Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبیﷺ فقہاء کرام کی نظر میں

امت کے علماء واولیاء صحابہ کرام کی طرح 1میلاد النبی کا تذکرہ کرتے اور بحکمِ قرآن خوشی ومسرت کا اظہار بھی کرتے2نیزاس خوشی ومسرت میں عام مسلمانوں کے ساتھ شامل ہوا کرتےتھے اور اس کےلیے کتب ورسائل بھی لکھتےتاکہ امت اپنےنبی کی ولادت کےبارے میں جان کر آپ کی اطاعت و اتباع کو اپنا شعار بنائے۔ مفسرین و محدثین رحمۃ اللہ علیہم نے اپنی اپنی تصنیفات میں آپ کے میلاد کے جواز و استحسان کو بیان کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ امت کے فقہاء عظام رحمۃ اللہ علیہم نے بھی اس کے استحسان کو بیان کرنےکے لیے کئی کتب و رسائل تحریر کیے ہیں جن میں سے چند فقہاء کرارحمۃ اللہ علیہم کا یہاں ذکر کیاجارہا ہے جس کو پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوجائےگا کہ میلاد النبی پر خوشی ومسرت کا اظہار کرنا شرعاًجائز و مستحسن ہے اور اس عمل پر امت کا عملی اجماع چلا آرہا ہے۔

میلاد النبی ﷺ امام ابن حجر ہیتمی کی نظر میں

جلیل القدر فقہاء کرام رحمۃ اللہ علیہم میں ایک عظیم فقیہ شیخ ابن حجر ہیتمی بھی ہیں جنہوں نے میلاد النبی کے جواز و استحسان کے حوالہ سے ایک مکمل رسالہ بنام "النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سیّد ولد آدم صلى اللّٰه عليه وسلم" تحریر کیا ہے اور اس کے علاوہ اسی موضوع کے حوالہ سے دو(2)رسائل مزید تحریر کیے ہیں۔ 3ان مذکورہ رسائل کےعلاوہ امام ابن حجر مکی ہیتمی نے میلاد النبی کے موضوع پر "مولد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم " کے نام سے ایک اور رسالہ بھی تالیف کیا ہے جس میں آپ لکھتے ہیں:

  أول من أرضعته ثویبة مولاة عمه أبى لھب اعتقھا لما بشرته بولادته فخفف اللّٰه عنه من عذابه كل لیلة اثنین جزاء لفرحه فیھا بمولده صلى اللّٰه عليه وسلم .4
  سب سے پہلے آپ کے چچا ابولہب کی کنیز ثویبہ نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔ جب اس (ثویبہ) نے اس (ابولہب کو) آپ کی ولادت کی خوش خبری سنائی تو اس نے اسے آزاد کردیا۔ پس اﷲ تعالیٰ نے ہر سوموار کی رات ابولہب کے عذاب میں تخفیف کردی اس لیے کہ اس نے حبیب خدا کی ولادت کا سن کر خوشی کا اظہار کیا تھا۔

امام ابن حجر مکی ہیتمی کی دور میں عظیم الشان محافل میلاد منعقد کی جاتی تھیں اور ان محافل میں ذکر و اذکار بھی کیے جاتے تھے۔ اس حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ فی زمانہ منعقد ہونے والی محافلِ میلاد اور محافلِ اذکار سنت ہیں ؟ نفل ہیں یا بدعت ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا:

  الموالد والأذكار التى تفعل عندنا أكثرھا مشتمل على خیر، كصدقة، وذكر، وصلاة وسلام على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ومدحه.5
  ہمارے ہاں میلاد واذکار کی جو محفلیں منعقد ہوتی ہیں وہ زیادہ تر نیک کاموں پر مشتمل ہوتی ہیں مثلاً ان میں صدقات دیے جاتے ہیں (یعنی غرباء کی امداد کی جاتی ہے) ذکر کیا جاتا ہے، حضور پر درود وسلام پڑھا جاتا ہے اور آپ کی مدح کی جاتی ہے۔

یعنی محافلِ میلاد النبی کی اکثر خیر اور بھلائیوں پر مشتمل ہے تو جائز و مستحب ہے ۔اسی طرح اس میلاد النبی کو بدعت کہنے کے حوالے سے امام ابن حجر مکی ہیتمی لکھتے ہیں:

  إن البدعة الحسنة متفق على ندبھا وعمل المولد واجتماع الناس له كذلك أى بدعة حسنة.6
  بے شک یہ (میلاد النبی )بدعت حسنہ ہے جس کے مندوب ہونے میں سب متفق ہیں اور میلاد شریف اور اس کے لئے لوگوں کا اجتماع بھی ایسے ہی ہے یعنی بدعت حسنہ ہے۔ 7

یہ بات ذہن نشین رہے کہ شیخ ابن حجر ہیتمی نے مروجہ طرز میلاد النبی کو بدعت حسنہ کہا ہے نہ کہ اصل میلاد النبی کو کیونکہ اس کی اصل قرآن وحدیث میں موجود ہے اورشیخ ابن حجر ہیتمی شافعی نے اپنے متعارف و مشہور "النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سیّد ولد آدم صلى اللّٰه عليه وسلم " نامی رسالہ میں میلاد النبی کے جواز واستحسان کے ساتھ ساتھ اس کے منانے کی فضیلت و اہمیت اور کبار علماء امت کے میلاد النبی کے جواز کے مؤقف کو واضح کیا ہے اور نبی مکرم کےمیلاد منانے کو قر ب الہی اور فضلِ خداوندی کا سبب قراردیا ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ ابن حجر مکی نے مروجہ طرز میلاد النبی کو بدعت کہاہے نہ کہ اصل میلاد کو۔اسی طرح اس مذکورہ مشہور رسالہ کی ایک شرح علامہ شامی کے بھانجے أحمد بن عبدالغنی بن عابدین نے"نثر الدر علی مولد ابن حجر" کے نام سے کی ہے جسے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے اپنی کتاب "جواہر البحار فی فضائل النبی المختار صلى اللّٰه عليه وسلم " میں شامل کیا ہے اور انہوں نے ہی شیخ ابن حجر ہیتمی کے اصل رسالہ کی تلخیص بھی کی ہے جس کواس کتاب میں شامل کیا ہے۔8 اسی طرح اس رسالہ کی ایک شرح شیخ ابراہیم بن محمد بن بن محمد بن احمد الباجوری المصری نے"حاشیہ تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر" کے نام سے تحریر کی ہے۔ 9

اس رسالہ میں شیخ ابن حجر ہیتمی نے اس کے جواز کے ساتھ ساتھ میلاد النبی کے فضائل میں خلفاء راشدین کے اقوال اور چند تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کے اقوال کو قلمبند کیا ہےنیز چند کبار محقق علمائے کرام کے اقوال کو بھی قلمبندکیا ہے چنانچہ وہ ان کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

  قال الامام الشافعى من جمع لمولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم اخوانا وھیأ طعما واخلى مكانا وعمل احسانا وصار سببا لقرأته بعثه اللّٰه یوم القیامة مع الصدیقین والشھداء والصالحین ویكون فى جنات النعیم...وقال سلطان العارفین الامام جلال الدین السیوطى قدس اللّٰه سره ونور ضریحه فى كتابه المسمى الوسائل فى شرح الشمائل ما من بیت او مسجد او محلة قرى فیه مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الا حفت الملائكة ذلك البیت اوالمسجداو المحلة وصلت الملائكة على اھل ذلك المكان وعمھم اللّٰه تعالى بالرحمة والرضوان واما المطوقون بالنوریعنى جبرائیل ومیكائیل واسرافیل وعزرائیل فانھم یصلون على من كان سببا لقراءة مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وقال ایضا مامن مسلم قرء فى بیته مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم الارفع اللّٰه بحانه وتعالى القحط والوباء والحرق والغرق والآفات والبلیات والبغض والحسد وعین السوء واللصوص عن اھل ذلك البیت فاذا مات ھون اللّٰه علیه جواب منكر ونكیر ویكون فى صدق عند ملیك مقتدر.10
  امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس نے مولد النبی کے پڑھنے کے لیے احباب و اخوان کوجمع کیا اور کھانے کا انتظام کیا، اپنے گھر کو اس کے لیے سازوسامان سے خالی کیا اور اچھے اعمال کیےاور اس کی قراءت کے لیے سبب بنا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص کو صدیقین و شہداء وصالحین کے ساتھ اٹھائے گااور یہ جنات النعیم میں ہوگا۔سلطان العارفین امام جلال الدین سیوطی(اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو منور فرمائے)اپنی کتاب میں جس کا نام"الوسائل فی شرح الشمائل" ہے میں فرماتے ہیں: جس گھر ، مسجد یا محلہ میں میلاد شریف پڑھا جائے گا تو فرشتے اس گھر ،مسجداور محلہ پر چھا جائیں گے اور ان کے حاضرین پر دعائے رحمت کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت و خوشنودی سے نوازے گا۔نوری مخلوق یعنی جبرائیل ومیکائیل واسرافیل وعزرائیل یہ سب اس شخص کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں جو مولد النبی کے پڑھے جانے کے لیے سبب بنتا ہے۔آپنے مزید کہا ہے: جو مسلمان اپنے گھر میں میلاد شریف پڑھوائے گا اللہ تعالیٰ اس گھر کو قحط و وباء، جلنے ڈوبنے اور آفات وبلیّات ، بغض و حسد ، بدنظری اور چوری سے محفوظ رکھے گا اور جب وہ مرجائے گا تو اللہ اس پر منکر نکیر کے جواب آسان کرے گا اور وہ رب تعالیٰ کے حضور مقامِ صدق میں جگہ پالے گا۔

اسی طرح فتاوی حدیثیہ جو شیخ ابن حجر ہیتمی سے کیے گئے سوالات اور جوابات پر مشتمل ہے اس میں میلاد النبی کے بارے میں حافظ ابنِ حجر ہیتمی سے کیے گئے سوال و جواب کا بھی تفصیلی ذکر ہے چنانچہ ان سے اس بارے میں کیے گئے سوال کو بیان کرتے ہوئے شیخ ابن حجر تحریر فرماتے ہیں:

  وسئل نفع اللّٰه به: عن حكم الموالد والأذكار التى يفعلھا كثير من الناس فى ھذا الزمان ھل ھى سنة أم فضيلة أم بدعة؟ فإن قلتم إنھا فضيلة فھل ورد فى فضلھا أثر عن السلف أو شىء من الأخبار، وھل الاجتماع للبدعة المباح جائز أم لا؟وھل إذا كان يحصل بسبھا أو سبب صلاة التراويح اختلاط واجتماع بين النساء والرجال ويحصل مع ذلك مؤانسة ومحادثة ومعاطاة غير مرضية شرعا، وقاعدة الشرع مھما رجحت المفسدة حرمت المصلحة، وصلاة التراويح سنة، ويحصل بسببھا ھذه الأسباب المذكورة فھل يمنع الناس من فعلھا أم لا يضر ذلك؟11
  سوال: یہ جواکثر لوگ اس زمانے میں میلاد و اذکار کرتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟ آیا یہ سنت ہیں یا فضیلت والے اعمال یا معاملاتِ بدعت ہیں؟ اگر تم کہو کہ یہ فضیلت والے اعمال ہیں؟ تو کیا ان کی فضیلت کے بارے میں سلف سے کوئی اثر یا کوئی حدیث وارد ہے ؟۔کیا مباح اور بدعت کے لیے جمع ہونا جائز ہے یا نہیں؟۔ کیا ایسی بدعت جائز ہے جبکہ اس کے سبب سے یا نماز تراویح کے سبب سے مردوں اور عورتوں میں میل ملاپ پیدا ہو، اور علاوہ اس کے باہمی الفت و گفتگو و مودت پیدا ہو جو ازروئے شریعت ناپسندیدہ ہے اور شرع کا قاعدہ ہے کہ جب فساد نیکی سے بڑھ جائے تو وہ نیکی ممنوع ہوتی ہے۔ نمازِ تراویح سنت ہے اور اس کی وجہ سے اسباب مذکورہ پیدا ہوتے ہیں تو کیا لو گوں کو نمازِ تراویح سے منع کیا جائے یا یہ مضر نہیں؟

اس سوال کو ذکر کرنے کے بعد اس کا تفصیلی طور پر جواب دیتے ہوئے شیخ ابن حجر ہیتمیتحریر فرماتے ہیں:

  الموالد والأذكار التى تفعل عندنا أكثرھا مشتمل على خير، كصدقة، وذكر، وصلاة وسلام على رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ومدحه، وعلى شر بل شرور لو لم يكن منھا إلا رؤية النساء للرجال الأجانب، وبعضھا ليس فيھا شر لكنه قليل نادر، ولا شك أن القسم الأول ممنوع للقاعدة المشھورة المقررة أن درء المفاسد مقدم على جلب المصالح، فمن علم وقوع شىء من الشر فيما يفعله من ذلك فھو عاص آثم، وبفرض أنه عمل فى ذلك خيرا، فربما خيره لايساوى شره ألا ترى أن الشارع صلى اللّٰه عليه وسلم اكتفى من الخير بما تيسر وفطم عن جميع أنواع الشر حيث قال: (إذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم وإذا نھيتكم عن شىء فاجتنبوه) 12 فتأمله تعلم ما قررته من أن الشر وإن قل لا يرخص فى شىء منه، والخير يكتفى منه بما تيسر. والقسم الثانى سنة تشمله الأحاديث الواردة فى الأذكار المخصوصة والعامة. كقوله صلى اللّٰه عليه وسلم: (لا يقعد قوم يذكرون اللّٰه تعالى إلا حفتٌھم الملائكة، وغشيتھم الرحمة، ونزلت عليھم السكينة، وذكرھم اللّٰه تعالى فيمن عنده) رواه مسلم وروى أيضا أنه صلى اللّٰه عليه وسلم قال لقوم جلسوا يذكرون اللّٰه تعالى ويحمدونه على أن ھداھم للإسلام (أتانى جبريل عليه الصلاة والسلام فأخبرنى أن اللّٰه تعالى يباھى بكم الملائكة) 13 وفى الحديثين أوضح دليل على فضل الاجتماع على الخير والجلوس له، وأن الجالسين على خير كذلك، يباھى اللّٰه بھم الملائكة، وتنزل عليھم السكينة وتغشاھم الرحمة، ويذكرھم اللّٰه تعالى بالثناء عليھم بين الملائكة فأى فضائل أجل من ھذه؟.14
  میلاد و اذکار جو ہمارے ہاں کیے جاتے ہیں، ان میں سے اکثر نیکی (مثلاً صدقہ و ذکر و درود شریف و مدح سرکار دو عالم ) پر مشتمل ہیں اور بعض برائی بلکہ برائیوں پر مشتمل ہیں۔ اگر صرف عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا ہو تو یہی برائی کافی ہے اور ان میں سے بعض میں کوئی برائی نہیں مگر ایسے میلاد قلیل و نادر ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ قسم اول ممنوع ہے کیونکہ یہ قاعدہ مشہور و مقرر ہے کہ مفاسد کا دفعیہ مصالح کی تحصیل پر مقدم ہے۔ پس جس شخص کو ایسے میلاد و اذکار میں جسے وہ کرتا ہے وقوع شرکا علم ہو وہ عاصی اور گنہگار ہے۔ بالفرض اگر وہ ان میں نیکی کرے تو بعض دفعہ اس کی نیکی اس کی بدی کے برابر نہیں ہوتی۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ شارع نے نیکی میں تو اسی قدر پر کفایت کی جو ہوسکے اور برائی کی تمام انواع سے منع فرمایا: چنانچہ یوں ارشاد فرمایا: جس وقت میں تم کو کسی امر سے منع کروں تو اس سے باز رہو اور جس وقت میں تم کو کسی امر کا حکم دوں تو اس میں سے کرو جو کرسکتے ہو ۔پس تو اس پر غور کر تجھے معلوم ہوجائے گا۔ جو میں نے کہا کہ برائی خواہ کتنی ہی کم ہو، اس کی کسی قسم کی اجازت نہیں ہوسکتی اور نیکی کافی ہے جتنی ہوسکے ۔قسم ثانی سنت ہے اور مندرج ہے ان احادیث میں جو خاص و عام اذکار کے بارے میں آئی ہیں۔ مثلاً نبی کریم کا قول کہ جو لوگ بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں فرشتے ان کا اکرام کرتے ہیں اور رحمت ان کو گھیرلیتی ہے اور ان پر سکون و وقار نازل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو اپنی بارگاہ کے فرشتوں میں یاد کرتا ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔اور یہ بھی روایت ہے کہ سرکار دوعالم نے ان لوگوں سے، جو بیٹھے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کا شکر کرتے تھے کہ اس نے ان کو اسلام کی ہدایت عطا فرمائی ، فرمایا: میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور مجھے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کی محفل میں تم پر فخر کرتا ہے۔ان دونوں حدیثوں میں اس امر کی نہایت واضح دلیل ہے کہ خیر کے لیے جمع ہونا اور بیٹھنا نیک کام ہے ۔ اس طرح کے خیر کے لیے بیٹھنے والوں پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے درمیان فخر کرتا ہے ، ایسے لوگوں پر سکون اوروقار نازل ہوتا ہے اور ان کو رحمتِ الہی گھیرلیتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے درمیان ان کا ذکر تعریف سے فرماتا ہے پس اس سے بڑھ کر اور کونسی فضیلت ہے۔

اس فتوی میں بھی شیخ ابن حجر ہیتمی نے میلاد النبی کے استحسان کو ثابت فرمایا ہے۔اس کے علاوہ شیخ ابن حجر ہیتمی شافعی نے میلاد النبی کے ہی موضوع پر اپنے لکھے گئے رسالہ "النعمۃ الکبری علی العالم" میں نبی مکرم کی ولادت سے قبل ،دوران ولادت اور ولادت کے بعد رونما ہونے والے معجزات کا تذکرہ کیا ہے اور ایام رضاعت کے ساتھ ساتھ آپ کے لڑکپن،شباب اور آپ کی بعثت کو بھی بیان کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ آئمہ کبار نبی مکرم کے میلاد کو جائز و مستحسن سمجھتے ہیں اور اس حوالہ سے رسائل وکتب بھی تحریر کرتے رہے ہیں۔

میلاد النبی ﷺشیخ ملّا علی القاری کی نظر میں

میلاد النبی کو مستحسن و مستحب جاننے والوں میں ایک اور عظیم فقیہ و محدث شیخ نور الدین علی بن سلطان القاری بھی شامل ہیں اور آپ نے اس کے جواز و استحسا ن کے حوالہ سے ایک رسالہ بھی تحریر کیا ہے جس کا نام"المورد الروی فی المولد النبوی صلى اللّٰه عليه وسلم " رکھا ہے ۔اس رسالہ میں آپ نے میلاد النبی کے جواز کے ساتھ ساتھ آپ کے احوال ولادت اور ممالک اسلامیہ میں منائے جانی والی بارہ(12) ربیع الاول کی تقریباتِ میلاد النبی کو تفصیلاً تحریر کیاہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کو باعث خیرِ کثیر اور رسول اکرم سے محبت کا اظہار قراردیا ہے۔اسی طرح شیخ ملا علی قاری نے اپنی کتاب میں جہاں مختلف ممالکِ اسلامیہ کے حوالہ سے میلاد النبی کی خوشی کے اظہار کی نوعیت اور ا س کے انداز کو بیان کیا ہے وہیں انہوں نے اجمالی طور پر تمام اہل اسلام کی اس موقع پرخوشی کی نوعیت کو بھی بیان کیا ہے چنانچہ اس حوالہ سے وہ رقمطراز ہیں:

  قال واصل عمل المولد الشریف لم ینقل عن احد من السلف الصالح فى القرون الثلاثة الفاضلة وانما حدث بعدھابا المقاصد الحسنة، والنیة اللتى للاخلاص شاملة، ثم لازال اھل الاسلام فى سائر الاقطار والمدن العظام یحتفلون فى شھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم وشرف وكرم بعمل الولائم البدیعة والمطاعم المشتملة على الامور البھیة والبدیعة ویتصدقون فى لیاله بانواع الصدقات ویظھرون المسرات ویزدون فى المبرات بل یعتنون بقرابة مولده الكریم، ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم بحیث كان مما جرب كما قال الامام شمس الدین الجزرى المقرى انه امان تام فى ذلك العام وبشرى تعجل بنیل ما ینبغى ویرام.15
  مولد شریف کے عمل کی اصل تین فضیلت والے زمانوں میں کسی بزرگ سے منقول نہیں اور یہ عمل بعد میں نیک مقاصد کے حصول کے لیے شروع ہوا اور اس میں خلوصِ نیت شامل ہے ۔پھر ہمیشہ اہل اسلام تمام علاقوں اور بڑے بڑے شہروں میں حضور نبی کریم کے میلاد کے مہینے میں محفلیں برپا کرتے ہیں اور عجیب و غریب رونقوں اور نئے نئے عمدہ کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان دنوں طرح طرح کے صدقات و خیرات کے ذریعے خوشیوں کا اظہار اور نیکیوں میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ آپ کے میلاد پاک کو کار ثواب سمجھتے ہیں اور ان محافل کے انعقاد کرنے والوں پر اس کی برکتیں اور عام فضل و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ اس سب کا تجربہ ہوچکا ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن الجزری المقری نے فرمایا کہ محفل میلاد پورے سال کے لیے امن و امان اور مقاصد حاصل کرنے کے لیے مجرب نسخہ ہے۔ 16
  بعض ارباب الحال:
لھذا  الشھر  فى  الاسلام  فضل
ومنقبة    تفوق   على   الشھور
فمولود    به    واسم   ومعنى
وآیات   بھرن   لدى  الظھور
ربیع   فى   ربیع   فى   ربیع
ونور   فوق  نور   فوق  نور.17

  ایک صاحبِ حال نے کیا خوب فرمایا ہے۔اسلام میں اس مہینے کو فضیلت اور شان حاصل ہے۔ جو دوسرے مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ سو اس میں پیدا ہونے والے کا نام بھی (محمد قابل تعریف) اور معنی (ستودہ ذات و صفات) بھی قابل تعریف اور آپ کے ظہور کے وقت کئی نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ بہار میں بہار، بہار میں بہار، اور نور پر نور، نور پر نور۔

اسی طرح اس رسالہ میں شیخ امام ملا علی قاری نے مسلمانانِ عالم کی میلاد النبی کی محافل کے بارے میں بھی تفصیلات بیان کی ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  لازال أھل الإسلام فى سائر الأقطار والمدن العظام یختفلون فى شھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم و شرف وكرم بعمل الولائم البدیعة والمطاعم المشتمة على الأمور الھیة والبدیعة ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون المسرات ویزیدون فى المبرات بل یعتنون بقرابة مولدہ الکریم وظھر علیھم من بركاتھم قکل فضل عظیم عمیم بحیث كان مما جرب كما قال الامام شمس الدین بن الجزرى المقرى انه امان تام فى ذلك العام وبشرى تعجل بنیل ما ینبغى ویرام.18
  ہمیشہ اہل اسلام تمام علاقوں اور بڑے بڑے شہروں میں حضور کے میلاد کے مہینے میں محفلیں منعقدکرتے ہیں اور مختلف انواع واقسام کے نئے نئے عمدہ کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں اور ان دنوں طرح طرح کے صدقات وخیرات کے ذریعے خوشیوں کا اظہار اورنیک اعمال میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ آپ کے میلاد ِپاک کو قرب کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان پر اس کی برکتیں اور عام فضل وکرم ظاہر ہوتا ہے۔اس سب کا تجربہ ہوچکا ہے جیسا کہ امام شمس الدین بن الجزری المقری نے فرمایا کہ محفل میلاد پورے سال کے لئے امن وامان اور مقاصد حاصل کرنے کے لئے مجرب نسخہ ہے۔

امام ملا علی قاری نے اپنے اس رسالے میں اسپین،ہندوستان، مکّہ ومدینہ وغیرہم کی محافلِ میلاد کو بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ ان محافلوں میں بڑے بڑے علماء ہر جگہ سے جمع ہوکر شریک ہوتے تھے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

  وأما العجم فمن حیث دخول ھذا الشھر المعظم والزمان المكرم لأھلھا مجالس فخام من أنواع الطعام للفقراء الكرام وللفقراء من الخاص والعامة وقراءة الختمات والتلاوات المتوالیات والإنشادات المتعالیات وأجناس المبرات والخیرات وأنواع السرور وأصناف الحبور حتى بعض العجائز من غزلھن ونسجھن یجمن مایقمن یجمعھن الأكابر والأعیان وبضیافھن مایقدرون علیه فى ذلك الزمان ومن تعظیم مشایخھم وعلمائھم ھذا المولد المعظم والمجلس المکرم أنه لا یأباه أحدفى حضوره رجاء ادراك نوره وسروره.19
  البتہ عجم میں تو جب بھی یہ عظیم الشان مہینہ اور قابلِ احترام وقت آتا ہے یہاں کے لوگ بڑی بڑی محفلیں سجاتے ہیں قِسم قِسم کے کھانے فقراء کرام اور خاص وعام فقراء کے لئے تیار کرتے ہیں۔ ختم شریف مسلسل تلاوتیں، اعلیٰ قسم کی نعتیں، طرح طرح کی خوشیاں اور قِسم قِسم کی نعمتوں کا اہتمام کرتے ہیں حتیٰ کہ بعض بوڑھی عورتیں چرخہ کات کر اورکپڑا بُن کر بڑے بڑے اجتماعات کا اہتمام کرتی ہیں جن میں بڑے بڑے بزرگ شامل ہوتے ہیں اور ایسی ضیافتیں اس موسم میں کرتی ہیں جو ان کے بس میں ہوں۔ یہاں کے مشائخ اور علماء اس قابلِ تعظیم محفلِ میلاد اور قابلِ تکریم مجلس کی اتنی تعظیم کرتے ہیں کہ کوئی حاضر ہونے سے انکار نہیں کرتا اور ہر ایک اس کا نور وسرور حاصل ہونے کا امید وار ہوتا ہے۔

شیخ ملا علی القاری کے مذکورہ بالااقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ میلاد النبی منانا اہل اسلام کا ہر دور میں وطیرہ رہا ہے اور اسی طرح رسول اکرم کا میلاد منانا جہاں شکر ِباری تعالیٰ ہے وہیں اس کے ذریعہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خاص خاص رحمتوں کے نزول کا باعث بھی ہے۔ اس کو منانا امن وامان اورجائز مقاصد کے حصول کے لیے مجرب عمل ہے اور یہ میلاد النبی نہ صرف جائز ہے بلکہ قرب الہٰی کا باعث بھی ہے۔

میلاد النبی ﷺ شيخ تقی الدین ابن تیمیہ کی نظر میں

ساتویں (7)صدی ہجری کے نامور عالم علامہ تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام المعروف ابن تیمیہ جن کی کتاب"الصارم المسلول" کے چند اقتباسات شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی اپنی کتاب "جواہر البحار" میں نقل کرنے سے پہلے يوں تحریر فرماتے ہیں:

  ولاتتعجب ایھا المطلع على كتابى ھذا وشاھد الحق من نقلى عنه ھنا ھذہ الجواھر النافعات وردى علیه ھناك تلك البدع المضمرات فانه امام جلیل فلانترك الانتفاع بحسناته الكثیرة المفیدة لسیئاته القلیلة المعدودة...وقد فات ما فات وان الحسنات یذھبن السیئات.20
  میری اس کتاب کو پڑھنے والے تعجب نہ کر اور حق کا مشاہدہ کر جو یہاں (جواہر البحار میں )میں نے ان کے مفید باتیں نقل کی ہیں اوروہاں(اپنی دوسری کتاب میں)ضرر رساں بدعات کا رد بھی کیا ہے کیونکہ وہ(شیخ ابن تیمیہ) جلیل القدر امام ہیں لہذا ہم ان کی گنی چنی غلطیوں کی بنا پر ان کی کثیر نیکیوں سے فائدہ اٹھانے کو ترک نہیں کرسکتے۔۔۔جو فوت ہوا سو فوت ہوا اور بلا شبہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔

شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی کا مقصد یہ ہے کہ شیخ ابن تیمیہ ایک جلیل القدر امام ہیں لہذا ان کی غلط باتوں کی بنا پر ان کی صحیح باتوں کو ترک کرنا غیر علمی رویہ ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی کتاب میں اور مذکورہ وجہ سے ہی اس مقالہ میں ان کے اقتباسات کو نقل کیا گیا ہے۔

شیخ ابو العباس ابن تیمیہ اپنی کتاب"اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم" میں میلاد النبی کے جواز کے حوالہ سے کلام کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :

  وكذلك ما يحدثه بعض الناس، إما مضاھاة للنصارى فى ميلاد عيسى عليه السلام وإما محبة للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظيمًا واللّٰه قد يثيبھم على ھذه المحبة والاجتھاد، لا على البدع، من اتخاذ مولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم عيدًا...فتعظيم المولد واتخاذه موسماً، قد يفعله بعض الناس، ويكون له فيه أجر عظيم لحسن قصده، وتعظيمه لرسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم كما قدمته لك أنه يحسن من بعض الناس ما يستقبح من المؤمن المسدد.21
  اور اِسی طرح اُن اُمور پر (ثواب دیا جاتا ہے) جو بعض لوگ ایجاد کرلیتے ہیں، میلادِ عیسیٰ میں نصاریٰ سے مشابہت کے لیے یا حضور نبی اکرم کی محبت اور تعظیم کے لیےاور اﷲ تعالیٰ اُنہیں اِس محبت اور اِجتہاد پر ثواب عطا فرماتا ہے نہ کہ بدعت پر، اُن لوگوں کو جنہوں نے یومِ میلادالنبی کو بہ طور عید اپنایا۔۔۔میلاد شریف کی تعظیم اور اسے شعار بنا لینا بعض لوگوں کا عمل ہے اور اِس میں اُس کے لیے اَجر عظیم بھی ہے کیو نکہ اُس کی نیت نیک ہے اور رسول اکرم کی تعظیم بھی ہےجیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک اَمر اچھا ہوتا ہے اور بعض مومن اسے قبیح کہتے ہیں۔

شیخ ابن تیمیہ کے مذکورہ بالا اقتباس سے واضح ہوگیا کہ وہ مولد النبی کے موقع پر منائی جانے والی خوشی کو ذریعہ ثواب سمجھتے ہیں اور اس بات کا بھی برملا اعتراف کرتےہیں کہ ان كے دور ميں مروّجہ مولود النبی مناناان کے نزدیک بدعت ہے لیکن دوسرے مشائخ وعلماء کے نزدیک یہ مستحب ہے اور ایسا ممکن ہے کہ کوئی چیز کسی مومن کے نزدیک مستحب ہو لیکن دوسرے مومن کے نزدیک قبیح ہو البتہ یہ بات طے ہے کہ میلاد کی خوشی منانے میں چونکہ تعظیم وتوقیرِ رسول کا عنصر نمایاں ہے لہذا اسی تعظیم وتوقیر کی بنا پر خوشیاں منانے والوں کواس کا ثواب بھی ملےگا ارور شیخ ابن تیمیہ کے مطابق مولود النبی منانے والوں نے جو اجتہاد کیا ہے اس پر ان کے لیے عند اللہ الگ سے اجر موجود ہے کیونکہ مجتہد اگر خاطی بھی تو اجتہاد کا ثواب ملتا ہے اور مولود النبی کے بارے میں کیاگیا اجتہاد تو صائب اور قرآن و سنت کے مطابق ہے۔

امام ابن حطاب مالکی کی نظر میں

اسی طرح ایک مایہ ناز فقیہ شیخ امام عبداﷲ حطاب مالکی بھی ہیں جنہوں نے مالكی فقیہ و عالم شیخ خلیل بن اسحاق کی کتاب "المختصر " کی شرح "مواھب الجلیل فی شرح مختصر الخلیل" کے نام سے کی ہے ۔اس کتاب فقہ میں مکروہ روزوں کے ضمن میں میلاد النبی کے اس پہلوپر تفصیلاًبحث کی ہے کہ حضور کی ولادت باسعادت کے دن روزہ رکھنا بھی مکروہ روزوں میں سے ہے اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بیان کی ہے کہ چونکہ یہ فرح اور سرور یعنی عید کا دن ہے اس لیے اس دن روزہ رکھنا مکروہ ہے اور بطور دلیل "حدیث نبوی "پیش کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ نبی مکرم نے فرمایا:

  وھى ایام اكل وشرب.22
  اور یہ کھانے پینے کے دن ہیں۔

اس روایت کو امام ترمذی، 23 امام ابو داؤد 24 اور امام دارمی رحمۃ اللہ علیہم نے بھی نقل کیا ہے۔ 25عید الفطر اور عید الاضحی کے بارے میں ارشاد فرمائے گئے ان مذکورہ الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے شیخ حطاب مالکی نے لکھا ہے کہ میلاد النبی کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ عید کے دن جو کھانے پینے کے دن ہیں ان میں روزہ نہیں رکھا جاتا لہذا میلاد النبی کے دن بھی روزہ رکھنا مکروہ ہے کیونکہ یہ بھی عید کا دن ہے۔اس کے ساتھ ساتھ میلاد النبی کے عید کا دن ہونے کو کئی مالکی فقہاء جو اپنے دور کے زہد وتقویٰ اور علم وعمل میں اپنی مثال آپ تھے ان کے حوالے سے بیان کیا ہے چنانچہ اس کو بیان کرتے ہوئے امام عبداﷲ حطاب مالکی لکھتے ہیں:

  قال الشیخ زروق فى شرح القرطبیة: صیام المولد كرھھ بعض من قرب عصره ممن صح علمه وورعه، قال: إنه من أعیاد المسلمین فینبغى أن لایصام فیه وكان شیخنا أبو عبد اللّٰه القورى یذكر ذلك كثیرا ویستحسنه انتھى. (قلت): لعله یعنى ابن عباد، فقد قال فى رسائله الكبرى مانصه: وأما المولد فالذى یظهر لى أنه عید من أعیاد المسلمین وموسم من مواسمهم، وكل مایفعل فیه مایقتضیه وجود الفرح والسرور بذلك المولد المبارك من إیقاد الشمع، وإمتاع البصر والسمع، والتزین بلبس فاخر الثیاب، وركوب فارہ الدواب، أمر مباح لا ینكر على أحد قیاسا على غیره من أوقات الفرح، والحكم بكون ھذه الأشیاء بدعة فى ھذا الوقت الذى ظھر فیه سر الوجود، وارتفع فیه علم الشھود، وانقشع فیه ظلام الكفر والجحود، وإدعاء أن ھذا الزمان لیس من المواسم المشروعة لأھل الإیمان، ومقارنة ذلك بالنیروز والھرجان أمر مستثقل تشمئز منه القلوب السلیمة، وتدفعه الآراء المستقیمة، ولقدكنت فیما خلا من الزمان خرجت فى یوم مولد إلى ساحل البحر فاتفق أن وجدت ھناك سیّد الحاج ابن عاشر رحمه اللّٰه وجماعة من أصحابه وقد أخرج بعضھم طعاما مختلفا لیأكلوہ ھنالک، فلما قدموہ لذلک، أرادوا منى مشاركتھم فى الأكل، وكنت إذ ذاك صائما، فقلت لھم إننى صائم، فنظر إلى سیّد الحاج نظرة منكرة، وقال لى ما معناه: إن ھذا الیوم یوم فرح وسرور، یستقبح فى مثله الصیام بمنزلة یوم العید، فتأملت كلامه فوجدته حقا، وكأننى كنت نائما فأیقظنى، انتھى.26
  شیخ زروق، شرح قرطبیہ میں فرماتے ہیں کہ حضور کی پیدائش کے دن روزہ رکھنے کو ایسے لوگوں نے جو ان کے زمانے کے قریب تھے اور تقویٰ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے مکروہ قرار دیا ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید کا دن ہے اس لیےچاہیےکہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔ ہمارے شیخ ابو عبد اللہ قوری اسے کثرت سے ذکر کیا کرتے اور اس کو اچھا سمجھتے۔ان کی عبارت مکمل ہوئی۔اب میں (شیخ حطاب مالکی)کہتا ہوں کہ ابن عباد نے اپنے رسائل کبریٰ میں بیان کیا ہے کہ حضور کی پیدائش کا دن مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید ہے اور تقاریب میں سے ایک تقریب ہے اور وہ چیز جو فرحت وسرور کا باعث ہو آپ کی ولادت کے دن مباح اور جائز ہے مثلاً روشنی کرنا، اچھا لباس پہننا، جانوروں کی سواری کرنا، اس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ان امور کے بدعت ہونے کا حکم اس وقت ہے جبکہ کفر وظلمت اور خرافات وغیرہ ظاہر ہونے کا خوف ہو۔ یہ دعویٰ کرنا کہ عید ِمیلاد اہلِ ایمان کی مشروع تقریبوں میں سےنہیں، غیرمناسب ہے اور اس کو نیروزومہرجان سے ملانا ایک ایسا امر ہے جو سلیم الطبع انسان کو منحرف کرنے کے برابر ہے۔کچھ عرصہ قبل میں حضور کی ولادت باسعادت کے دن سمندر کے ساحل کی طرف جانکلا، وہاں میں نے الحاج ابن عاشرکو ان کے ساتھیوں کے ساتھ پایا۔ وہاں ان میں سے بعض نے کھانے کے لئے مختلف قسم کی چیزیں نکالیں اور مجھے بھی شریک ہونےکی دعوت دی، میں اس روز روزہ سے تھا، اس لئے میں نے کہا میں روزہ سے ہوں۔ ابن عاشرنے میری طرف ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور کہا اس کا کیا مطلب ہے؟ آج خوشی اور مسرت کا دن ہے، اس میں روزہ رکھنا ایسا ہی ناپسندیدہ ہے جیسا کہ عید کے دن، میں نے ان کے کلام پر غور کیا اور میں نے اس کو حق پایا۔ مجھے ایسا لگاکہ گویااس سے پہلے میں سورہا تھا پس انہوں نے مجھے بیدار کردیا۔

اسی طرح شیخ خلیل بن اسحق کی کتاب کے ایک اور شارح امام عبداﷲ خرشی مالکی اپنی شرح میں میلاد النبی کو مسلمانوں کی عید قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

  لأنه من أعیاد المسلمین.27
  کیونکہ(میلاد النبی ) مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید کا دن ہے۔

ان دونوں عبارات سے واضح ہوا کہ میلاد لنبی منانا ایک مستحسن امر ہے اور مسلمانانِ عالم میلاد النبی کی محافل وتقاریب میں انتہائی خوشی ومسرت کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور اس کی خوشیاں مناتے ہیں۔اسی طرح یہ میلاد النبی کا دن اہل ایمان کے لیے تجدیدِ عہد وفاء کادن ہے تب ہی اہل ایمان اس دن کو عیدوں سے بڑھ کر عید جانتے اور مانتے ہیں۔

میلادالنبی ﷺ شیخ محمد مالکیکی نظر میں

اسی طرح ایک اور عظیم مالکی فقیہ بھی میلاد النبی کو جائز ومستحسن گردانتے ہیں البتہ ساتھ ہی ساتھ اس میں ہونے والی خرافات سے احتراز کی تلقین کرتے ہیں اور یوم میلاد النبی کی تعظیم وتوقیر کے حوالہ سے بھی توجہ دلاتےہیں چنانچہ اس حوالہ سے ابو عبد اللہ محمد بن محمد مالکی رقمطراز ہیں:

  اشار الى فضيلة ھذا الشھر العظيم بقوله صلى اللّٰه عليه وسلم للسائل الذى سأله عن صوم يوم الاثنين فقال له صلى اللّٰه عليه وسلم ذلك يوم ولدت فيه فتشريف ھذا اليوم متضمن لتشريف ھذا الشھر الذى ولد فيه فينبغى أن نحترمه حق الاحترام ونفضله بما فضل اللّٰه به الأشھر الفاضلة وھذا منھا لقوله صلى اللّٰه عليه وسلم أنا سيد ولد آدم ولا فخر ولقوله صلى اللّٰه عليه وسلم آدم ومن دونه تحت لوائى انتھى وفضيلة الأزمنة والأمكنة بما خصھا اللّٰه تعالى به من العبادات التى تفعل فيھا لما قد علم أن الأمكنة والأزمنة لا تتشرف لذاتھا وإنما يحصل لھا التشريف بما خصت به من المعانى. فانظر رحمنا اللّٰه وإياك إلى ما خص اللّٰه تعالى به ھذا الشھر الشريف ويوم الاثنين ألا ترى أن صوم ھذا اليوم فيه فضل عظيم لأنه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد فيه فعلى ھذا ينبغى إذا دخل ھذا الشھر الكريم أن يكرم ويعظم ويحترم الاحترام اللائق به وذلك بالاتباع له صلى اللّٰه عليه وسلم فى كونه صلى اللّٰه عليه وسلم كان يخص الأوقات الفاضلة بزيادة فعل البر فيھا وكثرة الخيرات ألا ترى إلى قول البخارى يرحمه اللّٰه تعالى كان النبى صلى اللّٰه عليه وسلم أجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون فى رمضان فنمتثل تعظيم الأوقات الفاضلة بما امتثله صلى اللّٰه عليه وسلم على قدر استطاعتنا. 28
  حضور نبی اکرم نے اپنی ولادت کےعظیم مہینے کی عظمت کا اظہار ایک سائل کے جواب میں فرمایا جس نے پیر کے دن کا روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ آپ نے اسے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں میری ولادت ہوئی۔پس اس دن کی عظمت سے اس ماہ ربیع الاوّل کی عظمت معلوم ہوتی ہے جس میں آپ کی ولادت ہوئی۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اس مہینے کا کما حقہ احترام کریں اور اس ماہِ مقدس کو اس چیز کے ساتھ فضیلت دیں جس چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فضیلت والے مہینوں کو فضیلت بخشی ہے۔ اسی حوالے سے حضور نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: میں اولادِ آدم کا سردار ہوں اور اس میں کوئی فخر نہیں۔ آپ کا ایک اور فرمان ہے: روزِ محشر آدم سمیت سب میرے پرچم تلے ہوں گے۔زمانوں اور مکانوں کی عظمتیں اور فضیلتیں ان عبادتوں کی وجہ سے ہیں جو ان مہینوں میں سرانجام دی جاتی ہیں۔ جیسا کہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ زمان ومکاں کی خود اپنی کوئی عظمت ورفعت نہیں بلکہ ان کی عظمت کا سبب وہ خصوصیات وامتیازات ہیں جن سے انہیں سرفراز فرمایا گیا۔ پس اس پرغورکریں، اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے کیونکہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے اور پیر کے دن کو عظمت عطافرمائی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس دن روزہ رکھنا فضلِ عظیم ہے کیونکہ رسولِ معظم کی ولادت اس روز ہوئی۔لہٰذا لازم ہے کہ جب یہ مبارک مہینہ تشریف لائے تو اس کی بڑھ چڑھ کر تکریم وتعظیم اور ایسی توقیر واحترام کیا جائے جس کا یہ حق دار ہے۔ اور یہ آپ کے اس اسوہ مبارکہ کی تقلید ہوگی کہ آپ خصوصی عظمت کے حامل دنوں میں کثرت سے نیکی اور خیرات کے کام کرتے تھے۔ کیا تم حضرت عبد اللہ بن عباس سےامام بخاری کا روایت کردہ یہ قول نہیں دیکھتےکہ حضور نبی اکرم بھلائی میں سب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے اور ماہِ رمضان میں آپ بہت فیاضی اور دریا دلی کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ اس بناء پر کہ آپ فضیلت والے اوقات کی عزت افزائی فرماتے تھے۔ ہمیں بھی فضیلت کے حامل اوقات جیسے ماہِ ربیع الاوّل کی بہ قدر استطاعت تعظیم کرنی چاہیے۔

اسی طرح ایک اور مالکی فقیہ شیخ محمد بن عبد اللہ ظفر المکی نے بھی میلاد النبی کو مستحسن قرارد یاہے کیونکہ انہوں نے یوم ولادت کے حوالہ سے ہونے والی تقاریب میں علماء و مشائخ کی شرکت کوبیان کیاہے چنانچہ شیخ ظفر المکی کے حوالہ سے شیخ یوسف صالحی شامی رقمطراز ہیں:

  وقد عمل المحبون للنبى صلى اللّٰه عليه وسلم فرحاً بمولده الولائم فمن ذلك ما عمله بالقاھرة المعزّية من الولائم الكبار الشيخ أبو الحسن المعروف بابن قفل قدس اللّٰه تعالى سره، شيخ شيخنا أبى عبد اللّٰه محمد بن النعمان، وعمل ذلك قبل جمال الدين العجمى الھمذانى وممن عمل ذلك على قدر وسعه يوسف الحجّار بمصر وقد رأى النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وھو يحرّض يوسف المذكور على عمل ذلك.29
  اہل محبت حضور کےمیلاد کی خوشی میں دعوتِ طعام منعقد کرتے آئے ہیں۔ قاہرہ کے جن اصحاب ِ محبت نے بڑی بڑی ضیافتوں کا انعقاد کیا ان میں شیخ ابو الحسن بھی ہیں جو کہ ابن قفل قدس اللہ تعالیٰ سرہ کے نام سے مشہور ہیں اور ہمارے شیخ ابو عبد اللہ محمد بن نعمان کے شیخ ہیں۔ یہ عمل مبارک جمال الدین عجمی ہمدانی نے بھی کیا اور مصر میں سے یوسف حجار نے اسے بہ قدرِ وسعت منعقد کیا اور پھر انہوں نے حضور نبی اکرم کو (خواب میں )دیکھا کہ آپ یوسف حجار کو عمل مذکور کی ترغیب دے رہے تھے۔

ان مذکورہ مالکی فقہاء کرامکی رائے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ میلاد النبی مسلمانوں کے لیے انتہائی فرحت و سرور کا باعث ہے اور ساتھ ساتھ یوم ِولادتِ رسول اہلِ اسلام کی عید کا دن ہے اور اس میں مسلمانان عالم انتہائی جوش وخروش کےساتھ محافل سجاتےہیں اور بھرپور انداز میں خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺ امام ابن عابدین دمشقی کی نظر میں

اسی طرح فقہاء امت میں سے ایک جلیل القدر اور عظیم فقیہ شیخ سیّد احمد ابن عابدین دمشقی ہیں جو میلاد النبی کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرب کا باعث اور خیرو بھلائی کا کام سمجھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس میلاد النبی منانے کو سال بھر کے امن وامان اور رحمت باری تعالیٰ کا سبب گردانتے ہیں چنانچہ امام ابن عابدین دمشقیکے حوالہ سے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی تحریر فرماتے ہیں:

  فالاجتماع لسماع قصة مولد صاحب المعجزات علیه أفضل الصلاة وأكمل التحیات من أعظم القربات لما یشتمل علیه من المبرات والصلات وكثرة الصلاة علیه والتحیات بسبب حبه الموصل إلى قربه، وقد صرح الأعلام بأنَّ عمل المولد أمان فى ذٰلك العام وبشرى عاجلة لنیل البغیة والمرام، كما صرح الأعلام بأنَّ عمل المولد أمان فى ذٰلك العام وبشرى عاجلة لنیل البغیة والمرام، كما صرح به ابن الجزرى، ونقله عنه الحلبى فى سیرته، وكذا المؤلف یعین ابن حجر الھیتمى والقسطلانى فى (المواھب)، وحكى بعضھم أنَّه وقع فى خطب عظیم، فرزقه اللّٰه النجاة من أھواله بمجرد أن خطر عمل المولد النبوى بباله. فینبغى لكل صادق فى حبه أن یستبشر بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ویعقد فیه محفلاً لقراءة ماصح فى مولده من الآثار، فعسى أن یدخل بشفاعته مع السابقین الأخیار، فإن سرت محبته صلى اللّٰه عليه وسلم فى جسده لایبلى. ولم تحصل مرتبة الشفاعة لأھلھا إلاَّ بواسطة حبھم لجنابه الأعلى. وإذاكان الشفعاء الأبرار أورثھم حبه صلى اللّٰه عليه وسلم قبول شفاعتھم فى الاغیار، فلاأقل أن یورث عمل المولد الشفاعة فى صاحبه، وإن نزلت مرتبة محبته عن محبتھم فى المقدار، ومصداقه قول الحبیب المختار :(المرء مع من أحب)، فرحم اللّٰه امرأاتخذلیالى شھر مولده المبارك أعیاداً، فإنَّه إذا لم یكن من ذٰلك فائدة إلاَّكثرة الصلاة والتسلیم علیه صلى اللّٰه عليه وسلم لكفى، وفضلھما لا یخفى.30
  حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت کا واقعہ سننے کے لئے لوگوں کا جمع ہونا "اعظم قربات" میں سے ہے۔ اس لئے کہ اس میں نیک کام، درودوسلام، دعائیں وغیرہ بکثرت ہوتی ہیں اور یہ سب باتیں حضور نبی کریم کی محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں اور آپ کی محبت آپ کے وصل اور قرب کاذریعہ ہیں۔ بڑے بڑے علماء نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ محفل میلاد النبی کا انعقاد اس سال امن کا ضامن ہوتا ہے اور مقاصد ومطالب کے جلد حصول کی خوشخبری ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس کی علامہ ابن جزری نے صراحت فرمائی ہے ،پھر ان سے امام حلبی نے اپنی "سیرت" میں نقل فرمایا۔ اسی طرح مؤلف یعنی علامہ ابن حجر ہیتمی نے اور علامہ قسطلانی نے" مواہب لدنیہ "میں ذکر فرمایا ہے۔ بعض اپنا واقعہ خود بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ بہت بڑے خطرہ میں گھر گیا تھا لیکن اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس سے صرف اس بات پرنجات عطا فرمادی، میرے دل میں نبی کریم کے میلاد کے انعقاد کا خیال گزرا تھا۔لہٰذا ہر اس شخص کو چاہیے جو حضور نبی کریم کی محبت میں صادق ہے کہ حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت کے مہینہ میں خوشی کا اظہار کرے اور اس ماہ میں محفل میلاد النبی منعقد کرے جس میں ایسے آثار وایسی روایاتِ صحیح پڑھی و سنائی جائیں جو ولادت باسعادت کے موضوع پر ہیں۔ ایسا کرنے والے کے لئے ممکن ہے کہ وہ بہت جلد نبی کریم کی شفاعت سے ان حضرات کے گروہ میں شامل کردیا جائے جو سابقین اور بہترین لوگ ہوئے۔ اس لیے کہ جس شخص کے جسم میں حضور نبی کریم کی محبت رچ بس جاتی ہے وہ کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا۔ کل قیامت کو جو لوگ بھی مرتبہ شفاعت پائیں گے انہیں یہ مرتبہ حضور نبی کریم سے محبت کی وجہ سے ہی ملے گا۔ نیک لوگ جو شفاعت کریں گے انہیں یہ مقام حضور نبی کریم سے محبت کی بنا پر ملاہوگا اور ان کی شفاعت سے اغیار بخشے جائیں گے تو کم از کم یہ بات ضرور ہوگی کہ محفل میلاد کا انعقاد اوروں کے لئے نہ سہی صرف اس محفل کو منعقد کرنے والے کے لئے سبب شفاعت بن جائے گا اگرچہ اس کی محبت کا مرتبہ ومقام ان حضرات کی محبت کے برابر نہیں جو دوسروں کے لئے شفاعت کریں گے اور ایسا شخص حضور نبی کریم کے فرمان مبارک کہ "آدمی کل قیامت میں اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اسے محبت ہوگی" کے مصداق تو ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ ایسے ہر مسلمان پر اپنی خصوصی رحمت نازل فرمائے جو حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت کے مہینہ میں راتوں کو محفل میلاد منعقد کرتا ہے۔ اسے "عید" کی طرح مناتا ہے۔ اس سے اگر یہی فائدہ ہو کہ اس طرح حضور نبی کریم کی ذات مقدسہ پر صلوٰۃ وسلام کی کثرت ہوتی ہے تو یہی فائدہ کافی ہوتا اور صلوٰۃ وسلام کی فضیلت کوئی چھپی بات نہیں ۔ 31

شیخ ابن عابدین دمشقی کی مذکورہ بالا عبارت جسے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے نقل کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی مکرم کا میلاد منانا در حقیقت رسول اللہ سے محبت و مودت کی نشانی ہے اور اس کے منانے سے قرب رسول کے ساتھ ساتھ قرب الہٰی اور فضل خداوندی بھی حاصل ہوتا ہے۔

میلاد النبی ﷺ شیخ ابن رجب کی نظر میں

امت مسلمہ کے ایک عظیم المرتبت حنبلی فقیہ شیخ ابن رجب جو شیخ ابن حجر عسقلانی کے استادبھی ہیں آپ کا شمار بھی ان فقہاء میں ہوتا ہےجنہوں نے میلاد النبی کو مستحسن قراردیا ہے اور اس کو نبی مکرم کی عظمت و توقیر کی علامت گرداناہے۔ بقول امام جلال الدین سیوطی کے میلاد النبی کی اصل کا استخراج شیخ ابن حجر نے سب سے پہلےکیا ہے اور پھر امام سیوطی نے اس کے بعد ایک اور حدیث سےمیلاد النبی کی اصل کا استخرا ج کیا ہے 32لیکن شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے اس کے برعکس اپنی کتاب" حجۃ اللہ علی العالمین" میں شیخ ابن رجب کےحوالہ سے تحریر کیاہے کہ ان دونوں آئمہ سے پہلے شیخ ابن رجب نے اس کا استخراج کیا ہے 33اوراس قول کو آپ نے جواہر البحار میں بھی نقل فرمایا ہے34 چنانچہ آپ شیخ ابن رجب کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

  وفى قول النبى صلى اللّٰه عليه وسلم لماسئل عن صیام یوم الاثنین ذلك یوم ولدت فیه وأنزلت على فیه النبوة.35اشارة الى استحباب صیام الأیام التى تجدد فیھا نعم اللّٰه تعالى على عباده فان أعظم نعم اللّٰه على ھذه الأمة اظھار محمد صلى اللّٰه عليه وسلم لھم وبعثته وارساله الیھم كما قال تعالٰى: لقد من اللّٰه على المؤمنین اذ بعث فیھم رسولًا من أنفسھم.36 فان النعمة على الأمة بارساله صلى اللّٰه عليه وسلم أعظم من النعمة علیھم بایجاد السماء والأرض والشمس والقمر والریاح واللیل والنھار وانزال المطر واخراج النبات وغیر ذلك فان ھذه النعم كلھا قد عمت خلقاً من بنی آدم كفروا باللّٰه وبرسله وبلقائه فبدلوا نعمة اللّٰه كفراً وأما النعمة بارسال محمد صلى اللّٰه عليه وسلم فان بھا تمت مصالح الدنیا والآخرة وكمل بسببھا دین اللّٰه الذى رضیه لعباده وكان قبوله سبب سعادتھم فى دنیاھم وآخرتھم فصیام یوم تجددت فیه النعم من اللّٰه على عباده حسن جیل وھو من باب مقابلة النعم فى أوقات تجددھا بالشكر ونظیر ھذا صیام یوم عاشوراء، حیث نجى اللّٰه فیه نوحاً من الغرق ونجى فیه موسى وقومه من فرعون وجنوده وأغرقھم فى الیم فصامه نوح وموسى علیھم السلام شكراً فمامه رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم متابعة لأنبیاء اللّٰه وقال للیھود نحن أحق بموسى منكم وصامه وأمر بصیامه.37
  حضور ہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے جب اس کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا کہ اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ ان ایام کو جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خاص نعمت سے نوازا ہو روزہ رکھنا مستحب ہے بلاشبہ اس امت کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت آپ کی ذات ہے۔ حضور اکرم کی بعثت اور اس امت مرحومہ میں آپ کو نبی بناکر مبعوث کرنا بلاشبہ ایک عظیم الشان نعمت ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : یقیناً بڑا احسان فرمایا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جب اس نے بھیجا ان میں ایک رسول انہی میں سے۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس امت مرحومہ میں حضور کو مبعوث کرنے کی نعمت زمین، آسمان، سورج، چاند، ہوا اور لیل و نہار جیسی نعمتوں سے عظیم الشان ہے۔ یہ نعمتیں تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ہیں۔ ان میں کافر بھی شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسل کا انکار کیا اوراللہ کی نعمت کی ناشکری کی لیکن بعثت محمدی وہ نعمت کبریٰ ہے جس سے دنیا اور آخرت کی مصلحتیں مکمل ہوگئیں۔ اسی کی وجہ سے اللہ کا وہ دین بھی مکمل ہوا جس کو اس نے اپنے بندوں کے لیے منتخب فرمایا: اس کی قبولیت ان کے لیے دنیا اور آخرت کی سعادت کا سبب ہے۔ اس دن ، جس دن بندوں پر اللہ تعالیٰ عظیم احسان فرمائے، روزہ رکھنا اچھا عمل ہے گویا کہ یہ اچھا عمل اس دن ہونے والی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے۔عاشورہ کے دن کا روزہ بھی اسی وجہ سے رکھا جاتا ہے۔ اس دن حضرت نوح کو غرق ہونے سے نجات ملی۔ اسی دن حضرت موسیٰ اور آپ کی قوم نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون کو سمندر میں ہلاک کیا گیا، حضرت موسیٰ اور حضرت نوح نے اس دن اللہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور آپ نے انبیاء کرام کی اتباع کرتے ہوئے اس دن روزہ رکھا اور آپ نے یہودیوں سے فرمایا ہم تم سے زیادہ اس بات کے حق دار ہیں کہ ہم اس دن روزہ رکھیں جب حضرت موسیٰ نے روزہ رکھا تھا۔ حضور اکرم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ 38

شیخ ابن رجب حنبلی فقہ حنبلی کے معروف عالم اور کثیر التصانیف محقق تھے اور مذكوره بالا اقتباس آپكی تصنیف کردہ کتاب"لطائف المعارف فیما لمواسم العام من الوظائف " میں سے ماخوذ ہے جس میں شیخ ابن رجبنے مختلف اِسلامی مہینوں کے فضائل اور ان میں کیے جانے والے اَعمال و وظائف مفصل بیان کیے ہیں۔ ماہِ ربیع الاوّل کے ذیل میں تین فصول قائم کی ہیں جن میں سے دو فصول حضور نبی اکرم کی ولادت باسعادت اور واقعاتِ نبوت کے بیان پر مشتمل ہیں اورتیسری فصل میں آپ کے وصال مبارک کے واقعات کا ذکر ہے۔ ماہِ ربیع الاوّل کے واقعات پر مشتمل باب کا آغاز ہی اُنہوں نے حضور نبی اکرم کے میلاد سے متعلق مختلف روایات سے کیا ہے اوربعد ازاں اُنہوں نے اِسی موضوع سے متعلق دیگر روایات ذکر کی ہیں ۔ان روایا ت کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ شیخ ابن رجب حنبلی بھی ان فقہاء میں شامل ہیں جن کے نزدیک ماہِ ربیع الاوّل میں حضور نبی اکرم کی ولادت باسعادت کے واقعات بیان کرنا ایک جائز اورمستحسن عمل ہے۔39

میلاد النبیﷺشیخ سیّد احمد شامی کی نظر میں

میلاد النبی کو بنظر استحسان شمار کرنے والے کثیر فقہاء میں سے ایک جلیل القدر فقیہ علامہ ابن عابدین شامیکے بھتیجے شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی شامی بھی ہیں جنہوں نے شیخ بن حجر ہیتمی شافعیکے رسالہ "النعمۃ الکبری علی العالم" کی شرح "شرح مولد ابن حجر" کے نام سے کی ہے اور اس کو شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانینے اپنی کتاب"جواھر البحار " میں شامل کیا ہے۔شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی شامی نے فقہاء اعلام کی طرح میلاد النبی کے جواز و استحسان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ممالک اسلامیہ میں میلاد النبی کے حوالہ سے منعقد کی جانے والی تقاریب کا تذکرہ درج ذیل الفاظ میں کیا ہے جنہیں نقل کرتے ہوئے شیخ یوسف نبہانیتحریر فرماتے ہیں: 40

  واكثر الناس عنایة بذلك اھل مصر والشام وانه شاھد من الظاھر برقوق سلطان مصر سنة785 وامرائه بقلعة مصر فى لیلة المولد المذكورة من كثرة الطعام وقراءة القرآن والاحسان للفقراء والقراء والمداح ما بھره وانه صرف على ذلك نحو عشرة آلاف مثقال من الذھب.41
  مصر اور شام کے لوگوں پر اس کتاب"التنویر بمولد البشیر والنذیر" کا بڑا احسان ہے۔ اس کے مصنف نے برقوق میں سلطان مصر 785ھ اور اس کے امراء کی طرف سے منعقد کی گئی قلعہ مصر میں محفل میلاد النبی میں شرکت کی۔ اور کھانا وافر مقدار میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ قران کریم کی تلاوت ، فقراء، قراء اور نعت خوانوں کو احسانات سے نوازنا ،ان کو دیکھ کر انہیں حیرانی ہوئی اور اس پر مزید یہ کہ سلطان موصوف نے دس ہزار مثقال سونا اس محفل پر خرچ کیا۔42

اسی طرح دولتِ عثمانیہ میں بھی دیگر ممالک اسلامیہ، ان کے بادشاہوں اور ان میں بسنے والے مسلمانوں کی طرح میلاد النبی پر خوشی کااظہار انتہائی خوشی ومسرت کے جذبات کے ساتھ اعلیٰ پیمانہ پر کیاجاتا تھا چنانچہ شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی دولتِ عثمانیہ کی طرزِ میلاد النبی کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

  ومازال بحمد اللّٰه تعالٰى فى كل عصر طائفة من المسلمین ملتزمین له غایة الالتزام حتى توسعوا فیه فعملوه فى سائر شھور العام محبة بجنابة الشریف صلى اللّٰه عليه وسلم ویعملون الولائم ویتصدقون فى لیالیه بانواع الصدقات ویظھرون السرور به ویزیدون فى المبرات. ولاسیماملوك الدولة العلیة العثمانیة وامراؤھا اصحاب الھمم القویة صانھا رب البریة من كل آفة ورزیة فانھم یعتنون بقراى قصة مولده الكریم صلى اللّٰه عليه وسلم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم.43
  الحمد للہ! ہر دور میں مسلمانوں کا ایک گروہ ایسا ضرور رہا ہے جو نبی کریم کی ولادت کا دن نہایت اہتمام و شان سے مناتا رہا ہے حتیٰ کہ اس بابرکت عمل میں انہوں نے وسعت دے کر صرف بارہ(12)ربیع الاوّل پر ہی اکتفاءنہ کیا بلکہ سال بھر ایسی محافل کا انعقاد و اہتمام کرتے ہیں اور یہ سب کچھ حضور نبی کریم کی محبت کی وجہ سے ہے۔ اچھے اچھے کھانے پکائے اور کھلائے جاتے ہیں۔ اس کی راتوں میں صدقات و خیرات کیے جاتے ہیں۔ اس کے ذریعہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خاص کر دولت عثمانیہ کے حکمران اور اس کے صاحبِ ہمت امرا ء(اللہ اس حکومت کو ہر آفت و پریشانی سے محفوظ رکھے) تو یہ بھی انتظام کرتے ہیں کہ ان محافل میں حضور نبی کریم کی ولادت باسعادت کا قصہ بیان کیا جائے (یا لکھا ہوا پڑھا جائے) اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی عمومی برکتیں ان کے شامل حال ہوتی ہیں۔44

شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی کےمذکورہ بالا اقتباسات سے اور ان کےشیخ ابن حجر ہیتمی کے رسالہ کی شرح کرنے سے بھی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی میلاد النبی پر خوشی و مسرت کا اظہا رکرنا اور اس مناسبت سے تقاریب ومحافل منعقد کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے اور اس کار خیر میں امت مسلمہ کے ہر دور کے افراد شامل رہے ہیں ۔

مذکورہ تمام باتوں پر مہر تصدیق اصول ِ فقہ کےاس مسلمہ قاعدہ سے ہوجاتی ہے جو"مسلم الثبوت" کےتتمہ میں مذکور ہے جس کو بیان کرتے ہوئے شیخ محب اللہ بہاری تحریر کرتے ہیں:

  ان اتفاق العلماء المحققین على ممر الاعصار حجة كالا جماع.45
  بے شک علماء محققین کا اتفاق مدت تک چلےآنا وہ دلیل شرعی ہے جس کی حیثیت اجماع کی سی ہے۔

علّامہ بحر العلوم نے لفظ محققین کی شرح میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ یہ اتفاق کرنے والے محققین اگرچہ کہ غیر مجتہد ہی کیوں نہ ہوں تب بھی ان غیر مجتہد محققین کا کسی حوالہ سے باہم مطابق وموافق ہونا اسی طرح حجت ہے جس طرح اجماع حجت ہے 46 جبکہ مذکورہ فقہاء میں سے اکثر فقہاء درجہ اجتہاد پر فائز ہیں لہذامذکورہ فقہاء کے درج بالا اقتباسات سے واضح ہوجاتا ہےکہ میلاد النبی مناتے ہوئے اس پر خوشی ومسرت کا اظہار کرنا،ذکر ولادت رسول کے لیے محافل و مجالس منعقد کرنا،ان مجالس میں اکل وشرب کا اہتمام کرنا اور دیگر صدقات وخیرات کرنا سب مستحسن امور ہیں جو اجر وثواب کے لائق ہیں۔اسی طرح مذکورہ بالا اقتباسات سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ میلاد النبی پر خوشی ومسرت کے اظہارکرنے سے قرب الہی نصیب ہوتا ہے اور یہ عملِ میلاد اللہ تبارک وتعالیٰ کا اس کی طرف سےکیے گئے عظیم انعام پر شکر ادا کرنا ہے۔ میلاد پررب تعالیٰ کا شکرخود رسول کریم فرما یا کرتے تھے لہذا امت مسلمہ بھی اپنے نبی مکرم کی پیروی میں شکر ِباری تعالیٰ ادا کرنےکےلیے میلاد النبی پر خوشی کا اظہا رکرتی ہے۔

 


  • 1 ابو عبد الله احمد بن محمد الشيبانى، مسند الامام احمد بن حنبل،حدیث:16835، ج-28،مطبوعة:مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان،2001م،ص:49
  • 2 القرآن،سورۃیونس58:10
  • 3 ابوالفضل عبدالرحیم بن حسین عراقی/ تحقیق: عمر بن عَرَبی اعمیری،المورد الھنی فی مولدالنبیﷺ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع،القاہرۃ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص: 74 -75
  • 4 شھاب الدین احمد بن حجر الہیتمی،مولد النبی ﷺ، مطبوعۃ: مرکز تحقیقات اسلامیۃ، لاہور، پاکستان، 1980م، ص: 27
  • 5 اىضا، الفتاوی الحدیثیۃ،مطبوعۃ: دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1998م، ص: 202
  • 6 ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 56
  • 7 ا ابو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان فى تفسير القرآن(مترجم: شیخ الحدیث فیض احمد اویسی ﷫)، ج-26، مطبوعہ: مکتبہ اویسیہ، بہاولپور،پاکستان،1985ء، ص: 349-350
  • 8 شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی،جواھر البحار فی فضائل النبی المختار ﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 381-434
  • 9 عبد الرزاق بن حسن الدمشقی،حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث العشر،مطبوعۃ:دار صادر،بیروت،لبنان،1993م،ص:9
  • 10 شھاب الدین احمد بن حجر الہیتمی،النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سیّد ولد آدم ﷺ، مطبوعۃ: مکتبۃ الحقییۃ، استنبول، ترکی،2003م،ص : 6 -7
  • 11 شہاب الدین احمدبن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیۃ، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت، لبنان (لیس التاریخ موجودًا)، ص:109
  • 12 ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، السنن الکبری، حدیث:8214، ج-4، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003م، ص:423
  • 13 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2701،مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:1174
  • 14 شہاب الدین احمدبن حجر الہیتمی، الفتاوی الحدیثیۃ، مطبوعۃ:دار الفکر، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص:109
  • 15 نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی مولدالنبی ﷺ، مطبوعۃ: منہاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م، ص: 71 -73
  • 16 نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی مولدالنبی ﷺ،(مترجم:عبد القیوم ہزاروی)، مطبوعہ:منھاج القرآن پبلیکیشنز،لاہور، 2011ء ، ص:72-74
  • 17 نور الدین علی بن سلطان القاری، المورد الروی فی مولدالنبی ﷺ، مطبوعۃ: المدینۃ المنورۃ، السعودية، 1980م، ص : 21
  • 18 ایضاً، ص :26-27
  • 19 ایضا، ص : 29
  • 20 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، جواھر البحار فی فضائل النبی المختار ﷺ، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص : 230
  • 21 ابو العباس احمد بن عبد الحلیم ابن تیمیۃ، الاقتضائ الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم، ج-2، مطبوعۃ: دار عالم الکتب، بیروت، لبنان، 1999م،ص: 123-126
  • 22 ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمۃ، صحیح ابن خزیمۃ، حدیث:2100، ج-3، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:292
  • 23 ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ الترمذی، سنن الترمذی،حدیث:773، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م،ص:255
  • 24 ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی، سنن ابی داود،حدیث:2419، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:490
  • 25 ابو محمد عبداللہ بن عبد الرحمن الدارمی، سنن الدارمی، حدیث:1805، ج-2، مطبوعۃ: دار المغنی للنشر والتوزیع، ریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:1106
  • 26 ابو عبد اللہ محمد بن محمد شمس الدین المالکی، مواہب الجلیل فی شرح مختصر خلیل، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1992م، ص:406-407
  • 27 محمد بن عبد اللہ الخرشی المالکی أبو عبد اللہ، شرح مختصر خلیل للخرشی، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ، بیروت لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 241
  • 28 ابو عبد اللہ محمد بن محمد الفاسی المالکی، المدخل لابن حاج،ج-2، مطبوعۃ:دار التراث، بیروت،لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 1 -2
  • 29 امام محمدبن یوسف الصالحی الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد ﷺ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص:363
  • 30 شیخ یوسف بن إسماعیل النبھانی، جواھرالبحارفی فضائل النبی المختارﷺ ، ج-3، مطبوعۃ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م،ص:384- 385
  • 31 شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی دمشقی ، نثر الدرر علی مولد ابن حجر (مترجم: مفتی ظفر جبار)، مطبوعہ: کرماں والا بک شاب، لاہور،پاکستان، 2012ء، ص:16-17
  • 32 جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 184
  • 33 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005، ص: 177
  • 34 شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی، جواہر البحار فی فضائل النبی المختار ﷺ، ج-3، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:394
  • 35 ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری،جامع صحیح مسلم،حدیث:1162، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م،ص:477
  • 36 القرآن ،سورۃآل عمران3: 164
  • 37 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین ﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005، ص: 177 -178
  • 38 شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلینﷺ (مترجم:پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:384-385
  • 39 شیخ زین الدین عبد الرحمن بن احمد ،لطائف المعارف لابن رجب، مطبوعۃ: دار ابن حزم للطباعۃ والنشر، بیروت، لبنان، 2004م، ص:90-99
  • 40 شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی دمشقی کی کتاب"نثر الدرر علی مولد ابن حجر" کا عربی متن علامہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی﷫نے اپنی کتاب "جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ" میں مکمل درج کیا ہے اور مقالہ میں اس کا عربی متن وہیں سے مأخوذ ہے۔چونکہ اس کا اردو ترجمہ الگ مطبع نے شائع کیا ہے تو ترجمہ وہاں سے لیا گیا ہے۔ (ادارہ)
  • 41 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی،جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج-3، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:392
  • 42 شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی دمشقی ،نثر الدرر علی مولد ابن حجر(مترجم: مفتی ظفر جبّار)،مطبوعۃ:قادری رضوی کتب خانہ،لاہور، پاکستان،2011ء،ص:42
  • 43 شیخ یوسف بن اسماعیل النبھانی،جواہر البحار فی فضائل النبی المختارﷺ ، ج-3، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2010م، ص:393
  • 44 شیخ سیّد احمد بن عبد الغنی دمشقی،نثر الدرر علی مولد ابن حجر(مفتی ظفر جبار)،مطبوعہ:قادری رضوی کتب خانہ،لاہور ، پاکستان ، 2011ء، ص:44
  • 45 شيخ مولوی محب اللہ بہاری، مسلّم الثبوت، ج-2، مطبوعۃ:مکتبۃ حسینیۃ،مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:354
  • 46 شيخ عبد العلی محمد بن نظام الدین الانصاری، فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2002م، ص:436