Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

میلاد النبی ﷺ محدّثین کی نظر میں

Published on: 22-Mar-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان، مفتی سیّد شاہ رفیع الدین ہمدانی، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:20، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 557-575)

امت محمدیہ sym-1قرآن مجید میں موجود ذکرِ میلاد النبی sym-11 اور خود رسول مکرم sym-1کے2 اپنے احوالِ ولادت کے تذکرہ 3کرنے اور اس پر خوشی کے اظہار کرنے4کے سبب اپنے اوائل دور ہی سے5نبی مکرم sym-1کے میلاد کو باعث اجرو ثواب اور خیر مانتی چلی آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ جہاں عام اہل اسلام اس کو مناتے چلے آرہے ہیں وہیں خواص اہل ایمان اس پر کتب و رسائل تحریر کرتے آرہے ہیں 6 اور خاص کر محدثین کرامsym-4نے تو اپنی کتبِ حدیث و سیرت میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر لکھا ہے اور میلاد النبی sym-1کے جواز و استحسان کو ثابت کیا ہے ۔ ان میں سے مشہور ترین حضرات محمد بن اسحاق ، محمد بن عمر واقدی اورمحمد بن سعد ، امام حافظ ابوعبداللہ محمد بن عائذ قرشی ، امام حافظ ابوبکر احمد بن ابی عاصم شیبانی کی مولود النبی sym-1کے موضوع پرتصانیف سب سے پہلے منصّہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں7 لیکن یہ کتب مولودنایاب یا انتہائی کمیاب ہیں۔

امام ترمذیsym-4 اور میلاد النبیﷺ

محدّثین میں سے سب سے پہلے میلادالنبی sym-1کے حوالے سے باقاعدہ باب قائم کرکے کتبِ حدیث میں روایت کا تذکرہ کرنے کا سہراامام محمد بن عیسیٰ الترمذیsym-4کے سر ہے ۔ حافظ محمدبن عیسی ترمذی نے اپنی کتاب"جامع ترمذی" میں ایک باب"باب ماجاءفی میلاد النبی صلى اللّٰه عليه وسلم"قائم کرکے اس کے تحت ایک حدیث ذکر کی ہے چنانچہ آپsym-4اس حدیث کونقل کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں:

عن المطلب بن عبداللّٰه بن قیس بن مخرمة عن ابیه عن جده قال ولدت انا ورسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عام الفیل قال وسال عثمان ابن عفان قباث ابن اشیم اخا بنى یعمر بن لیث اانت اكبر ام رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم فقال: رسول اللّٰه اكبر منى وانا اقدم فى المیلاد.8
مطلب بن عبد اللہ بن قیس بن مخرمہ اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں اور رسول اللہ sym-1عامل الفیل(یعنی ہاتھیوں والے سال )پیداہوئے۔حضرت عثمان ابن عفان sym-5 نے بنو یعمر بن لیث کے بھائی قباث ابن اشیم سے پوچھا کہ تم بڑے ہویا رسول اللہ sym-1تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ sym-1ہی بڑے ہیں البتہ میں پہلے پیدا ہوں۔

امام ترمذیsym-4 کے علاوہ محمد بن بغدادی نے اپنی کتاب"الشریعۃ" میں اس موضوع پر ایک باب رقم فرمایا ہے۔جس کا نام "باب ذکر مولد رسول اللہ صلى اللّٰه عليه وسلم ورضاعہ ومنشئہ الی الوقت الذی جاءہ صلى اللّٰه عليه وسلم الوحی" رکھا ہے۔جس میں اس موضوع سے متعلق چار احادیث ذکر فرمائی ہیں جن ميں خود نبی مکرم sym-1نے بنو عامر کے ایک بوڑھے کے اس سوال کے جواب میں اپنی ولادت کے احوال ،شق صدر ،حضرت ابراہیمsym-9 کی دعا،حضرت عیسٰیsym-9 کی بشارت اور حضرت سیدہ آمنہ sym-6 کے اس خواب کا بھی ذکر فرمایا کہ جس میں انہوں نے آپ sym-1کی ولادت کے وقت نکلنے والے نور کی روشنی میں شام کے محلا ت دیکھے تھے۔ 9

اسی طرح حافظ ابن سعد نے اپنی کتاب "سنن النبیّ صلى اللّٰه عليه وسلم وایّامہ" میں اگرچہ اس موضوع پر مستقل کوئی فصل قائم نہیں کی تاہم ایک حدیث مبارکہ"باب فی شق صدرہ فی صغرہ صلى اللّٰه عليه وسلم "کے تحت تحریر فرمائی ہےاور متعلقاتِ موضوع پر بھی کئی فصول قائم فرماکراس موضوع پرروشنی ڈالی ہے۔10

ان مذکورہ بالا تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ میلاد النبی sym-1کی اصل چونکہ خود نبی مکرم کا عمل مبارک اور صحابہ کرام sym-8کی سنت ہے اسی وجہ سے علماء محدثین نے اس موضوع کو اپنی اپنی کتب حدیث میں نقل کیا ہے اور اس پر مولد النبی sym-1کے جلی عنوان سے باب قائم کیے ہیں۔

میلاد النبیﷺامام ابو شامہ sym-4 کی نظر میں

اسی طرح ایک اور عظیم محدث شیخ ابو شامہ جو کہ شارح مسلم امام نووی sym-4 کے شیخ و مربی ہیں اور انہوں نے اس میلاد النبی sym-1کو تعظیمِ رسول sym-1اور شکر الہٰی کا ذریعہ قراردیا ہے چنانچہ شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی sym-4 شیخ ابو شامہ کے حوالہ سے رقمطراز ہیں:

قال الامام ابو شامة شیخ النووى ومن احسن ما ابتدع فى زماننا ما یفعل كل عام فى الیوم الموافق لیوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم من الصدقات والمعروف واظھار الزینة والسرور فان ذلك مع مافیه من الاحسان للفقراء مشعر بمحبة النبى صلى اللّٰه عليه وسلم وتعظیمه فى قلب فاعل ذلك وشکر اللّٰه على مامنّ به من ایجاد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم الذى ارسله رحمة للعالمین.11
امام نووی محی الدین sym-4کے استاد محترم امام ابو الشامہ sym-4فرماتے ہیں کہ ہمارے دور کا نیا کام حضور sym-1کے یومِ ولادت کی مناسبت سے صدقات و نیکیوں کی کثرت،زیب وزینت اور خوشی کا اظہارکرنا ہے کہ اس میں فقراء کے لیے فائدہ اور نبی کریم sym-1سے محبت کا اظہار اور ساتھ ہی اس عمل کے سر انجام دینے والے کے دل میں جو تعظیم رسول مکرم sym-1ہے کا اظہار بھی ہے۔اللہ ﷻکا اس احسان پر جو اس نے اپنے رسول مکرم sym-1کو مبعوث فرماکر اور عالمین کے لیے رحمت بنا کر کیاہے اس پر شکر ادا کرنا بھی ہے۔

اس مذکورہ بالا عبارت سے بھی بخوبی واضح ہوتا ہے کہ شیخ ابو شامہ میلاد النبی sym-1کے استحسان کے قائل ہیں اور انہوں نے جو اس کو بدعت حسنہ سے تعبیر کیا ہے تو یہ اصل میلاد النبی sym-1کو نہیں کہا بلکہ اس کے مروجہ ثقافتی طرز کو کہا ہے جو کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ثقافتی لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے جس سے اصلِ میلاد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

میلاد النبی ﷺامام ابن جوزی sym-4کی نظر میں

انہی محدثین میں سے ایک عظیم محدث شیخ امام ابن جوزی sym-4بھی ہیں جنہوں نے اس موضوع پر بھی تحریرکیا ہے اور اس میں میلاد النبی sym-1کے جواز واستحسان کو ثابت کیا ہے چنانچہ آپ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

وكان یسبح اللّٰه فى بطنھا سرا وجھرا فسبحان من خلق ھذا النبى الكریم سلطان الأنبیاء ورفع له فى الملکوت قدرا وذكرا وجعل لمن فرح بمولده حجابا من النار وسترا ومن أنفق فى مولدہ درھما كان المصطفى صلى اللّٰه عليه وسلم له شافعا ومشفعا وأخلف اللّٰه علیه بكل درھم عشرا فیا بشرى لكم أمة محمد لقد نلتم خیرا كثیرا فى الدنیا وفى الأخرى فیا سعد من یعمل لأحمد مولدا فیلقى الھناء العز والخیر والفخر ویدخل جنات عدن بتیجان من در تحتھا خلع خضرا ویعطى قصوراً لاتعد لواصف وفى كل قصر حوریة عذرا فصلوا على خیر الأنام صلى اللّٰه عليه وسلم فقد نشرت الحسنى بمولده نشرا وكل من صلى علیه مرة یجازیه ربنا بھا عشرا. 12
ولادت باسعات کی مبارک گھڑیوں سے بھی پہلے آپ sym-1حضرت آمنہ sym-6کے شکم انور میں اﷲ سبحانہ کی تسبیح وتقدس بیان فرماتے تھے۔ پس پاک ہے وہ ذات کہ جس نے ایسے نبی کریم sym-1کی ذات اطہر کو عدم سے منصہ شہود پر لاکر آپ sym-1کا ظہور فرمایا جو بلاشبہ اور لاریب سلطان الانبیاء sym-1ہیں اور اﷲ جل مجدہ نے حضور پر نور sym-1کی قدر ومنزلت اور ذکر ونعت پاک کو ملکوت میں بلند وبالا اور مرتفع فرمایااور ہر اس مسلمان کے لیے جہنم کی دہکتی بھڑکتی آگ سے پردہ وستر بنایا کہ جو حضور پر نور sym-1کی ولادت باسعادت سے مسرور وخوش ہوتا ہے اور عید میلاد النبی کا انعقاد کرتا ہے۔ جس نے حضور sym-1کے میلاد میں ایک درھم خرچ کیا تو حضرت احمد مصطفی sym-1 اس کے لیے شافع و مشفع ہوں گے اور میلاد میں خرچ کئے گئے ہر درھم کے عوض اﷲ سبحانہ، اس کو دس درھم زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔لہٰذا اے امت محمد sym-1! بلاشبہ تمہیں بشارت اور مبارک ہو کیونکہ تم نے حضور نبی معظم sym-1کا امتی بن کر دنیا وآخرت میں خیر ِکثیر پالی ہے۔ اور تم اس نعمت غیر مترقبہ کے مستحق ہوئے ہو۔کس قدر خوش قسمت وخوش نصیب ہے وہ شخص جو حضور احمد مجتبیٰ sym-1کی میلادِ مبارکہ کی عید مناتا اور جلسوں کا انعقاد کراتا ہے۔ یوں وہ اپنے لیے بے انتہا خوشیاں وفرحتیں سمیٹتا ،بے پناہ عزت وقار اور منزلت حاصل کرتا ، خیر کثیر حاصل کرتا اور فخر لایزال کا مستحق قرار پاتا ہے ۔اسی طرح جنّت عدن کا بجا طور پر استحقاق پاتا اور عمدہ باغوں میں ایسا تاج پہن کر وار دہوتا ہے جو موتیوں سے جڑاہوا ہوتا ہے۔ ان موتیوں کے نیچے سبز وشاداب عمدہ خلعتیں ہوتی ہیں ۔اس کو اتنی مقدار میں محلات اور شاندار مکانات بخش دئیے جاتے ہیں کہ جو تعریف کرنے والوں کی تعریف سے ماوراء ہیں۔ان سب کے ساتھ ساتھ ہر ایک محل میں ایک پاکباز نیک خوبصورت ترین حور ہوتی ہے پس سب بکثرت بارگاہ خیر الانام sym-1میں صلوٰۃ وسلام پیش کرو کیونکہ آپ sym-1کی ولادت باسعادت کے باعث نیکیاں اور اچھائیاں وبھلائیاں پھیلائی گئی ہیں۔ اور جو شخص آپ sym-1کی بارگاہِ اقدس میں ایک مرتبہ صلوٰۃ وسلام پیش کرتا ہے اﷲ اس کا اجر دس گنا زائد عطا فرماتا ہے۔13

اسی طرح ابن جوزی نے اپنی ایک اور کتاب میں میلاد النبی sym-1کےمختلف ممالک اسلامیہ میں منائے جانے کے حوالہ سے نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہےکہ یہ عملِ حسن، مصر ، یمن ،شام،تمام بلاد عرب اور تمام مشرق ومغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری و ساری ہے۔14اسی طرح ایک اور مقام پرامام ابن جوزیsym-4نبی کریم sym-1کی ولادت کے بارے میں اشعار کہتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

یا مولد المختار کم لک من ثنا
ومدائح تعلو وذکر یحمد
یا لیت طول الدھر عندی ذکرہ
یا لیت طول الدھر عندی مولد
وضعتہ مسرورا ومختونا کما
قد جاء فی الأخبار حقا مسند
السعد أقبل والسرور المنجلی
بأتم بدر فی ربیع الأول .15

اے مختار ومصطفی sym-1کی ولادت وعید میلاد آپ کے لیے بہت ہی ثنا ومدح اور تعریف ہے۔ اور بے شمار مدائح وثنا ہیں جو کہ بلند وبالا اور اعلیٰ ہیں اور آپ sym-1کا ذکر وہ ذکر ہے کہ جس کی ازحد مدح وثنا اور تعریف وتوصیف کی جاتی ہے۔اے کاش ایک طویل عرصہ تک میرے پاس حضور پر نور sym-1کی میلاد مبارکہ کا تذکرہ ہوتا۔ اور اے کاش میری ساری زندگی میں محض حضور پرنور sym-1کی میلاد کا تذکرہ ہوتا اور جیسے کہ اخبار حقہ میں یہ روایت مستند ہے کہ سیدہ حضرت آمنہ امینہ نے حضور پر نور sym-1کی ذات گرامی قدر کو جنا تو آپ sym-1(اس وقت)ناف بریدہ اور مختون تھے۔خوش بختی اور خوش قسمتی آپہنچی اور سرور وفرحت واضح وآشکارا ہوگئی۔ وہ یوں کہ ربیع الاول شریف میں چودھویں کا چاند طلوع ہوگیا .16

ان دونوں عبارتوں کے اقتباس سے یہ صاف ظاہر ہورہا ہے کہ میلاد النبیsym-1 منانا جائز ہے اور امام ابن جوزیsym-4اس میلاد کو خوشی ومسرت کا سب سے بڑا موقع قراردیتے ہیں۔

میلاد النبی ﷺسبط ابن جوزی sym-4کی نظر میں

اسی طرح ایک اور محدث جو امام ابن جوزی sym-4کے نواسے تھے اور سبط ابن جوزی کے نام سے مشہور ومتعارف ہیں انہوں نے بھی اپنی کتاب میں اس عمل مولد کے جواز و استحسان کے پیش نظر شاہ اربلsym-4کی محفل میلاد کو تفصیل سے لکھا ہے چنانچہ آپ اس محفل میلاد کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

وكان يعمل فى كلِّ سنة مولد النَّبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى ربيع الأول يجتمع فيه أھلُ الدُّنيا ومن وراء جيحون العلماء والفقھاء والوُّعَّاظ والقُرَّاء والصُّوفية والفقراء ومن كل صِنْف وتضرب الخيام فى المَيدان، وينزل من القلعة بنفسه، فيقرأ القُرَّاء ويعظ الوعَّاظ، ويمدُّ سِماطًا أوله عنده وآخره فى القلعة، ويحضر الخلائق فلا يبقى إلا مَنْ يأكل ويحمل.17
وہ ہرسال ربیع الاوّل میں میلاد النبیsym-1 کی محفل منعقد کرتا تھا۔جس میں دنیا داروں کے ساتھ ساتھ ماورائے دریائے جیحون کے متبحر علماء و فقہاء اورخطباء و قرّاء،مشائخ و فقراء بھی جمع ہوتے ۔ہر شعبہ زندگی کے افراد بھی شریک محفل ہوتے ۔میدان میں خیمیں لگادیے جاتے اور بادشاہ بنفس نفیس قلعہ سے نیچے اترآتا پھر قرّاء قراءت کرتے اور خطباء خطابت کرتےپھر خوانِ طعام بچھادئے جاتےجس کا اول حصہ بادشاہ کی طرف ہوتااور آخری حصہ قلعہ کی طرف ہوتا۔تمام رعایا اس محفل میں شریک ہوکر کھانا تناول کرتی اور خدام کھانا چنتے۔

اسی طرح اپنی کتاب میں ایک اور مقام پرسبط ابن جوزی اس حوالہ سے مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

حكى لى مَنْ حَضَرَ بعض السِّنين: عددتُ على السِّماط وخمسة آلاف رأس شواء وعشرة آلاف دجاجة، ومئة ألف زبدية، وثلاثين ألف صحن حلو، ثم يخلع فيه على الأعيان، وتفرق فيھم الأموال على أقدارھم، ولا يحضرھذا السِّماط أحدٌ من عسكره، إلا أرباب الحرف، ثم يقوم من الميدان، فيدخل الخانقاه وقد اجتمع فيھا من الصوفية ما بين ثمان مئة إلى ألف، فيأخذون فى السَّماع وھو يرقص بينھم، فإذا كان من الغد بعث إليھم من يكتب أسماءھم، وكل شيخ ومعه جماعة، فيعطى المشايخ على قدر طبقاتھم ولأتباعھم على حدة، ومن شاء أن يسافر، ومن شاء أن يقيم أيامًا. 18
جو اس محفل میں کئی سال تک حاضر ہوتا رہا،اس نے مجھے بتایا کہ میں نے اس خوانِ طعام پر پانچ لاکھ بھنے ہوئے سروں،دس ہزار مرغیوں ،ایک لاکھ مکھن کے پیالوں اور تیس ہزار حلوے کے تھالوں کو بذات خود شمار کیاہے۔ معززین کو سب کے سامنے خلعت سے نوازا کرتا تھا ، ان کے مناصب کے مطابق مال تقسیم کیا کرتا۔اس خوان طعام پہ اس کی فوجوں میں سے کوئی ایک بھی شریک نہ ہوتا سوائے پیشہ ور ماہرین کے۔پھر وہ میدان سے کھڑا ہوکر خانقاہ میں جاتا جہاں صوفیاءآٹھ سو سے ہزار کی تعداد میں جمع ہوتے پھر وہ تمام سماع میں میں مشغول ہوجاتے اور بادشاہ بھی ان کے درمیان خوشی سے جھوم اٹھتا ۔پھر جب اگلی صبح ہوتی تو بادشاہ ان کے پاس ایک کاتب بھیجتا جو ان کے نام لکھتا۔ہر شیخ کے ساتھ اس کی جماعت ہوتی،پھر وہ مشائخ کو ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق دینار دیتا ا ور ان کے متبعین کو علیحدہ سے نوازتا۔اس کی طرف سے اس کی اجازت ہوتی کہ جو چاہے چلا جائے اور جو چاہے مزید رکے ۔

اس محفل میلاد النبی sym-1کی تفصیل اور اس میں سر انجام دیے جانے والے افعال كو شيخ سبط ابن جوزیsym-4نے شاہ اربلsym-4کے حسنات میں بیان کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ شیخ سبط ابن جوزی بھی اپنے محترم نانا شیخ ابن جوزیsym-4کی طرح میلاد کے جواز کے قائل ہیں اور اس کو اچھا سمجھتےہیں کیونکہ اگر اس بارے میں انہیں کسی قسم کا اختلاف ہوتا تو اسے وضاحت کے ساتھ لکھتے جبکہ شاہ اربل sym-4کے اس فعل کو انہوں نے حسنات میں بیان کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ میلاد النبی sym-1کی محفل باعث اجرو ثواب ہے۔

میلاد النبی ﷺامام ابن حجر عسقلانی sym-4کی نظر میں

اسی طرح ایک اور جلیل القدر محدث شارح بخاری اور فن حدیث کے ماہر عالم شیخ ابن حجر عسقلانی sym-4 بھی اس عمل میلاد کی مروجہ طرز کو بدعتِ حسن قرار دیتے ہیں لیکن اس کی اصل کوخود ہی ایک حدیث مبارکہ سے ثابت کرتے ہیں چنانچہ شیخ امام یوسف صالحی شامیsym-4 امام ابن حجر عسقلانیsym-4 کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:

وقال الحافظ رحمه اللّٰه تعالى أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة ولکنھا مع ذلك قد اشتملت على محاسن وضدّها فمن تحرّى فى عمله المحاسن وتجنّب ضدّها كان بدعة حسنة ومن لا فلا قال: وقد ظهر لى تخریجها على أصل ثابت، وهو ما ثبت فى الصحیحین من أن رسول اللّٰه قدم المدینة فوجد الیھود یصومون عاشوراء فسألهم فقالوا: هذا یومٌ أغرق اللّٰه فیه فرعون وأنجى فیه موسى فنحن نصومه شکرا للّٰه تعالى فقال: أنا أحق بموسى منکم. فصامه وأمر بصیامه فیستفاد من فعل ذلك شکراللّٰه تعالى على ما من به فى یوم معین من إسداء نعمة أو دفع نقمة، ویعاد ذلك فى نظیر ذلك الیوم من كل سنة، والشکر للّٰه تعالى یحصل بأنواع العبادات والسجود والصیام والصدقة والتلاوة، وأى نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبى الكریم نبى الرحمة فى ذلك الیوم؟وعلى هذا فینبغى أن یتحرّى الیوم بعینه حتى یطابق قصة موسى فى یوم عاشوراء، ومن لم یلاحظ ذلك لایبالى بعمل المولد فى أى یوم من الشهر، بل توسّع قوم حتى نقلوه إلى اى یوم من السّنة. وفیه مافیه.فهذا مایتعلق بأصل عمل المولد.وأما ما یعمل فیه فینبغى أن یقتصر فیه على مایفھم الشکر للّٰه تعالى من نحو ما تقدم ذكره من التلاوة والإطعام والصدقة وإنشاد شىء من المدائح النبویة والزّهدیةالمحرّكة للقلوب إلى فعل الخیرات والعمل للآخرة وأما ما یتبع ذلك من السماع واللّٰهو وغیر ذلك فینبغى أن یقال ما كان من ذلك مباحاً بحیث یتعیّن السرور بذلك الیوم لا بأس بإلحاقه به، ومهما كان حراما أو مكروها فیمنع وكذا ما كان خلافاً للأولى. انتھى. 19
الحافظ (ابن حجر عسقلانی sym-4) نے لکھا ہے کہ عمل میلاد کی اصل بدعت ہے۔ قرون ثلاثہ کے کسی فرد سے یہ منقول نہیں ہے لیکن یہ محاسن اور ان کی ضد پر مشتمل ہے۔ جو یہ عمل محاسن کے لیے کرتا ہے،ان کی ضد سے بچتا ہے، تو یہ بدعت حسنہ ہے ورنہ نہیں۔ لیکن میرے نزدیک اس کی اصل ثابت ہے جو صحیحین میں ہے کہ جب حضور sym-1مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ sym-1نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ جب آپ sym-1نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے عرض کی کہ اس روز رب تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کیا۔ حضرت موسیٰsym-9 کو نجات دی۔ ہم رب تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، روزہ رکھتے ہیں۔ آپ sym-1نے فرمایا :میں تم سے زیادہ موسیٰ sym-9کا حقدار ہوں۔ آپ sym-1نے خود بھی روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جس نے یہ عمل شکر ادا کرتے ہوئے کیا کہ اس دن میں رب تعالیٰ نے اس پر نعمت کی یا اس سے عذاب دور کیا تو وہ ہرسال اس دن میں یہ عمل کرے گا۔رب تعالیٰ کا شکر مختلف طریقوں سے ادا ہوتا ہے۔ شکرِ عبادات، سجود، قیام، روزہ، صدقہ اور تلاوت کرکے ادا کیا جاسکتا ہے۔ حضور اکرم sym-1سے بڑی نعمت اور کون سی ہے جو اس دن ملی جب میلاد پاک منایا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان کوشش کرے کہ اسی روز محفلِ میلاد منعقد کرے جس روز آپ sym-1پیدا ہوئے تھے تاکہ حضرت موسیٰ کے قصہ کے ساتھ مشابہت پیدا ہوسکے۔ جو یہ امر پیش نظر نہ رکھے اس کے لیے روا ہے کہ وہ اس ماہ مبارک کے جس دن چاہے میلاد کرائے بلکہ علماء نے اس میں اتنی وسعت دی ہے کہ وہ سال کے جس دن میں چاہے محفل میلاد کرالے۔ یہ روایت میلاد مبارک منانے کی اصل ہے البتہ ان محافل میں ایسے امور سرانجام دینے چاہئیں جن سے رب تعالیٰ کا شکر ادا ہوسکےمثلاً تلاوت کرنا، کھانا کھلانا، صدقہ دینا، نعتیں پڑھنا،ایسے اشعار پڑھنا جو دلوں کو عمدہ کام کرنے پر ابھاریں۔ آخرت کی ترغیب دیں لیکن سماع وغیرہ کے لیے مناسب ہے کہ وہ مباح کے دائرہ میں ہو۔ اس حیثیت سے اس دن مسرت کا اظہار ہو لیکن حرام یا مکروہ سماع اور اسی طرح خلاف اولیٰ کام بہر حال ممنوع ہیں۔ 20

اسی طرح شیخ امام ابن حجر عسقلانی sym-4 کے حوالے سے شیخ امام اسماعیل حقی sym-4نے بھی ا س بات کو تحریر کیا ہے کہ عمل میلاد کی اصل سنت رسول sym-1ہے چنانچہ آپ sym-4کے حوالہ سے شیخ اسماعیل حقی sym-4تحریر فرماتے ہیں:

أصلا من السنة.21
اس(میلاد شریف) کی اصل سنت سے ہے۔

مذکور ہ بالا دونوں عبارات میں ابن حجر عسقلانی sym-4نے خود اس عملِ مولد کی اصل ثابت فرمائی ہے اور اس میں ہونے والے منکرات سے احتراز کو لازمی قراردیا ہے جس سے واضح ہوتا ہےکہ یہ عمل میلاد النبی sym-1جائز و مستحسن ہے اور اس میں منکرات ومنہیات کی آمیزش سے احتراز لازمی ہے۔

میلاد النبیﷺشیخ ابن ناصر الدین دمشقی sym-4کی نظر میں

اسی طرح ایک اور جلیل القدر محدث شیخ امام شمس الدین ابن ناصر الدین دمشقیsym-4نے بھی اسی میلاد النبی sym-1کے موضوع پر ایک کتاب "جامع الآثار فی سیرۃ مولد المختارصلى اللّٰه عليه وسلم "تحریر فرمائی ہے جس میں انہوں نے میلاد النبی sym-1کو عمل اسعد یعنی انتہائی سعادتمندی والا عمل قرار دیا ہے اور اس میں مختلف ممالک اسلامیہ میں ہونے والی محافل میلاد النبی sym-1کا تذکرہ کیاہے اور ساتھ ہی ساتھ خصوصی طور پر شاہ اربلsym-4کے میلاد کی محفل کو تفصیلی طور پر تحریر کیا ہے اور اس محفل کے تمام پہلوؤں کو تفصیلاً قلمبند کیاہے چنانچہ شیخ علامہ شمس الدین ابن ناصرالدین دمشقی sym-4شاہ اربل کی محفل میلاد کے حوالہ سے اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

ولقد بلغنا عمن رأى تلك الولیمة السنیة انه كان مرة على المائدة...مائة الف اناء من الطعام...وكان فیما بلغنا ان اھل تلك النواحى والبلاد كالجزیرة وسنجار ونصیبین والموصل وبغداد من الفقھاء والوعاظ والقراء والصوفیة والرؤساء والشعراء یسعون فى كل سنة الى اربل لحضور ذلك الوقت المفضل من مستھل المحرم الى اوائل شھرربیع الاول. 22
ہر سال منعقد ہونے والی اس سالانہ دعوت میں حاضر ہونے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ دستر خوان پر دیگر چیزوں کے ساتھ انواع و اقسام کےسو(100) کھانے چنے گئے تھے۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس شہر اور اس مضافات کے ارد گرد کے شہروں مثلاًجزیرہ،سنجار،نصیبین،موصل اور بغداد کے فقہاء،خطباء،قراء ،صوفیا،عمائدین اور شعراءاربل بادشاہ کی طرف اس محفل مبارکہ میں شریک ہونے کے لیے ہر سال آیا کرتے تھے۔محرم الحرام کی ابتداء سے ربیع الاوّل کے شروع تک جمع ہوتے تھے۔

اس عبارت میں انہوں نے شاہ اربل sym-4 کی محفل میلاد کا تذکرہ کیا ہے اور اس کو ذکر کرنے سے پہلے اس عملِ مولد کو سعادتمندی والا عمل قرارد ے کے اس کے مستحب ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔

میلاد النبی ﷺاما م سخاوی sym-4کی نظر میں

اسی طرح ایک اور جلیل القدر محدث شیخ امام سخاوی sym-4نے اپنے فتاویٰ میں میلاد النبی sym-1کی مروجہ طرز کو بدعت حسنہ قرار دیا ہے اور اس کے بعد اس عمل پر مسلمانوں کے اجماع کو بیان کیا ہے چنانچہ آپsym-4کےحوالہ سے شیخ یوسف صالحی شامی sym-4تحریر فرماتےہیں:

عمل المولد الشریف لم ینقل عن أحد من السلف الصالح فى القرون الثلاثة الفاضلة، وإنما حدث بعد، ثم لا زال أھل الإسلام فى سائر الأقطار والمدن الكبار یحتفلون فى شھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم بعمل الولائم البدیعة المشتملة على الأمور البھجة الرفیعة ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون السرور ویزیدون فى المبرّات ویعتنون بقراء ة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم.23
میلاد پاک کا عمل تیسری صدی کے اسلاف صالحہ میں سے کسی سے بھی منقول نہیں۔ اس پر بعد میں عمل ہونے لگا۔ پھر سارے شہروں اور اطراف واکناف میں لوگ آپ (sym-1) کی ولادت کے مہینے میں میلاد کی محفل سجاتےہیں۔ بہت پر رونق دعوتیں کرتےہیں۔ وہ اس کی راتوں میں گوناگوں خیرات کرتے ہیں، وہ مسرت کا اظہار کرتے ہیں، وہ نیک کاموں میں زیادہ رغبت کرتے ہیں۔ میلاد پاک کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں ان پر عام فضل کا اظہار ہوتا ہے۔ 24

اسی طرح شیخ امام سخاوی sym-4کے حوالہ سے امام ملا علی بن سلطان القاری تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ سمندر جیسے علم کا عالم، صاحب فہم شمس الدین محمد السخاوی (اللہ ان کو مقامِ بلند تک پہنچائے) نے فرمایا کہ مکّہ مکرّمہ میں کئی سال تک میں محفل میلاد کی شرکت سے مشرف ہوا اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ محفل پاک کتنی برکتوں پر مشتمل ہے اور بار بار میں نے مقامِ مولد کی زیارت کی اور میری سوچ کو بہت فخر حاصل ہوا۔ 25

ایک اور مقام پر امام سخاوی sym-4کےمیلاد النبی sym-1کو مستحسن جاننے کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے شیخ ملا علی القاری تحریر فرماتےہیں:

قال السخاوى: وأما أھل مکة معدن الخیر والبركة فیتو جھون الى المكان المتواتر بین الناس أنه محل مولده ھو فى سوق اللیل ریاء بلوغ كل منھم بذلك المقصد ویزید اھتمامھم به على یوم العید حتى قلَّ أن یتخلف عنه أحد من صالح وطالح، ومقل وسعید سیما الشریف صاحب الحجاز ھدون توارِ وحجاز. قلت: الآن سیماء الشریف لاتیان ذلك المكان ولا فى ذلك الزمان، قال: وجود قاضیھا وعالمھا البرھانى الشافعى. رحمه اللّٰه تعالٰى اطعام غالب الواردین وكثیر من القاطنین المشاھدین فاخر الأطعمة والحلوى، ویمد للجھور فى منزله صبیحتھا سماطا جامعًا رجاء لكشف البلوى، وتبعه ولده الجمالى فى ذلك للقاطن والسالك. 26
امام سخاویsym-4 نے کہا کہ اہل مکّہ خیر و برکت کی کان ہیں، یہ سارے کے سارے لوگ ہمیشہ سوق اللیل میں واقع رسول اللہ sym-1 کے مقامِ ولادت پر تمام لوگوں کے ہمراہ جاتے ہیں اور ہر ایک اس مقصد کو حاصل کرتا ہے۔ عید کے دن اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی نیک یا بد اور کم نصیب یا سعادت مند پیچھے نہیں رہتا۔یہاں تک کہ حجاز مقدس کا گورنر بھی بلاناغہ حاضر ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اب شریف مکّہ کی اس جگہ اور اس وقت پر تشریف آوری نہیں ہوتی۔ اس نے کہا: کہ قاضی مکّہ وہاں کے عالم البرہانی الشافعی sym-4کا وہاں پرآنا اور آنے والوں کی اکثریت کو کھانا کھلانا اور بہت سارے لوگ جو صرف زیارت کے لیے آتے ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے اور مٹھائیاں دینا اور اس مقام پر میلاد کی صبح عوام کی مدد کرنا، اس امید پر کہ اس سے مصیبتیں ٹلتی ہیں، یہ جاری و ساری ہے۔ اس کے بیٹے الجمال نے اس سلسلے میں اس کی پیروی کی ہے، وہ غریب اور مسافر کی خبر گیری کرتا ہے۔ 27

تمام مذکورہ بالا عبارات سے واضح ہوا کہ شیخ امام سخاوی بھی میلاد النبیsym-1 منانے کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں اور اس عمل میں تمام مسلمانوں کے ساتھ شریک ہیں اور اس کے منانے کی وجہ سے انعام باری اور فضل خداوندی کے استحقاق کی امید رکھتے ہیں۔

میلاد النبیﷺشارحِ بخاری امام قسطلانیsym-4 کی نظر میں

انہی جلیل القدر محدثین میں ایک عظیم محدث جنہوں نے صحیح البخاری کی شرح کے ساتھ ساتھ نبی مکرم sym-1کی سیرت طیبہ پر بھی ایک معرکۃ الآراء تصنیف کی ہے وہ شیخ احمدبن محمد القسطلانی ہیں۔آپsym-4 نے نبی مکرم sym-1کی سیرت پر"المواھب اللدنیۃ بالمنح المحدیۃ"کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے اور اس میں نبی مکرم sym-1کے میلاد کی بابت جواز و استحسان کو رقم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تحریر کیا ہے کہ مسلمانانِ عالم میلاد النبی sym-1کو ہر دور میں مناتے چلے آرہے ہیں چنانچہ شیخ قسطلانی اس کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتےہیں:

ولا زال أھل الاسلام یحتفلون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ویعلمون الولائم ویتصدقون فى لیالیه بأنواع الصدقات ویظھرون الھرور ویزیدون فى المبرات و یعتنون بقراءة مولده الكریم ویظھر علیھم من بركاته كل فضل عمیم.28
ہمیشہ سے اہل اسلام نبی کریم sym-1کی ولادت باسعادت کے مہینے میں محافل میلاد کا اہتمام کرتے آئے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں اور ربیع الاوّل کی راتوں میں صدقات و خیرات کی تمام ممکنہ صورتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اظہار مسرت اور نیکیوں میں کثرت کرتے ہیں، میلاد شریف کے چرچے کیے جاتے ہیں، ہر مسلمان میلاد شریف کی برکات سے بہرحال فیض یاب ہوتا ہے۔

اس مذکورہ بالا عبارت کی شرح کرتے ہوئے"مواھب اللدنیہ" کے شارح علامہ زرقانی مالکی sym-4 تحریر فرماتےہیں:

والحاصل: ان عمله بدعة لكنه اشتمل على محاسن وضدھا فمن تحرى المحاسن واجتنب ضدھا كانت بدعة حسنة ومن لا فلا.29
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ عمل مولد شریف بدعت ہے لیکن یہ خوبیوں اور خامیوں دونوں پر ہی مشتمل ہے۔پس جو شخص خوبیوں کو سوچتا اور ان کو سر انجام دیتا ہے اور خامیوں سے اپنا دامن بچا لیتا ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور جو ایسا نہیں کرتا تو یہ بدعت حسنہ نہیں (بلکہ بدعت سیئہ)ہے۔

اسی طرح بعض لوگوں کے پیدا کردہ اشکال کہ مروجہ طرز میلاد نبی مکرم sym-1اور صحابہ کرامsym-7 کے دور میں سرانجام نہیں دیا گیا اس اشکال کو رفع کرتے ہوئے شیخ امام قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

أن الفعل يدل على الجواز، وعدم الفعل لا يدل على المنع .30
بلا شبہ کسی کام کا کرنا جواز پر دلالت کرتا ہے اور نہ کرنا عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا۔

یعنی اگرچہ کہ طرز میلاد رسول مکرم sym-1اور صحابہ کرام sym-7کے دور مبارک میں سرانجام نہیں دیاگیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ طرز اپنانا جائز نہیں ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ کسی کام کے کرنے سے اس کام کا جواز توثابت ہوجاتا ہے لیکن کام نہ کرنے سے عدمِ جواز ثابت نہیں ہوتا لہذا یہ میلاد اور اس کی مروّجہ صورتیں جائز ہیں۔

اسی طرح شارح مواھب علامہ زرقانی نے بھی اپنی کتاب کے ایک مقام پر اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ لوگ ان کے زمانہ یعنی دسویں صدی ہجری میں بھی محفل میلاد کا انعقاد جوش و خروش سے کیا کرتے تھےچنانچہ علامہ زرقانی مالکی sym-4 تحریر فرماتے ہیں:

يحتفلون يھتمون بشھر مولده صلى اللّٰه عليه وسلم ويعملون الولائم ويتصدقون فى لياليه بأنواع الصدقات، ويظھرون السرور به ويزيدون فى المبرات ويعتنون بقراءة قصة مولده صلى اللّٰه عليه وسلم الكريم، ويظھر عليھم من بركاته كل فضل عميم. 31
لوگ آج بھی میلاد النبی sym-1کے مہینہ میں اجتماعات و محافل اوردعوتوں کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔اس ماہ کی راتوں میں انواع واقسام کے صدقات و خیرات اور خوشی و مسرت کا اظہار ،کثرت سے نیکیاں اور مولود النبی sym-1کے واقعات کا خصوصی طور سے تذکرہ کرتے ہیں اور ان پر منجانب اللہ برکات اور بے پناہ فضل و احسان کا ظہور ہوتا ہے۔

شارح بخاری شیخ احمد قسطلانی اور شارح مواھب علامہ زرقانی ان دونوں ائمہ محدثین کی عبارت سے واضح ہوا کہ میلاد النبی sym-1منانا مسلمانوں کا طریقہ متواترہ چلتا آرہا ہےاور اہل ایمان اس موقع پر انتہائی خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں اور مختلف النوع صدقات و خیرات سے اس میلاد النبی sym-1کی خوشی کو مزید دوبالا کرتے ہیں جو کہ جائز و مستحب ہے اور اس میں کسی قسم کی کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔

میلاد النبیﷺشیخ ابن جزری sym-4 کی نظر میں

اسی طرح نویں صدی ہجری کے حافظ الحدیث جنہوں نے نبی مکرم sym-1کے میلاد پر ایک ضخیم کتاب لکھی اور پھر اس کی تلخیص "عرف التعریف بالمولد الشریف"کے نام سےکی وہ جلیل القدرمحدث شیخ امام حافظ شمس الدین ابو الخیر محمد بن محمد الجزریsym-4 ہیں ۔اس کتاب میں آپsym-4 نےنبی مکرمsym-1 کے نسب ،آپsym-1کی ولادت کے ابتدائی مراحل، استقرارِحمل مبارک، تاریخِ ولادت،دوران ولادت اور ولادت سے پہلے اور بعد میں رونما ہونے والے معجزات،آپsym-1کا عقیقہ،رضاعت،اسفار،بعثت،ہجرت الغرض مکمل سیرت نبویہsym-1 کو اختصار کے ساتھ قلمبند کیا ہے اور اس کے ابتدائی خطبہ میں ماہ ربیع الاول کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا ہے۔اسی طرح اس ماہ مبارک میں مسلمانان عالم کی خوشی ومسرت کو بھی بیان کیا ہے اور ا س کو عید کی طرح منانے کا تذکرہ بھی کیا ہےچنانچہ اس حوالہ سے شیخ حافظ محمد ابن جزری sym-4 تحریر فرماتے ہیں:

یخرج اھل مكة كل عام یوم المولدو یحتفلون بذلك اعظم احتفالھم بیوم العید وذلك الى یومنا ھذا وقدزرته وتبركت به عام حجتى سنة اثنین وتسعین وسبعمائة ورایت من بركته عظیما ثم كررت زیارته فى مجاورتى ثلاث وعشرین وثمان مائة... و قرء على كتابى: التعریف بالمولد الشریف وسمعه خلق لایحصون وكان یوما مشھودا.32
ہر سال اہل مکّہ میلاد النبی sym-1کے دن مولد شریف کی زیارت کے لیے نکلتے ہیں اوراس دن یوم عید سے بڑھ کر محفل منعقد کرتے ہیں،اس زمانہ تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے۔بلاشبہ میں نے بھی اپنے حج والے سال 792ھ میں اس مقامِ مقدس کی زیارت کی اورمیں نے اس میں عظیم برکات کا مشاہدہ بھی کیا۔میں 823ھ تک مسلسل اس مقامِ مبارک کی زیارت کرتا رہا۔۔۔اور مجھ پر میری کتاب التعریف بالمولد الشریف پڑھی گئی جسے بے شمار مخلوق نے سنااور یہ دن زیارت(مولد شریف) کا دن تھا۔

اس سے بھی واضح ہوا کہ شیخ ابن الجزریsym-4نہ صرف اس جلوس میلاد میں شریک تھے بلکہ اس میں آپ sym-1کی لکھی گئی کتاب کا درس بھی ہوا تھا اور اہل ایمان اسی طرح میلاد النبی sym-1کو مناتے چلے آرہے ہیں جس میں نبی مکرم sym-1کی ولادت کے احوال اور آپ sym-1کاتذکرہ کیا جاتا ہے اور اس عمل کو باعث خیر گردانا جاتا ہے۔

امام یوسف صالحى شامیsym-4 اور میلاد النبی ﷺ

اسی طرح ایک اور محدث جنہوں نے اپنی کتاب"سبل الھدی "میں اس موضوع کو تفصیلی طور پر قلمبند کیا ہے وہ شیخ امام یوسف صالحی شامی sym-4ہیں۔آپ sym-4نے میلاد النبی sym-1کے موضوع کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔جس کے لیے انہوں نے تقریباً تیرہ(13) ابواب قائم کیے ہیں اور ان ابواب میں کئی فصول میں میلاد النبی sym-1کے جواز و استحسان پر دلائل پیش کیے ہیں۔اس مروجہ طرز کی ابتداء اور دیگرممالک اسلامیہ میں اس کے لیے محافل کے انعقاد اور ان میں ہونے والے اعمال کو ذکرکیا ہے۔ متقدمین علماء عظام کے حوالوں اور ان کے اقتباسات سے میلاد النبی sym-1کے استحباب و استحسان اور اس کے باعث خیر اور قرب الہٰی کا سبب ہونے کو ثابت فرمایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ معترضین کے اعتراضات کو نقل کر کے ان کے جوابات کو بھی تحریر کیا ہے اور آخری باب میں جوابات نقل کرنے کے بعد اپنی تحقیقی مؤقف کو بھی قلمبند کیا ہے چنانچہ شیخ اما م یوسف صالحی شامی تحریر فرماتے ہیں:

وحاصل ما ذكره: أنه لم یذمّ المولد بل ذمّ ما یحتوى علیه من المحرّمات والمنكرات، وأول كلامه صریح فى أنه ینبغى أن یخصّ ھذا الشھر بزیادة فعل البرّ وكثرة الخیرات والصدقات وغیر ذلك من وجوہ القربات، وھذا ھو عمل المولد الذى استحسنّاہ، فإنه لیس فیه شىء سوى قراء ة القرآن وإطعام الطعام وذلك خیرٌ وبرّ وقربة. وأما قوله آخراً: إنه بدعة: فإما أن یكون مناقضاًَ لما تقدّم، أو أنه یحمل على أنه بدعة حسنة، كما تقدم تقریره فى صدر الباب، أو یحمل على أن فعل ذلك خیر والبدعة منه نیّة المولد كما أشار إلیه بقوله: فھو بدعة بنفس نیته فقط، ولم ینقل عن أحد منھم أنه نوى المولد فظاھر ھذا الکلام أنه كره أن ینوى به المولد فقط ولم یكره عمل الطعام ودعاء الإخوان إلیه. وھذا إذا حقّق النظر یجتمع مع أول؛ كلامه لأنه حثّ فیه على زیادة فعل البر وما ذكر معه على وجه الشكر للّه تعالى إذ أوجد فى ھذا الشھر الشریف سید المرسلین صلى اللّٰه عليه وسلم وھذا ھو معنى نیة المولد فكیف یذم هذا القدر مع الحث علیه أولاً؟وأما مجرد فعل البر وما ذكر معه من غیر نیة أصلاً فإنه لا یكاد یتصوّر، ولو تصوّر لم یكن عبادة ولا ثواب فیه، إذ لا یعمل إلا بنیة، ولا نیة ھنا إلا الشكر للّٰه تعالى على ولادة ھذا النبى الكریم صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذا الشھر الشریف، وھذا معنى نیة المولد فھى نیة مستحسنة بلا شك.33
ان کےکلام کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے میلاد کی مذمت نہیں کی۔ بلکہ حرمات و منکرات میں سے ان امور کی مذمت کی ہے جو محفل میلاد کے ارد گرد چھاجاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام کی ابتداء میں یہ وضاحت کردی ہے کہ اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ بھلائی کے کام کیے جائیں۔ نیکیاں، صدقات اور خیرات کثرت سے کیے جائیں۔ میلاد پاک کا یہ عمل وہ ہے جسے ہم نے عمدہ سمجھا ہے اس میں قرآن پاک کے پڑھنے کے علاوہ اور کھانا کھلانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ یہ بھلائی نیکی اور قربت کا ذریعہ ہے۔انہوں نے آخر میں جو بدعت کہا ہے تو پھر یہ یا تو سابقہ تفصیل کے متناقض ہوگا۔ یا اس سےمراد بدعت حسنہ ہوگی یا اسے اس امر پر محمول کیا جائے گاکہ ایسے امور بجالانا بھلائی ہے جبکہ میلاد کی نیت کرنا بدعت ہے جیسے کہ انہوں نے کہا کہ یہ نفس نیت کے اعتبار سے بدعت ہے کیونکہ اسلاف کرام میں سے کسی نے میلاد کی نیت نہیں کی تھی۔ کلام کا ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے فقط میلاد کی نیت کرنامکروہ سمجھا ہے کھانا کھلانے اور احباب کو دعوت دینے کو مکروہ نہیں سمجھا۔ اگر اسے ان کے کلام کے ابتدائی حصہ سے ملایا جائے جس میں انہوں نے بھلائی کے کاموں پر ابھارا ہے تاکہ ہم پرکی گئی اس نعمت کبریٰ کا شکر ادا ہوسکے جو رب تعالیٰ نے سید المرسلین sym-1کی صورت میں فرمائی ہے اور میلاد کی نیت کا یہی معنی ہے۔ وہ اس عمل کی مذمت کیسے کرسکتے ہیں حالانکہ پہلے انہوں نے اسی کی ترغیب دی ہے۔نیت کے بغیر بھلائی کے امور کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر تصورہو بھی سکے تو پھر وہ عمل نہ تو عبادت ہوگا اور نہ ہی اس پر اجر وثواب ملے گا۔ کیونکہ نیت کے بغیر کوئی عمل نہیں ہوتا۔ اس مبارک عمل میں نیت یہی ہے کہ انسان رب تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس مبارک مہینہ میں حضور sym-1کو پیدا فرمایا ۔ یہ ایک مستحسن نیت ہے۔34

شیخ شامیsym-4کے مذکورہ بالا اقتباس میں میلاد النبی sym-1کے استحسان واستحباب کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہورہا ہے کہ میلاد النبی sym-1اللہ تبارک وتعالیٰ کاشکر ادا کرنا ہے کہ باری تعالیٰ نے مومنین اور اپنی تمام مخلوق کونبی کریم sym-1کی ولادت و بعثت کے ذریعہ اپنی عظیم نعمت سے مشرف ومکرم فرمایا ہے اور اس پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی پابندی اورقرب الہٰی کا باعث و ضامن ہے۔

میلاد النبی sym-1شیخ عبد اللہ ہرریﷺکی نظر میں

اسی طرح ایک اور عظیم محدث شیخ عبد اللہ ہرری نے بھی میلاد النبی sym-1کے جواز و استحسان کو اپنی ایک کتاب"الروائح الزکیۃ فی مولد خیر البریۃصلى اللّٰه عليه وسلم "میں تحریر کیا ہے۔انہوں نے اگر چہ کہ میلاد النبی sym-1کی ابتداء کو ساتویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بیان کیا ہے لیکن اس سے مراد مروجہ طرز میلاد ہی لیاجائے گا کیونکہ اس کی اصل کو کئی فقہاء و محدثین نے دور نبوی sym-1اور دور صحابہ کرام sym-7سے اخذ کیاہے۔ 35 تاہم شیخ عبد اللہ ہرری میلاد النبی sym-1کو بدعت حسنہ میں شمار کرتےہیں اور اس کو ایک حدیث رسول sym-1سے استنباط کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

ان الاحتفال بالمولد النبوى بدعة حسنة فلاوجه لانکاره بل ھو جدیربان یسمى سنة حسنة لانه من جملة ماشمله قول رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم من سن فى الإسلام سنة حسنة، كان له أجرھا، وأجر من عمل بھا من بعده من غير أن ينتقص من أجورھم شىء وان كان الحدیث واردا فى سبب معین وھو ان جماعة ادقع بھم الفقر جاءوا الى رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم وھم یلبسون النمارمجتبیھا اى خارق وسطھا فامر الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم بالصدقة فاجتمع لھم شئى كثیر فسر رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم لذلك فقال من سن فى الاسلام... الحدیث، وذلك لان العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب كما ھو مقرر عند الاصولیین ومن انكر ذلك فھو مكابر.36
بلا شبہ میلاد النبی sym-1منانا بدعۃ حسنۃ ہے لہٰذااس کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے بلکہ میلاد شریف سنت حسنہ کہلائے جانے کا مستحق ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ sym-1کے اس فرمان میں شامل ہے کہ آپ sym-1نے ارشاد فرمایا : " جس نے اسلام میں اچھا طریقہ ایجاد کیا اسے اس کا اجر ملے گا اور اس کے بعد اس پر جو لوگ عمل کریں گے ان کا اجر بھی اسے ملے گا بغیر ان لوگوں کے اجر و ثواب میں کسی کمی کے"۔اگرچہ یہ حدیث ایک خاص سلسلے میں وارد ہوئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ فقر و فاقہ میں مبتلا ایک جماعت اللہ کے رسول sym-1کے پاس آئی، وہ لوگ پھٹے ہوئے اور انتہائی بوسیدہ لباس پہنے ہوئے تھے، اللہ کے رسول sym-1نے ان کے لیےصدقہ جمع کرنے کا حکم دیا تو بہت سارا سامان جمع ہوگیا، جس سے حضور sym-1بہت خوش ہوئے اور مذکورہ فرمان بیان فرمایا۔لیکن اس حدیث کا حکم اس واقعے سے مخصوص نہیں ہوسکتاکیونکہ اعتبار عمومِ لفظ اور عمومِ حکم کا ہوتا ہے خصوصی سبب کا نہیں ہوتا ہے، جیسا کہ اصولیین کے نزدیک طے شدہ ہے اور جو اس کا انکار کرے وہ ہی جھگڑالو ہے۔ 37

اس مذکورہ بالا عبارت سےو اضح ہواکہ میلاد النبی sym-1منانا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا جائز بلکہ مستحب ہے اور کئی محدّثین وفقہائے امت کے نزدیک اس کی اصل قرآن و حدیث میں بھی موجود ہے لہذا اس کےجواز کے انکار کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

ان تمام مذکورہ محدثین کی عبارات و اقتباسات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نبی مکرم sym-1کا میلاد منانا باعث اجر وثواب اور قرب الہی کا سبب ہے۔یہ تعظیمِ مصطفیٰ sym-1کی علامت ہے اور امت مسلمہ کے عوام و خواص اس کو نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ومستحب سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ ہر دور میں میلاد النبی sym-1کو اس کے شایان شان طریقہ اور مناسب طرزو انداز کے ساتھ مناتی چلی آرہی ہے اور اس کے جواز و استحسان میں تمام مسلمان متفق ہیں اور بالخصوص محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہم نے اس کے جواز و استحسان کو کئی دلائل وبراہین کی روشنی میں اپنی کتبِ مولود اور رسائلِ مولود میں ثابت کیا ہے جو اس بات کی نشاندہی کےلیے کافی ہے کہ امت مسلمہ کے ہر دور کے خواص وعوام میلاد النبی sym-1پر خوشی ومسرت کا اظہار کرتے آرہے ہیں۔


  • 1  القرآن،سورۃالبقرۃ129:2
  • 2  ابو حاتم محمد بن حبان الدارمی، صحیح ابن حبان، حدیث:6404، ج-14، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1998م، ص:313
  • 3  ابو عبد اللہ احمد بن محمد شیبانی، مسند امام احمد بن حنبل، حدیث:16987، ج-28، مطبوعۃ:مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان،2001م، ص:194
  • 4  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:1162، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 5  محمد أحمد درنيقۃ، معجم اعلام شعراء المدح النبوىﷺ،مطبوعۃ: دار ومكتبۃ الهلال،بیروت،لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص:277
  • 6  میلاد النبیﷺپر لکلھی جانے والی متقدمین کبار علماء کی کتب ورسائل کا ذکر اس جلد کے پہلےباب کی فصل"کتب ورسائل مولود النبیﷺ"کے نام سے کردیاگیا ہے، وہاں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔(ادارہ)
  • 7  حافظ ابوالفضل عبدالرحیم بن حسین عراقی/تحقیق: عمر بن عَرَبی اعمیری،المورد الھنی فی مولدالنبیﷺ، مطبوعۃ: دارالسلام للنشر والتوزیع،القاہرۃ، مصر، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:61-62
  • 8  ابو عیسی محمد بن عیسٰی الترمذی، جامع ترمذی، حدیث:3619، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:1072
  • 9  ابو بکر محمد بن حسین بغدادی،الشریعۃ، حديث:965-962، ج-3، مطبوعۃ:دارالوطن،الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1422 -1432
  • 10  ابوعبداللہ محمّد بن سعدبصری، سنن النبیّﷺوایّامہ، ج-1، مطبوعۃ:المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان،1995م، ص: 20 -208
  • 11  شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی، حجۃ اللہ علی العالمین فی معجزات سید المرسلینﷺ، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2005م، ص:174
  • 12  ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، مولد العروس، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 9
  • 13  ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی،مولد العروس(مترجم: پروفیسر دوست محمد شاکر)، مطبوعہ: قادری کتب خانہ، سیالکوٹ، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص:34-35
  • 14  ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، مولد النبیﷺ(مترجم:مفتی غلام معین الدین) ، مطبوعہ: مکتبہ حنفیہ،لاہور،پاکستان،2011ء، ص:70
  • 15  ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، مولد العروس، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 27-28
  • 16  ابو الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی، مولد العروس (مترجم: پروفیسر دوست محمد شاکر )، مطبوعہ: قادری کتب خانہ، سیالکوٹ، پاکستان، (سن اشاعت ندارد)، ص: 75
  • 17  شیخ ابو المظفر یوسف بن قزاوغلی سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ج-22، مطبوعۃ: دارالرسالۃ العالمیۃ، دمشق، سوریا،2013م،ص:323
  • 18  ایضا،ص:324
  • 19  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993م، ص: 366
  • 20  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العبادﷺ(مترجم: پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلشرز،لاہور،پاکستان، 2012ء، ص:327-328
  • 21  أبو الفداء إسماعیل حقی بروسی، روح البیان في تفسير القرآن، ج-9، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 57
  • 22  ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ ابن ناصر الدمشقی، جامع الآثار فی سیرۃ مولد المختارﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الفلاح للبحث العلمی وتحقیق التراث، بیروت، لبنان،2010م،ص: 64 -65
  • 23  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،1993م، ص: 362
  • 24  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العبادﷺ(مترجم: پروفیسر ذوالفقار علی ساقی)، ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلشرز، لاہور، پاکستان، 2012ء، ص: 324
  • 25  نور الدین علی بن سلطان القاری،المورد الروی فی مولد النبیﷺ(مترجم:عبد القیوم ہزاروی)،مطبوعہ:منہاج القرآن پبلیکیشنز، لاہور، پاکستان، 2011ء، ص: 72
  • 26  نور الدین علی بن سلطان القاری،المورد الروی فی مولد النبیﷺ،مطبوعۃ:منہاج القرآن ببلیکیشنز، لاہور، باکستان، 2011م، ص: 78 -80
  • 27  نور الدین علی بن سلطان القاری،المورد الروی فی مولد النبیﷺ(مترجم:عبد القیوم ہزاروی)،مطبوعہ:منھاج القرآن پبلیکیشنز،لاہور، پاکستان، 2011ء، ص:77
  • 28  شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:78
  • 29  ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2012م،ص:263
  • 30  شیخ احمد بن محمد قسطلانی،المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-3 ، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:54
  • 31  ابو عبد اللہ محمد بن عبد الباقی الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2012م، ص:262
  • 32  ابوالخیر محمد بن محمد ابن جزری، عرف التعریف بالمولد الشریف،مطبوعۃ:دار الحدیث الکنانیۃ، دمشق، سوریا (لیس التاریخ موجودًا)، ص:23
  • 33  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2013م، ص: 373
  • 34  امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد (مترجم: پروفیسر ذوالفقار علی ساقی) ، ج-1، مطبوعہ: زاویہ پبلشرز، لاہور،پاکستان، 2012ء، ص: 336
  • 35  اس اصل میلاد کی مکمل تفصیل اسی جلد کے پہلے باب کی فصل "تاریخ میلاد اور عصر حاضر "میں بیان کردی گئی ہے وہاں اس کو دیکھا جاسکتا ہے۔(ادارہ)
  • 36  شیخ عبد اللہ ہرری حبشی،الروائح الزکیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:دار المشائع، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 30 -31
  • 37  شیخ عبد اللہ ہرری حبشی،الروائح الزکیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ(مترجم:ڈاکٹر سید اشرف)،مطبوعہ:مکتبہ حنفیہ،لاہور،پاکستان،2011ء،ص:160-161

Powered by Netsol Online