امت محمدیہ قرآن مجید میں موجود ذکرِ میلاد النبی 1 اور خود رسول مکرم کے2 اپنے احوالِ ولادت کے تذکرہ 3کرنے اور اس پر خوشی کے اظہار کرنے4کے سبب اپنے اوائل دور ہی سے5نبی مکرم کے میلاد کو باعث اجرو ثواب اور خیر مانتی چلی آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں عام اہل اسلام اس کو مناتے چلے آرہے ہیں وہیں خواص اہل ایمان اس پر کتب و رسائل تحریر کرتے آرہے ہیں 6 اور خاص کر محدثین کرامنے تو اپنی کتبِ حدیث و سیرت میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر لکھا ہے اور میلاد النبی کے جواز و استحسان کو ثابت کیا ہے ۔ ان میں سے مشہور ترین حضرات محمد بن اسحاق ، محمد بن عمر واقدی اورمحمد بن سعد ، امام حافظ ابوعبداللہ محمد بن عائذ قرشی ، امام حافظ ابوبکر احمد بن ابی عاصم شیبانی کی مولود النبی کے موضوع پرتصانیف سب سے پہلے منصّہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں7 لیکن یہ کتب مولودنایاب یا انتہائی کمیاب ہیں۔
محدّثین میں سے سب سے پہلے میلادالنبی کے حوالے سے باقاعدہ باب قائم کرکے کتبِ حدیث میں روایت کا تذکرہ کرنے کا سہراامام محمد بن عیسیٰ الترمذیکے سر ہے ۔ حافظ محمدبن عیسی ترمذی نے اپنی کتاب"جامع ترمذی" میں ایک باب"باب ماجاءفی میلاد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم"قائم کرکے اس کے تحت ایک حدیث ذکر کی ہے چنانچہ آپاس حدیث کونقل کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں:
عن المطلب بن عبداللّٰه بن قیس بن مخرمة عن ابیه عن جده قال ولدت انا ورسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عام الفیل قال وسال عثمان ابن عفان قباث ابن اشیم اخا بنى یعمر بن لیث اانت اكبر ام رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: رسول اللّٰه اكبر منى وانا اقدم فى المیلاد.8
مطلب بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں اور رسول اللہ عامل الفیل(یعنی ہاتھیوں والے سال )پیداہوئے۔حضرت عثمان ابن عفان نے بنو یعمر بن لیث کے بھائی قباث ابن اشیم سے پوچھا کہ تم بڑے ہویا رسول اللہ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ہی بڑے ہیں البتہ میں پہلے پیدا ہوں۔
امام ترمذی کے علاوہ محمد بن بغدادی نے اپنی کتاب"الشریعۃ" میں اس موضوع پر ایک باب رقم فرمایا ہے۔جس کا نام "باب ذکر مولد رسول اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم ورضاعہ ومنشئہ الی الوقت الذی جاءہ صلى اللّٰه عليه وسلم الوحی" رکھا ہے۔جس میں اس موضوع سے متعلق چار احادیث ذکر فرمائی ہیں جن ميں خود نبی مکرم نے بنو عامر کے ایک بوڑھے کے اس سوال کے جواب میں اپنی ولادت کے احوال ،شق صدر ،حضرت ابراہیم کی دعا،حضرت عیسٰی کی بشارت اور حضرت سیدہ آمنہ کے اس خواب کا بھی ذکر فرمایا کہ جس میں انہوں نے آپ کی ولادت کے وقت نکلنے والے نور کی روشنی میں شام کے محلا ت دیکھے تھے۔ 9
اسی طرح حافظ ابن سعد نے اپنی کتاب "سنن النبیّ صلى اللّٰه عليه وسلم وایّامہ" میں اگرچہ اس موضوع پر مستقل کوئی فصل قائم نہیں کی تاہم ایک حدیث مبارکہ"باب فی شق صدرہ فی صغرہ صلى اللّٰه عليه وسلم "کے تحت تحریر فرمائی ہےاور متعلقاتِ موضوع پر بھی کئی فصول قائم فرماکراس موضوع پرروشنی ڈالی ہے۔10
ان مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ میلاد النبی کی اصل چونکہ خود نبی مکرم کا عمل مبارک اور صحابہ کرام کی سنت ہے اسی وجہ سے علماء محدثین نے اس موضوع کو اپنی اپنی کتب حدیث میں نقل کیا ہے اور اس پر مولد النبی کے جلی عنوان سے باب قائم کیے ہیں۔
اسی طرح ایک اور عظیم محدث شیخ ابو شامہ جو کہ شارح مسلم امام نووی کے شیخ و مربی ہیں اور انہوں نے اس میلاد النبی کو تعظیمِ رسول اور شکر الہٰی کا ذریعہ قراردیا ہے چنانچہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی شیخ ابو شامہ کے حوالہ سے رقمطراز ہیں:
قال الامام ابو شامة شیخ النووى ومن احسن ما ابتدع فى زماننا ما یفعل كل عام فى الیوم الموافق لیوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم من الصدقات والمعروف واظھار الزینة والسرور فان ذلك مع مافیه من الاحسان للفقراء مشعر بمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیمه فى قلب فاعل ذلك وشکر اللّٰه على مامنّ به من ایجاد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الذى ارسله رحمة للعالمین.11
امام نووی محی الدین کے استاد محترم امام ابو الشامہ فرماتے ہیں کہ ہمارے دور کا نیا کام حضور کے یومِ ولادت کی مناسبت سے صدقات و نیکیوں کی کثرت،زیب وزینت اور خوشی کا اظہارکرنا ہے کہ اس میں فقراء کے لیے فائدہ اور نبی کریم سے محبت کا اظہار اور ساتھ ہی اس عمل کے سر انجام دینے والے کے دل میں جو تعظیم رسول مکرم ہے کا اظہار بھی ہے۔اللہ ﷻکا اس احسان پر جو اس نے اپنے رسول مکرم کو مبعوث فرماکر اور عالمین کے لیے رحمت بنا کر کیاہے اس پر شکر ادا کرنا بھی ہے۔
اس مذکورہ بالا عبارت سے بھی بخوبی واضح ہوتا ہے کہ شیخ ابو شامہ میلاد النبی کے استحسان کے قائل ہیں اور انہوں نے جو اس کو بدعت حسنہ سے تعبیر کیا ہے تو یہ اصل میلاد النبی کو نہیں کہا بلکہ اس کے مروجہ ثقافتی طرز کو کہا ہے جو کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ثقافتی لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے جس سے اصلِ میلاد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہی محدثین میں سے ایک عظیم محدث شیخ امام ابن جوزی بھی ہیں جنہوں نے اس موضوع پر بھی تحریرکیا ہے اور اس میں میلاد النبی کے جواز واستحسان کو ثابت کیا ہے چنانچہ آپ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
وكان یسبح اللّٰه فى بطنھا سرا وجھرا فسبحان من خلق ھذا النبى الكریم سلطان الأنبیاء ورفع له فى الملکوت قدرا وذكرا وجعل لمن فرح بمولده حجابا من النار وسترا ومن أنفق فى مولدہ درھما كان المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم له شافعا ومشفعا وأخلف اللّٰه علیه بكل درھم عشرا فیا بشرى لكم أمة محمد لقد نلتم خیرا كثیرا فى الدنیا وفى الأخرى فیا سعد من یعمل لأحمد مولدا فیلقى الھناء العز والخیر والفخر ویدخل جنات عدن بتیجان من در تحتھا خلع خضرا ویعطى قصوراً لاتعد لواصف وفى كل قصر حوریة عذرا فصلوا على خیر الأنام صلى اللّٰه عليه وسلم فقد نشرت الحسنى بمولده نشرا وكل من صلى علیه مرة یجازیه ربنا بھا عشرا. 12
ولادت باسعات کی مبارک گھڑیوں سے بھی پہلے آپ حضرت آمنہ کے شکم انور میں اﷲ سبحانہ کی تسبیح وتقدس بیان فرماتے تھے۔ پس پاک ہے وہ ذات کہ جس نے ایسے نبی کریم کی ذات اطہر کو عدم سے منصہ شہود پر لاکر آپ کا ظہور فرمایا جو بلاشبہ اور لاریب سلطان الانبیاء ہیں اور اﷲ جل مجدہ نے حضور پر نور کی قدر ومنزلت اور ذکر ونعت پاک کو ملکوت میں بلند وبالا اور مرتفع فرمایااور ہر اس مسلمان کے لیے جہنم کی دہکتی بھڑکتی آگ سے پردہ وستر بنایا کہ جو حضور پر نور کی ولادت باسعادت سے مسرور وخوش ہوتا ہے اور عید میلاد النبی کا انعقاد کرتا ہے۔ جس نے حضور کے میلاد میں ایک درھم خرچ کیا تو حضرت احمد مصطفی اس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے اور میلاد میں خرچ کئے گئے ہر درھم کے عوض اﷲ سبحانہ، اس کو دس درھم زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔لہٰذا اے امت محمد ! بلاشبہ تمہیں بشارت اور مبارک ہو کیونکہ تم نے حضور نبی معظم کا امتی بن کر دنیا وآخرت میں خیر ِکثیر پالی ہے۔ اور تم اس نعمت غیر مترقبہ کے مستحق ہوئے ہو۔کس قدر خوش قسمت وخوش نصیب ہے وہ شخص جو حضور احمد مجتبیٰ کی میلادِ مبارکہ کی عید مناتا اور جلسوں کا انعقاد کراتا ہے۔ یوں وہ اپنے لیے بے انتہا خوشیاں وفرحتیں سمیٹتا ،بے پناہ عزت وقار اور منزلت حاصل کرتا ، خیر کثیر حاصل کرتا اور فخر لایزال کا مستحق قرار پاتا ہے ۔اسی طرح جنّت عدن کا بجا طور پر استحقاق پاتا اور عمدہ باغوں میں ایسا تاج پہن کر وار دہوتا ہے جو موتیوں سے جڑاہوا ہوتا ہے۔ ان موتیوں کے نیچے سبز وشاداب عمدہ خلعتیں ہوتی ہیں ۔اس کو اتنی مقدار میں محلات اور شاندار مکانات بخش دئیے جاتے ہیں کہ جو تعریف کرنے والوں کی تعریف سے ماوراء ہیں۔ان سب کے ساتھ ساتھ ہر ایک محل میں ایک پاکباز نیک خوبصورت ترین حور ہوتی ہے پس سب بکثرت بارگاہ خیر الانام میں صلوٰۃ وسلام پیش کرو کیونکہ آپ کی ولادت باسعادت کے باعث نیکیاں اور اچھائیاں وبھلائیاں پھیلائی گئی ہیں۔ اور جو شخص آپ کی بارگاہِ اقدس میں ایک مرتبہ صلوٰۃ وسلام پیش کرتا ہے اﷲ اس کا اجر دس گنا زائد عطا فرماتا ہے۔13
اسی طرح ابن جوزی نے اپنی ایک اور کتاب میں میلاد النبی کےمختلف ممالک اسلامیہ میں منائے جانے کے حوالہ سے نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہےکہ یہ عملِ حسن، مصر ، یمن ،شام،تمام بلاد عرب اور تمام مشرق ومغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری و ساری ہے۔14اسی طرح ایک اور مقام پرامام ابن جوزینبی کریم کی ولادت کے بارے میں اشعار کہتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
یا مولد المختار کم لک من ثنا
ومدائح تعلو وذکر یحمد
یا لیت طول الدھر عندی ذکرہ
یا لیت طول الدھر عندی مولد
وضعتہ مسرورا ومختونا کما
قد جاء فی الأخبار حقا مسند
السعد أقبل والسرور المنجلی
بأتم بدر فی ربیع الأول .15
اے مختار ومصطفی کی ولادت وعید میلاد آپ کے لیے بہت ہی ثنا ومدح اور تعریف ہے۔ اور بے شمار مدائح وثنا ہیں جو کہ بلند وبالا اور اعلیٰ ہیں اور آپ کا ذکر وہ ذکر ہے کہ جس کی ازحد مدح وثنا اور تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔اے کاش ایک طویل عرصہ تک میرے پاس حضور پر نور کی میلاد مبارکہ کا تذکرہ ہوتا۔ اور اے کاش میری ساری زندگی میں محض حضور پرنور کی میلاد کا تذکرہ ہوتا اور جیسے کہ اخبار حقہ میں یہ روایت مستند ہے کہ سیدہ حضرت آمنہ امینہ نے حضور پر نور کی ذات گرامی قدر کو جنا تو آپ (اس وقت)ناف بریدہ اور مختون تھے۔خوش بختی اور خوش قسمتی آپہنچی اور سرور وفرحت واضح وآشکارا ہوگئی۔ وہ یوں کہ ربیع الاول شریف میں چودھویں کا چاند طلوع ہوگیا .16
ان دونوں عبارتوں کے اقتباس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ میلاد النبی منانا جائز ہے اور امام ابن جوزیاس میلاد کو خوشی ومسرت کا سب سے بڑا موقع قراردیتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور محدث جو امام ابن جوزی کے نواسے تھے اور سبط ابن جوزی کے نام سے مشہور ومتعارف ہیں انہوں نے بھی اپنی کتاب میں اس عمل مولد کے جواز و استحسان کے پیش نظر شاہ اربلکی محفل میلاد کو تفصیل سے لکھا ہے چنانچہ آپ اس محفل میلاد کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
وكان يعمل فى كلِّ سنة مولد النَّبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى ربيع الأول يجتمع فيه أھلُ الدُّنيا ومن وراء جيحون العلماء والفقھاء والوُّعَّاظ والقُرَّاء والصُّوفية والفقراء ومن كل صِنْف وتضرب الخيام فى المَيدان، وينزل من القلعة بنفسه، فيقرأ القُرَّاء ويعظ الوعَّاظ، ويمدُّ سِماطًا أوله عنده وآخره فى القلعة، ويحضر الخلائق فلا يبقى إلا مَنْ يأكل ويحمل.17
وہ ہرسال ربیع الاوّل میں میلاد النبی کی محفل منعقد کرتا تھا۔جس میں دنیا داروں کے ساتھ ساتھ ماورائے دریائے جیحون کے متبحر علماء و فقہاء اورخطباء و قرّاء،مشائخ و فقراء بھی جمع ہوتے ۔ہر شعبہ زندگی کے افراد بھی شریک محفل ہوتے ۔میدان میں خیمیں لگادیے جاتے اور بادشاہ بنفس نفیس قلعہ سے نیچے اترآتا پھر قرّاء قراءت کرتے اور خطباء خطابت کرتےپھر خوانِ طعام بچھادئے جاتےجس کا اول حصہ بادشاہ کی طرف ہوتااور آخری حصہ قلعہ کی طرف ہوتا۔تمام رعایا اس محفل میں شریک ہوکر کھانا تناول کرتی اور خدام کھانا چنتے۔
اسی طرح اپنی کتاب میں ایک اور مقام پرسبط ابن جوزی اس حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
حكى لى مَنْ حَضَرَ بعض السِّنين: عددتُ على السِّماط وخمسة آلاف رأس شواء وعشرة آلاف دجاجة، ومئة ألف زبدية، وثلاثين ألف صحن حلو، ثم يخلع فيه على الأعيان، وتفرق فيھم الأموال على أقدارھم، ولا يحضرھذا السِّماط أحدٌ من عسكره، إلا أرباب الحرف، ثم يقوم من الميدان، فيدخل الخانقاه وقد اجتمع فيھا من الصوفية ما بين ثمان مئة إلى ألف، فيأخذون فى السَّماع وھو يرقص بينھم، فإذا كان من الغد بعث إليھم من يكتب أسماءھم، وكل شيخ ومعه جماعة، فيعطى المشايخ على قدر طبقاتھم ولأتباعھم على حدة، ومن شاء أن يسافر، ومن شاء أن يقيم أيامًا. 18
جو اس محفل میں کئی سال تک حاضر ہوتا رہا،اس نے مجھے بتایا کہ میں نے اس خوانِ طعام پر پانچ لاکھ بھنے ہوئے سروں،دس ہزار مرغیوں ،ایک لاکھ مکھن کے پیالوں اور تیس ہزار حلوے کے تھالوں کو بذات خود شمار کیاہے۔ معززین کو سب کے سامنے خلعت سے نوازا کرتا تھا ، ان کے مناصب کے مطابق مال تقسیم کیا کرتا۔اس خوان طعام پہ اس کی فوجوں میں سے کوئی ایک بھی شریک نہ ہوتا سوائے پیشہ ور ماہرین کے۔پھر وہ میدان سے کھڑا ہوکر خانقاہ میں جاتا جہاں صوفیاءآٹھ سو سے ہزار کی تعداد میں جمع ہوتے پھر وہ تمام سماع میں میں مشغول ہوجاتے اور بادشاہ بھی ان کے درمیان خوشی سے جھوم اٹھتا ۔پھر جب اگلی صبح ہوتی تو بادشاہ ان کے پاس ایک کاتب بھیجتا جو ان کے نام لکھتا۔ہر شیخ کے ساتھ اس کی جماعت ہوتی،پھر وہ مشائخ کو ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق دینار دیتا ا ور ان کے متبعین کو علیحدہ سے نوازتا۔اس کی طرف سے اس کی اجازت ہوتی کہ جو چاہے چلا جائے اور جو چاہے مزید رکے ۔
اس محفل میلاد النبی کی تفصیل اور اس میں سر انجام دیے جانے والے افعال كو شيخ سبط ابن جوزینے شاہ اربلکے حسنات میں بیان کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ سبط ابن جوزی بھی اپنے محترم نانا شیخ ابن جوزیکی طرح میلاد کے جواز کے قائل ہیں اور اس کو اچھا سمجھتےہیں کیونکہ اگر اس بارے میں انہیں کسی قسم کا اختلاف ہوتا تو اسے وضاحت کے ساتھ لکھتے جبکہ شاہ اربل کے اس فعل کو انہوں نے حسنات میں بیان کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ میلاد النبی کی محفل باعث اجرو ثواب ہے۔
اسی طرح ایک اور جلیل القدر محدث شارح بخاری اور فن حدیث کے ماہر عالم شیخ ابن حجر عسقلانی بھی اس عمل میلاد کی مروجہ طرز کو بدعتِ حسن قرار دیتے ہیں لیکن اس کی اصل کوخود ہی ایک حدیث مبارکہ سے ثابت کرتے ہیں چنانچہ شیخ امام یوسف صالحی شامی امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:
وقال الحافظ رحمه اللّٰه تعالى أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة ولکنھا مع ذلك قد اشتملت على محاسن وضدّها فمن تحرّى فى عمله المحاسن وتجنّب ضدّها كان بدعة حسنة ومن لا فلا قال: وقد ظهر لى تخریجها على أصل ثابت، وهو ما ثبت فى الصحیحین من أن رسول اللّٰه قدم المدینة فوجد الیھود یصومون عاشوراء فسألهم فقالوا: هذا یومٌ أغرق اللّٰه فیه فرعون وأنجى فیه موسى فنحن نصومه شکرا للّٰه تعالى فقال: أنا أحق بموسى منکم. فصامه وأمر بصیامه فیستفاد من فعل ذلك شکراللّٰه تعالى على ما من به فى یوم معین من إسداء نعمة أو دفع نقمة، ویعاد ذلك فى نظیر ذلك الیوم من كل سنة، والشکر للّٰه تعالى یحصل بأنواع العبادات والسجود والصیام والصدقة والتلاوة، وأى نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبى الكریم نبى الرحمة فى ذلك الیوم؟وعلى هذا فینبغى أن یتحرّى الیوم بعینه حتى یطابق قصة موسى فى یوم عاشوراء، ومن لم یلاحظ ذلك لایبالى بعمل المولد فى أى یوم من الشهر، بل توسّع قوم حتى نقلوه إلى اى یوم من السّنة. وفیه مافیه.فهذا مایتعلق بأصل عمل المولد.وأما ما یعمل فیه فینبغى أن یقتصر فیه على مایفھم الشکر للّٰه تعالى من نحو ما تقدم ذكره من التلاوة والإطعام والصدقة وإنشاد شىء من المدائح النبویة والزّهدیةالمحرّكة للقلوب إلى فعل الخیرات والعمل للآخرة وأما ما یتبع ذلك من السماع واللّٰهو وغیر ذلك فینبغى أن یقال ما كان من ذلك مباحاً بحیث یتعیّن السرور بذلك الیوم لا بأس بإلحاقه به، ومهما كان حراما أو مكروها فیمنع وكذا ما كان خلافاً للأولى. انتھى. 19
الحافظ (ابن حجر عسقلانی ) نے لکھا ہے کہ عمل میلاد کی اصل بدعت ہے۔ قرون ثلاثہ کے کسی فرد سے یہ منقول نہیں ہے لیکن یہ محاسن اور ان کی ضد پر مشتمل ہے۔ جو یہ عمل محاسن کے لیے کرتا ہے،ان کی ضد سے بچتا ہے، تو یہ بدعت حسنہ ہے ورنہ نہیں۔ لیکن میرے نزدیک اس کی اصل ثابت ہے جو صحیحین میں ہے کہ جب حضور مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے عرض کی کہ اس روز رب تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا۔ حضرت موسیٰ کو نجات دی۔ ہم رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا :میں تم سے زیادہ موسیٰ کا حقدار ہوں۔ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جس نے یہ عمل شکر ادا کرتے ہوئے کیا کہ اس دن میں رب تعالیٰ نے اس پر نعمت کی یا اس سے عذاب دور کیا تو وہ ہرسال اس دن میں یہ عمل کرے گا۔رب تعالیٰ کا شکر مختلف طریقوں سے ادا ہوتا ہے۔ شکرِ عبادات، سجود، قیام، روزہ، صدقہ اور تلاوت کرکے ادا کیا جاسکتا ہے۔ حضور اکرم سے بڑی نعمت اور کون سی ہے جو اس دن ملی جب میلاد پاک منایا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان کوشش کرے کہ اسی روز محفلِ میلاد منعقد کرے جس روز آپ پیدا ہوئے تھے تاکہ حضرت موسیٰ کے قصہ کے ساتھ مشابہت پیدا ہوسکے۔ جو یہ امر پیش نظر نہ رکھے اس کے لیے روا ہے کہ وہ اس ماہ مبارک کے جس دن چاہے میلاد کرائے بلکہ علماء نے اس میں اتنی وسعت دی ہے کہ وہ سال کے جس دن میں چاہے محفل میلاد کرالے۔ یہ روایت میلاد مبارک منانے کی اصل ہے البتہ ان محافل میں ایسے امور سرانجام دینے چاہئیں جن سے رب تعالیٰ کا شکر ادا ہوسکےمثلاً تلاوت کرنا، کھانا کھلانا، صدقہ دینا، نعتیں پڑھنا،ایسے اشعار پڑھنا جو دلوں کو عمدہ کام کرنے پر ابھاریں۔ آخرت کی ترغیب دیں لیکن سماع وغیرہ کے لیے مناسب ہے کہ وہ مباح کے دائرہ میں ہو۔ اس حیثیت سے اس دن مسرت کا اظہار ہو لیکن حرام یا مکروہ سماع اور اسی طرح خلاف اولیٰ کام بہر حال ممنوع ہیں۔ 20
اسی طرح شیخ امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے شیخ امام اسماعیل حقی نے بھی ا س بات کو تحریر کیا ہے کہ عمل میلاد کی اصل سنت رسول ہے چنانچہ آپ کے حوالہ سے شیخ اسماعیل حقی تحریر فرماتے ہیں:
أصلا من السنة.21
اس(میلاد شریف) کی اصل سنت سے ہے۔
مذکور ہ بالا دونوں عبارات میں ابن حجر عسقلانی نے خود اس عملِ مولد کی اصل ثابت فرمائی ہے اور اس میں ہونے والے منکرات سے احتراز کو لازمی قراردیا ہے جس سے واضح ہوتا ہےکہ یہ عمل میلاد النبی جائز و مستحسن ہے اور اس میں منکرات ومنہیات کی آمیزش سے احتراز لازمی ہے۔
اسی طرح ایک اور جلیل القدر محدث شیخ امام شمس الدین ابن ناصر الدین دمشقینے بھی اسی میلاد النبی کے موضوع پر ایک کتاب "جامع الآثار فی سیرۃ مولد المختارصلى اللّٰه عليه وسلم "تحریر فرمائی ہے جس میں انہوں نے میلاد النبی کو عمل اسعد یعنی انتہائی سعادتمندی والا عمل قرار دیا ہے اور اس میں مختلف ممالک اسلامیہ میں ہونے والی محافل میلاد النبی کا تذکرہ کیاہے اور ساتھ ہی ساتھ خصوصی طور پر شاہ اربلکے میلاد کی محفل کو تفصیلی طور پر تحریر کیا ہے اور اس محفل کے تمام پہلوؤں کو تفصیلاً قلمبند کیاہے چنانچہ شیخ علامہ شمس الدین ابن ناصرالدین دمشقی شاہ اربل کی محفل میلاد کے حوالہ سے اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
ولقد بلغنا عمن رأى تلك الولیمة السنیة انه كان مرة على المائدة...مائة الف اناء من الطعام...وكان فیما بلغنا ان اھل تلك النواحى والبلاد كالجزیرة وسنجار ونصیبین والموصل وبغداد من الفقھاء والوعاظ والقراء والصوفیة والرؤساء والشعراء یسعون فى كل سنة الى اربل لحضور ذلك الوقت المفضل من مستھل المحرم الى اوائل شھرربیع الاول. 22
ہر سال منعقد ہونے والی اس سالانہ دعوت میں حاضر ہونے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ دستر خوان پر دیگر چیزوں کے ساتھ انواع و اقسام کےسو(100) کھانے چنے گئے تھے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس شہر اور اس مضافات کے ارد گرد کے شہروں مثلاًجزیرہ،سنجار،نصیبین،موصل اور بغداد کے فقہاء،خطباء،قراء ،صوفیا،عمائدین اور شعراءاربل بادشاہ کی طرف اس محفل مبارکہ میں شریک ہونے کے لیے ہر سال آیا کرتے تھے۔محرم الحرام کی ابتداء سے ربیع الاوّل کے شروع تک جمع ہوتے تھے۔
اس عبارت میں انہوں نے شاہ اربل کی محفل میلاد کا تذکرہ کیا ہے اور اس کو ذکر کرنے سے پہلے اس عملِ مولد کو سعادتمندی والا عمل قرارد ے کے اس کے مستحب ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔
اسی طرح ایک اور جلیل القدر محدث شیخ امام سخاوی نے اپنے فتاویٰ میں میلاد النبی کی مروجہ طرز کو بدعت حسنہ قرار دیا ہے اور اس کے بعد اس عمل پر مسلمانوں کے اجماع کو بیان کیا ہے چنانچہ آپکےحوالہ سے شیخ یوسف صالحی شامی تحریر فرماتےہیں:
عمل المولد الشریف لم ینقل عن أحد من السلف الصالح فى القرون الثلاثة الفاضلة، وإنما حدث بعد، ثم لا زال أھل الإسلام فى سائر الأقطار والمدن الكبار یحتفلون فى شھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم بعمل الولائم البدیعة المشتملة على الأمور البھجة الرفیعة ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون السرور ویزیدون فى المبرّات ویعتنون بقراء ة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم.23
میلاد پاک کا عمل تیسری صدی کے اسلاف صالحہ میں سے کسی سے بھی منقول نہیں۔ اس پر بعد میں عمل ہونے لگا۔ پھر سارے شہروں اور اطراف واکناف میں لوگ آپ () کی ولادت کے مہینے میں میلاد کی محفل سجاتےہیں۔ بہت پر رونق دعوتیں کرتےہیں۔ وہ اس کی راتوں میں گوناگوں خیرات کرتے ہیں، وہ مسرت کا اظہار کرتے ہیں، وہ نیک کاموں میں زیادہ رغبت کرتے ہیں۔ میلاد پاک کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں ان پر عام فضل کا اظہار ہوتا ہے۔ 24
اسی طرح شیخ امام سخاوی کے حوالہ سے امام ملا علی بن سلطان القاری تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ سمندر جیسے علم کا عالم، صاحب فہم شمس الدین محمد السخاوی (اللہ ان کو مقامِ بلند تک پہنچائے) نے فرمایا کہ مکّہ مکرّمہ میں کئی سال تک میں محفل میلاد کی شرکت سے مشرف ہوا اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ محفل پاک کتنی برکتوں پر مشتمل ہے اور بار بار میں نے مقامِ مولد کی زیارت کی اور میری سوچ کو بہت فخر حاصل ہوا۔ 25
ایک اور مقام پر امام سخاوی کےمیلاد النبی کو مستحسن جاننے کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے شیخ ملا علی القاری تحریر فرماتےہیں:
قال السخاوى: وأما أھل مکة معدن الخیر والبركة فیتو جھون الى المكان المتواتر بین الناس أنه محل مولده ھو فى سوق اللیل ریاء بلوغ كل منھم بذلك المقصد ویزید اھتمامھم به على یوم العید حتى قلَّ أن یتخلف عنه أحد من صالح وطالح، ومقل وسعید سیما الشریف صاحب الحجاز ھدون توارِ وحجاز. قلت: الآن سیماء الشریف لاتیان ذلك المكان ولا فى ذلك الزمان، قال: وجود قاضیھا وعالمھا البرھانى الشافعى. رحمه اللّٰه تعالٰى اطعام غالب الواردین وكثیر من القاطنین المشاھدین فاخر الأطعمة والحلوى، ویمد للجھور فى منزله صبیحتھا سماطا جامعًا رجاء لكشف البلوى، وتبعه ولده الجمالى فى ذلك للقاطن والسالك. 26
امام سخاوی نے کہا کہ اہل مکّہ خیر و برکت کی کان ہیں، یہ سارے کے سارے لوگ ہمیشہ سوق اللیل میں واقع رسول اللہ کے مقامِ ولادت پر تمام لوگوں کے ہمراہ جاتے ہیں اور ہر ایک اس مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ عید کے دن اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی نیک یا بد اور کم نصیب یا سعادت مند پیچھے نہیں رہتا۔یہاں تک کہ حجاز مقدس کا گورنر بھی بلاناغہ حاضر ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اب شریف مکّہ کی اس جگہ اور اس وقت پر تشریف آوری نہیں ہوتی۔ اس نے کہا: کہ قاضی مکّہ وہاں کے عالم البرہانی الشافعی کا وہاں پرآنا اور آنے والوں کی اکثریت کو کھانا کھلانا اور بہت سارے لوگ جو صرف زیارت کے لیے آتے ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے اور مٹھائیاں دینا اور اس مقام پر میلاد کی صبح عوام کی مدد کرنا، اس امید پر کہ اس سے مصیبتیں ٹلتی ہیں، یہ جاری و ساری ہے۔ اس کے بیٹے الجمال نے اس سلسلے میں اس کی پیروی کی ہے، وہ غریب اور مسافر کی خبر گیری کرتا ہے۔ 27
تمام مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ شیخ امام سخاوی بھی میلاد النبی منانے کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں اور اس عمل میں تمام مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں اور اس کے منانے کی وجہ سے انعام باری اور فضل خداوندی کے استحقاق کی امید رکھتے ہیں۔
انہی جلیل القدر محدثین میں ایک عظیم محدث جنہوں نے صحیح البخاری کی شرح کے ساتھ ساتھ نبی مکرم کی سیرت طیبہ پر بھی ایک معرکۃ الآراء تصنیف کی ہے وہ شیخ احمدبن محمد القسطلانی ہیں۔آپ نے نبی مکرم کی سیرت پر"المواھب اللدنیۃ بالمنح المحدیۃ"کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے اور اس میں نبی مکرم کے میلاد کی بابت جواز و استحسان کو رقم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ مسلمانانِ عالم میلاد النبی کو ہر دور میں مناتے چلے آرہے ہیں چنانچہ شیخ قسطلانی اس کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:
ولا زال أھل الاسلام یحتفلون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ویعلمون الولائم ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون الھرور ویزیدون فى المبرات و یعتنون بقراءة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم.28
ہمیشہ سے اہل اسلام نبی کریم کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں اور ربیع الاوّل کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اظہار مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں، میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں، ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہرحال فیض یاب ہوتا ہے۔
اس مذکورہ بالا عبارت کی شرح کرتے ہوئے"مواھب اللدنیہ" کے شارح علامہ زرقانی مالکی تحریر فرماتےہیں:
والحاصل: ان عمله بدعة لكنه اشتمل على محاسن وضدھا فمن تحرى المحاسن واجتنب ضدھا كانت بدعة حسنة ومن لا فلا.29
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عمل مولد شریف بدعت ہے لیکن یہ خوبیوں اور خامیوں دونوں پر ہی مشتمل ہے۔پس جو شخص خوبیوں کو سوچتا اور ان کو سر انجام دیتا ہے اور خامیوں سے اپنا دامن بچا لیتا ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور جو ایسا نہیں کرتا تو یہ بدعت حسنہ نہیں (بلکہ بدعت سیئہ)ہے۔
اسی طرح بعض لوگوں کے پیدا کردہ اشکال کہ مروجہ طرز میلاد نبی مکرم اور صحابہ کرام کے دور میں سرانجام نہیں دیا گیا اس اشکال کو رفع کرتے ہوئے شیخ امام قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:
أن الفعل يدل على الجواز، وعدم الفعل لا يدل على المنع .30
بلا شبہ کسی کام کا کرنا جواز پر دلالت کرتا ہے اور نہ کرنا عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا۔
یعنی اگرچہ کہ طرز میلاد رسول مکرم اور صحابہ کرام کے دور مبارک میں سرانجام نہیں دیاگیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ طرز اپنانا جائز نہیں ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی کام کے کرنے سے اس کام کا جواز توثابت ہوجاتا ہے لیکن کام نہ کرنے سے عدمِ جواز ثابت نہیں ہوتا لہذا یہ میلاد اور اس کی مروّجہ صورتیں جائز ہیں۔
اسی طرح شارح مواھب علامہ زرقانی نے بھی اپنی کتاب کے ایک مقام پر اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ لوگ ان کے زمانہ یعنی دسویں صدی ہجری میں بھی محفل میلاد کا انعقاد جوش و خروش سے کیا کرتے تھےچنانچہ علامہ زرقانی مالکی تحریر فرماتے ہیں:
يحتفلون يھتمون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ويعملون الولائم ويتصدقون فى لياليه بأنواع الصدقات، ويظھرون السرور به ويزيدون فى المبرات ويعتنون بقراءة قصة مولده صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم، ويظھر عليھم من بركاته كل فضل عميم. 31
لوگ آج بھی میلاد النبی کے مہینہ میں اجتماعات و محافل اوردعوتوں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں انواع واقسام کے صدقات و خیرات اور خوشی و مسرت کا اظہار ،کثرت سے نیکیاں اور مولود النبی کے واقعات کا خصوصی طور سے تذکرہ کرتے ہیں اور ان پر منجانب اللہ برکات اور بے پناہ فضل و احسان کا ظہور ہوتا ہے۔
شارح بخاری شیخ احمد قسطلانی اور شارح مواھب علامہ زرقانی ان دونوں ائمہ محدثین کی عبارت سے واضح ہوا کہ میلاد النبی منانا مسلمانوں کا طریقہ متواترہ چلتا آرہا ہےاور اہل ایمان اس موقع پر انتہائی خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں اور مختلف النوع صدقات و خیرات سے اس میلاد النبی کی خوشی کو مزید دوبالا کرتے ہیں جو کہ جائز و مستحب ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔
اسی طرح نویں صدی ہجری کے حافظ الحدیث جنہوں نے نبی مکرم کے میلاد پر ایک ضخیم کتاب لکھی اور پھر اس کی تلخیص "عرف التعریف بالمولد الشریف"کے نام سےکی وہ جلیل القدرمحدث شیخ امام حافظ شمس الدین ابو الخیر محمد بن محمد الجزری ہیں ۔اس کتاب میں آپ نےنبی مکرم کے نسب ،آپکی ولادت کے ابتدائی مراحل، استقرارِحمل مبارک، تاریخِ ولادت،دوران ولادت اور ولادت سے پہلے اور بعد میں رونما ہونے والے معجزات،آپکا عقیقہ،رضاعت،اسفار،بعثت،ہجرت الغرض مکمل سیرت نبویہ کو اختصار کے ساتھ قلمبند کیا ہے اور اس کے ابتدائی خطبہ میں ماہ ربیع الاول کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا ہے۔اسی طرح اس ماہ مبارک میں مسلمانان عالم کی خوشی ومسرت کو بھی بیان کیا ہے اور ا س کو عید کی طرح منانے کا تذکرہ بھی کیا ہےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ حافظ محمد ابن جزری تحریر فرماتے ہیں:
یخرج اھل مكة كل عام یوم المولدو یحتفلون بذلك اعظم احتفالھم بیوم العید وذلك الى یومنا ھذا وقدزرته وتبركت به عام حجتى سنة اثنین وتسعین وسبعمائة ورایت من بركته عظیما ثم كررت زیارته فى مجاورتى ثلاث وعشرین وثمان مائة... و قرء على كتابى: التعریف بالمولد الشریف وسمعه خلق لایحصون وكان یوما مشھودا.32
ہر سال اہل مکّہ میلاد النبی کے دن مولد شریف کی زیارت کے لیے نکلتے ہیں اوراس دن یوم عید سے بڑھ کر محفل منعقد کرتے ہیں،اس زمانہ تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔بلاشبہ میں نے بھی اپنے حج والے سال 792ھ میں اس مقامِ مقدس کی زیارت کی اورمیں نے اس میں عظیم برکات کا مشاہدہ بھی کیا۔میں 823ھ تک مسلسل اس مقامِ مبارک کی زیارت کرتا رہا۔۔۔اور مجھ پر میری کتاب التعریف بالمولد الشریف پڑھی گئی جسے بے شمار مخلوق نے سنااور یہ دن زیارت(مولد شریف) کا دن تھا۔
اس سے بھی واضح ہوا کہ شیخ ابن الجزرینہ صرف اس جلوس میلاد میں شریک تھے بلکہ اس میں آپ کی لکھی گئی کتاب کا درس بھی ہوا تھا اور اہل ایمان اسی طرح میلاد النبی کو مناتے چلے آرہے ہیں جس میں نبی مکرم کی ولادت کے احوال اور آپ کاتذکرہ کیا جاتا ہے اور اس عمل کو باعث خیر گردانا جاتا ہے۔
اسی طرح ایک اور محدث جنہوں نے اپنی کتاب"سبل الھدی "میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر قلمبند کیا ہے وہ شیخ امام یوسف صالحی شامی ہیں۔آپ نے میلاد النبی کے موضوع کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔جس کے لیے انہوں نے تقریباً تیرہ(13) ابواب قائم کیے ہیں اور ان ابواب میں کئی فصول میں میلاد النبی کے جواز و استحسان پر دلائل پیش کیے ہیں۔اس مروجہ طرز کی ابتداء اور دیگرممالک اسلامیہ میں اس کے لیے محافل کے انعقاد اور ان میں ہونے والے اعمال کو ذکرکیا ہے۔ متقدمین علماء عظام کے حوالوں اور ان کے اقتباسات سے میلاد النبی کے استحباب و استحسان اور اس کے باعث خیر اور قرب الہٰی کا سبب ہونے کو ثابت فرمایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ معترضین کے اعتراضات کو نقل کر کے ان کے جوابات کو بھی تحریر کیا ہے اور آخری باب میں جوابات نقل کرنے کے بعد اپنی تحقیقی مؤقف کو بھی قلمبند کیا ہے چنانچہ شیخ اما م یوسف صالحی شامی تحریر فرماتے ہیں:
وحاصل ما ذكره: أنه لم یذمّ المولد بل ذمّ ما یحتوى علیه من المحرّمات والمنكرات، وأول كلامه صریح فى أنه ینبغى أن یخصّ ھذا الشھر بزیادة فعل البرّ وكثرة الخیرات والصدقات وغیر ذلك من وجوہ القربات، وھذا ھو عمل المولد الذى استحسنّاہ، فإنه لیس فیه شىء سوى قراء ة القرآن وإطعام الطعام وذلك خیرٌ وبرّ وقربة. وأما قوله آخراً: إنه بدعة: فإما أن یكون مناقضاًَ لما تقدّم، أو أنه یحمل على أنه بدعة حسنة، كما تقدم تقریره فى صدر الباب، أو یحمل على أن فعل ذلك خیر والبدعة منه نیّة المولد كما أشار إلیه بقوله: فھو بدعة بنفس نیته فقط، ولم ینقل عن أحد منھم أنه نوى المولد فظاھر ھذا الکلام أنه كره أن ینوى به المولد فقط ولم یكره عمل الطعام ودعاء الإخوان إلیه. وھذا إذا حقّق النظر یجتمع مع أول؛ كلامه لأنه حثّ فیه على زیادة فعل البر وما ذكر معه على وجه الشكر للّه تعالى إذ أوجد فى ھذا الشھر الشریف سید المرسلین صلى اللّٰه عليه وسلم وھذا ھو معنى نیة المولد فكیف یذم هذا القدر مع الحث علیه أولاً؟وأما مجرد فعل البر وما ذكر معه من غیر نیة أصلاً فإنه لا یكاد یتصوّر، ولو تصوّر لم یكن عبادة ولا ثواب فیه، إذ لا یعمل إلا بنیة، ولا نیة ھنا إلا الشكر للّٰه تعالى على ولادة ھذا النبى الكریم صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذا الشھر الشریف، وھذا معنى نیة المولد فھى نیة مستحسنة بلا شك.33
ان کےکلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے میلاد کی مذمت نہیں کی۔ بلکہ حرمات و منکرات میں سے ان امور کی مذمت کی ہے جو محفل میلاد کے ارد گرد چھاجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام کی ابتداء میں یہ وضاحت کردی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام کیے جائیں۔ نیکیاں، صدقات اور خیرات کثرت سے کیے جائیں۔ میلاد پاک کا یہ عمل وہ ہے جسے ہم نے عمدہ سمجھا ہے اس میں قرآن پاک کے پڑھنے کے علاوہ اور کھانا کھلانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ یہ بھلائی نیکی اور قربت کا ذریعہ ہے۔انہوں نے آخر میں جو بدعت کہا ہے تو پھر یہ یا تو سابقہ تفصیل کے متناقض ہوگا۔ یا اس سےمراد بدعت حسنہ ہوگی یا اسے اس امر پر محمول کیا جائے گاکہ ایسے امور بجالانا بھلائی ہے جبکہ میلاد کی نیت کرنا بدعت ہے جیسے کہ انہوں نے کہا کہ یہ نفس نیت کے اعتبار سے بدعت ہے کیونکہ اسلاف کرام میں سے کسی نے میلاد کی نیت نہیں کی تھی۔ کلام کا ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے فقط میلاد کی نیت کرنامکروہ سمجھا ہے کھانا کھلانے اور احباب کو دعوت دینے کو مکروہ نہیں سمجھا۔ اگر اسے ان کے کلام کے ابتدائی حصہ سے ملایا جائے جس میں انہوں نے بھلائی کے کاموں پر ابھارا ہے تاکہ ہم پرکی گئی اس نعمت کبریٰ کا شکر ادا ہوسکے جو رب تعالیٰ نے سید المرسلین کی صورت میں فرمائی ہے اور میلاد کی نیت کا یہی معنی ہے۔ وہ اس عمل کی مذمت کیسے کرسکتے ہیں حالانکہ پہلے انہوں نے اسی کی ترغیب دی ہے۔نیت کے بغیر بھلائی کے امور کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر تصورہو بھی سکے تو پھر وہ عمل نہ تو عبادت ہوگا اور نہ ہی اس پر اجر وثواب ملے گا۔ کیونکہ نیت کے بغیر کوئی عمل نہیں ہوتا۔ اس مبارک عمل میں نیت یہی ہے کہ انسان رب تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس مبارک مہینہ میں حضور کو پیدا فرمایا ۔ یہ ایک مستحسن نیت ہے۔34
شیخ شامیکے مذکورہ بالا اقتباس میں میلاد النبی کے استحسان واستحباب کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ میلاد النبی اللہ تبارک وتعالیٰ کاشکر ادا کرنا ہے کہ باری تعالیٰ نے مومنین اور اپنی تمام مخلوق کونبی کریم کی ولادت و بعثت کے ذریعہ اپنی عظیم نعمت سے مشرف ومکرم فرمایا ہے اور اس پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی پابندی اورقرب الہٰی کا باعث و ضامن ہے۔
اسی طرح ایک اور عظیم محدث شیخ عبد اللہ ہرری نے بھی میلاد النبی کے جواز و استحسان کو اپنی ایک کتاب"الروائح الزکیۃ فی مولد خیر البریۃصلى اللّٰه عليه وسلم "میں تحریر کیا ہے۔انہوں نے اگر چہ کہ میلاد النبی کی ابتداء کو ساتویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بیان کیا ہے لیکن اس سے مراد مروجہ طرز میلاد ہی لیاجائے گا کیونکہ اس کی اصل کو کئی فقہاء و محدثین نے دور نبوی اور دور صحابہ کرام سے اخذ کیاہے۔ 35 تاہم شیخ عبد اللہ ہرری میلاد النبی کو بدعت حسنہ میں شمار کرتےہیں اور اس کو ایک حدیث رسول سے استنباط کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
ان الاحتفال بالمولد النبوى بدعة حسنة فلاوجه لانکاره بل ھو جدیربان یسمى سنة حسنة لانه من جملة ماشمله قول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من سن فى الإسلام سنة حسنة، كان له أجرھا، وأجر من عمل بھا من بعده من غير أن ينتقص من أجورھم شىء وان كان الحدیث واردا فى سبب معین وھو ان جماعة ادقع بھم الفقر جاءوا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وھم یلبسون النمارمجتبیھا اى خارق وسطھا فامر الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم بالصدقة فاجتمع لھم شئى كثیر فسر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لذلك فقال من سن فى الاسلام... الحدیث، وذلك لان العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب كما ھو مقرر عند الاصولیین ومن انكر ذلك فھو مكابر.36
بلا شبہ میلاد النبی منانا بدعۃ حسنۃ ہے لہٰذااس کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے بلکہ میلاد شریف سنت حسنہ کہلائے جانے کا مستحق ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ کے اس فرمان میں شامل ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا : " جس نے اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کے بعد اس پر جو لوگ عمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا بغیر ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کسی کمی کے"۔اگرچہ یہ حدیث ایک خاص سلسلے میں وارد ہوئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ فقر و فاقہ میں مبتلا ایک جماعت اللہ کے رسول کے پاس آئی، وہ لوگ پھٹے ہوئے اور انتہائی بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھے، اللہ کے رسول نے ان کے لیےصدقہ جمع کرنے کا حکم دیا تو بہت سارا سامان جمع ہوگیا، جس سے حضور بہت خوش ہوئے اور مذکورہ فرمان بیان فرمایا۔لیکن اس حدیث کا حکم اس واقعے سے مخصوص نہیں ہوسکتاکیونکہ اعتبار عمومِ لفظ اور عمومِ حکم کا ہوتا ہے خصوصی سبب کا نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ اصولیین کے نزدیک طے شدہ ہے اور جو اس کا انکار کرے وہ ہی جھگڑالو ہے۔ 37
اس مذکورہ بالا عبارت سےو اضح ہواکہ میلاد النبی منانا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا جائز بلکہ مستحب ہے اور کئی محدّثین وفقہائے امت کے نزدیک اس کی اصل قرآن و حدیث میں بھی موجود ہے لہذا اس کےجواز کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
ان تمام مذکورہ محدثین کی عبارات و اقتباسات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نبی مکرم کا میلاد منانا باعث اجر وثواب اور قرب الہی کا سبب ہے۔یہ تعظیمِ مصطفیٰ کی علامت ہے اور امت مسلمہ کے عوام و خواص اس کو نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ومستحب سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ ہر دور میں میلاد النبی کو اس کے شایان شان طریقہ اور مناسب طرزو انداز کے ساتھ مناتی چلی آرہی ہے اور اس کے جواز و استحسان میں تمام مسلمان متفق ہیں اور بالخصوص محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے اس کے جواز و استحسان کو کئی دلائل وبراہین کی روشنی میں اپنی کتبِ مولود اور رسائلِ مولود میں ثابت کیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کےلیے کافی ہے کہ امت مسلمہ کے ہر دور کے خواص وعوام میلاد النبی پر خوشی ومسرت کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔