encyclopedia

قرآن کریم میں جسم اطہر ﷺ کا ذکر

Published on: 27-Sep-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 1، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 93-113)

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات ہست وبود میں رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ نے سب سے زیادہ عزت و عظمت و رفعت امام الانبیاء حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو عطا فرمائی ہے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے فضائل وخصائل، محامد ومحاسن اور صفات واوصاف کا احاطہ ممکن نہیں۔جو آدمی انبیاء ورسل کے حالات واخبار سے ادنیٰ آگاہی رکھتا ہے اس سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ حضرت محمد رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمعجزات ودلائل وفضائل وشمائل میں کثرت وظہور کے لحاظ سے سب پر فوقیت اور بالادستی رکھتے ہیں۔

انبیاء ومرسلین میں سے جس کو معجزہ اور فضیلت سے سرفراز کیا گیا حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اُس جیسے اور اُس سے اعلیٰ شرف سے مشرف کیا گیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انبیائے کرام کے تمام معجزات کا سرچشمہ بھی ذات Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam ہی ہے۔

چنانچہ امام بوصیریRehmatullah Alaihفرماتے ہیں:

وكلّ آي أتى الرّسل الكرام بها
فإنما اتّصلت من نوره بهم
فإنّه شمس فضل هم كواكبها
يظهرن أنوارها للناس في الظّلم 1

جس قدر معجزات انبیاء Alaihmus Salamدنیا میں لائے (فی الحقیقت) وہ تمام معجزات ان کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی کے نور کے طفیل حاصل ہوئے۔ کیونکہ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآفتاب کمال ہیں اور دیگر تمام انبیاءAlaihmus Salam حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مقابلہ میں بمنزلہ ستاروں کے ہیں جو علم وہدایت کی روشنی کو ضلالت وجہالت کی تاریکی میں اہل دنیا پر ظاہر کرتے رہے۔

پوری کائنات میں ازاوّل تا آخر جمالِ ظاہری اور کمالِ باطنی میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے بہتر تو دور کی بات بلکہ بعض الوجوہ بھی مثل ومثیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح کمالات نبوت اور حقیقت محمدیہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاحاطہ علمی سے خارج اور فہم وعقل سے بالاتر ہیں بالکل اسی طرح کمال وجمالِ جسمانی کا واقعی ادراک بھی عقل وبیان سے وراءُ الوراء ہے۔ نہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے کمالات باطنی کا احصاء ہوسکتا ہے اور نہ ہی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جمالاتِ ظاہری کو کوئی کما حقہ بیان کرسکتا ہے۔کیونکہ بقول شیخ سعدیRehmatullah Alaih :

بلغ العلى بكماله
كشف الدجٰى بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلّوا علیه واله2
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنےکمال کی بلندیوں پہ جلوہ گر ہوگئے۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حسن مبارک سے تمام اندھیرے چھٹ گئے ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تمام عادات و اطوار بہترین ہیں۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آل پر درود پڑھو۔

عاشقِ رسول امام بوصیری Rehmatullah Alaihبھی فرماتے ہیں:

دع ما ادّعته النّصارى فى نبيّهم
واحكم بما شئت مدحا فيه واحتك
فإنّ فضل رسول الله ليس له
حدّ فيعرب عنه ناطق بفم3
عیسائیوں نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ Alaihis Salamکے بارے میں جو بات کہی (کہ وہ خدا ہیں یا خدا کے بیٹے ہیں) اسے چھوڑ کر نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی تعریف میں جو چاہو کہو اور مان لو۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے فضل و کمال کی کوئی ایسی حد نہیں ہے کہ جسے انسانی زبان بیان کرسکے۔

حلیہ مبارک کے لحاظ سے بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھے ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے حلیہ مبارک میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قدمبارک، رنگ مبارک، بال مبارک، پیشانی مبارک، آپ کا حسن وجمال یہاں تک کہ ہر اعضاء مبارک کا ذکر بڑے خوبصورت پیرائے میں احادیث میں موجود ہے۔ بلکہ قرآن کریم میں بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے بعض اعضاءِ مبارک کا ذکر موجود ہے۔

قرآنی آیات کی روشنی میں رسول رحمت Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی شان اورعظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ رب کائنات نے رسولِ کائنات Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جسمانی اعضاء کا تذکرہ کرنے کے لیے قرآن کی آیات نازل فرمادی ہیں جن کو بار بار پڑھا جاتا ہے۔اسی طرح جن آیات میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مقدس اعضاء کا ذکر مبارک آیا ہے ان کو بھی مسلمان تلاوت و حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

چہرہ مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاورقرآن ِکریم

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا چہرہ مبارک انتہائی حسین وجمیل تھا اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ خود خالق کائنات اس چہرہ مبارک کے آسمان کی جانب اٹھنےکو نہ صرف ملاحظہ فرماتا ہےبلکہ اس کا ذکر قرآن مجید فرقان حمید میں بھی فرماتا ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ کا مقدس ارشاد ہے:

قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْھكَ فِى السَّمَاۗءِ ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّك قِبْلَة تَرْضٰىھا فَوَلِّ وَجْھك شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ 1444
(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے۔

اس آیتِ مبارکہ کا شانِ نزول

سیدِ عالم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسندِخاطر تھا۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس اُمید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھےکہ ربّ تعالیٰ اپنی بارگاہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اذن مرحمت فرمادے تاکہ قیامت تک مسلمان حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پسندیدہ قبلہ کو اپنا قبلہ بنالیں ۔ اس خواہش محبوب پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔5

جونہی یہ آیت لے کر حضرت جبریل Alaihis Salam نازل ہوئے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنماز کی حالت میں تھے اور دو رکعت نماز بیت المقدس کی طرف رُخِ انور کرکے ادا فرماچکے تھے۔ حکم کے نازل ہونے کے بعدبقیہ دو رکعت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے کعبہ کی طرف رُخِ انور فرماکر ادا فرمائیں اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ خوش قسمت صحابہ Radi Allah Anhum اُسی حالت میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اقتداء میں کعبہ کی طرف مُڑگئے۔6

اس ارشاد خداوندی سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے پیارے محبوب مکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رضا بہت محبوب تھی جو محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam چاہتے تھےوہی عطا فرمادیا جاتا تھا۔جبکہ اس سے پہلے بیت المقدس کی طرف اﷲ تعالیٰ کے حکم سے نمازیں پڑھی جاتی تھیں۔ لیکن نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی تمنا یہ تھی کہ میرے لیے وہی قبلہ بنادیا جائے جو حضرت ابراہیم Alaihis Salam کا تعمیر کردہ، اﷲ تعالیٰ کا سب سے پہلا گھر ہے۔اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے بار بار رخ ِانور کو آسمان کی طرف اٹھانے پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی اس خواہش کو پورا فرمادیا۔

آنکھ مبارک کا ذکر قرآن مجید میں

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھ مبارک بھی امتیازی شان رکھتی ہے کیونکہ اس کا ذکر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔چنانچہ اﷲتبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَا تَمُدَّنَّ عَینَیك 887
آپ ان چیزوں کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیے۔

اس آیتِ مبارکہ کا شان ِنزول

مسلمان کفار کے متاع دنیا کو دیکھ کر کبیدہ خاطر ہوتے تھے تو اللہ ربُّ العزّت نے اس آ یت کریمہ میں مسلمانوں کو کفار کے مال ومتاع کی طرف نظر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن تعریضا ًحضور اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھوں کا ذکر فرمایا ہے۔8جس سےیہ اشارہ ملتا ہے کہ رب ِکائنات کوحضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خوبصورت آنکھوں کا ذکر مختلف انداز سے کرنا پسند ہے۔جیسا کہ ایک اور مقام پر اسی محبوب اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی آنکھوں کی بصارت کی تعریف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى179
اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔

اس آیتِ مبارکہ شانِ نزول

معراج کی رات جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انوار باری تعالیٰ کا دیدار کیا تو اس کی کیفیت کو اللہ تبارک وتعالی ٰنے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایاہے کہ اس دیدار انوار ربانی کےوقت آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی آنکھیں مبارک منحرف نہیں ہوئیں نہ اِدھر اُدھر ہٹیں اور نہ نور سے متجاوز ہوئیں۔10اس کے بر خلاف جب کوئی شخص سورج کو دیکھتا ہے تو اس کی نظر بے اختیار ادِھر ادُھر ہو جاتی ہے لیکن آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اتنے عظیم نور کو دیکھا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نظر ادِھر ادُھر نہیں ہوئی۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان مبارک کا ذکر قرآنِ کریم میں

رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان مبارک بھی باقی اعضاء ِجسمانی کی طرح مشرف و ممتاز ہے کہ اس کا ذکر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰه بِلِسَانِك 9711
سو بیشک ہم نے اس (قرآن) کو آپ کی زبان میں ہی آسان کر دیا ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

لَا تُحَرِّك بِه لِسَانك لِتَعْجَلَل به1612
(اے حبیب!) آپ (قرآن کو یاد کرنے کی) جلدی میں (نزولِ وحی کے ساتھ) اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کریں۔

یعنی اے نبی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamقرآن کریم کو یاد کرنےمیں اپنی زبان کو تکلیف نہ دے بلکہ قرآن مجید کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سینے میں جمع کرنے اور یاد کروانےکا ذمہ ہمارا ہے ۔آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاس معاملہ میں ہرگز پریشان اور فکر مند نہ ہوں۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان مبارک کا تحفّظ

اسی طرح نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی زبان مبار ک کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْھوٰى3 اِنْ هوَاِلَّا وَحْى يُّوْحٰى413
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے، اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔

یعنی جو کچھ بھی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam دین کے متعلق گفتگو فرماتے ہیں وہ خالص وحی الہٰی ہےجو انہیں بھیجی جاتی ہے ایسا نہیں ہےجیسا( معاذ اللہ) کافر کہتے ہیں کہ یہ انسانی کلام ہے14اوراپنی مرضی سے کرتے ہیں یا کوئی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو سکھاتا ہے۔15اس قول کفار کا رد کرتے ہوئے باری تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی اﷲ تعالیٰ انہیں وحی فرماتا ہے تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبیان کرتے ہیں۔اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجو کچھ بھی دین کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی کے تحت فرماتے ہیں اپنی منشا ومرضی کے تحت نہیں اور نہ ہی اپنی رائے سے کچھ کہتے ہیں ان کا ارشاد وحی خالص ہے۔

اس کی تائید حدیث ذیل سے بھی ہوجاتی ہے جس کو حضرت عبد اللہ بن عمر Radi Allah Anhumaنےنقل کیا ہے:

عن عبدللّٰه بن عمرو قال: كنت اكتب كل شىء اسمعه من رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ارید حفظه فنھتنى قریش وقالوا: اتكتب كل شىء تسمعه ورسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم بشر یتكلم فى الغضب والرضا فامسكت عن الكتاب فذكرت ذلك الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فاوما باصبعه الى فیه فقال: اكتب! فوالذى نفسى بیده ما یخرج منه الا حق.16
حضرت عبداﷲ بن عمرو Radi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں: میں یاد کرنے کے ارادے سے ہر اس بات کو لکھ لیا کرتا جو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے سنتا ۔پس قریش نے مجھے منع کیا اور کہا کہ آپ ہر اس بات کو لکھ لیتے ہیں جو سنتے ہیں حالانکہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبھی انسان ہیں جو ناراضگی اور رضا مندی میں بھی کلام فرماتے ہیں۔ چنانچہ میں لکھنے سے رُک گیا اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے اس بات کا ذکر کیا تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے انگشتِ مبارک سے دہن اقدس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: لکھتے رہو کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اس سے حق کےسواکوئی بات نہیں نکلتی۔

اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ہر دینی فرمان عالیشان وحی الہٰی سے ہوتا ہے اپنی طرف سے نہیں ہوتا۔

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکےسینہ اقدس کا ذکر قرآنِ کریم میں

اسی طر ح نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے سینہ اقدس کا ذکر کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ117
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔

قرآن اور شرح صدر

شرح صدر کی دولت اتنی بڑی ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اﷲAlaihis Salam جیسے اولو العزم پیغمبر اس کے لیے دعا کرتے ہیں۔چنانچہ ان کی دعا کو ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مقدس ہے:

قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِى2518
(موسٰی Alaihis Salam نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرما دے۔

لیکن سیّدنا محمد رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر یہ احسانِ الہٰی ہوا کہ ربّ کریم نے اپنے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو یہ دولت بن مانگے عطا فرمائی۔ جس کاذکر کرتے ہوئے اللہ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:

اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ119
کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔

شیخ ابو علی دقاق Rehmatullah Alaih"حبیب"اور "کلیم" کے شرح صدر پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

كان موسى مریداً وكان نبینا صلى اللّٰه عليه وسلم مرادا.20
حضرت موسیٰ Alaihis Salamمرید تھے (کہ انہوں نے عرض کی رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ)25 اورہمارے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam مراد تھے(کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے فرمایا گیا اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ .)

شرح صدر کے لفظی معنی ہیں سینے کاکھول دینااوریہ ہدایت کا آخری مرتبہ ہے۔ اس مرتبے میں تمام حقائقِ ملک وملکوت، لاہوت وجبروت منکشف ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زبان اسرار غیب کی کنجی اور دل خزانہ ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ راغب کے حوالہ سے امام صالحی Rehmatullah Alaihنے لکھتے ہیں:

بسط اللحم ونحوه یقال شرحت اللحم وشرحته ومنه شرح الصدر وھو بسطه بنور الھى وسكینة من جھة اللّٰه وروح منه.21
گوشت پھیلانا اور کہا گیا:گوشت پھیلایاگیا۔اسی سے شرح صدر ہے اس سے مراد رب تعالیٰ کی طرف سے سینہ اقدس کا نور الہٰی کی وجہ سے اس کی طرف سے سکینہ(اطمینان) اور سکون کی وجہ سے پھیل جانا ہے۔

آیت کی تشریح کرتے ہوئے امام صالحیRehmatullah Alaih فرماتے ہیں:

الکشاف میں ہے کہ یہ عَلیٰ وَجہِ الاِنکار انشراحِ صدر کی نفی پر استفہام ہے۔ اس سے انشراح صدر کے اثبات اور ایجاب میں مبالغہ مقصود ہے گویا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamسے کہا گیاکہ ہم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا سینہ کھول دیا ہے۔22 اسی لیے معنی کا اعتبار کرتے ہوئے اس کا "ووضعنا" پر عطف کیا ہے۔

مزید امام صالحی Rehmatullah Alaihنے علامہ الطیبیRehmatullah Alaihکے حوالہ سے لکھا ہے :

اى انكر عدم الشرح فاذا انكر ذلك ثبت الشرح لان الھمزة للانكار والانكار نفى والنفى اذا دخل على النفى عاد اثباتا ولا یجوز جعل الھمز للتقریر.23
یعنی(فی الحقیقت اللہ ربُّ العز ت نے) عدم انشراح کا انکار کیا ہے جب اس کا انکار ہوا تو انشراح ثابت ہوگیا۔ کیونکہ ہمزہ انکار کے لیے ہے انکار نفی کے لیے ہے جب نفی نفی پر داخل ہو تو اثبات لازم آتا ہے۔ اس ہمزہ کو تقریر بنانا درست نہیں ہے۔

سینہ مبارک کےکھلنے سے مراد؟

شرح صدر سے مراد قلب کا انوار و تجلیات الہٰیہ سے مزین ہونا اور ان کا مرکز و محل بننا ہے۔ اس کے ذریعے تمام بوجھ دور ہوجاتے ہیں فرحت وسرور کی کیفیت قائم ہوجاتی ہے۔ اس کی تشریح ومعنی میں مفسرین نے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے ۔ چنانچہ اس حوالہ سے امام راغب اصفہانیRehmatullah Alaihلفظ شرح کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

شرح الصدر اى بسطه بنور الھى وسكینة من جھة اللّٰه وروح منه.24
شرح صدر سینے کا نور الہٰی کے جلووں سے وسیع ہونا اور اس کا اﷲ کی طرف سے سکون ،فرحت و راحت پانا ہے۔

علامہ آلوسی Rehmatullah Alaih نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے بہت خوب بات کہی ہے کہ شرح صدر ہر ذات کے حسب حال ہوتا ہے۔بعض اوقات شرح صدر کی صورت میں دل انوار و تجلیات کا عرش قرار پاتا ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

قد یراد تائید النفس بقوة قدسیة وانوار الھیة بحیث تكون میدانا لمواكب المعلومات وسماء لكواكب الملكات وعرشا لانواع التجلیات وفراشا لسوائم الواردات فلا یشغله شان عن شان ویستوى لدیه یكون وكائن وما كان.25
اس سےیہ بھی مراد لیا جاسکتاہےکہ نفس کو قوتِ قدسیہ اور انوار الہٰیہ سے اس طرح مزین کردیا جائے کہ وہ خزائن معلومات کے لیے میدان ، ملکات واستعداد کے لیے آسمان اور تجلیات کے لیے عرش بن جائے۔ جب کسی کے سینے کو یہ حالت نصیب ہوجاتی ہے تو اس کی دلی کیفیات میں استحکام پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے ہاں مستقبل ،حال اور ماضی یکساں ہوجاتے ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں لفظِ "لک" کے اضافہ کی اہمیت

مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اگر "الم نشرح" کے بعد لفظ "لک" نہ بھی ہوتا تب بھی جملہ مکمل رہتا اور اس کے مفہوم میں کوئی تشنگی نہ رہتی لیکن "لک" (آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خاطر) کے اضافے سے آیت مبارکہ کے معنی میں مزید محبت کا پہلو اجاگر ہوا ہے کہ اے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سینہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے خاطر کھولا ہے۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے خاطر کے الفاظ واضح کررہے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کوآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی رضا ہر شے پر مقدم ہے۔چنانچہ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے امام صالحی شامی فرماتے ہیں:

انما لم یقل الم نشرح صدرك دون لك لوجھین احدھما اراد شرحته لاجلك كما تفعل انت الطاعة لاجلى.26
لک کے بغیر صرف الم نشرح نہیں فرمایا اس کی دو حکمتیں ہوسکتی ہیں ۔ایک یہ ہے کہ جس طرح اے حبیب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمیری خاطر میری اطاعت کرتے ہیں اسی طرح میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی خاطر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کو شرح صدر کی دولت عطا کی ہے

مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے سینہ اقدس کا ذکر قرآن مجید میں جس انداز سے فرمایاہے وہ انتہائی دلآویز اور محبت سے لبریز ہے۔

قلبِ مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبکلامِ رب تبارک وتعالیٰ

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلبِ انور کا ذکر بھی اللہ ربُّ العزّت نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر مختلف انداز سے فرمایا ہے۔انہی میں سے ایک مقام پر رسول اللہ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے منصبِ جلیلہ و رفیعہ کو بیان کرتےہوئے فرمایا کہ یہ قرآن مجید ربُّ العالمین کی طرف سے جبریل امین لے کر آئے ہیں اور آگےارشادِ باری تعالیٰ ہے:

عَلٰى قَلْبِك لِتَكوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ19427
آپ( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)کے قلبِ انور پر تاکہ آپ( Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam)نافرمانوں کو ڈر سنانے والوں میں سے ہوجائیں۔

یعنی اس قرآن ِمجید کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک قلب پر اتارا ہے تاکہ اس مقدس پیغام کو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamآگے پہنچاکر مخاطبین کواللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی پاداش میں ڈرائیں۔ اسی طرح قرآن مجید میں کئی مقاما ت پر مختلف انداز سے رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دل مبارک کا تذکرہ ہوا ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَالنَّجْمِ اِذَا ھوٰى128
قَسم ہے روشن ستارے (محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے ۔

امام جعفر صادقRehmatullah Alaih سے"والنجم اذا ھویٰ" کے بارے میں منقول ہے کہ سے مراد حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب انور ہے۔قاضی عیاض Rehmatullah Alaihنے ان کا قول ان الفاظ میں ذکر کیا ہے:

ھو قلب محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.29
نجم سے مراد حضرت محمد مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب انور ہے۔

شیخ احمد شہاب الدین خفاجی Rehmatullah Alaihاس کے تحت لکھتے ہیں کہ ان انوار سے وہ ربانی تجلیات مراد ہیں جو علوم و حکم اور کمالات ومشاہدات کی صورت میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو حاصل ہوئیں۔ اس کے بعد قلب اقدس کو نجم کہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وتشبىه قلبه صلى اللّٰه عليه وسلم بالنجم لا یخفى ظھوره لا شراقه بنور ربه.30
قلب انور کی نجم کے ساتھ تشبیہ واضح ہے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے قلب اقدس کا رب کریم کے انوار سے روشن ہوناچھپانہیں۔

قوتِ قلب مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبزبانِ قرآن

اﷲ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ اس کا بوجھ برداشت نہ کرسکتا اور ریزہ ریزہ ہوجاتا 31لیکن ہم نے اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب انور کو اتنی قوت واستقامت عطا کی کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب اطہر نے اسے محفوظ کرلیا او ر نہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر بوجھ ہوا اور نہ ہی اس کی وجہ سے کوئی تکلیف ہوئی۔ بلکہ جب بھی قرآن حکیم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپہلے سے بھی زیادہ توانائی محسوس کرتے ۔قرآن مجید کے تدریجی نزول کی جو حکمتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب اقدس کو مزید تقویت حاصل ہو۔چنانچہ اسی کے متعلق اللہ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:

كذٰلِك ۚ لِنُثَبِّتَ بِه فُؤَادَك وَرَتَّلْنٰه تَرْتِيْلًا3232
یوں (تھوڑا تھوڑا کر کے اسے) تدریجاً اس لیے اتارا گیا ہے تاکہ ہم اس سے آپ کے قلبِ (اطہر) کو قوت بخشیں اور (اسی وجہ سے) ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا ہے (تاکہ آپ کو ہمارے پیغام کے ذریعے بار بار سکونِ قلب ملتا رہے)۔

اسی طرح حضرت جبریل Alaihis Salam کے حوالے سے ایک اورمقام پرارشاد فرمایا:

نَزَّلَه عَلٰى قَلْبِك بِـاِذْنِ اللّٰه9733
کیونکہ اُس نے (تو) اس(قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔

تیسرے مقام پر قرآن کریم میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب انور کی اس عظیم قوت کو ایک رمز کی صورت میں بیان کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان مبارک ہے:

قۗ ۣۚ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ134
ق (حقیقی معنی اﷲ اور رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamہی بہتر جانتے ہیں)، قسم ہے قرآنِ مجید کی۔

اس کی تفسیر میں امام ابن عطاء Rehmatullah Alaih سے منقول ہے:

اقسم بقوة قلب حبیبه محمدصلى اللّٰه عليه وسلم حیث حمل الخطاب و المشاهدة ولم یوثر ذلك فیه لعلو حاله.35
اﷲ نے اپنے حبیب کے قلب انور کی قوت کی قسم کھائی کہ اس نے باری تعالیٰ سے بالمشافہ گفتگو کی اور مشاہدہ ذات باری تعالیٰ کی سعادت حاصل کی اور یہ آپ کے حال و مقامات کی بلندی ہی ہے۔

امام ثعلبی Rehmatullah Alaih نے بھی اپنی تفسیر میں اس کو نقل کیا ہے۔36 علامہ خفاجی Rehmatullah Alaih نے اس قول کا ترجمہ اپنے ان الفاظ میں کیا ہے:

حیث تحمل واطاق خطاب اللّٰه ورؤیته لیلة الاسراء ومشاهدة الملكوت ومھابته فما یشھد له الجبال ولا تطیقه الملائكة.37
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبلاواسطہ کلام الہٰی کے متحمل ہوئے اور معراج کے موقعہ پر دیدار الہٰی اور ملکوت کے مشاہدہ سے بہرہ ور ہوئے، جس کی ہیبت اور دبدبہ پر پہاڑ گواہ ہیں اور اس کی ملائکہ طاقت نہیں رکھتے۔

ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دلِ مبارک کی طاقت و قوت پہاڑوں سے بھی زیادہ مستحکم و مثبت ہے کہ یہ انوارِ الہٰیہ اور وحیِ ربانی کا مقام ہے۔

قرآن اور قلبِ اقدس کی صداقت کی تصدیق

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں دل اس کی تصدیق نہیں کرتا اوراسے تذبذب رہتا ہےکہ یہ شاید میرا وہم ہو۔ معراج کے موقعہ پر اﷲ تعالیٰ نے جب اپنے پیارے حبیب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اپنی عظیم قدرتوں اور نشانیوں کا مشاہدہ عطا فرمایا تو صرف آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی مبارک آنکھوں ہی نے ان کا مشاہدہ نہیں کیا بلکہ دل نے بھی اس کی تصدیق کی کہ یہ محض خیال یا وہم نہیں بلکہ یہ مشاہدات ایک حقیقت ہیں جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کی اس کیفیت کا ذکر قرآن میں واقعہ معراج میں دکھائی گئی نشانیوں کے متعلق یوں ہوا:

مَا كذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى1138
(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔

یعنی ان نشانیوں اور انوار ِ الہٰیہ کے مشاہدات کی تصدیق کرنے میں آنکھوں کے ساتھ ساتھ رسول اکرم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا دل بھی برابر کا شریک تھا اور ان میں ذرہ برابر بھی کسی شک و شبہ کی راہ درنہ آئی تھی۔

قرآن کریم اور قلب مصطفی Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی نرمی

اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ذات اقدس کو سراپا رحمت وشفقت بنایا۔ رقتِ قلبی اور نرمی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طبیعت مبارکہ کا اہم اور کامل جز تھی۔ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب منور سوز و گداز اور محبت وشفقت کا مخزن تھا۔ انسان تو انسان آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکسی جانور پر بھی تشدد برداشت نہ کرسکتے تھے کیونکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamبے حد رقیق القلب تھے۔قرآن مجید نے اس رقت قلبی کو یوں بیان کیا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamچونکہ نہایت ہی مشفق ورحیم ہیں اس لیے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ارد گرد غلاموں کا پروانوں کی طرح ہجوم رہتا ہے اور یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر اﷲ کی رحمت ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فَبِمَا رَحْمَة مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَھمْ ۚ وَلَوْ كنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِك15939
(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں، اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔

قرآن کریم کی بعض آیات اور الفاظ آقائے دو جہاں حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے قلب مبارک سے منسوب ہیں اور مفسرین نے ایسے مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے۔

امام ثعلبی ، امام خازن اور امام بغوی رحمۃ اللہ علیھم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباس Radi Allah Anhuma نے حضرت کعب سے کہاکہ مجھے مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ40 آیت کے بارے میں بتائیے کہ اس سے کیا مراد ہے؟تو حضرت کعب Rehmatullah Alaihنے جواب دیا:

هذا مثل ضربه للّٰه سبحانه لمحمد صلى اللّٰه عليه وسلم فالمشكوة صدره والزجاجة قلبه والمصباح فیه النبوة توقد من شجر مباركة هى شجرة النبوة.41
(آیت مذکورہ میں) باری تعالیٰ نے اپنے محبوب Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے متعلق ایک مثال بیان فرمائی ہے۔ مشکوۃ سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا سینہ اقدس مراد ہے زجاجۃ سے مراد آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا قلب اطہر ہے جبکہ مصباح سے مراد وہ صفت نبوت ہے جو شجر نبوت سے روشن ہے۔

امام ابو حاتم رازی Rehmatullah Alaihاپنی سند کے ساتھ اس روایت کو ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:

عن شمر بن عطیة قال جاء ابن عباس الى كعب الاحبار فقال: حدثنى عن قول اللّٰه فیھا مصباح. قال: والمصباح قلبه یعنى قلب محمد صلى اللّٰه عليه وسلم.
شمر بن عطیتہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن عباسRadi Allah Anhuma نے حضرت کعب الاحبار Radi Allah Anhoکے پاس آکر کہا کہ: مجھے آپ باری تبارک و تعالیٰ کے اس قو لفیھامصباح کے بارے میں بتائیں۔تو انہوں نے کہا اس سے مراد دل ہے یعنی (سیّدنا) محمد Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا دل انور۔

ابو حاتم Rehmatullah Alaih مزید روایت کرتے ہیں:

عن ابى بن كعب فى قوله المصباح فى زجاجة فذلك النور فى زجاجة والزجاجة . قلبه.42
حضرت ابی بن کعب Radi Allah Anhoسے المصباح فی زجاجۃ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ نورِ نبوت شیشی میں ہے اور وہ شیشی آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا دلِ اطہر ہے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ ربُّ العزّت نے حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک سینے کو انوار و معارفِ الہٰیہ کا خزینہ بنایاتھا۔حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمعراج سے مشرف ہونے سے پہلے جب کفار و مشرکین کو شرک میں مستغرق دیکھتے اور انہیں قرآن کریم پر طعن وتشنیع کے تیر چلاتے ہوئے پاتے اور وہ لوگ حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ساتھ تمسخراڑایا کرتے تو حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو بڑا دکھ ہوتا تھا اور طبیعت میں گھٹن پیدا ہوجاتی تھی اس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں یوں فرمایاہے:

وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّك يَضِيْقُ صَدْرُك بِمَا يَقُوْلُوْنَ9743
اور بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ کا سینۂ (اقدس) ان باتوں سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں۔

لیکن جب اﷲ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو عرش بریں پر بلایا اور اپنی قدرت، ہمہ دانی اور حکمت بالغہ کی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں پھر مقام قاب قوسین پر فائز کرکے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا تو وہ سینہ کی تنگی ہمیشہ کے لیے کافور ہوگئی جتنا بھی کوئی ستاتا یا کوئی تمسخر اڑاتا توجبین نبوت پر کبھی ملال کے آثار نمودار نہ ہوتے۔

دستِ ا قدس کا ذکر قرآنِ کریم میں

قرآن میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے جن مبارک اعضاء کا ذکر ہے۔ ان میں سے دست اقدس بھی ہے ۔اس سے بڑھ کر ان مبارک ہاتھوں کی عظمت کیا ہوسکتی ہے کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے مبارک ہاتھ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا۔

چنانچہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ذو القعدہ 6ہجری میں عمرہ کرنے کا جو قصد کیا تھا اور چودہ سو اصحاب Radi Allah Anhumکے ساتھ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamعمرہ کے لیے روانہ ہوگئے تھے ،اس کا سبب یہ تھا کہ نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو اﷲ تعالیٰ نے واقعہ حدیبیہ سے پہلے خواب میں یہ دکھایا تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ انتہائی امن اور بے خوفی کے ساتھ عمرہ کرنے جارہے ہیں۔ ہر چند کہ اس خواب میں یہ تعین نہیں تھا کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamمسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے کب روانہ ہو ں گے؟لیکن چھ سال سے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور مسلمانوں نے بیت اﷲ کا طواف نہیں کیا تھا اور نہ ہی اس کی زیارت کی تھی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاور سب مسلمان بیت اﷲ کی زیارت اور اس کا طواف کرنے کے لیے بے چین تھے۔اس لیے خواب میں جب بیت اﷲ کی زیارت اور اس کے طواف کرنے کا مژدہ اور اس کی بشارت ملی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے عمرہ کے لیے رختِ سفر باندھنے میں ذراتا خیر نہ کی اور فوراً عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے اور اس کے لیے مسلمانوں میں اعلان عام کرایا گیا ۔ا س طرح آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamاپنے چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوگئے۔

اسی سے متعلق امام ابن اسحاق Rehmatullah Alaihکے حوالہ سے امام ابن ہشامRehmatullah Alaih بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن عباسRadi Allah Anhumaنے فرمایا:

کہ قریش نے چالیس یا بچاس آدمی بھیجے اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لشکر کے گرد چکر لگائیں تاکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اصحاب میں سے کسی کو پکڑ لیں۔انہوں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے لشکر کے اوپر پتھر پھینکے اور تیر مارے،ان کو گرفتار کرکے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے پاس لایا گیا توآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان سب کو معاف کردیا اور چھوڑ دیا۔پھر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت عمر Radi Allah Anhoکو بلایا تاکہ ان کو مکّہ بھیجیں اور وہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی طرف سے قریش کے سرداروں کو یہ پیغام پہنچائیں کہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamصرف عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں۔ حضرت عمر Radi Allah Anhoنے فرمایا کہ قریش مجھ سے بہت شدید عداوت رکھتے ہیں لیکن میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ایک شخص بتاتا ہوں جو میری بہ نسبت ان کے نزدیک بہت معزز اور محترم ہے اور وہ حضرت عثمان بن عفانRadi Allah Anho ہیں۔ پھر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے حضرت عثمانRadi Allah Anho کو بلایا اور ان کو ابو سفیان اور قریش کے سرداروں کی طرف بھیجاتاکہ وہ ان کو بتائیں کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamجنگ کے لیے نہیں آئے بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamصرف بیت اﷲ کی زیارت اور اس کی تعظیم کے لیے آئے ہیں۔
امام ابن اسحاق Rehmatullah Alaihنے کہا: پھر حضرت عثمانRadi Allah Anho مکّہ گئے اور ابو سفیان و قریش کے دیگر سرداروں کو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکا پیغام سنایا۔ انہوں نے حضرت عثمان Radi Allah Anhoسے کہا اگر تم بیت اﷲ کا طواف کرنا چاہتے ہو تو تم طواف کرلو۔ حضرت عثمان Radi Allah Anhoنے کہا جب تک رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam طواف نہ کرلیں میں طواف کرنے والا نہیں ہوں۔ پھر قریش نے حضرت عثمان Radi Allah Anhoکو پکڑ کر بند کردیا اور رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam اور مسلمانوں تک یہ خبر پہنچی کہ حضرت عثمانRadi Allah Anho بن عفان کو قتل کردیا گیا۔
امام ابن اسحاقRehmatullah Alaih نے کہا کہ جب رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے پاس حضرت عثمانRadi Allah Anho کے قتل کی خبر پہنچی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس قوم سے جنگ میں مقابلہ نہ کریں۔پھر رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے لوگوں کو بیعت کرنے کے لیے بلایا اور پھر ایک درخت کے نیچے یہ بیعت منعقد ہوئی ۔ مسلمان یہ کہتے تھے کہ ہم نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ہاتھ پر مرنے کے لیے بیعت کی ہے یعنی تادم مرگ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔حضرت جابر بن عبداﷲRadi Allah Anho یہ کہتے تھے کہ ہم نے موت پر بیعت نہیں کی تھی ہم نے اس پر بیعت کی تھی کہ ہم آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور بھاگیں گے نہیں۔ابن ہشام Rehmatullah Alaihبیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے حضرت عثمانRadi Allah Anho کی طرف سے خود بیعت کی اور اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمانRadi Allah Anho کا ہاتھ قرار دے کر اس ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا۔ 44

اسی بیعت کے متعلق اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَك اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰه ۭ يَدُ اللّٰه فَوْقَ اَيْدِيْھمْ1045
(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔

حضرت جابر بن عبداﷲ Radi Allah Anha بیان کرتے ہیں:

كنا یوم الحدیبیة الفا واربع مئة فبایعناه و عمر آخذ بیده تحت الشجرة.46
یوم حدیبیہ کو ہم چودہ سو افراد تھے ہم نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam سے بیعت کی اور حضرت عمر Radi Allah Anhoنے آپ کا ہاتھ مبارک (کیکر کے) درخت کے نیچے پکڑا ہوا تھا۔

کنکریوں کے پھینکنے کی نسبت

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دست مبارک کی نسبت سے کنکریاں پھینکنے کے واقعہ میں ربّ تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے دست مبارک کو اپنا دستِ اقدس قرار دیا۔ایک غزوہ کے موقعہ پر آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اپنے دست اقدس سے کافروں کی طرف سنگریزے پھینکے جس سے سینکڑوں کافروں کی آنکھیں اور منہ بھر گیا اس منظر کو قرآن یوں بیان کرتا ہے:

وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكنَّ اللّٰه رَمٰى1747
اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔

اسی حوالہ سے حضرت ابن عباس Radi Allah Anhuma بیان کرتے ہیں :

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم : ناولنى كفا من حصى فناولته فرمى به فى وجوه القوم فما بقى فى القوم احد الا ملئت عیناه من الحصا فنزلت. وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمى1748
حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا: مجھے کنکریوں کی ایک مٹھی پکڑاؤ۔ میں نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو یہ پکڑائی تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے لوگوں کے چہروں کی طرف پھینکی، لوگوں میں سے کوئی آدمی نہیں بچا جس کو کنکری نہ لگی ہو۔ اﷲ نے یہ آیت نازل فرمائی "اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔’’

آیت ِ کریمہ کاشان نزول

اسی آیت کریمہ کے شان ِ نزول کے متعلق حضرت ابوہریرہ Radi Allah Anho بیان کرتے ہیں:

انزل اللّٰه جل جلاله على نبیه صلى اللّٰه عليه وسلم بمكة (سَيُھزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ)4549 فقال عمر بن الخطاب: یا رسول اللّٰه! اى جمع وذلك قبل بدر؟ قال: فلما كان یوم بدر وانھزمت قریش. نظرت الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى آثارھم مصلتا بالسیف یقول: (سَيُھزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ)4550 وكانت لیوم بدر فانزل اللّٰه عزوجل فیھم (حَتّٰٓي اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْھمْ بِالْعَذَابِ)6451 الایة وانزل اللّٰه (اَلَمْ تَرَ اِىى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰه )2852 الایة ورماھم رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فوسعتھم الرمیة وملات اعینھم وافواھھم حتى ان الرجل لیقتل وھو یقذى عینیه رماہ فانزل اللّٰه (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى)1753 وانزل اللّٰه فى ابلیس (فَلَمَّا تَرَاۗءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيْه وَقَالَ اِنِّى بَرِيْۗءٌ مِّنْكُمْ اِنِّى اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّى اَخَافُ اللّٰه ۭ وَاللّٰه شَدِيْدُ الْعِقَابِ)4854 وقال عتبة بن ربیعة وناس معه من المشركین یوم بدر: غر ھولاء دینھم فانزل اللّٰه (اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِى قُلُوْبِھمْ مَّرَضٌ غَرَّ ھٰه ؤُلَاۗءِ دِيْنُھمْ )4955 الایة.56
اﷲعزوجل نے اپنے نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamپر مکہ میں یہ آیت "سیھزم الخ..." نازل کی، حضرت عمر بن خطابRadi Allah Anho نے عرض کی: یا رسول اﷲ! جمع سے مراد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :بدر سے پہلے جب بدر کا دن تھا قریش بھاگے۔ میں نے رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو ان کے پیچھے تلوار سونتے ہوئے دیکھا،آپ پڑھ رہے تھے "سیھزم...الی آخرہ" بدر کے دن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی"حتی اذا اخذنا...الی آخرہ" پھر یہ آیت اُتاری"الم تر۔۔۔الی آخرہ" رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ان پر مٹی پھینکی وہ ان سب پر پھیل گئی، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں اور منہ بھر گئے چنانچہ جب کوئی آدمی (قریش) کاقتل ہوتا تو وہ اس حال میں قتل ہوتا کہ اس کی دونوں آنکھوں میں مٹی پڑی ہوتی۔ سو اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی"ومارمیت...الی آخرہ"ابلیس کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی"فلما تراء...الی آخرہ"بدر کے دن عتبہ اور ا س کے مشرک ساتھیوں نے کہا :ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا ہے تو اﷲ عزوجل نے یہ آیت نازل کی" اذ یقول المنافقون...الی آخرہ"۔

اسی طرح حضرت جابر Radi Allah Anhoبیان کرتے ہیں:

سمعت صوت حصیات وقعن من السماء یوم بدر كانھن وقعن فى طست فلما اصطف الناس اخذھن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فرمى بھن فى وجوه المشركین فذلك قوله تعالى57:(وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى)1758
میں نے ان کنکریوں کی آوازیں سنی تھیں جو بدر کے دن آسمان سے ماری گئی تھیں گویا کہ وہ طشت میں گررہی ہیں پھر جب لوگوں نے صفیں درست کیں تو رسول اﷲ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے کنکریوں کو لے کر مشرکوں کے چہروں کی جانب پھینکا اس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا ہے: اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔

حضرت علیRadi Allah Anho فرماتے ہیں کہ :حضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے فرمایا:علی! مجھے مٹھی بھر سنگریزے دوپھرحضور نبی کریم Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallam نے انہیں کفار کی طرف پھینک دیا ۔چنانچہ کفار کی حالت کچھ یوں ہوئی:

فما بقى احد من القوم الا امتلات عیناه من الحصباء.59
دشمن کا کوئی فرد نہ بچا جس کی آنکھ میں سنگریزےنہ گئےہوں ۔

ان سنگریزوں کے متعلق ابن عقبہRehmatullah Alaih اور ابن عائذ Rehmatullah Alaihلکھتے ہیں:

فكانت تلك الحصباء عظیما شانھا لم تترك من المشركین رجلا الا ملات عینیه وجعل المسلمون یقتلونھم ویاسرونھم وبادر كل رجل منھم منكبا على وجھه لایدرى این یتوجه یعالج التراب ینزعه من عینیه.60
ان سنگریزوں کی عظیم شان تھی مشرکین کے ہر فرد کی آنکھیں اس سے بھر گئیں۔ مسلمان انہیں تہ تیغ کرنے لگے اور قیدی بنانے لگے۔ ہر شخص چہرے کے بل جھک گیا۔ وہ نہیں جانتا کہ کہاں جائے؟اور وہ اپنی آنکھوں سے مٹی نکال رہا تھا۔

امام عبد الرحمن سہیلیRehmatullah Alaih جنگ بدر کے حوالے سے لکھتے ہیں:

وجاء النصر من عنداللّٰه وقبض النبى صلى اللّٰه عليه وسلم قبضة من البطحاء ورماھم بھا فملات عیون جمیع العسكر وذلك قوله سبحانه (وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰه رَمٰى)1761
پھر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نصرت آئی اور حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے کنکریوں کی ایک مٹھی بھری اور دشمن کی طرف پھینک دی جس نے سارے لشکر کی آنکھوں کو بھر دیا اسی کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔

جنگ بدر جو 2ہجری میں واقع ہوئی، اس میں کفّار مکّہ بہت سازوسامان کے ساتھ مدینہ طیّبہ پر حملہ کرنے آئے اور اہل مدینہ کے پاس سوائے اﷲ کی مدد اور رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی برکت کے اور کچھ بھی نہ تھا۔ کفار تقریباً ایک ہزار تھے اور مسلمان تین سو تیرہ جن کے پاس ہر طرح کے کھانے پینے کا سامان تھامگر مسلمانوں کے منہ میں دن بھر روزہ اور رات میں آیاتِ قرآن کے سوا کچھ نہ تھا۔

مسلمانوں کی اس ظاہری حالت کو دیکھ کر حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے سجدہ میں سر رکھ کر بارگاہ الہٰی میں عرض کیا کہ خدایا اس وقت روئے زمین پر تیری سچی عبادت کرنے والی صرف یہی مسلمانوں کی بے سروسامان چھوٹی سی جماعت ہے۔ اگر آج تو نے ان کی امداد نہ فرمائی اور یہ جماعت شکست کھاکر ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تیرا سچا نام لیوا کوئی بھی نہ رہے گا ۔ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے اس قدر گریہ زاری فرمائی کہ اس جگہ کی کنکریاں حضور Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ پھرآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے سجدے سے سر اٹھایا اور ایک مٹھی خاک کی لے کر لشکر کفار کی طرف پھینکی۔ وہ تمام کنکریاں کافروں کی آنکھوں میں پہنچ گئیں اور کافر آنکھیں ملتے رہ گئے۔بعد میں اﷲ کے فضل سے مسلمانوں کی اس تھوڑی سی جماعت نے کافروں کے اس سازوسامان والے لشکر پر اسی سے فتح پائی کہ جس کا آج تک ذکر چلا آرہا ہے اور بڑے بڑے سردارانِ قریش کفار اس جنگ میں مارے گئے اور بہت سے قید ہوئے۔

یہ تو واقعہ تھا جس کا اس آیت پاک میں ذکر ہوا۔ گویا یہ آیت فرمارہی ہے کہ وہ واقعہ جب آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے ایک مشتِ خاک کفار کی طرف پھینکی اور سب کی آنکھوں میں پہنچ گئی تو یہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamنے نہیں پھینکی تھیں بلکہ آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے رب نے پھینکی تھیں یعنی ہاتھ تو آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ہی تھے مگر کام اللہ تبارک وتعالیٰ کاتھا۔62

آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پشت مبارک کا ذکر قرآن مجید میں

رسول اکرمSallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی پشت مبارک کا ذکر بھی رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے:

وَوَضَعْنَا عَنْك وِزْرَك2 الَّذِى اَنْقَضَ ظَھرَك363
اور ہم نے آپ کا (غمِ امت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا، جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا۔

اسی طرح امام قسطلانیRehmatullah Alaihآپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی خصوصیات کا ذکر کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ومنھا ان اللّٰه تعالى ذكره فى القرآن عضوا عضوا.64
آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے ایک ایک عضو کا ذکر فرمایا۔

خلقِ خدا کے لیے ایسی ذات جس پر ایمان لانا اور جس کے ذریعہ رب تعالیٰ پر ایمان لانا ضروری ہو وہ کتنا جامع الصفات ہونا چاہیے؟تو صاف ظاہر ہے کہ ایسی ہستی مجموعہ صفات و کمالات ہی ہونی چاہیے چنانچہ رب تعالیٰ نے آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو سراپا معجزہ بنایا اور آپ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکے اوصافِ خُلقی کے ساتھ ساتھ اوصاف خِلقی کا ذکر بھی قرآن کریم میں جابجا فرمایا اور عظمت و مقام مصطفیٰ Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکو تاقیامت اپنے کلام میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نقش فرما دیاتاکہ جب جب اللہ ربُّ العزّت کے کلام کی تلاوت کی جائے، تب تب اللہ کے رسول Sallallah o Alaih Wa aalihi Wasallamکی عظمت کے پائندہ نقوش ، اہل ِایمان کے باصرہ نواز ہوتے رہیں۔


  • 1  امام محمد شرف الدين البوصيرى، العمدۃ فی اعراب البردۃ قصيدة البوصيری، مطبوعة:دار اليمامة لطباعة والنشر، دمشق،السوريۃ،1423ھ، ص:41
  • 2  حسين حسينى معدی، الرسولﷺ فى عيون غربية منصفة، مطبوعۃ:دار الکتاب العربی، دمشق، السوریۃ، 1419ھ، ص:234
  • 3  امام محمد شرف الدين البوصيرى، العمدۃ فی اعراب البردۃ قصيدة البوصيرى، مطبوعة:دار اليمامة لطباعة والنشر، دمشق،السوريۃ، 1423ھ، ص:40
  • 4  القرآن، سورۃ البقرۃ2: 144
  • 5  ابو جعفر محمد بن جریر الطبری، جامع البیان فی تاویل القرآن، ج-3، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:172
  • 6  ایضًا: ص:181
  • 7  القرآن، سورۃ الحجر15: 88
  • 8  علامہ غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن، ج-6،مطبوعہ:فرید بک اسٹال،لاہور،پاکستان،2013،ص:318
  • 9  القرآن، سورۃ النجم53: 17
  • 10  ابو عبد اللہ فخر الدین محمد بن عمرالرازی، مفاتیح الغیب، ج-28، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:245
  • 11  القرآن، سورۃ مریم19: 97
  • 12  القرآن ، سورۃالقیامۃ75: 16
  • 13  القرآن، سورۃ النجم53: 04-03
  • 14  القرآن، سورۃ المدثر25:74
  • 15  القرآن، سورۃ النحل103:16
  • 16  سلیمان بن الاشعث الازدی السجستانی، سنن ابوداؤد ، حدیث: 3643، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص:618
  • 17  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 01
  • 18  القرآن، سورۃ طٰہٰ20: 25
  • 19  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 01
  • 20  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدٰی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993 ء، ص:59
  • 21  ایضاً، ص:58
  • 22  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 1
  • 23  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:58
  • 24  حسین بن محمد راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن، مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1412ھ، ص :449
  • 25  شہاب الدین محمود آلوسی، تفسیر روح المعانی، ج -15، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1415ھ، ص:386
  • 26  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:58
  • 27  القرآن، سورۃالشعراء26: 194
  • 28  القرآن، سورۃ النجم53: 01
  • 29  قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:99
  • 30  شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ: دارابن رجب، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:200
  • 31  القرآن، سورۃالحشر21:59
  • 32  القرآن، سورۃالفرقان 25: 32
  • 33  القرآن، سورۃالبقرۃ2: 97
  • 34  القرآن، سورۃ ق50: 01
  • 35  قاضی عیاض بن موسی مالکی، الشفاء بتعریف حقوق المصطفیﷺ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:93
  • 36  ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی، تفسیر ثعلبی، ج -9، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان ، 2002ء، ص:93
  • 37  شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی مصری، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -1، مطبوعۃ:دار ابن رجب، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:200
  • 38  القرآن ، سورۃالنجم53: 11
  • 39  القرآن، سورۃ آل عمران3 : 159
  • 40  القرآن، سورۃ النور35:24
  • 41  ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی، تفسیر ثعلبی، ج -7، مطبوعۃ: داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2002ء، ص :105
  • 42  عبد الرحمن بن محمد بن ادریس رازی، تفسیر ابی حاتم الرازی، حدیث: 14578- 14577، ج -8، مطبوعۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 1419ھ، ص : 2597- 2596
  • 43  القرآن، سورۃ الحجر15: 97
  • 44  عبد الملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 48-47
  • 45  القرآن، سورۃالفتح48: 10
  • 46  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:1856، ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 1483
  • 47 القرآن، سورۃالانفال08: 17
  • 48  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث: 5502، ج- 5، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 344
  • 49  القرآن، سورۃالقمر54: 45
  • 50  القرآن، سورۃالقمر54: 45
  • 51  القرآن، سورۃالمؤمنون23: 64
  • 52  القرآن، سورۃابراہیم 14: 28
  • 53  القرآن، سورۃ الانفال08 : 17
  • 54  القرآن، سورۃ الانفال08 : 48
  • 55  القرآن، سورۃ الانفال08 : 49
  • 56  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الاوسط، حدیث:9121، ج -9، مطبوعۃ: دار الحرمین، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 58
  • 57  القرآن، سورۃالانفال08: 17
  • 58  عبد الرحمن بن ابوبکر جلال الدین السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:335
  • 59  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، حدیث: 11750، ج-11، مطبوعۃ: مصر، 1994ء، ص:285
  • 60  محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج- 4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص: 48
  • 61  ابو القاسم عبد الرحمن بن عبداﷲ سہیلی، الروض الانف، ج- 5، مطبوعۃ: دار احیاءالتراث العربی، بیروت، لبنان، 2000ء، ص: 152
  • 62  مفتی احمد یار خان نعیمی، شانِ حبیب الرحمن من آیاتِ القرآن ،مطبوعہ: قادری پبلشرز ، لاہور، پاکستان، 2012ء ، ص:101-100
  • 63  القرآن، سورۃ الم نشرح94: 02-03
  • 64  احمد بن محمد قسطلانی، المواہب اللدنیہ، ج -2، مطبوعۃ: المکتبۃ التوفیقیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :339

Powered by Netsol Online