Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

آپ ﷺکے جسم مبارک کا بے مثال رعب و جلا ل

Published on: 13-Oct-2023

(حوالہ: مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی ، علامہ محمد حسیب احمد، علامہ سعید اللہ خان، علامہ سیّدمحمد خالد محمود شامی،سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-2، مقالہ: 11، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2018ء، ص: 279-288)

یوں تو اﷲ رب العزت نے جملہ انبیاء کرامsym-3 کی دعوت کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کی خاطر انہیں غیر معمولی رعب ودبدبہ سے نوازا مگر حضور ختمی مرتبت sym-1 کو رعب و دبدبہ کی وہ شان عطا کی گئی جو اور کسی نبی اور رسول کے حصے میں نہیں آئی۔ آپ sym-1 کو حُسنِ صورت و سیرت کی وجہ سے قدرتی وقار حاصل تھااور آپ sym-1 کے شخصی وقار وہیبت کا یہ عالم تھا کہ ایک ماہ کی مسافت تک اس کا رعب ودبدبہ تھا۔ آپ sym-1 کی ہیبت سے بڑے بڑے جابر کانپ اٹھتے اور آپ sym-1 نے اپنے شخصی وقاراور و جاہت کے لیے کبھی بھی تَکلّف نہیں فرمایا۔

تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ بڑے بڑے سرداران قریش اور رئیسانِ مکہ آپ sym-1 کی شخصی وجاہت اور وقار وتمکنت سے مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ تاریخ کے دامن میں ایسے واقعات محفوظ ہیں کہ ابو جہل، ابو لہب، مغیرہ، عتبہ، شیبہ اور امیہ جیسے صاحبانِ رعونت ہیبت و جلال کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔آپ sym-1 کا اتنا رعب و دبدبہ تھا کہ حوالی مدینہ میں آباد قبائل اپنے جم غفیر اور کثیر جنگی ساز وسامان کے باوجود اپنے مضبوط قلعوں میں نبی کریم sym-1 کی پیغمبرانہ جلالت سے تھر تھر کانپنے لگتے تھے۔کئی قبائل کے سرکردہ افراد تو آپ sym-1 کے مطیع ہوگئے۔

کلام الہٰی میں حضور sym-1 کے رعب کا تذکرہ

نبی اکرم sym-1 کے رعب و دبدبہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی کئی مقامات پر ہوا ہے۔چنانچہ اسی حوالہ سے ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

سَاُلْقِى فِى قُلُوْبِ الَّذِینَ كفَرُوا الرُّعْبَ121
میں ابھی کافروں کے دلوں میں (لشکرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا) رعب و ہیبت ڈالے دیتا ہوں۔

قرآن مجید میں ایک اور مقام پر اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے:

وَقَذَفَ فِى قُلُوْبِھمُ الرُّعْبَ262
اور ان کے دلوں میں (اسلام کا) رعب ڈال دیا۔

یعنی یہ رعب و دبدبہ اور جاہ وجلال منجانب اللہ تعالی رسول اکرمsym-1 کو دیا گیا ہےکہ آپ sym-1 کے دشمن آپ sym-1 سے ہر لمحہ ڈرتے رہیں۔

احادیث میں حضور sym-1 کے رعب کا تذکرہ

اس رعب ِ نبوی sym-1 کا ذکر احادیث میں بھی خود صاحبِ قرآن sym-1 نے کیاہے۔چنانچہ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان sym-5کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1 نے فرمایا:

نصرت بالرعب مسیرة شھر.3
ایک ماہ کے فاصلہ سے ہی طاری ہونے والے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔

اسی طرح حضرت ابوہریرہ sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1 نے فرمایا:

نصرت بالرعب على العدو.4
دشمن پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی۔

اسی حوالہ سےحضرت ابوذر غفاری sym-5بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1 نے فرمایا:

نصرت بالرعب فیرعب منى العدو عن مسیرة شھر.5
رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے پس دشمن مجھ سے ایک ماہ کے فاصلہ پر ہی مرعوب ہوجاتا ہے۔

ایک ماہ کے فاصلہ سے مراد یہ ہے کہ دشمنانِ اسلام پر حضور sym-1 کا رعب اتنے فاصلہ سے طاری ہونے لگتا اور وہ آپ sym-1 کے نام کی ہیبت سے کانپنے لگتے۔

امام ابن حجر عسقلانی شافعی sym-4فرماتے ہیں:

میری دانست میں ایک ماہ کی مسافت کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ کفار اور یہود ونصاریٰ کی طاقت کے مراکز ایک ماہ کے زمانی فاصلے پر واقع تھے جیسے شام، عراق، یمن اور مصر۔6

حضرت ابوامامہsym-5 کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:

نصرت بالرعب یسیر بین یدى مسیرة شھر یقذف فى قلوب اعدائى.7
ایسے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی جو ایک ماہ کے فاصلے سے میرے آگے آگے چلتا اور میرے دشمنوں کے دلوں میں (اتنے فاصلہ پر ہی) ڈال دیا جاتا ہے۔

امام ترمذیsym-4 اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

فاذا جعل نصرته من الرعب فقد اعطى جندا لایقاومه احد ولم یعط احد من الرسل ذلك فكان این ماذكر من مسیرة شھر وقع ذلك الرعب فى قلب عدوه فذل بمكانه.8
جب آپ sym-1 کی رعب کے ذریعے مدد کی گئی تو آپ sym-1 کو ایسے لشکر عطا کئے گئے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ایسے لشکر کسی اور رسول کو عطا نہیں کئے گئے اور جہاں کہیں بھی ایک ماہ کی مسافت پر آپ sym-1 کا ذکر کیا جاتا تو دشمن کا دل دہل جاتا اور وہ اسی جگہ پست ہمت ہوجاتا۔

اسی حوالہ سے عبد الرحمن مبارک پوری لکھتے ہیں:

فالظاھر اختصاصه به مطلقا وانما جعل الغایة منھا شھرا لانه لم یكن بین بلده وبین احد من اعدائه اكثر منه وھذ ه الخصوصیة حاصلة له على الاطلاق حتى لو كان وحدہ بغیر عسكر.9
یہ بات بڑی واضح ہے کہ رعب کی صفت آپ sym-1 کے ساتھ مطلقاً خاص تھی اور آپ sym-1 کا ایک ماہ ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ sym-1 کے شہر اور آپ sym-1 کے دشمنوں کے درمیان اس مدّت سے زیادہ مسافت نہ تھی ۔ آپ sym-1 کو یہ خصوصیت ہمیشہ حاصل تھی چاہے آپ sym-1 کسی لشکر کے بغیر تنہا ہی کیوں نہ ہوتے۔

آپ sym-1 کے رعب و جلال کی مختلف شکلیں

حضور sym-1 کے رعب کی مختلف جہتیں تھیں جن میں سے ایک جہت دشمن کا عددی کثرت کے باوجود عساکرِ اسلام سے خوف زدہ ہونا تھا ۔چنانچہ اس حوالے سے امام قرطبی sym-4لکھتے ہیں:

ان الغزاة اذا خرجوا من دیارھم بالنیة الخالصة وضربوا بالطبل وقع الرعب والھیبة فى قلوب الكفار مسیرة شھر فى شھر علموا بخروجھم اولم یعلموا.10
جب عساکرِ اسلام اپنے علاقے سے جہاد کی نیت سے نکلنے لگتے اور جنگ کا نقارہ بجاتے تو کفار کے دلوں میں دو ماہ کے فاصلہ پر ہی رعب طاری ہوجاتا خواہ انہیں مجاہدین کے نکلنے کا علم ہوتا یا نہ ہوتا۔

اسی حوالہ سے حضرت عبداﷲ بن عباس sym-8 بیان کرتے ہیں :

نصر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم بالرعب مسیرة شھرین على عدوه.11
دشمن پر دو ماہ کے فاصلہ پر ہی طاری ہوجانے والے رعب کے ذریعے رسول اﷲ sym-1 کی مدد کی گئی۔

یہ اسلام دشمن عناصر شمعِ اسلام کو بجھانے کے منصوبے بناتے مگر جب اپنی چشم تصو رسے داعی اسلام حضور نبی کریم sym-1 کو دیکھتے تو ان پر آپ sym-1 کا ایسا رعب طاری ہوجاتا کہ ان کے تمام قبیح منصوبے اور ناپاک ارادے پانی کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے۔سمتوں کے ذکر میں اس امر کا اشارہ ہے کہ دشمن چاہے سامنے سے آئے یا عقب سے حضور sym-1 کا رعب اس پر یکساں طور پر طاری ہوتا اور وہ اسلام کی قوت کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پاتا۔

ناواقف افراد کا دیکھتے ہی مرعوب ہونا

آپ sym-1 کے رعب ودبدبہ کا یہ عالم تھا کہ کوئی اجنبی اور ناواقف شخص جونہی آپ sym-1 کو دیکھتا تو مرعوب ہوکر رہ جاتا۔چنانچہ حضرت علی sym-5 اس حوالہ سے فرماتے ہیں:

من راه بدیھة ھابه.12
جو شخص اچانک حضور sym-1 کے سامنے آتا مرعوب ہوجاتا۔

مگر جونہی وہ رحمت عالم sym-1 کے قریب آتا اس کا سب خوف جاتا رہتا اور آپ sym-1 کی قربت میں طمانیت محسوس کرتا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہsym-5 آپsym-1 کی عظمت ووقار کو یوں بیان کرتے ہیں:

كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فخما مفخما.13
حضور نبی کریم sym-1 اپنی ذات والاصفات کے لحاظ سے عظیم تھے اور دوسروں کے نزدیک معظم اور باوقار تھے۔

"فخما مفخما" کا معنی شارحین حدیث نے یہ تحریر کیا ہے:

ھو عظیم فى نفسه معظم فى القلوب والعیون عند كل من راه صلى اللّٰه علیه وسلم.14
آپ sym-1 ذات کے لحاظ سے عظیم اور ہر دیکھنے والے کے دل اور نظر میں معظم تھے۔

امام عبد الرؤف مناوی sym-4یہ معنی بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہی قدرتی وجاہت تھی کہ مخالف آپ sym-1 کی تعظیم نہ چاہنے کے باوجود کرنے پر مجبور ہوجاتا اور ان الفاظ کا ایک اور معنی بھی بیان کیا:

فخم عظیم عنداللّٰه مفخم معظم عند الناس.15
آپ اﷲ کے ہاں عظیم اور لوگوں کے ہاں معظم ہیں۔

اسی طرح اس حوالہ سے حضرت خارجہ بن زید انصاریsym-5 بیان کرتے ہیں:

كان رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم او قر الناس فى مجلسه.16
حضور نبی کریم sym-1 مجلس میں تمام شرکاء سے باوقار ہوتے۔

حضرت اُم معبد sym-6 آپ کے حسنِ وجاہت اور شخصی وقار کے بارے میں فرماتی ہیں:

ان صمت فعلیه الوقار وان تكلم سماه وعلاه البھاء اجمل الناس وابھاه من بعید واحسنه واجمله عن قریب.17
نبی کریم sym-1 بوقت سکوت حد درجہ متین اور سراپا وقار دکھائی دیتے۔ جب گفتگو فرماتے تو رخ انور پر شگفتگی پھیل جاتی۔ دور سے ذی وجاہت اور بارعب دکھائی دیتے جبکہ قریب سے کمال درجہ حسین اور منٹھار تھے۔

آپ sym-1 سب سے بڑھ کر حسین

آپ sym-1 کے حسن وجاہت ووقار کا یہ عالم تھا کہ کسی کو بھی آپ sym-1 کے چہرہ اقدس کو آنکھ بھر کر دیکھنے کی طاقت نہ تھی ۔اسی بات کا تذکرہ آپ sym-1 کی بارگاہ سے فیض پانے والے صحابی رسول حضرت عمرو بن العاص یوں بیان کرتے ہیں:

وما كان احد احب الى من رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ولا اجل فى عینى منه وما كنت اطیق ان املا عینى منه اجلا لا له ولو سئلت ان اصفه ما اطقت لانى لم اكن املا عینى منه.18
میرے نزدیک رسول اﷲ sym-1 سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہ تھا اور نہ ہی میری نگاہوں میں کوئی آپ sym-1 سے حسین تر تھا۔میں حضور رحمتِ عالم sym-1 کے مقدس چہرہ کو اس کے جلال و جمال کی وجہ سے جی بھر کر دیکھنے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اگرکوئی مجھے آپ sym-1 کے محامد ومحاسن بیان کرنے کے لئے کہتا تو میں کیونکر ایسا کرسکتا تھا ؟کیونکہ (حضور رحمت عالم sym-1 کے حسن جہاں آرا کی چمک دمک کی وجہ سے) آپsym-1 کو آنکھ بھر کر دیکھنا میرے لئے ممکن نہ تھا۔

مجلس پر آپsym-1 کا رعب

رسول اکرم sym-1 کی بارگاہ میں بیٹھنےکا تذکرہ کرتے ہوئےحضرت انسsym-5 بیان کرتے ہیں :

كنا نجلس عند رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كانما على رؤوسنا الطیر ما یتكلم منا احد الا ابوبكر و عمررضى اللّٰه عنھا.19
ہم حضور نبی کریم sym-1 کی محفل پاک میں اس طرح بیٹھے تھے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں حضرت ابوبکر صدیقsym-5 اور حضرت عمر sym-5 کے علاوہ کسی میں آپ sym-1 کے ساتھ گفتگو کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔

سروں پر پرندے ہونے سے مراد یہ ہے کہ نبی کریم sym-1 کے رعب اور دبدبے کے باعث صحابہ کرام sym-7جب بھی آپ sym-1 کی محفل میں موجود ہوتے تودرخت کی مثل بلکل ساکت ہوتے ۔

حضرت ابو رمثہ sym-5 طبیب تھے ۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میں جب مدینہ منورہ میں آیا تو میں نے ابھی رسول اﷲ sym-1 کی زیارت نہیں کی تھی۔ اچانک آپ sym-1 باہر تشریف لائے اور آپ sym-1 نے دو سبز کپڑے زیب تن فرما رکھے تھے، میں نے اپنے بیٹے سے کہا خدا کی قسم! یہی اﷲ کے رسول ہیں۔ پس میرا بیٹا رسول اﷲ sym-1 کے رعب و دبدبے کے باعث کانپنے لگا۔20

آپsym-1 کا رعب ابو مسعود بدری پر

اس رعب و دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ نبی اکرم sym-1 جس کو بھی مخاطب فرمادیتے تو اسی وقت اس پر آپ sym-1 کا رعب و جلال طاری ہوجاتا۔چنانچہ حضرت ابو مسعود بدری sym-5بیان کرتے ہیں :

انى كنت اضرب غلاما لى اذ سمعت صوتا من خلفى اعلم ابا مسعود للّٰه اقدر علیك منك علیه قال: فجعلت لا التفت الیه من الغضب حتى غشینى فاذا ھو رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فلما رایته وقع السوط من بین یدى من ھیبته.21
میں اپنے غلام کو مار رہا تھا میں نے اپنے پیچھے سے آواز سنی کسی نے کہا: ابو مسعود! جان لو کہ اﷲ تعالیٰ کو تم پر اس سے زیادہ قدرت حاصل ہے جتنی تمہیں اس غلام پر ہے۔ میں غصے کی وجہ سے اس ہستی کی طرف توجہ نہ کررہا تھا حتیٰ کہ وہ مجھ پر چھاگئے میں نے دیکھا تو وہ حضور نبی کریم sym-1 تھے جب میں نے آپsym-1 کو دیکھا تو آپ sym-1 کی ہیبت کی وجہ سے کوڑا میرے ہاتھ سے نیچے گرپڑا۔

بنت مخرمہ sym-6نے حضور sym-1 کو مسجد نبوی میں دیکھا تو آپ sym-1 کے پیغمبرانہ جلال کی تاب نہ لاسکیں اور ان پر رعب طاری ہوگیا۔22

دورانِ جنگ میں دشمن پر رعب طاری ہونا

میدانِ جنگ میں بھی یہی رعب اور دبدبہ دشمنوں کو مبہوت کئے رہتا اور انہیں ہزیمت اٹھانا پڑتی۔ غزوہ بدر کے موقع پر کفار کے دلوں پر جو رعب طاری ہوا اس کا ذکر قرآن مجید میں یوں ہوا ہے:

سَـنُلْقِى فِى قُلُوْبِ الَّذِینَ كفَرُوا الرُّعْبَ15123
ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں (تمہارا) رعب ڈال دیں گے ۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداﷲ بن عباسsym-8 بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم sym-1 نے فرمایا:

ان ابا سفیان قد اصاب منكم طرفا وقد رجع وقذف اللّٰه فى قلبه الرعب.24
بے شک ابو سفیان کو تمہاری طرف سے سخت دھچکالگا ہے اور وہ مکہ لوٹ گیا اور اﷲ تعالیٰ نے اس کے دل میں رعب ڈال دیا۔

کافر کا مرعوب ہونا

ایک مرتبہ دوران سفر حضور sym-1 ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرما تھے کہ اچانک وہاں ایک اعرابی آنکلا اور آپ sym-1 کی تلوار جو آپ sym-1 نے درخت کی شاخ سے ٹکارکھی تھی لے کر کہنا لگا:

من یمنعك منى؟
اب تمہیں مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟

آپ sym-1 نے فرمایا میرا خدا۔یہ سن کر وہ شخص اتنا مرعوب ہوا کہ اس نے فوراً تلوار نیام میں کرلی۔یہ واقعہ حضور sym-1 نے صحابہ کرامsym-7 کو خود بیان فرمایا جس کے راوی حضرت جابر sym-5ہیں۔25

محمد بن کعب قرظی sym-4کی روایت میں ہے کہ اس وقت بدو کا ہاتھ کانپنے لگا اورتلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی اور وہ درخت سے جاٹکرایا جس سے اس کا دماغ پاش پاش ہوگیا۔26

شہنشاہ روم کی مرعوبیت

قیصر روم ہر قل کو جب حضور sym-1 کا مکتوب ملا تو اس نے سردارِ قریش ابو سفیان جو کہ تجارت کے سلسلہ میں وہیں تھا اپنے دربار میں بلوایا اور اس سے آپ sym-1 کے بارے میں چند سوالات کئے۔ آپ sym-1 کے نامہ مبارک سے ہر قل پر جو رعب و دبدبہ طاری ہوا اسے ابو سفیان اپنے ساتھیوں سے یوں بیان کرتا ہے:

لقد امر امر ابن ابى كبشة انه یخافه ملك بنى الاصفر فما زلت موقنا انه سیظھر حتى ادخل اللّٰه على الاسلام.27
بخدا ! ابو کبشہ 28کے بیٹے (محمد sym-1 ) کی شان بہت بڑھ گئی اتنی کہ ان سے شہنشا روم ڈرنے لگا۔ اس وقت سے مجھے اس بات کا یقین ہوگیا کہ حضور sym-1 بہت جلد غالب ہوں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل فرمادیا۔

ہر قل کے مزید خوف زدہ ہونے اور مرعوب ہونے کا ذکر یوں کیا گیا ہےکہ ابن ناظور جو ہر قل کا دوست اور ایلیاء کا حاکم تھا بیان کرتا ہے کہ ہر قل جب بیت المقدس آیا تو ایک دن پریشان نظر آیا۔ اس پر اس کے بعد بعض اراکین سلطنت نے پوچھا کیا بات ہے؟ آپ کا مزاج ہم خلاف معمول پارہے ہیں ہر قل علوم نجوم جانتا تھا۔ اراکین کے سوال کرنے پر اس نے بتایا:

انى رایت الیلة حین نظرت فى النجوم ملك الختان قد ظھر.29
میں نے آج رات جب ستاروں میں نظر کی تو یہ دیکھا کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ (حضور نبی کریم sym-1 ) ظاہر ہوگیا ہے۔

یمن کے سفیر کامتاثر ہونا

حضور نبی کریم sym-1 کے دور مبارک میں یمن پہلے ایران کے بادشاہ کسریٰ کے ماتحت تھا یمن پر بھی کسری کی حکومت تھی ۔ جب آپ sym-1 نے دنیا کے بادشاہوں کو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کی دعوت دیتے ہوئے خطوط لکھے تو ان میں شاہ ایران کسریٰ کو بھی خط لکھا:

بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ

محمد رسول اﷲ sym-1 کی جانب سے ایران کے عظیم بادشاہ کسریٰ کی طرف۔
ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلامتی ہو، اما بعد! تم مسلمان ہوجاؤ تو بچ جاؤ گے… ۔

جب اس کے پاس یہ خط پہنچا تو اس نے کہا:یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ خط جزیرۂ عرب کے ایک شخص کی طرف سے آیا ہے جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے۔ جب اس نے خط کو کھولا تو دیکھا کہ آپ sym-1 نے کسریٰ کے نام سے قبل اپنے نام سے خط کا آغاز کیا ہے تو کسریٰ کو بہت غصہ آیا اور اس نے خط پڑھنے سے قبل خط کو پارا پارا کردیا اور اپنے یمن کے گورنر باذام کو لکھا کہ جب میرا یہ خط تجھے ملے تو جزیرہ عرب کے اس شخص کی طرف جو اپنے آپ کو نبی خیال کرتا ہے ،اپنی طرف سے دو امیروں کو بھیجو اور اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو ۔جب باذام کو خط ملا تو اس نے دو دانشمند امیروں کو اپنی طرف سے بھیجا ان میں سے ایک کا نام بابویہ تھا ۔ اپنی اس ناکام مہم سے واپسی پر وہ والی یمن باذام کے دربار میں آیا تو اس نے اپنے تاثرات کا اظہار ان الفاظ میں کیا:

ما كلمت رجلا قط اھیب عندى منه.30
میں نے آپ (sym-1 ) سے بڑھ کر کسی کو بارعب نہیں دیکھا۔

حضور sym-1 کا یہ رعب و دبدبہ اور ہیبت وجلال سپاہ کی کثرت اور اسلحہ کی فراونی کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یہ آپ sym-1 کی پیغمبرانہ خصوصیت تھی جو اسلام کی شوکت وسربلندی اور تزویج اشاعت کے لئے بروئے کار آئی حتیٰ کہ وعدہ الٰہی کے مطابق دین اسلام تمام ادیان باطلہ پر غالب ہوکر رہا۔

رعب و دبدبہ، شان و شوکت اور جلال و ہیبت کا تعلق عمومی طور پر دنیاوی عہدوں اور مناصب کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ عام طور پر بادشاہانِ وقت اور شہنشایان ِ دنیاوی اور آج کل کی اصطلاح میں صدرِ مملکت اور وزرائے اعظم کا پروٹوکول اتنا ہوتا ہے کہ ایک معمولی اور چھوٹا انسان بھی بہت بڑا اور پرہیبت منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ لیکن سید الانبیاءsym-1 کا رعب وجلال فطری تھا جس سے بڑے بڑے بادشاہ مرعوب ہوتے تھے۔


  • 1  القرآن، سورۃ الانفال8: 12
  • 2  القرآن، سورۃالاحزاب33: 26
  • 3  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 335، ج-1، مطبوعۃ: دار طوق النجاة، دمشق، السورية، 1422ھ، ص :74
  • 4  مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث:523، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی ،بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص :372
  • 5  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ، حدیث: 21337، ج -5،مطبوعۃ:المکتب الاسلامی، بیروت،لبنان،1978ء، ص :145
  • 6  شہاب الدین احمد ابن حجر عسقلانی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج -6،مطبوعۃ:دار المعرفۃ ،بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :128
  • 7  ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، السنن الکبریٰ، حدیث: 999، ج-1،مطبوعۃ: مکتبۃ دار الباز، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ،1994ء، ص :222
  • 8  محمد بن عیسیٰ ترمذی، نوادر الاصول فی احادیث الرسول ﷺ ،ج -3،مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان،1992ء،ص :151
  • 9  عبدالرحمن مبارک فوری، تحفۃ الاحوذی، ج -5،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :135
  • 10  ابو عبداﷲ محمد بن احمد قرطبی، تفسیر قرطبی ،ج-3، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :426
  • 11  سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث:11056، ج -11، مطبوعۃ: المکتبۃ العلوم والحکم، الموصل، عراق، 1983ء،ص :64
  • 12  محمد بن عیسیٰ ترمذی، سنن الترمذی ، حدیث:3638، ج-5 ، مطبوعۃ: دار الغرب الاسلامی بیروت، لبنان،1998ء، ص :599
  • 13  محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ ،حدیث:7، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :22-21
  • 14  عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی ،شرح الشمائل برحاشیہ جمع الوسائل ،ج -1،مطبوعہ :نور محمد اصح المطابع کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا) ص :34
  • 15  ایضاً
  • 16  سلیمان بن اشعث ابوداؤد ، مراسیل ابی داؤد ،حدیث: 505،مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت،لبنان،1408ھ،ص: 344
  • 17  ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الحاکم، مستدرک علی الصحیحین، حدیث: 4274، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990ء، ص :10
  • 18  مسلم بن الحجاج قشیری ، صحیح مسلم ،ج -1، حدیث: 121،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :112
  • 19  محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج-7، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص :108
  • 20  احمد بن حنبل الشیبانی، مسند احمد ،ج -2،مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت،لبنان، 1978ء،ص :228
  • 21  محمد بن یوسف الصالحی الشامی ، سبل الہدی والرشاد ،ج-7، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1993ء، ص :110
  • 22  سلیمان بن اشعث السجستانی، سنن ابوداؤد ، حدیث: 4847، ج -4،مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :262
  • 23  القرآن، سورۃ آلِ عمران3: 151
  • 24  ابو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیرالدمشقی ، تفسیر ابن کثیر ،ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان،1980ء،ص :412
  • 25  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث: 2753-2756، ج-3، ،مطبوعۃ:دار القلم، بیروت،لبنان، 1981ء، ص:1065-1066
  • 26  عبد الرحمن بن ابوبکر السیوطی، خصائص الکبریٰ، ج- 1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص :370
  • 27  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:7، ج-1، مطبوعۃ:دار القلم، بیروت،لبنان، 1981ء،ص :9
  • 28  امام ابو حاتم فرماتے ہیں:ابو کبشہ حضورﷺ کی نانی جان کے والد تھے وہ شام کی طرف نکل گئے اور وہاں نصاریٰ کے دین کو پسند کرنے لگے پھر قریش کی طرف لوٹے اور اس بات کا اظہار کیا تو قریش نے انہیں عتاب کا نشانہ بنایا، قریش حضور ﷺ کو ان کی طرف منسوب کرکے پکارتے اور کہتے کہ یہ بھی اس کی طرح نصاریٰ کا دین لے آیا ہے۔(محمد بن حبان بستی، صحیح ابن حبان، حدیث: 6762، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، لبنان،1993ء، ص :171)
  • 29  محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری ، حدیث:7، ج-1، مطبوعۃ:دار القلم، بیروت، لبنان،1981ء، ص :9
  • 30  ابو جعفر محمد بن جریر طبری، تاریخ الامم والملوک، ج-2 ،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 1407ھ، ص :134

Powered by Netsol Online