جب حضور پر وحی کا نزول ہوتا تو آپ پر اس کا ظاہری اور روحانی اثر ہوا کرتا تھا۔ یہ اثر اتنا گہرا اور شدید ہوتا کہ آپ کے جسمِ مبارک پر اس کے واضح اثرات مرتب ہوا کرتے تھے۔ اس اثر کی وجہ وحئِ الہٰی کی وہ ثقالت تھی جس کا بوجھ اٹھانے سے انسان تو کجا، پہاڑ بھی قاصر تھے۔ سورۃ الحشر میں اللہ تعالیٰ نے خود ان الفاظ میں اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ:
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰي جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـيَة ِاللهِ وَتِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ21 1
اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے، ضرور آپ اس پہاڑ کو اللہ کے خوف سے جھکا ہوا پاش پاش ہوتا ہوا دیکھتے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔
اس آیت میں واضح طور پر موجود ہے کہ اگر وحی کسی پہاڑ پر نازل کی جاتی تو وہ اس کے بوجھ تلے قائم نہیں رہ سکتا تھا اور پاش پاش ہوجاتا۔ اسی وجہ سے جب حضور پر وحئِ الہٰی کا نزول ہوتا تو آپ کے جسم مبارک پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے تھے۔
حضرت زید ابن ثابت فرماتے ہیں کہ میں حضور کی بارگاہ میں حاضر خدمت تھا اور آپ کی ران مبارک میری ران کے اوپر تھی۔ اس وقت وحی کا نزول ہوا۔ جب آپ پر وحی نازل ہورہی تھی تو مجھے لگا کہ ابھی میری ٹانگ حضور کی ران مبارک کے بوجھ تلے کچل جائے گی کیونکہ آپ کی رانِ مبارک وحی کے بوجھ سے بہت زیادہ وزنی ہوگئی تھی۔ 2حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر حضور کسی جانور پر سفر فرمارہے ہوتے اور وحی کا نزول ہوتا تو وہ جانور اپنی جگہ سے ہِل نہیں پاتا تھا کیونکہ آپ کا وزن بہت زیادہ ہوجاتا تھا۔3 یہ تمام روایتیں وحی کے بوجھ و ثقالت پر واضح دلالت کرتی ہیں جسے حضور بارگاہِ ایزدی سے وصول فرماتے تھے۔