وحی کا لغوی معنی لکھنا، اشارہ کرنا اور راز کی بات کے ہیں۔1اس کے اصطلاحی معنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرشتوں کے ذریعے انبیاءِکرام پر نازل ہونے والا کلام یا براہ راست کلام کے ہیں جو بغیر کسی ذریعے کے ان تک پہنچا ہو۔2سورۃ الانعام کی آیت وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــہِمْ کی تفسیر میں بعض اہل علم نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ شیطان بھی اپنے چیلوں پر وحی کرتا ہے لیکن وہ بمعنی پیغام کے ہے یعنی شیطان اپنے چیلوں کو خفیہ طور پر پیغام بھیجتا ہے۔3اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں لفظِ لَيُوْحُوْنَ سےلغوی معنی مراد ہے جبکہ اصطلاحی معنی میں پیغامِ الہٰی کا انبیاءِکرام پر نازل ہونا ہی اس کا اصل اور خاص معنی ہے۔اسی طرح یہ اقوال کہ اللہ تعالیٰ نے چیونٹی پر وحی نازل کی 4اور حضرت موسیٰ کی والدہ پر وحی نازل کی گئی5ان سے بھی مراد یہ ہی ہے کہ وہاں وحی کے اصطلاحی معنی کی جگہ لغوی معنی کے طور پر اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔
وحئِ الہٰی مختلف طریقوں اور ذرائع سے انبیاء پر نازل کی جاتی تھی۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام بدرالدین عینی و دیگرفرماتے ہیں:
حضور پر وحی مندرجہ بالا تمام ذرائع سے نازل ہوئی ۔ ابتدا ئی ایام میں جب حضور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غور و فکر کرتے اور یادِ الہٰی میں مشغول رہتے تھے، اس وقت اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کو نیند میں سچے خواب دکھائے جاتے تھے۔ سچے خواب وحی کی ایک صورت تھی لیکن یہ قرآن کا حصہ نہیں تھے۔ اسی لیے اسے وحی غیر متلو یعنی ایسی وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی ہو،کہا جاتا ہےجبکہ قرآن کی صورت میں نازل ہونے والا کلام وحی متلو کہلاتا ہے یعنی جس کی تلاوت کی جاتی ہو۔9سچے خوابوں کا یہ سلسلہ جو دراصل وحی غیر متلو تھا 6 مہینے تک جاری رہا اور جب حضور اپنی عمر ِمبارک کے چالیسویں برس پر پہنچے 10اورقمری اعتبار سے آپﷺ کی عمر ۴۰سال۶ماہ اور ۵ دن تھی اور شمسی اعتبار سے ۳۹سال۳ ماہ اور ۱۶ دن تھی 11تو اتوار اورپیر کی درمیانی شب یعنی پیر کے روز12 ۲۸ جولائی ۲۱۰عیسوی کو صبح کے ۲:۳۰بجے حضرت جبرائیل حضور کی بارگاہِ اقدس میں پہلی وحی لے کر حاضر خدمت ہوئے۔ 13 یہیں سے وحی متلو (قرآن کریم کے نزول)کا آغاز ہوا تھا۔