عرب ہمیشہ سےہی قادر الکلامی،فصاحت وبلاغت اور شیریں زبانی میں دیگر اقوام میں ممتاز رہے ہیں جو درحقیقت روئے زمین پر عرب کی خاص پہچان ہے۔ اسی وجہ سے عرب اپنی بے نظیر زبان دانی اور خوش الحانی کی بنیاد پر اقوامِ عالم کو عجم اور خود کو عر ب کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔1 اس فصل میں لفظِ عرب کی وجہ تسمیہ، لغوی معنی، عرب و اعراب میں معنوی فرق، قرآن مجید میں ذکر سمیت مزید تقسیمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
علمائے لغت نے لفظِ عرب کے معانی ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اہلِ عرب کو "عرب" کے نام سے موسوم کرنے کی وجہ بھی بیا ن کی ہے۔ عرب کی وجہ تسمیہ کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں اور علمائے لغت، ماہرین انساب اور اہل جغرافیہ نے اپنے اپنے انداز میں عرب کی وجہ تسمیہ بیان کی ہے جیساکہ بعض نے کہا کہ عرب كو عرب اس لئے كہا جاتا ہے كہ وه جہاں مقيم ہيں وه جگہ دورِ قديم ميں عرب كہلاتی تھی اور بعد ازاں یہاں پر مقیم لوگوں کو بھی عرب کہنا شروع کردیا گیا۔ عرب کی مذکورہ وجہ تسمیہ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے صاحبِ تہذیب الُّلغہ تحریر فرماتے ہیں:
واختلف الناس في العرب أنهم لم سموا عربافقال بعضهم: أول من أنطق الله لسانه بلغة العرب يعرب بن قحطان وهو أبو اليمن، وهم العرب.2
اہلِ عرب کے بارے میں لوگوں کااختلاف ہے کہ ان کا نام عرب کیوں رکھا گیا؟پس کسی نے کہا: سب سے پہلےاللہ تعالی نےجس کو عربی زبان سےبہرمندفرمایاوہ یعرب بن قحطان تھےجو عربِ عاربہ اہلِ یمن کےباپ تھے۔
اسی طرح طیب نجار اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
وسموا عربًا نسبة إلى: يعرب بن قحطان جد العرب العاربة، فإنه أول من نطق باللغة العربية الفصحى، وأخذها عنه أهل اليمن. 3
عرب کو عرب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ یعرب بن قحطان کی طرف منسوب ہیں جو عرب عاربہ کے جدِّ امجد ہیں، یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے عربی میں کلام کیا اور ان سے اہل یمن نے عربی سیکھی۔
ایک قول کے مطابق عرب عجم کی ضد ہے اور یعرب بن قحطان پہلے شخص ہیں جن کی زبان کو اللہ نے سریانی سے عربی کی طرف پھیرا تھا ، اس نسبت سے عرب کو عرب کہا جاتا ہے۔ 4 مؤرخین نے بھی اس بات کو ذکر کیا ہے کہ یہ گروہ اپنے معاصرین میں بیان، فصاحت و بلاغت، کلام اور عمدہ گفتگو کی وجہ سے مشہورِ عالَم تھا اور ظاہر اً قیاس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔5اسی وجہ سے اس قوم نے اپنے آپ کو عرب کے نام سے موسوم کیا۔کچھ محققین کے نزدیک یہ صرف علمائے انساب کی رائے ہے ۔ ان کے نزدیک یہ بات خلاف قیاس اور تاریخی معلومات کے مخالف ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق یہ یعرب اس ملک کا پہلا بادشاہ نہیں تھا 6لیکن جمہور کا مؤقف اس کے برعکس ہے۔
بعض علماء اور محققین کے نزدیک عرب اصل میں عربہ تھا جس کے معنی سامی زبان میں دشت اور صحرا کے ہیں چونکہ عرب کا بہت بڑا حصہ دشت اور صحرا ؤں پر مشتمل ہےاس لیے ان ممالک کے مجموعے کو عرف عام میں عرب کہا جانے لگا۔لفظ عرب اصل میں"عربۃ" تھا جس کے معنی بے آب و گیاہ زمین اور صحرا کے ہیں اورعبرانی زبان میں بھی عربۃ بیابان اور بنجر میدان کو کہتے ہیں۔7جب سے یہ لفظ وضع ہوا تو ابتداء سے ہی یہ لفظ جزیرہ نما عرب (Arabian Paninsula)اور یہاں کے باشندوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ 8
لفظ عرب کا مادہ ع ر ب ہے اور عَرَب سے مراد سامی الاصل لوگوں کا وہ گروہ ہے جن كی پیدائش كی جگہ جزیرہ نما عرب ہوئی ہو ۔9عرب عاربہ خالص عرب کو کہتے ہیں جبکہ عرب متعربہ یا مستعربہ ان کو کہتے ہیں جو خالص عرب نہ ہو بلکہ بعد میں عربوں میں داخل ہوئے ہوں۔عربی عرب کی طرف منسوب شخص کو کہتے ہیں اگرچہ وہ بدوی نہ ہو اوراعرابی بدوی کو کہتے ہیں ۔اعراب عرب کی جمع نہیں ہے10کیونکہ اَعراب کی واحد آتی ہی نہیں ہےبلکہ اَعراب کی جمع اعاریب آتی ہے۔ 11اس کی مزید تفصیل دیتے ہوئے صاحب المصباح المنیر رقمطراز ہیں:
العرب اسم مؤنث ولهذا يوصف بالمؤنث فيقال العرب العاربة والعرب العرباء وهم خلاف العجم ورجل عربي ثابت النسب في العرب وإن كان غير فصيح وأعرب بالألف إذا كان فصيحا وإن لم يكن من العرب وأعربت الشيء وأعربت عنه وعربته بالتثقيل وعربت عنه كلها بمعنى التبيين والإيضاح.12
عرب اسم ِ مو نث ہے اوراسی لئے مونث کی صفت بنتا ہے پس کہا جاتا ہے کہ "العرب العاربة" اور "العرب العرباء" ، اور یہ عجمیوں کے برعکس ہیں اور عربی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو عربی النسل ہو اگرچہ غیر فصیح ہو۔ لفظِ"اعرب" الف کے ساتھ اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو فصیح ہو اگر چہ عرب نہ ہو ۔وأعربت الشيء وأعربت عنه وعرّبته وعربت عنه ان سب کا معنی بیان کرنا اور واضح کرناہے۔
اسی طرح صاحب معجم الوسیط اس مادہ '' عرب'' کے معانی کو بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
(عرب) عروبا وعروبة وعرابة وعروبية فصح ویقال عرب لِسَانه (أعرب) فلان كان فصيحا في الْعربيّة وإِن لم يكن من الْعَرَب والکلام بَينه وأتي به وفْق قواعد النَّحْو وطبق عليه قواعد النحو وبمراده أفْصح به وَلم يوارب وعن حاجته أبان.13
عرب ،عروبا،عروبۃ، عرابۃاور عروبیۃکا معنی ہےفصیح ہونا، کہا جاتاہے:اس کی زبان عربی ہوگئی یعنی فصیح ہوگئی۔اعرب یعنی فصیح ہونا مثلا فلاں عربی میں فصیح تھااگرچہ وہ عربی نہ تھااور اس نے علم نحو کے قواعدکےمطابق واضح کلام کیانیزکلام پر قواعدِ نحو کی تطبیق کی ۔ اس سےمرادہے کہ اس نے فصاحت سےکلام کیااورکوئی عیب نہ چھوڑا اوراپنی حاجت کو واضح بیان کیا۔
اسی طرح عرب کا ایک جملہ ہے"رجل مُعْرِب" یہ جملہ اس شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو اگرچہ عجمی النسب ہو لیکن زبان کے اعتبار سے فصیح ہو14یہی وجہ ہے کہ جب عرب کسی شخص کی زبان دانی کی فضیلت کے قائل ہوتے ہیں تو اس کو بھی اعرب کہتے ہیں چنانچہ صاحب لغۃ العربیۃ تحریر فرماتے ہیں:
(أعرب) فلان كان فصيحا في العربية وإن لم يكن من العرب والكلام بينه وأتى به وفق قواعد النحو وطبق عليه قواعد النحو وبمراده أفصح به.15
اعرب یعنی فلاں عربی میں فصیح تھااگرچہ وہ عرب نہ تھاکہ اس نے علم نحو کے قواعدکےمطابق واضح کلام کیااورکلام پر قواعد کی تطبیق کی۔ اس سےمرادہے کہ اس نے فصاحت سےکلام کیا۔
اور اسی لیے من جملہ ہر اس شخص کو جو قادر الکلامی اور فصاحت کے ساتھ گفتگو کرسکتا ہو اس کو بھی عرب کہا جاتا ہے۔اسی طرح لفظ عرب اور اس کے مشتقات و دیگر معانی کی وضاحت کرتے ہوئےصاحب المنجد تحریر فرماتے ہیں:
عرب عروبۃ وعروبیۃ وعرابۃ وعربا وعروبا کامعنی ہےفصیح عربی بولنا یا فصیح عربی زبان ہونا،عرِب الرجل کامعنی ہےلکنت کے بعدآدمی کا فصیح ہونا،عرب المنطق کامعنی ہے اِعرابی غلطی سے پاک ہونا۔۔۔ رجل عَربان اوررجل عربانیُّ اللِّسانِ کامعنی ہےفصیح مرد۔16
بعض علمائے لغت کہتے ہیں کہ عرب "اعراب"سے مشتق ہے جس کے معنی فصاحت سے اپنی بات دوسرے تک پہنچانے کے ہیں چونکہ اس جزیرہ نما کے رہنے والے ہمیشہ سے زبان و بیان کے ماہر تھےاس لیے وہ عرب کہلائے اورانہوں نے اپنے سوا باقی پوری دنیا کو عجم یعنی ژولیدہ زباں یا گونگے کے نام سے پکارا۔ 17
عبرانی میں عربا بیابان اور میدان کو کہتے ہیں اور خود عربی زبان میں اس مفہومِ قدیم کے بقایا جات موجود ہیں۔ عرابۃ کے معنی بدویت کے ہیں اور اعراب اہل بادیہ اور صحرانشینوں کے لئے اب تک مستعمل ہے۔لفظ عرب سب سے پہلے سو (100)قبل مسیح میں حضرت سلیمان کے عہد میں سننے میں آیا تھا اور پھر اس کے بعد عام طور سے اس کا استعمال عبرانی، یونانی اور رومانی تاریخوں میں آیا ہے۔18 ایک قول کے مطابق عرب حضرت اسماعیل کی اولاد کو کہا جاتا ہے اور اس کی جمع اعراب آتی ہے ۔ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے صاحب المفردات تحریر فرماتے ہیں:
العرب: ولد إسماعيل، والأعراب جمعه في الأصل، وصار ذلك اسما لسكان البادية.19
عرب حضرت اسماعیل کی اولاد کو کہتے ہیں اور اس کی اصل جمع اعراب ہے پھر یہ دیہات میں رہنے والوں کا نام ہوگیا۔
آج کے دور کے مطابق عرب ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو جزيره نما عرب كے باسی ہوں، عربی بولتے، لکھتے، پڑھتے ہوں اور ان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کی بھی یہی زبان ہو۔ مزید یہ کہ آج کے دور میں یہ لفظ عام ہے اور بدوی اور شہری عرب دونوں کے لئے مستعمل ہے۔ 20
لفظ عرب کے دوسرے مشتقات اور اس کے معانی میں عربی بولنا، جزیرہ عرب میں رہائش اختیار کرنا، عربوں سے مشابہ ہونا اور عرب کے آباؤاجداد میں اشتراک کی صفات مشترک ہیں۔صاحب معجمۃ اللغۃ العربیۃ اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
(تعرب) تشبه بالعرب وأقام بالبادية وصار أعرابيا وكان يقال تعرب فلان بعد الهجرة. 21
"تعرب"کے معنی عرب کےساتھ مشابہت اختیارکرنے کے ہیں اوردیہات میں قیام کرکےدیہاتی بن جانے کےہیں نیزکہاجاتا ہے کہ فلاں ہجرت کےبعد دیہاتی ہوگیا ۔
اسی طرح لفظ عرب کے مزید مشتقات کو بیان کرتے ہوئے صاحب المنجد تحریر فرماتے ہیں:
العرب والْمُسْتَعْرِبَةُ وَالْمُسْتَعَرِّبَةُ.22
"العرب" وہ غیر ملکی جو عرب میں آباد ہوگئے۔23
اسی حوالہ سےمعجم الوسیط میں ہے :
(استعرب) صار دخيلا في العرب وجعل نفسه منهم (الأعراب) من العرب سكان البادية خاصة يتتبعون مساقط الغيث ومنابت الكلأ، الواحد أعرابي....(العاربة) عرب عاربة صرحاء خلص وقبائل بادت ودرست آثارهم كعاد وثمود وطسم وجديس وهم العرب (العرب) أمة من الناس سامية الأصل كان منشؤها شبه جزيرة العرب البائدة....(العرباء) عرب عرباء صرحاء خلص (العرباني) من يتكلم بالعربية وليس عربيا (المتعربة) من العرب بنو قحطان بن عابر الذين نطقوا بلسان العاربة وسكنوا ديارهم (المستعربة) من العرب أولاد إسماعيل بن إبراهيم عليھما السلام.24
استعرب یعنی عرب میں داخل ہونا اورخودکو ان میں سے شمارکرنا۔الاعراب یعنی عرب کے رہنے والے بادیہ نشین بالخصوص وہ جو پانی اورچوپایوں کےلیےگھاس اورچارہ کی تلاش میں نقل مکانی کرتےہیں، مفرد استعرباعرابی ہے۔العاربۃیعنی خالص فصیح عرب ، وہ قبائل جوناپیدہوگئےاوران کے آثار تک مٹ گئےجیسےثمود،طسم اور جدیس جوعربِ بائدہ ہیں۔العرب یعنی لوگوں کی ایک سامی الاصل قوم جس کی پروان گاہ شبہ جزیرۃ العرب تھا۔ العرباءیعنی خالص فصیح عرب ۔العربانی یعنی جو عربی میں کلام کرےمگر عربی نہ ہو۔ "المتعربۃ" یعنی عرب میں سے بنوقحطان بن عابرجنہوں نےعاربہ کی زبان بولی اوران کے وطن میں سکونت پذیرہوئے۔ المستعربۃیعنی عرب میں سے حضرت اسماعیل بن ابراہیمکی اولاد۔
اسی طرح اس کے دیگر مشتقات کو بیان کرتے ہوئے صاحبِ تہذیب اللغۃ تحریر فرماتے ہیں:
عرب: قال ابن المظفّر: العَرَب العاربة: الصریح منھم قال: والأعاريب: جماعة الْأَعْراب .25
عرب(اس کے بارے میں ) ابن مظفر نے کہا:العرب العاربۃ یعنی جو ان میں سے واضح اورصاف ہو۔انہوں نے کہا: والاعاریب یعنی دیہاتی لوگوں کا گروہ ۔
اسی طرح صاحب مختار الصحاح اس حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
(العرب) جيل من الناس والنسبة إليهم (عربي) وهم أهل الأمصار.26
عرب یعنی لوگوں کی ایک نسل ہے اور عربیت کی بنیاد پر انکی نسبت "عربی" ہے نیز یہ شہروں میں سکونت پذیر ہواکرتےہیں۔
اسی حوالہ سے صاحب المنجد تحریرفرماتے ہیں:
الاعرابی یعنی عرب کا دیہاتی اور الاعرابُ یعنی عرب دیہات کے رہنے والے۔27
مذکورہ بالا دیگر مشتقات سے واضح ہوتا ہے کہ لفظِ عرب کے معانی ومطالب میں ایک طرح کا عموم ہے جس کے اظہار کے لیے اہلِ عرب نے لفظِ عرب سے کئی الفاظ مشتق کیے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ لفظِ عرب میں معنوی عمومیت دیگر الفاظ کی بنسبت کئی گنازیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلِ عرب نے اپنا نام بھی عرب ہی رکھا اور دیگر زبان والوں پر اپنی اسی زبانی برتری کو اپنی شناخت کا اہم ترین ذریعہ بنایا چنانچہ مذکورہ بالا تمام تعریفات کو سامنے رکھ کرلفظِ عرب کا جو معنی سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب بنیادی طورپر فصیح عربی بولنے والے افرادتھے جو جغرافیائی طور پر شمال وجنوب کے ریگستانوں اور صحراؤں میں بود وباش اختیار کیے ہوئےہیں ۔
جزیرہ نما عرب شہروں اور دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ اسی تقسیم کی مناسبت سے بعض اہل لغت کا خیال ہے کہ یہ دونوں لفظ مترادف ہیں اور ان کے ایک ہی معنی ہیں لیکن بعض نے ان دونوں میں معنوی فرق کو بیان کیا ہے کہ لفظ عرب اگرچہ اپنے عُرف ِعام کے لحاظ سے شہر اور صحرا کے رہنے والوں پر یکساں منطبق ہوتا ہےلیکن علمائے لغت کی تعریفات کے مطابق شہر کے رہنے والوں کے لیے لفظ عرب اور صحراء کے رہنے والوں کے لیے لفظِ اعراب بولا جاتا ہے۔
اسی فرق کو بیان کرتے ہوئے صاحب ِ کتاب الصحاح تحریر فرماتے ہیں :
العرب: جيل من الناس والنسبة إليھم عَرَبيّ بيِّن العروبة وهم أهل الأمصار والأعراب منھم سُكّانُ البادية خاصَّة.28
عرب: یہ لوگوں کی ایک نسل ہے اور عربیت کی بنیاد پر ان کی نسبت "عربی" ہے نیز یہ شہروں کے مکین ہوتے ہیں۔انہی میں سے اعراب خاص طور پر دیہات کے رہائشیوں کو کہتے ہیں۔
عربی کی نسبت کے حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابن منظور افریقی تحریر فرماتے ہیں:
رجل عربي إذا كان نسبه في العرب ثابتاً وإن لم يكن فصيحا وجمعه العرب كما يقال: رجل مجوسي ويھودي، والجمع بحذف ياء النسبة اليھود والمجوس.29
ترجمہ:"رجل عربی" یعنی عربی آدمی(اس وقت کہا جاتا ہے )جب اس کا نسب عرب سےثابت ہواگرچہ وہ فصیح نہ ہواوراس کی جمع "العرب" ہے جیسےکہاجاتا ہے: "رجل مجوسی و یھودی"یعنی مجوسی آدمی اوریہودی آدمی، اوراس کی جمع یائےنسبت کو مٹاکر "الیہود" اور "المجوس" ہے۔
صاحب بلوغ الارب عرب اور اعراب کے متعلق مفسرین کی رائے نقل کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ الاعراب جمع کا صیغہ ہے مگر یہ لفظ ِعرب کی جمع نہیں ہے جیسا کہ سیبویہ سے مروی ہےتاکہ اس سے جمع کا بمقابلہ واحد کے زیادہ خاص ہونا لازم نہ آئےکیونکہ عرب تو مطلق طور پر اس مشہور ومعروف قوم کا نام ہے ہی، رہے اعراب تو وہ صحرا کے رہنے والے ہیں، اسی لیے اعراب کا نسبتی اسم اسی لفظ سے اعرابی آتا ہے۔ مفسرین کی ایک جماعت کہتی ہےکہ عرب سے شہروں اور بستیوں کے رہنے والے مراد ہیں، ان میں سے جو لوگ بادیہ نشین یا ان کے موالی ہیں انہیں اعراب کہا جاتا ہے،اس قول کے مطابق عرب اور اعراب دومختلف چیزیں ہیں اور ان دونوں میں جمع اور واحد کا امتیاز "یاء" کے ساتھ ہوتا ہے لہٰذا واحد کے لیے عَرَبِیّ اور اَعرَابِیّ کہیں گے اور جمع کے لیے عَرَب اور اَعرَاب، اسی طرح اَعَارِیب کا لفظ بھی جمع کے لیے استعمال ہوتا ہے جبکہ مورخین کا قول یہ ہے کہ اعراب عرب ہی کی قسم ہے۔30
صاحب منجد نے بھی اپنی کتاب میں لفظِ اعراب کے اسی معنی کو بیان کیا ہے31نیز اسی حوالہ سے لغۃ العربیۃ میں اس کی وضاحت یوں بیان کی گئی ہے:
(الأعراب) من العرب سكان البادية خاصة يتتبعون مساقط الغيث ومنابت الكلأ الواحد أعرابي.32
اعراب یعنی عرب کے بادیہ نشین بالخصوص وہ جو پانی اورچوپایوں کےلیےگھاس اورچارہ کی تلاش میں نقل مکانی کرتےہیں اور اس کی واحد اعرابی ہے۔
اسی مذکورہ معنی کو جوہری نے اپنی صحاح میں 33اور زین الدین الرازی نے اپنی مختار الصحاح میں بھی بیان کیا ہے۔ 34اسی طرح صاحب نہایۃ الارب اپنی کتاب میں لفظِ عَرَب اور اَعرَاب کے درمیان فرق کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب صحاح کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں:
العرب جيل من الناس وهم أهل الامصار والاعراب سكان البادية والنسبة إلى العرب عربي والى الأعراب أعرابي والذي عليه العرف العام اطلاق لفظة العرب مشتقة من الأعراب، وهو البيان أخذاً من قولهم أعرب الرجل عن حاجته إذا أبان.35
عرب لوگوں کی ایک نسل ہے جو شہروں کے مکین ہوتے ہیں اور اعراب دیہات کے رہائشی ہیں۔ عرب کی طرف نسبت عربی ہےجبکہ اعراب کی طرف اعرابی اور عرف عام میں (دونوں پر) لفظ عرب کا اطلاق ہوتاہے جو اعراب بمعنی بیان سے مشتق ہے،اہل عرب کے قول سے دلیل لیتے ہوئے کہ اعرب الرجل عن حاجتہ (یعنی مرد نے اپنی حاجت کو ظاہر کردیا ) جب وہ حاجت بیان کرے۔
اسی طرح جب عربی کو العربی کہا جائے تویہ العرب کا واحد ہوتا ہے اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے عرب کے شہر وں اور دیہاتوں کو اپنا وطن بنالیا ۔36 اور جب العربیۃ کہا جائے تو اس کا مطلب صرف عربی زبان ہی ہوا کرتی ہے جیسا کہ صاحب قاموس الفرید نے اس کی تصریح کی ہے۔ 37اسی طرح وہ لوگ جو دیہات میں رہیں یا جو دیہاتیوں کے پڑوس میں رہائش اختیار کرلیں اور ان کے ساتھ سفر اور کوچ کریں وہ بھی اعرابی کہلاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جو لوگ دیہات کو یا عرب کے کسی گاؤں کو اپنا وطن بنا لیں اگرچہ کہ وہ اپنی زبان دانی کے اعتبار سے فصیح وبلیغ نہ بھی ہوں تب بھی انہیں عرب کہا جاتا ہے ۔ اس حوالہ سے وضاحت کرتے ہوئے ابن منظور افریقی تحریر فرماتے ہیں:
فمن نزل البادية، أو جاور البادين وظعن بظعنهم، وانتوى بانتوائهم: فهم أعراب، ومن نزل بلاد الريف واستوطن المدن والقرى العربية وغيرها ممن ينتمي إلى العرب: فهم عرب، وإن لم يكونوا فصحاء. 38
پس جو (عرب کے)دیہاتوں میں قیام کرےیاان دیہاتیوں کا پڑوس اختیارکرے، ان کے سفرمیں ان کا ساتھ دے اوران کی نسبت کواپنائےتووہ اعراب(یعنی بدو)ہیں، جو گردونواح میں،عرب کےان شہرو ں اور دیہاتوں وغیرہ میں جوعرب کی طرف منسوب ہیں قیام پذیرہوں پس وہ عرب ہیں اگرچہ فصحاء نہ ہوں۔
یعنی مذکورہ بالا زندگی گزارنے کا طریقہ اعراب کا تھا جو جنگلوں میں رہتےتھے اور ان ہی پر اعراب کا لفظ بولا جاتا ہے اور ان کے مدِّ مقابل عرب ہیں جن کی بود و باش شہری طریقہ سے ہے نیز مذکورہ بالا تفاصیل سے واضح ہو اکہ اعراب کا معنی بادیہ نشین ہے جن کی طرز بود و باش دیہاتی ہے۔
قرآن مجید میں لفظِ عرب کو اس کےاصلی معنی کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، جیسا کہ ارشادِ باری تعالی ہے:
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ1439
دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجئے: تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا، اور اگر تم اﷲ اور اس کے رسول(ﷺ) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے ثواب میں) سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بیشک اﷲ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان اعرابیوں کی ایمانی حالت کے اعتبار سے ان کی مختلف اقسام کو بیان کیا ہےکہ بعض دیہاتی کفر و نفاق میں متشدّد ہیں، بعض منافق ہیں اور کچھ خوش نصیب دیہاتی ایسے بھی ہیں جو خالص مومن ہیں جن کا ذکر کرتے ہوئے باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ9940
اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اﷲ کے حضور تقرب اور رسول( ) کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بیشک وہ ان کے لئے باعثِ قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اﷲ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
مذکورہ بالا دونوں آیات مبارکہ میں اعراب کو اس کے اصلی معنی "دیہات کےباسی"کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا تعریفات کا لبِ لباب یہ ہے کہ عرب اور اعراب دونوں جزیرہ نما عرب کے اصل باشندگان ہیں جو عربی زبان اور عربیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے متعلق ہیں خواہ وہ شہروں میں رہتے ہوں یا دیہاتوں میں لیکن خود عرب کون ہیں اس تصور کی وضاحت ضروری ہے تاکہ عربوں کے حسب ونسب کا تعین اور عرب قبائل کے باہم ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی وضاحت ہوسکے ۔ اس کے نتیجے میں عربوں کے مشترکات، متفقات اور ان کے اختلافات اور عربی عصبیت کی نوعیت اور اہمیت زیادہ بہتر انداز میں سمجھ آسکے گی۔اسی تناظر میں ان دو اصطلاحات کی وضاحت ضروری سمجھی جاتی ہے جس سے عرب کی بدوی اور شہری حضارت کا فرق سمجھنے میں مزید آسانی ہوگی وہ درج ذیل دو اصطلاحات ہیں:
لغوی طور پر وبر اور مدر کی تعریفات کا جاننا اس لیے ضروری ہے تاکہ ان تعریفات کے ذریعے سے عربوں کی زندگی کا مجموعی مزاج اور عرب کی شہری اور دیہی زندگی کے اوصاف ومعمولات سمجھنے میں آسانی ہو۔
"الوبر"اونٹ کے اُون کے لیے بولاجاتا ہےجیسے "الصوف" بکری کے اُون کے لیے مستعمل ہے۔ "وبر" دراصل مصدرہے بابِ تعب (یعنی ماضی مکسور العین )سے اور (اہل عرب کہتےہیں)بعیروبر(باء کی) زیرکےساتھ یعنی زیادہ اُون والا اونٹ اور(اسی طرح کہتے ہیں)ناقۃوبرۃ یعنی زیادہ اُون والی اونٹنی اوراس کی جمع اوبارہےجیسےسبب کی اسباب ہے۔41اسی طرح اس لفظ کی وضاحت کرتےہوئے صاحب قاموس تحریر فرماتے ہیں:
الوَبَرُ، محركةً: صوف الابل والارانب ونحوھا. 42
اَلوَبَرحرکات کے ساتھ ،اس کا معنی ہےاونٹ ،خرگوش یا ان جیسے جانوروں کا اُون ۔
مذکورہ بالا اصطلاح یعنی الوبر کواہل لغت نے بھی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے چنانچہ معجم اللغۃ العربیۃ میں اس حوالہ سے یوں مذکور ہے:
أهل الوَبَر: أهل البادية أو البدو لأنّھم يتَّخذون بيوتھم من الوَبَر. 43
اہلِ وبر:(یعنی) دیہات والے یا دیہاتی کیونکہ وہ اپنے گھراُون سے بناتےہیں۔
اسی طرح رواس قلعجی تحریر فرماتے ہیں :
أهل الوبر: أهل البوادي الذين يسكنون الخيام .44
اہلِ وبر: دیہات والے جوخیموں میں سکونت پذیر ہوتےہیں۔
یعنی وبر کا لغوی معنی اون ہے جو اونٹ، خرگوش یا ایسے دیگر جانور جن پر بال کثرت سے ہوتے ہیں ان کے لیے استعمال کیاجاتا ہے اوراس لفظ كے معنی جاننے کے بعد یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ اہل وبر سے مراد عرب کے ہاں وہ بادیہ نشین لیے جاتے ہیں جن کی رہائش اون اور کھالوں سے بنے خیموں میں ہوتی ہے نیز جن کی زندگی کا اکثر دار ومدار جانوروں کی کھال و بال اور اون وغیرہ کے ساتھ ساتھ ان کے دودھ اور گوشت پر ہوتا ہے اور تجارت وزراعت سے ان کا دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔
مدر بذات خود جمع کا صیغہ ہے اور اس کا واحد"المدرۃ" ہے جس کا معنی عمارت ہے۔ 45اہل عرب گاؤں کو"مدرۃ" کہتے ہیں۔ اہلِ مدر کا اطلاق کچے گھروں میں رہنے والوں پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مدر یمن میں واقع ایک گاؤں کا بھی نام ہے۔ اسی لفظ کی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ فلاں مدری ہے۔اسی مادہ سے مشتق لفظ المدریہ ہے جس کا مطلب ایک خاص نیزہ ہے جس کی نوک کی جگہ پرتیزدھارسینگ لگائےجاتےتھے۔ 46 اسی طرح اس لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے صاحب تہذیب اللغۃ تحریر فرماتےہیں:
وقال شمر: والعربُ تسمي الْقرْيَة المبنية بالطين واللبن المَدَرَةَ وكذلك المدینة الضخمة یقال لها: المَدَرَةُ. 47
اورشمر نے کہا: اورعرب گارےاوربھوسے سے بنےگھروں والےشہر کو مدرکہتے ہیں، اوراسی طرح بڑا شہر مدرہ کہلاتاہے۔
اسی حوالہ سے صاحبِ قاموس تحریر فرماتے ہیں:
المَدَرُ، محرَّكةً: قِطَعُ الطينِ اليابِسِ، أو العِلْكُ الذي لا رَمْلَ فيه، واحِدَتُهُ: بهاءٍ، والمُدُنُ، والحَضَرُ، وضِخَمُ البَطْنِ،....ومَدَرَتُكَ:بَلْدَتُکَ، أو قَرْيَتُكَ.وبَنو مَدْراءَ: أهْلُ الحَضَرِ. 48
المدر حرکت کےساتھ: خشک مٹی کا ڈھیلہ یا ایسی گوند جس میں ریت نہ ملی ہو،اس کی مفرد"ھا" کےساتھ ہوتی ہےاور(اس کے دیگر معانی)شہر،شہری اورپیٹ کی بڑائی(ہے)۔۔۔ نیز مدرتک:یعنی تمہاراشہریا گاؤں اوربنومدراء یعنی شہر والے۔
اسی طرح مدر کا ایک اور معنی بیان کرتے ہوئے صاحب العین تحریر فرماتے ہیں:
والمَدْرُ: تَطيينُكَ وجْهَ الحوض بالطّين الحُرِّ لئلا يَنشَف الماءُ.49
المدر: حوض کےپانی کوخشک ہونےسےبچانےکےلیےتیراحوض کےکناروں کوگارےسےدرست کرنا۔
اہل مدر کی تعریف بیان کرتے ہوئے معجم اللغۃ العربیۃ میں مذکور ہے:
وأهل المدر سكان البيوت المبنية خلاف البدو سكان الخيام. 50
اہلِ مدر:خیموں میں رہنےوالےدیہاتیوں کےبرعکس بنےہوئے پکےگھروں والے ہوتے ہیں۔
اسی حوالہ سے معجم الفقھاء میں اہل مدر کی تعریف یوں ذکر کی گئی ہے:
أهل المدر: سكان المدن والقرى.51
اہلِ مدر شہروں اورگاؤں (کے پکے گھروں )میں رہنے والےہیں۔
مذکورہ بالا دونوں اصطلاحات یعنی مدر و وبر کا ذکر حدیث شریف میں بھی ہےچنانچہ ابن منظور افریقی کا حوالہ دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
وفي الحديث: أحب إلي من أهل الوبر والمدر أي أهل البوادي والمدن والقرى، وهو من وبر الإبل لأن بيوتھم يتخذونھا منه، والمدر جمع مدرة، وهي البنية.52
اورحدیث میں ہے:"مجھے دیہاتیوں اورشہریوں سے زیادہ محبوب" یعنی دیہاتیوں،شہریوں اور بستیوں والوں سے اور یہ(لفظِ وبر)وبر الابل(یعنی اونٹ کا اون)سے نکلا ہے کیونکہ یہ بستیوں والے اپنے گھر اسی اون سے بناتے تھے جبکہ مدر مدرۃ کی جمع ہے اور اس کا معنی عمارت ہے۔
مدر کے مذکورہ بالا معانی میں ایک معنی جو تمام میں مشترک ہے وہ گارے اور اینٹ سے لیپنے کا معنی ہے اور اس کے بعد یہ سمجھنے میں کوئی دقّت نہیں رہ جاتی ہے کہ اہل عرب کے ہاں اہل مدر سے مراد گارے سے بنی پکی اینٹوں کے مکانوں میں رہنے والے ہیں جن کی زندگی کا دار و مدار زراعت و تجارت پر ہوتا ہے اور یہ لوگ مستقل سکونت والے ہوتے ہیں بر خلاف اہل وبر کے کیونکہ وہ لوگ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے ہیں۔
لفظ عرب کی مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں جس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ عرب اگر چہ کہ سامی الاصل تھے لیکن حسب نسب سے بھی زیادہ عربوں کے یہاں جس چیز کی اہمیت تھی وہ عربی زبان کی فصاحت ، بلاغت اورقادر الکلامی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی بولنے کے ساتھ ساتھ جزیرہ نما عرب میں رہائش اختیار کرنا ان عربوں جیسے طور طریقوں، عادات و اطوار،رسوم و رواج ،تہذیب و تمدن اورحسب نسب میں یکسانیت بھی عربی ہونے کے مدّعی شخص سے نہایت مطلوب صفات تھیں لیکن اگر کوئی شخص عرب نہ بھی ہو یعنی اس کا نسب عربوں میں ثابت نہ بھی ہو تب بھی ایسے شخص کا عرب کے کسی خطّے میں رہائش پذیر ہو کر عربی زبان میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ ما فی الضمیر کا اظہار اسے عربوں کے زمرے میں داخل کرنے کے لئے سب سے بڑی وجہ بن جایا کر تا تھا اور اس کی دوسری تمام ایسی صفات بشمول عجمیت کے ،عربوں کے لئے لائق اعتناء نہیں رہتی تھیں۔ عرب اپنی زبان دانی بالخصوص شاعری کے ذریعہ افکار و خیالات کی ترسیل میں مہارت کی بنیاد پر دوسری اقوام کو عجمی بمعنی گونگے کے پکارتے تھے ۔زبان پر قدرت اورفخرکی صفت نے انہیں ہمیشہ دوسروں بالخصوص اپنے عجمی فریقوں کے مقابلے میں کبھی مغلوب ہونے نہیں دیاکیونکہ وہ اپنے مقابل دوسرے تمام غیر عرب لوگوں کو کمتر سمجھتے تھے ۔ ماضی میں اپنی زبان پر اس فخر نے عربوں کو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان اور غیر عرب ثقافت کی طرف مائل ہونے نہیں دیا۔ اسلام کی آمد کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ اور قرآن کریم کے ذریعہ اس زبان کو استمرار و دوام عطا فرمادیاچنانچہ آج بھی عرب زبان ،ثقافت، تہذیب اور اقدار اسلام کے قالب میں ڈھلنے کے بعد اپنی انفرادی اورامتیازی شان کی علمبردار ہے۔