اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو قوت وطاقت کا مظہرِ حقیقی بنایا تھا تاکہ آپ کسی کے سامنے جسمانی طاقت میں کمزوری محسوس نہ فرمائیں اور نہ کسی طرف سے آپ پر یہ الزام لگایا جاسکے کہ کوئی اور آپ سے زیادہ قوی ہے۔یہ اس لیے تھاکہ جس طرح منصبِ رسالت ونبوّت ہر نقص و عیب سے مبرّا ہوتا ہےبالکل اسی طرح خود رسول بھی جملہ نقائص و عیوب سے منزّہ ہوتا ہےتاکہ منصبِ نبوّت کے ساتھ ساتھ ذاتِ نبی بھی جملہ انسانی اوصاف و کمالات کا مجموعہ بن کرانسانوں کو خداکی راہ پر چلانے کا فریضہ بغیر کسی دنیاوی سہارے کے ادا کرسکے۔اسی لیے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضور کو بے پناہ جسمانی قوت سے نوازا۔ جس طرح دوسرے خصائص میں آپ کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح جسمانی قوت میں بھی آپ کا کوئی مد مقابل نہیں تھا۔
حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں :
إنا یوم الخندق نحفر فعرضت كدیة شدیدة فجاؤوا النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فقالوا: ھذه كدیة عرضت فى الخندق. فقال: أنا نازل. ثم قام وبطنه معصوب بحجر ولبثنا ثلاثة أیام لانذوق ذوقا فأخذ النبى صلى اللّٰه علیه وسلم المعول فضرب فعاد كثیبا أھیل.1
ہم جب خندق کھود رہے تھے تو اچانک ہمارے سامنے ایک چٹان آگئی جو کہ بڑی سخت تھی (بڑا زور لگایا مگر وہ ٹوٹتی نہ تھی) تو خندق کھودنے والے صحابہ کرام نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور ماجرا عرض کیا تو حضور نے فرمایا: میں آتا ہوں۔ بعدازاں حضور اُٹھے اور تشریف لائے حالانکہ حضور کے پیٹ مبارک پر بھوک کی وجہ سے پتھر بندھا ہوا تھا اور تین دن سے ہم نے کوئی چکھنے کی چیز نہ چکھی تھی اور باوجود اس حالت کے حبیب نے گیتی پکڑی اور اس چٹان پر ماری تو وہ چٹان ریت کی طرح بہہ گئی۔
اسی طرح اس کو مزید تفصیل سے بیان کرتے ہوئے حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں :
أمرنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بحفر الخندق، قال: وعرض لنا صخرة فى مكان من الخندق، لا تأخذ فیھا المعاول، قال: فشكوھا إلى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فجاء رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم، قال عوف: وأحسبه قال: وضع ثوبه ثم ھبط إلى الصخرة، فأخذ المعول فقال: "بسم اللّٰه" فضرب ضربة فكسر ثلث الحجر، وقال: اللّٰه أكبر أعطیت مفاتیح الشام، واللّٰه إنى لأبصر قصورھا الحمر من مكانى ھذا. ثم قال: "بسم اللّٰه" وضرب أخرى فكسر ثلث الحجر فقال: "اللّٰه أكبر" أعطیت مفاتیح فارس، واللّٰه إنى لأبصر المدائن، وأبصر قصرھا الأبیض من مكانى ھذا. ثم قال: "بسم اللّٰه"وضرب ضربة أخرى فقلع بقیة الحجر فقال: اللّٰه أكبر أعطیت مفاتیح الیمن، واللّٰه إنى لأبصر أبواب صنعاء من مكانى ھذا.2
رسول اﷲ نے ہمیں خند ق کھودنے کا حکم دیا حضرت البراء بن عازب نے کہا کہ خندق کی جگہ میں ایک چٹان نکل آئی جو کدال اور پھاوڑوں سے نہیں ٹوٹ رہی تھی مسلمانوں نے رسول اﷲ سے اس کی شکایت کی ۔عوف نے کہا پھر رسول اﷲ ٓ آئے اور فالتو کپڑے رکھ کر چٹان کی طرف اتر گئے آپ نے کدال پکڑی اور بسم اﷲ پڑھ کر ضرب لگائی تو اس سے تہائی چٹان ٹوٹ گئی آپ نے فرمایا اﷲ اکبر! مجھے ملک شام کی چابیاں دے دی گئیں ۔آپ نے فرمایا اﷲ کی قسم میں اس جگہ سے ملک شام کے سرخ محلات دیکھ رہا ہوں۔ آپ نے پھر بسم اﷲ پڑھ کے دوسری ضرب لگائی تو پھراس سےدوسری تہائی چٹان ٹوٹ گئی آپ نے فرمایا اﷲ اکبر! مجھے ملک فارس کی چابیاں دے دی گئیں اور اﷲ رب العزت کی قسم! بے شک میں اس جگہ سے اس کے شہروں کو اور اس کے سفید محلات کو دیکھ رہاہوں۔ آپ نے پھر بسم اﷲ پڑھ کر ایک اور ضرب لگائی اور وہ چٹان مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی توآپ نے فرمایا اﷲ اکبر! مجھے یمن کی چابیاں دے دی گئیں اور آپ نے فرمایا :میں اس جگہ سے صنعاء کے دروازے دیکھ رہا ہوں۔
صحابہ کرام جانتے تھے کہ اس چٹان کو اگرچہ کہ ہم نہیں توڑ پارہے لیکن رسول اکرمکے پاس ا س کا حل موجود ہوگا۔چنانچہ انہوں نے آپ کے پاس جا کر اس پریشانی کا اظہار کیا اور نبی اکرم نے بذاتِ خود اس چٹان پر جب اپنی خداداد قوت سے چوٹ ماری تو وہ ٹوٹ گئی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم کی طاقت وقوت انتہائی زیادہ تھی کہ جو چٹان کافی کوششوں کے بعد ٹوٹ نہیں رہی تھی اسے نبی اکرم نے آسانی کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔حضرت ابو ذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضور نبی کریم سے عرض کیا:
كیف علمت انك نبى حتى استیقنت؟ فقال: یا اباذر! اتانى ملكان وانا ببعض بطحاء مكة فوقع احدھما الى الارض وكان الاخر بین السماء والارض فقال احدھما لصاحبه: اھو ھو؟ قال: نعم. قال: فزنه برجل فوزنت به فوزنته ثم قال: زنه بعشرة فوزنت بھم فرجحتھم. ثم قال: زنه بمائة فوزنت بھم فرجحتھم ثم قال: زنه بمائة فوزنت بھم فرجحتھم ثم قال: زنه بالف فوزنت بھم فرجحتھم كانى انظر الیھم ینتثرون على من خفة المیزان قال: فقال احدھما لصاحبه: لو وزنته بامته لرجحھا.3
یہ فرمائیے کہ آپ کو کب اور کیسے یقین ہوا کہ میں اﷲ تعالیٰ جل جلالہ کا نبی ہوں؟ یہ سن کر نبی رحمت حضور نے فرمایا: اے ابوذر جبکہ میں ایک دن مکّہ مکرّمہ کی ایک وادی میں تھا تودو فرشتے آئے ایک زمین پر اتر آیا مگر دوسرا زمین وآسمان کے درمیان ہی رہا پھران میں سے ایک بولا کیا وہ یہی ہیں؟ دوسرے نے کہا ہاں ہاں یہی ہیں ۔اوپر والا فرشتہ بولا ذرا ان کا ایک مرد کے ساتھ وزن تو کرو۔جب فرشتے نے میرا ایک مرد کے ساتھ وزن کیا تو میں وزنی نکلا پھر اوپر والے فرشتے نے کہا اب ان کا دس مردوں کے ساتھ وزن کرو تو جب میرا دس مردوں کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں وزنی نکلا ۔پھر فرشتے نے کہا اب ان کا وزن سو (100) مردوں کے ساتھ وزن کرو تو جب میرا وزن سو مردوں کے ساتھ کیا گیا تو میں وزنی نکلا۔ پھر فرشتے نے کہا اب ان کا ہزار مردوں کے ساتھ وزن کرو تو جب میرا ہزار مردوں کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں وزنی نکلا۔ یہ دیکھ کر وہ فرشتے بھی خوش ہوگئے آخر کار اس اوپر والے فرشتے نے کہا اب وزن کرنا چھوڑدے کیونکہ اگر تو حضور کو ان کی ساری امت کے ساتھ بھی وزن کرلے تو پھر بھی حضور ہی وزنی رہیں گے۔
رکانہ پہلوان مکّہ مکرّمہ کا مشہور اور طاقتور پہلوان تھا۔ایک دفعہ نبی اکرم کا گزر ا س کے پاس سے ہوا تو ا س کو نبی مکرم نے دعوتِ اسلام پیش کی۔اس نے دلیل طلب کی تو رسول اللہ نے اس سےکہا کہ اگر میں تمہیں پچھاڑ دوں تو کیااسلام قبول کرلوگے۔اس نے مبارزت کو قبول کیا۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحاق فرماتے ہیں:
انه كان بمكة رجل شدید القوة ویحسن الصراع وكان الناس یاتونه من بلاد للمصارعة فیصرعھم فبینما ھو ذات یوم فى شعب من شعاب مكة اذ لقیه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فقال له: یا ركانة الا تتقى اللّٰه وتقبل ما ادعوك الیه؟ فقال له ركانة : یا محمد ھل من شاھد یدل على صدقك؟ قال: ارایت ان صرعتك تومن باللّٰه ورسوله؟ قال: نعم یا محمد. فقال له: تھیا للمصارعة. قال: تھیات فدنا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاخذه ثم صرعه فتعجب ركانة من ذلك ثم ساله الاقالة والعود ففعل به ثانیا و ثالثا فوقف ركانة متعجبا وقال: ان شانك لعجیب.4
مکّہ مکرّمہ میں رکانہ نامی ایک پہلوان رہتا تھا جو اپنی طاقت کی وجہ سے پورے عرب میں مشہور تھا کہ آج تک کسی نے اس کی پشت نہیں لگائی ۔دور دور سے پہلوان اس کے ساتھ کشتی کرنے آتے تھے اور وہ سب پر غالب تھا۔ ایک دن مکّہ کی وادیوں میں سے کسی وادی میں نبی کریم سے اس کاسامناہوگیا ۔ حضور نے فرمایا: اے رکانہ کیا تو اﷲ تعالیٰ عزوجل سے نہیں ڈرتا اور میری دعوت اسلام کو قبول نہیں کرتا؟ یہ سن کر رکانہ نے کہا: کیا آپ کے سچے نبی ہونے پر کوئی دلیل بھی ہے؟ حضور نے فرمایا: میرے ساتھ کشتی کرلے اگر میں تجھے پچھاڑ دوں تو تو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے گا؟ اس نے کہا: بالکل ایمان لے آؤں گا۔ یہ سن کر حضور نبی کریم نے فرمایا: اُٹھ کشتی کے لیے تیاری کرلے۔ جب اس نے تیاری کرلی (کشتی کا لباس وغیرہ پہن لیا) تو حضور نے بغیر کسی تیاری کے رکانہ کو پکڑا اور پشت لگادی، رکانہ ہکا بکا حیران وپریشان دِکھنے لگا کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ سوچ سوچ کر کہنے لگا: اے محمد () یہ اتفاقی امر تھا آئیں ایک بار پھر کشتی کریں۔ یہ سن کر حضور نے اسے پکڑا اور پچھاڑ دیااور اس کی پشت لگادی۔ رکانہ کہنے لگا: اب ایک بار اور کشتی کریں ۔حضور نے اسے پکڑا اور پٹخ دیا۔ رکانہ حیران وپریشان ہوکر بولا: آپ کی شان بہت نرالی ہے۔
اکثر روایات میں مذکور ہے کہ حضور کی معجزانہ جسمانی قوت کا عملی مشاہدہ کرنے کے باوجود رکانہ اسلام کی دولت سے محروم رہا تاہم حضرت عبداﷲ بن عباس کی روایت میں رکانہ کے قبولِ اسلام کا ذکر ہے وہ فرماتے ہیں:
ان یزید بن ركانة صارع النبى فصرعه النبى ثلاث مرات كل مرة على مائة من الغنم فلما كان فى الثالثة قال: یا محمد! ما وضع ظھرى الى الارض احد قبلك وما كان احد ابغض الى منك وانا اشھد ان لا اله الاللّٰه وانك رسول اللّٰه.5
یزید بن رکانہ نے حضور نبی کریم سے کشتی لڑی تو آپ نے اسے تین بار پچھاڑا ہر دفعہ (پچھاڑنے پر اس نے آپ کو) سو بکریاں دینے کا وعدہ (کیا) تھا۔ (مگر آپ نے اسے تین سو بکریاں معاف کردیں اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی) تیسری بار شکست کھانے پر اس نے کہا: اے محمد ! ( ) آج سے پہلے کسی نے زمین کے ساتھ میری پشت نہیں لگائی تھی اور مجھے آپ سے زیادہ کوئی شخص برا نہیں لگتا تھا لیکن اب میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ معبود برحق ہے اور آپ اس کے رسول ہیں۔
ابو الاسود جمعی بھی سرزمین عرب کا ایک نامی گرامی پہلوان تھا علاقے کے تمام پہلوان اس سے خوف کھاتے تھے۔اس کو بھی رسول اکرم نے پچھاڑ دیا تھا۔چنانچہ امام قسطلانی اس حوالہ سے تحریرفرماتے ہیں:
وقد صارع صلى اللّٰه علیه وسلم جماعة غیر ركانة منھم ابو الاسود الجمعى كما قاله السھیلى ورواه البیھقى وكان شدیدا بلغ من شدته انه كان یقف على جلد البقرة ویجاذ باطرافه عشرة لینزعوه من تحت قدمیه فیتفرى الجلد ولم یتز حزح عنه فدعا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الى المصارعة وقال :ان صرعتنى آمنت بك. فصرعه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلم یومن.6
نبی کریم نے صرف رکانہ کو ہی نہیں پچھاڑا بلکہ بہت سارے زور آور حضور کے ساتھ زور آزمائی کرچکے مگر کسی کو کچھ بھی کامیابی نہ ہوئی ۔ان میں سے ابو الاسود جمعی نے بھی کشتی کرکے دیکھ لیا مگر شکست ہی کھائی۔ ابو الاسود ایسا شاہ زور تھا کہ گائے کی کھال بچھا کر اس پر کھڑا ہوجاتا اور لوگوں کو کہتا : میرے نیچے سے یہ کھال کھینچو لہٰذا دس دس جوان مرد زور آور اس کھال کو کھینچتے۔ کھال ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی مگر ابو الاسود کو جنبش تک نہ آتی اس نے بھی حضور کو کشتی کی دعوت دی اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ اگر آپ مجھے پچھاڑ دیں یعنی میری پشت لگادیں تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا۔ حضور تشریف لائے اور اسے پکڑ کر پٹخہ مگر وہ بدقسمت ایمان نہ لایا۔
جس ذات گرامی کے متعلق فرشتے کہیں کہ ان کو تو اگر ساری امت کے ساتھ وزن کرلے تو یہ پھر بھی وزنی رہیں گے۔ امت کے کتنے افراد ہیں اور کون کون داخل ہے ؟ تو جان لیں کہ ساری خدائی آقا کی امت ہے۔لہٰذا ایک رکانہ تو کیا روئے زمین کے اگلے پچھلے سارے پہلوان اکٹھے ہوکر امت کے والی کے مقابلہ میں آجائیں تو پھر بھی حضور ہی غالب رہیں گے۔
یہ معاملہ صرف جسمانی قوت، طاقت اور پہلوانی کا نہیں تھا کیونکہ اس دنگل میں ایک سے ایک پہلوان اتر تے اور فتح پاتے ہیں۔ یہ معاملہ قوت نبوت کا ہے۔ جس طرح دنیا کے سارے عہدے اور مراتب مل کر عظمت ِ مقام نبوت کا سایہ توکجا اصحاب و اتباع اصحاب کا رتبہ بھی نہیں پاسکتے۔ اسی طرح عام انسانوں بشمول (wrestlers)کے جسمانی قوت کسی بھی درجہ میں نبی کے برابر نہیں ہوسکتی۔ جو ہستی نبوت اور وحی کا عظیم الشان بارگراں اٹھانےکی باذنِ الٰہی استعداد رکھتی ہو۔ اسے رکانہ اور ابو الاسود جیسے پہلوان یا ہزاروں دوسرے پہلوان مل کر بھی زیر نہیں کر سکتے۔ جنگ بدر ، احد، خندق اور فتح مکّہ جیسے مواقع پر اس نبی کی قوت و طاقت کی ہلکی سی جھلک کفار کو بھی دکھائی گئی کہ تمام تر مجتمع قوت کے باوجود نبی اکرم نے ان کے پہلوانوں ، بہادروں، طاقت وروں اور ناموروں کے چھکے چھڑادیے ۔ فوج کفار کی طاقت اور قوت کا اندازہ ،فوج کے کمانڈر انچیف کی قوت سے لگایا جاتا ہے جتنا چیف، مضبوط ہوتا ہے آرمی اپنے آپ کو اتنا ہی مضبوط تصور کرتی ہے۔ لہٰذا رسول اکرم نور مجسم کے زیر قیادت فوج جس نے کفا ر مکّہ و عرب کو ہر محاذ پر ناکوں چنے چبوائے یہ اس قوت و شجاعت کا نتیجہ تھا جو جسم مصطفی ٰ کی قوت و طاقت کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا۔