمه لما زال ھكذا الى یوم القیامة حزنا على رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فامر به رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فدفن.83
حضور نبی اکرم کا یہ معمول تھا کہ آپ جمعہ کے دن مسجد میں نصب شدہ ایک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے اور لوگوں سے خطاب فرماتے۔ ایک رومی صحابی آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: (یارسول اﷲ !) کیا میں آپ کے لیے ایسی چیز تیار نہ کرلاؤں کہ آپ اس پر بیٹھ جائیں اور یوں محسوس ہو کہ آپ قیام فرما ہیں؟ پس اس نے آپ کے لیے منبر تیار کیا۔ اس منبر کی دوسیڑھیاں تھیں اور آپ تیسرے درجہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب حضورنبی اکرم (پہلی مرتبہ) اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ کجھور کا تنا حضور نبی اکرم کی جدائی کی وجہ سے بیل جیسی آواز میں رونے لگا یہاں تک کہ پوری مسجد اس کی آواز سے غمگین ہوگئی۔ حضورنبی اکرم اس کی خاطر منبر سے نیچے تشریف لائے۔ اس کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا جبکہ وہ بلبلا رہا تھا۔ جب حضورنبی اکرم نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد( ) کی جان ہے اگر میں اسے اپنے ساتھ نہ ملاتا تو یہ اﷲ کے رسول کے غم کی وجہ سے قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔ پھر آپنے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اسے دفن کردیاگیا۔
امام شافعیاس تنے کے متعلق فرمایا کرتے تھے:
ما اعطى اللّٰه عزوجل نبیا ما اعطى محمدا صلى اللّٰه علیه وسلم فقلت: اعطى عیسى احیاء الموتى. فقال: اعطى محمداً صلى اللّٰه علیه وسلم حنین الجذع الذى كان یخطب الى جنبه حتى ھیى له المنبر فلما ھیى له المنبر حن الجذع حتى سمع صوته فھذا اكبر من ذاك.84
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد کو جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں فرمایا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا۔ انہوں نے فرمایا: حضرت محمد کو کھجور کا وہ تنا عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھےیہاں تک کہ آپ کے لیے منبر تیار کیا گیا۔ جب آپ کے لیے منبر تیار کیا گیا وہ کھجور کا تنا رونے لگا یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز سنی گئی اور یہ اس سے بڑا معجزہ ہے۔
جب یہ تنا (حنانہ )رویا تو حضور نبی کریم نے اس کو گلے لگایا اور اس سے گفتگو فرمائی کہ اگر تو چاہتا ہے تومیں تمہیں پھر سے وہاں لگادوں جہاں تو پہلے تھا تاکہ تیری شاخیں نکل آئیں اورتیری خلقت کی تکمیل ہوجائے۔ تجھے پھل لگ جائے اور تو کھجور کا سر سبز و شاداب درخت بن جائے ۔ اگر تو چاہتا ہے تو تجھے جنت میں لگادوں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے نیک بندے تیرا پھل کھائیں۔ستون نے عرض کی حضور! مجھے جنت میں لگادیجئے تاکہ اﷲ کے نیک بندے میرا پھل کھائیں اور میں ہمیشہ قائم رہوں۔تو روایت میں منقول ہے:
فقال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم : قد فعلت.85
حضور نے فرمایا اچھا میں نے ایسا ہی کردیا۔
حضور اس خشک لکڑی استن حنانہ سے گفتگو فرمارہے تھے اور استن حنانہ کی مرضی کے مطابق اس کو جنت میں لگانے کا بھی فرمادیا ہے کہ اللہ کے بندے اس استن حنانہ کا پھل کھائیں۔
رسول اکرم نباتات و حیوانات کے ساتھ ساتھ جمادات سے بھی گفتگو فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: ان بمكة حجرا كان یسلم على لیالى بعثت انى لاعرفه الان.86
حضور نبی اکرم نے فرمایا: مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔
اسی حوالہ سے حضرت علی بیان کرتے ہیں:
لقد رایتنى ادخل معه یعنى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم الوادى فلا یمر بحجر ولا شجر الا قال: السلام علیك یا رسول اللّٰه. وانا اسمعه.87
میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتا: رسول اللہ! آپ پر سلام ہو اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔
مذکورہ تمام روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضوراکرم جمیع مخلوقات کی بولیاں جانتے اور اس میں کلام فرماتےتھے۔ بلکہ بعض احادیث کے مطابق اگر کسی صحابی کو کسی خاص علاقے میں بھیجتے تو وہ صحابی بھی بحکم الٰہی اس جگہ کی بولی بولنے پر قادر ہوجایا کرتے تھے۔ چنانچہ امام ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں:
عن جعفر بن عمرو قال: بعث رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اربعة نفر الى اربعة وجوہ رجلا الى كسرى ورجلا الى قیصر ورجلا الى المقوقس وبعث عمرو بن امیة الى النجاشى، فاصبح كل رجل منھم یتكلم بلسان القوم الذین بعث الیھم.88
جعفر بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم نے چار آدمی چار سربراہان سلطنت کی طرف بھیجے۔ ایک آدمی کسریٰ کی طرف، ایک قیصرروم کی طرف ،ایک مقوقس مصر کے پاس اور عمرو بن امیہ کو نجاشی شاہ حبشہ کی طرف بھیجا، تو ہر شخص اسی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے لگا جس کی طرف ایلچی بن کر گیا۔
اسی طرح حضرت مسور بن مخرمہ سے بھی روایت ہے :
كل رجل منھم یتكلم بلسان القوم الذین وجه الیھم.89
ہر شخص اسی قوم کی زبان میں گفتگو کرنے لگا جس کی طرف ایلچی بن کر گیا۔
ان روایات سے معلوم ہواکہ نبی اکرم تمام مخلوقات کی بولی جانتے تھے کیونکہ حضوراکرم کی نبوت کل عالمین کے لیے ہے جس کا ظاہری و باطنی فائدہ ذوی العقول و غیر ذوی العقول دونوں کے لیے ہے اور ہر چیز کو رب تعالیٰ نے آپ کی گفتگو اور امر کی سماعت و اتباع کے لیے آپ کا تابع فرمان کر رکھا تھا۔ یہ تمام حیوانات، جمادات، و حوش و طیور اور جملہ غیر ذوی العقول آپ کو اپنا نبی و رسول بلکہ ملجا وماوی جانتے اور مانتے تھے۔ اسی لیے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر آپ کی دستگیری کے خواستگار رہتے تھے۔ جب جب انہیں دُکھ ، تکلیف اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تو وہ آپ کی بارگاہ کا ہی رخ کرتے کیونکہ آپ نہ صرف ان کی گفتگو سنتے اور سمجھتے بلکہ ان کی مشکلات کا فو ری ازالہ بھی فرما دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں آپ کی زبان مبارکہ پر عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا چشمہ صافی جاری فرمایا تھا وہیں عرب کے مختلف لہجات اور بولیوں اور اس پر مستزاد غیر زبانوں پر بھی آگاہ فرمایا تھا۔ گفتگو ایسی خوبصورت کہ نہ تو بے جاطولانی اور نہ ہی اتنی مختصر کہ اس میں اختلاف پیدا ہوجائے۔ بالفاظ دیگر آپ کا کلام معنوی طور پر مکمل و مفصل اور جامع ہو تا اور ان جملہ فوائد کے باوجود آپ کا کلام مختصر ہوتا کیونکہ آپ صاحب ِ جوامع الکلم ہیں۔
آپ کے الفاظ و بیان کی تا ثیر کچھ ایسی تھی کہ جس شے کو کسی بات کا حکم دیدیتے تو وہ اس امر کی تکمیل کرتی۔ حکم کی تعمیل اسی وقت ممکن ہے جب حکم کے لیے کہے ہوئے الفاظ سمجھ آرہے ہوں ورنہ تعمیل حکم ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا معروضات سے واضح ہواگیا کہ کل موجودات کی بولیاں آپ بول سکتے تھے اور کل موجودات آپ کے فرمائے ہوئے کلام کو سمجھتے تھے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوتے تھےجو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ کی نبوت کائنات کی ہر چیز پر قائم و دائم تھی، ہے اور تا قیامت رہے گی۔