Encyclopedia of Muhammad

حضورِ اکرم ﷺکی رنگت مبارک

حضور نبی کریم اللہ ربُّ العزّت کی تخلیق کا ایسا شاہکار تھیں کہ دیکھنے والا بے خود ہوجاتا تھا اورآپ ہر لحاظ سے کامل و اکمل تھے ۔اسی طرح آپ سے تعلق رکھنے والی چیزیں بھی ہر طرح سے ارفع واعلی تھیں جن میں سر فہرست آپ کا جسم اقدس تھا۔آپ کا جسم اقدس تناسب وتواز ن کا سب سے بڑھ کر نمونہ تھا جس کو دیکھ کر ہی نظریں خیرہ ہوجاتی تھیں اور اسی طرح آپ کے جسم اطہر کی رنگت بھی تھی جوسفید تھی لیکن دودھ اور چونے جیسی سفید نہیں بلکہ ملاحت آمیز سفید تھی جو سرخی مائل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ کے جسم اطہر کی رنگت کو چاندی اور گلاب کے حسین امتزاج سے نسبت دی ،کسی نے سفید مائل بہ سرخی کہا ہے اور کسی نے سفید گندم گوں بیان کیا ہے۔

نبی کریم کا رنگ انتہائی خوبصورت تھا

رسول اکرم کا رنگ مبارک انتہائی خوبصورت تھا۔اس کو بیان کرتے ہوئے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں:

  كان انورھم لونا. 1
  حضور رنگ روپ کے لحاظ سے تمام لوگوں سے زیادہ پُرنور تھے ۔

جس طرح سورج پر کسی کی نگاہ نہیں ٹکتی اسی طرح آپپر انتہادرجہ خوبصورت اور ہیبت نبوت کی وجہ سے نظر نہیں ٹکتی تھی۔2حضرت انس جسم اطہر کی رنگت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم احسن الناس لونا.3
  حضور رنگت کے اعتبار سے سب لوگوں سے زیادہ حسین تھے۔

اسی طرح آپ کا رنگ مبارک چمکدار تھا۔چنانچہ اس حوالہ سےحضرت انس سے مروی ہے:

  كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ازھر اللون.4
  حضور کا رنگ سفید چمکدار تھا۔

حضرت انس سے ایک اورر وایت میں یوں منقول ہے:

  ولا بالابیض الامھق ولیس بالادم.5
  آپ کا رنگ نہ تو بالکل سفید اور نہ ہی گندمی تھا۔

یعنی آپ کا رنگ مبارک متناسب انداز سے سفید تھا جس سے آپ حسین نظر آتے تھے اور دیکھنے والا آپ کو دیکھ کر مسرور ہوتا تھاکہ اس طرح کا رنگ حسن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ بیان کرتے ہیں:

  کان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم انور المتجرد.6
  آپ کا (جسم اطہر) سراپا روشنی اور حُسن کا پیکر تھا۔

حضرت الجریری فرماتے ہیں کہ میں صحابی رسول حضرت ابو طفیل کے ساتھ طواف کررہا تھا تو آپ نے طواف سے فارغ ہوکر اعلان فرمایا لوگو آؤ مجھ سے اپنے آقا کے بارے میں جو پوچھنا ہے توپوچھ لو کیونکہ آج روئے زمین پر میرے سوا دیدار مصطفی سے مشرف ہونے والا کوئی نہیں رہا۔یعنی اب میرا بھی وصال ہوجائے گا اس لیے آپ کے حلیہ کے بارے میں مجھ سے پوچھو۔ تولو گوں نے آپ سےآقاکے حسن وجمال کے بارے میں پوچھا کہ آپ کا حسن وجمال کیسا تھا؟

تو انہوں نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا:

  كان ابیض ملیحا مقصدا.7
  آپ کا رنگ سفید، روشن اور من ٹھار تھا۔

آپ کی رنگت مبارک سفیدی اورسرخی کا مرقّع

اہل علم نے رنگت میں حسن کے دو معیار بیان کئے ہیں:

  1. دنیوی معیار
  2. اخروی معیار

حُسنِ رنگت کادنیوی معیار

اس معیا ر کے مطابق حسین ترین رنگت وہ ہے جس میں چاندنی کی چمک اور سرخی کی دمک ہو ۔گویا سرخی و سفیدی کا امتزاج دنیوی نقطہ نظر سے حسین ترین رنگ تسلیم کیا گیا ہے۔

حُسنِ رنگت کااُخروی معیار

عالم آخرت میں اہل جنت کے نزدیک حسین ترین رنگ وہ رنگ ہے جس میں سفیدی کے ساتھ زردی جھلکتی ہو۔

دنیوی اور اخروی نقطہ نظر کے اعتبار سے حسن رنگت کے معیارات جدا جدا ہیں جو تطبیق نہیں رکھتے۔ اس عقدے کا حل صحابہ کرام کے درج ذیل بیانات سے مل جاتا ہے جن کے مطابق حسن رنگت کے دونوں مظاہر حسن مصطفوی میں بدرجہ اتم موجودتھے۔چنانچہ حضرت علی فرماتے ہیں:

  كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ابیض مشربا بحمرة.8
  حضور کا رنگ سفیدی اور سرخی کا حسین امتزاج تھا۔

ابو امامہ باہلی فرماتے ہیں:

  كان ابیض تعلوہ حمرة.9
  حضور کا رنگ سفیدی اور سرخی کا حسین مرقع تھا۔

حضرت انس کی ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے :

  كان لون رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم اسمر.10
  نبی کریم کی رنگت (کی سفیدی) گندم گوں تھی۔

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:

  ابیض كانما صیغ من فضة.11
  آپ سفید رنگت والے تھے گویا آپ کا جسم مبارک چاندی سے ڈھالا گیا ہو۔

اسی حوالہ سے حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:

آپ کی بارگاہ میں سیاہ رنگ کی چادر پیش کی گئی توآپ نے اسے زیب تن کیا اور مجھے مخاطب ہوکر فرمایا:عائشہ بتا ؤکیسی لگتی ہے؟میں نے عرض کیا:

  ما احسنھا علیک یا رسول اللّٰه یشوب سوادھا بیاضک وبیاضک سوادھا.12
  بہت ہی خوب آپ کے حسن کی سفیدی نے اس کی سیاہی کو اور آپ کی سفیدی کو اس کی سیاہی نے دو بالا کردیا ہے۔

اسی طرح رسول اکرم کی رنگت کو بیان کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

  اما لون آنحضرت روشن وتاباں بود واتفاق دارند جمهور اصحاب بربیاض لون آں صلي اللّٰه عليه وسلم، ووصف كردند او رابابیض وبعضے گفتند كان ابیض ملیحا و در روایتے ابیض ملیح الوجه وایں احتمال دارد كه مراد وصف كه بیاض وملاحت و صفت زائدہ برائے بیان حسن وجمال ولذت بخشی و دلربانی دیدار جان افزاى وے صلي اللّٰه عليه وسلم باشد.13
  حضور کا مبارک رنگ خوب روشن اور چمکدار تھا۔ صحابہ کرام اس پر متفق ہیں کہ حضور رحمتِ عالم کا رنگ سفید تھا۔ اسی چیز کو احادیث نبوی میں لفظ ’’ابیض‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض روایات میں "کان ابیض ملیحا"اور بعض روایات میں "ابیض ملیح الوجہ" جیسے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ ان سے مراد بھی حضور کے رنگ کی سفیدی بیان کرنا مقصود ہے۔باقی ملاحت کا ذکر بطور صفتِ زائدہ ہے اور اس کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے تاکہ حضور کی زیارت سے جو لذت اور تسکینِ روح و جاں حاصل ہوتی ہے یہ ذکراس پر دلالت کرے۔

احادیثِ متعارضہ میں مطابقت

آپ کی رنگت کی متعلق مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے اور مختلف روایات مین تطبیق دیتے ہوئےامام ابو نعیم اصفہانی لکھتے ہیں:

  وكان لونه صلي اللّٰه عليه وسلم لیس بالابیض الامھق والامھق الشدید البیاض الذى لا تضرب بیاضه الى الشھبة ولم یكن بالادم وكان ازھر اللون والازھر ھو الابیض الناصع البیاض الذى لا یشوبه صفرة ولا حمرة ولا شئى من الالوان وقد نعت بعض نعته بذلك ولكن انما كان المشرب حمرة ما ضحى منه للشمس والریاح وما كان تحت الثیاب فھو الابیض الازھر لا یشك فیه احد ممن وصفه بانه ابیض ازھر فمن وصفه بانه ابیض ازھر فعنى ما تحت الثیاب فقد اصاب ومن وصف ما ضحى منه للشمس والریاح بانه ابیض مشرب بحمرة فقد اصاب ولونه الذى لا یشك فیه البیاض الازھر وانما الحمرة من قبل الشمس والریاح.14
  ام المومنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں آپ کا رنگ خالص سفید (جس میں کسی دوسرے رنگ کی آمیزش نہ ہو) نہ تھااور آپ گندمی رنگ کے بھی نہ تھے (بلکہ آپ کے چہرے کا رنگ سرخ و سفید تھا)اور یہ بھی مروی ہے کہ آپ کا رنگ چمکدار تھا جس میں زردی سرخی یا کسی دوسرے رنگ کا امتزاج نہ تھا اور آپ کی تعریف کرنے والوں میں سے بعض کا خیال بھی یہی ہے۔اس لئے دونوں قولوں کے درمیان یوں محاکمہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ظاہری اعضا دھوپ اور آب وہوا سے متاثر ہوکر سرخی مائل سفید تھے مگر کپڑوں کے نیچے والے جسم کا رنگ چمکدار سفید تھا۔ (جس میں سرخی کی آمیزش نہ تھی) لہٰذا جس نے آپ کا رنگ چمکدار سفید قرار دیا ہے وہ بھی درست ہے کیونکہ اس سے مراد کپڑوں کے نیچے کا حصہ ہے جبکہ سرخی مائل سفید قرار دینے والا بھی درست کہتا ہے اس لئے کہ دھوپ اور ہوا کے اثر سے ظاہری اعضاء میں سرخی کی آمیزش ہوگئی تھی لہٰذا آپ کا اصل رنگ چمکدار سفیدی ٹھہرا جبکہ سرخی کا امتزاج آب وہوا کے باعث قرار پایا۔

اسی طرح امام عبد الرؤف مناوی ان تمام روایات کو بیان فرمانے کے بعد رقمطراز ہیں:

  فثبت بمجموع ھذه الروایات ان المراد بالسمرة حمرة تخالط البیاض، وبالبیاض المثبت ما یخالط الحمرة، واما وصف لونه فی اخبار بشدة البیاض فمحمول علی البریق واللمعان كما یشیر الیه حدیث كان الشمس تحرك فی وجھه.15
  ان تمام روایات سے ثابت ہوا کہ جن میں لفظ سمرہ کا ذکر ہے وہاں اس سے مراد وہ سرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو اور جن میں سفیدی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ سفید رنگ ہے جس میں سرخی ہو اور بعض روایات میں جو حضور کے مبارک رنگ کو بہت زیادہ سفید بیان کیا گیا ہے اس سے مراد اس کی چمک دمک ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ حضور کے چہرہ انور میں آفتاب محو خرام رہتا تھا۔

گو آپ کے جسم اطہر کی رنگت احمر وازہر دو الوان کے حسین امتزاج سے مرکب تھی۔ رب العالمین نے اپنے محبوب کے حسن دلنواز کو وہ منفرد اعزاز وامتیاز عطا کیا تھا کہ دنیوی واخروی معیارات حسن کے تمام جلوے آپ کی ذات میں مجتمع کردئیے گئے تھے۔ان روایات کو تطبیق دیتے ہوئے ملا علی قاری "جمع الوسائل"میں امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں:

  قال العسقلانی تبین من مجموع الروایات ان المراد بالبیاض المنفى ما لا یخالطه الحمرة والمراد بالسمرةالحمرة التى یخالطھا البیاض.16
  امام عسقلانی نے فرمایا ان تمام روایات سے واضح ہوتا ہے کہ صرف سفیدی سے مراد وہ سفید رنگت ہے جس میں سرخی کی آمیزش نہ ہو اور سمرہ سے مراد وہ سرخ رنگ ہے جس کے ساتھ سفیدی کی آمیزش ہو۔

ان مذکورہ بالا روایا ت کا لب لباب یہ ہے کہ حضور رب تعالیٰ کے حسن و جمال کا کرشمہ تھے۔ اللہ تعالیٰ جو کہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہےاسی لیے اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب نبی حضوراکرم کے لیے جس قدر باطنی حسن و جمال کو پسند کرکے آپ کو خاتم النبین کے منصب پر جلوہ افروز فرمایا اسی طرح آپ کو خاتم الجمال و کمال بناکر دنیا کے تمام حسینوں سے بڑھ کر خوبصورتی اور رعنائی عطا فرمائی تھی خواہ وہ آپ کے دورکے حسین ہو یا قیامت تک آنے والے حسن و جمال کے دعویدار ہوں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر انسان کچھ نہ کچھ خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیوں کا مجموعہ بھی ہوتا ہے۔ اگر کہیں حسن و جمال پایا بھی جائے تو عموماً اس کے ساتھ شقاوت، جہالت، غرور، تکبر، شیخی یا دوسرا کوئی ایسا منفی وصف انسان کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے کہ اس کا حسن و جمال گہنا ہو کر رہ جاتاہے لیکن آقائے کریموہ ماہتاب حسن و جمال ہیں کہ آپ کا حسن و جمال اخلاق و کردار اور خِلقی و خُلقی اوصاف کے ساتھ ویسے ہی جگمگا رہا ہے جس طرح ہیرا (Diamond) ہر رخ اور ہر سمت سے جگمگا رہاہویعنی ہر عیب ، نقص، کمی و کجی سے مبّرا اور زمانہ میں یکتا ومنفرد تھے۔

 


  • 1 ابوبکر احمد بن حسین البیہقی، دلائل النبوۃ ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 300
  • 2 مفتی ارشاد احمد قاسمی، شمائل کبریٰ، ج-5،مطبوعۃ: دار الاشاعت،کراچی،پاکستان، 2003ء، ص:70
  • 3 علی بن حسن ابن عساکر، السیرۃ النبویۃ، ج -1، مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:321
  • 4 مسلم بن الحجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2330، مطبوعۃ: دار السلام للنشروالتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1421ﻫ، ص:1027
  • 5 محمد بن اسماعیل بخاری، صحیح البخاری، حدیث : 3355 ، ج -3، مطبوعۃ : دار القلم، بیروت، لبنان، 1981ء، ص :1303
  • 6 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:7، مطبوعۃ :دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان ، 1988ء، ص:11-13
  • 7 احمدبن حنبل ابو عبداللّٰه الشیبانی، مسند احمد، حدیث:23979، ج-39، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001ء، ص:215
  • 8 احمد بن حنبل شیبانی، مسند احمد، حدیث:944، ج-1، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص :116
  • 9 ابوبکر بن ہارون رویانی، مسند الرویانی، حدیث :1280، ج -2، مطبوعۃ: مؤسسۃ قرطبۃ، قاہرۃ، مصر، 1416ھ، ص:318
  • 10 محمد بن حبان، صحیح ابن حبان، حدیث :2683، ج -14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1993ء، ص:197
  • 11 محمد بن عیسیٰ ترمذی، الشمائل المحمدیۃ، حدیث:11، مطبوعۃ : دار الحدیث للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1988، ص:14-15
  • 12 محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد، ج -2 ، مطبوعۃ: لجنۃ احیاء التراث الاسلامی ،القاھرۃ، مصر، 1997ء، ص:11
  • 13 الشیخ عبد الحق الدہلوی، مدارج النبوۃ، ج -1 ،مطبوعۃ: منشی لولکشور، بھارت، (سن اشاعت ندارد)،ص:26
  • 14 ابو نعیم احمد بن عبداللّٰه الاصفہانی، دلائل النبوۃ، ج-2، مطبوعۃ :دار النفائس، بیروت ،لبنان، 1986ء، ص:637
  • 15 عبد الرؤف بن تاج العارفین مناوی، حاشیہ برجمع الوسائل للمناوی، ج -1، مطبوعہ: نور محمد اصح المطابع ، کراتشی، باکستان، (لیس التارخ موجودًا) ، ص:13
  • 16 ایضاً