Encyclopedia of Muhammad

عمرہ

اسلام میں عمرہ کو چھوٹا حج کہا گیا ہے ۔1 ہر صاحب مال اور صاحب اسطاعت کے لیے نبی کریم کی سنت کی اتباع میں اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ یہ ایک مؤمن کے دینی اور دنیاوی فوائد کے اعتبار سے بہت اہمیت اور فضیلت والا عمل ہے۔ 2 یہ گناہوں سے پاک ہونے کا ذریعہ ہے اور اگر اس کو رمضان کے مہینے میں ادا کیا جائے تو اس کا ثواب حج کے برابر ہوجاتاہے۔ 3

عمرہ کی شرعی حیثیت

عمرہ کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ 4 اگر کوئی شخص مالی اور جسمانی طور پر استطاعت رکھتا ہو تو اسے زندگی میں کم از کم ایک بار حضور کی محبت اور اتباع میں یہ ضرور کرنا چاہیے۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمانےکے بعد رسول اللہ نے چار عمرے ادا فرمائے۔ 5حدیث شریف کے مطابق عمرہ انسان کو گناہوں سے اس طرح پاک کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کو نجاست سے پاک کرتی ہے۔ 6

احرام اور میقات

عمرہ کرنے کے لیے میقات سے احرام باندھنا ضروری ہے۔ میقات سے مراد وہ مخصوص جغرافیائی حدود ہیں جو حج یا عمرہ کرنے کا ارادہ کرنے والے عازمین کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ اہم مواقیت پانچ ہیں جن میں سے ہر ایک مختلف سمتوں سے آنے والے حاجیوں اور عازمین عمرہ کے لیے مختص ہے:

ذوالحلیفہ: مدینہ منورہ سے آنے والوں کے لیے ہے۔
جحفہ: شام، مصر اور مراکش کی سمت سے آنے والے زائرین کے لئے ہے۔
قرن المنازل : یہ نجد یا جزیرہ نما عرب کے مشرقی علاقوں سے آنے والے زائرین کے لیے ہے۔
یلملم : یہ یمن سے آنے والے زائرین کے لیے ہے۔
دشت عرق: یہ عراق سے یا اس سمت سے آنے والوں کے لیے ہے۔ 7

یہ حدود ان مقامات کی نشاندہی کرتی ہیں جن سے آگے زائرین کو بغیر احرام جانے کی اجازت نہیں ہے۔ احرام وہ مخصوص لباس ہے جس میں مردوں کے لیے صرف دو سفید چادریں شامل ہوتی ہیں البتہ خواتین کے لئے عام اسلامی لباس ، جو ان کے چہرے، ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ ہر چیز کو اچھی طرح سے ڈھانپ سکے مثلاً: برقع، جلباب، بڑی چادر وغیرہ، کا پہننا لازم ہے۔ احرام باندھنے سے قبل زائر کے لئے بہتر ہے کے وہ اپنی بغلوں اور زیرِ ناف بالوں کو مونڈھ لے اور غسل یا وضو کے ذریعے پاک ہو جائے۔ میقات کا تصور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ عازمین مکہ کی مقدس حدود میں پاکیزگی، طہارت اور مکمل تیاری کی حالت میں داخل ہوں۔ احرام پہننے کے بعد زائر دو رکعت نفل پڑھتا ہے اور پھر اس طرح نیت کرتا ہے:

  اللَّهُمَّ إنِّي أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَيَسِّرْهَالِي، وَتَقَبَّلْهَا مِنِّي. 8
  اے اللہ! میں عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تو اسے میرے لیے آسان فرما اور مجھ سے قبول فرما۔

احرام باندھنے اور عمرہ کی نیت کرنے کے بعد زائر کو احرام کی پابندیوں پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ اب زائر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہے اور بیت اللہ کی طرف بڑھتے ہوئے مسلسل تلبیہ پڑھتا رہے۔ تلبیہ ان الفاظ میں پڑھا جاتاہے:

  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَك. 9
  اے اللہ! میں تیرے حضور حاضر ہوں، اے اللہ !میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، اے اللہ !تیرا کوئی شریک نہیں(اور) میں تیرے حضور حاضر ہوں۔ تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں اور تمام نعمتیں تیری بارگاہ سے ہیں، اور تمام جہان کی بادشاہی تیری ہی ہےاور تیرا کوئی شریک نہیں۔

حدودحرم میں داخلہ

حرم کی حدود میں داخل ہونے پر زائر کے لیے یہ دعا پڑھنا مستحب ہے:

  اللَّهُمَّ هَذَا حَرَمُكَ وَأَمْنُكَ فَحَرِّمنِي على النارِ، وأَمِّنِّی مِن عَذَابِكَ يَومَ تَبْعَثُ عِبادَكَ، وَاجْعَلْنِي مِن أولِيائِكَ وَأهْلِ طَاعَتِكَ. 10
  اے اللہ! یہ تیرا مقدس حرم اور تیری حفاظت کی جگہ ہے۔ تو مجھے (جہنم کی)آگ پر حرام کر دے اور مجھے اس دن اپنے عذاب سے بچا جس دن تو اپنے بندوں کو زندہ کرے گا ۔ مجھے اپنے دوستوں اور اطاعت گزاروں میں شامل کر۔

خانہ کعبہ پر پہلی نظر

جب زائر مسجد الحرام میں داخل ہوتا ہے اور پہلی بار کعبہ کی طرف نگاہ کرتا ہے، اس وقت وہ جو دعا اللہ کی بارگاہ میں مانگتا ہے اللہ اسے شرف قبولیت عطا فرماتا ہے۔ البتہ اگر درج ذیل دعا پڑھی جائے تو بہتر ہے:

  اللَّهُمَّ زِدْ بَيْتَكَ تَشْرِيفًا وَتَكْرِيمًا وَتَعْظِيمًا وَبِرًّا وَمَهَابَةً وَزِدْ مَنْ شَرَّفَهُ وَكَرَّمَهُ وَعَظَّمَهُ مِمَّنْ حَجَّهُ أَوْ اعْتَمَرَهُ تَشْرِيفًا وَتَكْرِيمًا وَتَعْظِيمًا وَبِرًّا وَمَهَابَةً بِاسْمِ اللَّهِ وَاَللَّهُ أَكْبَرُ. 11
  اے اللہ !اپنے گھر (کعبہ) کے شرف، وقار، تعظیم، عزت اور ہیبت میں اضافہ فرما۔ اس کی تعظیم کرنے والوں اور حج یا عمرہ کرنے والوں کے لیے اس کے شرف، وقار، تعظیم، عزت اور ہیبت میں اضافہ فرما۔ شروع اللہ کے نام سے اور اللہ سب سے بڑا ہے۔

عمرہ کی ابتداء :   طواف

اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگنے کے بعد زائر مطاف میں اترتا ہے اور عمرہ کی باقاعدہ نیت کرتا ہے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے اس لئے اس کی زبان سے ادائیگی لازمی نہیں ہے البتہ زبان سے بھی اس کا اظہار کردینا بہتر ہےجسے درج ذیل دعا پڑھ کر کیا جا سکتا ہے:

  اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ اُرِيْدَ طَوَافَ بَيْتِکَ الْحَرَامِ فَيَسِّرْهُ لِیْ وَتَقَبَّلْهُ مِنِّیْ سَبْعَة اَشْوَاطٍ ِﷲ تَعَالٰی عزّوجل.
  اے اللہ !میں تیرے حرمت والے گھر کا طواف کرنا چاہتا ہوں تو اسے میرے لیے آسان فرما اورمیں نے جوتیرے لیے سات چکر لگانے کا ارادہ کیا ہے اسے قبول فرما۔

زائر پھر حجر اسود کے سامنے قطار میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس وقت اسے اپنے ہاتھ کانوں تک اٹھانے چاہئیں، جیسا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت تکبیر تحریمہ کے لئے اٹھاتا ہے۔ تکبیر پڑھنے کے بعد زائرحجر اسود کو چومنے کی کوشش کرے۔ اگر ہجوم کی وجہ سے حجر اسود تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ استلام کرے ۔ استلام دونوں ہتھیلیوں کو حجر اسود کی طرف اٹھا کر بسم اللہ اللہ اکبر پڑھ کر اور پھر ہتھیلیوں کو چوم کر کیا جاتا ہے۔ ان دنوں حجر اسود کو اکثر خوشبو لگائی جاتی ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ احرام میں رہتے ہوئے اسے ہاتھ نہ لگائیں۔

پھر مردوں کو اضطباع کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے احرام کی اوپری چادر لے کر دائیں بغل کے نیچے سے گزاریں، اس کے سِروں کو بائیں کندھے پر ڈالیں، تاکہ داہنا کندھا کھلا رہے۔ طواف کے پہلے تینوں چکروں میں رمل یعنی اکڑ کر بھی چلے لیکن یہ جب ہے جب بھیڑ نہ ہو۔ خواتین اضطباع اور رمل نہیں کریں گی۔

دوران طواف اگرچہ کہ کوئی خاص دعائیں پڑھنا یا کرنا ضروری نہیں ہےلیکن چند دعائیں یاد کرنا اور کثرت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔ پورے طواف کے دوران اگر زائر پریشان ہو جائے اور اسے سمجھ نہ آئے کہ کون سی دعا پڑھنی ہے تو اسے یہ آسان ترین دعا پڑھ لینی چاہئے:

  سُبْحَانَ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ وَلَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ وَاللّٰهُ اَكبَر وَلَا حَوْلَ وَلَا قَوَّةَ اِلاَّ بِااللّٰه. 12
  اللہ پاک ہے اور حمد اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ کے سوا کوئی طاقت اور قوت والا نہیں جو سب سے بلند اور عظیم ہے۔

طواف کے ہرچکر کی ابتداء حجر اسود کا بوسہ لینےیا استلام کرنے سے کی جاتی ہے۔ جس مقام سے استلام کیا جائے گا اس کی نشاندہی مسجد الحرام کے کونے پر لگی سبز روشنی سے بھی ہوتی ہے۔ زائرین کے لئے بہتر یہ ہےکہ وہ اپنی انگلیوں پر طواف کے چکروں کو گنے ورنہ گنتی یاد رکھنے کے لیے خود کار یا دستی کاؤنٹر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ طواف کے سات چکر مکمل کرنے کے بعد، زائرمقام ابراہیم کی طرف روانہ ہوتا ہے اور وہاں یا اس کے آس پاس دو رکعت نفل پڑھتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو زائر کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ ملتزم جوحجرہ اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان کی جگہ ہے اس کو چھو کر یا اس کے قریب کھڑے ہو کر اللہ سے خوب عاجزی و انکساری سےدعائیں کرے۔

زمزم کا پانی پینا

دعا اور مناجات کے بعدزائر اس مقام پر جاتا ہے جہاں زمزم رکھا جاتا ہے اور اسے پیٹ بھر کر پیتا ہے ۔ زمزم کا پانی پیتے وقت درج ذیل دعا پڑھنا سنت ہے:

  اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك رِزْقًا وَاسِعًا وَعِلْمًا نَافِعًا وَشِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ. 13
  اے اللہ !میں تجھ سے کثرت رزق، نفع بخش علم اور ہر بیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں۔

سعی

طواف مکمل کرنے کے بعدزائر سعی کرنے کے لیے صفا اور مروہ کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ اس میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگائے جاتے ہیں۔ یہ عمل حضرت ابراہیم کی اہلیہ ہاجرہ کے اعمال کی یاد دلاتا ہے، جو اپنے بیٹے اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں ان دو پہاڑیوں کے درمیان بھاگی تھیں۔ جب زائرصفا پہنچے تو اس کو یہ دعا پڑھنی چاہئے:

  اللَّهُمَّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَكْرَمُ. 14
  اے اللہ! مجھے بخش دے اور رحم فرما اور تو سب پر غالب اور سب سے زیادہ کریم ہے۔

پھر زائردل میں سعی کی نیت کرتا ہے اوربلند آواز سے یہ پڑھتا ہے:

  إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللّٰهِ. اَبْدَءُوا بِمَا بَدَأَ اللّٰهُ بِهِ. 15
  بے شک الصفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ میں اس سے شروع کرتا ہوں جس سے اللہ نے شروع کیا۔

صفا ومروہ کی دوپہاڑیوں کے درمیان ایک مخصوص مقام جہاں اب سبز لائٹیں لگی ہوئی ہیں وہاں مردوں کے لیے دوڑنا سنت ہے۔ 16 زائر صفا سے مروہ پر پہنچ کر دعا وتسبیحات کا اہتمام کرے ،اسی طرح مروہ سے صفا پر پہنچ کر بھی ذکر واذکار کرے اور دعائیں مانگے۔ 17 سعی کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ صفا کی طرف سے مروہ تک جائے، یہ ایک چکر ہو گا، اب مروہ سے صفا کی طرف واپس آئے تو یہ دوسرا چکر ہو گیا۔ اسی طرح سات چکر پورے کیے جاتے ہیں۔ اس مسنون طریقے کے مطابق آخری چکر مروہ پر ختم ہو گا۔ جب سات چکر مکمل ہوجائیں تو دو رکعت نماز ادا کرے جیسا کہ رسول اللہ سے منقو ل ہے۔ 18سعی کی تکمیل کے بعد مرد سر کے بالوں کا حلق اور یا قصر کروا سکتا ہے جبکہ خواتین ہاتھ کی انگلی کے پورے کے برابر سر کے بالوں میں سے ایک لٹ کا قصر کروا کر اعمرہ مکمل کرتی ہیں اور احرام کی پابندیوں سے آزاد ہوجاتی ہیں ۔ 19

 


  • 1 أبو الحسن علي بن عمر البغدادي الدارقطني، سنن الدارقطني، حدیث: 2723، ج-3، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2004م، ص: 347
  • 2 أبو بكر محمد بن إسحاق ابن خزيمة النيسابوري، صحیح ابن خزیمة، حدیث: 2512، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 130
  • 3 ابو بكر أحمد بن عمرو العتكي المعروف بالبزار، مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار، حدیث:4787، ج-11، مطبوعۃ: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009م، ص: 81
  • 4 محمد أمين الشھیر بابن عابدين الشامی، رد المحتار على الدر المختار، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بيروت، لبنان، 2011م، ص: 475- 476
  • 5 ایضاً، ص: 477
  • 6 أبو بكر محمد بن إسحاق ابن خزيمة النيسابوري، صحیح ابن خزیمة، حدیث: 2512، ج-4، مطبوعۃ: المکتب الإسلامی، بیروت، لبنان، (لیس التاریخ موجودًا)، ص: 130
  • 7 محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ ، فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ، ج-5، مطبعة: الحكومة بمكة المكرمة، السعودیۃ، 1399 ھ، ص:209
  • 8 علاء الدين أبو بكر بن مسعود، الحنفی، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 1986م، ص: 114
  • 9 محمد أمين الشھیر بابن عابدين الشامی، رد المحتار على الدر المختار، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بيروت، لبنان، 2011م، ص: 491
  • 10 ابو زکریا یحیٰ بن شرف النووی، الاذکار، مطبوعۃ: دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، بیروت، لبنان، 1994م، ص: 193-194
  • 11 أبو عبد الله محمد بن محمدالبابرتی،العنایۃ شرح الھدایۃ، ج-2مطبوعۃ: دارالفکر،بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجوداً، ص: 448
  • 12 سراج الدين عمر بن إبراهيم بن نجيم الحنفي، النهر الفائق شرح كنز الدقائق، ج-2، المطبعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان،2002م، ص: 76
  • 13 عبد الرحمن بن محمد شیخی زادہ، مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، ج-1، مطبوعۃ: دار احیاء تراث العربی،السعودیۃ، (لیس التاریخ موجودا)، ص: 273
  • 14 ٔبو القاسم سلیمان بن أحمد الطبرانی، الدعاء للطبرانی، حدیث: 869، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1413ھ، ص: 271
  • 15 أبو عبدالرحمن أحمد بن شعیب النسائی، السنن الکبریٰ، ج-4، حدیث: 3954، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص: 142
  • 16 عثمان بن علي الزيلعي الحنفي، تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ، ج-2، مطبوعۃ: المطبعة الكبرى الأميرية، القاہرۃ، مصر، 1303ھ، ص: 19
  • 17 محمد بن أحمد شمس الأئمة السرخسي، المبسوط، ج-4، مطبوعۃ: دار المعرفة، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 13
  • 18 محمد أمين الشھیر بابن عابدين الشامی، رد المحتار على الدر المختار، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ ، بيروت، لبنان، 2011م، ص: 515
  • 19 احمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص، شرح مختصر الطحاوی، ج-2، مطبوعۃ: دار البشائر الاسلامیۃ، بیروت، لبنان 2010م، ص: 528-529