ربّ تعالیٰ نے نفوس کو مختلف درجات پر پیدا فرمایا ہے ۔بعض حسن وجمال کی انتہاء پر ،بعض متوسط اور بعض نچلے درجہ میں ہیں۔ پھر ہر مرتبہ کے کئی درجات ہیں جن میں انبیاء کرام حسن وجمال کے بلند ترین درجہ پر ہوتے ہیں،ان کے اجسام مطہ رات پر کوئی عیب نہیں ہوتااور ان کے اجسامِ مبارک حسن کا مرقع ہوتے ہیں۔ پھر حسن وجمال میں ان کے مابین بھی مختلف درجات ہیں جو کہ بدیہی ہیں۔حضور اکرم سیّد الانبیاء مزاج کے اعتبار سے سارے انبیاء سے عمدہ، جسم کے اعتبار سے اکمل اور روح کے اعتبار سے سب سے زیادہ پاکیزہ تھے۔
حضور نبی کریم کا جسم اقدس نہ تو مائل بہ فربہی تھا اور نہ ہی نحیف وناتواں بلکہ آپ کے جسمِ اقدس کی ساخت سرتاپا حُسنِ اعتدال کا مرقع تھی۔ آپ کے جملہ اعضائے مبارکہ میں ایسا حسین تناسب پایا جاتا تھا کہ دیکھنے والا یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ فلاں عضو دوسرے کے مقابلے میں فربہ یا نحیف ہے۔ آپ کے جسمِ اطہر کی ساخت اتنی متناسب اور کمال موزونیت کا مرقع تھی جس پر فربہی یا کمزوری کا حکم نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ فربہی اور دُبلاپن کی دونوں کیفیتیں شخصی وجاہت اور جسمانی حسن ووقار کے منافی سمجھی جاتی ہیں چنانچہ رب العزت کو یہ بات کیونکر گوارا ہوسکتی تھی کہ کوئی اس کے کارخانہ قدرت کے شاہکار کی طرف کسی خلاف حسن ووقار امر کی نسبت کرسکے ۔
اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ کی ذات گرامی کو پوری دنیا کی راہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔آپ کے اس منصب جلیلہ کا تقاضہ یہی تھا کہ آپ کی زندگی ہر لحاظ سے ایک کامل نمونہ ہوتی۔چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحتِ فکر سے لے کر صحتِ ذہن وبدن تک حضور نبی کریم کی تمام زندگی ایک ایسا خوبصورت مرقع تھی جس کی مثال نہ تو آج تک کسی آنکھ نے دیکھی اور نہ ہی دیکھ سکے گی۔
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّآ اَعْطَيْنٰك الْكوْثَرَ11
بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔
کوثر سے مراد حوضِ کوثر یا نہرِ جنت بھی ہے۔ قرآن اور نبوت و حکمت بھی، فضائل و معجزات کی کثرت یا اصحاب و اتباع اور امت کی کثرت بھی مراد لی گئی ہے۔ رفعتِ ذکر اور خلقِ عظیم بھی مراد ہے اور دنیا و آخرت کی نعمتیں بھی، نصرتِ الہٰیہ اور کثرتِ فتوحات بھی مراد ہیں اور روزِ قیامت مقامِ محمود اور شفاعتِ عظمیٰ بھی مراد لی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو فضائلِ کثیرہ عنایت کرکے تمام خلق پر افضل کیا۔ حُسنِ ظاہر بھی دیا۔ حُسنِ باطن بھی، نسبِ عالی بھی تاجِ ختم نبوت بھی، کتاب بھی، حکمت بھی، علم بھی، شفاعت بھی، حوضِ کوثر بھی، مقام ِمحمود بھی، کثرتِ امت بھی، اعداء دین پر غلبہ بھی، کثرتِ فتوحات بھی اور بے شمار، نعمتیں اور فضیلتیں جن کا شمار ممکن نہیں۔
خدائے عزوجل نے بالیقین اپنے محبوب کو بے مثل اور تمام عیوب ونقائص سے مبرّا بنایا تھا۔چنانچہ حضرت ہند بن ابی ہالہ سے روایت ہے:
كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم اطول من المربوع واقصر من المشذب ...معتدل الخلق بادن متماسك .2
حضور نبی کریم ۔۔۔کی قامت طویل قامت سے چھوٹی اور کوتاہ قامت سے بڑی تھی ۔۔۔آپ کی تخلیق اعتدال پر ہوئی تھی ،جسم گھٹاہواتھا۔
"معتدل الخلق " کا معنی ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
ان جمیع اعضاء وجسمه الشریفة خلق للّٰه تعالى كاملة متناسبة مع بعضھا غیر متنافرة.3
اﷲ تعالیٰ نے آپ کے تمام اعضائے شریفہ کو اس طرح کامل و متناسب پیدا فرمایا کہ ان میں نہایت موزونیت ووقار تھا۔
آپ کا سراپا کمال درجہ حسین ومتناسب اور دل کشی ورعنائی کا حامل تھا آپ کے اعضائے مبارکہ اس قدر مثالی مناسبت کے آئینہ دار تھے کہ انہیں دیکھ کر ایک حُسن ِمجسم پیکرِ انسانی میں ڈھلتا دکھائی دیتا تھا ۔صحابہ کرام آپ کے حسین سراپا کی مدح میں ہر وقت رطب اللسان رہتے تھے، ان کی بیان کردہ روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ حُسنِ ساخت کے اعتبار سے آپ کے جسد اطہر کی خوبصورتی اور رعنائی وزیبائی اپنی مثال آپ تھی۔
کسی بھی شخصیت کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس کی شکل و صورت اور وجاہت بڑا گہرا کردار ادا کرتی ہے۔ انسان کے بدن کی ساخت اور اس کے اعضاء کا تناسب اس کے ذہنی، اخلاقی اور معاشرتی مرتبے کا آئینہ دار اور ترجمان ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عبداﷲ بن سلام نے رسول اﷲ کے رُخ انور کو دیکھتے ہی کہہ دیا تھا:
ان وجھه لیس بوجه كذاب.4
بلاشبہ ان کاچہرہ کسی جھوٹے آدمی کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔
جو لوگ صاحب بصیرت اور صاحبِ قلبِ سلیم تھے انہیں نبی کریم کا روئے تاباں دیکھ کر یقین ہوجاتا تھا کہ حضور اﷲ تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور اسی کی طرف سے یہ دینِ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے۔ اس حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے رُخِ انور دیکھنے کے بعد نہ دلیل طلب کی اور نہ ہی کسی معجزہ کا مطالبہ کیا۔بہت سے ایسے واقعات بھی ہوئے کہ جب لوگوں نے حضور نبی کریم کا رُخِ انور دیکھا تو بغیر کوئی دلیل طلب کئے اور بغیر کسی معجزے کی فرمائش کئے، ان کے دل میں یقین پیدا ہوگیا کہ آپ اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں اور جو دین لے کر آپ آئے ہیں وہ اﷲ کا سچا دین ہے۔
حضرت ابورمثہ تیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ حاضر ہوا۔ رسول اﷲ کے شگفتہ رو کو دیکھتے ہی سمجھ گیا اور اپنے بیٹے سے کہنے لگا:
ھذا وللّٰه رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم.5
اﷲ کی قسم! یہ واقعی اﷲ کے رسول ہیں۔
آپ کے حُسن وجمال کی جھلک دیکھنے والوں نے آپ کے خنداں رُخِ انور، حَسین وجمیل قدوقامت، بے مثل خدوخال، بے نظیر چال ڈھال، باوقارو پُرکشش و جاہت اور شخصیت کا جو عکس الفاظ کے پیرایہ میں ہم تک پہنچا ہے، وہ ایک ایسے انسان کامل کا تصور دلاتا ہے جو ذہانت فطانت، صبر واستقامت، شجاعت وسخاوت، امانت ودیانت، فصاحت وبلاغت، جمال ووقار، انکسار وتواضع، اور عالی ظرفی وفرض شناسی جیسے اوصاف حمیدہ سے متصف تھا۔
نبی کریم کا جسدِ مبارک ساری مخلوق سے بے مثل تھا ساری خدائی میں سے کسی کا جسم آپ کے جسم پاک جیسا نہیں، بلکہ سارے ولیوں، قطبوں، غوثوں کی روحانی لطافتوں سے حضور کا جسمِ پاک لطیف تر ہے۔
مسلمان کے لیے مدارِ ایمان، اساسِ دین، اور بنیادِ اسلام حضور نبی کریم کی ذات و صفات سے پختہ محبت ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں حضور نبی کریم نے فرمایا:
لایومن احدكم حتى اكون احب الیه من والده وولده والناس اجمعین.6
تم میں سے کوئی اس وقت تک(کامل) مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
اور حضور کی محبت اور آپ کے عشق میں وارفتگی یہ تب پیداہوگی جب نبی کریم کے خداداد کمالات، معجزات، محامد ومحاسن اور عظمتوں پر محکم اور غیر متزلزل ایمان ہو۔ آپ کو آپ کی ذات وصفات میں بے مثل، بے مثال، یکتا، منفرد اور شان اعجازی وانفرادی سے متصف سمجھا جائے اور اگر العیاذ باﷲ آپ کی مثلیت اور برابری کا تصور ذہن میں آگیا تو نہ ہی عظمت مصطفےٰ کا عقیدہ دلوں میں محکم ہوگا اور نہ ہی آپ کی محبت اور اس کی نتیجہ میں ایمان دلوں میں برقرار رہے گا اس لیے حضور نبی کریم نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام کے سامنے اپنی شان یکتائی، انفرادیت اور بے مثلیت کو بیان فرمایا۔بے مثلیت کا یہ تصور قرآن نے دیا ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَینَكمْ كدُعَاۗءِ بَعْضِكمْ بَعْضًا63 7
(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو ۔
جب ہماری دعائیں بھی حضور اقدس کی دعا کے ساتھ برابری اور مثلیت نہیں رکھتیں تو ہماری ذات العیاذ باﷲ حضور کی مثل کس طرح ہوسکتی ہے۔
ایک اور مقام پر اﷲ ربُّ العزّت نے ارشاد فرمایا:
يٰنِسَاۗءَ النَّبِى لَسْتُنَّ كاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ 328
اے میرے نبی کی بیویوں! تم عام عورتوں کی مثل نہیں ہو۔
معلوم ہوا کہ جب حضور کے ساتھ نسبت و تعلق اور شرف زوجیت کی وجہ سے ازواج مطہرات بے مثل وبے مثال ہوگئیں تو محبوب کریم کی اپنی ذات بے مثل وبے مثال کیونکر نہ ہوگی۔
حضرت ابوذر غفاری بیان کرتے ہیں کہ:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انى ارى مالا ترون واسمع ما لاتسمعون اطت السماء وحق لھا ان تئط ما فیھا موضع اربع اصابع الا وملك واضع جبھته ساجدا للّٰه واللّٰه لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قلیلا و لبكیتم كثیرا.9
حضور نبی کریم نے فرمایا بے شک میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے۔(دلیل یہ ہے) کہ آسمانوں سے چرچرانے کی آواز آئی ہے اور حق بھی یہ ہے کہ وہ چر چرائے کیونکہ اس میں ایک چار انگل کے برابر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی فرشتہ اﷲ رب العزت کے حضور سجدہ ریز نہ ہو۔ خدا عزوجل کی قسم! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو ضرور کم ہنسو اور زیادہ روگے۔
اس حدیث میں حضور نے اپنی تین شانوں کی یکتائیت اور بے مثلیت کو بیان فرمایا ہے چنانچہ شانِ بصارت جس کو ان الفاظ سے بیان فرمایا:انی اری مالا ترونکہ بے شک میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔شانِ سماعت جس کو ان الفاظ سے بیان فرمایا: واسمع مالا تسمعونکہ واسمع مالا تسمعونکہ اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے اور اسی طرح شان علم و معرفت جس کو ان الفاظ سے بیان فرمایا:واللّٰه لو تعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا ولبکیتم کثیراکہ خدا کی قسم! اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ۔
اگر حضور بھی عام انسانوں کی طرح فقط قریب کی اور محسوس اشیاء کو دیکھتے یا فقط قریب کی آواز کو سماعت فرماتے یا حضور کا علم و معرفت فقط علم شہادت تک محدود ہوتا تو حضور کی اس حدیث کے مطابق صفت سماعت وبصارت اور صفت علم ومعرفت میں یکتائیت، بے مثلیت اور انفرادیت کیا ہوتی؟ اور بے مثلیت تب ثابت ہوگی جب یہ عقیدہ رکھا جائے کہ عام لوگ تو فقط قریب کی اور محسوس چیز کو دیکھتے ہیں لیکن آپ باذن اﷲ جس طرح قریب کی چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں اس طرح باذن اﷲ دور کی چیز کا بھی مشاہدہ فرماتے ہیں۔ عام لوگ فقط قریب کی آواز کو سن پاتے ہیں لیکن حضور باذن اﷲ تعالیٰ جس طرح قریب کی آواز کو بآسانی سماعت فرماتے ہیں اسی طرح دور کی آواز کو بآسانی سماعت فرماتے ہیں چنانچہ حضور نے اپنے اس دعوی"اسمع ما لا تسمعون" پر دلیل ارشاد فرمائی۔ اگرچہ حضور کا ہر فرمان، واجب الاذعان، واجب القبول اور واجب التصدیق ہے خواہ حضور اپنے اس دعویٰ پر دلیل ارشاد فرمائیں یا نہ فرمائیں حضور کا فرمان سچا ہے لیکن ممکن تھا کہ کوئی آپ کے ان کمالات کو عدم یا نقص ایمان کی وجہ سے قبول کرنے میں پس و پیش کرتا تواس لیے حضور نے اپنے دعویٰ پر بطور دلیل فرمایا:
اطت السماء وحق لھا ان تئط.10
آسمانوں سے چر چرانے کی آواز آئی ہے اور حق بھی یہ ہے کہ وہ چر چرائے ۔
صحابہ کرام میں سے کسی نے اس آواز کو نہیں سنا لیکن پھر بھی اسی طرح قبول فرمایا جس طرح وہ بارگاہِ رسالت مآب میں حاضر رہ کر اکثر و بیشتر آسمانوں سے اترنے والی وحی کی آواز کو اپنی سماعتوں سے سنے بغیر قبول کرلیا کرتے تھے۔
ایک پیغمبرِ خدا جس طرح ہمہ وقت اپنے رب سے متصل رہتا ہے بالکل ایسے ہی حضورﷺہمہ وقت فرش پر رہ کر آسمانوں کے احوال پر مطلع رہتے۔11حضورنے فرش )زمین( پر تشریف فرماہوکر تمام آسمانوں کے چر چرانے کی آواز کو سماعت فرمالیا۔ حالانکہ زمین سے آسمان تک ہزاروں(Light Year) سال کی مسافت ہے تو جو محبوب زمین پر تشریف فرما ہوکر ہزاروں سال دور کی آواز کو سماعت فرماتے ہیں وہ چند ہزار میل دور مدینہ طیبہ میں تشریف فرماہوکر اپنے امتی کا صلوٰۃ وسلام بھی سماعت کرسکتے ہیں۔مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں:
حضور نہ شرعاً ہماری مثل ہیں اور نہ عقلاً ،شرعاً تو اس لیے نہیں کہ ایمان اور اعمال اور احکام اور معاملات کسی میں بھی ہم کو ان سے مماثلت اور مشابہت نہیں۔ حضور کا کلمہ ہے اشہد انی رسول اﷲ یعنی میں اﷲ کا رسول ہوں اگر ہم یہ کہیں تو کافر ہوجائیں یہ تو کلمہ میں فرق ہوا۔
نمازیں ہم پر پانچ اور حضور پر چھ فرض ہیں، تہجد بھی حضور پر فرض (قرآن) ہمارے لیے ارکانِ اسلام پانچ، حضور کے لیےصرف چار (زکوۃٰ فرض نہیں) ۔ ہم کو چار نکاح حلال آپ کو جس قدر چاہیں۔ ہماری بیوی موت کے بعد جس سے چاہے نکاح کرے، حضور کی بیویاں کسی سے نکاح نہ کرسکیں، ہماری میراث تقسیم ہو، حضور کی میراث تقسیم نہیں ہوتی ۔۔۔
خود فرماتے ہیں صوم وصال کے موقعہ پر تم میں مجھ جیسا کون ہے، مجھے تو رب کھلاتا پلاتا ہے 12بیٹھ کر نفل پڑھنے کے لیے فرماتے ہیں لیکن ہم تم جیسے نہیں13 غرضیکہ ان تمام امور سے معلوم ہوا کہ شرعاً حضور ہم جیسے نہیں۔ اسی طرح عقلاً بھی حضور ہم جیسے نہیں، کیونکہ آپ کا ایمان دیکھا ہوا تھا، خدا کو دیکھا، جنت ودوزخ کو دیکھا ، فرشتوں کو دیکھا اور آپ کو معراج ہوئی۔ مولوی عبد الحئی صاحب نے اپنے فتاویٰ عبد الحئی میں ایک حدیث نقل کی فرماتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ جب ہم اپنی والدہ ماجدہ کے شکم پاک میں تھے تب قلم الہٰی چلنے کی آواز سنا کرتے تھے کہئے کون ایسا ہوسکتا ہے؟ حضور عارف باﷲ پیدا ہوئے، ہم لوگ پیدا ہوکر علم سیکھ کر بھی اس درجہ پر نہیں پہنچتے۔ پھر مماثلت اور مشابہت کیسی؟
اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو صورت وسیرت، حسن وجمال، فضل وکمال ہر اعتبار سے بے مثل وبے مثال بنایا ہے ۔
امام مسلمروایت کرتے ہیں:
عن عبداللّٰه بن عمر رضى اللّٰه عنه قال: حدثت ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم قال: صلوة الرجل قاعداً نصف الصلوة. قال: فاتیته فوجدته یصلى جالسا فوضعت یدى على راسه. فقال: مالك یا عبداللّٰه بن عمر؟ وقلت: حدثت یارسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم انك قلت: صلوة الرجل قاعداً على نصف الصلوة. وانت تصلى قاعداً. قال: اجل ولكنى لست كاحد منكم.14
حضرت عبداﷲ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث سنی تھی کہ رسول اﷲ نے فرمایا ہے بیٹھ کر نماز پڑھنے کا آدھا اجر ہوتا ہے ایک دن میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا میں نے اپنا ہاتھ آپکے سر اقدس پر رکھا آپ نے فرمایا: اے عبداﷲ بن عمر کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ! مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ: بیٹھ کر نماز پڑھنے کا آدھا اجر ہوتا ہے، حالانکہ آپ خود بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں لیکن میں تم سے کسی ایک کی مثل بھی نہیں ہوں۔
امام بخاریروایت کرتے ہیں:
عن عائشة قالت: كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم امرھم من الاعمال بما یطیقون. قالوا: انا لسنا كھیئتك یا رسول اللّٰه صلى اللّٰه علیه وسلم ...الخ.15
حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲان اعمال کا حکم ارشاد فرماتے جن کا ادا کرنا لوگوں کی طاقت یا بس میں ہوا کرتا ۔صحابہ نے عرض کیا : یارسول اﷲہم آپ کی طرح نہیں ہیں۔۔۔ الخ۔
امام بخاریروایت کرتے ہیں:
عن انس عن النبى صلى اللّٰه علیه وسلم قال :لاتواصلو. قالوا: انك تواصل. قال: لست كاحد منكم. قال: انى اطعم واسقى او انى ابیت اطعم واسقى.16
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا وصلی روزے نہ رکھو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا حضور آپ وصلی روزہ رکھتے ہیں آپ نے فرمایا میں تم سے کسی ایک کی مثل بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا میں کھلایا جاتا ہوں اور پلایا جاتا ہوں یا فرمایا بے شک میں رات گزارتا ہوں کھلایا جاتا ہوں اور پلایا جاتا ہوں۔
اسی روایت کی مثل حضرت عبداﷲ بن عمر کی روایت میں ہے:
قال انى لست مثلكم.17
فرمایا بے شک میں تمہاری مثل نہیں ہوں۔
اسی طرح ابوسعیدخدری کی روایت میں ہے۔
انى لست كھئیتكم.18
فرمایا بے شک میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔
اسی طرح یہ الفاظ اُم المومنین عائشہ صدیقہ سے بھی مروی ہے۔19
نیز اسی طرح حضرت ابوہریرہ کی روایت میں ہے:
قال وایكم مثلى.20
آپ نے فرمایا تم میں سے کون میری مثل ہے؟
شمائل شریفہ کے ہر باب سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کائنات میں آپ کا کوئی نظیر ومثیل نہیں، سراپائے اقدس سے ہر مبارک حصہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ انسان کامل اور افضل البشر ہیں آپکی ذات مقدسہ سے انسانیت کو عروج وکمال نصیب ہوا ہے۔
حسن بے مثال کا یہ عالم تھا کہ زبانِ صحابہ کو عالم حیرت میں یہ کہنا پڑا:
لم ارقبله ولا بعده مثله.21
ایسا حسین و جمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعد۔
امام الضحاک الشیبانی روایت کرتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: قال لى جبریل علیه السلام: قلبت الأرض مشارقھا ومغاربھا فلم أجد رجلا أفضل من محمد علیه الصلاة والسلام، وقلبت الأرض مشارقھا ومغاربھا فلم أجد بنى أب أفضل من بنى ھاشم.22
حضور نبی کریم نے فرمایا مجھے جبریل نے خبردی کہ میں نے مشرق و مغرب کے کونے کونے چھان مارے ہیں مگر میں نے کسی انسان کو حضرت محمد رسول اﷲ سے بڑھ کر فضیلت وبزرگی والا نہیں پایا اور میں نے مشرق و مغرب کے کونے کونے چھان مارے ہیں مگر میں نے کسی خاندان کو بنی ہاشم سے بڑھ کر فضیلت وبزرگی والا نہیں پایا۔
حضرات صحابہ کرام جن کی محبت ومعرفت فدائیت وفنائیت کی دنیائے محبت وعشق میں کوئی نظیر ومثال نہیں ملتی،انہوں نے آپکے جمال مبارک اور ظاہری کمالات کا نہایت ہی فصیح وبلیغ ادب عربی سے لبریز ،لغات کے مشکل ترین کلمات سے پُر پیرایہ میں جو آپ کا نقشہ بیان کیا ہے، وہ قابل تعریف اور امت پر انکا احسان عظیم ہے۔
نبی کریم کی سیرت بالکل محفوظ ہے جو زندگی کے ہر گوشے کو محیط ہے۔ صحابہ کرام نے اس قدر احتیاط اور احسن پیرائے میں آپ کی ہر ہر ادا کو اپنے ذہنوں میں نقش کیا اوردلوں میں اتارا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
سیّدنا علی نے سواری پر سوار ہونے کے لیے اپنا پاؤں رکاب میں ڈال لیا تو (سفر کی) دعا پڑھی:
ثم ضحك فقیل یا امیر المومنین من اى شىء ضحكت؟ قال: رایت النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فعل كما فعلت.23
پھر آپ ہنسے۔ آپ سے کہا گیا۔ اے امیر المومنین! آپ کس بات پر ہنسے ہیں؟ تو حضرت علی نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ کو دیکھا تھا کہ آپ نے ایسے ہی کیا تھا جیسے میں نے کیا ہے اور آپ ہنسے (بھی) تھے۔
امام ابن عبدالبر مالکیروایت کرتے ہیں:
عن نافع قال: رایت ابن عمر اذا ذھب الى قبور الشھداء على ناقتة ردھا ھكذا وھكذاز فقیل له فى ذلك فقال: انى رایت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذه الطریق على ناقته فلعل خفى یقع على خفه وھذا غایة فى الاقتداء والتاسى برسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.24
نافع بیان کرتے ہیں کہ: میں نے ابن عمر کو دیکھا جب اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر شہداء کی قبروں کی طرف جاتے تو اونٹنی کو عجب طرح سے واپس لاتے آپ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :بے شک میں نے رسو ل اﷲ ﷺکو اس راستہ میں اپنی اونٹنی پر دیکھا تو شاید میرا موزہ آپ کے موزہ سے لگ جاتا جس کے سبب آپ اسی طرح واپس آئے میں اسی کی یاد میں اس طرح آتا ہوں۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ آپ کا یہ عمل رسول اﷲ کی کمال اقتداء اور غایت اتباع میں تھا۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں کتب احادیث میں موجود ہیں جن سے مذکورہ باتیں بدرجہ اتم واضح و ثابت ہوجاتی ہیں۔
محبت ایک عالمگیر جذبہ ہے، اس کے وُجود سے بڑے سے بڑا دہریہ بھی انکار نہیں کرسکتا، یہ جذبۂ لطیف جن لوگوں کو عطا کیا جاتا ہے وہ اپنے محبوب کے عیوب ونقائص پر نظر نہیں رکھتے، اس میں پایا جانے والا عیب انہیں دکھائی ہی نہیں دیتا، پھر اگر وہ محبوب ایسا ہو جس پر انسان ایمان لاچکا ہو، جسے خالقِ کائنات جل شانہ نے ہر عیب اور نقص سے منزہ پیدا کیا ہو اس میں کسی عیب کے دیکھنے یا تلاش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت ابودرداء فرماتے ہیں کہ:
قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم:حبك الشى یعمى ویصم.25
حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا (کہ انسان کو جب کسی سے محبت ہوجاتی ہے تو) وہ محبت اس کو (محبوب کا عیب دیکھنے سے) اندھا اور (محبوب کا عیب سننے سے) بہرہ کردیتی ہے۔ 26
حضرت حسان بن ثابت نے حضور نبی کریم کے کمال حسن کو بڑے ہی دلپذیر انداز میں بیان کیا ہے آپ فرماتے ہیں:
واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبراء من كل عیب
كانک قد خلقت کما تشاء.27
آپ سے حسین تر میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی عورتوں نے آپ سے جمیل تر کو جنم دیا ہے۔ آپ کی تخلیق بے عیب (ہر نقص سے پاک) ہے، (یوں دکھائی دیتا ہے) جیسے آپ کے رب نے آپ کی خواہش کے مطابق آپ کی صورت بنائی ہے۔
ثابت ہوا کہ حضور بے عیب تھے اور جسے بے عیب میں عیب نظر آئے اس کا دعویٰ محبت کیوں کر درست ہوگا۔
امام ماوردی شافعی فرماتے ہیں:
لقد جھد كل منافق ومعاند وكل زندیق وملحد ان یزرى علیه فى قول او فعل او یظفر بھفوة فى جد او ھزل فلم یھد الیه سبیلا.28
ہر منافق ومعاند اور ہر زندیق وملحد نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ آپ کے کسی قول و فعل میں کوئی نقص نکال سکے یا شعوری یا غیر شعوری لغزش تلاش کرنے میں کامیاب ہوسکے مگر اسے اس طرف کوئی راستہ نہ ملا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان حضور پُر نور شافع یوم النشور کے سراپائے مقدس کو لفظی جامہ پہنا کر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ الفاظ معذور ہیں، کائنات اپنی وسعتوں کے ساتھ محدود ہے اور آپ کے فضائل وبرکات اور خصائص وکمالات غیر محدود ہیں، قلم اور زبان حضور کےحقیقی خدو خال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ ادارے نے اپنی طاقت ووسعت کے لحاظ سے آپ کے سراپائے مقدس کا نقشہ اپنے شکستہ الفاظ کے جامہ میں پیش کیا ہے۔ مقصود اظہار علم وفضل نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف بارگاہ مصطفوی کے حُسن و جمال کا تذکرہ اور فضل وفضال سے کسب کرکے ہدیہ عقیدت کی پیش کش ہے۔
اس موضوع پر محققین سیر نے بکثرت تصانیف پیش کی ہیں اور مجموعی حیثیت سے آپ کی صورت و سیرت کا کوئی گوشہ باقی نہیں رہا جو احاطہ تحریر میں نہ آچکا ہو ۔ ان ہی کتب سے آنے والے صفحات پر احادیث مبارکہ اور اقوالِ ائمہ تحریر کیے جاتے ہیں جس سے ہر ذی شعور انسان اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باعثِ ایجاد عالم کے جسمِ اطہر کی کیا شان ہے۔