Encyclopedia of Muhammad

آپ کے مبارک تلوے

اللہ ربُّ العزّت نے رسول اکرم کو ہر طرح سے بے نظیر پیدا فرمایا ہےاسی لیےآپ اس کائنات رنگ وبو میں سب سے زیادہ حسین و جمیل و منوّر ہیں۔آپ کا جسم اطہر تناسب و اعتدال کا استعارہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامآپ کے حسن ِملاحت کو بیان کرتے نہ تھکتے تھے۔جس طرح جسم اطہر حسن کا انتہائی اعلی استعارہ ہے اسی طرح آپ کا ہر ہر جزءِ بدن خوبصورتی کا مرقع ہے جس میں آپ کے تلوے بھی شامل ہیں۔رسول اللہ کے تلوے خوبصورت، قدم ہموار اورچکنے تھے۔ آپ کے تلوے مبارک زمین پر نہیں لگتے تھے۔1چلتے وقت آپ انہیں پوری طرح اٹھاتے اور زمین پر آہستہ سے رکھتے ہوئے آگے جھکے تشریف لے جاتے۔ا ٓقائے دو جہاں کے مبارک تلوے قدرے گہرے تھے کہ زمین پر نہ لگتے تھے۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ سے روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ششن القدمین خمصان الأخمصین.2
  رسول اللہ ۔۔کے قدمینِ مقدسہ پُر گوشت تھے ۔۔۔اور تلوے قدرے گہرے تھے۔

امام عبدالرحمن ابن جوزی ذکر کرتے ہیں کہ حضرت حسن مجتبیٰ نے فرمایا:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم خمصان الأخمصین، مسیح القدمین، ینبو عنھما الماء.3
  آپ کےپاؤں مبارک نچلی جانب سے اٹھےہوئےتھے(یعنی تلوے مبارک گہرےتھے) اور آپ کے قدم مبارک زیادہ پُر گوشت نہیں تھے بلکہ نرم وملائم تھےجن سے (پسینہ کی) نمی جاری رہتی۔4

اس کی تشریح کرتے ہوئے ابنِ جوزی مزید لکھتے ہیں:

  الأخمص: ما ارتفع عن الأرض من باطن الرجل.والمسیح القدم: الذى لیس بكثیر اللحم فیھما.5
  اخمص کا مطلب ہےپاؤں کا وہ حصہ جوزمین سےاٹھاہواہو یعنی تلوا۔مسیح القدمکا مطلب ہےپاؤں کا زیادہ گوشت والا نہ ہونا۔ 6

اخمص کا معنی بیان کرتے ہوئے ابن اثیر کہتے ہیں:

  من القدم الموضع الذى لا یلصق بالارض منھا عند الوطء.7
  قدم کا وہ حصہ جو چلتے وقت زمین سے مس نہ ہو۔یعنی آپ کے دونوں پاؤں مبارک کے تلوے قدرے گہرے تھے۔

اونٹ کے تلوے بالکل ہموار ہوتے ہیں جب وہ پاؤں زمین پر رکھتا ہے تو پورا پاؤں زمین کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ عام طور سے انسان کا تلوا ایسا ہی گہرا ہوتا ہے کہ زمین سے نہیں لگتے یہ خوبصورتی کی علامت ہے ۔۔۔ ایڑی اور تلوے کے بیچ میں خلا تھا اسی وجہ سے پورا قدم زمین پر نہیں لگتا تھا۔8امام ابن الاعرابی سے حضور نبی کریم کے تلووں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ تلوے قدرے گہرے تھے ۔اتنے گہرے نہ تھے کہ زمین سے زیادہ بلند ہوں اور نہ اتنے برابر تھے کہ بالکل تلوے برابر ہوں بلکہ ان کی گہرائی میں اعتدال تھا۔ 9اس طرح کے تلوے سخاوت کی علامت ہیں ۔ 10 ان روایا ت سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺکے پیر کے تلوے کی جانب کاحصہ پوراگوشت سے پر نہیں تھا بلکہ گوشت کے کم ہونے کی وجہ سے کچھ اُٹھاہواتھا جس کی وجہ سے ایڑی اور تلوے کے بیچ میں اٹھان تھی اوراس وجہ سے پوراقدم زمین پر نہیں لگتاتھا 11اورحضوراکرم کے دونوں پاؤں کے تلوے انسانی فطرت کے مطابق قدرے گہرے،زمین سے مرتفق ۔۔۔تھے۔12لیکن ان روایات کے بر عکس چند دوسری روایات میں تلووں کے برابر ہونے کا ذکر بھی ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں:’’

  كان یطأ بقدمیه جمیعاً لیس له أخمَص.13
  آپ زمین پر اپنے دونوں پاؤں مبارک جماکرچلتے تھے کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جو زمین پر نہیں لگتا تھا۔

شیخ ابراہیم بن عبداللہ الحازمی اس حدیث کو لکھتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ رسول اللہ کے تلوے گہرے نہیں تھے بلکہ نیچے سے بھرے ہوئے تھے اورچلتے وقت قدم کا نچلا حصہ مکمل طور پر زمین پر رکھتے تھے۔14

اسی طرح مجمع الزوائدمیں ہے:

  كان یطأ بقدمه جمیعاً لیس لھا أخمص.15
  حضور ۔۔چلتے وقت پورا پاؤں زمین پر لگاتےاور کوئی حصہ ایسا نہ ہوتا جو زمین پر نہ لگتا۔

ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے بھی مذکورہ روایت کو نقل کیا ہے۔16ایک اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺزمین پر پور ا قدم رکھتے تھےاور پاؤں کے تلووں میں خلا نہیں تھا۔17اب بظاہر یہ روایات باہم متعارض ہیں۔لیکن محدثین کرام نے ان میں تطبیق فرمائی ہیں۔

دونوں طرح کی روایات میں مطابقت

ان روایات کی محدثین نے جو تطبیق کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ تلووں کی گہرائی معمولی سی تھی اس لیے حضور خرام ناز سے آہستہ قدم اٹھاتے تو پاؤں کے تلوے زمین پر نہ لگتے۔ لیکن جب زور سے قدم اٹھاتے اور قدرے سختی سے پاؤں زمین پر رکھتے تو تلوے بھی نقوش پا میں شامل ہوجاتے۔ان حدیث کے مابین دوسری تطبیق یہ ہے کہ اوائل عمر میں تلوے گہرے تھے اور آخری عمرمیں بڑھاپے کی کی وجہ سے بدن مبارک میں کچھ فربہی در آئی تھی جس کی وجہ سے پاؤں کے تلوے برابرہوگئے اور ان کی گہرائی ختم ہوگئی۔امام عبد الرؤف مناوی نے یہاں فرمایا کہ مذکورحدیث ابوہریرہ اگرچہ سند کے اعتبار سے دوسری حدیث سے قوی ہے مگر متن کے اعتبارسے ضعیف ہے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

  ان سیاقه دال على انه استدلال باثر قدمه على انه لا اخمص له ولم یسند حكمة بذلك الى روایة و بذلك لیضعف.18
  اس حدیث کا پس منظر بتاتا ہے کہ آپ نے تلووں کی عدم گہرائی پر قدم کے نشان سے استدلال کیا ہے اور اس کے حکم کو کسی روایت کی طرف منسوب نہیں کیا اس وجہ سے اس میں ضعف پیدا ہوگیا ہے۔

کیونکہ ممکن ہے گہرائی ہو مگر شدت رفتار کی وجہ سے پورا قدم زمین سے مس ہورہا تھا سیدنا ابوہریرہ نے اسی سے استدلال فرماتے ہوئےیہ روایت بیان کی تھی۔

کسی شخص کے تلووں میں گہرائی کا ہونا اس کی چستی اورنشاط کی نشانی ہے ۔کیونکہ ایسے افرادکے لیے دوڑنا یا تیز چلنا آسان ہوتا ہے جن کے تلووں میں گہرائی ہوتی ہےبنسبت ان لوگوں کے جن کے قدموں میں گہرائی نہ ہو ۔اسی لیے دنیا کی تمام افواج (Forces) میں بھرتی کے وقت کیڈٹس (Cadets) اور امید واران کے تلووں کولا زمادیکھااور جانچا جاتاہے۔ اگر ان کے تلوے بالکل ہموار ہوں تو تمام تر قابلیت کے باوجود بھی ان کو بھرتی نہیں کیا جاتا بلکہ ایسے شخص کو(Misfit)قرار دیا جاتا ہے۔تلووں میں گہرائی پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے جو حسن ِ اکمل کے لیے لازمی جز ہے ۔

 


  • 1 محمد بن سعد،طبقات ابن سعد(مترجم: مولانا عبداللہ العمادی)،ج-2،مطبوعہ:نفیس اکیڈمی ،کراچی،پاکستان ، 1389ھ،ص :135
  • 2 محمد بن عیسیٰ ترمذی ، الشمائل المحمدية ،ج-1،مطبوعۃ: دار إحياء التراث العربى، بيروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :23
  • 3 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :59
  • 4 عبدالرحمن ابن جوزی،الوفا باحوال مصطفیٰ ﷺ(مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ:حامد کمپنی،لاہور،پاکستان2002،ص :456
  • 5 أبو الفرج عبد الرحمن بن الجوزى، الوفا بأحوال المصطفى، ج-2، مطبوعة: المؤسسة السعيدية، الرياض، السعودية، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :59
  • 6 امام عبدالرحمن ابن جوزی،الوفا باحوال مصطفیٰ ﷺ(مترجم:علامہ محمد اشرف سیالوی)، مطبوعہ:حامد کمپنی،لاہور،پاکستان، 2002،ص :456
  • 7 ابو السعادات مبارک بن محمد ابن الاثیر جزری، النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج -2، مطبوعۃ:المکتبۃ العلمیۃ بیروت،لبنان، 1979ء، ص : 80
  • 8 محمد حسین صدیقی،آفتاب نبوت کی کرنیں اردو شرح شمائل ترمذی، مطبوعہ: دارالاشاعت کراچی ، پاکستان،2004ء، ص :105
  • 9 ابو السعادات مبارک بن محمد ابن الاثیر جزری، النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر، ج -2، مطبوعۃ:المکتبۃ العلمیۃ بیروت، لبنان، 1979ء، ص : 80
  • 10 مفتی محمد سلیمان قاسمی،محبوب ﷺ کا حسن وجمال،مطبوعہ:دارالمعارف ،ملتان ،پاکستان، 2001ء، ص :47
  • 11 مولانا مفتی مظفر حسین، شمائل کُبریٰ ، ج-5، مطبوعۃ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص :71
  • 12 عبدالقیوم حقانی،شرح شمائل ترمذی،ج-1، مطبوعہ: مطبع عربیہ ،لاہور، پاکستان،2002ء، ص :167
  • 13 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ، ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان،2008ء،ص :245
  • 14 شیخ ابراھیم بن عبداللہ الحازمی (مترجم:عبداستار،مسعود عالم)، دلائل النبوۃ، مطبوعہ:دی اعجاز پرنٹر،کلکتہ،انڈیا،(سن اشاعت ندارد)، ص :46
  • 15 أبو الحسن نور الدين على سليمان الهيثمى، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ،ج-8،مطبوعۃ: مكتبة القدسي، القاهرة، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :289
  • 16 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان، 1405ھ، ص : 294
  • 17 امام ابی بکراحمد بن الحسین الیہقی، دلائل النبوۃ (مترجم،: مولانا محمد اسماعیل الجاروی) ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت ، کراچی ، پاکستان، 2009ء، ص :224
  • 18 عبدالرؤف بن تاج العارفین مناوی، حاشیۃ بر جمع الوسائل فی شرح الشمائل ،ج -1، مطبوعہ :نور محمد اصح المطابع کراچی، پاکستان ،(سن اشاعت ندارد) ، ص :42