Encyclopedia of Muhammad
حضور ﷺ کی عمر مبارک 32/33 غار کا نام حراپہاڑ کا نام جبل النورمقام مکہ مکرمہ

Languages

EnglishGerman

تحنث

تحنث توجہ اور انہماک کے ساتھ عبادت، ریاضت اور غور و فکر کرنے کا نام ہے۔1 علم السیرہ میں یہ لفظ ان خاص لمحات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جب آپ غار حرا میں مختلف مواقع پر کئی کئی دنوں کے لیے تشریف فرما ہوجاتے اور اپنے لمحات مراقبہ، غور و فکر اور ذات باری تعالی کی طرف توجہ و انہماک کے ساتھ ذکر و فکر میں گزارا کرتے تھے۔ 2 آپ سال میں ایک مہینہ غار حراء میں خلوت نشینی فرماتے۔ 3 آپ تنہائی کی اس عبادت میں اکثر ایک عجیب قسم کی روشنی یا نور کا مشاہدہ فرمایا کرتے تھے 4 جس کے مشاہدے سے آپ کی طبیعت میں سکون اور سرور کی کیفیت پیدا ہو جایا کرتی تھی۔

غار حرا

اعلان نبوت سے قبل ہی آپ نے نزول وحی کا مشاہدہ خوابوں وغیرہ کی صورت میں کرنا شروع کر دیا تھا۔ 5 ان خوابوں کا آپ پر فوری اثر یہ ہوا کہ آپ تنہائی اور یکسوئی میں زیادہ مشغول رہنے لگے اور خاص کر ماہ رمضان المبار ک کے دوران غار حرا میں عام لوگوں سے علیحدگی اور اعتکاف کی صورت میں انہیں روحانی کیفیات ولذات سے سرشاری کا احساس ہونے لگا۔ غارِ حرا جبل نور پر واقع مکۃ المکرمہ سے محض دو کلو میٹر کے فاصلہ پر وہ جائے خلوت تھی جس کا طول 4 گز اور چوڑائی 1.75 گز ہے۔ 6 آپ ﷺ نے اپنے لیے خلوت نشینی کے طور پر غار حرا کا انتخاب فرمایا جہاں وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی ضروری اشیاء لے جاکرطویل دورانیہ کےلیے قیام فرمایا کرتے تھے تاکہ اس دوران وہ توجہ اور انہماک سے اللہ کی عبادت کرسکیں۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد آپ اپنے اہل ِخانہ کے پاس واپس تشریف لے آیا کرتے لیکن اکثر آپ کی واپسی صرف اس غرض سے ہوا کرتی کہ آپ اپنے گھر تشریف لاکر غار حرا میں مزید قیام کےلیے ضروری سامانِ اکل وشرب اپنے ساتھ لے جائیں۔ ur جیسے جیسے آپ کی عمر مبارک چالیس سال کے قریب ہوتی گئی ویسے ویسے آپ کا رجحان خلوت اور گوشہ نشینی کی طرف مزید بڑھتا چلا گیا۔

آپ کے قلب اطہر کا لوگوں کی زندگی کی عمومی ہنگامہ خیزی اور دنیاوی مفادات سے غیر متعلق ہونا اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ آپ کا روحانی تعلق ایک غیر مرئی روحانی قوت وطاقت کے سرچشمہ سے تھا جسے بجا طور پر رب العالمین کہا جاتا ہے۔ اس ذات کے ساتھ آپ کا تعلق نہایت مضبوط طریقہ پر قائم تھا۔ آپ کی زندگی کے یہ قیمتی لمحا ت عنقریب قرب ووصالِ باری تعالی کے نہ ختم ہونے والے ابدی تعلق سے سرشار ہونے والے تھے۔ 8 حضور نے تنہائی میں غور وفکر اور استغراق پر مبنی کم وبیش سات برس اسی طرح گزارے لیکن آخری چھ مہینوں میں آپ ﷺ مسلسل سچے خوابوں کے ذریعہ پیش آمدہ واقعات اور دوسرے حقائق پر کثرت کے ساتھ مطلع ہوتے چلے گئے۔ 9

روحانی تجربات

آپ جب غار حرا تشریف لےجاتے تو اکثر آپ کو ایک آواز سنائی دیا کرتی تھی:

  السلام علیك یارسول اللّٰه. 10
  اے اللہ کے رسول( ) آپ پر سلامتی ہو۔

حضور جب دائیں بائیں گھوم کر اس آواز کے منبع کے بارے میں جاننے کی کوشش فرماتے تو آپ کو کوئی بھی شخص نظر نہیں آتا ۔یہ آواز قریب موجود کسی درخت یا پتھر سے آیا کرتی تھی۔ عبادات اور مراقبہ میں مشغولیت کے کچھ ہی عرصہ کے بعد آپ کو غار میں کسی کے موجود ہونے کا احساس ہونے لگا۔ آپ کبھی روشنی کا مشاہدہ فرمایا کرتے اور کبھی کوئی آپ کو آپ کے اسم مبارک سے پکار رہا ہوتا تھا۔ یہ بات آپ نے حضرت خدیجہ کو ان الفاظ کے ساتھ بذات خود بتائی:

  يا خديجة إني أرى ضوءا وأسمع صوتا. 11
  اے خدیجہ ! میں (غار حرا میں) روشنی دیکھتا ہوں اور وہاں پر الہامی آواز یں سنتا ہوں۔

حضرت خدیجہ نے ان واقعات کو اپنے ایک عزیز ورقہ بن نوفل کو بتلایا ur جو خود سابقہ کتب مقدسہ کے جید عالم اور ایک خدا پر یقین رکھنے والے دین حنیف کے پیروکار تھے ۔ 13 ورقہ بن نوفل نے حضور کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ اس آواز کو بغور سننے کی کوشش فرمائیں تاکہ ان پر حقیقت منکشف ہوسکے۔ 14 ایک دوسری روایت کے مطابق اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

  فلما خلا ناداه يا محمد قل: بسم اللّٰه الرحمن الرحيم الحمد للّٰه رب العالمين. حتى بلغ. ولا الضالين قل لا إله إلا اللّٰه. 15
  رسول اللہ جب ان دونوں سے الگ ہوئے تو )دوبارہ خلوت نشینی کی حالت میں) آپ کو فرشتہ نے آواز دی: اے محمد ()! آپ کہیں کہ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے، تمام تعریفیں اس ذات کےلیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے، اور سورہ فاتحہ ولا الضالین تک پڑھائی ، (اس کے بعد اس نے کہا کہ) پڑھو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

ورقہ بن نوفل نے جب مذکورہ بالا پوری بات سنی تو فرمایا کہ حضور کے پاس آنے والا فرشتہ وہی ہے جو آپ سے قبل حضرت موسی کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا 16 یعنی حضور اللہ کے سچے نبی اور رسول ہیں ۔آپ پر اسی تسلسل کے ساتھ واقعات آشکارہ ہوتے رہے یہاں تک کہ چالیس برس کی عمر مبارک کے وقت آپ پر باقاعدہ پہلی وحی کا نزول ہوا ۔ 17

 


  • 1 محمد ابن محمد ابن عبدالرزاق الحسینی، تاج العروس من جواهر القاموس، ج-5، مطبوعۃ: دار الهداية، (بدون العنوان)، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 225
  • 2 حمزہ محمد قاسم، منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة دار البيان، دمشق، السوریۃ، 1990م، ص: 35
  • 3 ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، 2000م، ص: 164
  • 4 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:153
  • 5 ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 135
  • 6 شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 86
  • ur حمزہ محمد قاسم، منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة دار البيان، دمشق، السوریۃ، 1990م، ص: 35
  • 8 شیخ صفی الرحمن مبارکفوری،الرحیق المختوم،مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان،2010م، ص: 86
  • 9 حمزہ محمد قاسم، منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري، ج-1، مطبوعۃ: مكتبة دار البيان، دمشق، السوریۃ، 1990م، ص: 34
  • 10 محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 228
  • 11 ابو عبد اللہ محمد بن سعد البصری، الطبقات الکبری، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1990م، ص:153
  • ur 12، ابوالفداء اسماعیل بن عمرابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ج-1، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 404
  • 13 ایضاً ، ص: 155
  • 14 محمد بن یو سف الصالحي الشامی، سبل الھدی والرشاد فی سیرۃ خیر العبادﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان،1993م، ص: 234
  • 15 ابو ابكر احمد بن حسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفۃ احوال صاحب الشریعۃﷺ، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1405ھ، ص: 158
  • 16 محمد ابن اسمعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 4953، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 886- 887
  • 17 ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-2، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 154