Encyclopedia of Muhammad

Languages

English

ابتداءِ وحی

نزولِ وحی کی ابتداء ماہ ِرمضان المبارک میں شب قدرسے ہوئی۔12اس وقت حضور غار حرا میں تنہا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف تھے کہ حضرت جبرائیل انسانی صورت میں بارگاہِ نبوی میں تشریف لائے اورفرمایا: ''اقرأ''،حضور نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ حضور فرماتے ہیں: فرشتے نے مجھے پکڑا اور اتنے زور سے بھینچا کہ مجھے انتہائی مشقت ہوئی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: ''اقرأ''،3آپ نے فرمایا: میں پڑھنے والا نہیں ہوں۔ اس نے پھر دوسری بار مجھے پکڑا اور اتنی زور سے بھینچا کہ مجھے انتہائی تکلیف اور دشواری ہوئی، 4پھر اس نے مجھے چھوڑ دیااور کہا:

  اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ1 خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ2 اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ3 الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ4 عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ55
  پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا، پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا، آدمی کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

جب یہ وحی نازل ہوئی تو حضور نے فرمایا کہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ الفاظ میرے دل پر لکھے گئے ہیں اور میں ان الفاظ کو پڑھ سکتا ہوں 6پھر جب حضور نے اس کی تلاوت فرمائی تو حضرت جبرائیل وہاں سے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حضور بھی غارِ حرا سے باہر تشریف لے آئے اور تیز تیز قدم لیتے ہوئے اپنے گھر کی جانب بڑھنے لگے۔ جب آپ پہاڑ کے درمیانی حصّے پر پہنچے تو آپ کو بلندی سے آواز آئی جس میں کہا جارہا تھا: ''اے محمد()!: آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل() ہوں۔ '' حضور نے اپنا چہرۂ مبارک آسمان کی جانب بلند کیا اور جبرائیل کو دیکھا جنہوں نے پورے آسمان کو گھیرا ہوا تھا۔حضرت جبرائیل نے دوبارہ وہی الفاظ دہرائے: ''اے محمد()!: آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرائیل () ہوں۔ '' حضور کچھ دیر انہیں ملاحظہ فرماتے رہے پھر اس کے بعد آپ ایک جانب ہوئے لیکن جہاں کہیں بھی آپ اپنی نظرِ مبارک پھیرتے وہیں جبرائیل کو موجود پاتے۔ پھر حضرت جبرائیل تشریف لے گئے اور حضور پہاڑ سے نیچے گھر کی جانب قدم بڑھانے لگےاور اس حال میں گھر پہنچے کہ آپ کا قلب مبارک تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ 7گھر پہنچ کر آپ حضرت خدیجہ کے پاس گئے اورفرمایا زملوني زملوني یعنی مجھے چادر اڑھاؤ، مجھے چادر اڑھاؤ۔ جب حضور پر نزول وحی کے واقعہ کا اثر کچھ کم ہوا تو آپ نے حضرت خدیجہ کو تمام صورتحال سے آگاہ فرمایا۔8حضرت خدیجہ نے حضور کی دلجوئی فرمائی اور تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

  كلا والله ما يخزيك الله أبدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق. 9
  اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی شرمندہ نہیں کرے گا کیونکہ آپ رشتہ داروں سے میل جول رکھتے ہیں،( کمزوروں کا) بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

اس کے بعد حضرت خدیجہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئیں۔ ورقہ بن نوفل ایک عالم ، عبرانی زبان پر مہارت رکھنے والے، انجلیل کا ترجمہ کرنے والےاور حضرت ابراھیم کے دین پر ایمان رکھنے والی شخصیت تھے۔ آپ ضعیف ہونے کی وجہ سے بینائی سے محروم تھے۔ 10جب ورقہ بن نوفل کو حضرت خدیجہ نے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا تو آپ گہری سوچ میں چلے گئے اور پھر فرمایا: اگرحضرت جبرائیل نے واقعی اپنے قدم زمین پر رکھ دیے ہیں تو انہوں نے لوگوں کی اچھائی کے لیے کام کردیا ہے۔ حضرت جبرائیل نبی کے علاوہ کبھی کسی کے لیے زمین پر تشریف نہیں لائے کیونکہ حضرت جبرائیل تمام انبیاء کے رفیق ہیں جو اللہ کے حکم سے انبیاء کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ میں اس چیز پریقین رکھتا ہوں جو تم نے عبداللہ کے بیٹے کے متعلق مجھے بتائی ہے لیکن میں ان سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور سننا چاہتاہوں کہ فرشتے نے حضور سے کیا کلام فرمایا ہے کیونکہ مجھے خوف لاحق ہے کہ کہیں یہ جبرائیل کے علاوہ کوئی اور نہ ہو کیونکہ بعض اوقات شیاطین بھی اس روپ میں لوگوں کے پاس آکر انہیں گمراہ کرتے ہیں اور نیک انسانوں کو پریشان کرتے ہیں، یہاں تک کہ اچھی عقل رکھنے کے باوجود وہ دیوانے ہوجاتے ہیں11

حضور حضرتِ خدیجہ کے کہنے پرورقہ بن نوفل کے پاس تشریف لے گئے جنہوں نے آپ سے اس واقعہ کے متعلق اور حضرت جبرائیل سے ملاقات کے احوال دریافت کیے۔ حضور نے انہیں تفصیل سے سب کچھ بتایا اور ساتھ ہی حضرت جبرائیل نے جو وحی نازل کی تھی اس کے متعلق آگاہ فرما کر حضرت جبرائیل کے آسمان پر ظاہر ہونے اور حضور کو رسول کہنے کے متعلق بھی بتایا۔ یہ سب سن کر ورقہ بن نوفل نے کہا: میں حلفیہ کہتا ہوں کہ وہ حضرت جبرائیل ہی تھے اور یہ الفاظ اللہ کی جانب سے نازل ہوئے ہیں۔ اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کو اس کے احکامات پہنچائیں۔ یہ معاملہ پیغمبری کا ہے اور اگر میں آپ کے اعلانِ نبوت تک زندہ رہا تو میں آپ کا مکمل ساتھ دوں گا۔12

کیا حضور کو اپنے نبی ہونے پر شک تھا؟

ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی کی نقل کردہ حدیث کے مطابق حضور اس وقت بھی نبی تھے جب حضرت آدم کو مٹی اور پانی سے تخلیق کیا جارہا تھا۔13اس پر بعض مستشرقین و اہلِ علم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر حضور اس وقت بھی نبی تھے توآپ کو ورقہ بن نوفل اور دیگر لوگوں سے اپنے نبی ہونے کی تصدیق کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضور اُمِّی تھےیعنی آپ نے کسی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی، اسی لیے نزولِ وحی سے قبل آپ کے لئےحصول علم کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ نہ ہی آپ اس وقت تک عالمِ دنیا میں یہ جانتے تھے کہ میں نبی ہوں لیکن جب آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا تو آپ نہ صرف عالمِ دنیا کے احوال پر آگاہ ہوئے بلکہ اس کے ساتھ اللہ نے آپ کو عالمِ ارواح اور دیگر عالموں کے احوال پر بھی آگاہی عطا فرمائی جس کی بنیاد پر آپ نے ارشاد فرمایا تھا:

  كُنْتُ نَبِيًّا وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ. 14
  میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم () مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔

 


  • 1 القرآن، سورۃ البقرۃ 2 : 185
  • 2 القرآن، سورۃ القدر 97 : 1
  • 3 بعض تاریخی حوالۂ جات یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرائیل یاقوت اور موتیوں سے مزین ریشمی یا مخمل کا کپڑا لائے تھے جس پر کلام الٰہی لکھا ہوا تھا اور اسے آپﷺ کو دکھایا گیا اور فرمایا کہ پڑھیے۔ (عبد الرحمٰن ابن عبداللہ السھیلی، الرؤض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 404)
  • 4 محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1
  • 5 القرآن، سورۃ العلق 96 : 1-5
  • 6 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري،السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ ، بیروت، لبنان،2009م، ص: 181
  • 7 محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1
  • 8 عبد الرحمٰن ابن عبداللہ السھیلی، الرؤض الانف فی شرح السیرۃ النبویۃ، ج-1، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 406
  • 9 محمد ابن اسمٰعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث: 3، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوضیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 1
  • 10 ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری ،صحیح المسلم، حدیث: 403، مطبوعۃ :دارالسلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 2000م، ص: 80
  • 11 ابو الفدا اسمٰعیل ابن کثیر الدمشقی، السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، مطبوعۃ: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان، 1976م، ص: 386
  • 12 ایضاً
  • 13 ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی، شرح مشکل الآثار، حدیث: 5976، ج-15، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 231
  • 14 ایضاً، حدیث: 5977