Encyclopedia of Muhammad
تاریخ: 3 ہجری/625 عیسوی مہینہ: شوال/ مارچ مسلمان مجاہدین: 700 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لشکرِ کفار: 3000 مقام غزوہ: احد شہداء: 70 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مقتولینِ کفار: 22 یا 23 نتیجہ: کوئی نتیجہ نہیں ہوا۔

Languages

German English Portuguese

غزوہ احد

غزوہ احد غزوہ بدر کے ایک سال بعد واقع ہوا جس میں مؤمنین کو سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ 1 یہ رسول اللہ کی قیادت میں 3 ہجری ، نصف شوال، 2 ہفتہ کے دن 3 مدینہ منورہ کی شمالی جانب 3 کلو میٹر کے فاصلہ پر 4 اُحد پہاڑ کے قریب لڑا گیا۔ اس غزوہ میں دشمنان اسلام کی طرف سے 3000 کےلشکر جرار جبکہ مسلمانوں کی طرف سے 700 صحابہ کرام نے شرکت کی۔ اس جنگ میں مسلمانوں میں سے 70 لوگ شہید ہوئے ،جن میں سے چار مہاجرین اور باقی انصار تھے ،جبکہ کفار کے مقتولین کی تعداد 22 یا 23 تھی۔ 5 جنگ کا فیصلہ فریقین میں سے کسی کے بھی حق میں حتمی طور پر نہ ہوا بلکہ دونوں فریقین نے بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کیا اور بغیر کسی حتمی نتيجے كے واپس لوٹے۔

غزوہ احد کے اسباب

قریش مکہ کو غزوہ بدر میں ناقابل تلافی جانی ومالی نقصان اٹھانا پڑا جس کی وجہ سے انتقام کی آگ ان کے اندر سلگ رہی تھی۔اسی لیے ابو سفیان جب غزوہ بدر سے واپس لوٹا توا س نے قسم کھائی کے وہ نہ تیل استعمال کرے گا اور نہ عورتوں کے قریب جائے گا جب تک کہ وہ مدینہ والوں سے بدلہ نہ لے لے۔ اسی لیے ذی الحجہ کے مہینے میں ابو سفیان 200 گھڑسواروں کو لے کر مدینہ آیا۔ وہاں یہودیوں سے خفیہ باتیں معلوم کیں اور واپس جاتے ہوئے مدینہ کے قریب "عریض"کے مقام پر کھجوروں کے باغات کو جلا کر 2 لوگوں کو قتل کرتے ہوئے مدینہ واپس ہوا۔ رسول اللہ کو جب اِس معاملہ کا علم ہوا تو آپ لشکر لے کر اس کے تعاقب میں نکلے لیکن اس کو نہ پاکر "قرقرۃ الکدر" کے مقام سے واپس آگئے۔ 6 ثانیا غزوہ بدر کے بعد قریشِ مکہ کے شام کی طرف جانے والےتجارتی راستے بند ہوگئے تھےجس سے ان کی معیشت پر گہرا ثر پڑا تھا۔ اسی تجارت کو بحال کرنے کے لیے قریش کے تجار نے ابو سفیان کی قیادت میں ایک قافلہ تیار کیا جس میں کافی مقدار میں چاندی لے کریہ لوگ معروف راستہ چھوڑ کر عراق کے راستے سے ملک شام کی طرف جانے لگے۔ رسول اللہ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے حضرت زید بن حارثہ کو 100 گھڑ سواروں کے ساتھ اس قافلہ کے تعاقب میں روانہ فرمایا اور نجد کے قریب "قردہ" کے مقام پر مسلمان لشکر نے ان کو پالیا۔ قافلہ والے مال چھوڑ کر اور اپنی جانیں بچا کر بھاگ نکلے جس سے مسلمانوں کو مال غنیمت حاصل ہوا۔7 یہ وہ وجوہات تھیں جنہوں نے کفار مکہ کو پریشان کیا ہوا تھا اور اہل ایمان کا یہ چھوٹا سا گروہ جس کو وہ کمزور اور حقیر جانتے تھے اب ان کے راستے کی سب سے بڑی دیوار بن چکا تھا اور ناقابل شکست ہوتا جارہا تھا۔

قریش کے باقی ماندہ سردار عبداللہ بن ربیعہ، عکرمہ بن ابو جہل، حارث بن ہشام، حویطب بن عبدالعزی اور صفوان بن امیہ مل کرابو سفیان اور ان لوگوں کے پاس گئے جن کے مال اس تجارتی قافلہ میں شامل تھے اور ان سے کہا کہ محمد () نے ہمیں اکیلا کردیا اور ہمارے مَردوں کو قتل کردیا ہےاس لئے اب ہمیں مل کر ان سے یہ بدلا لینا چاہیے۔8 سب سے پہلے ابو سفیان نے اس بات کو تسلیم کیا اور بنو عبد مناف کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد وہ قافلہ جو صحیح سلامت اور نفع بخش حالت میں واپس آیا تھا، اس سے انہوں نے تمام تاجروں کو ان کا اصل سرمایہ دے کر اس کا منافع روک لیا، جو کہ تقریبا 25 سے 50 ہزار دينار تک تھا 9 تاکہ اس کی مدد سے جنگ کی تیاریاں كي جاسکیں۔

قریش کا لوگوں کو جنگ لئے ورغلانا

سرداران قریش کی اولاد اور تجار نے جنگ کے لیے حامی بھرلی اور اپنا اپنا حصہ شامل کرکے آس پاس کے قبائل تہامہ اور کنانہ کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ صفوان بن امیہ ابو عزہ کے پاس گیا جو کہ ایک شاعر تھا اور اس سے کہا کہ وہ اپنے اشعار کے ذریعے قریشی فوج کے جذبہ کو ابھارے۔ یہ وہ شخص تھا جو بدر میں پکڑا گیا تھا اور نبی نے اسے اس شرط پر رہا کردیا تھا کہ وہ آئندہ آپ اور مسلمانوں کے خلاف اشعار نہیں کہے گا لیکن جب اس کو كثير مال کا لالچ دیا گیا تو وہ مان گیا اور اپنے اشعار سے لوگوں کو جمع کرنے لگا۔ 10

جبیر بن مطعم کا غلام جس کا نام وحشی تھا نیزہ بازی میں مہارت رکھتا تھا۔ اس سے جبیر بن مطعم نے کہا کہ اگر اس نے حمزہ ( )کو قتل کردیا تو جبیر کے چچا طعیمہ بن عدی کا بدلہ ہوجائے گا اور اس کے عوض وہ وحشی کو آزاد کردے گا۔ 11 ابو سفیان نے اس طرح 3000 کا لشکر تیار کیا جس میں قریش کے علاوہ آس پاس کے لوگ جن کو "احابیش" کہا جاتا تھا وہ بھی ساتھ تھے۔ لشکر کے ساتھ گانے والیاں، باجے والے، ڈھول اور شراب کے ساتھ ساتھ قریش کی 15 عورتیں بھی شامل تھیں جن میں ہندہ، اُمّ حکیم (یہ دونوں بعد میں مسلمان ہوئیں )، سلافہ، اُمّ مصعب نام مشہور ہیں۔ 12

نبی کریم ﷺ تک جنگ کی خبر کا پہنچنا

مکہ میں قریش کی تیاریاں زوروں پر تھیں اور عنقریب وہ نکلنے والے تھے کہ آپ کے چچا حضرت عباس نے ایک غفاری شخص کے ہاتھ آپ کو ایک خط بھیجا جس میں قریش کےلشکر اور جنگ کے ارادہ کی خبر تهی۔ خط دیتے ہوئے آپ نے اس شخص کو پابند کیا کہ وہ تین دن میں مکہ واپس پہنچے تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ وہ غفاری شخص مدینہ پہنچا اور خط آپ کے حوالے کیا۔ حضرت ابی بن کعب نے یہ خط پڑھ کر آپ کو سنایا جس میں قریش کے نکلنے کا ذکر تھا۔ آپ نے ان سے اس خط کے راز کو خفیہ رکھنے کا فرمایا اور وہاں سے سیدھا سعد بن ربیع کے گھر تشریف لے گئے اور ان کو سارا معاملہ بتايا اور ان كو بهی اس بات کو خفیہ رکھنے کا حکم دیا۔ 13

لشکرِ قریش کی روانگی

قریش مکہ 5 شوال کو اپنے تمام تر لشکر اور سازو سامان کے ساتھ نکلا 14 جس میں 3000 ہزار لوگ شامل تھے اور سامان جنگ میں 700 زرہیں، 200 گھوڑے، 1000اونٹ اور 15 کجاوے شامل تھے۔ 15 رسول اللہ نے مدینہ کے آس پاس دو اصحاب حضرت انس اور حضرت مونس کو بھیجا تاکہ قریش کی پیش رفت کے حوالہ سے مخبری کریں۔ ان دونوں نے واپس آکر رسول اللہ آگاہ کیا کہ قریش کا لشکر "عقیق " کے پاس پہنچ چکا ہے اور اس لشکر نے اپنے اونٹ اور گھوڑے وادی "عریض" میں چرنے کے لیے چھوڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وہاں اب سبزہ بالکل نہیں رہا۔ اس کے بعد رسول اللہ نے حباب ابن منذر کو روانہ فرمایا تاکہ وہ لشکر کی تعداد کا اندازہ لگائیں۔ انہوں نے واپس آکر جب دشمن کے لشکر کے بارے میں اطلاع دی تو آپ نے ان سے فرمایا:

  لاتذكر من شاءنهم حرفا، حسبنا اللّٰه ونعم الوكيل، الهم بك اجول وبك اصول. 16
  ان کی شان میں مبالغہ آرائی مت کرو، ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔ (پھر آپ نے فرمایا) اے اللہ ! میں تیری مدد سے چلتا پھرتا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ حملہ کرتا ہوں۔

جب قریش کے اتنے قریب آنے کی خبر صحابہ کرام کو معلوم ہوئی تو اس رات قبیلہ اوس اور خزرج کے نوجوانوں نے مسجد کے باہر مسلح پہرہ دینا شروع کردیا اور مدینہ منورہ میں بھی رات مسلح گشت جاری رکھا تاکہ کفار کسی قسم کی شرارت نہ کر پائیں۔

رسول اللہﷺ کا خواب

جس رات نبی کریم کو حضرت عباس کا خط موصول ہوا، اسی رات آپ نے ایک خواب دیکھا اور صبح صحابہ کرام سے فرمایا:

  إني قد رأيت واللّٰه خيرا، رأيت بقرا، ورأيت في ذباب سيفي ثلما، ورأيت أني أدخلت يدي في درع حصينة. 17
  خدا کی قسم میں نے (اپنے خواب میں) بھلائی دیکھی ہے۔ میں نے گائے دیکھی ہے، اور میں نے اپنی تلوار کی دھار میں دندانہ دیکھا ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط زرہ میں داخل کیا۔

پھر آپ نے خود ہی اس خواب کی تعبیر بیان فرمائی کہ گائے سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس جنگ میں مارے جائیں گے اور تلوار سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو کوئی مصیبت پہنچے گی اور زرہ سے مراد مدینہ منورہ ہے۔

اہل مدینہ سے مشورہ کرنا

جمعہ کی نماز کے بعد رسول اللہ نے اہل مدینہ سے مشورہ طلب کیا۔ رسول اللہ مدینہ سے باہر جاکر لڑنے کو ناپسند فرما رہے تھے اور عبداللہ بن ابی جو رئیس المنافقین تھا اس کی رائے بھی یہی تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر لڑا جائے۔ عبد اللہ ابن ابی نے نبی کریم کی رائے سے اس لئے اتفاق کیا کیوں کہ وہ جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہتا تھا اور اسے اس رائے کو ماننے میں فائدہ تھا۔ 18 مسلمانوں میں سے وہ نوجوان جن کو غزوۃ بدر میں شریک ہونے کا موقع نہ ملا تھا انہوں نے رسول اللہ سے فرمایا:

  يا رسول اللّٰه أخرج بنا إلى أعدائنا لا يرون أنا جبنا عنهم أو ضعفنا. 19
  اے اللہ کے رسول ! ہمیں دشمنوں کی طرف لے کر چلیں تاکہ وہ دیکھ لیں کہ ہم بزدل نہیں اور نہ ہم کمزور ہیں۔

جب ان نوجوان صحابہ کرام کا بہت زیادہ اصرار ہوا تو آپ نے ان کی رائے کے مطابق مدینہ طیبہ سے باہر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور نکلنے کی تیاری شروع کردیں۔

حضور ﷺ کی احد کی طرف پیش قدمی

حضور نے لشکر کو جمع کرکے ان سے خطاب فرمایا کہ اللہ کی مدد ان کے ساتھ ہوگی جب تک وہ صبر کے ساتھ لڑتے رہیں گے۔ اس کے بعد آپ نےان کو تیاری کا حکم دیا اور اپنے دولت کدہ میں تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق بھی تھے۔ ان دونوں نے آپ کو عمامہ پہنایا اور جنگی لباس پہننے میں مدد کی۔ باہر سب لوگ کھڑے آپ کا انتظار کررہے تھے کہ اسى اثناء میں حضرت سعد اور اسید بن حضیر نے لوگوں سے کہا کہ انہوں نے رسول اللہ کو مدینہ سے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے جب کہ آپ کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ اس لئے ان لوگوں نے اپنا مشورہ واپس لینے کا سوچا۔ جب رسول اللہ جنگی لباس پہنے باہر تشریف لائے تو لوگوں نے کہا کہ ہم اپنے مشورہ سے رجوع کرتے ہیں اور اگر آپ کی رائے مدینہ میں رہ کر لڑنے کی ہے تو ہم اس کی اتباع کریں گے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا:

  إنه ليس لنبي إذا لبس لأمته أن يضعها حتى يقاتل. 20
  بے شک یہ بات نبی کے شایان شان نہیں کہ ایک بار جب (جنگ کے لئے) زرہ پہن لے پھر بغیر جنگ کئے اس کو اتارے۔

اس کے بعد آپ تقریباً 1000 صحابہ کرام کا لشکر لے کر روانہ ہوئے اور مدینہ منورہ میں عبداللہ بن ام مکتوم کو اپنا نائب مقرر فرمایا۔ آپ نے لشکر میں عَلم بردار بھی مقرر فرمائے اور تین جھنڈے بنوائے۔ قبیلہ اوس کا عَلم بردار حضرت اسید بن حضیر قبیلہ خزرج کا عَلم بردار حضرت حباب بن منذر کو اور مہاجرین کاعَلم بردار آپ نے حضرت علی بن ابو طالب کو بنایا۔ اس کے بعد آپ نے روانگی کا حکم فرمایا۔ آپ کی سواری کے آگے لگام تھام کر حضرت سعد بن معاذ اور حضرت سعد بن عبادہ چل رہے تھے۔ راس الثنیہ کے مقام پر پہنچ کر آپ نے ایک چھوٹی سی جماعت دیکھی اور اس کے متعلق استفسار فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کی کہ یہ یہود میں سے عبد اللہ بن ابی کے حلیف ہیں۔ آپ نے ان کے ایمان کے بارے میں دریافت فرمایا اور جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں تو آپ نے فرمایا :

  انا لاننتصر باھل الکفر على اھل الشرک. 21
  ہم اہل شرک کے خلاف اہل کفر سے مدد نہیں لیں گے۔

مقام "شیخین" پر پہنچ کر آپ نے لشکر کا جائزہ لیا اور کم عمر صحابہ کرام کو واپس بھیج دیا۔ کم عمر صحابہ کرام میں سے آپ نے صرف حضرت رافع بن خدیج کو اجازت دی کہ وہ جنگ میں حصہ لیں کیوں کہ وہ اچھے تیرانداز تھے۔ جب ان کو غزوہ اُحد میں تیر لگا تو رسول اللہ نے فرمایا کہ میں قیامت کے دن اس تیر کی گواہی دوں گا۔ 22 ان کو دیکھ کر حضرت سمرہ بن جندب نے اپنے والد سے کہا کہ رافع کو رسول اللہ نے اجازت دے دی جب کہ میں اس کو کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں۔ رسول اللہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ نے دونوں کا مقابلہ کروایا۔ حضرت سمرہ نے حضرت رافع کو کشتی میں زیر کردیا تو آپ نے دونوں کو جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ 23

عبداللہ بن ابی کی واپسی

عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ پر جانے کی وجہ سے سخت پریشان تھے۔ وہ مستقل کسی موقع کی تلاش میں تھے کہ ان کو کوئی موقع میسر آجائے اور وہ جنگ سے فرار کا راستہ اختیار کر سکیں۔ بالآخر مقام شوط پر جب لشکر اسلام پہنچا تو عبداللہ بن ابی ایک تہائی لشکر لے کر یہ کہتے ہوئے الگ ہوگیا کہ:

  اطاع الولدان ومن لا راى له وعصانى، ما ندرى على مانقتل انفسنا ایھا الناس ھاھنا.
  انہوں (آپ ) نے بچوں کی بات مان لی اور ان کی بات مان لی جن کی کوئی رائے نہیں، اور میری بات نہیں مانی، اے لوگو ہم یہاں کس مقصد کے لیے اپنے آپ کو قتل کرائیں؟

اس کے ساتھ سارے منافقین واپس لوٹ گئے۔ عبداللہ بن حرام نے ان کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ نبی اکرم اور اپنی قوم کو یوں نہ چھوڑو جب کہ دشمن سامنے ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ان کو لگتا ہے لڑائی نہیں ہوگی اس لئے وہ جارہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئی جن میں اللہ تعالی نے ان کے نفاق کا ذکر فرمایا :

  وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعْنَاكُمْ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ 167 24
  اور ایسے لوگوں کی بھی پہچان کرادے جو منافق ہیں اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جنگ کرو یا (دشمن کے حملے کا) دفاع کرو، تو کہنے لگے: اگر ہم جانتے کہ (واقعۃً کسی ڈھب کی) لڑائی ہوگی (یا ہم اسے اللہ کی راہ میں جنگ جانتے) تو ضرور تمہاری پیروی کرتے، اس دن وہ (ظاہری) ایمان کی نسبت کھلے کفر سے زیادہ قریب تھے، وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، اور اللہ (ان باتوں) کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں۔

اور اسی طرح یہ آیت بھی منافقین کے بارے میں نازل ہوئی:

  مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ 179 25
  اور اللہ مسلمانوں کو ہرگز اس حال پر نہیں چھوڑے گا جس پر تم (اس وقت) ہو جب تک وہ ناپاک کو پاک سے جدا نہ کر دے، اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لئے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔

جب منافقین کی یہ جماعت واپس ہوئی تو بعض صحابہ کرام نے کہا کہ دشمن سے پہلے ان سے لڑا جائے کیوں کہ یہ کفار سے ذیادہ خطرناک دشمن تھے جبکہ بعض صحابہ کرام کا کہنا یہ تھا کہ ان کو فی الحال ان کے حال پر رہنے دیا جائے۔ اسی ضمن میں اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ آیت نازل فرمائی:

  فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوا أَتُرِيدُونَ أَنْ تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا 88 26
  پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقوں کے بارے میں تم دو گروہ ہوگئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث ان (کی عقل اور سوچ) کو اوندھا کردیا ہے۔ کیا تم اس شخص کو راہِ راست پر لانا چاہتے ہو جسے اللہ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہے، اور (اے مخاطب!) جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے ہرگز کوئی راہِ (ہدایت) نہیں پاسکتا۔

اسی وجہ سے رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا :

  انھا طیبةوانھا تنفى الخبث كما تنفى النار خبث الفضة. 27
  یہ (جہاد) ایک پاکیزہ عمل ہے اور یہ گند کو ایسا پاک کرتا ہے جیسے آگ چاندی کے گند کو پاک کرتی ہے۔

میدان اُحد میں لشکر کی ترتیب

اُحد کی گھاٹی میں پہنچنے کے بعد آپ نے لشکرکی ترتیب اس طرح فرمائی کہ اُحد پہاڑ کی طرف لشکر کی پیٹھ کی اور رخ مدینہ منورہ کی جانب رکھا جبکہ جبلِ رماۃ کو اپنی دائیں جانب رکھ کر صفوں کو ترتیب دینا شروع فرمایا۔ میمنہ پر آپ نے حضرت عکاشہ بن محصن کو مقرر فرمایا، میسرہ پر ابو سلمہ بن عبدالاسد کو، مقدمۃالجیش پر حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت سعد بن ابی وقاص کو، اور لشکر کے پچھلے حصہ پر حضرت مقداد بن عمرو کو مقرر فرمایا۔ 28 جبل رماۃ جو اُحد پہاڑ کے قریب تھا اور وہاں سے لشکر پر عقب کی طرف سے حملہ کا خطرہ تھا، وہاں پر آپ نے عبد اللہ بن جبیر کو 50 لوگوں پر امیر مقرر فرمایا اور آپ کو بمع اصحاب کے اس پہاڑ پر رہنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا:

  لاتبرحوا، ان رايتمونا ظهرنا عليهم فلا تبرحوا، وان رايتموهم ظهرواوعلينا فلاتعينونا. 29
  اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اگرچہ کہ تم دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آچکے ہیں،اور اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اگرچہ کہ تم دیکھ لو کہ وہ ہم پر غلبہ پاچکے ہیں۔ پس تم ہماری مدد بھی نہ کرنا۔

قریش کی صف بندی اور عَلم بردار وں کا تعین

کفار نے لشکر کے دائیں حصہ پر خالد بن ولید او ر بائیں حصہ پر عکرمہ بن ابو جہل کو مقرر کیا۔ تیر اندازوں کی ایک جماعت جو 100 افراد پر مشتمل تھی اس پر عبد اللہ بن ربیعہ کو مقرر کیا۔ اس کے بعد ابو سفیان عَلم برداروں کی طرف متوجہ ہوا اور ان کو جوش دلانے کے لئے کہنے لگا:

  يا بني عبد الدار، إنكم قد وليتم لواءنا ببدر فأصابنا ما قد رأيتم، فإنما يؤتى الناس من قبل راياتهم، إذا زالت زالوا، فإمّا أن تكفون لواءنا، وإما أن تخلّوا بيننا وبينه فنكفيكموه، فهمّوا به وتواعدوه وقالوا: أنحن نسلم إليكم لواءنا؟ ستعلم إذا التقينا كيف نصنع. 30
  اے عبدالدار! غزوہ بدر میں بھی عَلم تمہارے پاس تھا، تم نے پیٹھ پھیر دی تھی، اور پھر جو نقصان ہمارا ہوا وہ تم نے دیکھا، اس لیے کہ لوگ جھنڈے کو دیکھ کر ہی قائم رہتے ہیں، جب جھنڈا گرتا ہے تو لشکر بھی منتشر ہوجاتا ہے۔ یا تو اس جھنڈے کی پاسداری کرو، یا تم یہ جھنڈا ہمارے حوالہ کردو۔ ہم اس کے لیے کافی ہیں۔ یہ سن کر وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے کہ کیسے ہم اپنا جھنڈا تمہیں دے سکتے ہیں؟ کل پتہ چلے گا ہم کیا کرتے ہیں۔

جنگ کی ابتدا

دونوں طرف کے لشکر کی صف بندی ہونے کے بعد کفار کے لشکر میں سے ابو عامر بن صیفی جو مدینہ میں رہائش پذیر ایک کافر تھا اپنے 50 لوگوں کو لے کر قریش کے لشکرسے جاملا۔ اس نے اپنی قوم قبیلہ اوس کو آواز دی اور ان کو اپنا تعارف کروایا کیوں کہ اس کو لگتا تھا کہ اس کی قوم اس کا نام سن کر اس کے ساتھ ہوجائے گی۔ قبیلہ اوس نے جب اس کی آواز سنی تو اس سے کہنے لگے:

  لا انعم اللّٰه بک عینا . 31
  اللہ تجھے کچھ اچھا نہ دکھائے۔

جب اس نے اپنی بے عزتی دیکھی تو مسلمانوں سے لڑنے لگا اور پتھر مارنے لگا۔ اس کی اس حرکت سے لڑائی شروع ہوگئی اور کفار کی عورتیں اشعار سنا سنا کر اپنے لشکر کے جذبات کو بھڑکاتی رہی۔

جنگ کا پہلا مرحلہ

جب جنگ شروع ہوئی تو مشرکین میں سے ایک شخص نکلا جس نے مبارزت کا اعلان کیا۔ تین بار پکارنے پر حضرت زبیر بن عوام کھڑے ہوئے اور اس سے دوبدو لڑنے لگے۔ ان کو دیکھ کر رسول اللہ نےفرمایا:

  الذي يلي حضيض الأرض مقتول. 32
  جو پہلے زمین پر گرے گا وہ مارا جائے گا۔

اسی اثنا میں وہ مشرک گرا اور اس کے اوپر حضرت زبیر آئے اور اس کو قتل کردیا۔ یہ دیکھ کر رسول اللہ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

  ان لکل نبی حواريا وان حواري الزبیر. 33
  ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔

اس کے بعد صحابہ کرام کفار کے عَلم برداروں کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان میں سے ایک علم بردار آگے نکلا اورمسلمانوں کو للکارا۔ حضرت علی کھڑے ہوئے اور اس سے جنگ کی یہاں تک کہ اس کو قتل کردیا۔ اس کے بعد مشرکین کا جھنڈا اس کے بھائی عثمان بن ابو طلحہ نے لیا، جس کو حضرت حمزہ نے قتل کیا۔ اس کے بعد ابو سعید بن طلحہ نےمشرکین کا جھنڈا لیا جس کو سعد بن ابی وقاص نےتیر مارا اور ہلاک کیا۔ اس کے بعد مشرکین کے جنگجوؤں میں سے ارطاۃ بن شرحبیل نے مسلمانوں پر حملہ کیا جس کو حضرت علی نے جہنم واصل کیا اور شریح بن قارظ بھی مارا گیا۔ اس کے بعد ابو زید بھی مارا گیا جس کو قزمان نے قتل کیا۔34 جب سارے علَم بردار مارے گئے تو مشرکین مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہوگئے اور مسلمانوں نے ان کی صفوں میں داخل ہوکر ان پر حملہ کردیا۔

حضرت ابو دجانہ کی تلوار

ادھر مسلمان دشمن کی صفوں میں داخل ہو رہے تھے ادھر رسول اللہ نے ایک تلوار نکالی اور فرمایا :

  من یاخذ ھذ السیف بحقه؟ فقام الیه ابو دجانه سماک بن خرشه اخو بنى ساعده. قال انا آخذہ یارسول اللّٰه بحقه ...فاعطاه ایاه.35
  کون اس تلوار کا حق ادا کرے گا؟ حضرت ابو دجانہ بن سماک بن خرشہ جو بنو ساعدہ میں سے تھے کھڑے ہوئے اور کہا یارسول اللہ میں اس کا حق ادا کروں گا۔ ۔ ۔ تو آپ نے ان کو وہ تلوار مرحمت فرمائی۔

اس کے بعد حضرت ابودجانہ نے ایک لال پٹی نکالی اور اپنے سر پر باندھ لیا اور اکڑ کر چلنے لگے جس کو دیکھ کر رسول اللہ نے فرمایا کہ اس موقع کے علاوہ اللہ تعالی کو یہ چال پسند نہیں۔ 36 حضرت کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک مشرک جو جنگی لباس میں ملبوس تھا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ان مسلمانوں کو ایسے تلواروں پر لو جیسے ذبح شدہ بکریوں کو لیا جاتا ہے۔ اتنے میں اس کا ایک مسلمان جنگجو سے سامنا ہوا۔ وہ دونوں ایک دوسرے پر پِل پڑے۔ مسلمان جنگجونے اس کافر کے کندھے پر زور دار وار کیا جو کہ اس کے پورے وجود کو کاٹتا ہوا اس کے کولہے سے باہر نکلا جس سے وہ کافر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ پھر اس مسلمان جنگجو نے اپنا چہرہ کھولا اور حضرت کعب کو مخاطب کرکے کہنے لگا:

  كیف ترى یاكعب؟ انا ابو دجانة. 37

حضرت حمزہ کی بہادری وشہادت

حضرت حمزہ نے اکیلے کئی کافروں کو موت کے گھاٹ اتارا 38 جن میں ایک مشہور شہسوار سباع ابن عبد العزی بھی شامل تھا۔ جب حضرت حمزہ کا اس سےسامنا ہوا تو آپ نے ایک ہی وار میں اس کا سر تن سے جدا کردیا۔ 39 آپ زرہ پہنے ہوئے تھے اور کفار پر تابڑ توڑ حملے کرکے ان کو قتل کررہے تھے۔ اسی اثنا میں وہ ایک کافر کی زرہ اٹھانے کے لیے جھکے تو آپ کے پیٹ کی جگہ سے زرہ ہٹ گئی۔ وحشی جو کہ حضرت حمزہ کی تاک میں تھا اس نے اپنا نیزہ سیدھا کیا اور حضرت حمزہ کے ناف کے قریب مارا جو ان کے پیٹ کو چیرتا ہوا نکل گیا اور آپ شہید ہوگئے۔ 40

لشکر کفار کی ہزیمت

جنگ کے اول مرحلہ میں مسلمانوں کو خوب فتح حاصل ہوئی اور مسلمان کفار پر غالب رہے۔ کفار کے کئی بہادر جنگجو اور عَلم بردار مارے گئے جس کو دیکھ کر کفار نے میدان چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔ بھاگتے ہوئے کفار کسی چیز کو خاطر میں نہیں لارہے تھے اور ان کی عورتیں بھی چیختی چلاتی بھاگ رہی تھیں۔ مسلمان ان کا پیچھا کرکے ان کو مار رہے تھے۔ دشمن کا پیچھا کرتے کرتے مسلمان کفار کے لشکر تک پہنچ گئے اور ان سے ان کا جنگی سامان لینے لگے۔ 41 ادھرجبل رماۃ پر مامور صحابہ کرام نے جب لشکر اسلام کو کفار کا پیچھا کرتے دیکھا اور میدان کو خالی پایا تو وہ لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ وہ یہاں کیوں رکے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے دشمن کو شکست دے دی ہے۔ یہ کہہ کر وہ مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے وہاں سے چل پڑے۔ عبد اللہ بن جبیر نے ان صحابہ کرام کو منع کیا کہ وہ اس جگہ کو نہ چھوڑیں لیکن سوائے 10 افراد کے باقیوں نے ان کی بات نہ سنی اور وہ دیگر مسلمانوں کے ساتھ مال غنیمت کے جمع کرنےمیں شریک ہوگئے۔42

جنگ کا دوسرا مرحلہ

میدان جنگ سے کافر فرار ہورہے تھے اور مسلمانوں کے مورچے خالی ہو چکے تھے۔ لشکر کفار تھوڑی دور گیا تو خالد بن ولید جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے اس پہاڑ پر نظر ڈالی جہاں تیر انداز مقرر کئے گئے تھے۔ انہوں نے وہاں فقط چند لوگوں کو پایا تو ایک طویل چکر کاٹ کر آپ اس پہاڑ پر عقب کی جانب سے حملہ آور ہوئے اور وہاں موجود صحابہ کرام کو موقع غنیمت پا کر شہید کردیا۔ اس کے بعد وہ اس پہاڑ سے نیچے اترے اور پیچھے کی جانب سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ اس طرح دونوں طرف سے مسلمان گھِر گئے۔ مسلمان اس حملہ سے بالکل بے خبر تھے اور اچانک اس افتاد نے لشکر کو بری طرح متاثر کردیا تھا۔ اسی وجہ سے مسلمان اس حملہ سے اپنا بچاؤ نہ کر سکے اور جس کا جس طرف رخ تھا وہ اسی طرف بھاگ پڑا۔ جو مال غنیمت مسلمانوں نے اٹھایا تھا وہ بھی ان کو وہیں چھوڑنا پڑا۔ اس اثناء میں کافی تعداد میں شہادتیں بھی ہوئیں اور مسلمانوں کی صفیں بھی ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں مسلمانوں کی تلواروں سے خود دوسرے مسلمان بھی بری طرح زخمی ہوئے۔43

اس سراسیمگی کی حالت میں مسلمانوں کے 3 گروہ بن گئے۔ ایک گروہ رسول اللہ کو گھیرے میں لیے ہوئے دشمن سے برسرپیکار تھا۔ دوسرا گروہ وہ تھا جو اس اچانک حملہ سے حواس باختہ ہوکر میدان سے نکل کر مدینہ منورہ کی طرف نکل گیا تھا جبکہ تیسرا گروہ وہ تھا جس نے رسول اللہ کے بارے میں یہ افواہ سنی تھی کہ رسول اللہ کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس وجہ سے وہ گروہ سخت صدمہ میں تھا اوربددلی سے لڑرہا تھا یہاں تک کہ اس گروہ کے کئی لوگ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے تھے اور باقی اپنا دفاع کررہے تهے جب كہ ان بقیہ لوگوں کو رسول اللہ کے بارےمیں معلوم ہوا کہ آپ بخیر و عافیت کے موجود ہیں تو جلدی از جلد وہ آپ سے آملے 44 اور پہلے گروہ میں شمولیت اختیار کرلی جو آپ کے دفاع میں مشغول تھا۔

لشکراسلام میں انتشار کی کیفیت

لشکر اسلام میں جب یہ بات پھیلائی گئی کہ رسول اللہ شہید کرديے گئے ہیں تو لشکر میں انتشار پھیل گیا اور صحابہ کرام منتشر ہونے لگے۔ رسول اللہ نے ان کو آوازیں بھی دیں لیکن اس شور وغل اور غیرمتوقع حملے نے ان کے اعصاب پر منفی اثر ڈالا جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ کی طرف متوجہ نہ ہوسکے۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے :

  إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَى أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 153 45
  جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول () اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

حضرت ثابت بن دحداح نے ان نامساعد حالات میں انصار کو یہ کہہ کر جوش دلایا کہ اگر محمد شہید کر بھی دئے گئے تو اللہ تعالی حی اور قیوم ذات ہے جس کو فنا نہیں ہے، اس لئے اٹھو اور دین کی سربلندی کے لیے لڑو، اللہ تعالی کامیابی دے گا اورمدد بھی کرے گا۔ آپ کی اس تقریر سے انصار کی ایک جماعت کھڑی ہوئی اور انہوں نے خالد بن ولید کی جماعت پر حملہ کردیا یہاں تک کہ وہ سب خود بھی شہید ہوگئے۔ 46 افراتفری کے اس عالم میں صحابہ کرام نے حضرت حذیفہ کے والد حضرت یمان کو لشکر کفار کا بندہ سمجھ کر شہید کردیا۔ بعد میں رسول اللہ نے ان کی دیت دینی چاہی تو حضرت حذیفہ نے معاف فرمادی۔ اسی طرح حسبل بن جابر بھی خود مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ 47

رسول اللہ ﷺ کی میدان جنگ میں ثابت قدمی

ان حالات میں جب کہ مسلمانوں کا لشکر پورے طور پر بکھر گیا تھا اور تیر مسلسل آپ کی طرف آرہے تھے آپ میدان جہاد میں ثابت قدم رہے اور اپنے قرب میں موجود صحابہ کرام کو مسلسل ہدایات دیتے رہے۔ آپ کے ساتھ 11 سے 14 صحابہ کرام تھے جو مسلسل آپ کا دفاع کررہے تھے۔ رسول اللہ پہاڑ کی طرف تشریف لے جانا چاہتے تھے لیکن مشرکین نے آپ کا راستہ روک رکھا تھا۔ اس وقت میں حضرت طلحہ اور ایک انصاری صحابی نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے آپ کے وہاں تک پہنچنے میں مدد کی۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے کئی انصاری آپ کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ 48 حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے سنا کہ رسول اللہ شہید ہوگئے ہیں تو آپ کو شہداء میں تلاش کیا اور ان کے درمیان نہیں پایا۔ اس کے بعد آپ اپنی تلوار لے کر اس قدر جذبات سے لڑے کہ آپ کی تلوار کی دستی ٹوٹ گئی۔ لڑتے لڑتے آپ کی نگاہ رسول اللہ پر پڑی۔ آپ نے دیکھا کہ رسول اللہ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی جس سے آپ دشمن پرتیر برسا رہے تھے۔ اتنے میں اس کمان کی تانت ٹوٹ گئی اور ایک بالشت رہ گئی، حضرت عکاشہ بن محصن نے آپ سے کمان لی اورٹھیک کرنے کی کوشش کی لیکن تانت چھوٹی ہوگئی تھی۔ آپ نے ان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ اب کھینچو۔ جب انہوں دوبارہ تانت کھینچی تو وہ اتنی بڑی ہوگئی کہ کمان پر لپیٹ کر تین گرہیں لگ گئیں۔ اس کمان سے آپ نےاتنے تیر چلائے کہ اس سے باقائدہ چنگاریاں نکلیں اور وہ ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد آپ پتھر اٹھا اٹھا کر دشمن کو مارتے رہے۔49

حضرت سعد کے بارے میں آتا ہے کہ آپ حضور کا دفاع تیروں کے ذریعہ سے کررہے تھے۔ رسول اللہ نے ان کو تیر برساتے دیکھا تو ان سےفرمایا:

  ارم فداک ابی وامي . 50
  (اے سعد !) میرے والدین تجھ پر فدا، تیر چلاتے رہو۔

اور رسول اللہ بذات خود حضرت سعد کو تیر پکڑا رہے تھے اور ان کے لیے دعا فرمارہے تھے کہ یااللہ سعد کی دعائیں قبول فرما اور ان کا تیر نشانے پر لگا۔ بیہقی کی روایت کے مطابق پھر وہ تیر بھی حضرت سعد نے دشمنوں پر چلائے جن کا لوہے کا پھل تک نہیں تھا مگر حضور کی دعا کی برکت سے وہ تیر بھی عام تیر کی مثل بھرپور نشانہ پر لگتا تھا۔ 51

رسول اللہ ﷺ کا زخمی ہونا

رسول اللہ کا میدان جنگ میں چہرہ مبارک اور سرمبارک زخمی ہوا۔ عتبہ بن ابی وقاص نے آپ کی طرف پتھر پھینکا جس سے آپ کے سامنے کے دندان مبارک شہید ہو گئےاورآپ کا ہونٹ مبارک بھی زخمی ہوگیا۔ حاطب بن ابی بلتعہ نے رسول اللہ کو زخمی دیکھا اور عتبہ کی یہ بدبختی دیکھی تو فوراً اس کی طرف لپکے اور اس کا سرقلم کردیا اور اس کی تلور اور گھوڑا لے کر رسول اللہ کی خدمت میں پیش کیا جس پر رسول اللہ نے ان کو خاص بشارت دی کہ اللہ ان سے راضی ہوگیا۔ 52 ایک اور مشرک ابن قمئہ نے رسول اللہ کو دیکھا تو تلوار کا وار کرنے لگا جس سے رسول اللہ کے گال مبارک پر زخم آئے اور آپ پیچھے ہونے لگے۔ وہاں ابو عامر فاسق نے ایک گڑھا کھودا ہوا تھا جس میں آپ کا پاؤں آیا اور آپ اس میں گر پڑے جہاں سے آپ کو حضرت علی اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے مل کر نکالا۔ 53

اسی جنگ میں آپ کے رخسار مبارک بھی زخمی ہوئے اور ان میں لوہے کے خود کی دو کڑیاں گھس گئیں۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے وہ کڑیاں منہ سے نکالنے کی کوشش کی جس سے کڑی تو نکل گئی مگر ساتھ ہی ان کا ایک دانت بھی نکل گیا۔ دوسری کڑی نکالنے لگے تو دوسرا دانت بھی نکل گیا۔ حضرت ابو عبیدہ کے دانت نکلنے سے ان کے حسن میں کمی نہیں آئی بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا تھا۔54

صحابہ کرام کی بے مثال قربانیاں اور شہادتیں

رسول اللہ کفار کے نرغے میں تھے اور چند صحابہ کرام آپ کے ارد گرد جانثاری سے لڑرہے تھے۔ اسی دوران آپ نے فرمایا :

  من رجل يشرى لنا نفسه؟ 55
  کون ہمارے لئے اپنی جان کا سودا کرے گا؟

یہ سن کر حضرت زیاد بن سکن پانچ انصاری جوانوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور رسول اللہ کے سامنے کفار سے لڑنے لگے یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ حضرت ابو دجانہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ آپ کو اپنی اوٹ میں لیے ہوئے تھے اور ڈھال بن کر اپنی پیٹھ پر تیر کھاتے جارہے تھے۔ حضرت عمرو بن جموح کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی معذور ٹانگ کے ساتھ جنت میں ٹہلنا چاہتےہیں اور پھر وہ اپنے دو جوان بیٹوں سمیت اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ حضرت عبد اللہ بن جحش کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ ان کا دشمن سے مقابلہ ہو جوان کے ناک اور کان کاٹ دے اور جب قیامت میں اللہ ان سے پوچھے کہ ان کے ناک کان کہاں ہیں تو وہ کہیں یااللہ تیری اور تیرے رسول کی خوشنودی میں کٹواديے۔ پھر ان کے ساتھ ویسا ہی ہوا جیسا انہوں نے دعا مانگی تھی۔ 56

رسول اللہ نے حضرت سعد بن ربیع کی تلاش میں صحابہ کرام کو بھیجا کہ جاکر انہیں ڈھونڈیں اور ان سے پوچھیں کہ ان کا کیا حال ہے۔ جب ان کو تلاش کیا گیا تو وہ جان کنی کے عالم میں تھے اور ان پر 70 سے زائد تلواروں اور نیزوں کے زخموں کے نشان تھے۔ جب وہ ملے تو ان سے کہا گیا کہ رسول اللہ نےان کو سلام کہا ہے اور ان کا حال پوچھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ کو ان کا سلام پیش کریں اور ان سے فرمائیں کہ اللہ آپ کو ہماری طرف سے بہترین جزادے جیسا کہ اس نے کبھی کسی نبی کو اپنی قوم کی طرف سے انعام دیا ہے۔ پھر وہ جام شہادت نوش کرگئے۔ 57 حضرت حنظلہ نے ابو سفیان پر حملہ کیا اور اس کو زمین پر گرادیا۔ وہ اس پر وار کرنے والے تھے کہ اسود بن شداد نے ان پر نیزے سے وار کیا۔ اس کے بعد آپ کو ایک تیر لگا اوراس تکلیف کے عالم میں بھی چلتے رہے کہ ابو سفیان کو پالیں۔ اسی اثناء میں آپ کو ایک اور تیر لگا جس سے آپ کی شہادت ہوگئی۔ بعد میں رسول اللہ نے ان کو دیکھا تو فرمایا کہ حنظلہ ( ) کو فرشتوں نے غسل دیا ہے۔58

صحابہ کرام کی بہادری

حضرت انس بن نضر جو کہ حضرت انس بن مالک کے چچا تھے۔ 59 آپ نے صحابہ کرام کی ایک جماعت کو دیکھا جو نبی کریم کی شہادت کی خبر سن کر یشان حال تھی۔ آپ ان سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ اٹھو اور اللہ کے راستے میں شہید ہوجاؤ۔ جب آپ کی حضرت سعد بن معاذ سے ملاقات ہوئی تو فرمایا کہ مجھے احد کی جانب سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ 60اس کے بعد آپ میدان میں نکل پڑے اور شہید ہوگئے۔ ان کے جسم پر 70 سے زیادہ تلواروں کے زخم کے نشانات تھے، ان کی بہن نے ان کو انگلی کے پوروں سے پہچانا تها۔

حضرت مصعب بن عمیر کی شہادت

حضرت مصعب بن عمیر کے پاس مسلمانوں کا جھنڈا تھا۔ جب گھمسان کی جنگ شروع ہوئی تو ایک کافر ابن قمئہ نے سمجھا کہ یہ رسول اللہ ہیں۔ اس نے حضرت مصعب پر حملہ کیا اور آپ کاایک ہاتھ کاٹ ڈالا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے جھنڈا دوسرے ہاتھ میں لے لیا۔ جب دوسرے بازو پر اس کافر نے وار کیا تو انہوں نے جھنڈا اپنی تھوڑی اور سینے کے درمیان تھام لیا۔ آپ جب شہید ہوگئے تو وہ کافر زور سے چیخنے لگا کہ (نعوذ باللہ) محمد () کو میں نے قتل کردیا کیوں کہ جنگی لباس میں حضرت مصعب رسول اللہ کے مشابہ معلوم ہوتے تھے اس لئے وہ اور اس کے دیگر ساتھی دھوکہ کھا گئے تھے۔ 61

ابی بن خلف کا قتل

ابی بن خلف نے بدر سے واپسی پر دعویٰ کیا تھا کہ اس نے ایک گھوڑا پالا ہے جس پر بیٹھ کرآپ کو (نعوذ باللہ) شہید کرے گا۔ جب رسول اللہ کو اس کی یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا: ان شاءاللہ وہ اسے خود قتل کریں گے۔ غزوہ اُحد کے موقعہ پر وہ آپ کی طرف جنگی لباس میں ملبوس بڑھا۔ صحابہ کرام اس کو روکنے کے لیے آگے بڑھے تو آپ نے ان کو منع کیا کہ اس کو آنے دیں۔ جب وہ قریب ہوا تو رسول اللہ نے ابی بن خلف کی طرف نیزہ پھینکا جو اس کی گردن کو چھوتا ہوا گزرا جس سے ایک خراش آئی اور خون نکلنے لگا۔ وہ گھوڑے سے گرا، جانوروں کی طرح آوازیں نکالنے لگا اور کہنے لگا کہ اسے آپ نے قتل کردیا۔ آس پاس کے لوگ اس کو کہنے لگے کہ وہ ایسے ہی گھبرا رہا ہے حالانکہ یہ صرف ایک خراش ہے۔ ابی بن خلف کہنے لگا کہ اگرآج محمد () مجھ پر تھوک بھی دیتے تو تب بھی وہ مرجاتا۔ واپسی پر وہ مقام سرف پر مر گیا اور وہیں دفن کردیا گیا۔ 62

جنگ کا تھم جانا

رسول اللہ اور صحابہ کرام ایک گھاٹی میں اکٹھے ہوگئے اور وہاں آپ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ بھی موجود تھیں۔ رسول اللہ نے ارادہ فرمایا کہ آپ اوپر ایک پتھر پر تشریف لے جائیں لیکن کیونکہ آپ کے جسم پر دو زرہیں تھیں اس لیے آپ اوپر نہ چڑھ سکے۔ حضرت طلحہ نے جب یہ ماجرہ دیکھا تو آپ نیچے بیٹھ گئے اور اپنی پیٹھ آگے کردی۔ آپ ان کی پیٹھ پر قدم رکھ کر اوپر چڑھے اور فرمایا کہ طلحہ ( )نے اپنے لیے جنت واجب کردی ہے۔ 63 جب آپ اوپر تشریف لے گئے تو زخموں سے خون نکلنے کی وجہ سے آپ کے رخسار مبارک خون آلود تھے۔ حضرت فاطمہ نے زخم سے خون صاف کیا لیکن وہ رکا نہیں تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور اس کی راکھ اس زخم پر رکھی جس سےخون رک گیا۔ حضرت علی پانی لائے اور آپ کا چہرہ انور اس سے صاف کیا۔64 پھر رسول اللہ میدان سے پہاڑ پر تشریف لے گئے اور زخموں کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی اور تمام صحابہ کرام نے بھی بیٹھ کر آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ اس دوران کفار اس زعم میں خوشیاں منارہے تھے کہ رسول اللہ اور دیگر بڑے صحابہ کرام شہید ہوچکے ہیں۔ 65

مُثلہ

کفار کی عورتیں جاتے ہوئے مسلمان شہداء کے اجسام کو مُثلہ کرنے لگیں اور ان کےاعضاء کاٹ کر انہیں دھاگوں میں پرونے لگیں۔ ہندہ نے حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کیا اور ان کا جگر نکال کر چبانے کی کوشش کی لیکن نہ چبا سکی۔ اس کے بعد ابوسفیان ایک اونچی جگہ کھڑا ہوا اور مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ وہ اپنی میتوں میں کچھ لوگ ایسے پائیں گے جن کا مثلہ کیا گیا ہوگا لیکن اس نے نہ تو اس کا حکم دیا اورنہ اس سے منع کیا۔ نہ وہ اس پر راضی ہے نہ ہی اس پر نادم۔ 66اس کے بعد اس نے زور زور سے نبی ، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو باری باری پکارا لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کو جواب نہیں دیا کیونکہ نبی نےانہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا تھا۔ جواب نہ ملنے پر وہ سمجھا کہ شاید یہ تینوں نفوس ِقدسیہ شہید ہوگئے اس لئے کہنے لگا کہ یہ تینوں تو مارے گئے۔ حضرت عمر یہ سن کر خاموش نہ رہ پائے اور ابو سفیان سے کہنے لگے کہ اللہ کے دشمن تو جھوٹ بولتا ہے،جن کے نام تو نے لیے ہیں وہ سب زندہ ہیں۔ یہ سن کر وہ کہنے لگا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہوا ،اور لڑائی تو ایک ڈول ہے یعنی کبھی ایک فریق کے لیے جھکے گی کبھی دوسرے کے لیے۔ پھر اس نے اپنےبتوں کا نعرہ لگایا کہ ہبل زندہ باد جبکہ مسلمانوں نے رسول اللہ کے کہنے پر نعرہ لگایا کہ اللہ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں۔67 پھر رسول اللہ نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ مسلمانوں اور کفار کی جنگ برابری کی نہیں ہوئی کیونکہ مسلمانوں کے مقتول جنت میں جائیں گے جب کہ کفار کہ جہنم میں۔ اس کے بعد ابو سفیان واپس جاتے ہوئے مسلمانوں کو دھمکی دی کہ اگلے سال بدر میں دوبارہ مقابلہ ہوگا۔

لشکرقریش کی واپسی

ابو سفیان اپنے لشکر کے پاس گیا اور واپسی کی تیاریاں کرنے لگا۔ رسول اللہ نے حضرت علی کو کفار کے لشکر کی خبر لینے کے لئے بھیجا اور ان کو متنبہ کیا کہ اگر قریش اونٹوں پر سوار ہورہے ہیں اور گھوڑے خالی لے کر جارہے ہیں تو ان کا مکہ کا ارادہ ہے اور اگر گھوڑوں پر سوار ہورہے ہیں اور اونٹ خالی ہیں تو ان کا مدینہ کا ارادہ ہے۔ حضرت علی نے جب دیکھا کہ وہ اونٹوں پر سوار ہورہے ہیں اور گھوڑے خالی ہیں تو رسول اللہ کواس بات سے آگاہ فرمایا جس سے آپ خوش ہوئے اور مسلمانوں میں اطمینان کی فضا پیدا ہوئی۔ اس کے بعد آپ میدان میں دوبارہ تشریف فرما ہوئے تاکہ شہداء کو دیکھ سکیں اور ان کی تدفین کا بندوبست کر سکیں۔ 68

مسلمان شہداء

غزوہ اُحد میں 70 مسلمان شہید ہوئے۔69 جب آپ حضرت حمزہ کی میت پر تشریف لے گئے اور آپ کے جسم مبارک کو مثلہ کیا ہوا دیکھا تو بہت غمگین ہوئے۔ آپ کے قلب مبارک میں انتقام لینے کا ارادہ پیدا ہوا تو اللہ نے قرآن کی ان آیات کا نزول فرمایا:

  وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ 126 70
  اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔

اس آیت پر آپ نے صبر کیا اور ان کو معاف کیا اور صحابہ کرام کو مثلہ کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت حمزہ کی بہن حضرت صفیہ کو ان کے بیٹے نے منع کیا کہ وہ بھائی کی اس حالت کو نہ دیکھیں لیکن انہوں نے صبر کا وعدہ کیا اوربھائی کو دیکھ کر ان کی مغفرت کی دعا کی۔ پھر آپ نے اسی مقام پر شہداء کی تدفین کا حکم دیا۔ 71

شہداء اُحد کی تدفین اور مدینہ واپسی

آپ نے شہدا کا جنازہ ان کے اسی لباس میں پڑھا جس میں وہ شہید ہوئے تھے اور بشارت دی کہ قیامت کے دن وہ اپنے خون اور زخموں کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ حضرت حمزہ کی میت پر تقریبا 70 بار جنازہ پڑھا گیا جس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام شہداء کے اجسام کو اٹھا اٹھا کر لاتے اور حضرت حمزہ کے جنازے کے ساتھ رکھتے جاتے جس کی وجہ سے جب اس شہید کا جنازہ پڑھا جاتا تو ساتھ حضرت حمزہ کا جنازہ بھی ادا ہوتا۔ 72تمام شہداء کو نبی کریم کے حکم کے مطابق ان کی شہادت کی جگہ پر ہی دفن کیا گیا۔ تدفین کے وقت قبروں کو کشادہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ ایک قبر میں دو یا تین لوگوں کو ایک ساتھ دفن کیا جاسکے۔ جوصحابہ کرام قرآن کریم کا زیادہ حصہ کے حافظ تھے ان کو قبور میں مقدم کیا گیا۔ 73 تدفین کے بعد آپ مدینہ تشریف لائے اورشہداء کی پسماندگان خواتین کو تسلی دی، رونے والی عورتوں کو منع فرمایا اور حضرت فاطمہ کو تلواریں دھونے کا حکم دیا۔74

منافقین آپ کی واپسی پر غمگین ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ محمد () کوئی نبی نہیں یہ تو بادشاہت کے طالب ہیں، اگر نبی ہوتے تو اتنی تکلیف میں مبتلا نہ ہوتے (نعوذ باللہ)۔ حضرت عمر نے جب یہ سنا تو رسول اللہ سے اجازت چاہی کہ ان کی گردنیں اڑادیں مگر رسول اللہ نےاس سے منع فرمادیا۔

نتیجہ

غزوہ اُحد میں اول مرحلہ میں مسلمانوں کو مکمل فتح حاصل رہی اور مسلمان مجاہدین کے مردانہ وار حملوں نے لشکر کفار کے قدم اکھیڑ ديے یہاں تک کہ وہ بھاگنے پر مجبور ہوگئے لیکن جس جماعت کو تیر اندازی پر مامور کیا گیا تھا وہ دیگر لشکر کے ساتھ مل کر مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئی اور اپنا مورچہ خالی چھوڑ دیا۔ لشکر کفار نے وہاں سے مسلمانوں پر حملہ کیا جس کی وجہ سے مسلمان دونوں جانب سے لشکر کفار کے نرغے میں آگئے اور بھاری جانی نقصان اٹھایا۔ اس کے باوجود صحابہ کرام نےعشق و وفا کی ايک بے نظیر داستان رقم کی اور رسول اللہ کو حفاظتی حصار میں لیے رکھا اور آہستہ آہستہ ایک طرف جمع ہوئے اور جنگ بندی تک کئی شہادتوں کے بدلے میں رسول اللہ کی حفاظت کرتے رہے۔ غزوہ اُحد میں کسی ایک لشکر کو بھی واضح فتح نہ ہوئی جس کا اعتراف ابوسفیان نے خود کیا کہ یہ جنگ ایک ڈول ہے جس میں کبھی ایک فریق کا پلڑہ بھاری ہوتا ہے اور کبھی دوسرے کا۔

 


  • 1 ابو العباس احمد بن علی الحسینی المقریزی،امتاع الاسماع بما للنبیﷺ من الاحوال والاموال والحفدۃ والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 1999م، ص: 130
  • 2 ابو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ:دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص:141
  • 3 ابو الفتح محمد بن محمدابنِ سید الناس، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، مطبوعۃ: دارالقلم، بیروت، لبنان، 1993 م، ص: 5
  • 4 ابو زید عمربن شبۃ النمیری البصری، تاریخ المدینۃ لابن شبۃ، ج-1، مطبوعۃ: طبع علی نفقۃ سید حبیب محمود احمد، جدہ، السعودیہ، لیس التاریخ موجوداً، ص: 79
  • 5 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 346-347
  • 6 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 512
  • 7 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م، ص: 170
  • 8 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص: 182
  • 9 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 295
  • 10 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:242
  • 11 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:183
  • 12 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 522
  • 13 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 184
  • 14 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:183
  • 15 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 184
  • 16 ابو عبداللہ،محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص:208
  • 17 أبو عبداﷲ أحمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 2445، ج-4، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:259
  • 18 صفی الرحمن المبارکفوری، الرحیق المختوم، مطبوعۃ: دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص: 266-267
  • 19 امام محمد بن اسحاق المطلبی،السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ:دار الفكر، بيروت، لبنان، 1978م، ص:324
  • 20 أبو عبداﷲ أحمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث: 14787، ج-23، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:100
  • 21 أبو عبد الله محمد بن سعد البصري المعروف بابن سعد، الطبقات الكبرى، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 1990م، ص:29-30
  • 22 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 300
  • 23 ابو عبداللہ،محمد بن عمرالواقدی، المغازی، ج-1، مطبوعۃ: دارالاعلمی، بیروت، لبنان، 1989م، ص: 216
  • 24 القرآن، سورۃ آل عمران 3: 167
  • 25 ، القرآن، سورۃ آل عمران 3: 179
  • 26 القرآن، سورۃ النساء 4: 88
  • 27 أبو عبداﷲ أحمد بن حنبل الشیبانی، مسند أحمد، حدیث:21599 ، ج-35، مطبوعۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان، 2001م، ص:477
  • 28 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة: دارالکتب العلمیة، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 190
  • 29 أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4043 ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:684
  • 30 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:191
  • 31 ابو حاتم محمد بن حبان البستی الدارمی، السيرة النبوية وأخبار الخلفاء، ج-1، مطبوعۃ: الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، 1417ھ، ص:222
  • 32 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:303
  • 33 أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:2847 ، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:471
  • 34 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص:304
  • 35 أبو بكر أحمد بن عمرو العتكي البزار، مسند البزار، حدیث: 979، ج-3، مطبوعة: مكتبة العلوم والحكم، المدينة المنورة، السعودیۃ، 2009 م، ص:193
  • 36 ابو القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی، المعجم الکبیر، حدیث:6508، ج-7، مطبوعۃ: مكتبۃ ابن تیمیۃ، القاھرۃ، مصر، 1994م، ص: 104
  • 37 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م،ص: 216
  • 38 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م،ص:308-307
  • 39 أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4072، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:689
  • 40 ابوالفتح محمد بن محمد الربعی، عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، دار القلم، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 17
  • 41 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-2، المطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 2012م، ص: 410-411
  • 42 ابوالفتح محمد بن محمد الربعی، عیون الاثرفی فنون المغازی والشمائل والسیر، ج-2، دار القلم، بيروت، لبنان، 1993م، ص: 19
  • 43 أبو العباس أحمد بن علي المقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلميۃ، بيروت، لبنان، 1999 م، ص:145-144
  • 44 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009م، ص: 203
  • 45 القرآن، سورۃ آل عمران3: 153
  • 46 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013م، ص:309
  • 47 شیخ حسین بن محمد الدیار بکری، تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيسﷺ، ج-2، مطبوعة:دارالکتب العلمیۃ، بيروت، لبنان، 2009 م، ص: 201
  • 48 ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن قیم الجوزی، سیرۃ خیرالعباد، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:138
  • 49 امام محمد بن یوسف الصالحی الشامی، سبل الہدی والرشادفی سیرۃ خیر العباد، ج-4، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2013 م، ص:198-197
  • 50 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة،ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م، ص: 239
  • 51 ایضاً
  • 52 ابوالفرج علي بن إبراهيم الحلبي،انسان العیون فی سیرۃ الامین المامون، ج-2، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2013 م، ص: 317
  • 53 ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص:378
  • 54 یوسف بن البر النمری، الدرر في اختصار المغازي والسير، مطبوعۃ: دار المعارف، القاهرة، مصر، 1403ھ، ص: 149
  • 55 ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص: 378
  • 56 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص:285-284
  • 57 ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص: 385
  • 58 ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر بن قیم الجوزی، سیرۃ خیرالعباد، مطبوعۃ: المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 2000م، ص:134
  • 59 ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبد البر القرطبي، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج-1، مطبوعۃ: دار الجیل، بیروت، لبنان، 1992م، ص: 108
  • 60 أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي الزرقانی، شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، ج-2، المطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بیروت، لبنان، 2012م، ص:417
  • 61 ایضاً، ص:414
  • 62 حسن بن محمد المشاط المالكي، إنارة الدجى في مغازي خير الورى صلى الله عليه وآله وسلم، مطبوعۃ: دارالمنہاج، جدہ السعودیۃ، 1426ھ، ص: 314
  • 63 أبو عبد اللہ محمد بن أحمد الذہبی، السیرۃ النبویۃمن کتاب تاریخ الاسلام، مطبوعۃ: دارابن حزم، بیروت، لبنان، 2010م، ص:380
  • 64 أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:4075، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص:690
  • 65 ابو محمد علي بن أحمد الاندلسی القرطبی، جوامع السیرۃ، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، لیس التاریخ موجودا، ص: 127
  • 66 ابو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ السھیلی، الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، ج-3، مطبوعۃ: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009 م، ص: 280
  • 67 أبو عبد اﷲ محمد بن إسماعیل البخاری، صحیح البخاری، حدیث:3039، مطبوعۃ: دار السلام للنشر والتوزیع، الریاض، السعودیۃ، 1999م، ص: 502
  • 68 امام محمد بن اسحاق المطلبی، السیرۃ النبویۃ لابن اسحاق، مطبوعۃ: دار الفكر، بيروت، لبنان، 1978م، ص:334
  • 69 الحافظ یوسف بن عبدالبر النمری، الدررفي اختصار المغازي والسير، مطبوعۃ: دارالمعارف، القاہرۃ، المصر، 1403ھ، ص:156
  • 70 القرآن، سورۃ النحل 16 : 126
  • 71 ابو الربیع سلیمان بن موسی الحمیری، الاكتفاء بما تضمنه من مغازي رسول الله، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2000م، ص: 387
  • 72 أبو العباس أحمد بن علي المقريزي، إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، ج-1، مطبوعۃ: دار الكتب العلميۃ، بيروت، لبنان، 1999 م، ص: 173
  • 73 أبو بكر أحمد بن الحسين البيهقي، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشريعة، ج-3، مطبوعة: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، 2008 م، ص: 297
  • 74 ابو محمد عبد الملک بن ھشام المعافري، السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، مطبوعۃ: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، 2009م، ص: 544-545