اﷲ ربُّ العزّت کے ان بے پایاں الطاف واکرام میں سے ایک فضل عظیم جو اس نے اپنے حبیب کریم کو عطا فرمائی وہ یہ ہے کہ اﷲ تبارک وتعالی نے آپ کی سماعت کے دائرہ کار کو وسیع فرمادیا۔ مشرق ومغرب، شمال وجنوب اور تحت وفوق کی وسعتوں کو سماعت مصطفیٰ کے لیے محدود فرمادیا ۔ آقا کریم جس طرح قریب کی آواز کو سماعت فرماتے اسی طرح باذن اﷲ دور کی آواز کو سماعت فرماتے۔ اﷲ رب العزت نے جس طرح آپ کو ذات اور ہر صفت میں یکتا،منفرد، بے مثل وبے نظیر اور شان اعجازی کا حامل بنایا اسی طرح آپ کو صفت سماعت میں بھی منفرد بنادیا تھا۔1
رسول اکرم کی قوتِ سماعت عام قوتوں سے مختلف اورجداگانہ حیثیت کی حامل تھی۔چنانچہ ایک روایت میں اس حوالہ سےیہ فرمان نبوی ملتاہےکہ کیا جو کچھ میں سنتا ہوں وہ تم بھی سنتے ہو؟ چنانچہ اس حوالہ سے حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے :
قال بینما رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى اصحابه اذ قال لھم: تسمعون ما اسمع؟ فقالوا: ما نسمع من شى. قال: انى لاسمع اطیط السماء ولا تلام ان تئط وما فیھا موضع شبر الا وعلیه ملك ساجد او قائم.2
کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صحابہ کرام میں تشریف فرماتھے۔ اچانک صحابہ سے فرمایا :کیا جو کچھ میں سنتا ہوں وہ تم بھی سنتے ہو؟ صحابہ بولے ہم کچھ بھی نہیں سنتے۔ ارشاد فرمایا: بے شک میں آسمان سے نکلنے والی چرچراہٹ کی آواز سن رہا ہوں اور اس آواز کے نکلنے پر آسمان ملامت کا سزا وار نہیں کیونکہ آسمان پر ایک بالشت کے برابر بھی خالی جگہ نہیں مگر یہ کہ ہر جگہ کوئی فرشتہ سجدے کی حالت میں ہے اور کوئی قیام کی حالت میں ہے۔
امام ابن ابی عاصم بھی روایت کرتے ہیں:
تسمعون ما اسمع؟ فقالوا: ما نسمع من شى. قال: انى لاسمع اطیط السماء.3
کیا جو کچھ میں سنتا ہوں وہ تم بھی سنتے ہو؟ صحابہ بولے: ہم کچھ بھی نہیں سنتے۔ ارشاد فرمایا: بے شک میں آسمان سے نکلنے والی چرچراہٹ کی آواز سن رہا ہوں۔
معلوم ہوا کہ حضور اﷲ کی عطا سے وہ کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں جو عام لوگ نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ پھر حضور نے خود وضاحت بھی فرمادی کہ وہ کیا دیکھتے اور کیا سنتے ہیں؟ آسمان جو زمین سے لاکھوں میل کی مسافت پر ہے حضور زمین پر تشریف فرماہوتے ہوئے بھی وہاں کی آوازیں سنتے اور وہاں کے حالات کو دیکھتے ہیں۔
رسول اکرم کی قوت ِسماعت کا کئی ایک احادیث میں تذکرہ ہوا موجود ہے۔ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ کے ساتھ تھے کہ آپ نے گڑ گڑاہٹ کی آواز سنی۔ آپ نے فرمایا تمہیں معلوم ہے یہ آواز کیسی تھی؟ ہم نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ اس حوالہ سے امام مسلمروایت کرتے ہیں:
قال :ھذا حجر رمى به فى النار منذ سبعین خریفا فھو یھوى فى النار الآن حتى انھى الى قعرھا.4
آپ نے فرمایا: یہ پتھر ہے جس کو ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا گیا تھا۔ یہ اب تک اس میں گررہا تھا اور اب اس کی گہرائی میں پہنچا ہے۔
اس حدیث پاک سے کئی امور معلوم ہوئے۔حضور اقدس نے فرشِ زمین پر تشریف فرماہوکر جہنم کی تہہ میں گرنے والے پتھر کی آواز کو سماعت کیا۔ جہنم کی ابتداء تحت الثری سے ہے اور سطح زمین سے جہنم کی تہہ تک ہزاروں بلکہ لاکھوں سال کی مسافت ہے جس کے درمیان سخت حجابات وموانع ہیں لیکن یہ سماعتِ اقدس کا اعجاز ہے کہ ہزارھا رکاوٹوں اور مزاحمتوں کے باوجود اس آواز کو سماعت فرمایا۔
رسول اللہ فرشِ زمین پر بیٹھے کئی لاکھوں میل دور کی آواز کو سماعت فرمالیا کرتےتھے۔چنانچہ حضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں :
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم: انى ارى مالا ترون واسمع ما لاتسمعون اطت السماء وحق لھا ان تئط ما فیھا موضع اربع اصابع الا وملك واضع جبھته ساجدا للّٰه، وللّٰه! لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قلیلا و لبكیتم كثیرا.5
حضور نبی کریم نے فرمایا: بے شک میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔(دلیل یہ ہے) کہ آسمانوں سے چر چرانے کی آواز آئی ہے اور حق بھی یہ ہے کہ وہ چر چرائے کیونکہ اس میں ایک چار انگل کے برابر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ اﷲ رب العزت کے حضور سجدہ ریز نہ ہو۔ خدا عزوجل کی قسم! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو ضرور کم ہنسو اور زیادہ روگے۔
امام احمد بھی روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم نے فرمایا:
انى ارى مالا ترون واسمع مالا تسمعون.6
میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔
اس روایت کو امام محمد بن یزید ابن ماجہ نے 7اور حضرت انس سے جلال الدین عبد الرحمن السیوطینے نقل کیا ہے۔8
صحابہ کرام میں سے کسی نے اس آواز کو نہیں سنا لیکن حضور نے فرش زمین پر تشریف فرماہوکر تمام آسمانوں کے چر چرانے کی آواز کو سماعت فرمالیا۔ حالانکہ زمین سے آسمان تک سینکڑوں سال کی مسافت ہے تو جو محبوب زمین پر تشریف فرما ہوکر سیکڑوں سال دور کی آواز کو سماعت فرماتے ہیں وہ چند ہزار میل دور مدینہ طیبہ میں تشریف فرماہوکر اپنے امتی کا صلوٰۃ وسلام بھی سماعت کرسکتے ہیں۔
اسی طرح آپ کی قوتِ سماعت کونقل کرتے ہوئے حضرت ابوایوب انصاری بیان کرتے ہیں :
خرج النبى صلى اللّٰه علیه وسلم وقد وجبت الشمس فسمع صوتا فقال: یھود تعذب فى قبورھا.9
نبی کریم باہر تشریف لائے اس وقت سورج غروب ہوچکا تھا پس آپ نے آواز سنی تو فرمایا :یہود کو ان کی قبروں میں عذاب ہورہا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور نے حضرت ابوایوب انصاری سے پوچھا اے ابوایوب!
اتسمع ما اسمع قلت: اللّٰه ورسوله اعلم. قال: اسمع اصوات الیھود یعذبون فى قبورھم.10
کیا تم وہ آواز سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا:اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ علم ہے۔ آپ نے فرمایا: میں یہودیوں کی آوازیں سن رہا ہوں جن کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہا ہے۔
اسی طرح کا واقعہ حضرت بلال کے متعلق بھی منقول ہے۔چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں:
یا بلال! ھل تسمع ما اسمع؟ قال: لا وللّٰه یا رسول اللّٰه ما اسمعه. قال: الا تسمع اھل القبور یعذبون.11
اے بلال! کیا تو سنتا ہے جو میں سنتا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اﷲ‘ میں نہیں سنتا۔ فرمایا: کیا تو نہیں سنتا؟ ان قبر والوں (یہودیوں) کو عذاب ہورہا ہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عام لوگ قبر کے عذاب کو نہیں سن پاتے لیکن حضور نے قبر کے عذاب کو سماعت فرمایا ۔آپ کی قوتِ سماعت کا یہ کمال ہےکہ دنیا تو کجاعالم برزخ کی آوازیں سن رہے ہیں۔
اسی حوالہ سےحضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں :
ان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال لبلال عند صلاة الفجر یا بلال حدثنى بأرجى عمل عملته فى الاسلام فانى سمعت دف نعلیك بین یدى فى الجنة؟ قال: ما عملت عملا ارجى عندى انى لم اتطھر طھورا فى ساعة لیل او نھار الا صلیت بذلك الطھور ما كتب لى ان اصلى.12
حضور نبی کریم نے صبح کی نماز کے وقت حضرت بلال سے فرمایا:مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے اسلام میں جو عمل کیے ہیں ا ن میں تم کو کس عمل پر اجر کی زیادہ توقع ہے؟ کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتیوں سے چلنے کی آہٹ سنی ہے۔ حضرت بلال نے کہا :میں نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا جس پر مجھے زیادہ اجر ملنے کی توقع ہو۔ البتہ میں جب بھی دن یا رات کے کسی وقت میں وضو کرتا ہوں تو اس وضو سے اتنی نماز پڑھتا ہوں جو میرے لیے مقدر کی گئی ہے۔
پہلے احادیث میں فرش زمین پر بیٹھ کر آسمانوں کی آواز سننے کی صراحت تھی اور اس حدیث میں تصریح ہے کہ حضور نے جنت جوکہ چھٹے آسمان میں ہے اور زمین سے لاکھوں نوری سال (Light years) دور اس کی ابتدا ہے وہاں سے حضرت بلال کے قدموں کی آہٹ کو سماعت فرمالیا ۔معلوم ہوا کہ یہ آسمان اپنی سختی وصلابت اور دوری وبعد کے باوجود بھی سماعت مصطفیٰ میں رکاوٹ اور حجاب نہیں بنتے اور حضور زمین پر ہوں تو آسمان کی آواز کو آسانی سے سماعت فرماتے ہیں اور آسمان پر ہوں تو زمین کی آواز کو آسانی سے سماعت فرماتے ہیں۔
اسی حوالہ سےام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم نے فرمایا:
دخلت الجنة فسمعت فیھا قراء ة فقلت من ھذا؟ قالوا حارثة بن النعمان.13
میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس میں قرآن کی قراء ت سنی، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کی حارثہ بن نعمان ۔
جب حضور نبی کریم فرش زمین پر کھڑے ہوکر اپنا دست پاک جنت تک پہنچاسکتے ہیں تو جنت میں ہوکر زمین کی آواز کو کیوں نہیں سماعت فرماسکتے۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں:
خسفت الشمس على عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فصلى قالوا: یا رسول اللّٰه رایناك تناول شیئا ثم رایناك تكعكعت؟ قال: انى رایت الجنة فتناولت منھا عنقودا ولو اخذته لا كلتم منه ما بقیت الدنیا.14
رسول اﷲ کے عہد زریں میں سورج کو گرہن لگا تو حضور نے نماز پڑھی ۔صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اﷲ : ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ کسی چیز کو پکڑ رہے ہیں، پھر دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں؟آپ نے فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا پس میں نے اس میں سے انگوروں کا ایک خوشہ پکڑا اور اگر میں اس کو لیتا تو تم اس وقت تک کھاتے رہتے جب تک دنیا رہتی۔
حضور کا سننا اور دیکھنا دوسرے انسانوں کے مثل نہیں ہےبلکہ تمام صفتوں کی طرح آپ کی سمع وبصر کی قوت بھی بے مثال اور ایک معجزانہ شان رکھتی ہے ،دور دور کی آواز سن لینا یہ آپ کے مقدس کانوں کا مشہور معجزہ ہے۔چنانچہ حضرت میمونہ بیان فرماتی ہیں :
ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بات عندھا فى لیلتھا فقام یتوضا للصلاة فسمعته یقول فى متوضئه: لبیك لبیك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا فلما خرج قلت: یارسول اللّٰه سمعتك تقول فى متوضئك لبیك لبیك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا كأنك تكلم انسانا فھل كان معك احد؟ فقال: ھذا راجز بنى كعب یستصرخنى ویزعم ان قریشا اعانت علیھم بنى بكر. ثم خرج رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فامر عائشة ان تجھزه ولا تعلم احدا قالت: فدخل علیھا ابوبكر فقال: یا بنیة ما ھذا الجھاز؟ فقالت: وللّٰه ما ادرى. فقال: وللّٰه ما ھذا زمان غزو بنى الاصفر فاین یرید رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ؟ قالت: وللّٰه لاعلم لى. قالت: فاقمنا ثلاثا ثم صلى الصبح بالناس فسمعت الراجز ینشده...فقال: رسول اللّٰه لبیك لبیك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا… الخ.15
نبی اکرم نے ایک رات میر ے ہاں قیام کیا آپ وضو کے لیے اٹھے تو میں نے آپ کو وضو کے دوران ارشاد فرماتے ہوئے سنا :میں حاضر ہوں ،مددکو پہنچا ،تمہاری مدد کردی گئی ہے۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ میں نے آپ کو حالت وضو میں تین بار لبیک لبیک نصرت نصرت کہتے ہوئے سنا ہے۔ گویا آپ کسی انسان سے گفتگو فرمارہے تھے۔ کیا آپ کے ساتھ کوئی تھا؟ فرمایا:ہاں! بنی کعب کا راجز مجھے مدد کے لیے پکارہا تھا۔ اور یہ گمان کررہا تھا کہ قریش نے ان کے خلاف بنی بکر کی مدد کردی ہے۔پھر رسول کریم تشریف لے گئے اورسیدہ عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ ان کی تیاری کروادیں لیکن کسی کو بتانا نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق سیدہ عائشہ صدیق کے پاس آئے اور پوچھا! اے بیٹی کس چیز کی تیاری کررہی ہو؟ انہوں نے کہا : اﷲ کی قسم مجھے معلوم نہیں ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے کہا :اﷲ کی قسم! یہ بنی اصفر کے ساتھ جنگ کرنے کا وقت تو نہیں ہے تو اﷲ کے رسول کہاں کا ارادہ فرمارہے ہیں؟ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ نے کہا: اﷲ کی قسم! مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ آپ فرماتی ہیں: ہم تین دن وہاں ٹھہرے ۔ پھر ایک دن آپ نے فجر کی نماز پڑھائی پھر میں نے اسےشعر پڑھتے ہوئے سنا۔۔۔پھر رسول اﷲ نے تین مرتبہ لبیک لبیک کہا پھر تین مرتبہ نصرت، نصرت کہا ۔
امام الاصبھانی نے بھی اس روایت کو نقل کیاہے۔16اسی طرح امام ابن ہشاملکھتے ہیں:
فقال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم نصرت یا عمرو بن سالم.17
حضور نے فرمایا: اے عمرو بن سالم !تمہاری مدد کردی گئی۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری 18 اور امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی 19نے بھی اسی طرح نقل کیا ہے۔ وہ راجز مکہ میں تھا اور حضور اقدس مدینہ میں تھے۔ واقعہ یہ تھا کہ صلح حدیبیہ میں بنی بکر قریش کی طرف سے ذمہ دار تھے اور خزاعہ حضور کی طرف سے سے ذمہ دار تھے۔ یہ ذمہ داری اس عہد پر تھی کہ آئندہ سال میں باہمی جنگ نہ ہوگی مگر قریش نے عہد اور شرائط کو توڑ دیا اور بنی بکر وغیرہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔اس وقت حضرت عمرو بن سالم راجز نے مکہ سے فریاد کی اور حضور سے مدد مانگی جس کے جواب میں حضور نبی کریم نے تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماکر اس کی مدد فرمائی چنانچہ بعد ازاں حضور نے قریش پر چڑھائی کی اور مکہ فتح ہوگیا۔ گویا ظاہری اور باطنی امداد کا ظہور ہوا۔اس حدیث کی شرح میں علامہ زرقانی فرماتے ہیں:
ففى اخباره قبل قدومه علم من اعلام النبوة باھر فاما انه اعلم بذلك بالوحى وعلم ما یصوره راجز فى نفسه اویكله به اصحابه فاجابه بذك وانه كان یرتجز فى سفره واسمعه للّٰه كلامه قبل قدومه یثلاث ولا یعد فى ذلك فقد روى ابو نعیم مرفوعا انى لا سمع اطیط السماء وما تلام ان تئط.20
نبی کریم کے عمرو بن سالم کے پہنچنے سے قبل اس کے متعلق خبر دینے میں نبوت کے معجزات میں سے واضح معجزہ اور امتیازی علامت ہے۔ پس یا تو آپ کو وحی کے ذریعے اس کی اطلاع دے دی گئی اور آپ نے اس کو جان لیا جو رجز خوان اپنے دل میں فریاد کے لیے مضمون تیار کررہا تھا اور سوچ رہا تھا یا اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کے متعلق کلام کررہا تھا تو آپ نے اس کے استغاثہ اور فریاد کا جواب دیا ۔وہ دوران سفر یہ رجزیہ اشعار پڑھتا آرہا تھا اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو اس کا کلام اس کے پہنچنے سے تین دن پہلے سنوا دیا اور اس میں کوئی استحالہ(ناممکن)، بُعد اور حیرانگی کی بات نہیں کیونکہ ابو نعیم نے مرفوع روایت ذکر کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: بے شک میں آسمان کی چر چراہٹ سنتا ہوں اور اس کے چر چرانے پر اس کی ملامت نہیں کی جاسکتی۔
علامہ زرقانی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب حضور زمین پر تشریف فرما ہوکر ہزاروں سال دور آسمانوں کی آواز کو سماعت فرماتے ہیں تو مدینہ میں تشریف فرما ہوکر مکّہ مکرّمہ میں فریاد کرنے والے امتی کی آواز کو کیونکر سماعت نہیں فرماسکتے۔ اسی طرح امام ابن عبدالبرمالکی لکھتے ہیں:
حیث خرج مستنصراً من مكة الى المدینة.21
(یہ فریاد کرنے والے صحابی رسول سیدنا عمرو بن سالم بن کلثوم خزاعی حجازی تھے) انہوں نے مدد طلب کرتے ہوئے مکہ سے مدینہ منورہ کا سفر کیا۔
یعنی فریاد کرتے وقت یہ مکہ میں تھے اور حضور مدینہ منورہ میں تھے۔ معلوم ہوا کہ حضور راجز کو دیکھ بھی رہے تھے ان کی آواز بھی سن رہے تھے اور نصرت نصرت فرما کر ان کی مدد فرما رہے تھے۔
اﷲ تعالیٰ نے حضور کے کان مبارک میں یہ اعجازو کمال رکھا ہے کہ وہ ہمہ وقت سب کا درود سنتے ہیں ۔ حضور سے محبت کرنے والے مسلمان اگرچہ لاکھوں میل دور شرق میں ہوں یا غرب میں، جنوب میں ہو ں یا شمال میں، عرب میں ہو ں یا عجم میں،پاکستان میں ہو ں یا ایران میں، سوڈان میں ہو ں یا افغانستان میں، صحراء میں ہو ں یا سمندر میں،آبادی میں ہو ں یا ویرانے میں،پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہو ں یا گہرے غاروں میں،الغرض کسی بھی مقام پر ہوحضور نبی کریم اس کے درود کو سن لیتے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے بیان کرتے ہوئے حضرت ابودرداء فرماتے ہیں :
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم :اكثرو الصلوة على یوم الجمعة فانه یوم مشھور تشھده الملائكة لیس من عبد یصلى على الا بلغنى صوته حیث كان، قلنا: وبعد وفاتك؟ قال: وبعد وفاتى ان اللّٰه حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبیاء.22
حضور نے فرمایا مجھ پر روز جمعہ زیادہ درود پڑھاکرواس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں تم میں سے کوئی بھی شخص مجھ پر درود نہیں پڑھتا مگر اس کی آواز مجھ تک پہنچ جاتی ہے چاہے وہ آواز جہاں کہیں کی بھی ہو۔ ہم نےعرض کیا: آپ کے وصال کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا کہ میرے وصال کے بعد بھی کیونکہ اﷲ نے زمین پر حرام کردیا کہ وہ انبیاء کے اجسام کو کھائے۔
اسی طرح امام عبد الرحمن صفوری لکھتے ہیں:
قال النبى صلى اللّٰه علیه وسلم: اكثروا من الصلوة على یوم الجمعة ولیلة الجمعة فان فى سائر الایام تبلغنى الملائكة صلاتكم الالیلة الجمعة ویوم الجمعة فانى اسمع صلاة من یصلى على باذنى.23
حضور نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے دن اور شبِ جمعہ کو زیادہ درود بھیجا کرو کیونکہ دیگر تمام دنوں میں تمہارا درود مجھ تک فرشتے پہنچاتے ہیں مگر جمعہ کی رات اور دن کو میں تمہارا درود اپنے کانوں سے سنتا ہوں۔
اسی حوالہ سےحضرت سید محمد بن سلیمان الجزولی الشاذلی نقل کرتے ہیں:
وقیل لرسوللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم:ارایت صلاة المصلین علیك ممن غاب عنك ومن یاتى بعدك ما حالھما عند ك فقال: اسمع صلاة اھل محبتى واعرفھم وتعرض على صلاة غیرھم عرضا.24
حضور سے عرض کیا گیا کہ ان لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمائیں جو آپ سے دور ہیں اور آپ پر درود پڑھتے ہیں اور وہ لوگ جو آپ کے ظاہری زندگی کے بعد آئیں گے ان لوگوں کا آپ کے نزدیک کیا حال ہے؟ تو حضور نے فرمایا : اہل محبت کا درود تو میں خود سنتا ہوں اور ان کو پہنچانتا ہوں اور غیر محبت والوں کا درود مجھے فرشتے پہنچاتے ہیں۔
یہ ہے حضور کے گوش مبارک کا بے مثال اعجاز۔ حضور نے کتنی وضاحت وصراحت کے ساتھ اپنی صفت سماعت کو بیان فرمایا کہ میرا جو غلام بھی مجھ پر درود وسلام پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے۔ آپ کی خدمت اقدس میں یکے بعد دیگرے جو فرشتے درود شریف پہنچانے کے لیے مقرر ہیں ان کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں :
قال رسول اللّٰه : ان للّٰه وكل بقبرى ملكا اعطاه اسماع الخلائق فلا یصلى على احد الى یوم القیامة الا ابلغنى باسمه واسم ابیه ھذا فلان بن فلان قد صلى علیك.25
رسول اﷲ نے فرمایا : بے شک اﷲ نے ایک فرشتے کو تمام مخلوق کی سماعت عطا کی ہے اور جب میری وفات ہوگی تو وہ قیامت تک میری قبر پر کھڑا رہے گا پس میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا وہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لے کر کہے گا: اے محمد()! فلاں بن فلاں شخص نے آپ پر درود پڑھا ہے۔ پھر اﷲ عزوجل اس کے ہر درود کے بدلہ میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔
درود شریف کی سماعت کے متعلق حضرت صدیق اکبر نبی اکرم کا فرمان نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اكثروا الصلوة على فان للّٰه تعالى و كل لى ملكا عند قبرى فاذا صلى على رجل من امتی قال ذلك الملك: یا محمد! ان فلان بن فلان یصلى علیك الساعة.26
مجھ پر درود بہت بھیجو کہ اﷲ تعالیٰ نے میری قبرپر ایک فرشتہ متعین فرمایا ہے۔ جب کوئی میرا امتی مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ مجھ سے عرض کرتا ہے یا رسول اﷲ :فلاں بن فلاں نے ابھی ابھی آپ پردرودپڑھا ہے۔
امام زرقانی اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اى قوة یقتدربھا على سماع ما ینطق به كل مخلوق من انس وجن وغیرھما.27
یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتے کو ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ انسان اور جن اور اس کے سوا تمام مخلوق الٰہی کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے اس کو سنتا ہے۔
امام عبدالرؤف المناوی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
اى قوة یقتدربھا على سماع ما ینطق به كل مخلوق من انس وجن وغیرھما.28
یعنی اﷲ تعالیٰ نے اس فرشتے کو ایسی قوت عطا فرمائی ہے کہ انسان اور جن اور اس کے سوا تمام مخلوق الٰہی کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے اس کو سنتا ہے۔
یہ قوتِ سماعت ایک ایسے فرشتے کی ہے جو قرب ِمصطفی میں حاضر ہے۔ جب قربِ مصطفی سے وابستہ ایک فرشتے کا یہ حال ہے تو وہ محبوب ﷺجن کو اﷲ رب العزت نے اپنے قربِ خاص سے نوازا ہو ان کی قوتِ سماعت کا کیا عالم ہوگا۔
قبر ِانور پر فرشتے کی سماعت کس قدر وسیع اور کامل ہے کہ روئے زمین پر جو بھی جن یا انسان جس وقت اور جہاں سے نبی کریم کی ذات پر درود وسلام پڑھتا ہے تو وہ فرشتہ اس درود وسلام کو سماعت کرتا ہے اور پھر اس کو بارگاہ مصطفی میں پیش کرتا ہے۔
رسول اکرم کی قوتِ سماعت کا عالم نہ صرف جوانی میں ایسا تھا بلکہ بچپن کی حالت میں بھی اسی طرح تھا۔چنانچہ حضرت عباس بن عبد المطلب نے فرمایا:
یا رسول اللّٰه دعانى الى الدخول فى دینك امارة لنبوتك رایتك فى المھد تناغى القمر وتشیر الیه باصبعك فحیث اشرت الیه مال قال: انى كنت احدثه ویحدثنى ویلھینى عن البكاء واسمع وجبته حین یسجد تحت العرش.29
یا رسول اﷲ ! مجھے تو آپ کی نبوت کی نشانیوں نے آپ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی ۔میں نے دیکھا کہ آپ گہوارے میں چاند سے باتیں کرتے اور اپنی انگلی سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور جس طرف اشارہ فرماتے چاند جھک جاتا تھا ۔حضور نے فرمایا: میں چاند سے باتیں کرتا تھا اور چاند مجھ سے باتیں کرتا تھا اور وہ مجھے رونے سے بہلاتا تھا اور اس کے عرشِ الٰہی کے نیچے سجدہ کرتے وقت میں اس کی تسبیح کرنے کی آواز کو سنا کرتا ہوں۔
حضور نے فرمایا کہ میں چاند کے زیر عرش سجدہ کرنے کے دھماکے کو سنتا ہوں۔امام عبد الرحمن بن سلام الصفوری فرماتے ہیں کہ حضرت عباس بن عبد المطلب سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا:
والذى نفسى بیده لقد كنت اسمع صریر القلم على اللوح المحفوظ وانا فى ظلمة الاحشاء.30
اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک میں لوح محفوظ پر چلتی قلم کی آواز سنتا تھا حالانکہ میں اماں جان کے شکم اطہر میں تھا۔
جس طرح حضور پر احوال برزخ و احوال جنت ودوزخ پوشیدہ نہیں ہیں اور کائنات کا ہر ذرہ حضور پر منکشف ہے۔ اسی طرح آپ میں یہ بھی طاقت ہے کہ جس کو چاہیں، زمین پر ہی جنت دکھادیں اور جنت میں رہنے والوں کی آوازیں سنوادیں۔
چنانچہ حضرت فاطمہ بنت حسین بیان کرتی ہیں کہ جب حضور نبی کریم کے فرزند حضرت قاسم کا انتقال ہوا تو حضرت خدیجہ نے عرض کیا کہ میری آرزویہ تھی کہ رب تعالیٰ قاسم کو اتنے دن اور زندہ رکھتا تاکہ ان کے ایام رضاعت پورے ہوجاتے۔ یہ سن کر نبی کریم نے فرمایا:
حضرت قاسم کے ایام رضاعت جنت میں پورے ہوں گے لیکن حضرت خدیجہ نے پھر وہی کلمات دھرائے جس پر حضور نبی کریم نے فرمایا:
ان شئت دعوت للّٰه یسمعك صوته؟ قالت: بل صدق للّٰه ورسوله.31
خدیجہ! اگر تم کہو تو میں دعا مانگو اور تم اس(حضرت قاسم )کی آواز سن لو؟ عرض کی: نہیں اﷲ اور رسول اﷲ نے سچ فرمایا۔
مذکورہ بالا تمام روایات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم کی قوتِ سماعت تمام مخلوقات میں سے سب سے اعلی و اقوی ہے جس کی سماعت میں یہ دنیا و آسمان گم ہیں۔اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بھی امتی کہیں سے بھی دورود شریف پڑھتا ہے تو اس درود شریف کو آپ سماعت فرماتے ہیں۔