Encyclopedia of Muhammad

نبی اکر م ﷺکی تاریخ ِوِلادت

جمہورمحققینِ سیر و تاریخ اوراسی طرح تمام اُمّتِ مسلمہ کے نزدیک رسول اللہ ﷺکی تاریخِ پیدائش بارہ( 12) ربیع الاوّل ہےاور امت کے قلیل افراد کی رائے اس کے برعکس ہے جبکہ مخالف اقوال خود بھی ایک دوسرے کے عدمِ موافق ہیں ۔امت کے عہدِ جدید کے علماء ہوں یا عہدِ قدیم کے تمام ہی اپنی تحریرات میں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺکی تاریخ ولادت بارہ( 12) ربیع الاوّل ہے اوردیگر تاریخوں کو مرجوح اورغیر یقینی گردانتے ہیں۔ذیل میں ہم اَجَل سیرت نگارِعلمائے امت کے حوالہ جات و تحقیقات کی روشنی میں تاریخِ ولادتِ رسولﷺکے حوالہ سے صحیح، مستند اور متفق علیہ تاریخ کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ تاریخی طور پر ملنے والی بعض شاذ اور انفرادی آراء کے مقابلہ میں تاریخِ ولادت پر جمہور علماء ومحققین اور امت کا اتفاق واضح ہوسکے۔چنانچہ اس حوالہ سے سیرت ِابنِ ہشام ِمیں ابن اسحاق کے حوالہ سے منقول ہے:

  ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ییوم الثنین لاثنتى عشرة لیلة خلت من شھرربیع الاول عام الفیل.1
  رسول اللہ ﷺکی ولادت بروز پير ماہ ربیع الاوّل كی بارہ( 12) تاريخ کو عام ُالفیل میں ہوئی۔

ابنِ جوزی کی الوفاء 2اور تاریخ ِطبری میں بھی مذکورہ بالا روایت کو اسی انداز سے بیان کیا گیاہے۔3 اسی طرح عیون الاثر میں اس حوالہ سے یوں منقول ہے:

  ولد سیّدنا ونبینا محمد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین لاثنتى عشرة لیلة مضت من شھر ربیع الاول عام الفیل قیل بعد الفیل بخمسین یوماً.4
  ہمارے آقا اور ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺبارہ( 12) ربیع الاوّل کو پیر کے دن عامُ الفیل میں پیدا ہوئے۔کہا گیا ہے کہ آپ ﷺکی ولادت واقعۂ فیل کے پچاس(50) روز بعد ہوئی۔

اسی طرح رسو ل اکرم ﷺکی تاریخ ولادت کو ابن خلدون نے یوں نقل کیا ہے:

  ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عام الفیل لاثنتى عشرة لیلة مضت من ربیع الاول لاربعین.5
  رسول اللہ ﷺکی ولادت شریفہ عامُ الفیل میں بارہ( 12) ربیع الاوّل کو ہوئی ۔ یہ بادشاہ کسریٰ نوشیرواں کی حکومت کاچالیسواں(40) سال تھا۔

علماء امت کا اس پر اتفاق بیان کرتے ہوئے شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی جواہرالبحار میں تحریر فرماتے ہیں:

  اتفقوا على انه ولد یوم الاثنین من شھر ربیع الاوّل.6
  علماء کااجماع ہے کہ رسول اللہ ﷺعام الفیل میں بارہ( 12) ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے۔

شیخ یوسف بن اسماعیل نبہانی نے علامہ ابن حجر مکی کی مولد النبیﷺ پر لکھی گئی کتاب کی تلخیص کو جواہر البحار میں نقل کیاہےجس میں تاریخ پیدائش کے حوالے سےعلامہ ابن حجر مکی تحریر فرماتےہیں:

  واختلفوا فى شھر مولده ویومه على اقوال كثيرة...والاشھر انه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد فى ربیع الاول والاشھر ایضاً فى ثانى عشرة.7
  علماء سیرنے رسول اللہ ﷺکے ولادت کے مہینہ میں اختلاف کیا ہے ۔۔۔مشہور یہ ہے کہ نبی کریم ﷺماہِ ربیع الاوّل میں پیدا ہوئے اور یہ بھی مشہور ہی ہے کہ اس کی بارہ( 12) تاریخ کو ۔

اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیّد احمد عبد الغنی رقمطراز ہیں :

  وھو قول جمھور العلماء ونقل ابن الجوزى الاتفاق علیه...ومراد ابن الجوزى بنقل الاتفاق اتفاق الاكثر...والاشھر منھا انه فى ثانى عشرة وھو وقول ابن اسحاق وغیرہ.8
  یہ قول جمہور علماء کرام کا ہے ۔ اورابنِ جوزینے اس قول پر اتفاق نقل کیا ہے ۔۔۔ابن جوزی کے اتفاق نقل کرنے سے مراد اکثر علماءکا اتفاق ہے۔۔۔دیگر اقوال میں(تاریخ ولادت کا) مشہور قول بارہ(12) ہے اور ابن اسحاق اور دیگر ماہرین ِ سیر کا بھی یہی قول ہے۔

مذکورہ بالا عبارت میں ابن جوزی کی جس عبارت کا حوالہ دیاگیا ہے وہ ان کی کتاب صفۃ الصفوۃ میں مکتوب ہےچنانچہ ابن جوزی تاریخ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

  اتفقوا على ان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد یوم الاثنین فى شھر ربیع الاول عام الفیل.9
  علماء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ حضور نبی کریم ﷺپیر کے دن ماہ ربیع الاوّل میں عامُ الفیل کو پیدا ہوئے۔

اسی حوالہ سے شیخ عبد الغنی الدمشقی مزید بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  قال ابن كثير وھو المشھور عن الجمھور وعلیه اھل مکة قدیماً وحدیثاً فى زیارتھم موضع مولده صلى اللّٰه عليه وسلم فى ھذا الوقت....لان السلف والخلف مطبقون على عمل المولد فى الیوم المذكور ولیلة وعلى تسمیته بیوم المولد فى سائر الامصارحتى فى حرم مکة التى ھى محل مولد المختارصلى اللّٰه عليه وسلم...لکن الاول ھو المشھورعند الجمھوروھو الصحیح الذى علیه السلف ویقوله من یعتمد علیه من الخلف فکان علیه المعمول.10
  ابنِ کثیرنے کہا کہ جمہور سے یہی (بارہ ربیع الاوّل کاقول ) مشہور ہے اور قدیم و جدید اہل ِمکّہ اسی پر متفق چلے آرہے ہیں ۔ وہ اسی تاریخ کو حضور نبی کریم ﷺکی جائے ولادت کی زیارت کرنے جاتے ہیں۔۔۔ اس لیے سلف و خلف سب اس پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ وہ محفلِ میلاد بارہ( 12) ربیع الاوّل کو ہی منعقد کرتے چلے آرہے ہیں ، بارہ( 12) ربیع الاوّل کے دن ورات کو ہی " عمل مولد" کرتے آرہے ہیں اور اس تاریخ کو"میلادُ النبی ﷺ" کی تاریخ کہتے چلے آرہے ہیں۔ تمام شہروں میں یہی معمول ہے حتیٰ کہ حرم ِمکّہ میں بھی یہی معمول ہے جو آپ ﷺکی جائے ولادت ہے ۔قول اول (بارہ ربیع الاوّل) ہی جمہور کے نزدیک مشہور ہے اور جس پر سلف آرہے ہیں یہی صحیح ہے اور بعد کے وہ علماء جن پر اعتماد کیا گیا ہے وہ بھی یہی قول کرتے ہیں ، لہذا اسی قول پر اعتماد کرنا چاہیے۔ 11

اسی حوالہ سے شیخ زرقانی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

  والمشھور انه صلى اللّٰه عليه وسلم ولد یوم الاثنین ثانى عشر ربیع الاول وھو قول محمد بن اسحاق بن يسار إمام المغازى وغیرہ. قال ابن كثير: ھو المشھور عند المجھور و ھو الذى علیه العمل.12
  مشہور یہ ہے کہ حضور انور ﷺبارہ( 12 )ربیع الاوّل بروز پیر کو پیدا ہوئے ، امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ کا یہی قول ہے ۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں: جمہورکے نزدیک یہی مشہور ہے ۔ اور یہی ہے وہ جس پر عمل ہے۔

یعنی رسول اکرم ﷺکی تاریخ ولادت میں اختلاف تو منقول ہے البتہ جمہور علمائے سلف و خلف کے نزدیک ربیع الاوّل ہی وہ مہینہ ہے جس کی بارہ( 12 )تاریخ کو حضور اکرم ﷺکی ولادت ہوئی ہے۔

تاریخِ ولادت میں منقول اختلافات

رسول اکرم ﷺکی تاریخ ولادت میں دیگر تاریخوں کی طرح اختلافات منقول ہیں اور خصوصاً تاریخ ولادت کے بارے میں تو فلکیات والے متفق ہیں کہ ان کے حساب سے تاریخِ ولادت رسول ﷺبارہ( 12 ) ربیع الاوّل نہیں ہے۔اولاًیہاں ان اختلافات کو ذکر کیا جا رہا ہے پھر ثانیاً ان کے جوابات علماء امت کی تحریر کردہ عبارات کی روشنی میں ذکر کیے جائیں گے۔ ان اختلافی اقوال کو تقریباً تمام ہی علماء سیر نے بیان کیاہے جن میں شیخ قسطلانی ،شیخ زرقانی اور امام یوسف صالحی سر فہرست ہیں۔بہر حال شیخ قسطلانی ان اختلافی اقوال کو بیان کرتےہوئے تحریر فرماتے ہیں:

  وكذا اختلف ایضاً فى اى یوم من الشھر فقیل انه غیر معین انما ولد یوم الاثنین من ربیع الاول من غیر تعیین والجمھور على انه یوم معین منه فقیل للیلتین خلتا منه وقیل لثمان خلت منه قال الشیخ قطب الدین القسطلانی وھو اختیاراكثر اھل الحدیث ونقل عن ابن عباس و جبیر بن مطعم وھو اخیاراكثرمن له معرفة بھذا الشان واختاره الحمیدى وشیخه ابن حزم وحکى القضاعى فى عیون المعارف اجماع اھل الزیج علیه ورواہ الزھرى عن محمد بن جبیر بن مطعم وكان عارفاً بالنسب وایام العرب اخذ ذلک عن ابیه جبیر، وقیل لعشر وقیل لاثنى عشر وعلیه عمل اهل مکة فى زیارتھم موضع مولده فى هذالوقت وقیل لسبع عشرة وقیل لثمان عشرة وقیل لثمان بقین منه وقیل ان هذین القولین غیر صحیحین عمن حکیا بالکلیة والمشھور انه ولد یوم الاثنین ثانى عشر شھر ربیع الاول وھو قول ابن اسحاق وغیرہ.13
  اسی طرح ربیع الاوّل کے کس دن (یعنی تاریخ) میں ولادت ہوئی تو ا س میں بھی اختلاف ہے۔پس کہا گیا کہ وہ ربیع الاوّل کاغیر معین دن ہے اور جمہور علماء کے نزدیک وہ دن معین ہے۔(لیکن پھر تعیین میں اختلاف ہے)ایک قول ہے کہ دو (2)ربیع الاوّل ،ایک قول آٹھ (8)ربیع الاوّل کا ہے ۔شیخ قطب الدین قسطلانی نےکہا کہ یہ اکثر آئمہ اہلِ حدیث کا پسند یدہ قو ل ہے ، ابن عباس وجبیر بن مطعم سے بھی یہی منقول ہے اور جس کو ان روایات کا علم ہے اس کا بھی یہی پسندیدہ قول ہے۔اسی کو امام حمیدی اور ان کے استاذ شیخ ابن حزم نے پسند کیا ہے اور قضاعی نے "عیون المعارف" میں اس پر فلکیات والوں کا اجماع نقل کیا ہے۔اسی قول کو امام زہری نے محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کیا ہے جو انساب اور ایام عرب کے ماہر تھے اور اس قول کو انہوں نے اپنے والد حضرت جبیر سے اخذ کیا ہے۔ایک قول دس (10)ربیع الاوّل کا ہے اور ایک بارہ (12) ربیع الاوّل کا بھی ہے اور اسی پر اہل مکّہ کا عمل ہے کہ اس وقت (و تاریخ )میں مقام مولد (النبی ﷺ) کی زیارت کرتے ہیں۔ایک قول سترہ(17) ربیع الاوّل کا ہے اور ایک بائیس(22) کا ہے اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جن حضرات سے ان اقوال کو نقل کیا گیا ہے ان سے کلیۃً ان کو نقل کرنا صحیح نہیں ہے۔البتہ مشہور یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی ولادت بارہ(12) ربیع الاوّل کو ہوئی تھی اور یہ امام ابن اسحاق اور دیگر آئمہ سیر کا قول ہے۔

ابن جوزی نے بھی اس حوالہ سےچار اقوال نقل کیے ہیں۔14 اسی طرح ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس اپنی کتاب مقالاتِ سیرت میں تاریخ ِپیدائش کے حوالےسے مروی اختلاف کو نقل کرتےہوئے یوں رقمطراز ہیں :

  ایک اہم امامِ حدیث جو سیرت نگار بھی ہیں، حافظ ابن سیّد الناس ( محمد بن عبد اللہ1334ھ،734ء) نے بڑے جزم کے ساتھ یہ بیان دیا ہے کہ" ہمارے سردار اور ہمارے نبی محمد رسول اللہ ﷺدوشنبہ بارہ (12)ربیع الاوّل عامُ الفیل کو پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد تاریخیں دی ہیں جو مختلف اقوال کے مطابق ولادتِ نبوی ﷺکے باب میں آئی ہیں لیکن ان سب کو انہوں نے مرجوح اور غیر معتمد قرار دیا ہے ۔دوسری تاریخیں دو طرح کی ہیں : ایک قسم کا تعلق ماہ ربیع الاوّل ہی سے ہے لیکن وہ بارہ (12)بیع الاوّل کے سواہیں جیسےدو(2)،آٹھ(2) اور نو(9)وغیرہ اور بعض کا ربیع الاوّل کے علاوہ دوسرے کسی ماہ سے تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ غلط ہیں کیونکہ احادیث و سیر کے علما و ماہرین و محققین کا اب اس پر اتفاق واجماع ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی ولادت مبارکہ ماہ ربیع الاوّل میں ہوئی تھی اور بارہ (12)ربیع الاوّل کو ہوئی تھی، بارہ (12) ربیع الاوّل کے سوا جو تاریخیں بیان کی جاتی ہیں ان میں سے بعض کی حیثیت صرف روایات کی سی ہے اور بعض کو تقویمی حساب کی بنا پر اختیار کیا گیا ہے ۔اس پر تو سب کا اتفاق ہے کہ تاریخ و یومِ ولادت دوشنبہ ماہ ربیع الاوّل ہے مگر دو شنبہ (پیر) بارہ (12) ربیع الاوّل کو پڑتا ہے یاآٹھ (8) یانو(9) ربیع الاوّل یا کسی اور تاریخ کو۔ متاخر سیرت نگاروں نے کسی زائچہ نگار ، منجم یار اوی یا فلکی تحقیق سے متاثر ہو کر دوسری روایات یاتاریخیں قبول کر لیں ہیں۔ جیسے شبلی نعمانی نے محمود پاشا کی تحقیق کو تسلیم کر کے 9ربیع الاوّل کو تاریخِ ولادت تسلیم کیا ہے ۔ 15 اسی طرح قاضی سلیمان منصور پوری اس حوالہ سے تحریر کرتے ہیں: زادالمعاد میں آٹھ (8) ربیع الاوّل لکھی ہے ، دو شنبہ کے دن پر اتفاق ہے ، چوں کہ دو شنبہ کا دن نو (9)کو پڑتا ہے ، اس لیے وہی صحیح ہے۔16 ان کے اور محمود پاشا کے ایک مقلد سیرت نگار صفی الرحمٰن مبارک پوری نے اسی تاریخ کو تقلیداً قبول کیا ہے17 جبکہ ادریس کاندھلوی نے8 آٹھ (8) ربیع الاوّل، یومِ دوشنبہ کو اختیار کرنے کے ساتھ اسے جمہور علماء کا قول بنا نے کی کوشش کی ہے ۔۔ ۔ سرِدست ان اختلافی تاریخوں سے بحث نہیں کہ وہ تقویم کے حساب یعنی دو شنبہ کی ماہ ربیع الاوّل کی کسی تاریخ سے تطبیق پر مبنی ہیں جو غلط بھی ہو سکتی ہیں اور جن کی غلطی متعدد محققوں نے واضح کی ہے۔18

ان مذکورہ بالا تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف ِروایات تقویمی تاریخ کی تطبیق کی وجہ سے ہے اور اس میں کافی زیادہ غلطی کا امکان ہے جس طرح ہم آگے اس کو واضح کریں گے بہرحال ان باتوں کے باوجود جمہور علماء نے ان کو نا قابل اعتناء سمجھا ہے ۔

شبلی نعمانی مرحوم نے اپنی مولفہ سیرت النبی ﷺمیں محمود پاشا فلکی مشہور مصری ہئیت داں کے حوالے سے نویں(9) ربیع الاوّل بمطابق بیس(20)اپریل پانچ سو اکتر( 571 ء)تاریخ ِولادت قرار دی ہے اور اس کی صحت کے متعلق محمود فلکی کے دلائل کا حسب ذیل خلاصہ کیا ہے:

  صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کے صغیر السن صاحبزادےحضرت ابراہیم کے انتقال کے وقت گہن لگا تھا اورسن دس(10) ہجری تھا۔ ریاضی کے قاعدے سے معلوم ہوتا ہے کہ گرہن چھ سو بتیس (632ء میں )سات(7)نومبر ،آٹھ بجکر تیس (08:30)منٹ پر لگا تھا۔ قواعدِ ہئیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ بارہ (12) اپریل پانچ سو اکتر(571ء)کے مطابق تھی۔ تاریخِ ولادت میں اختلاف ہے لیکن اس قدر متفق علیہ ہے کہ وہ ربیع الاوّل کا مہینہ اور دو شنبہ کا دن تھا اور تاریخ آٹھ (8) سے لےکر بارہ (12) تک میں منحصر ہے۔ ربیع الاوّل مذکور کی ان تاریخوں میں دو شنبہ کا دن ربیع الاوّل کی نویں (9)تاریخ کو پڑتا ہے تو ان وجوہ کی بناءپر تاریخِ ولادت بیس (20) اپریل پانچ سو اکتر(571ء) بمطابق نو(9) ربیع الاوّل تھی۔19

اس مذکورہ بالا عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قوانینِ ہئیت کے مطابق رسول اکرم ﷺکی تاریخِ ولادت بارہ(12)ربیع الاوّل نہیں بلکہ نو(9)ربیع الاوّل ہے۔

مشہور ومتعارف تاریخِ ولادت

امام احمد رضا خان القادری نے بھی مزید تفصیل کے ساتھ تاریخِ ولادتِ رسول ﷺکے حوالہ سے مذکورہ اختلافی اقوال کا تذکرہ کیا ہے اور پھر اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کیا ہےچنانچہ وہ اس حوالہ سے تحریرفرماتے ہیں:

  ا شہر و اکثر اور ماخوذ ومعتبر بارہ(12) ہے نیز مکّہ معظّمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولدِ اقدس کی زیارت کرتے ہیں جیسا کہ مواہب اللدنیۃ20 اور مدارج النبوۃ 21میں ہےاور خاص اس مکان میں اسی تاریخ میں مجلسِ میلادِ مقدس ہوتی ہے۔22

امام احمد رضا خان القادری آٹھ (8)تاریخ کے قول اور اس کے قائلین کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر اپنی رائے دیتے ہوئےمزید تحریر فرماتے ہیں:

  وان كان اكثر المحدثین والمؤرخین على ثمان خلون وعلیه اجمع اھل الزیجات واختارہ ابن حزم والحمیدى وروى عن ابن عباس وجبیر بن مطعم: وبالاول صدر مغلطائى واعتمدہ الذھبى فى تھذیب التھذیب تبعا للمزى وحکم المشھور بقیل وصحح الدمیاطى عشر ا خلت اقول و حاسبنا فوجد نا غرة المحرم الوسطیة عام ولادته صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الخمیس فكانت غرة شھر الولادة الکریمة الوسطیة یوم الاححد والھلالیة یوم الاثنین فكان یوم الاثنین الثامن من الشھر، ولذا اجمععلیه اصحاب الزیج ومجرد ملاحظة الغرة الوسطیة یظھر استحالة سائر الاقوال ماخلا الطرفین والعلم بالحق عند مقلب الملوین. 23
  اگرچہ اکثر محدثین و مؤرخین کا نظریہ یہ ہے کہ ولادت با سعادت آٹھ(8) تاریخ کو ہوئی۔ اہلِ زیجات24 کا اسی پر اجماع ہے۔ ابنِ حزم و حمیدی کا یہی مختار ہے اور ابنِ عباس و جبیر بن مطعم سے بھی یہی مروی ہے ۔ مغلطائی نے قول اوّل سے آغاز فرمایا اور امام ذہبی نے مزی کی پیروی کرتے ہوئے تہذیب التہذیب میں اسی پر اعتماد کیا اور "قیل" کے ساتھ مشہور کا حکم لگایا جبکہ دمیاطی نے دس تاریخ کو صحیح قرار دیاہے۔ میں (امام احمد رضا خان القادری)کہتا ہوں کہ ہم نے حساب لگایا تو حضور اکرم ﷺ کی ولادت اقدس والے سال محرم کا غرۂ وسطیہ (آغاز ) جمعرات کے روز پایا تو اس طرح ماہ ولادت کریمہ کا غرۂ وسطیہ بروز اتوار اور غرۂ ہلالیہ بروز پیر ہوا تو اس طرح پیر کے روز ماہ ولادت مبارک کی آٹھ(8) تاریخ بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ اہلِ زیجات کا اس پر اجماع ہے ۔ محض غرۂ وسطیہ کا دیکھنے سے طرفین کے علاوہ تمام اقوال کا محال ہونا ظاہر ہوجاتا ہے اور حق کا علم شب و روز کو بدلنے والے کے پاس ہے ۔

یہاں علامہ موصوف نے ما قبل علمائے امت کے حوالہ جات سے مذکورہ اقوال نقل کر کے بارہ(12) تاریخ کو ثبت فرمایاہے اگرچہ ان کے نزدیک تاریخ پیدائش آٹھ(8)ربیع الاوّل ہے لیکن اپنی تحقیق کو لکھنے کے بعد وہ جمہور علمائے امت اور مسلمانوں کے نظرئیے کے مطابق ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ بلا شبہ "تلقی امت بالقبول کے لیے شان عظیم ہے"۔25

کیونکہ اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :

  الفطریوم یفطرالناس والاضحٰ یوم یضحى الناس، رواہ الترمذى عن ام المؤمنین الصدیقة بسند صحیح.26
  فطر اس دن ہے جس دن لوگ عید کریں اور عید الاضحیٰ اُس روز ہے جس روز لوگ عید سمجھیں اس کو امام ترمذی نے صحیح سند کے ساتھ ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ سے روایت کیا ہے۔

اور نبی کریمﷺنے مزید فرمایا:

  فطركم یوم تفطرون واضحاكم یوم تضحون. رواه ابو داؤد البیھقى فى السنن عن ابى ھریرة بسند صحیح . 27
  تمہاری عید الفطر اس دن ہے جس دن تم عید الفطر کرو اور تمہاری عید الاضحیٰ اس دن ہے جس دن کو تم عید الاضحٰی سمجھو۔ اس کو ابو داؤد اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابو ہریرہ سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت عطاء سے روایت کرتے ہوئے آخر میں یہ اضافہ کیا ہےکہ یومِ عرفہ وہی ہے جس کو تم سب یوم ِعرفہ سمجھو۔ یعنی مسلمانوں کا روزِ عید الفطر و عید الاضحیٰ روز عرفہ سب اُس دن ہے جس دن جمہور مسلمین خیال کریں اگرچہ وہ واقع کے مطابق نہ ہو اور اس کی نظیر قبلۂ تحری ہے (یعنی سمتِ قبلہ کی تلاش بذریعہ تحری کرنا) ۔ لامحالہ عید میلاد النبی ﷺبھی عید اکبر ہے اور قول و عمل جمہور مسلمین ہی کے مطابق بہتر ہے۔ فالاوفق العمل ما علیہ العمل (بہترین و مناسب ترین عمل وہی ہے جس پر جمہور مسلمانوں کا عمل ہو )۔28

اسی مذکورہ اختلافی حوالہ اور اس کے حل کو بیان کرتے ہوئے آپمزید تحریر فرماتے ہیں:

  شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور ہونے کے لیے وقعت عظیم ہے اور مشہور عند الجمہوربارہ(12) ربیع الاوّل ہی ہے اور علم ہیات و زیجات کے حساب سے روزِ ولادت شریف آٹھ (8)ربیع الاوّل ہے کما حققناہ فی فتاوٰنا ( جیسا کہ ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تحقیق کر دی ہے ۔) یہ جو شبلی وغیرہ نےنو(9)ربیع الاوّل لکھی کسی حساب سے صحیح نہیں ۔ تعامل مسلمین حرمین شریفین و مصر و شام وبلا د اسلام و ہندوستان میں بارہ(12)ہی پر ہے اس پر عمل کیا جائے، اور روزِ ولادت شریف اگر آٹھ (8)یا بفرض غلط نو (9)یا کوئی اور تاریخ ہو، جب بھی بارہ(12)کو عید میلاد کرنے سے کون سی ممانعت ہے ؟وہ وجہ جو اُس شخص نے بیان کی خود جہالت ہے ، اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ(12) ہے۔ ہمیں شریعت نے نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا ،لہذا اس تاریخ کو روزِ ماتم وفات نہ کیابلکہ روزِ سرورِ ولادت شریفہ کیا کما فی مجمع البحار الانوار (جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں ہے ۔ ) اگر ہئیت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخِ وفات شریف بھی بارہ(12) نہیں بلکہ تیرہ(13) ربیع الاوّل ہے کما حققناہ فی فتاوٰنا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تحقیق کر دی ہے ) ۔ 29

مذکورہ تحریرات سے معلوم ہوا کہ بارہ(12) ربیع الاوّل کے تاریخ ِولادت ہونے میں تعاملِ مسلمین ہے اور یہی قبولیت کے زیادہ لائق ہے۔

علمائےاسلام اور تاریخِ ولادت

عہدِ قریب کے سیرت نگار جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کی تاریخ ِ ولادتِ رسول ﷺ کے حوالہ سے کی گئی تحقیق نہایت واضح ہے جس سے مسئلۂِ تاریخ ولادت بالکل مبرہن اور روشن ہو جاتاہے۔آپنے پہلے ابن جریر طبری ،ابن خلدون اور ابن ہشام کے حوالہ جات کا ذکر کیا ہے جس کا ذکر ہم ما قبل میں کر چکے ہیں پھراس کےبعدپیر کرم شاہ الازہری اس حوالہ سے تحریر کرتے ہیں :

  اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ محسنِ انسانیت ﷺکا یومِ میلاد دو شنبہ کا دن تھا۔ اس پر بھی علماء کا تقریباً اتفاق ہے کہ ربیع الاوّل کا بابرکت مہینہ تھا۔ ماہ رمضان اور ماہ محرم کے اقوال کو اہل تحقیق نے درخوراعتناہی نہیں سمجھا ۔ البتہ ماہ ربیع الاوّل کی کون سی تاریخ تھی جب مہتاب رشد و ہدایت نے جلوہ بار ہو کر عظمت کدۂ عالم کو منور فرمایا ؟ اس بارے میں علمائے کرام کے متعدد اقوال ہیں۔ہم یہاں علمائے محققین کی آراء ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں جن کے مطالعہ سے وہ بآسانی صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں گے :

علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی، جو علمِ سیاستِ اسلامیہ کے ماہرین میں سے ہیں اور جن کی کتاب "الاحکام السلطانیہ" آج بھی علم سیاست کے طلبہ کے لیے بہترین مآخذ ہے ، اپنی کتاب "اعلام النبوۃ" میں ارشاد فرماتے ہیں:

  لانه ولد بعد خمسین یوماً من الفیل و بعد موت اَبیه فى یوم الاثنین الثانى عشر من شھر ربیع الاوّل.30
  واقعۂ اصحابِ فیل کے پچاس (50) روز بعد اور آپ ﷺ کے والد کے انتقال کے بعد حضور ﷺبروز سوموار بارہ(12) ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے ۔

علوم قرآن و سنت اور فن تاریخ کے یہ وہ جلیل القدر علماء ہیں جنہوں نے بارہ(12) ربیع الاوّل کو یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺتحریر کیا ہے ا ور دیگر اقوال کا ذکر تک نہیں کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک صحیح اور معتمد علیہ قول یہی ہے۔

دورِ حاضر کے سیرت نگار محمد الصادق ابراہیم عرجون ، جو جامعہ از ہر مصر کے کلیۃ اصول الدین کے عمید رہے ہیں ، اپنی کتاب "محمد رسول اللہ (صلى اللّٰه عليه وسلم )" میں تحریر فرماتے ہیں:

  وقد صح من طرق كثيرة ان محمدًا ولد یوم الاثنین لاثنتى عشرة مضت من شھرِ ربیع الاول عام الفیل فى زمن كسرى اَنَو شیروان ویقول اصحٰب التَّوفیقات التاریخیّة انّ ذٰلک یُوافِق الیوم المکمّل للعشرین من شھر اغسطُس صلى اللّٰه عليه وسلم بعد میلاد المَسِیْحِ علیه السلام.31
  کثیر التعداد ذرائع سے یہ بات صحیح ثابت ہوچکی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺبروز دو شنبہ بارہ( 12 )ربیع الاوّل عام الفیل کسرٰی نوشیرواں کےعہدِ حکومت میں تولّد ہوئے اور ان علماء کے نزدیک جو مختلف سمتوں کی آپس میں تطبیق کرتے ہیں انہوں نے عیسوی تاریخ میں بیس(20) اگست پانچ سو ستر (570ء) بیان کی ہے۔

ان کے علاوہ محمد رضا جو قاہرہ یونیورسٹی کے لائبریری کے امین تھے انہوں نے اپنی کتاب "محمد رسول اللہ (صلى اللّٰه عليه وسلم)" میں لکھا ہے :

  ولد النبى صلى اللّٰه عليه وسلم فى فَجْر یوم الاثنین لاثنتى عشرة لیلة مَضت من رّبیع الاول عشرین اغسطس 570 م واھل مکّة یزورون موضع مولده فى ھذا الوقت.32
  نبی کریم ﷺسوموار کے دن فجر کے وقت ربیع الاوّل کی بارہ( 12 ) تاریخ کو بمطابق بیس(20) اگست پانچ سو ستر (570ء)میں پیدا ہوئے۔ اہلِ مکّہ سرکار دو عالم ﷺکے مقام ِولادت کی زیارت کے لیے اسی تاریخ کو جایا کرتے ہیں۔

اب ہم چند دوسرے حوالے قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔علامہ ابن جوزی میلادِ مصطفیٰ ﷺکی تاریخ کے بارے میں اپنی تحقیق یوں قلمبند فرماتے ہیں:

  ولد صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین لعشر خلون من رَبیع الاوّل عام الفیل وقیل للیلتین خلتا منه قال ابن اسحاق ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتى عشرة لیلة مضت من شھر ربیع الاوّل. 33
  نبی کریم ﷺکی ولادت با سعادت بروز سوموار دس(10) ربیع الاوّل کو عام ُالفیل میں ہوئی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ربیع الاوّل کی دوسری(2) تاریخ تھی اور امام ابنِ اسحاق فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺکی ولادت مبارکہ بروز دو شنبہ بارہ (12) ربیع الاوّل عام الفیل کو ہوئی ۔34

علامہ ابنِ کثیر جو علوم تفسیر، حدیث اور تاریخ میں اپنی نظیر آپ تھے، وہ "السیرۃ النبویۃ" میں اس موضوع پریوں داد ِتحقیق دیتے ہیں :

  وُلِدَ صلوات اللّٰه علیه وسلامه یوم الاثنین بما رواه مسلم فى صحیحه من حدیث غیلان بن جریر عن ابى قتادة اَن اعرابیًا قال: یا رسول اللّٰه ! ما تقول فى صوم یوم الاثنین؟ فقال: ذاک یومٌ وُلِدت فیه واُنزل على فیه.35
  نبی مکرم ﷺکی ولادت با سعادت سوموار کے روز ہوئی۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں غیلان بن جریر کے واسطہ سے حضرت ابی قتادہ سے روایت کیا ہے کہ ایک اعرابی نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺسوموار کے روزے کے بارے میں حضور کیا فرماتے ہیں ؟ حضور نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن میری ولادت ہوئی ، یہ وہ دن ہے جس میں مجھ پر وحی نازل ہوئی۔

اس کے بعد علامہ ابنِ کثیرلکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے ، آپ فرمایا کرتے تھے: رسول اللہ ﷺکی ولادت بھی سوموار کے دن ، بعثت بھی سوموار کے دن ،مکّہ سے ہجرت بھی سوموار کے دن ، مدینہ طیبہ میں تشریف آوری بھی سوموار کے دن اور دارِ فانی سے انتقال بھی سوموار کے دن اور جس روز حضور نے حجر ِاسود اٹھا کر دیوار ِکعبہ میں رکھا تھا وہ بھی سوموار کا دن تھا ۔ پھر فرماتے ہیں کہ جنہوں نے تاریخِ ولادت بروز جمعہ سترہ (17)ربیع الاوّل بتائی ہے وہ بالکل غلط اور بعید از حق ہے۔ابن کثیر مزید تحریر فرماتے ہیں :

  ثم الجمھور على ان ذلک كان فى شھر ربیع الاوّل.
  جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ولادت با سعادت ماہ ربیع الاوّل میں ہوئی۔

بعض نے اس ماہ کی دو(2) تاریخ ، بعض نے آٹھ(8) تاریخ اور بعض نے دس(10) تاریخ بتائی ہے ۔ آٹھ(8) تاریخ کا قول ابنِ حزم سے منقول ہے اور الحافظ الکبیر محمد بن موسیٰ الخوارزمی نے اس کی تصحیح کی ہے ۔ بعض نے اس ماہ کی(12) تاریخ کو متعین کیا ہے ۔ ابنِ اسحاق نے یہی قول لکھا ہے اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں یہی تاریخ روایت کی ہے۔

ابن کثیراس کے بعد ایک مرفوعہ روایت نقل کر کے اس کے اسناد کی صحت ثابت کرتے ہیں جس سے یہ بات بدیہی طور سے پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ(12) ربیع الاوّل تاریخ پیدائش کا قول صرف علمائے متأخرین ہی کا نہیں بلکہ علمائے متقدمین اور حضرات صحابہ و تابعین کا بھی ہے۔ اسی حوالہ سے آپمزید تحریر فرماتے ہیں :

  رواه ابن ابى شیبة فى مصنفه. عفّان عن سعید بن میناء عن جابر وابن عباس انھما قالا ولد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانى عشر من شھر ربیع الاوّل وفیه بعث و فیه عرج به الى السمآى وفيه ھاجر وفیه ماتَ و هذَا هوالمشهور عندالجمهور واللّٰه اَعلم بالصّواب.36
  جابر اور ابن عباس دونوں سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ عام الفیل بروز دوشنبہ بارہ (12) ربیع الاوّل کو پیداہوئے اور اسی روز حضوراکرم ﷺ کی بعثت ہوئی ، اسی روز معراج ہوئی اور اسی روز (مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منورہ) ہجرت کی اور اسی روز آپ ﷺکا وصال ہوا اور جمہور اہلِ اسلام کے نزدیک یہی تاریخ بارہ (12) ربیع الاوّل مشہور ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

اس کے پہلے راوی ابو بکر بن ابی شیبہ ہیں ، ان کے بارے میں ابو زرعہ رازی متوفی 264ھ کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر بن شیبہ سے بڑھ کر حافظِ حدیث نہیں دیکھا۔ محدث ابنِ حبان فرماتے ہیں : ابو بکر عظیم حافظِ حدیث تھے ۔ دوسرے راوی عفان ہیں ، ان کے بارے میں محدثین کی رائے ہے کہ عفان ایک بلند پایہ امام ، ثقہ ، صاحب ضبط واتقان ہیں ، تیسرے راوی سعید بن میناء ہیں ، ان کا شمار بھی ثقہ راویوں میں ہوتا ہے ۔ یہ صحیح الاسناد روایت دوجلیل القدر صحابہ حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے ۔ 37

حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری اس روایت کو نقل کرنے کے بعد تاریخ دانوں اور ماہر ِفلکیات کے خیالات کا قلع قمع کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

  مرفوع روایت کی موجودگی میں کسی مؤرخ یا ماہرِ فلکیات کا یہ کہنا کہ بارہ(12) ربیع الاوّل تاریخ ولادت نہیں ہرگز قابل تسلیم نہیں ۔مولانا سیّدعبد القدوس ہاشمی عالم دین ہونے کے علاوہ فن تقویم میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے ۔ انہوں نے اس فن پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام تقویم تاریخی ہے ۔ ان کے نزدیک بھی صحیح تاریخ ولادت بارہ(12) ربیع الاوّل ہے ۔ اہل حدیث کے مشہور عالم نواب سیّدمحمد صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ ولادت شریف مکّہ مکرّمہ میں وقت طلوع فجر، روز دوشنبہ ، شب دوازدہم ، ربیع الاوّل عام الفیل کو ہوئی ۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے اور ابن جوزی نے اس سے اتفاق کیا ہے ۔ اسی طرح علمائے دیوبند کے مولانا مفتی محمد شفیع سیرتِ خاتم الانبیاء ﷺ میں رقمطراز ہیں:
الغرض جس سال اصحاب فیل کا حملہ ہوا اس کے ماہ ربیع الاوّل کی 12ویں تاریخ کے انقلاب کی اصل غرض آدم واولاد آدم کا فخر، کشتیٔ نوح کی حفاظت کا راز، ابراہیم کی دعا، موسیٰ و عیسیٰ کی پیش گوئیوں کا مصداق یعنی ہمارے آقائے نامدار محمد رسول اللہ ﷺ کارونق افزائے عالم ہونا ہے۔ 38

پیر کرم شاہ الازہریان سیرت نگاروں پر جنہوں نے محمود پاشا فلکی کی تحقیق کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ان پر تبصرہ فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

  بر صغیر پاک و ہند کے بعض سیرت نگاروں نے محمود پاشا فلکی کے حوالے سے لکھا ہے کہ بارہ(12) ربیع الاوّل کو پیر کا دن نہیں تھا بلکہ پیر کا دن نو(9) ربیع الاوّل کو بنتا ہے ، لہٰذا نو(9) تاریخ صحیح ہے ، لیکن دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ ان لوگوں کو محمود پاشا کے اصلی وطن کا بھی حتمی علم نہیں ۔علامہ شبلی نعمانی اور قاضی سلیمان منصور پوری نے محمود پاشاکو مصر کا باشندہ لکھا ہے،مفتی محمد شفیع صاحب انہیں مکی لکھتے ہیں ، مولانا حفظ الرحمٰن سیو ہاروی نے انہیں قسطنطنیہ کا مشہور ہئیت دان اور منجم بتایا ہے ۔39

محمود پاشا فلکی کی تحقیق کے برعکس عہد قریب کے نامور محقق،عالمِ دین، ،ماہر ہئیت اور سیرت کے موضوع پر اعلیٰ محقق سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ سترہ(17)جون پانچ سو انسٹھ(559ء)جو بقول ان کے تاریخِ قمری کے حساب سے بارہ(12) ربیع الاوّل عام ُالفیل ہے ۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ اپنی فرانسیسی زبان میں لکھی گئی کتاب جس کا اردو میں ترجمہ پروفیسر خالد پرویز نے بنامِ پیغمبر رسولﷺ کیا ہے اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں :

  حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب اور ان کی بیوی حضرت آمنہ بنت وہب کے یہاں مکّہ میں ہجرت سےپینتیس(35) سال قبل سوموار بارہ(12) ربیع الاوّل سترہ(17)جون پانچ سو انسٹھ(559ء) مستقبل کے پیغمبر ِاسلام پیدا ہوئے ۔40

محمود پاشا فلکی نے اگر علمِ فلکیات کی مدد سے کچھ تحقیقات کی بھی ہیں تب بھی صحابہ کرام ، تابعین اور دیگر قدماءرحمۃ اللہ علیہم کی روایات کو جھٹلانے کے لیے ان پر انحصار کرنا کسی طرح مناسب نہیں کیونکہ سائنسی علوم کی طرح فلکیات کی کوئی بات قطعی نہیں ہوتی۔

اس سلسلہ میں غور طلب امر یہ ہے کہ سنِ ہجری کا استعمال حضرت عمر فاروق کے دور میں شروع ہوا اور پہلی مرتبہ یوم الخمیس یعنی بروزِ جمعرات بیس(20) جمادی الاولیٰ سترہ(17ھ)بارہ(12) جولائی چھ سو اڑتیس(638ء) کو مملکتِ اسلام میں اس کا نفاذ ہوا ۔ اس کے بعد تاریخی ریکارڈ ملتا ہے لیکن اس سے پہلے کا تقویمی ریکارڈ دستیاب نہیں اور بعثتِ نبوی سے قبل عرب میں کوئی باقاعدہ کیلنڈر رائج نہیں تھا۔ عرب اپنی مرضی سے مہینوں میں ردو بدل کر لیا کرتے تھے اور بعض اوقات سال کے تیرہ(13) یا چودہ(14) مہینے بنا دیا کرتے تھے ۔ جس طرح تفسیر ضیاء القرآن میں ہے کہ قمری سال کےبارہ(12) مہینوں میں کَبِیسہ کا ایک اور مہینہ بڑھا دیا جاتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اعلانِ نبوت سے قبل نسی ء کی جاتی رہی لیکن ہمیں اس بات کا علم نہیں ہو سکتا کہ کس کس سال میں نسیء کی گئی ۔ 41

محمود پاشا سے قبل بھی کچھ لوگوں نے نجوم کے حسابات سے یوم ولادت معلوم کرنے کی کوشش کی ۔ علامہ قسطلانی لکھتے ہیں : اہلِ زیج کا اس قول پر اجماع ہے کہ آٹھ(8) ربیع الاوّل کو پیر کا دن تھا ۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو شخص بھی علوم ِنجوم اور ریاضی کے ذریعہ حساب لگا کر تاریخ نکالے گا مختلف ہو گی ۔ پس ہمیں قدیم سیرت نگاروں ، محدثین، مفسرین، تابعین اور صحابہ کرام کی بات ماننا پڑے گی۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضور پاک سیّدنا محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ بارہ(12) ربیع الاوّل، عام الفیل کےپیر کے دن صبح کے وقت اس جہانِ ہست و بود میں اپنے وجودِ عنصری کے ساتھ تشریف لائے ۔

علمائے کرام کے ان اقوال کے نقل کرنے کے بعد قارئین کی خدمت میں مصر کے نابغۂ روز گار عالم جو علم و فضل اور زہد و تقویٰ میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ، ان کا قول پیشِ خدمت ہے اور یہ قول ِفیصل ہے جو حق کے متلاشی کے لیے اطمینان اور تسکین کا باعث بھی ہے ۔ امام محمد ابو زہرہ اپنی سیرت کی کتاب "خاتم النبیین صلى اللّٰه عليه وسلم " میں اس مسئلہ کی یوں وضاحت فرماتے ہیں :

  الجمھرة العظمى من علماء الرّوایة على اَنّ مولده علیه الصّلٰوة والسلام فى ربیع الاول من عام الفیل فى لیلة الثانى عشر منه وقد وافق میلادہ بالسنة الشمسیة نیسان (اغسطس).42
  علمائے روایت کی ایک عظیم کثرت اس بات پر متفق ہے کہ آپ ﷺکا یومِ میلاد عام الفیل کے ماہ ربیع الاوّل کی بارہ(12) تاریخ ہے جو شمسی سال کے اگست کے مہینہ کے مطابق ہے ۔

اس کے بعد انہوں نے دوسرے اقوال بھی ذکر کیے ہیں لیکن ان پر بدیں الفاظ تبصرہ فرمایا ہے :

  ولو لا ان ھذه الروایة لیست ھى المشھورة لاخذنا بھا ولٰکن علم الروایة لا یدخل الترجیح فیه بالعقل.43
  علماء کے قول کے مقابلہ میں یہ روایتیں مشہور نہیں ہیں، نیز علم روایت میں ترجیح کا دارومدار عقل پر نہیں ہوتا بلکہ نقل پر ہوتا ہے ۔

برصغیر ہند کے شیخ الحدیث ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی ﷫اپنی شہرہ آفاق کتاب "مدارج النبوۃ"میں تاریخ میلاد پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

  بداں كه جمھور اھل سیر و تواریخ بر آنند كه تولد آں حضرت صلى اللّٰه عليه وسلم در عام الفیل بعد از چھل روز یا پنجاه و پنج روز وایں قول اصح اقوال است، مشھور آنست كه در ربیع الاول بود وبعضے علماء دعوى اتفاق بریں قول نموده و دواز دھم ربیع الاول بود.44
  خوب جان لو کہ جمہور اہل سیر و تواریخ کی یہ رائے ہے کہ آنحضرت ﷺکی پیدائش عام الفیل میں ہوئی اور واقعۂ فیل کے چالیس(40) روز یا پچپن(55) روز بعداور یہ دوسرا قول سب اقوال سے زیادہ صحیح ہے۔ مشہور یہ ہے کہ ربیع الاوّل کا مہینہ تھا اور بارہ(12) تاریخ تھی ۔ بعض علماء نے اس قول پر اتفاق کا دعویٰ کیاہے ، یعنی سب علماء اس پر متفق ہیں ۔ 45

حضرت سعید ابن مسیب سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺدن کے وسط یعنی درمیان میں پیداہوئے اور اس وقت ربیع الاوّل کی گیارہ راتیں گزر چکی تھیں ( یعنی ربیع الاوّل کی بارہ(12) تاریخ تھی) اور آپ ﷺکی پیدائش ربیع کی فصل کے زمانے میں ہوئی ۔ علامہ شامی کہتے ہیں کہ اس پر ( یعنی ربیع الاوّل کی بارہ(12) تاریخ پر )علماء کا اتفاق ہے اور اسی پر عمل ہے ۔ 46 اسی طرح شیخ نور الدین علی بن احمد سمہودی اس حوالہ سے رقمطراز ہیں:

  فاصبح صلى اللّٰه عليه وسلم صبیح الوجه یوم الاثنین مولودا لاثنتَى عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول.47
  رسول کریمﷺ بروز پیر کھلتے چہرہ کے ساتھ بوقتِ صبح ربیع الاوّل کی بارہ(12) تاریخ کو متولد ہوئے ۔

مذکورہ بالاتمام اقوالِ سلف و تصانیفِ ما سبق سے یہ بات بین طور سے ثابت ہوجاتی ہے کہ تاریخ ِولادتِ رسول ﷺعام ُالفیل کی بارہ(12) ربیع الاوّل ہی ہے اورباقی روایات مرجوح ہیں جن کے قائلین کم ہیں ۔بالخصوص جمہور امت کے علماء اور عوام کا عمل اسی پر ہے اور تمام بلادِ اسلامیہ میں اسی تاریخ کو رسول اکرم ﷺکی ولادت کے طور پر منایا جاتاہے حتی کہ مکّہ مکرّمہ اور مدینہ منورہ میں تو اسی تاریخ کو ہی نبی اکرم ﷺکی ولادت کے مقام کی زیارت کی جاتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ علماء اسلام نے فلکیات والوں کے اقوال کو بھی رد کیا ہے جو کہ اس کے خلاف مشیرہیں اور دیگر علماء فلکیات کے حوالہ سے اس بارہ(12) میں اختلاف کو ذکر کیا ہےا ور یہ بتایا ہے کہ صرف ان فلکیات والوں کے مختلف فیہ قول کے سہارے امت کے فضلاء زعماء او ر صحاب کرام سے تواتر کے ساتھ منتقل روایات کو ترک نہیں کیا جا سکتا لہٰذا تمام تحریر کا خلاصہ یہ ہوا کہ رسول اکرم ﷺکی تاریخ ِ ولادت بارہ(12) ربیع الاوّل ہے جو ڈاکٹر حمید اللہ کی تحقیق کے مطابق سترہ(17) جون پانچ سو انسٹھ(559ء) بنتی ہے۔ 48

اس ضمن میں بحث وتحقیق ، تاریخ،جغرافیہ، اورفلکیات و ہئیت کی روشنی میں کسی تاریخ کو قیاس،عقل،منطق، ریاضی یا کسی اورعلم کی بنیاد پر ثابت کرنا قطعی ممنوع نہیں ہے البتہ بارہ(12) ربیع الاوّل کو تاریخِ ولادت صرف اس لیے نہ ماننا کہ اس سے جمہور کی اتباع اور اپنی ذاتی رائےکی قربانی دینی پڑتی ہے کسی طور پر مناسب نہیں ہے اور بالخصوص جب تحقیق کے نام پر ہر کس وناکس سے منسوب غیر مستند وغیر معتمد روایات کا سہارا لے کر صحیح کو غلط،سچ کو جھوٹ محض اس لیےقرار دیا جائے تاکہ اس پیش کش کے ذریعہ میلاد النبیﷺ سے موسوم جملہ محافل و مجالس کو غیر متعلق قرار دیاجائے۔کسی حدیث یا اثر کی موجودگی کے باوجود کسی دن اور تاریخ کی اہمیت کو ظن وتخمینہ کی بنیاد پرثابت کرنا بہرحال غیر مطلوب عمل ہے جس سے ہر انسان اور بالخصوص مسلمان کو اجتناب کرنا چاہیے ورنہ اس گناہ کا سارا عذاب یقیناً اسی کے سر ہوگا جس کی نیت میں اخلاص کے بجائے کھوٹ اور شرارت ہے۔

 


  • 1 ابومحمد عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،2009م،ص:128
  • 2 ابو الفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی، الوفا باحوال المصطفیﷺ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)، ص: 87
  • 3 ابو جعفر محمدبن جریر طبری،تاریخ طبری،ج-2،مطبوعۃ:دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان، 1387ھ،ص:156
  • 4 محمد بن محمد ابن سیّد الناس،عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر،ج-1،مطبوعۃ: دار القلم، بیروت، لبنان، 1993م،ص:33
  • 5 ابو زید عبد الرحمن بن محمد الاشبیلی،تاریخ ابن خلدون،ج-2،مطبوعۃ:دار الفکر،بیروت،لبنان،1988م،ص:407
  • 6 شیخ یوسف بن اسماعیل بن یوسف نبھانی، جواھرالبحار فی فضائل النبی المختارﷺ، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013م، ص:272
  • 7 شھاب الدین احمد بن حجر الھیتمی، مختصر المولد الکبیر، مطبوعۃ: دا رالکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 2010م،ص:388
  • 8 شیخ سیّد عبد الغنی بن عمر الدمشقی، شرح مولد ابن حجر، مطبوعۃ: دا رالکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 2010 م،ص:421
  • 9 ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، صفۃ الصفوۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث ، القاھرۃ، مصر، 2009م، ص:22
  • 10 شیخ سیّد عبد الغنی بن عمر الدمشقی، شرح مولد ابن حجر، مطبوعۃ: دا رالکتب العلمیۃ، بیروت،لبنان، 2010 م، ص:421-422
  • 11 علامہ سیّد احمد بن عبد الغنی بن عمر العابدین دمشقی ، نثر الدر علی مولد ابن حجر(مترجم:مفتی ظفر جبار)،مطبوعہ : کرمہ والا بک شاپ،کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:81-84
  • 12 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقى الزرقانى المالكى، شرح الزرقانى على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية،ج-1 ،مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1996م، ص:248
  • 13 شیخ احمد بن محمد القسطلانی، المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-1،مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م،ص:74-75
  • 14 ابو الفرج عبد الرحمن بن علی الجوزی، صفۃ الصفوۃ،ج-1، مطبوعۃ: دار الحدیث ، القاھرۃ، مصر، 2009م، ص:22
  • 15 علامہ شبلی نعمانی، سیرۃ النبیﷺ، ج- 1، مطبوعہ:البرہان پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2006ء،ص:93
  • 16 قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری، رحمۃ اللعالمینﷺ،ج-1، مطبوعہ:مکتبہ محمودیہ،لاہور،پاکستان،2009ء،ص: 52
  • 17 صفی الرحمن مباکپوری ،الرحیق المختوم ،مطبوعہ: المکتبۃ السلفیۃ،لاہور،پاکستان،1995ء ،ص:83
  • 18 ڈاکٹر محمد ہمایوں عباس شمس، مقالاتِ سیرت،مطبوعہ: مکتبہ اسلامیہ ،کراچی،پاکستان، 2015ء،ص:32-33
  • 19 علامہ شبلی نعمانی، سیرۃ النبیﷺ، ج- 1، مطبوعہ:البرہان پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2006ء،ص:93
  • 20 شیخ احمد بن محمدالقسطلانی، المواھب ا للدنیہ بالمنح المحمدیۃ،ج-1،مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان، 2009م،ص:75
  • 21 شیخ عبد الحق محدث دہلوی،مدارج النبوۃ ، ج- 2، مطبوعہ :ضیاء القرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2012ء،ص:32
  • 22 امام احمد رضاخان القادری،فتاوٰی رضویہ ، ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان،2004ء ، ص:412-413
  • 23 ایضاً
  • 24 اہلِ زیجات علم فلکیّات و علمِ نجوم میں مہارت رکھنے والوں کو کہاجاتا ہے۔(ادارہ)
  • 25 یعنی جس چیز کو امت محمدیہ ﷺ قبول کرکے اس پر عمل پیرا ہوجائے تو پھر اختلاف نہیں کرنا چاہیے بلکہ امت کے ساتھ اس عمل میں شریک ہوجانا چاہیے۔(ادارہ)
  • 26 ابو عيسى محمد بن عيسى الترمذى،سنن الترمذى، حديث:802، مطبوعۃ:دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2009م، ص:263
  • 27 ابوبکر احمد بن حسین البیھقی،السنن الکبری، حدیث:8206،ج-4، مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2003 م، ص:421
  • 28 امام احمد رضاخان القادری،فتاوٰی رضویہ ،ج-26،مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور،پاکستان،2004ء ، ص:414
  • 29 ایضا ً، ص: 428
  • 30 ابو الحسن علی بن محمد الماوردی ،اعلام النبوّۃ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا) ، ص: 192
  • 31 ابراہیم عرجون، محمد رسول اللہﷺ ، ج- 1 ، مطبوعۃ: دارالقلم ، دمشق،السوریۃ،(لیس التاریخ موجودًا) ،ص: 102
  • 32 محمد رضا مصری، محمد رسول اللہﷺ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان،(لیس التاریخ موجودًا)،ص: 19
  • 33 ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی، صفۃ الصفوۃ، ج-1،مطبوعۃ: دا رالحدیث، القاھرۃ، مصر،2009م، ص:22
  • 34 عبد الرحمن ابن جوزی، الوفاباحوال المصطفیﷺ(مترجم:محمد اشرف سیالوی)،ج-1،مطبوعہ:حامد اینڈ کمپنی،لاہور،پاکستان، 2002ء،ص:117
  • 35 ابوالفداءاسماعیل بن کثیر،السیرۃالنبویۃلابن کثیر،مطبوعۃ :دارالکتب العلمیۃ،بیروت،لبنان،2011م،ص:35
  • 36 ایضاً
  • 37 جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری،ضیاء النبیﷺ،ج-2،مطبوعہ:ضیاءالقرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:32-37
  • 38 مفتی محمد شفیع،سیرۃِ رسولِ اکرمﷺ،مطبوعہ:ادارہ اسلامیات،کراچی،پاکستان،1973ء،ص:36
  • 39 جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری،ضیاء النبیﷺ،ج-2،مطبوعہ:ضیاءالقرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:37-38
  • 40 ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، پیغمبر رسولﷺ ،مطبوعہ : حاجی حنیف اینڈ سنز ،لاہور،پاکستان، 2013ء،ص:13
  • 41 جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء القرآن ، ج- 2،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلیکیشنز،لاہور،پاکستان،2013ء،ص:38-39
  • 42 محمدبن احمد الشھیربابی زہرہ ،خاتم النبیینﷺ ، ج-1،مطبوعۃ:دار الفکر العربی،القاہرۃ،المصر،1425ھ،ص:103
  • 43 ایضاً
  • 44 شیخ عبد الحق محدث دہلوی، مدارج النبوۃ ، ج- 2 ، مطبوعہ :ضیاء القرآن، کراچی،پاکستان،2012ء، ص:32
  • 45 جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء القرآن ، ج- 2،مطبوعہ:ضیاء القرآن پبلیکیشنز،لاہور،2013ء،ص:39-40
  • 46 ابو الفرج علی بن ابراہیم بن احمد الحلبی ،سیرت حلبیہ(مترجم:اسلم قاسمی)،ج-1،مطبوعہ:دارالاشاعت، کراچی،پاکستان، 2009ء،ص:192
  • 47 شیخ نور الدین علی بن احمد سمھودی،المواردالھنیۃ فی مولد خیر البریۃﷺ،مطبوعۃ:زاویۃ ببلیشرز،لاہور،باکستان، (لیس التاریخ موجودًا)،ص:111
  • 48 ڈاکٹر محمد حمید اللہ ، پیغمبر رسولﷺ ،مطبوعہ : حاجی حنیف اینڈ سنز ،لاہور،پاکستان، 2013ء،ص:13