Support the largest ever research project (100 Volumes+) on the Seerah of Prophet Muhammad ﷺ.
Your support ensures that his message, mission and teachings reach billions of hearts across the world. Donate Now!

Encyclopedia of Muhammad

نبی اکرم ﷺکا یوم وِلادَت

Published on: 01-Mar-2023

(حوالہ: ڈاکٹر عمران خان ، علامہ محمد حسیب احمد، سیرۃ النبی ﷺ انسائیکلوپیڈیا، جلد-3، مقالہ:9، مطبوعہ: سیرت ریسرچ سینٹر، کراچی، پاکستان، 2019ء، ص: 373-381)

پیر کا دن وہ بابرکت دن ہےجس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول مکرم sym-1 کی ولادت کے لیے منتخب کیا اور رسول اللہ sym-1اس دنیا میں پیر کے دن تشریف لائے۔ 1

رسول مکرم sym-1کی زندگی میں بھی پیر کے دن کی اہمیت کافی زیادہ تھی جس کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سكتا ہے کہ نبوی زندگی کے کئی ایک اہم واقعات اسی دن رونما ہوئے مثلاً آپ sym-1کی ولادت ،اعلانِ نبوت ،2آبائی وطن سے ہجرت اور اسی طرح کے دیگر اہم واقعات بھی اسی پیر کے دن رونما ہوئے۔ 3البتہ یہاں صرف یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ آپ sym-1پیر کے دن متولد ہوئے ۔

بروزِ پیر ولادت ِ رسول sym-1

رسول اکرم sym-1کی ولادت بروز پیر ہوناائمہ سیر و تاریخ کے ہاں اصح ترین قول شمار کیا جاتا ہے۔4 انتہائی قلیل تعداد ان لوگوں کی ہے جو اس کا انکار کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کے بر عکس رائے پر جمہور اہلِ علم نےدلیل و برہان کی روشنی میں شدید گرفت کرکے ان کی رائے کو غیر صائب ثابت کیا ہے۔ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول اکرم sym-1سے روزوں کے متعلق مختلف سوالات کیے گئے اورانہی سوالوں میں ایک سوال پیر کے دن روزوں کے متعلق بھی تھا۔چنانچہ حدیث مبارکہ میں منقول ہے:

عن أبى قتادة الأنصارى رضى اللّٰه عنه قال: سئل عن صوم يوم الاثنين؟ قال: ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت أو أنزل على فيه.5
حضرت ابو قتادۃ انصاری sym-5 فرماتے ہیں کہ رسول اللہ sym-1 سے پیر کے روزہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپsym-1 نے ارشاد فرمایا:یہ وہ دن ہے جس دن میں پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا ہے یا اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔

مصنف ابن اسحا ق نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ دو شنبہ بارہ(12) ربیع الاوّل کو سید عالم sym-1کی ولادت ہوئی۔6اسی طرح ابن اسحاق کے حوالہ سے امام ابن ہشام نے سیرت ابنِ ہشام میں یوں نقل کیا ہے:

قال ابن اسحاق ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول عام الفیل.7
ابن اسحاق نے کہا کہ رسول اللہsym-1 بروز پیر بارہ (12)ربیع الاول کو عام الفیل میں پید اہوئے۔

اسی حوالہ سے طبقات الکبریٰ میں ایک روایت یوں مذکور ہے :

عن ابى جعفر محمد بن على قال: ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین . 8
ابوجعفر محمد بن علی فرماتے ہیں:رسول اللہ sym-1بروز پیر اس دنیا میں تشریف فرماہوئے۔

اسی طرح کی ایک اور روایت ابن عباس sym-8 سے درج ذیل الفاظ میں مروی ہے:

عن ابن عباس رضى اللّٰه تعالى عنھما قال: ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الاثنين واستنبى يوم الاثنين، وتوفى يوم الاثنين، ورفع الحجر الأسود يوم الاثنين. 9
حضرت ابن عباس sym-8سے روایت ہے کہ حضور sym-1پیر کے دن پیدا ہوئے۔ پیر کے روز آپ sym-1کےسر پر نبوت(نزول وحی) کا تاج سجایا گیا۔ پیر کے روز آپ sym-1کا وصال ہوا اور پیر کے روز ہی آپ sym-1نے حجر ِاسو داٹھایا۔

بہرکیف اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آنحضرت sym-1کی ولادت باسعادت دوشنبہ کے دن ہوئی تھی۔اسی قول کو امام ابن ِ کثیر الدمشقی نےالبدایۃ والنھایۃمیں، 10 امام صالحی شامی نےزبیر بن بکار اور ابن ِعساکرکے حوالہ سےسبل الھدٰی میں،11امام یوسف نبہانی نے انوارِ محمدیہ میں 12اورامام احمد رضا خان القادری نے اپنےفتاوٰی میں بھی نقل فرمایا ہے اورساتھ ہی انہوں نےاس کی بھی تصریح کی ہے کہ امام ابن حجر نے بھی اسی قول کو صحیح قرار دیا ہے۔13ان مذکورہ بالا روایات اور حوالہ جات سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسول اکرم sym-1بروز پیر اس دنیا میں تشریف لائے اور یہ وجہ تھی کہ آپ sym-1اس دن روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنی پیدائش پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے۔

یومِ ولادت میں منقول اختلاف

آپ sym-1کے یومِ ولادت کے بارے میں بھی بعض افراد سے اختلافِ رائے منقول ہے لیکن اس اختلاف ميں ايك منفرد بات یہ ہے کہ اس میں عینیت کا نہیں بلکہ تعیین کا اختلاف ہے۔یعنی علمائے سیر میں سے جنہوں نے اس میں اختلاف کیا ہے انہوں نے تعیین میں اختلاف کیا ہے لیکن وہ بھی جمہور کے بر عکس۔ چنانچہ اس حوالہ سے علامہ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

وكذا اختلف أيضا فى أى يوم من الشهرفقيل إنه غير معين، إنما ولد يوم الاثنين من ربيع الأول من غير تعيين.14
اور اسی طرح اختلاف کیا گیا ہے کہ مہینہ کے کس دن میں (ولادت رسول sym-1ہوئی) تو اس بارے میں کہا گیا کہ وہ غیر معین ہے البتہ ربیع الاول کے کسی پیر کے دن رسول کریم sym-1پیدا ہوئے نہ کہ معین پیر میں۔

البتہ ایک قول ہے جس میں دن کا بھی اختلاف منقول ہے اور اس کو شیخ نور الدین علی سمہودی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہےچنانچہ رسول اکرم sym-1کی ولادت کو پیر کے دن بیان کرنے کے بعد وہ اس قو ل کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقیل یوم الجمعة.15
اور(آپ sym-1کے یومِ ولادت کے متعلق)کہا گیا ہے کہ وہ جمعہ کے دن ہوئی۔

لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ ایک تو یہ اختلاف قلیل تعداد کی حامل جماعتِ علماء کا ہے اور وہ بھی ان علماء نے اس اختلاف کولفظِ "قیل" سے تعبیر کر کے اس کے ضعف کی طرف ہی اشارہ کیا ہے۔دوسری یہ بات ذہن نشین رہے کہ قطع نظر اس اختلاف کے ضعف کے جمہور علماء کی رائے اس کے بر عکس ہے۔چنانچہ اس اختلاف کو ذکر کرنےکے بعد جمہور علماء کی رائے بیان کرتےہوئے شیخ قسطلانی تحریر فرماتے ہیں:

والجمھور على أنه يوم معين منه.16
جبکہ جہور علمائے امت اس بات پر(متفق) ہیں کہ وہ معین (عام الفیل کے بارہ(12) ربیع الاول والے پیرکا)دن ہے۔

اسی طرح مؤرخِ مدینہ شیخ نور الدین علی سمہودی اپنے قدیم عربی مخطوطہ میں جمعۃ المبارک کے دن ولادت رسول sym-1ہونے کے کمزور قول کو درج کرنے کے بعد رسول اکرم sym-1کے یوم ِپیدائش کے حوالے سے صحیح ترین قول ذکر کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں :

فاصبح (رسولاللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم) صبیح الوجه یوم الاثنین مولودًا لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول على الصحیح الذى علیه القول. 17
رسول مکرم sym-1بروز پیر بارہ(12)ربیع الاوّل کو صبح کے وقت اس دنیا میں جلوہ گرہوئے اس صحیح مؤقف کے مطابق جس پر کلام کیا گیاہے۔

یہاں تک کہ یوم ولادت رسول sym-1کو بروز پیر کے علاوہ کسی اور دن کہنے والے شخص کے لیے غلطی کے اور خطا کے لفظ تک لکھے گئے ہیں۔چنانچہ یومِ ولادتِ رسول sym-1کو بیان کرتے ہوئے اور اس کے اختلافی قول کو ذکر کرتے ہوئے امام حلبی تحریر فرماتے ہیں:

ولد (الرسول صلى اللّٰه عليه وسلم) یوم الاثنین قال بعضھم لاخلاف فیه واللّٰه اعلم بل اخطا من قال ولد یوم الجمعة. 18
(رسول اللہ sym-1)بروز پیر متولد ہوئے،بعض محققین نے لکھا ہے کہ پیر کے دن ولادتِ رسول اکرم sym-1میں کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ اس نے غلطی کی جو یہ کہتا ہے کہ آپ sym-1جمعہ کے دن پیدا ہوئے۔19

بہر کیف ان تمام مذکورہ بالا عبارات سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ رسول اکرم sym-1کی ولادت پیر کے دن ہوئی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ تعیینِ پیرمیں اختلاف ہے جو کہ جمہور کے بر عکس ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتناء ہے۔

نبوی زندگی میں پیر کے دن کی اہمیت

رسول اکرم sym-1کی زندگی میں بھی پیر کے دن کی کافی زیادہ اہمیت تھی جس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ایک تو یہ کہ رسول کریمsym-1 کی ولادت کا دن بھی پیر کا دن ہے اور اس میں نبی اکرم sym-1اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنےکے لیے روزہ رکھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت قتادہ sym-5 سے امام مسلم نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔20دوسری وجہ یہ ہے کہ کئی ایک ایسے اہم واقعات جن کی بنا پر نبی اکرم sym-1کی زندگی میں یکسر تغیر و تبدل ہوا وہ واقعات بھی پیر کے دن ہی رونما ہوئے۔چنانچہ اس حوالہ سے امام ابن اسحق نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں مذکور ہے:

أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال لبلال: ألا لا يغادرك صيام الإثنين، وأوحي لى يوم الإثنين، وهاجرت يوم الإثنين، وأموت يوم الإثنين.21
بلاشبہ رسول اللہ sym-1نے حضرت بلالsym-5 سے ارشاد فرمایا:خبردار کہ تم سے پیر کا روزہ نہ چھوٹنے پائے کہ مجھ پر پیر کے دن ہی وحی کی گئی اور پیر کے دن ہی میں نے ہجرت کی اور پیر کے دن ہی میرا وصال ہوگا۔

ا س مذکورہ روایت میں نبی اکرم sym-1نے اپنی زندگی مبارک کے تین اہم واقعات کا ذکر فرمایا ہے: ایک وحیِ الہی کے آغاز کا ،دوسراپنےآبائی وطن مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت کرنے کا اور تیسرا اپنے وصال ِ مبارک کا جو فی نفسہ کئی دوسرے اہم واقعاتِ نبوی کا پیش خیمہ ہیں ۔اسی طرح حضرت ابن عباسsym-8 نے بھی اس حوالہ سے درجِ ذیل روایت میں مذکورہ واقعات کاتذکرہ کیاہے اور مدینہ منورہ پہنچنے کا تذکرہ بھی کیا ہے۔چنانچہ حضرت ابن عباس sym-8 سے مروی ہے:

ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الاثنين فى أول شھر ربيع الأول، وأنزلت عليه النبوة فى يوم الاثنين فى أول شھر ربيع الأول. ودخل المدينة فى يوم الاثنين فى أول شھر ربيع الأول، وتوفى الاثنين فى أول شھر ربيع الأول.22
رسول اللہ sym-1پیر کے دن ربیع الاوّل کےمہینے کے ابتداءمیں پیدا ہوئے اور آپ sym-1پرربیع الاوّل کے مہینے کی ابتداء میں پیر کے دن ہی نبوت(وحی) اتری اور آپ sym-1نے پیر کے دن ربیع الاوّل کے مہینے کی ابتداء میں مدینے میں داخل ہوئے اور پیر کے دن ماہِ ربیع الاوّل کی ابتداءمیں آپ sym-1کاوصال مبارک ہوا۔

اسی طرح ایک اور روایت میں پیر کے دن ہی کے دیگر اہم واقعات کو بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس sym-8فرماتے ہیں:

ولد نبيكم صلى اللّٰه عليه وسلم يوم الإثنين، ونبى يوم الإثنين، وخرج من مكة يوم الإثنين، وفتح مكة يوم الإثنين، ونزلت سورة المائدة يوم الإثنين، اليوم أكملت لكم دينكم، وتوفى يوم الإثنين.23
تمہارے نبی sym-1پیرکے دن پیدا ہوئے اور پیر کے دن ہی وحی الہی سے نبی ہوئے اور مکہ سے پیر کے دن نکلے ، پیر کے دن ہی مکہ کو فتح فرمایا ، سورۃ المائدۃ بھی پیر ہی کے دن نازل ہوئی یعنی "الیوم اکملت لکم دینکم" (کی آیت)اور وصال مبارک بھی پیر کے دن ہوا۔

ان مذکورہ روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اکرم sym-1کی زندگی میں بھی اس پیرکے دن کی اہمیت کافی زیادہ رہی ہے کیونکہ کئی ایک ایسے اہم واقعات جو دیگر واقعات کا پیش خیمہ بنے وہ تمام اسی پیر کے دن وقوع پذیر ہوئے ۔ اس دن رسول اکرم sym-1روزہ بھی رکھا کرتے تھے جس کی وجہ یہ ارشاد فرمائی کہ میں اس دن متولد ہوا اور اسی دن وحی الٰہی کی ابتداء ہوئی۔24

پیر کے دن پیدا ہونے کی حکمتیں

رسول اکرم sym-1کی ولادت با سعادت پیر کے دن ہونےکی حکمت کے بارے میں علمائے سیر نے کلام کیا ہے اور خصوصًا آپ sym-1کے سن و ماہِ ولادت اورتاریخ و یومِ ولادت کے اختصاص کو بیان کیاہے۔یہاں پر یومِ ولادت کی خصوصیت کے حوالہ سے صاحبِ مدخل کا اس بارے میں تحریر کردہ کلام ذکر کیا جارہا ہے چنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:

فإن قال قائل ما الحكمة فى كونه صلى اللّٰه عليه وسلم خص مولده الكريم بشھر ربيع الأول وبيوم الاثنين منه على الصحيح والمشھور عند أكثر العلماء ولم يكن....فى ليلة النصف من شعبان ولا فى يوم الجمعة ولا فى ليلتھا....فانه ما ورد فى الحديث من أن اللّٰه تعالى خلق الشجر يوم الاثنين وفى ذلك تنبيه عظيم، وھو أن خلق الأقوات والأرزاق والفواكه والخيرات التى يتغذى بھا بنو آدم ويحيون ويتداوون وتنشرح صدورھم لرؤيتھا وتطيب بھا نفوسھم وتسكن بھا خواطرھم عند رؤيتھا لاطمئنان نفوسھم بتحصيل مايبقي حياتھم على ما جرت به العادة من حكمة الحكيم سبحانه وتعالى فوجوده صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذا الشھر فى ھذا اليوم قرة عين بسبب ما وجد من الخير العظيم والبركة الشاملة لأمته صلوات اللّٰه عليه وسلامه.25
اگر کوئی اعتراض کرنے والا یہ اعتراض کرے کہ اس میں کیا حکمت ہے کہ آپ sym-1کی ولادت کو ربیع الاوّل کے مہینہ میں اس کے پیر کے دن کے ساتھ مختص کیا گیا جیساکہ صحیح اور اکثر علمائے کرام کے نزدیک مشہو روایت یہی ہےاورآپ sym-1۔۔۔شعبان کی پندرہ( 15 )تاریخ کو پیدا ہوئے، نہ ہی جمعۃ المبارک کےروز یا دن کوپیدا ہوئے ؟ تو (اس کا جواب) یہ ہے جو حدیث میں وارد ہوا ہے کہ" بلا شبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نےپیر کے دن درختوں کوپیدا فرمایا " 26 اور اس میں ایک عظیم تنبیہ ہے ۔وہ یہ ہے کہ بلا شبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوتیں ،رزق کی اشیاء،پھل اور مال کو پید ا فرمایا جن سے بنی آدم غذا ء حاصل کرتے ہیں ، زندہ رہتےہیں اور علاج کرتےہیں،جن کو دیکھ کر ان کے سینےکھل جاتے ہیں اور ان کے دل خوش ہوجاتے ہیں۔ان چیزوں کو دیکھ کر ان کے دلوں کے خوش ہونے کی وجہ حکیم سبحانہ وتعالیٰ کی حکمت کے مطابق چلنے والے نظام کے تحت ان چیزوں کا حصول ہے جن پر ان کی زندگی کی بقاء کا دارو مدار ہے ۔لہذا اس ماہ کے اس دن میں رسول کریم sym-1کی ولادت آنکھوں کی ٹھنڈ ک ہے بسببِ خیرِ عظیم اور تمام امت محمدیہ sym-1کو شامل ہونے والی برکت کے مل جانے کی وجہ سے۔

اسی مضمون کو من و عن امام صالحی شامی نے بھی سبل الھدی میں نقل کیا ہے۔27اس مذکورہ عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ رسول اکرم sym-1کے پیر کے دن متولد ہونے میں خیر عظیم اور انتہائی برکات کے حصول کی طرف اشارہ ہے۔اس کے علاوہ شیخ قسطلانی نے بھی پیر کے دن میں ولادت رسول ہونے کے حوالہ سے ایک خاص پہلو پر بھی روشنی ڈالی ہے چنانچہ وہ اس بارے میں کلام کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

وإذا كان يوم الجمعة الذى خلق فيه آدم خص بساعة لا يصادفھا عبد مسلم يسأل اللّٰه فيھا خيرا إلا أعطاه إياه، فما بالك بالساعة التى ولد فيھا سيد المرسلين صلى اللّٰه عليه وسلم ولم يجعل اللّٰه تعالى فى يوم الاثنين يوم مولده صلى اللّٰه عليه وسلم من التكليف بالعبادات ما جعل فى يوم الجمعة المخلوق فيه آدم من الجمعة والخطبة وغير ذلك إكراما لنبيه صلى اللّٰه عليه وسلم بالتخفيف عن أمته بسبب عناية وجوده قال تعالى: وما أرسلناك إلا رحمة للعالمين.28 ومن جملة ذلك: عدم التكليف.29
جب جمعۃ المبارک کا یہ عالم ہے کہ اس دن حضرت آدم کی ولادت مبارکہ ہوئی اور اس میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں کوئی مسلمان بندہ بھلائی طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اسے عطا کرتا ہے تو اس وقت کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس میں تمام مرسلین کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ sym-1کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم sym-1کی ولادت باسعادت کے دن یعنی سوموار کو وہ عبادات نہیں رکھیں جو جمعہ کے دن رکھیں جس میں حضرت آدم پیداہوئے یعنی جمعہ کی نماز اور خطبہ وغیرہ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم sym-1کے احترام و اکرام کے طور پر آپ sym-1کے وجودِ مسعود کی وجہ سے سوموار کے دن آپ sym-1کی امت پر تخفیف رکھی، ارشاد ربانی ہے: اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کراور اس رحمت میں سے ایک بات یہ ہے کہ آپ sym-1کی ولادت کے دن کسی خاص عبادت کا مکلف نہیں بنایا۔ 30

یعنی کہ جمعۃ المبارک میں حضرت آدم sym-9 کی ولادت کے سبب مخلوقات کے لیے ایک ایسی ساعت رکھدی گئی ہے کہ جس میں دعائیں جلد قبول کی جاتی ہیں تو اس دن میں دعا کی قبولیت کا کیا عالم ہوگا جس میں رسول اکرم sym-1کی ولادت ہوئی لیکن پیر کے دن جمعۃ المبارک کی طرح عبادات کا مکلف صرف اس لیے نہیں بنایا گیا کہ امتِ محمدیہ sym-1کسی مشقت میں مبتلا نہ ہوجائے۔

درج بالا تمام تحریرات وعبارات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے کہ پیر کا دن ہی یوم ولادت رسول sym-1ہے اور اس کی اہمیت بھی کافی زیادہ ہے۔رسول مکرم sym-1کی زندگی میں بھی اس دن کئی ایک اہم واقعات رونما ہوئے اور رسول مکرم sym-1اللہ تبارک وتعالی کا شکرادا فرمانے کے لیے اس دن روزہ بھی رکھا کرتے اور اس بات کا اظہار بھی فرماتے کہ میں اس دن میں روزہ اس وجہ سے رکھتا ہوں کیونکہ یہ میری ولادت کا دن ہے ۔


  • 1  أبو عبد الله محمد بن سعد ،الطبقات الكبرى، ج-1،مطبوعة: دار الكتب العلمية ،بيروت ،لبنان، 1990م،ص:100
  • 2  شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی،الانوار المحمدیہ،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ،لاہور،پاکستان،2017ء ،ص:43
  • 3  ابو محمد عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویة، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:128
  • 4  شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی،الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:زاویۃببلشرز،لاہور،باکستان، 2015م،ص:111
  • 5  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2747،مطبوعة:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:477
  • 6  امام محمدبن اسحاق المطلبی ،سیرت رسولِ پاکﷺ(مترجم:محمد اطہر نعیمی)،مکتبہ نبویہ ، لاہور،پاکستان،1421ھ،ص:140
  • 7  ابو محمد عبد الملک بن ہشام ، السیرۃ النبویۃ، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:128
  • 8  أبو عبد الله محمد بن سعد البصری، الطبقات الكبرى، ج-1، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 1990م، ص:100
  • 9  امام محمد بن يوسف الصالحی الشامي، سبل الهدى والرشاد فى سيرةخیر العبادﷺج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،2013م،ص:333
  • 10  ابوالفداءاسماعیل ا بن کثیر الدمشقی،البدایۃ والنھایۃ، ج-2، مطبوعۃ: دار الفکر، بیروت، لبنان، 1986م، ص:259
  • 11  امام محمد بن يوسف الصالحی الشامي،سبل الهدى والرشاد فى سيرةخیر العبادﷺ،ج-1،مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:333
  • 12  شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی،الانوار المحمدیہ،مطبوعہ:مکتبہ نبویہ،لاہور،پاکستان،2017ء ،ص:43
  • 13  امام احمد رضاخان القادری، فتاوٰی رضویہ ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان،2004ء،ص:408
  • 14  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:75
  • 15  شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی،الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:زاویۃببلشرز،لاہور،باکستان، 2015م،ص:111
  • 16  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،2009م،ص:75
  • 17  شیخ نو رالدین علی بن احمد سمہودی،الموارد الھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:زاویۃببلشرز،لاہور،باکستان، 2015م،ص:111
  • 18  ابو الفرج علی بن ابراھیم الحلبی، انسان العیون فی سیرۃ النبی الامین المامونﷺ،ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:84
  • 19  ابو الفرج علی بن ابراھیم بن احمد الحلبی، سیرت حلبیہ (مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت، کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:192
  • 20  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2747، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،2000م، ص:477
  • 21  امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ ،ج-1،مطبوعۃ: دا رالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص:174
  • 22  ابو نعیم احمد بن عبد اللہ الاصبھانی، دلائل النبوۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار النفائس، بیروت،لبنان،2012م،ص:87
  • 23  ابو بکر احمد بن حسین البیھقی، دلائل النبوۃ، ج-7، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان،2008م، ص:233
  • 24  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2747، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ،2000م، ص:477
  • 25  ابو عبد اللہ محمد بن محمد المعروف بابن الحجاج،کتاب المدخل،ج-2، مطبوعۃ:دار احیاءالتراث العربی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 26 -27
  • 26  ابو الحسن مسلم بن حجاج القشیری، صحیح مسلم، حدیث:2789، مطبوعة: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص:1216
  • 27  امام محمد بن يوسف الصالحی الشامي، سبل الهدى والرشاد فى سيرةخیر العبادﷺ، ج-1، مطبوعة:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:337
  • 28  القرآن،سورۃ ا لانبیاء21: 107
  • 29  شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:75
  • 30  شیخ احمد بن محمد قسطلانی، المواہب الدنیۃ بالمنح المحمدیۃ(مترجم: محمد صدیق ہزاروی)،ج-1،مطبوعہ :فرید بک اسٹال، لاہور،پاکستان ،2004ء،ص:89

Powered by Netsol Online