Encyclopedia of Muhammad

جسمِ اطہر کی خوشبو

رسول اکرم کی تخلیق اللہ رب العز ت کی تمام مخلوقات میں سب سے احسن و اجمل و ارفع ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تباک وتعالی نے قرآن مجید فرقان حمید مین جابجا کئی مقامات پر نبی اکرم کے اعضاء بدنی کا تذکرہ فرمایاہے۔نبی محتشم کا ہر ہر عضو بے نظیر و بے مثال ہے اور آپ کا ہر وصف تما م اوصاف سے بڑھ کر حسین و جمیل ہے۔حضور نبی کریم کے جسم اطہر کے جملہ اوصاف حسینہ میں سے ایک وصف جمیل یہ بھی ہے کہ آپ کا بدن مبارک خوشبودار تھا،اگرچہ کہ کثرت کے ساتھ خوشبو استعمال فرماتے تھے لیکن خوشبو کی محتاجی نہ تھی۔ آپ کے جسم ِاقدس کی خوشبو اتنی نفیس و دلربا تھی کہ اس کو ایک بار سونگھنے والا زندگی بھر کے لیے اس کا گرویدہ ہوجاتا۔ جہاں آپ خوشبوکو پسند فرماتے وہیں آپ کے بدن مبارک سے بھی نہایت نفیس خوشبو پھوٹتی تھی جس سے صحابہ کرام کا مشام جاں معطر رہتا۔ جسمِ اطہر کی اپنی خوشبو ہی اتنی نفیس تھی کہ کسی دوسری خوشبو کی ضرورت نہ تھی۔ دنیا کی ساری خوشبوئیں جسمِ اطہر کی خوشبوئے دلنواز کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں ۔

جسمِ مبارک ولادت سے ہی خوشبو میں رچا بسا ہوا تھا

یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ کے جسم اطہر کو خوشبودار ہونےکا اعجاز بعد کے کسی دور میں نہیں بلکہ آپ کی ولادت کے وقت سے ہی حاصل تھا۔امام ابونعیماور امام خطیب بغدادینے حضور نبی کریم کی والدہ ماجدہ سیّدہ حضرت آمنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ جب رسول اﷲ کا اس کائنات میں ظہور ہواتو نبی کریم کی والدہ ماجدہ سیّدہ حضرت آمنہ نے اس وقت کے حالات یوں بیان فرمائے:

  نظرت الیه صلى اللّٰه علیه وسلم فاذا ھو كالقمر لیلة البدر وریحه یسطع كالمسك الاذفر.1
  میں نے حضور کی زیارت کی تو میں نے آ پ کے جسم اطہر کو چودھویں رات کے چاند کی طرح پایا جس سے تروتازہ کستوری کی خوشبو کے حلے پھوٹ رہے تھے۔

اسی طرح آپ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ بیان کرتی ہیں:

  لما دخلت به الى منزل لم یبق منزل من منازل بنى سعد الا شممنا منه ریح المسك والقیت محبته صلى اللّٰه علیه وسلم فى قلوب الناس حتى ان احدھم كان اذا نزل به اذى فى جسده اخذ كفه صلى اللّٰه علیه وسلم فیضعھا على موضع الاذى یتبرأ باذن اللّٰه تعالىٰ سریعا وكذلك اذا اعتل لھم بعیرا او شاة فعلوا ذلك.2
  جب میں آپ کو لے کر اپنے گھرمیں داخل ہوئی تو قبیلہ بنی سعد کے تمام گھروں میں کستوری کی خوشبو آنے لگی۔ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت اس قدر پیدا ہوگئی کہ اگر ان میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ کے دستِ اقدس کو پکڑ کر اپنے جسم پر لگاتااور اﷲ تعالیٰ کے حکم سے وہ فی الفور صحت مند ہوجاتا۔ اسی طرح ان کا اگر کوئی اونٹ بکری وغیرہ بیمار ہوجاتا تو آپکے دستِ اقدس کو اس کے جسم پر لگاتے جس سے وہ تندرست ہوجاتا۔

امام بیہقیکی روایت میں ہے کہ سیّدہ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں:

  یعلم اللّٰه منزلا من منازل من بنى سعد بن بكر الا وقد شممنا منه ریح المسك الاذفر.3
  اﷲ بہتر جانتا ہے کہ میں جس جس گھر میں ان کو لے کر گئی وہیں وہیں کستوری کی تیز خوشبو ان سے ہم نے محسوس کی۔

حضرت ابوطالب کا بارگاہِ رسالت مآب میں خراجِ عقیدت

امام فخر الدین رازیاپنی مشہور تفسیر رازی میں حضرت ابوطالب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اپنے بھائی حضرت عباس کو کہاکہ آپ کو میں وہ بات نہ بتاؤں جو میں نے(سیّدنا) محمد () سے دیکھی ہے۔حضرت عباس نے کہا کہ ہاں مجھے ضرور بتائیں اس پر حضرت ابو طالب نے درج ذیل واقعہ بیان کیا:

  جب سے حضور نبی کریم میرے پاس آئے ہیں مجھے آپ سے اتنی محبت ہوگئی ہے کہ میں رات اور دن میں ایک گھڑی بھی ان سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا حتی کہ رات کو بھی میں آپ کو اپنے پاس سلاتا ہوں ۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ (بیرونی) کپڑے پہن کر سوتے تھے اور(بیرونی)کپڑے اتارکر سونا بھی آپ کو بالکل بھی پسند نہ تھا۔ایک رات میں نے کہا کہ آپ(بیرونی)کپڑے اتار دیں اور پھر سوئیں تو میں نے آپ کے چہرۂ اقدس سے محسوس کیا کہ یہ بات آپکو پسند نہیں لیکن چونکہ میری بات کو آپ ٹالنا بھی نہ چاہتے تھےتوآپ نے فرمایا:اے چچا میں (بیرونی)کپڑے اتارتا ہوں مگر اپنے چہرے کو دوسری طرف کرلیجیے تاکہ میرے ننگے جسم کو آپ نہ دیکھ پائیں کہ میرے جسم کو (اس حال میں بھی ) دیکھنا کسی کے لیے جائز نہیں۔حضرت ابوطالب کہتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا مگر میں نے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا تاکہ یہ کپڑے اتارلیں۔ جب آپ کپڑے اتار کر بستر پر لیٹےتومیں بھی بستر پر لیٹالیکن۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا ہے۔آپ ایک اور بات کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

                                    واللّٰه ما ادخلته فراشى فاذا ھو فى غایة اللین و طیب الرائحة كانه غمس فى المسك.4
                         ترجمہ:.... خدا کی قسم جب میں انہیں اپنے بستر پر لٹاتا تو آپ کا جسم اطہر نہایت ہی نرم و نازک اور اس طرح خوشبو دار تھا جیسے وہ کستوری میں ڈبویا ہوا ہے ۔

مدینۃ المنورۃ کی معطر گلیاں

حضور نبی کریم کے جسم اطہر کو اﷲ تعالیٰ نے اس طرح خوشبو دار بنایا تھا کہ جس جگہ، گلی اورراستے سے آپ کا گذر ہوجاتا تو وہ خوشبو سے مہک اٹھتے۔ راہیں قدم بوسی کا اعزاز حاصل کرتیں اور خوشبوئیں جسمِ اطہر کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتیں۔بعد میں گزرنے والا ہر شخص یہ محسوس کرلیتا کہ اس راہ سے اﷲ تعالیٰ کے محبوب کا گذر ہوا ہے کیونکہ وہ ان راستوں پر ایسی خوشبو پاتا جو آپ ہی کے جسم اطہر کا حصہ تھی۔چنانچہ حضرت جابر اس کیفیت کا ذکر یوں کرتے ہیں:

  ان النبى لم یسلك طریقا او لایسلك طریقا فیتبعه احد الاعرف انه قد سلكه من طیب عرفه او قال من ریح عرقه.5

حضور نبی کریم جس بھی راستے سے گزرتے تھے تو آپ کے پیچھے جانے والا کوئی بھی شخص آپ کی خوشبو یا پسینہ مبارک کی خوشبو سے جان لیتا تھا کہ آپوہاں سے گزرے تھے۔

نیز اسی طرح امام بخارینے اس حدیث کو ان الفاظ میں روایت کیا ہے

  عن جابر لم یكن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یمر فى طریق فیتبعه احد الا عرف انه سلكه من طیب عرقه.6
  حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں: حضور جس راستے سے بھی گزر تے بعد میں آنے والا شخص خوشبو سے محسوس کرلیتا کہ ادھر سے حضور کا گزر ہوا ہے۔

اسی طرح"الاحادیث المختارۃ" میں حضرت انس کی حدیث مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:

  ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا مر فى طریق من طرق المدینة عرف بریح الطیب.7
  ہم حضور کے طلوع فجر کے وقت مسجد میں داخل ہونے کو آپ کی مہکتی خوشبو سے پہچان لیتےتھے۔
  قال ما كنا نعرف رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم الا بریح الطیب.8
  ہم حضور کو آپ کی خوشبو سے ہی پہنچانتے تھے

حضرت عبداﷲ بن مسعود کی حدیث مبارکہ کو امام ابن عدینے اس سند اور ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

  عن عبداللّٰه قال: كنا نعرف رسول صلى اللّٰه علیه وسلم دخوله مع طلوع الفجر الى المسجد بریح الطیب.9
  ہم حضور کے طلوع فجر کے وقت مسجد میں داخل ہونے کو آپ کی مہکتی خوشبو سے پہچان لیتےتھے۔

اس حدیث مبارکہ کو امام دارمینے مرسلاً اس سند اور ان الفاظ میں روایت کیا ہے:

  عن ابراھیم قال: كان رسول صلى اللّٰه علیه وسلم یعرف باللیل بریح الطیب.10
  حضرت ابراہیم بیان کرتے ہیں: نبی کریم کی خوشبوکی مہک کی وجہ سے رات کے وقت بھی آپ کو پہچان لیا جاتا تھا۔

اسی طرح امام ابو یعلی الموصلیروایت کرتے ہیں:

  عن انس قال :كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اذا مر فى الطریق من طرق المدینة وجد منه رائحة المسك قالوا: مر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى ھذا الطریق الیوم.11
  حضرت انس بیان کرتے ہیں : جب رسول اﷲ مدینہ کے راستوں میں سے کسی راستے سے گزرتے تو اس راستے سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور لوگ کہتے تھے کہ: رسول اﷲ اسی راستے سے گزرے ہیں۔

امام ابن حجر عسقلانیلکھتے ہیں:

  وروى ابو یعلى والبزار باسناد صحیح.12
  اس حدیث کو امام ابو یعلی اور امام بزاررحمہما اﷲنے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

معطر جسم اور حدیث ثُنائی

رسول اکرم کا جسم اطہر انتہائی معطر تھا۔امام ابو حنیفہنے ایک حدیث ثُنائی اس حوالہ سےروایت کی ہے۔ یہ حدیث مبارکہ امام اعظم کی ثنائیات میں شمار ہوتی ہے جس کی سند میں حضور نبی کریم تک صرف دو واسطے ہیں۔ اول تابعی ہیں اور پھر صحابی ۔یعنی پہلے راوی ابو زبیرتابعی ہیں اور دوسرے جلیل القدر صحابی رسول حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری ہیں۔چنانچہ مسند میں منقول ہے:

  عن ابى حنیفة عن ابى الزبیر عن جابر قال: كان النبى صلى اللّٰه علیه وسلم یعرف بریح الطیب اذا اقبل من الییل.13
  حضرت امام ابو حنیفہابو الزبیر سے وہ حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ :نبی پاک جب رات کو تشریف لاتے تو آپ کی مبارک خوشبو سے ہم آپ کو پہچان لیتے۔

اسی طرح ایک اور روایت میں منقول ہے:

  عن عبداللّٰه بن مسعود ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم كان یعرف باللیل اذا اقبل الى المسجد بریح الطیب.14
  وہ حضرت عبداﷲ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اﷲ رات کو جب مسجد میں تشریف لاتے تو اپنی پاکیزہ خوشبوسے پہچان لیے جاتے تھے۔

خوشبومبارک گویا جسمِ اطہر کا جز تھی

حبیبِ خدا سیّد الانبیاء کا جسد مبارک ساری مخلوق سے اعلیٰ ،افضل، اطیب، اطہر اوراکرم ہے تو اسی وجہ سے حبیب خدا کے جسم پاک کا اعجاز اور کمال بھی سب سے اعلیٰ وافضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شفیع اعظم رحمتِ دو عالم کے جسم پاک سے ہر وقت ایسی خوشبو مہکتی تھی کہ جہاں کی کوئی خوشبو اس خوشبو مبارک کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ مہک اور خوشبو آپ کے جسمِ اطہر کی تھی نہ کہ استعمال کردہ خوشبو کی۔ کیونکہ آپ اس خوشبو کے محتاج نہ تھے بلکہ آپ خوشبو استعمال نہ بھی فرماتے تو پھر بھی یہی کیفیت رہتی۔چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں کہ اﷲ رب العزت نے آپ کو جن خصوصیات سے نوازا ان میں سے آپ کے جسمِ اطہر کا خوشبو دار ہونا بھی شامل ہے۔چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

  كانت ھذه الریح الطیبة صفته وان لم یمس طیبا.15
  پاکیزہ مہک حضور کے جسم اطہر کی صفات میں سے تھی اگرچہ حضور نے خوشبو استعمال نہ بھی فرمائی ہوتی۔

محدث امام اسحاق بن راہویہ فرماتے ہیں:

  ان ھذه الرائحة الطیبة كانت رائحة رسول اللّٰه من غیر طیب.16
  یہ پیاری مہک آپ کے جسمِ اطہر کی تھی نہ کہ اس خوشبو کی جسے آپ استعمال فرماتے تھے۔

امام خفاجی حضور کی اس منفرد خصوصیت کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

  یجد المصافح من طیب یده...ریحھا الطیبة طبعیا خلقیا خصه للّٰه به مكرمة ومعجزة لھا.17
  آپ سےمصافحہ کرنےوالےکو آپ کےہاتھ مبارک سےخوشبوملتی۔۔۔ اﷲ تعالیٰ نے بطور کرامت ومعجزہ آپ کے جسمِ اطہر میں خلقتاً اور طبعاً مہک رکھ دی تھی۔

اسی طرح شیخ عبد الحق محدث دہلویلکھتے ہیں:

  یکے از طبقات عجیب آنحضرت طیب ریح است كه ذاتى وے صلى اللّٰه علیه وسلم بود بى آنكه استعمال طیب از خارج كند و ھیچ طیب بداں نمى رسد.18

حضور کی مبارک صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بغیر خوشبو لگائے حضور کے جسمِ اطہر سے ایسی خوشبو آتی جس کا مقابلہ کوئی خوشبو نہیں کرسکتی۔

اسی طرح شیخ ابراہیم بیجوریفرماتے ہیں:

  وقد كان صلى اللّٰه علیه وسلم طیب الرائحة وان لم یمس طیبا كما جاء ذلك فى الاخبار الصحیحة لكنه كان یستعمل الطیب زیادة فى طیب الرائحة.19
  احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ جناب رسالت مآب کے جسمِ اطہر سے خوشبو کی دلآویز مہک بغیر خوشبو لگائے آتی رہتی۔البتہ آپ خوشبو کا استعمال فقط خوشبو میں اضافہ کے لیے کرتے۔

خوشبوئے جسمِ اطہر وصال کے بعد

انسانی جسم سے جب روح پرواز کرجاتی ہے تو اس کے بعد وہ بے اختیار ہوجاتا ہے اور جسم کی تروتازگی بحال نہیں رہتی ۔ لیکن جسمِ مصطفوی کا یہ بھی امتیاز ہے کہ وصال کے بعد وہ نہ صرف تروتازہ رہا بلکہ اس کی وہ مہک بھی اسی طرح قائم رہی جس طرح قبل از وصال تھی۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت علی فرماتے ہیں:

  غسلت النبى صلى اللّٰه علیه وسلم فذھبت انظر مایكون من المیت فلم اجد شیئا فقلت طبت حیا ومیتا وسطعت منه ریح طیبة لم نجد مثلھا قط.20
  میں نے رسالت مآب کو غسل دیا۔ جب میں نے حضور نبی کریم کے جسمِ اطہر سے خارج ہونے والی کوئی ایسی چیز نہ پائی جو دیگر مُردوں سے خارج ہوتی ہے تو پکار اٹھا کہ اﷲ کے محبوب! آپ ظاہری حیات اور بعد از وصال دونوں حالتوں میں پاکیزگی کا سرچشمہ ہیں۔ (غسل کے وقت) حضور کے جسمِ اطہر سے ایسی خوشبو کے حلّے شروع ہوئے کہ ہم نے کبھی ایسی خوشبو نہ سونگھی۔

ایک دوسری روایت میں مذکور ہے:

  فاح ریح المسك فى الیت لما فى بطنه.21
  تمام گھر اس خوشبو سے مہک اٹھا جو آپ کے شکم اطہر میں موجود تھی۔

شہر رسول ﷺمہک اٹھا

حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جب شکم اطہر پر ہاتھ پھیرا تو:

  انتشر فى المدینة.22
  پورا مدینہ اس خوشبو سے مہک اٹھا۔

اسی طرح اُم المومنین حضرت ام سلمہ سے روایت ہے:

  وضعت یدى على صدر رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم یوم مات فمر بى جمع آكل، واتوضا، ما تذھب ریح المسك من یدى.23
  میں نے وصال کے بعد حضور نبی کریم کے سینۂ اقدس پر ہاتھ رکھا۔ اس کے بعد مدت مدت گزرگئی، کھانا بھی کھاتی ہوں، وضو بھی کرتی ہوں (یعنی سارے کام کاج کرتی ہوں) لیکن میرے ہاتھ سے مشک کی خوشبو نہیں گئی۔

اسی حوالہ سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:

  قالت: قبض رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم وراسه بین سحرى ونحرى. قالت: فلما خرجت نفسه لم اجد ریحا قط اطیب منھا.24
  جب حضور نبی کریم کا وصال شریف ہوا تو حضور نبی کریم میری گود میں تھے اور جب روح مقدسہ نے پرواز کی تو ایسی خوشبو مہکی کہ میں نے اس جیسی خوشبو کبھی نہیں پائی۔

حضرت علی سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم کی تدفین سے فارغ ہوچکے تو سیّدہ عالم حضرت فاطمہ قبر انور پر حاضر ہوئیں ۔چنانچہ اس حوالہ سے روایت میں منقول ہے:

  فاخذت قبضة من تراب القبر فوضعته على عینھا وبكت وانشات:
       ما    ذا    على   من    شم    تربة   احمد
       ان  لا  یشم  مدى  الزمان  غوالیا.25
  انہوں نےتربتِ مبارک کی خاک اٹھاکر آنکھوں سے لگائی توآنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور آپ نے یہ شعر پڑھا:جس شخص نے آپ کی تربت مبارک کی خاک کی خوشبو کو سونگھ لیا اسے اس کے بعد دنیا میں کسی خوشبو کی ضرورت نہیں رہتی۔

پسینہ مبارک کی خوشبو

رسول اکرم کے جسم اطہر سے تو خوشبو کے حلہ اٹھتے ہی تھے۔ساتھ ساتھ نبی اکرم کے پسینہ مبارک بھی خوشبودار تھا۔چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت فاروق اعظم سے روایت ہے:

  كان ریح عرق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ریح المسك بابى وامى لم ار قبله ولا بعده احدا مثله.26
  حضور نبی کریم کے مبارک پسینے کی خوشبو مشک سے بڑھ کر تھی۔میرےماں باپ ان پرقربان حضور نبی کریم جیسا نہ کوئی آپ سے پہلے میں نے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا۔

حضور نبی کریم کا مبارک پسینہ کائنات ارض وسماوات کی ہر خوشبو سے بڑھ کر خوشبو دار تھا۔ خوشبوؤں کے جھرمٹ میں یہ خوشبو اعلیٰ اور افضل ترین تھی،پسینے کی خوشبو لاجواب اور بے مثال تھی۔چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے:

  ولا شممت مسكة ولا عنبرة اطیب من رائحة رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.27
  میں نے رسول اﷲ سے زیادہ خوشبودار نہ کسی عنبر کو سونگھا نہ کسی مشک کو۔

تاجداد کائنات کے مبارک پسینے کا ذکرِ جمیل حضرت علی ان الفاظ میں فرماتے ہیں:

  كان عرق رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فى وجھه اللؤلؤ وریح عرق رسول للّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اطیب من ریح المسك الاذفر.28
  حضور نبی کریم کے چہرۂ انور پر پسینے کے قطرے خوبصورت موتیوں کی طرح دکھائی دیتے اور اس کی خوشبو عمدہ مشک سے بڑھ کر تھی۔

اس حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئےعلامہ خفاجیلکھتے ہیں:

  انه طیب العنصر لكنه لما اتصل بالملا الاعلىٰ والجنان وھبت علیه نفحات القدس از داد وكان له صلى اللّٰه علیه وسلم طیب لایشبه طیب الدنیافله طیب ذاتى وطیب مكتسب من العالم القدس لایفارقه وھو اطیب الطیب.29
  یہ مسلم ہے کہ آپ کا جسم اطہر خوشبو دار تھا لیکن معراج کے موقعہ پر جب آپ کا گزر ملاء اعلیٰ جنان سے ہوا اور تجلیات باری تعالیٰ کے انوار کی فضاؤں نے آپ کے جسمِ اطہر کومس کیا تو اب اس کی جھلک بھی دکھائی دیتی۔ حالانکہ پہلے بھی آپ کے جسم میں ایسی خوشبو تھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی خوشبو نہیں کرسکتی تھی ۔(گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ) آپ کے جسمِ اطہر میں دو طرح کی خوشبوئیں تھیں۔ ایک تو ذاتی (جو ولادت سے پہلے ہی موجود تھی)اور ایک کسبی جو عالم قدس و انوار کا مظہر تھی اور یہ خوشبو بھی پھر آ پ کے جسمِ اطہر کا حصہ بن گئی اور یہ خوشبو سب خوشبوؤں سے بڑھ کر تھی۔

یہ خوشبو مبارک دائمی تھی

رسول اللہ کی یہ خوشبو کوئی عارضی خوشبو نہیں تھی بلکہ دائمی تھی جو وصال کے بعد بھی اسی طرح ہے جس طرح وصال سے پہلے تھی۔چنانچہ اس حوالہ سے حضرت ملا علی قاریفرماتے ہیں:

  اعلم انه صلى اللّٰه علیه وسلم كان طیب الریح دائما.30
  جان لو! کہ آپ کی خوشبو ہمیشہ پاکیزہ تھی۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ آپ جن راستوں سے گزرجاتے وہ آپ کے جسمِ اطہر کی خوشبو سے مہک اٹھتے تھے۔ اس پر اس سے بڑھ کر اور کیا شہادت ہوسکتی ہے کہ آج چودہ سو سال گزرجانے کے باوجود مدینہ طیبہ کی سرزمین اور آب و ہوا اسی خوشبو سے معطر ہے ۔آج بھی مدینہ منورہ کے سبزہ زار اور درو دیوار سے ایسی دلآویز مہک اٹھتی محسوس ہوتی ہے جو امتی کے لیے باعث سکون و اطمینان ہے۔چنانچہ امام ابن بطال مالکیلکھتے ہیں:

  واقام بھا یجد من تربتھا وحیطانھا رائحة طیبة.31
  جس کو بھی مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوگی وہ اس شہر پاک کی مٹی اور در و دیوار سے ایک دلآویز خوشبو پائے گا۔

اسی طرح علامہ یاقوت حمویلکھتے ہیں:

  ومن خصائص المدینة انھا طیبة الریح وللعطر فیھا فضل رائحة لا توجد فى غیرھا.32
  مدینہ پاک کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی آب وہوا خوشبودار ہے اور وہاں کے عطر میں ایسی مہک ہوتی ہے جو اس کے علاوہ کہیں اور نہیں۔

کیونکہ اس کی آب وہو امیں خوشبوئے رسول ایسی رچ بس گئی ہے کہ ہر چیز پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔اسی طرح شیخ عبد الحق محدث دہلویلکھتے ہیں:

  بدانكه ھنوز از در و دیوار مدینه طیبه ارواح فالحیت كه محبان یشامه محبت آنرامى دریابند وشاید كه استشام شمه ازیں بشامه ذوق بعضى از جویاى مشتاق نیز رسیّده باشد.33
  اب بھی مدینہ کے درد دیوار خوشبوؤں سے رچے بسے ہوئے ہیں اور اہل محبت اپنے شامہ محبت کے ذریعے ان سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اسی حوالہ سے بات کرتے ہوئےامام الاشبیلیبیان کرتے ہیں:

  لتربة المدینة نفحة لیس طیبھا كما عھد من الطیب بل ھو عجیب من الاعاجیب.34
  مدینہ کی مٹی میں ایک خصوصی مہک ہے ۔ایسی نہیں جیسی کسی بھی خوشبو میں ہوتی ہے بلکہ یہ عجائبات میں سے ہے۔

رسول کریم کے مقدس ہاتھ میں خوشبو

حضور کے تمام جسم اطہر کی طرح ہاتھ مبارک ہمیشہ خوشبودار رہتے بلکہ جو شئے آپ کے ہاتھ مبارک کو مس کرتی اس سے بھی کافی دیر تک خوشبو آتی رہتی۔چنانچہ حضرت وائل بن حجر سے مروی ہے:

  لقد كنت اصافح النبى صلى اللّٰه علیه وسلم او یمس جلدى جلده فأتعرقه فى یدى بعد ثالثة أطیب ریحا من المسك.35
  میں حضور نبی کریم سے مصافحہ کرتا تھا یا آپ کی جلد میری جلد سے مس کرتی تھی ،میں ان کےپسینہ کواپنے ہاتھوں میں لےلیتاتھاتین رات بعد بھی اس سے مشک سےبھی عمدہ خوشبو آتی تھی۔

رسول اکرم کا لمس اور مہک

آپ کا جسمِ اطہر اس طرح خوشبودار تھا کہ اگر کسی بھی شخص کا جسم آپ کے ساتھ مس ہوجاتا تو اس میں بھی مہک پیدا ہوجاتی ۔مثلاً اگر کسی نے آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی تو اس کے ہاتھوں میں خوشبو ہی خوشبو ہوتی۔ اگر آپ نے کسی کے جسم پر دست شفقت پھیر دیا تو اس کے جسم سے خوشبو آتی رہتی ۔جس بچے کے سر پر آپ اپنا مبارک ہاتھ رکھ دیتے وہ اس کی برکت سے آنے والی خوشبو کی وجہ سے اس طرح دوسروں سے ممتاز ہوجاتاکہ ہر کوئی کہتا اس کے سر پر رسول اﷲ نے ہاتھ پھیرا ہے۔چنانچہ اس حوالہ سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں:

  وكان كفه كف عطار مسھا طیب او لم یمسھا به یصافحه المصافح فیظل یومھا یجد ریحھھا ویضع یده على راس الصبى فیعرف من بین الصبیان من ریحھا من رائحه.36
  آپ دنیوی خوشبو استعمال فرمائیں یا نہ فرمائیں آپ کے مبارک ہاتھ ہر وقت اس طرح خوشبو دار رہتے جس طرح کسی عطار(خوشبو بیچنےوالے) کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص آپ سے مصافحہ کی سعادت حاصل کرلیتا تو تمام دن اس کے ہاتھ سے خوشبو آتی رہتی۔ اسی طرح اگر آپ کسی بھی بچے کے سر پر اپنا دستِ شفقت رکھ دیتے تو وہ بچہ اس کی خوشبو سے تمام بچوں سے ممتاز ہوجاتا۔

اسی حوالہ سے امام بخاری روایت کرتے ہیں:

  قال: فاخذت بیده فوضعتھا على وجھى فاذا ھى ابرد من الثلج واطیب رائحة من المسك.37
  (راوی حضرت ابو جحیفہ ) بیان کرتے ہیں: میں نے بھی حضور کے دست اقدس مبارک کو پکڑ کر اپنے چہرے پر رکھا تو حضور کا مبارک ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔

رسول اکرم کی خوشبو اور صحابی

حضرت عتبہ بن فرقد صحابی رسولکے بارے میں ان کی اہلیہ ام عاصم سے مروی ہے کہ ہم عتبہ کی چار بیویاں تھیں اور سب ایک دوسرےسے بڑھ کر زیادہ اور اچھی خوشبو استعمال کرتیں۔ اس کے باوجود عتبہ کے جسم کی خوشبو ہماری خوشبو پر غالب رہتی تو ہمارے پوچھنے پر حضرت عتبہ نے یہ واقعہ سنایا:

  اخذنى شراء على عھد رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم فاتیته فشكوت ذلك الیه فامرنى ان اتجرد فتجردت وقعدت بین یده والقیت ثوبى على فرجى فنفث فى یده و مسح ظھرى وبطنى فعقب بى ھذا الطیب من یومئیذ.38
  میرے جسم پر رسالت مآب کی ظاہری حیات میں پھنسیاں نکل آئیں میں نے آپ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر ان کے بارے میں عرض کیا۔ آپ نے مجھے کپڑے اتارنے کا حکم دیا ،میں نے کپڑے اتارے اور ستر ڈھانپ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۔آپ نے اپنے دست مبارک پر دم فرماکر میری پشت اور پیٹ پر پھیرا ۔ اسی دن سے میرا جسم اس عمدہ خوشبو سے لبریز رہتا ہے۔

کسی شے یا مادی چیز میں خوشبو کا ہونا عقلاً، نقلاً اور مشاہدۃً ایک بدیہی امر ہے۔ مثلاً پھول، پتے، ٹہنیاں، پودے اور ہرن کے نافہ میں مشک وغیرہ ایسا معاملہ ہے جس کو ہر شخص سونگھ اور محسوس کرسکتا ہے۔ دنیا کی تمام خوشبوئیں مادی اشیاء سے ہی حاصل کی جاتی ہے خواہ ان کو براہ راست حاصل کیا جائے یا باالواسطہ، اس لیے دنیاوی طور پر کسی بھی چیز سے کشید کرکے اگر خوشبو حاصل کرلی جائے تو اس پر کسی قسم کی حیرت و اسعتجاب کا معاملہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے اپنے مقرب بندوں کو ظاہرا ًو باطناً اتنا نظیف، پاک اور طیب و طاہر بنایا ہے کہ ایک طرف ان سے ہر قسم کی کثافت و نجاست کو دور کیا دوسری طرف ان کے مقدس اجسام مبارک کو انتہائی خوشبودار بنایا۔

 


  • 1 محمد بن عبدالباقی زرقانی، زرقانی علی المواہب، ج-1، مطبوعۃ :دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1996ء، ص:215
  • 2 ایضاً، 1993ء، ص:387
  • 3 ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ،بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:142
  • 4 محمد بن عمر بن حسن فخر الدین الرازی، مفاتیح الغیب التفسیر الکبیر، ج -31، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی بیروت، لبنان، 1420ھ، ص:196
  • 5 عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث:66 ، ج-1 ، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 6 محمد بن اسماعیل بخاری، التاریخ الکبیر، حدیث، 1273 ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:399
  • 7 ابو عبداﷲ محمد بن عبد الواحد حنبلی المقدسی،الاحادیث المختارۃ، حدیث: 2560 ، ج -7 ، مطبوعۃ: مکتبۃ النھضۃ الحدیثۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 1410ھ ،ص :129-130
  • 8 عبداﷲ بن عدی بن عبداﷲ الجرجانی، الکامل فی ضعفاء الرجال ، حدیث: 1218، ج -5 ، مطبوعۃ: دار الفکر ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:48
  • 9 ایضًا: ص:210
  • 10 عبداﷲ بن عبد الرحمن دارمی، سنن الدارمی، حدیث: 65 ، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتاب العربی، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص:45
  • 11 احمد بن علی بن المثنی ابو یعلی الموصلی، مسند ابو یعلی، حدیث: 3125 ، ج -5 ، مطبوعۃ: دار المامون للتراث، دمشق، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:433
  • 12 ابن حجر عسقلانی شافعی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج -6 ، مطبوعۃ: دار المعرفۃ، بیروت، لبنان (لیس التاریخ موجودًا)، ص :573-574
  • 13 ابو محمد عبداﷲ بن محمد بن یعقوب حارثی، مسند ابی حنیفۃ للحارثی، حدیث: 44 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان، 2008ء، ص:29
  • 14 ابو محمد عبداﷲ بن محمد بن یعقوب حارثی، مسند ابی حنیفۃ للحارثی، حدیث: 871 ، ج -1، مطبوعۃ: المکتبۃ الامدادیۃ، مکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، 2010ء، ص :487-488
  • 15 ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی، شرح صحیح مسلم للنووی، ج -2 ، مطبوعۃ: قدیمی کتب خانہ کراتشی، باکستان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:256
  • 16 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:88
  • 17 احمد بن محمد بن عمر خفاجی ، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -2 ، مطبوعۃ : دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجوداً)، ص: 13
  • 18 الشیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ، ج -1 ، مطبوعہ: منشی لول کشور ،بھارت، (سن اشاعت ندارد)، ص:29
  • 19 ابراہیم بن محمد بیجوری، المواہب اللدنیۃ علی الشمائل المحمدیۃ، مطبوعۃ: مصطفی البابی، مصر، 1956ء، ص:109
  • 20 قاضی عیاض بن موسی مالکیٰ، الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ، ج -1، مطبوعۃ: دار الفیحاء، عمان، 1407ھ، ص:89
  • 21 علی بن سلطان القاری، شرح الشفا، ج -1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1421ھ، ص:169
  • 22 ایضًا
  • 23 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج -7 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص:219
  • 24 احمد بن حنبل الشیبانی ، مسند احمد، حدیث: 24905 ، ج -41 ، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001ء، ص:391
  • 25 محب الدین ابو عبداﷲ محمد بن محمود ابن النجار، الدرۃ الثمینۃ فی اخبار المدینۃ، مطبوعۃ: شرکۃ دار الارقم بن ابی الارقم، المکۃ المکرمۃ، السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:139
  • 26 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:85
  • 27 مسلم بن الحجاج قشیری، صحیح مسلم، حدیث: 2330، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض،السعودیۃ، 2000ء، ص:1027
  • 28 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:86
  • 29 احمد بن محمد بن عمر خفاجی، نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج -2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:12
  • 30 علی بن سلطان القاری، جمع الوسائل فی شرح الشمائل، ج-2 ، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع، کراتشی، باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:2
  • 31 علی بن خلف ابن بطال، شرح صحیح البخاری لابن بطال، ج-4 ، مطبوعۃ: مکتبۃ الرشد ،الریاض، السعودیۃ، 2003ء، ص :544-555
  • 32 شہاب الدین ابو عبداﷲ یاقوت الحموی، معجم البلدان ، ج -5 ، مطبوعۃ: دار صادر، بیروت، لبنان، 1995ء، ص:87
  • 33 الشیخ عبد الحق دہلوی، مدارج النبوۃ ، ج -1 ، مطبوعۃ: منشی لولکشور، بھارت، (سن اشاعت ندارد)، ص:24
  • 34 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد ، ج-3 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1993ء ، ص:290
  • 35 سلیمان بن احمد طبرانی،المعجم الکبیر، حدیث : 68 ، ج -22 ، مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:30
  • 36 محمد بن یوسف صالحی شامی، سبل الہدی والرشاد، ج-2 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993ء، ص:85
  • 37 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث:3553 ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع،الریاض،السعودیۃ، 2000ء، ص:597
  • 38 سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر ، حدیث : 98 ، ج-1 ،مطبوعۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ ،القاھرۃ، مصر ، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:77