Encyclopedia of Muhammad

آپ کے قدمین شریفین

حضور کے قدمین شریفین نرم وگداز، پُرگوشت، دلکش وخوبصورت اور مرقع جمال وزیبائی تھے۔ آپ کے تلوے قدرے گہرے تھے، ان کی انگلیاں تناسب کے ساتھ لمبی تھیں، قدم اس طرح ہموار کہ پانی ان سے فی الفور ڈھل جاتا، خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے۔

قدم مبارک بڑے تھے

آپ کے مبارک قدم میں چھوٹا پن نہ تھا بلکہ دونوں پاؤں مبارک اعتدال کے ساتھ بڑے تھے۔ چنانچہ حضرت انس بیان کرتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم القدمین.1
  آپ کے قدم مبارک تناسب سے بڑے تھے۔

حضرت ابوہریرہ سے بھی روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم القدمین.2
  آپ کے قدم مبارک تناسب سے بڑے تھے۔

نیز اسی طرح حضرت علی سے بھی روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم القدمین.3
  آپ کے قدم مبارک تناسب سے بڑے تھے۔

قدم مبارک پُرگوشت تھے

حضرت انس سے روایت ہے:

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم شثن القدمین.4
  حضور نبی کریم کے قدمین مقدسہ پرگوشت تھے۔

حضرت ہند بن ابی ہالہ سے روایت ہے:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم... شثن القدمین.5
  رسول اﷲ کے قدمین مقدسہ پرگوشت تھے۔

حضرت نافع بن جبیر سے بھی روایت ہے:

  شثن القدمین.6
  رسول اﷲ کے قدمین مقدسہ پرگوشت تھے۔

مرقع حسن بے مثال

حضرت عبداﷲ بن بریدہ سے روایت ہے :

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان احسن البشر قدما.7
  حضور کے قدمین شریفین سارے انسانوں سے خوبصورت تھے۔

حضرت ابو سلمہ سے مروی ہے:

  كان رسول اللّٰه ضخم الكفین والقدمین لم ار بعده شبیھا به صلى اللّٰه علیه وسلم.8
  نبی کریم کی دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گداز اور بھرے بھرے تھے ۔میں نے اتنے خوبصورت پاؤں آپ کے بعد کسی کے نہیں دیکھے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں:

  كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم ضخم الكفین والقدمین لم ار بعده شبھا له.9
  نبی کریم کی دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم گداز اور بھرے بھرے تھے میں نے آپ کے بعد آپ کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔

انگشتانِ قدم مبارک

حضور کے مبارک پاؤں کی اُ نگلیاں حسنِ اعتدال اور حسنِ تناسب کے ساتھ قدرے لمبی تھیں۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ پاؤں کی انگلیوں کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ... شثن القدمین سائل الاطراف.10
  رسول اﷲ کے قدمین مقدسہ پرگوشت تھے اور ان کی انگلیاں نہایت ہی خوبصورت اور لمبی تھیں۔

آپ کے پاؤں مبارک کی انگلیوں کے حسن وجمال کے بارے میں حضرت میمونہ بنت کردم سے مروی ہے کہ مجھے اپنے والد گرامی کی معیت میں حضور کی زیارت کی سعادت حاصل ہوئی آپ اونٹنی پر سوار تھے اور دست اقدس میں چھڑی تھی:

  فدنا ابى فاخذ بقدمه فاقر لرسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم .
  میرے والد گرامی نے آپ کے مبارک پاؤں کو تھام لیا اور آپ کی رسالت کی گواہی دی ۔

اس وقت مجھے حضور کے قدمین شریفین کی انگلیوں کی زیارت نصیب ہوئی۔

  فما نسیت فیما نسیت طول اصبع قدمه السبابة على سائر اصابعه.11
  پس میں آج تک حضور کے پاؤں مبارک کی سبابہ (انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی) کا دوسری انگلیوں کے مقابلہ میں حسنِ طوالت نہیں بھولی۔12

قدموں کا ہموار ہونا

حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم مسیح القدمین ینبو عنھما الماء.13
  رسول اﷲ کے مبارک قدم نہایت ہموار اور نرم تھے پانی ان سے فی الفور ڈھل جاتا۔

امام بیہقی "مسیح القدمین" کی تشریح میں فرماتے ہیں:

  قوله مسیح القدمین: یعنى انه ممسوح ظاھر القدمین فالماء اذا صب علیھا مر علیھا مرا سریھا لاستواءھما وانملاسھما.14
  مسیح القدمین سے مراد یہ ہے کہ دونوں قدموں کا ظاہر ممسوح (چکنا ) تھایعنی جب ان پر پانی ڈالا جاتا تو تیزی سے اُوپر سے گزرجاتا، ان کے برابر اور نرم ہونے کی وجہ سے۔

پاؤں کی ٹھنڈک

آپ کے مبارک قدموں کو مس کرنے والا ہر شخص ان کی ٹھنڈک محسوس کرتا۔ حضر ت میمونہ بنت کردم بیان کرتی ہیں کہ میرے والد گرامی نے آپ کے مبارک قدم کو مس کرنے کے بعد بتایا:

  فقبضت على رجله فما رایت شیئا ابرد منھا.15
  میں نے آپ کے مبارک پاؤں کو مس کیا تو اس سے بڑھ کر میں نے کسی شے کو ٹھنڈا نہیں پایا۔

صحابی رسول کا قدم مبارک کو چُھونا

امام ابن حجر عسقلانی روایت کرتے ہیں:

  عن رافع بن عمرو المزنى قال انى لفى حجة الوداع خماسى او سداسى فاخذ ابى بیدى حتى انتھینا الى النبى صلى اللّٰه علیه وسلم بمنى یوم النحر فرایته یخطب على بغلة شھباء فقلت لابى من ھذا؟ فقال ھذا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فدنوت حتى اخذت بساقه ثم مسحتھا حتى ادخلت كفى فیما بین اخمص قدمه والنعل فكانى اجد بردھا على كفى.16
  رافع بن عمرو المزنی سےروایت ہے، فرمایا: میں حجۃ الوداع کے موقعہ پر اپنے والد کے ساتھ ساتھ ہاتھ پکڑے ہوئے شریک ہوا۔ میری عمر پانچ یا چھ برس ہوگی۔ یہاں تک کہ ہم لوگ نحر کے روز منٰی میں رسول اﷲ تک پہنچ گئے ۔میں نے دیکھا آپ سرخی مائل خچر پر خطاب کررہے تھے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا یہی رسول اﷲ ہیں۔ تو میں آپ کے قریب ہوتا گیا یہاں تک کہ میں نے آپ کی پنڈلی مبارک پکڑی اور اسے (بطور تبرک) مس کیا اور اپنی ہتھیلی آپ کے نعل اور قدم مبارک کے درمیان رکھ لی ،مجھے ابھی تک آپ کے تلوے کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔

قدموں کی سفیدی

امام اعظم روایت کرتے ہیں:

  عن عائشة قالت كانى انظر الى بیاض قدمى رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم حیث اتى الصلوة فى مرضه.17
  ام المومنین عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ گویا میں رسول اﷲ کے قدموں کی سفیدی کو اب بھی دیکھ رہی ہوں، جب کہ آپ اپنی بیماری میں نماز کے لیے تشریف لائے۔

جس طرح نبی اکرم حسن و جمال اور توازن و اعتدال کا شاہکار تھے اور یہ امتیازیت آپ کے جسدِ اطہر کے تمام حصّوں میں نمایاں رہتی تھی بالکل اسی طرح آپ کے قدمین شرفین بھی اسی صفت ِ اعتدالیت کے مظہر تھے اور ان قدموں کے ذریعہ آپ کے جسدِ اطہر کا اعتدال دیکھنے والے شخص کی نظر میں رچ اور بس جایا کرتا تھا،نہ صرف اتنا بلکہ دیکھنے والا ان قدمین شرفین پر کھڑے پیکر اطہر کی رعنائیوں میں مستغرق ہوجاتا تھا۔

 


  • 1 احمد بن حنبل، مسند احمد،حدیث: 12266 ،ج-19،مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، لبنان،2001ء، ص: 285
  • 2 سلیمان بن داؤد الطیالسی، مسند ابوداؤد الطیالسی، حدیث: 2712، ج-4، مطبوعۃ: دار ھجر، مصر،1999ء،ص:314
  • 3 عمر بن شبۃ، تاریخ المدینۃ ،ج-2، مطبوعۃ: مکتبۃ فانوس، جدۃ، السعودیۃ، 1399ھ، ص: 603
  • 4 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث: 5910 ،ج-7 ، مطبوعۃ :دار ابن حزم، دمشق، السوریۃ، ص:162
  • 5 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 7 ، مطبوعۃ: دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:11-13
  • 6 عمر بن شبۃ، تاریخ المدینۃ ،ج-2، مطبوعۃ: مکبتۃ فانوس، جدۃ، السعودیۃ،1399ھ،ص: 602
  • 7 محمد بن سعد بصری، طبقات ابن سعد، ج -1،مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1978ء، ص: 419
  • 8 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 244
  • 9 محمد بن اسماعیل بخاری ، صحیح البخاری، حدیث: 5911 ،ج- 7، مطبوعۃ:، دار ابن حزم، دمشق،السوریۃ،ص: 162
  • 10 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ ،حدیث: 7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:11-13
  • 11 احمد بن حنبل، مسند احمد،حدیث: 27064 ،ج- 44، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:620-621
  • 12 بعض روایات میں حضرت جابر بن سمرہ کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ آپﷺ کی چھنگلی دونوں پاؤں کی انگلیوں سے بڑی تھی لیکن ایسی روایات قابل توجہ نہیں، محدثین نے ان روایات کو قبو ل نہیں کیا۔ امام محمد یوسف الصالحی ﷫اس کے بارے میں لکھتے ہیں: فحدیثہ ھذا باطل لا اصل لہ ورسول اﷲﷺ کان معتدل الخلق۔ ترجمہ: اس کی یہ (انگلی کے بڑے ہونے کے بارے میں) حدیث باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں اور یاد رہے کہ نبی کریمﷺ کے جسمِ اطہر کے ہر ہر عضو کی تخلیق میں اعتدال و موزونیت کو قائم رکھا گیا ہے۔ (محمد بن یوسف صالحی شامی ، سبل الہدی والرشاد ،ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص :79)
  • 13 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث: 7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988ء، ص:11-13
  • 14 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 295
  • 15 ایضًا
  • 16 ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حدیث: 4079 ،ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت ،لبنان، 1415ھ، ص: 190
  • 17 عبدﷲ بن محمد بن یعقوب حارثی، مسند ابی حنیفۃللحارثی،حدیث: 405، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2008ء،ص: 15